skip to Main Content

دماغ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

آپ نے کبھی غور کیا؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس قدر مفید اور کام آنے والے اعضا عطا فرمائے ہیں۔ آپ آنکھوں کی مدد سے دیکھتے ہیں، کانوں کی مدد سے سنتے ہیں، زبان کی مدد سے بولتے اور چیزوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں، اسی طرح جسم کا ہر عضو اپنے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عضو ایسا عطا فرمایا ہے جو ہمارے ہر کام میں حصہ لیتا ہے۔ ہم جو بھی کام کریں، اس کے لیے اس عضو کی ضرورت پڑتی ہے۔ بھلا وہ کون سا عضو ہے؟ جی ہاں، آپ درست سمجھے، یہ عضو دماغ ہے۔
دماغ ایک انتہائی پیچیدہ اور حیرت انگیز عضو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار مخلوقات کو بھی دماغ عطا فرمایا ہے، لیکن جیسا اعلیٰ اور بہترین دماغ اللہ نے انسان کو بخشا ہے، ویسا دماغ دنیا کی کسی اور مخلوق کو نہیں دیا۔ دماغ کی صلاحیت کا تعلق دماغ کے وزن سے نہیں ہوتا۔ دنیا میں سب سے بڑا اور وزنی دماغ نیلی وہیل کا ہوتا ہے۔ نیلی وہیل کے دماغ کا وزن چھ کلوگرام ہوتا ہے اور خود نیلی وہیل کا وزن ساٹھ ہزار کلو گرام ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر انسان کے دماغ کا وزن ڈیڑھ کلوگرام سے بھی کم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ڈیڑھ کلو گرام کے عضو میں بے حد حیرت ناک صلاحیتیں رکھ دی ہیں۔ ہم اس دماغ کی مدد سے سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں، کسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور صلاحیت عطا کی ہے، جو دوسرے جانداروں کو نہیں دی گئی اور وہ ہے، بُرے اور بھلے کو پہچاننے کی صلاحیت۔ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام اچھا ہے اور یہ کام بُرا اور ہمیں بڑی حد تک یہ آزادی حاصل ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اچھے کاموں کو اختیار کر سکتے ہیں اور بُرے کاموں سے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں سے انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کے اچھے اور برے اعمال کا حساب آخرت میں لیا جائے گا اور جس کے اچھے عمل زیادہ ہوں گے اسے انعام دیا جائے گا اور جس کے بُرے عمل زیادہ ہوں گے اسے سزا ملے گی۔
ہمارا دماغ بے حد نازک عضو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سخت کھو پڑی میں محفوظ فرما دیا ہے۔ دماغ سے اعصاب کا سلسلہ پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے۔ جب ہم کسی شے کو چھوتے ہیں تو یہی اعصاب دماغ کو اس چیز کی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی چیز چبھ جائے یا چوٹ لگ جائے تو یہی اعصاب دماغ کو خبر دیتے ہیں۔ ہمیں کوئی پھل کھانے کی خواہش ہوتی ہے تو ہمارا دماغ ہاتھوں کو حکم دیتا ہے اور ہم ہاتھوں سے اس پھل کو اٹھا کر چھیلتے یا کاٹتے ہیں اور اس کے ٹکڑے منہ میں رکھ کر چباتے ہوئے اس کے ذائقے سے لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار کام انجام دیتے ہوئے ہمارا دماغ اور ہمارے جسم میں موجود کروڑوں اعصاب اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ ہمارے جسم میں ہونے والے اعصابی عمل کی تفصیل بیان کرنے میں ممکن ہے کئی منٹ لگ جائیں، لیکن ہمارے جسم میں وہ عمل بجلی کی سی تیزی سے مکمل ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام تو ہم اپنے دماغ سے سوچ کر اور فیصلہ کر کے انجام دیتے ہیں اور بہت سے کام ہمارا اعصابی نظام خود کار طریقے سے انجام دیتا رہتا ہے۔ سوچیے تو، اللہ نے ہمیں کتنی بڑی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔
آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارا جسم بے شمار ننھے ننھے خلیوں سے مل کر بنا ہوا ہے۔ یہ خلیے کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ دماغ میں خاص قسم کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انسان کے دماغی خلیوں کی تعداد چند لاکھ یا چند کروڑ نہیں بلکہ ایک کھرب (دس ہزار کروڑ) ہوتی ہے۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک کھرب خلیوں میں سے ہر ایک خلیہ دوسرے دس ہزار خلیوں کے ساتھ رابطے قائم کرتا ہے۔
