skip to Main Content

جنت کا خواب ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

مزمل کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا کہ پتا نہیں دادی جان کیا سزا بتائیں؟

’’کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘ زبیر نے حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے بھلا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت؟‘‘ مزمل نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا…‘‘ زبیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
اُس کے دل میں صہیب کی طرف سے ایک بدگمانی پیدا ہوگئی تھی۔
مزمل تھوڑی دیر زبیر کو دیکھتا رہا پھر کہنے لگا: ’’اب تم کیا کرو گے؟‘‘
’’کچھ نہیں… اُس کی مرضی ہے۔ چاہے وہ دوستی رکھے یا نہ رکھے۔‘‘ زبیر نے بلا جھجھک جواب دیا۔
’’مگر…‘‘ مزمل کہتے کہتے رُک گیا۔
’’ہاں… وہ میرا دوست ہے۔ آج کل اس کے گھر کے مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ اسی لیے میں اس صہیب کو اپنے لنچ میں شریک کرتا ہوں، کتابوں اور کاپیوں میں مدد کرتا ہوں تو کیا اس پر احسان کرتا ہوں؟‘‘ زبیر نے اُلٹا اُس سے سوال کر دیا۔
’’تمھاری مرضی… تم ایک بڑے دل والے انسان ہو۔‘‘ مزمل نے متوقع جواب نہ پایا تو کہنے لگا۔
’’اچھا! میں بڑے دل کا انسان ہوں۔‘‘ زُبیر یہ کہتے ہی ہنسنے لگا تو مزمل بھی ہنسنا شروع ہوگیا۔
ابھی وہ ہنس ہی رہے تھے کہ اتنی میں گھنٹی بجی اور آدھی چھٹی کا وقت ختم ہوگیا۔ سب اپنے اپنے کمرئہ جماعت کی طرف جانے لگے۔
زبیر، مزمل اور صہیب ایک ہی کلاس میں ہونے کی وجہ سے آپس میں گہرے دوست بھی تھے۔
٭…٭
دوسرے دن صہیب اسکول نہیں آیا تو زبیر نے مزمل سے پوچھا: ’’کیا بات ہے۔ آج صہیب نہیں آیا؟‘‘
’’پتا نہیں… چھٹی کے بعد اس کے گھر جاؤں گا۔‘‘ مزمل جو صہیب کی اگلی گلی میں رہتا تھا ،کہنے لگا۔
’’ہاں! اُس کے گھر ضرور جانا۔ پتا نہیں کیا بات ہوگئی۔ ویسے وہ کبھی چھٹی کرتا نہیں ہے۔‘‘ زبیر نے فکرمندی سے کہا۔
’’ہاں… ہاں! میں ضرور جائوں گا۔‘‘ مزمل نے زبیر کی فکر مندی بھانپ کر فوراً جواب دیا۔
٭…٭
شام کو مزمل جب صہیب کے گھر گیا، تو وہ ایک کونے میں خاموش سا بیٹھا تھا۔
’’کیا بات ہے؟ آج تم اسکول کیوں نہیں آئے؟‘‘ مزمل نے صہیب کو ایک کونے میںپاکر اُس سے پوچھا۔
مزمل کی آواز سن کر صہیب نے اس کی کی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔
’’بتائو! کیا بات ہے؟‘‘ مزمل نے صہیب سے دوبارہ پوچھا۔
’’ابو کی نوکری چھوٹنے کی وجہ سے گھر کے حالات بالکل بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ پچھلے ماہ اور اس ماہ کی فیس بھی سر پر ہے۔ ٹیچر کلاس میں جب مجھ سے پوچھتے ہیں، تو مجھے شرم آتی ہے۔‘‘ صہیب نے اسکول نہ آنے کی وجہ بتائی۔
’’اچھا! تو یہ بات ہے۔‘‘ مزمل نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تم زبیر سے پیسے کیوں نہیں مانگ لیتے؟‘‘ مزمل نے صہیب کو مشورہ دیا۔
’’کیا مطلب…؟ اب میں دوستوں سے پیسے مانگوں…؟‘‘ صہیب نے ناگواری سے کہا۔
’’تو کیا ہوا؟ جب وہ تمھیں اپنا لنچ، کاپی، کتابیں دیتا ہے، تو اُس سے پیسے مانگنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ مزمل نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ تم سے کس نے کہا کہ وہ میری مدد کرتا ہے؟‘‘ صہیب نے حیرت سے پوچھا۔
