skip to Main Content

محبت کی آگ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

دینو اپنی جھونپڑی نما دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے دروازے کی جگہ مضبوطی سے بندھا ہوا پردہ کھولا اور پردے کو گول مول کر کے ایک طرف ڈال دیا۔ اپنی سائیکل پر بندھی ہوئی سبزیاں اس نے سائیکل سے اتاریں اور دکان کے تختے پر ڈھیر کر دیں۔ چند لمحوں بعد وہ تمام سبزیاں سلیقے سے جما رہا تھا۔
”سلام چاچا!“ تقریباً دس برس کا ایک بچہ کھڑا ہوا مسکرا رہا تھا۔
”کون بالے؟ صبح صبح کیوں آ گیا میرا دھندا خراب کرنے!“دینو نے برا سامنہ بنا کر کہا۔
”چاچا، آدھا کلو ٹماٹر کی ضرورت ہے۔“
”آدھا کلو؟ میں تو تجھے آدھا ٹماٹر بھی نہ دوں گا۔ تیری پوری برادری سے میری بات چیت نہیں ہے، تجھے نہیں معلوم؟“ دینو نے ٹماٹروں کو ٹوکری میں سجاتے ہوئے کہا۔
”پر چاچا، لڑائی تو تمہاری برادری میں کسی اور سے ہے، میں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔“
”بس بس زیادہ باتیں نہ بنا، چلا ہے مجھے سبق پڑھانے، کہہ جو دیا کہ ٹماٹر کے بغیر سالن پکا لے۔“
”چاچا، آپ لوگ ایک دوسرے سے لڑتے کیوں ہیں؟ لڑنا اچھی بات ہے کیا؟“لڑکا جاتے جاتے کہہ گیا۔ اس نے دینو کا جواب نہیں سنا تھا، جو کہہ رہا تھا:
”کل کا بچہ، ہمیں سکھا رہا ہے، اس کو کیا معلوم، چوہدری نے اس کی پوری برادری سے لین دین بند کرایا ہوا ہے۔“
گاؤں زیادہ بڑا نہ تھا، مگر گاؤں والوں کے دل بھی بڑے نہ تھے! گاؤں میں دو برادریاں آباد تھیں۔ ان کے درمیان جھگڑے ہوتے رہتے۔ کبھی کسی کی فصل میں دوسرے کے مویشی گھس آتے تو لڑائی ہو جاتی،کبھی فصلوں کے لیے پانی کی تقسیم پر تکرار ہو جاتی۔ کبھی بچوں کے درمیان معمولی سی لڑائی بڑھ کر بڑے جھگڑے میں بدل جاتی۔ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں برادریاں ایک دوسرے کے قریب رہنے کے باوجود، ایک دوسرے سے دُور دُور رہتی تھیں۔ ایک برادری کے لوگ دوسری برادری کے گھر نہ جاتے تھے۔ دونوں برادریوں کی شادیاں اور دیگر تقریبات الگ الگ ہوتی تھیں، حتیٰ کہ دونوں برادریوں کے لوگ الگ الگ دکانوں سے سودا خریدتے تھے۔ گاؤں میں مسجدیں بھی دو تھیں۔
ماسٹر فضل کریم گاؤں کے واحد اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کا دل، گاؤں میں ہونے والے جھگڑوں کو دیکھ کر بہت کڑھتا۔ انہوں نے دونوں برادریوں کے بڑوں کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ذاتیں، یہ خاندان، برادریاں، اللہ نے اس لیے پیدا کی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ یہ آپس میں تعارف کا ذریعہ ہیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ لوگ ان پر غرور کریں اور دوسروں کو نیچ سمجھیں مگر ہر بار دونوں برادریوں کے بڑوں نے کہا، ”ماسٹر صاحب ہم آپ کی عزت کرتے ہیں۔ آپ کی باتیں سولہ آنے صحیح ہیں مگر ہمارے باپ دادا کہہ گئے ہیں کہ ہمارے جتنے بندے دوسری برادریوں والوں نے مارے ہیں، ان سب کا بدلہ لینا ہے۔“
