skip to Main Content

دوستی کے آداب

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

منیر نے گھر میں داخل ہوتے ہی بستہ چارپائی پر پٹخ دیا۔ جوتے اتار کر چارپائی کے نیچے اچھال دیے۔ موزے اتار کر ایک کونے میں ڈال دیے اور یونی فارم تبدیل کیے بغیر چارپائی پر لیٹ گیا۔
”منیر! بیٹے، منہ ہاتھ دھو کر آ جائیے، کھانا تیار ہے۔“ منیر کی امی کی آواز آئی۔ منیر نے کوئی جواب نہیں دیا تو امی خود ہی کمرے میں داخل ہوئیں:
”ارے! منیر بیٹے کیا ہوا، طبیعت تو ٹھیک ہے؟“
”بس ٹھیک ہے!“ منیر نے منہ پھلا کر جواب دیا۔
”میں نے آپ کی طبیعت پوچھی ہے، بس کی نہیں!“ امی نے مسکراکر کہا۔
”امی، میں اب کسی اور اسکول میں پڑھوں گا۔“ منیر نے بتایا۔
”آخر ہوا کیا ہے؟“ امی نے پوچھا۔
”امی! میری کلاس کے کئی لڑکے بہت بدتمیز ہو گئے ہیں، پنسل، ربر،اسکیل مانگ کر واپس ہی نہیں دیتے، مانگو تو لڑنے لگتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں۔ کچھ لڑکے تو میرے بستے سے چیزیں چپکے سے نکال لیتے ہیں۔“
”یہ تو بہت بُری بات ہے، کیا آپ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟“
”جو میرے ساتھ جس طرح کرتا ہے، میں بھی اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتا ہوں۔“
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بھی دوسرے بچوں کی چیزیں لے کر واپس نہیں کرتے، اُن کو گالیاں دیتے ہیں، اُن سے لڑتے ہیں؟“ امی نے حیرانی اور افسوس کے ساتھ پوچھا۔ منیر نے کوئی جواب دیے بغیر سر جھکا لیا۔ امی لمبی سانس لے کر بولیں:
”بیٹے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اللہ کی نظر میں قیامت کے دن بدترین آدمی وہ ہو گا، جس کی بدزبانی اور بے حیائی کی باتوں کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔“
منیر کا سر کچھ اور جھک گیا۔ امی اُس کے گال تھپتھپاتی ہوئی بولیں:
”بیٹے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ برائی کو نیکی سے دُور کرو، آپ کو چاہیے کہ دوسروں کی برائیوں کے جواب میں اُن سے نیکی کا سلوک کریں۔ اسکول کا کام کرنے میں ان کی مدد کریں، موقع ملنے پر اُن کو نرمی سے سمجھا ئیں۔ آپ کو معلوم ہے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں اُس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ہو، نرم طبیعت ہو اور نرم عادات کا ہو۔“
”مگرامی، میری کلاس کے کئی بچے بہت شرارتی ہیں۔“
”تو کیا ہوا، شرارت کرنے والے تو ذہین ہوتے ہیں، اگر ان کی رہنمائی کی جائے تو وہ اپنے اچھے ذہن کی وجہ سے اچھے کام بھی خوبی کے ساتھ کریں گے۔ اچھا یہ بتاؤ، کلاس میں تمہاری کسی سے دوستی بھی ہے؟“ امی نے پوچھا۔
”ہاں، کیوں نہیں، اقبال سے ہے، ظہور ہے، اسلم ہے، جاوید ہے، اوربھی ہیں۔“
”تم نے کبھی سوچا، ان لڑکوں سے تم نے دوستی کسی وجہ سے کی ہے؟“
”وجہ؟۔۔۔“ منیر سوچ میں پڑ گیا۔ ”بس یہ اچھے لڑکے ہیں، جاوید نے تو مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا، اسلم بھی اچھا ہے، اس کے ابو دبئی میں ہیں، وہ اچھی والی ٹافیاں اور دوسری چیزیں بھیجتے رہتے ہیں، اسلم مجھے بھی دیتا ہے، اور اقبال تو ہمیشہ میری وجہ سے دوسرے لڑکوں سے لڑتا ہے۔“
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹے، آپ صرف ان لڑکوں سے دوستی کرتے ہیں، جن سے آپ کو فائدے حاصل ہوتے ہیں یعنی دوستی کی بنیاد یہی ہے، اگر آپ صرف اللہ کی خاطر دوستی کرتے تو آپ کو اس کا بہت زیادہ ثواب ملتا اور اللہ تعالیٰ بھی آپ سے بہت خوش ہوتے۔ آپ کو معلوم ہے، اللہ کی خاطر دوستی کرنے والوں کا کیا درجہ ہے؟“
