skip to Main Content

کلو خوب صورت ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

خالہ اپنے گاؤں سے واپس آئیں تو ان کے ساتھ ان کا بھانجا ’بدرا‘ بھی تھا۔
اس وقت ہم سب ناشتا کر رہے تھے۔ چھٹی کا دن تھا۔ ریحانہ آپی نے ’’ ماسی خالہ زندہ باد‘‘ کے نعرے سے ان کا استقبال کیا جس میں رضوانہ نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ کیوں کہ ماسی خالہ کے نہ ہونے سے سارا کام ان دونوں کو ہی کرنا پڑ رہا تھا۔
بدرا ماسی خالہ کے پیچھے چھپا چھپا سا کھڑا تھا۔
’’یہ کون ہے بھئی ؟…ذرا چہرہ تو دکھاؤ۔‘‘ریحانہ آپی نے کہا۔
ماسی خالہ نے اپنے عقب میں چھپے ہوئے بدرا کا ہاتھ پکڑ کے سامنے کردیا۔
’’یا اللہ…!‘‘بے ساختہ رضوانہ کے منہ سے نکلا۔
ہم سبھی بدرا کو دیکھ کر حیرت زدہ ر ہ گئے۔
بدراموٹے موٹے ہاتھ پیروں والا تقریباً کالی رنگت کا لڑکا تھا۔ پھیلی ہوئی ناک، موٹے ہونٹ اور پھولے پھولے سیاہ گال۔
’’یہ…یہ کون ہے؟‘‘رضوانہ نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
’’ میرا بھانجا ہے۔‘‘ خالہ ماسی نے بتایا۔
’’ پہلے اس کا باپ کھیت میں سانپ کاٹنے سے مر گیا، پھر پچھلے مہینے بے چارے کی ماں بھی ہیضے میں مبتلا ہو کر چل بسی۔ وہاں آوارہ پھرر ہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اپنے ساتھ لے چلوں۔ یہاں بچوں میں رہ کر کچھ تمیز سیکھ لے گا۔‘‘
’’اچھا کیا…!‘‘ ابونے مختصر جواب دیا اور اخبار دو بارہ پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
سچ پوچھیے تو ہم میں سے کسی نے بھی بدرا کو پسند نہیں کیا تھا۔ اس کی سیاہ رنگت، بھدے نین نقش اورٹھگناساقد، ہم میں سے کسی کو وہ نہیں بھا یا تھا۔
بڑی آپی رعنا ہم سب میں سب سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ دبلی پتلی نازک سی، تیکھے نین نقوش والی، پھرریحانہ آپی اور رضوانہ، میں یعنی نوید، مجھ سے چھوٹے فرید اور حسیب، ہم سبھی بہت خوبصورت تھے اور عموماًہمیں اپنے جیسے لوگوں کے سوا کچھ اور دیکھنے کی عادت نہیں تھی۔
اس لیے سب کو وہ کچھ زیادہ ہی عجیب سا لگا اور پھراو پر سے اس کا نیکر اور بنیان میں ملبوس ہونا۔
امی نے حسیب کے پرانے کپڑے بدرا کو دیے۔ اس نے لے کر رکھ لیے، پہنے نہیں۔
امی نے پوچھا:
’’بدرا !تم نے کپڑے کیوں نہیں پہنے؟‘‘
بدرا تھوڑی دیر تو چپ رہا پھربولا:’’ مجھے پتلون میں گرمی لگتی ہے کوئی اور نیکر نہیں ہے کیا؟‘‘
اس کے انداز میں کھردرا پن تھا۔
امی کوہنسی آ گئی۔ وہ سمجھ گئیں کہ بدرا کو ان کپڑوں کی عادت نہیں ہے، اس لیے انھوں نے حسیب کی شلوار قمیص اسے دے دی۔ وہ اس نے خوشی سے پہن لی کہ ان میں گرمی نہیں لگتی۔
ایک دن صبح ہی صبح بدرا کے رونے کی آوازسنائی دی۔
معلوم ہوا، اس کی خالہ اسے مار رہی تھیں۔
امی نے پوچھا:
’’اری خالہ! بے چارے کو کیوں پیٹ رہی ہو؟‘‘
’’ باجی! یہ نہاتا نہیں ہے۔ دیکھیں تو سہی کتنا گندا ہورہا ہے، ایک تو اتنا کالا اور پھر ڈھیروں ڈھیر میل…!‘‘ خالہ نے جواب دیا۔
امی نے بدرا سے پوچھا۔
’’ہاں بھئی نہاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘
’’ مجھے پانی اچھا نہیں لگتا۔‘‘اس نے روتے ہوئے کہا اور باہر بھاگ گیا۔
امی نے کہا: ’’بچہ ہے سنبھل جائے گا۔ شاید نئی جگہ کی وجہ سے پریشان ہے۔‘‘
’’اے لوجی، یہ تو ہمیشہ ہی پانی سے ڈرتا ہے۔‘‘ ماسی خالہ نے جھنجھلا کے کہا۔
’’وہ کیوں خالہ؟‘‘ریحانہ آپی نے دلچسپی سے سوال کیا۔
’’یہ چار پانچ سال کا تھا کہ اس کا چھوٹا دو برس کا بھائی ،کھیلتا کھیلتا پانی کے تالاب میں جا گرا۔ تالاب کوئی اتنا گہرا بھی نہیں تھا مگر اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ موت کا تالاب ثابت ہوا۔ تب سے پانی سے اسے ڈر لگتا ہے۔‘‘ماسی خالہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’ ہائے بڑے افسوس کی بات ہے؟‘‘ امی نے کہا۔
اور ہم سب نے پہلی بار یہ سن کر بدرا کے لیے ہمدردی سی محسوس کی۔
میں کالج کا کام کر رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا،کوئی مجھے چھپ کردیکھ رہا ہے۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا تو دور کھڑا بد را بڑے غور سے میری طرف دیکھتا نظر آیا۔
’’یہاں آؤ۔‘‘ میں نے اسے بلا یا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
میں نے رجسٹر بند کیا اور خود اٹھ کے اس کے پاس پہنچا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے نرمی سے پو چھا۔
’’ کچھ نہیں بس تم کو کچھ ر ہا تھا۔‘‘اس نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا۔
’’ کیا چاہیے؟ کوئی پیسے وغیرہ، کوئی چیز کھانی ہے؟‘‘
وہ میری بات سن کر جیسے سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا:’’ تم لوگ کیا کھاتے ہو؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘میں نے اس کا عجیب سا سوال سن کر پو چھا۔
’’تم سب اتنے گورے گورے ہو۔ شہر میں کیا ہوتا ہے جو سب لوگ اتنے گورے چٹے ہوتے ہیں؟‘‘اس نے میرے چہرے پر نظر جماتے ہوئے پوچھا۔
مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔’’یہ قدرت کی دین ہے۔‘‘
’’یہ قدرت کون ہے؟‘‘اس نے معصومیت سے پوچھا۔
مجھے اس کے انداز پر پھر ہنسی آ گئی۔
’’ قدرت مطلب اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جس کوجیسا چاہے، بنادے۔‘‘
’’ تو اس نے مجھے گورا کیوں نہیں بنایا؟‘‘اس نے سوال داغا۔
میں گڑ بڑا کے رہ گیا، بھلا میں اس بات کا کیاجواب دیتا۔
وہ تھوڑی دیر مجھے دیکھتا رہا، پھر مڑ کے چلا گیا۔

۔۔۔

رات کو ہم سب کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تھے۔ بدرا بہت غور اور شوق سے ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا۔