ماسٹر فضل کریم ان باتوں کو سنتے اور دکھی دل کے ساتھ واپس چلے آتے۔ انہوں نے سکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی مختلف مواقع پر بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اسلام تو ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں میں اتحاد پیدا کرتا ہے، ان میں محبت کو بڑھاتا ہے، قرآن پاک اور حدیثوں میں مسلمانوں کو بار بار ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں مل جل کر رہیں۔ بچے ان کی بات سن تو لیتے لیکن کبھی کبھی دبی زبان سے کہہ دیتے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمارے بڑے ہماری بات کبھی نہ مانیں گے۔ ماسٹر فضل کریم پھر بھی ناامید نہ ہوتے۔ گاؤں والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا ہونے کی دعائیں کرتے۔
وہ رات بہت سرد تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑ ے جب درختوں کے پتوں سے ٹکراتے تو عجیب سی کھڑ کھڑاہٹ پیدا ہوتی۔ شاید سخت سردی کی وجہ سے گاؤں کے کتے بھی بھونکنے کی بجائے، کہیں کونوں میں دبک گئے تھے۔ دینوسبزی فروش اپنی جھونپڑی میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ قریب ہی اس کی بیوی اور بچے سو رہے تھے۔ اَب پتا نہیں کیوں دینو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ دکان میں موجود سبزیوں کے بارے میں سوچنے لگا، پھر اس کا دھیان مہنگائی کی طرف چلا گیا۔ گاؤں والے اب سبزیاں کم خرید رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا سبب سبزیوں کا مہنگا ہو جانا تھا یا لوگوں نے سبزیوں کی بجائے گوشت کھانا شروع کر دیا تھا۔ پھر اسے یاد آیا، اس کی دکان کے قریب ہی فضلو نے بھی سبزی کی دکان لگالی تھی۔ فضلو کا تعلق دوسری برادری سے تھا۔ پہلے وہ شہر میں جا کر سبزی کا ٹھیلا لگاتا تھا، اب اس نے گاؤں آکر یہی کام شروع کر دیا تھا۔
”ہوں!“ اس نے سوچا،”تو یہ وجہ ہے میری آمدنی کم ہونے کی۔ اس فضلو کا بھی علاج کرنا پڑے گا۔ مگر علاج کیا ہو؟“ وہ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اسے خیال آیا، ”کیوں نہ فضلو کی دکان میں آگ لگا دی جائے۔“ وہ اس منصوبے پر غور کرتا رہا۔ اس کے ضمیر نے اسے ملامت کی۔ اس کی نگاہوں کے سامنے فضلو کے دو چھوٹے بچوں کے چہرے ابھر آئے جو اپنی معصوم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس سے پوچھ رہے ہوں،”چاچا، آپ نے ہمارے بابا کی دکان کیوں جلا دی؟“ لیکن دوسرے ہی لمحے شیطان نے اسے بہکایا۔”فضلو نے آ کر تمہارے حصے کی روزی چھین لی ہے۔ ویسے بھی وہ دوسری برادری کا ہے۔ اس کی دکان کا جل جانا ہی بہتر ہے۔“ اس کے ضمیر اور نفس میں کچھ دیر تک جنگ ہوتی رہی۔ آخر وہ یہ سوچ کر سونے کی کوشش کرنے لگا کہ اس منصوبے کا اچھی طرح جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بے خبر سو ر ہا تھا۔
”شیدے کے ابا، شیدے کے ابا!“
دینو کی بیوی اسے جھنجوڑ رہی تھی۔ دینو بڑ بڑا کر اٹھا، اس کی بیوی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی ہوئی تھیں، دینو کے دونوں بچے بھی شور سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے تھے اور ماں کو پکار کر رو رہے تھے۔
”ہیں! ہوا کیا ہے، شیدے کی ماں!“ دینو نے گھبرا کر پوچھا۔
”آگ لگ گئی ہے، آگ۔“
”کب، کدھر؟“ دینو کی زبان سے یہی دو لفظ نکلے۔

”ادھر ماسی رحمتے کے گھر سے پرے بڑے بڑے شعلے اٹھ رہے ہیں،شور مچا ہوا ہے، جلدی کریں، آگ ادھر ہی پھیل رہی ہے۔ہائے اللہ یہ کیا ہوگیا۔“ دینو کی بیوی رونے لگی۔
”صبر کر، ہمت سے کام لے۔“ دینو اب پوری طرح ہوش و حواس میں آ گیا تھا۔ ”جو ضروری نقدی اور زیور ہے، اٹھا لے، ایک بچے کو تو اٹھا، دوسرے کو میں اٹھاتا ہوں، چل جلدی کر۔“
