skip to Main Content

جنت کا مشروب

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”انور بیٹے، ناشتا کر لیجیے، جلدی کریں ورنہ آپ اسکول وقت پر نہیں پہنچ سکیں گے۔“ امی نے پیالی میں دودھ ڈال کر اس میں شہد ملاتے ہوئے کہا۔
انور تیار ہو کر اپنا بستہ لیے آیا اور ناشتے کے لیے بیٹھ گیا۔ ناشتے پر نظر ڈالتے ہی اُس نے شکایتی لہجے میں کہا:
”امی، پھر دودھ! اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔“
چچا جان جو بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، مسکرا کر بولے: ”بیٹے، یہ تم سے کس نے کہ دیا کہ دودھ صرف بچوں کی غذا ہے؟“ انور ذرا شرمندہ ہو کر بولا:
”چچا جان، دودھ تو آج کل صرف بچے پیتے ہیں۔“
”یہی تو غلط فہمی ہے۔ دنیا بھر میں بڑی عمر کے بے شمار افراد دودھ پیتے ہیں، دراصل بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اُسے صرف دودھ دیا جاتا ہے، اس سے شاید یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ دودھ صرف بچوں کی غذا ہے، حالانکہ دودھ تو ہر عمر کے افراد کے لیے مکمل غذا ہے۔“
”بھائی صاحب، میں تو اسے بہت سمجھاتی ہوں لیکن یہ سمجھتا ہی نہیں۔“
انور نے ناشتے کی پلیٹ سامنے رکھتے ہوئے چچا جان کو دعوت دی:
”آئیے چچا جان، ناشتا کر لیجیے۔“
”بیٹے آپ بسم اللہ کیجیے، میں ذرا یہ اخباری ناشتا کرلوں، پھر حراری ناشتہ کروں گا۔“
”حراری ناشتا؟“ انور نے حیرت سے کہا۔
”ہاں، ابھی تم اسکول جاؤ، دیر ہو جائے گی۔ نماز مغرب کے بعد میں تمہیں دودھ اور حراری ناشتے کے متعلق بتاؤں گا۔“
”بہت اچھا، چچا جان۔“ انور نے ناشتا ختم کیا، دودھ بھی پی لیا، پھر بستہ اٹھا کر گھر سے باہر نکلتے ہوئے بولا:
”امی، لیجیے، میں نے دودھ بھی پی لیا ہے۔ میں جا رہا ہوں، اللہ حافظ،السلام علیکم!“
”اللہ حافظ، وعلیکم السلام!“ امی نے جواب میں کہا۔