’’لوجی… بھلا کون کہے گا؟ مجھے زبیر نے خود بتایا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا میں ہوں ہی بڑے دل والا…‘‘ مزمل نے صہیب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا اس نے تم سے خود کہا؟‘‘ صہیب نے پوچھا۔
’’تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں…؟‘‘ مزمل نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں…‘‘ صہیب نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
اُسے مزمل کے سامنے بڑی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ سچ تھا کہ زبیر اس کی مدد کر دیا کرتا تھا مگر صہیب نے تو کبھی اُس سے مدد نہیں مانگی تھی۔
اُسے افسوس ہونے لگا۔
’’کیا ہوا چپ کیوں ہو…؟‘‘ مزمل نے کمرے کی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
’’اب میں کیا بولوں…؟ میں تو اُسے بہت اچھا دوست سمجھتا تھا، مگر اُس نے احسان جتا کر مجھے دُکھی کر دیا۔‘‘ صہیب نے آہستہ سے کہا۔
’’تو اس میں دُکھی ہونے والی کون سی بات ہے؟ اُس نے کیا غلط کیا۔ اس نے تمھاری مدد کی ہے۔ اب اگر اس نے کہہ دیا ہے تو تمھیں بُرا کیوں لگ رہا…؟ کل کو اگر تمھیں میری بھی کوئی بات بری لگتی ہے تو کیا تم مجھ سے بھی ناراض ہو جائو گے…؟‘‘ مزمل نے جذباتی ہوکر پوچھا۔
’’نہیں… میں ناراض نہیں ہوں۔‘‘ صہیب نے مزمل کی بات کا جواب دیا۔
’’تو پھر زبیر سے فیس کا کہہ دو۔ اُس کے ابو کے پاس بہت پیسے ہیں۔‘‘ مزمل نے اُسے دوبارہ زبیر سے فیس لینے کا مشورہ دیا۔
’’نہیں… میں اُس کی مدد لینا نہیں چاہتا۔ مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں۔‘‘ صہیب نے قطعی لہجے میں جواب دیا۔
’’اچھا… اب میں چلتا ہوں۔ کل تم اسکول آئو گے ناں…؟‘‘ مزمل نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’کل نہیں پرسوں۔ کل شام تک ان شاء اللہ فیس کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘ صہیب نے فیس کے بندوبست ہونے کی خبر سنائی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی مزمل کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭
’’کیا ہوا… تم صہیب کے گھر گئے تھے…؟‘‘ اگلے دن کلاس میں زبیر نے مزمل سے ملتے ہی پوچھا۔
’’ہاں! گیا تھا۔ صہیب فیس کی وجہ سے اسکول نہیں آیا تھا۔ آج پیسوں کا بندوبست ہو جانے کی صورت میں کل آئے گا۔‘‘ مزمل نے زبیر کو صہیب کے اسکول نہ آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔
’’چھٹی کرنے کی کیا ضرورت تھی… مجھے بتا دیتا۔‘‘ زبیر نے فیس کا سن کر غصے سے کہا۔
’’میں نے اُسے کہا تھا کہ زبیر سے پیسے لے لو۔ آخر وہ تمھیں اپنا لنچ کھلاتا اور کاپی کتابیں بھی لا دیتا ہے۔‘‘ مزمل نے صہیب کو دیا ہوا مشورہ زبیر کو بتاتے ہوئے کہا۔
’’کیا…؟‘‘ زبیر نے حیرت سے پوچھا۔
مزمل نے لاپروائی سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم نے ہی تو بتایا تھا۔ میں نے جھوٹ تو نہیں کہا۔‘‘
’’تمھیں ایسا بالکل نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ زبیر نے ناراضی سے کہا۔
’’کیوں…؟ تم اس کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہو۔ مگر وہ کہتا ہے کہ مجھے کوئی مدد چاہیے نہ احسان…‘‘ مزمل نے زبیر کی ناراضی بھانپ کر جواب دیا۔
’’ٹھیک…‘‘ زبیر نے افسردگی سے کہا کیوں کہ وہ صہیب کو اپنا اچھا دوست سمجھتا تھا اور اُس کی دل سے مدد کرتا تھا، مگر اُسے صہیب سے ایسی باتوں کی اُمید نہیں تھی۔ زبیر کے دل میں صہیب کی طرف سے میل سا پڑگیا تھا۔