اس دن ریحانہ آپی ایک رسالہ پڑھ رہی تھیں۔ اچانک بدر ان کے قریب آ گیا۔
اسے پاس آتے دیکھ کر ر یحا نہ آپی اونہہ کہہ کر اٹھ گئیں۔
میں نے پو چھا:’’ کیا بات ہے؟‘‘
بدرا بولا: ’’یہ جو کریم کی مشہوری ہے اس میں۔‘‘اس نے ریحانہ آپی کے رسالے کی طرف اشارہ کیا۔’’یہ کہاں سے ملتی ہے؟ کیا یہی قدرت ہے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے پو چھا۔
’’تم ہی تو کہہ ر ہے تھے کہ قدرت گورا چٹا کرتی ہے، مجھے یہ لینا ہے۔‘‘ اس نے اشتہار میں چھپی رنگ گورا کرنے والی کریم کی طرف اشارہ کیا۔
رضوانہ نے اس کی بات سن کر زور دار قہقہہ لگایا۔سب چونک گئے۔
’’ کیا مصیبت ہے سکون سے پڑھنے بھی نہیں دیتے۔‘‘ریحانہ آپی نے ناگواری سے کیا۔
بات آئی گئی ہوگئی۔
گھر میں سب کو جیب خرچ ملتا تھا۔ امی بدرا کو بھی روزانہ دس روپے دیتی تھیں۔ ایک دن ریحانہ آپی نے دیکھا کہ بدرا کوئی چیز دبے پاؤں اندر لایا اور ادھر ادھر دیکھتا ہواصحن میں ایک جانب لگے آئینے کی طرف بڑھ گیا۔
ریحانہ آئی دبے پاؤں اس کے پیچھے گئیں تو بدرا رنگ گورا کرنے والی کریم اپنے سارے چہرے پرمل رہا تھا۔ماتھے پر، گالوں پر، ہاتھوں پر، بازوؤں پر۔ بقول ریحانہ آپی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کریم سے نہالے۔
ریحانہ آپی نے آکر ہمیں اشارہ کیا تو رضوانہ،میں، فرید اور حسیب بھی چپکے سے آکر اسے دیکھنے لگے۔ ہم سب ہنسی ضبط کیے کھڑے تھے اور بدرا ہم سب سے بے نیاز کریم ملنے میں مصروف تھا۔
’’ارے یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘اچانک خالہ ماسی کی نظر اس پر پڑی۔
بدرانے چونک کر انھیں دیکھااور پھر ہمیں دیکھا اوربری طرح جھینپ گیا۔
اس کا سارا چہرہ کریم سے لتھڑا ہوا تھا۔
’’ارے یہ توکریم لگا رہا ہے۔‘‘رضوانہ نے بلند آواز سے کہا۔
’’گورا بننے چلا ہے۔‘‘ نوید ہنسا۔
’’کلو خوب صورت۔‘‘ریحانہ آپی نے فقرہ چست کیا تو سب قہقہہ لگاکر ہنسنے لگے۔
بدرا نے ہمیں گھور کے دیکھا اور پیر پٹختے ہوئے با ہر بھاگ گیا۔
’’کہاں چلے کلوخوبصورت؟‘‘ پیچھے سے رضوانہ نے ہانک لگائی مگر وہ جاچکا تھا۔
بس اسی دن سے اس کا نام بدرا کی بجائے کلو خوب صورت پڑگیا۔

۔۔۔

رعنا آئی کا فون آ یا کہ وہ گھر آرہی ہیں۔
ہم سب بہت خوش تھے۔ ہماری خوشی کی زیادہ بڑی وجہ رعنا آپی کا چار سالہ جنید تھا۔ ہم سب کا لاڈلا،پیارا، سنہرے بالوں والا۔ گہری سیاہ آنکھوں والاجنید ہما را اکلوتا بھانجا تھا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ ہمیں رعناآپی سے زیادہ جنید کا انتظار تھا۔
خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اوررعنا آپی کی گاڑی گھر کے دروازے کے سامنے آ کررکی۔
ہم سب دوڑ کے گاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔ سبھی کی خواہش تھی کہ پہلے جنید کو لے لے۔
