skip to Main Content

قرآن مجید کی پیشگوئیاں

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ریڈیو سے خبریں نشر ہو رہی تھیں۔
احمد اور احسن کے ابو خبریں سن رہے تھے۔ احمد اور احسن بیٹھے اسکول سے ملنے والا کام کر رہے تھے۔ خبروں کے آخر میں خبریں پڑھنے والے شخص نے کہا: ’’اور اب موسم کا حال سنیے۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران میں ملک بھر میں بارش کا امکان ہے جس سے گرمی کی شدت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ خبریں ختم ہوئیں۔‘‘
احمد اور احسن کے ابو نے ریڈیو بند کر دیا۔
’’ابو، یہ محکمہ موسمیات والے لے پہلے سے کس طرح بتا دیتے ہیں کہ بارش ہونے والی ہے یا موسم خشک رہے گا۔‘‘ احمد نے پوچھا۔
’’بیٹے، یہ انسان کو اللہ کا بخشا ہوا علم ہے۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس جدید آلات ہیں جن کی مدد سے وہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اگلے دن ملک کے کس حصے میں کیسا موسم ہونے کا امکان ہے، لیکن یہ سب اندازے ہیں، اللہ چاہے تو ہوا کے دباؤ، ہوا کی رفتار میں ایسی تبدیلی فرمادے کہ موسم بالکل تبدیل ہو جائے گا اور محکمہ موسمیات کی پیشگوئی غلط ثابت ہو۔‘‘ ابو یہ کہ کر مسکرائے اور بولے:
’’ البتہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو پیش گوئیاں فرمائی ہیں، وہ حرف بحرف درست ثابت ہوئیں۔‘‘
’’ابو، ہمیں ان پیش گوئیوں کے بارے میں بتائیے۔‘‘ احسن نے کہا۔
’’ا بھی نہیں، آپ لوگ اسکول کا کام مکمل کر لیں۔ ان شاء اللہ عشاء کی نماز کے بعد بتائیں گے۔ ‘‘ابو نے یہ کہتے ہوئے اخبار اٹھا لیا۔ احمد اور احسن کو اب رات ہو جانے کا انتظار تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد دونوں بھائی ابو جان کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ ابو کمرے میں داخل ہوئے تو مسکراپڑے اور بولے:
’’ما شاء اللہ، آپ دونوں پہلے سے یہاں موجود ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کو قرآن مجید سے اتنی محبت ہے۔ آئیے میں آپ کو قرآن مجید کی چند پیش گوئیوں کے بارے میں بتاؤں۔ آپ دونوں نے سورہ والضحیٰ تو پڑھی ہو گی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ دونوں بھائیوں نے جواب دیا۔
’’ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک پیش گوئی فرمائی ہے۔ یہ سورۃ پیارے نبی کو نبوت عطا ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد نازل ہوئی تھی۔ جب آپ پر پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تو اس کے بعد کئی دنوں تک دوسری وحی نازل نہیں ہوئی۔ اس سے آپ سخت پریشان ہوئے اور مشرکین کہنے لگے کہ محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے،لیکن پھر سورہ والضحیٰ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکوتسلی دی کہ تمھارے رب نے تم کو ہر گز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ پھر اللہ نے پیش گوئی فرمائی:
’’اور یقیناتمھارے لیے بعد کا دور پہلے کے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔‘‘
یہ خوش خبری اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ایسے حالات میں دی تھی جب آپﷺ کا ساتھ دینے والوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور ہر طرف سے آپﷺ کی مخالفت کے طوفان اٹھ رہے تھے۔ ایسے عالم میں اللہ نے تسلی دی کہ بعد کا دور آپ کے لیے پہلے دور سے بہتر ہو گا۔ یہ وعدہ صرف دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ آخرت میں آپﷺکو اس سے بھی بڑھ کر مرتبہ ملے گا۔‘‘
’’ابو جان، اللہ نے آپﷺ کو فتح مکہ کی خوشی عطا فرمائی۔‘‘ احمد نے کہا۔