ہمارے دماغ کے مختلف حصے، ہماری مختلف صلاحیتوں کو برقرار رکھتے ہیں اور ہر حصہ الگ الگ کاموں کا ذمہ دار ہے مثلاً دماغ کا ایک حصہ سونگھنے کو محسوس کرتا ہے۔ ہم جتنے بھی کام انجام دیتے ہیں یا ہمارے جسم کے اندر جتنے بھی عمل خود بخود ہو رہے ہیں ان کا انتظام کرنے کے لیے دماغی خلیوں کے درمیان پیغامات کا تبادلہ جاری رہتا ہے۔ اس سلسلے میں خاص قسم کے کیمیائی مادے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے جسم میں سو قسموں کے کیمیائی مادے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کیمیائی مادہ ہمارے مزاج کی کسی نہ کسی خاص کیفیت میں اپنا کردار کرتا ہے مثلاً خوشی، رنج، غصہ وغیرہ۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دماغ مکمل نہیں ہوتا لیکن وہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ بچہ تین سال کی عمر تک بہت تیز رفتار سے مختلف باتیں سیکھ لیتا ہے۔ تین سال کی عمر تک اس کے پچھتر فی صد دماغ کی نشوونما ہو چکی ہوتی ہے۔ چھ برس کی عمر میں اس کا دماغ پوری طرح بڑھ کر مکمل ہو جاتا ہے۔
دماغی صلاحیت کو ذہنی مشقوں کے ذریعے سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم کوشش کریں تو ہمارا حافظہ تیز ہوسکتا ہے۔ دماغ کی توجہ ایک جانب رکھنے سے کسی خاص موضوع یا مضمون کے بارے میں معلومات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں اور جلد یاد ہوسکتی ہیں۔
دماغ کو اپنی نازک اور پیچیدہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے توانائی کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ ہم غذا کے ذریعے سے جتنی توانائی حاصل کرتے ہیں اس کا بیس سے تیس فی صد حصہ، دماغ طلب کر لیتا ہے۔ دماغ کے درست طور پر کام کرنے کے لیے آکسیجن بھی ضروری ہے۔ ہم جب سانس لیتے ہیں تو ہوا میں موجود آکسیجن ہمارے خون میں شامل ہو جاتی ہے اور یہ خون سارے جسم میں پہنچ کر مختلف اعضا کو آکسیجن اور غذائیت فراہم کرتا ہے۔ دماغ کے صحت مند رہنے کے لیے اسے آکسیجن کی فراہمی مسلسل جاری رہنی چاہیے، ورنہ دماغ کی کارکردگی متاثر ہو جائے گی۔ دماغی صحت کے لیے جسم میں پانی کی موجودگی بھی ضروری ہے۔
دماغی صلاحیت کو عمدہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی صحت اچھی رہے۔ غذا سادہ اور توانائی بخش ہونی چاہیے۔ کرب، فکر، حسد، حرص، غم و غصہ جیسے جذبات سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح گناہوں سے بھی ہمیشہ دور رہنا چاہیے۔ گناہ انسان اسی وقت کرتا ہے جب اسے گناہ کا خیال آتا ہے اور پھر وہ گناہ کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے بعد اس ارادے پر عمل کر دیتا ہے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو، جیسی اس سے حیا کرنی چاہیے۔“صحابہ کرام نے عرض کیا:”الحمداللہ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ نہیں، بلکہ اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں، ان سب کی حفاظت کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہوا ہے، ان سب کی نگرانی کرو۔ موت اور موت کے بعد قبر میں جو حالت ہوتی ہے اس کو یاد کرو اور جو شخص آخرت کو اپنا مقصد بنائے وہ دنیا کی آرائش اور عشرت کو چھوڑ دے گا اور آنے والی زندگی کی کامیابی کو پسند کرے گا۔ جس نے یہ سب کیا، اللہ سے حیا کرنے کا حق اس نے ادا کیا۔“ (جامع ترندی)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوں کا ہمیشہ شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ان نعمتوں کو جائز طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق بخشے۔ ہم اپنے دماغ سے جو بات بھی سوچیں، جس کام کے کرنے کا ارادہ کریں اور جو کام بھی کریں، وہ اللہ تعالیٰ کو پسند آئے اور وہ ہم سے ہمیشہ راضی رہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top