’’تو بہ ہے مجھے تواتر نے دو۔‘‘ہمیشہ کی تنک مزاج آپی نے ہمیں ڈانٹا تو ان کے ساتھ کھڑے بھائی جان ہنسنے لگے۔
جنید بھاگ کے ہمارے پاس آ گیا۔
رعنا آپی گھر میں داخل ہو ئیں تو سامنے ہی کلو خوبصورت کھڑا یہ سارا منظر دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
’’ارے یہ کون ہے اتنا براسا؟‘‘رعنا آپی نے بے ساختہ کہا۔
کلو خوبصورت ایک دم وہاں سے ہٹ گیا۔
امی نے فوراً انھیں ڈانٹا۔’’اتنی بڑی ہوگئی لیکن ابھی تک سمجھداری نہیں آئی۔ بچے کو کوئی ایسا کہتا ہے؟‘‘
’’جی…!‘‘رعنا آپی چپ ہوگئیں۔ شاید انھیں بھی احساس ہو گیا تھا کہ انھوں نے غلط بات کہہ دی ہے۔‘‘
’’یہ کلوخوبصورت ہے۔‘‘ریحانہ آپی نے کہا۔
’’ خیر مجھے کیا؟‘‘ انھوں نے بے نیازی سے کہا۔
ہم سب باتوں میں مصروف ہو گئے۔ بھائی جان ابو سے باتیں کرنے لگے۔ ہمارے تو دن جیسے عید ہو گئے۔ ہر وقت جنید کے ساتھ کھیل کود، ہلا گلا۔
کلو خوبصورت چپکے چپکے ہمیں اور جنید کو دیکھتارہتا۔
رعنا آپی کا انداز ایسا تھا کہ وہ ان سے اور جنید سے دورہی رہتا تھا۔
اب یہ رعنا آپی کا نفسیاتی مسئلہ تھا کہ انھیں بس خوبصورتی ہی پسند تھی یا پھر پہلے دن امی کی طرف سے پڑنے والی ڈانٹ کہ وہ بدرا کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھیں۔ اب بے چارہ کلو خوبصورت یہ پیچید ہ معاملات کیا جانے۔ وہ تو بس اس دن سے ہی سہم گیا تھا۔ جب اس نے جنید کا بستا پہن کر دیکھنے کی کوشش کی تھی اور رعنا آپی نے اسے اس بری طرح ڈانٹ دیا تھا کہ وہ گھنٹوں سیڑھی پر بیٹھا رو تار ہا تھا۔

۔۔۔

جمعے کے دن تھا کہ ہم سب نہا دھو کے تیار ہو گئے۔
نماز جمعہ کے لیے باہر نکلنے لگے تو خالہ ماسی کلوخوبصورت کو بھی لے آ ئیں۔
’’یہ دیکھو بڑے صاحب نے کتنا پیارا شلوارکرتا دلوایا ہے ا سے۔‘‘
ہم سب نے دیکھا کلو خو بصورت سفید شلوار کرتے میں شر ما یا سا کھڑا تھا۔
سفید شلوار کرتے میں اس کی سیاہ رنگت اور بھی نمایاں ہوگئی تھی۔ موٹے موٹے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
اوہ نہہ ابو نے بھی یہی رنگ دلا نا تھا ،کوئی دوسرا دلا دیتے، یہ تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کپاس کے کھیت میں بھینسا۔‘‘
رعنا آپی چپ نہ رہ سکیں۔
ان کا جملہ اتنا بے ساختہ تھا کہ ہم سب بے ساختہ ہنس پڑے۔
اسی وقت پیچھے سے ابو کی آواز آئی۔
’’ چلوسب ،نماز کودیر ہورہی ہے۔‘‘
ہم سب ابو کے ساتھ ہو لیے۔
مسجد قریب ہی پارک کے ساتھ تھی۔ چار سالہ جنید بھی نیلے رنگ کے شلوار کرتے میں سنہرے بالوںکے ساتھ گو یادمک رہا تھا۔
نماز پڑھ کے ہم لوگ باہر نکلے تو موسم بہت اچھاہور ہا تھا۔
ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور بادل چھائے ہوئے تھے۔