دینو کی بیوی نے گھر میں موجود روپے پیسے اور اپنا زیور جلدی سے ایک چادر میں باندھ کر چھوٹی سے پوٹلی بنالی۔ دونوں نے اپنے بلکتے بچوں کو اٹھایا اور گھرسے نکل آئے۔ گلی میں شور مچا ہوا تھا۔ لوگ اپنا سامان اٹھا کر اور بچوں کو چمٹا کر بھاگ رہے تھے۔ گلی جہاں ختم ہوتی تھی، اس کے پار اونچے اونچے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہوا بہت تیز تھی اور آگ اسی وجہ سے بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ جھونپڑیوں کے سرکنڈے دھڑ دھڑ جل رہے تھے اور اندر کا سامان بھی آگ کی لپیٹ میں تھا۔
دینو اور اس کی بیوی، بچوں کو اٹھائے، دوڑتے ہوئے باہر میدان میں آ گئے، جہاں ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ سردی غضب کی تھی، جسم کو کاٹنے والی ہوا چل رہی تھی۔ بچوں نے رو رو کر برا حال کر رکھا تھا۔ ہر طرف سے سسکیاں لینے اور ایک دوسرے کو تسلیاں دینے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک نوجوان لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے چیخ کر کہا۔ ”فضلو اور اس کے بچے آگ میں پھنس گئے ہیں۔“
دوسری طرف سے دو نو جوان بھاگتے ہوئے آئے اور ان میں سے ایک ہانپتے ہوئے بولا:
”آگ چوہدری اشرف کے گھر تک پہنچ گئی ہے۔ لوگ مدد کے لیے پہنچیں۔“
بہت سے لوگ چوہدری اشرف کے گھر کی طرف دوڑے لیکن ان سے پہلے دینو، فضلو کی جھونپڑی کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اس کی بیوی اور دوسرے لوگ اسے آواز یں دیتے رہ گئے۔
دینو بجلی کی طرح فضلو کی جھونپڑی تک پہنچا۔ فضلو کی جھونپڑی اور آس پاس کی کئی جھونپڑیوں میں شعلے لپک رہے تھے اور ان کی تپش دور تک محسوس ہو رہی تھی۔ بعض جھونپڑیوں میں مٹی کا تیل رکھا تھا، اس نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔ مختلف اشیاء جلنے کی ناگوار بد بو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ چند لمحوں کے لیے دینو کی سمجھ میں نہ آیا کہ فضلو اور اس کے بچے کہاں ہیں، پھر اسے ذرا دور سے چیخ پکار کی آواز میں سنائی دیں۔ وہ آوازوں کی سمت لپکا۔ جلد ہی اسے چند دوسری جلتی ہوئی جھونپڑیوں کے پار کچھ سائے نظر آئے اور آوازیں بھی صاف سنائی دینے لگیں اس نے فضلو کی آواز صاف پہچان لی۔
فضلو اور اس کی بیوی کی آنکھ جب کھلی تھی تو آگ ان کے دروازے تک پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو اٹھایا اور باہر کی طرف دوڑے۔ جھونپڑیاں چونکہ قریب قریب ہی واقع تھیں اس لیے آگ تیزی سے پھیل رہی تھی۔ رہی سہی کسر تیز ہوا نے پوری کر دی تھی۔ فضلو اور اس کی بیوی نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ تو چاروں طرف سے آگ میں گھر چکے ہیں۔ بے بسی کے عالم میں ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور لبوں پر دعا ئیں جاری ہو گئیں۔
دینو کو اپنا مکروہ منصوبہ یاد آیا۔ اس نے سوچا تھا کہ فضلو کی دکان میں آگ لگا دے گا۔ اسے شدید شرم آئی۔ وہ کتنا خود غرض ہو گیا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ کو یاد کیا۔ سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی، اللہ کی مدد مانگی اور کلمہ پڑھتا ہوا ایک ایسی جگہ سے آگ کے اندر کو د گیا جہاں شعلے ذرا کم تھے، پھر بھی گرم گرم آگ اس کے بازوؤں کو چاٹتی ہوئی گزر گئی۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے بازوں میں خنجر اتار دیے ہوں۔