”نہیں تو!“
”سنو، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ اپنی قبروں سے آئیں گے، اُن کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پر بٹھائے جائیں گے، لوگ ان کی شان پر رشک کریں گے، یہ لوگ نہ نبی ہوں گے، نہ شہید، کسی نے سوال کیا، یہ کون لوگ ہوں گے، آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں۔“
”مگرامی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔“ منیر نے الجھ کر کہا۔
”میں سمجھاتی ہوں، آپ نے اپنی دوستیوں کی وجہ یہ بتائی کہ کسی سے آپ کو ٹافیاں ملتی ہیں، کوئی آپ کی وجہ سے دوسروں سے لڑتا ہے، یہی باتیں تھیں نا؟ لیکن اگر دوستی کی نیت صرف یہ ہو کہ ہم اللہ کی خاطر دوست ہیں کیونکہ ہم ایک دین کے ماننے والے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں آپس میں محبت سے رہنے، ایک دوسرے کا خیال کرنے، ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کا حکم دیا ہے، اور ہماری دوستی کی وجہ یہ ہو کہ ہم نیکی کی راہ پر چلنے اور برائیوں سے بچنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس کے لیے کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھلائی کے راستے پر چلانے اور برائی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھر بیٹے یہ دوستی اللہ کی خاطر ہوئی، ورنہ ٹافی کھانے کی خاطر۔۔۔!“
منیر سوچ میں پڑ گیا۔
”در اصل فرق نیت کا ہے ورنہ اللہ کی خاطر دوستی ہوگی تو بھی آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تو دیں گے، اس صورت میں تحفے دینے کا بھی ثواب ہوگا، اچھا ہاں، یہ تو بتاؤ کہ تمہارے دوست تمہیں تحفے دیتے ہیں تو تم جواب میں تحفے دیتے ہو؟“
”نہیں، میں تو نہیں دیتا۔ میں کیا دے سکتا ہوں؟“
”دینا چاہیے، آپؐ نے فرمایا ہے، ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو تو آپس میں محبت ہو گی اور دلوں کی ناراضگی اور دُوری جاتی رہے گی، اور بیٹے یہ ضروری نہیں کہ تحفہ بہت قیمتی ہو، تحفے کی اصل قدر و قیمت تو آپ کے دل کا خلوص اور دوست کے لیے محبت ہے۔ اچھا یہ بتاؤ، آپ اپنے دوستوں کے لیے دعا کرتے ہیں؟“ امی نے سوال کیا۔
”مجھے کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔“ منیر نے شرمندگی سے جواب دیا۔
”تو اب خیال رکھیے، دیکھیے، ساری نعمتیں عطا کرنے والا اور ہر پریشانی سے بچانے والا تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، ہم اُسی سے مانگتے ہیں، آپ جس سے دوستی کرتے ہیں، اُس کا حق ہے کہ آپ اُس کے لیے اچھی دعا ئیں بھی کیا کریں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے اچھی دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ اُس کے قریب مقرر رہتا ہے جو آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی وہی کچھ ہے جو تو اپنے بھائی کے لیے مانگ رہا ہے۔“
”امی، آپ نے آج بہت اچھی باتیں بتائیں، اب میں ان باتوں پر عمل کروں گا اور اسی اسکول میں پڑھوں گا!‘ منیر نے خوشی سے کہا تو امی مسکرا کر بولیں:
”چلو شکر ہے، ورنہ تمہارے بابا کوکسی اور اسکول میں داخلے کی مشکل پیش آتی۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top