٭…٭
دوسرے دن جب صہیب اسکول آیا تو اس کا رویہ اجنبی سا تھا۔ زُبیر نے بھی حال چال نہیں پوچھا اور صرف ہاتھ ملا کر اپنی ڈیسک پر بیٹھ گیا۔
’’تم میری مدد اس لیے کرتے ہو کہ میں تم سے جھک کے ملوں۔‘‘ صہیب نے دل ہی دل میں کہا۔
’’تم میرے بہت اچھے دوست تھے۔ میں تم سے محبت کرتا اور بھائی سمجھ کر مدد کرتا تھا۔ تم نے اس کو احسان سمجھا۔‘‘ زبیر بھی دل ہی دل میں سوچ کر صہیب سے بدظن ہوگیا تھا۔
مزمل نے دونوں کو خاموش دیکھا تو کہنے لگا: ’’کیا بات ہے؟ تم دونوں کیوں منھ پُھلائے بیٹھے ہو؟‘‘
’’میں آفس میں فیس جمع کروا کر آتا ہوں، کہیں پیسے غائب نہ ہو جائیں۔‘‘ صہیب نے ڈیسک سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! ٹھیک ہے۔‘‘ مزمل کے کہتے ہی صہیب فیس جمع کروانے چلا گیا۔
صہیب کے جاتے ہی مزمل نے زبیر سے پوچھا: ’’آج بڑے چپ چپ لگ رہے ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں…‘‘ زبیر نے جواب دیتے ہوئے اپنی سائنس کی کاپی بیگ سے نکال لی۔
٭…٭
مزمل گھر پہنچا تو دادی اماں آئی ہوئی تھیں۔ وہ مزمل کے بڑے تایا کے ساتھ رہتی تھیں اور ہفتے میں ایک دن ضرور ملنے آتی تھیں۔
دادی سے مل کے مزمل بہت خوش ہوا۔ اُنھوں نے اسے بہت ساری چاکلیٹس دیں۔
مزمل کی امی نے دادی کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا ہوا آپ آگئیں۔ میں نے کل رات ہی خواب دیکھا کہ آپ آئی ہوئی ہیں۔ صبح ہوتے ہی ان کے ابو سے کہا بھی کہ امی جان کو لے آئیں۔‘‘
’’ارے پچھلے ہفتے ہی تو آئی تھی میں…‘‘ دادی اماں نے ہنس کر کہا۔
’’امی! آپ نہیں آتیں تو گھر میں کمی سی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ مزمل کی امی نے حسرت سے کہا۔
’’چلو… خواب میں تو آجاتی ہوں ناں۔‘‘ دادی اماں یہ کہتے ہی ایک بار پھر مسکرائیں۔
اچانک مزمل کو یاد آیا کہ وہ بھی تو اکثر خواب دیکھتا ہے۔
ایک بہت خوبصورت مکان اور اُس کے صحن میں طرح طرح کے پھول کِھلے ہوئے ہیں۔ مکان کے اندر آنے والی بھینی بھینی خوشبو۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ بھی اندر جائے کیوں کہ مکان کے اندر بچے بڑی خوشی سے جارہے ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی وہ اندر جانے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو مکان کا چوکی دار اُسے اندر جانے سے روک دیتا اور کہتا کہ ’’چلو بھاگو یہاں سے…! تم ہر گز اندر نہیں جاسکتے… چلو بھاگو…!‘‘ چوکی دار اتنی سختی سے مزمل کو ڈانٹتا ہے کہ ڈر کے مارے اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔
’’کیا سوچ رہا ہے، میرا بیٹا…؟‘‘ دادی اماں نے مزمل کو سوچوں میں غرق دیکھا تو اس سے پوچھنے لگیں۔
’’نہیں… کچھ نہیں دادی اماں۔‘‘ مزمل نے چونک کر کہا۔
’’کچھ تو بات ہے۔ تم کچھ پریشان لگ رہے ہو۔‘‘ دادی اماں نے مزمل کی پیشانی پر سلوٹوں سے اندازہ لگایا۔
’’وہ… وہ…‘‘ مزمل کہتے کہتے رُک سا گیا۔
’’کہو بیٹا… کیا بات ہے؟‘‘ دادی اماں نے پیار سے پوچھا۔
’’امی…! آپ سے خواب کی بات کر رہی تھیں ناں۔ دادی جان! کیا خواب سچے بھی ہوتے ہیں؟‘‘ مزمل نے کسمساتی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں… بعض اوقات خواب سچے بھی ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے پر مہربان ہو اور اُس کی اصلاح چاہے تو اُس کو خواب کے ذریعے بھی آگاہ فرماتے ہیں کہ اپنی اصلاح کرلو۔‘‘ دادی اماں نے خواب کے بارے میں مزمل کو بتایا۔