جلتی ہوئی چیزوں سے بچتا ہوا وہ تیزی سے آگے بڑھا، اسی لمحے ایک جلتا ہوا بانس اس کے پیچھے گرا، اگر اسے ایک لمحے کی دیر ہو جاتی تو یہ بانس اُس پر گرتا۔ جلد ہی وہ فضلو اور اس کی بیوی بچوں تک پہنچ گیا۔
فضلو نے حیرت سے دیدے پھاڑ کر دینو کو دیکھا، جو اس کے بچوں کو اٹھاتے ہوئے کہہ رہا تھا:
”فضلو بھائی، میرے پیچھے پیچھے آ جائیں۔ جلدی کریں، آگ پھیل رہی ہے۔“
فضلو اور اس کی بیوی دینو کے پیچھے پیچھے تیزی سے چلے۔ دینو میں جیسے بجلی بھر گئی تھی۔ جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں آگ کے بھیانک شعلے بھڑک رہے تھے اور جان بچانے کے لیے، ان شعلوں کو پار کرنا ضروری تھا، تو اس نے بچوں کو گود سے اتار دیا۔ اس نے پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آگئی۔
دینو نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ذرا پیچھے ہٹ کر زمین کھودنے لگا۔ فضلو بھی فوراً دینو کا مقصد سمجھ گیا۔ چاقو اس کی جیب میں بھی تھا، وہ بھی ذرا ہٹ کر تیزی سے زمین کھودنے لگا۔ وہ حیران تھا کہ یہ ترکیب اس کی سمجھ میں پہلے کیوں نہ آئی۔ دراصل خطرہ سر پر دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
زمین چونکہ نرم تھی اس لیے ذرا سے دیر میں دینو اور فضلو دونوں نے مل کر اچھی خاصی مقدار میں مٹی جمع کر لی۔ فضلو کی بیوی نے اپنی چادر دی، اس میں مٹی بھر کر دینو اور فضلو نے آگ کے شعلوں پر پھینکنا شروع کر دی۔ مٹی پڑنے سے جیسے ہی شعلے ذرا مدھم ہوئے، دینو نے فضلو کے بچوں کو اٹھا کر دوڑ لگا دی۔ بچوں کو آگ کے پار پہنچا کر وہ تیزی سے پلٹا، فضلو اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ رہا تھا اور وہ خوف سے چیخ رہی تھی۔ ”میرے بچے، میرے بچے۔“
دینو نے بچی ہوئی مٹی جلدی سے آگ پر پھینکی۔ آگ دھیمی ہو گئی۔ تینوں جلدی سے شعلوں کی دیوار پھلانگ کر نکل آئے مگر انہیں ایسا لگا کہ کسی نے انہیں بھٹی میں ڈال کر بھون دیا ہے۔
فضلو کے بچے اپنی ماں کو پکار پکار کر رو رہے تھے۔ فضلو کی بیوی نے جاتے ہی بچوں کو سینے سے لگا کر چومنا شروع کر دیا اور فضلو نے اپنی پگڑی اتار کردینو کے قدموں میں ڈال دی۔
”دینو، تو نے مجھے خرید لیا ہے۔“ وہ کہہ رہا تھا۔ ”میں تیرا احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا۔“
دینو نے فضلو کی پگڑی اٹھا کر اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا:
”اوپر والے کا شکر ادا کر فضلو، جس نے تجھے اور مجھے بچایا، تیری بیوی اور بچوں کو بچایا اور مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا۔ ہم کتنے نالائق ہیں کہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہے۔“
فضلو نے بانہیں پھیلا کر دینو کو اپنے سینے سے لگا لیا، وہ سسکیاں لے رہا تھا، اس کے آنسو بہتے ہوئے دینو کے شانے کو بھگو رہے تھے۔ دینو نے فضلو کو نرمی سے الگ کیا اور بولا:
”چل بچوں اور بھابھی کو ادھر لے چلتے ہیں، رب جانے، باقی گاؤں والوں کا کیا حال ہے۔ کہتے ہیں آگ تو چوہدری اشرف کے گھر تک پہنچ گئی تھی۔“
وہ سب تیزی سے میدان کی طرف چل پڑے۔