٭……٭……٭

مغرب کی نماز کے بعد سب لوگ اطمینان سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو انور نے چچا جان کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی نگاہوں کا مطلب سمجھ گئے اور بولے:”آؤ ذرابرآمدے میں بیٹھتے ہیں۔“
انور اور چچا جان صحن میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ رات کی رانی کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ چچا جان نے کہنا شروع کیا:
”بیٹے، دودھ وہ غذا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ نے اپنی نعمت کے طور پر فرمایا، دنیا میں اچھے اعمال کرنے والوں کے لیے جنت کا ذکر فرمایا تو بتایا کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی اور خود ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا اور پسند فرمایا۔“
”چچا جان، دودھ کا ذکر قرآن مجید کی کس سورۃ میں ہے؟“ انور نے سوال کیا۔
”یہ سورۃ النحل میں ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بے مثل قدرت کا ذکرفرمایا گیا، تم ترجمہ والا قرآن مجید لے کر آؤ، میں تمہیں سناتا ہوں۔“ انور ترجمے والا قرآن مجید لے آیا تو چچا جان نے اُسے کھول کر پڑھناشروع کیا:
”اور ان جانوروں میں تمہارے لیے عبرت ہے۔ اُن کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے، اُس کے درمیان میں خالص اور پینے والے کے لیے خوشگوار دودھ ہم تم کوپلاتے ہیں۔“ (انحل:26)
اس کے علاوہ سورۃ محمد کی آیت پندرہ میں فرمایا:
”اس (جنت) میں بہت سی نہریں ایسے پانی کی ہوں گی جن میں ذرا تبدیلی نہ ہو گی اور بہت سی نہریں ایسے دودھ کی ہوں گی جن کا ذائقہ ذرا بھی نہ بدلے گا۔“
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث جامع ترمذی میں روایت ہوئی ہے، آپ نے فرمایا: ’جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو کہے کہ اے اللہ اس میں برکت دے اور اس سے بہتر کھانا ہمیں کھلا اور جب دودھ پیے تو کہے کہ اے اللہ اس میں برکت عطا فرما اور اس میں کثرت عطا فرما، اس لیے کہ دودھ کے سواکوئی چیز کھانے اور پینے دونوں کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔“
”چچا جان، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دودھ مکمل غذا ہے۔“ انور نے کہا۔
”یقیناہمارے جسم کو صحت مند رہنے کے لیے مختلف غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً عضلات (مسلز) کے لیے لحمیات (پروٹین) درکار ہوں گے۔ ہڈیوں کے لیے کیلشیم، جسمانی توانائی کے لیے نشاستہ اور چکنائی، امراض سے حفاظت کے لیے حیاتین (وٹامن) اور خون کی روانی کے لیے پانی اور نمکیات کی ضرورت ہوگی۔ تم غور کرو تو فوراً تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ اللہ تعالیٰ نے دودھ میں یہ سب چیزیں جمع کر دی ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ انسان کو جس مقدار میں کیلشیم اور فاسفورس کی ضرورت ہے، وہ اسے صرف دودھ سے مل سکتی ہے۔ جانور تو یہ مقدار، ہڈیاں چپا کر یا سبز چارہ کھا کے حاصل کر لیتے ہیں۔“
”چچا جان، آپ کہ رہے تھے کہ آپ حراری ناشتے کے بارے میں بتائیں گے۔“ انور نے یاد دلایا۔
”حراری ناشتا!“ چچا جان مسکرا پڑے اور بولے:”دراصل ہم جو غذا کھاتے ہیں، وہ جسم میں پہنچ کر توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے، اس توانائی کو ناپنے کا ایک پیمانہ بنایا گیا ہے، جسے حرارہ یا کیلوری کہتے ہیں۔ اس لیے میں نے حراری ناشتا کہا تھا، یعنی حراروں سے بھر پور ناشتا۔“
”چچا جان، کیا سارے جانوروں کا دودھ ایک جیسا ہوتا ہے؟“ انورنے پوچھا۔
”نہیں، ان میں فرق ہوتا ہے، اس طرح ان کے فوائد بھی الگ الگ ہیں، مثلاً بھینس اور گائے کا دودھ تقریباً یکساں ہوتا ہے لیکن بھینس کے دودھ میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے، اس لیے یہ گاڑھا ہوتا ہے مگر جن لوگوں کا ہاضمہ کمزور ہے، وہ اسے ہضم نہیں کر پاتے کیونکہ یہ دیر سے ہضم ہوتا ہے۔ کمزور ہاضمے والوں کے لیے گائے یا بکری کا دودھ مناسب ہے۔“
”چچا جان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کون سا دودھ استعمال کیا جاتا تھا؟“
اس زمانے میں تو اونٹ یا بکریاں ہی پالی جاتی تھیں، بھیڑیں بھی تھیں۔ زیادہ تر اونٹنی یا بکری کا دودھ استعمال ہوتا تھا۔ اونٹنی اور بکری کا دودھ کئی امراض میں فائدہ مند ہے۔“
”دودھ پینے سے کیا فائدے ہوتے ہیں؟“
”بہت سے فائدے ہیں۔ دودھ، دوسری غذاؤں کے مقابلے میں جلد ہضم ہو جاتا ہے کیونکہ معدہ کو اسے پیسنے اور باریک کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دودھ میں کیلشیم کی مقدار خاصی ہوتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کی نشو و نما کے لیے بہت مفید ہے۔ پھر یہ کہ غذا کے ہضم ہونے سے جو بعض تیزاب بنتے ہیں وہ دودھ پینے کی وجہ سے جسم کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ معدے میں زخم یا خراش ہو تو دودھ پینا بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ دودھ کمزوری کو دور کرتا ہے۔ بعض ماہرین طب کا تو کہنا ہے کہ ایک کلوگرام دودھ، ایک کلوگرام گوشت کے برابر فائدہ مند ہے۔“
”چچا جان، اب تو میں دودھ کے فائدوں کا قائل ہو گیا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ابھی ایک گلاس گرما گرم دودھ پی لوں۔!“ انور نے جوش سے کہا۔
”بہت زیادہ گرم نہ ہو۔ رات سونے سے پہلے گرم دودھ پی لینے سے نیند اچھی آتی ہے، کیونکہ خون کا بہاؤ دماغ کی طرف سے کم ہو کر معدے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔“
”بہت اچھا۔ چچا جان آپ کا بہت بہت شکریہ اور آپ کے لیے دعا ئیں کہ آپ نے اتنی اچھی باتیں بتا ئیں۔“
”تمہارا بھی شکریہ بیٹے، اللہ تمہیں بہت اچھی صحت عطا فرمائے اور بہت اعلیٰ سیرت وکردار سے نوازے۔ آمین!“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top