’’ ہاں، جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی، اس وقت دور دور تک کوئی امکان نظر نہ آتا تھا کہ اسلام کو اتنی طاقت مل جائے گی لیکن اللہ نے آپﷺ کی زندگی ہی میں دکھا دیا کہ جنوبی عرب کے ساحلی علاقے سے لے کر شمال میں سلطنت روم تک اور مشرق میں خلیج فارس سے لے کر مغرب میں بحیرہ احمر تک کے پورے علاقہ پر آپ ﷺکی حکمرانی قائم ہو گئی۔ پھر آپ کے صحابہ نے کچھ ہی عرصے میں اسلامی ریاست کو اتنی وسعت دی کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ آپ ﷺنے فرمایا: میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری اُمت کو حاصل ہونے والی تھیں۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آخرت تمھارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہے۔‘‘ 
’’ابو جان، واقعی قرآن مجید میں کوئی شک نہیں، یہ بالکل سچی کتاب ہے۔‘‘احسن نے کہا۔
’’ابو جان آپ نے کتنی اچھی طرح یہ سمجھا دیا ہے۔ یہ سورۃ مجھے پہلے سے یاد ہے لیکن اس میں موجود قرآن مجید کی پیش گوئیوں پر میں نے غور کبھی نہ کیا تھا۔‘‘ احسن نے کہا۔
’’بیٹے، آپ کو قرآن مجید، ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ بھی پڑھنا چاہیے۔ اب میں آپ کو ایک اور قرآنی پیش گوئی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ سورۃ القمر میں ماضی کی مختلف قوموں کا ذکر کیا گیا کہ وہ بڑی طاقت والے تھے لیکن اللہ کے عذاب نے ان کو جکڑ لیا، پھر قریش سے دریافت کیا گیا کہ تمھارے یہ کفار کیا ان لوگوں سے بہتر ہیں؟ یا آسمانی کتابوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے یا ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں اپنا بچاؤ کر لیں گے۔‘‘
اس کے بعد اللہ نے پیش گوئی فرمائی:
سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرْ۔)القمر: 45)
ترجمہ: عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظرآئیں گے۔
یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں کو کفار نے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں قید کر رکھا تھا اور مسلمان سخت تکلیفوں اور فاقوں سے بے حال تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو میں حیران تھا کہ آخر یہ کون سی جمعیت ہے جو شکست کھائے گی، لیکن جب غزوہ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ زرہ پہنے ہوئے آگے کی طرف جھپٹ رہے ہیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ہیں:
سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرْ۔)القمر: 45)
تب میری سمجھ میں آیا کہ یہ تھی وہ شکست جس کی خبر دی گئی تھی۔ (ابن جریر)
قرآن مجید کی یہ آیات غزوہ بدر سے سات برس قبل نازل ہوئی تھیں۔اس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ کفار اپنے سے ایک تہائی مسلمانوں کی فوج سے اس طرح بزدلوں کی طرح شکست کھائیں گے۔‘‘
’’ابو جان! بہت شکریہ، جزاک اللہ، آپ نے بہت اہم باتیں بتائیں۔ ‘‘احمدنے کہا۔
’’بیٹے، ایک اور اہم بات ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ان پیش گوئیوں کا ذکر قرآن مجید میں کیوں شامل فرمایا؟ ‘‘
’’تا کہ ہم ان کو پڑھ کر اللہ کی قدرت کا احساس کریں۔‘‘ احسن نے سوچ کر کہا۔
’’شاباش، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی تحریک اللہ کے نام کو بلند کرنے، اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے اٹھے گی اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کرے گی، تو ممکن ہے اسے بھی ابتدا میں ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے، جیسے پیارے نبی اور آپ کے صحابہ کو پیش آئے لیکن اگر اس تحریک میں شامل افراد ایمان و خلوص کے ساتھ جدوجہد کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ بہت جلد اللہ کا نام لینے والوں کو کامیابی نصیب ہوگی۔‘‘ 
’’ابو جان! یہ بات بہت ہی اہم ہے، اس طرف ہمارا دھیان نہ گیا تھا۔‘‘احمد نے کہا۔
’’اب جائیے، رات زیادہ ہوگئی ہے۔ صبح فجر میں اٹھنا بھی ہے۔‘‘ 
ابو جان نے کہا اور دونوں بچے سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گئے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top