گاؤں والے چار گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔ گاؤں کے تمام نوجوانوں نے بڑی ہمت کی۔ وہ نہر سے بالٹیاں بھر بھر کر لا رہے تھے اور جلتے ہوئے مکانوں پر پھینک رہے تھے۔ شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن بتیس سے زیادہ افراد جھلس کر زخمی ہو گئے تھے۔ لوگوں کی جانیں بچانے میں بھی نو جوانوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ جلتے ہوئے مکانوں میں بڑی دلیری سے داخل ہو کر کئی افراد کو نکال لائے۔ ان میں چوہدری اشرف کے دو چھوٹے بیٹے بھی شامل تھے۔
گاؤں کے تقریباً تمام مکانات جل کر راکھ ہو چکے تھے، چوہدری اشرف کے مکان کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ چوہدری رحیم بخش کے مکان کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ان کے بہت سے مویشی بھی جل کر مر گئے تھے۔
گاؤں کے لوگ کئی گھنٹے تک سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے، صبح ہونے تک قریب ترین گاؤں سے لوگ امدادی سامان لے کر پہنچ گئے تھے۔ فجر کا وقت ہوا تو ماسٹر فضل کریم نے اٹھ کر اذان دی۔ لوگ نہر سے وضو کر کے آگئے۔ گاؤں کی دونوں مساجد کے امام صاحبان، موجود تھے۔ بہت سے لوگوں کی سوالیہ نظریں، دونوں کی طرف اٹھ گئیں، کیا یہاں بھی دونوں برادریوں کی الگ الگ نمازیں ہوں گی؟ بہت سے لوگ سوچ رہے تھے لیکن سب نے حیرت سے دیکھا، دونوں امام صاحبان آگے بڑھے، دونوں نے ماسٹر فضل کریم سے درخواست کی کہ وہ نماز فجر کی جماعت کی امامت فرما ئیں۔ ماسٹر فضل کریم پہلے تو انکار کرتے رہے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہو گئے۔ میدان ہی میں صفیں بن گئی تھیں۔ چوہدری، موچی، نانبائی، سبزی فروش، ملک، میاں، سب ایک جگہ صفیں بنائے کھڑے تھے۔ نہ کوئی اعلیٰ تھا، نہ ادنیٰ، سب اپنے اعلیٰ اور برتر رب کے حضور حاضر تھے۔ ماسٹر فضل کریم کی ہدایت پر مردوں کی صفوں کے پیچھے عورتوں نے بھی صف بنالی تھی۔
ماسٹر فضل کریم نے نماز پڑھائی۔ ان کی آواز میں نہ جانے کیسا درد اور سوز تھا اور اتنے بڑے حادثے میں جانیں بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا احساس بھی دلوں میں تھا، چنانچہ نماز کے دوران لوگ ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے۔ ماسٹر فضل کریم نے سلام پھیرتے ہی، تمام نمازیوں کو متوجہ کیا، وہ کہہ رہے تھے:
”دعا سے پہلے قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں، جو میں نے نماز میں تلاوت کی تھی۔ یہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 ہے،جس کا ترجمہ ہے:
”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقہ میں مت پڑو اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا۔ اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے، تا کہ تم ہدایت پاؤ۔“
ماسٹر فضل کریم قرآنی آیت کا ترجمہ بیان کر رہے تھے اور فضا میں سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ ترجمہ بیان کرنے کے بعد انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو لوگ بلند آواز سے رونے لگے۔
ان آنسوؤں نے برسوں کی نفرتوں اور دشمنیو ں کو دھو ڈالا تھا۔ اب سب کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کی آگ بھڑک رہی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top