’’مم… میں بھی روز ایک خواب دیکھتا ہوں۔‘‘ مزمل نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! میرے بیٹے نے کیا خواب دیکھا…؟‘‘ دادی اماں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’وہ… میں نے دیکھا کہ…‘‘ مزمل نے دادی اماں کو اپنا پورا خواب سنا دیا۔
’’اس کا کیا مطلب ہے… دادی اماں؟‘‘ مزمل نے دادی اماں سے خواب کی تعبیر پوچھی۔
دادی اماں نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’کیا تم جھوٹ بولتے ہو؟‘‘
’’نہیں تو دادی اماں…‘‘ مزمل نے فوراً جواب دیا۔
’’اچھا… کیا تم چغل خوری کرتے ہو؟‘‘ دادی اماں مسلسل اسے گھورے جارہی تھیں۔
’’چغل خوری… یہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ مزمل نے معصومانہ انداز میں پوچھا۔
انھوں نے چغل خوری کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ’’چغل خوری کا مطلب ہے، کسی ایک کی بات سن کر دوسرے کو بتانا۔ وہ بھی ایسی بات جسے سن کر ایک دوسرے کے لیے دل میں میل آجائے اور دوستی یا رشتہ داری خراب ہوجائے، یعنی اِدھر کی بات اُدھر اور اُدھر کی بات اِدھر کرنے کو ’چغل خوری‘ کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا…‘‘ مزمل نے زور دیتے ہوئے کہا اور سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اچانک اُسے یاد آیا کہ اُس نے صہیب اور زبیر کو ایک دوسرے کی باتیں بتائی تھیں۔ جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہوگئے تھے۔
’’بیٹا…! کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ دادی اماں نے پوچھا۔
’’کیا چغل خوری کی بھی کوئی سزا ہوتی ہے؟‘‘ مزمل نے جیسے ہی یہ سوال پوچھا تو اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا کہ پتا نہیں دادی اماں کیا سزا بتائیں…؟
’’ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ چغل خور آدمی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔‘‘ دادی اماں نے مزمل کے سامنے ایک حدیث بیان کی۔
’’ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اس کی چغل خوری سے اُس کے مسلمان بھائی کو رنج پہنچے اور وہ جنت میں جانے سے محروم ہوجائے۔‘‘ دادی اماں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا… اب سمجھ آیا کہ میں چغل خور ہوں۔ میں کل اسکول جاتے ہی زبیر اور صہیب سے معافی مانگوں گا۔‘‘ مزمل نے دل ہی دل میں پکا فیصلہ کر لیا اور مسکرانے لگا۔
’’کیا بات ہے کیوں مُسکرا رہے ہو؟‘‘ مزمل کی امی نے کمرے میں آتے ہی اُس سے پوچھا۔
’’بہو! مزمل اپنی جنت پکی کر رہا ہے۔‘‘ دادی جان نے مزمل کی امی سے مسکرا کر کہا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اُنھوں نے تعجب سے پوچھا تو ان کے سوال پر دادی ہنس دیں۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ رات کو مزمل نے خواب میں دیکھا کہ سب بچوں کی طرح وہ بھی اُس مکان میں کھیلنے کو جا رہا ہے ۔
چوکی دار نے اُسے بالکل نہیں روکا بلکہ کہنے لگا: ’’شاباش آجاؤ! ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے۔‘‘
مزمل ہنستے ہوئے مکان میں داخل ہوگیا، جہاں بہت سارے بچے آپس میں کھیل رہے تھے اور طرح طرح کے پھول و باغات کے ساتھ ساتھ ہر طرف میٹھے پھلوں کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھی۔

٭…٭

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top