فرید اور حسیب کہنے لگے:’’ابو ہم لوگ تھوڑی دیر پارک میں کرکٹ کھیل لیں۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے…!‘‘ ابو نے کہا اور بھائی جان کے ساتھ گھر چلے گئے۔
نوید، فرید اور حسیب دوڑ گئے تا کہ جلدی سے کرکٹ بیٹ لے آئیں۔
میں جنید کے ساتھ کھیلنے لگا۔ مجھ سے کچھ ہی دورکھڑ اکلوتی خوبصورت ہمیں بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
چند ہی منٹوں میں حسیب اور نوید کرکٹ بیٹ لے آئے۔
ان کے پیچھے پیچھے، ریحا نہ آپی اور رضوانہ بھی تھیں۔
ریحانہ آپی نے قریبی بنچ پر قبضہ جما لیا اور جنید سے کھیلنے لگیں۔
ہم لوگ کھیلنے میں مصروف تھے کہ اچانک ریحانہ آپی کی چیخ سنائی دی۔
’’یااللہ…!‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
ہم لوگ گیند بلا پٹخ کر بھاگے۔اور جو ہم نے دیکھا، اس نے ہمارے اوسان خطا کر دیے۔
بنچ سے ذرا دور کھلے مین ہول میں جنید ڈبکیاںکھا رہا تھا۔ نجانے کیسے ریحانہ آپی کی نظر چو کی اور وہ چلتاہوا مین ہول میں جا گرا، جو گندگی اور غلاظت سے بھرا ہوا تھا۔
ادھر ہما را چاند سا شہزاد ہ جنید غلیظ سیاہ کیچڑ میں ہاتھ پیر مار ہا تھا، ادھر ریحانہ آپی سمیت ہم سب بس بری طرح چلائے جارہے تھے۔
اچانک جنید کا ہاتھ اوپر آیا اور پھر وہ نیچے چلا گیا۔
’’بچائو…‘‘ رضوان آپا گلا پھاڑ کر چلائی۔
اس وقت ہم نے بجلی کی سی تیزی سے کلوخوبصورت کو گٹر میں چھلانگ لگاتے دیکھا۔
دوسرے ہی لمحے وہ گندے پانی سے ابھرا توجنید اس کے ہاتھ میں تھا۔
اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اسے اپنے سر سے اوپر کرلیا۔
کلوخودبھی اتنے قد کا تھا کہ گندا سیاہ پانی اس کے سینے تک پہنچ رہاتھا۔
ہم نے دیکھا کہ جنید گند ے پانی میں لت پت ہے اور بالکل خاموش ہے۔
اچانک وہ زورزور سے کھانسنے لگا۔اور اسی وقت ہم سبھی کو جیسے اچانک ہوش آ گیا۔ میں تیزی سے گٹر میں جھکا اور جنید کو کلو کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’جنید!…جنید…!‘‘
ریحانہ آپی نے اسے پکڑ کے گھر کی طرف دوڑلگائی۔
میں نے گٹر کی طرف دیکھا۔ غلاظت اور گندے پانی میں اب کلو خو بصورت ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ شاید گٹرکی گندی گیس کے اثر سے وہ اپنے ہوش کھورہاتھا۔
پارک میں جتنے لوگ تھے، سبھی جمع ہوگئے تھے۔ کوئی افسوس کا اظہار کر رہا تھا تو کوئی پارک انتظامیہ کوکوس رہا تھا۔ کسی کوکلو کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہ تھی۔
میں نے جلدی سے جھک کر کلو کا ہاتھ کھینچا، پھر میں نے اور نوید نے مل کر اسے باہر نکالا۔
وہ باہر نکلتے ہی زمین پر گر گیا۔
میں نے دور پڑے ایک میلے کپڑے سے اس کا منہ صاف کیا۔
’’کلو…کلو…!‘‘ میں نے اسے آواز یں دیں۔
اس نے آنکھیں کھول دیں تو میں نے اسے سہارا دے کر اٹھا یا اور ہم اسے گھر لے آئے۔
وہ دھیمے دھیمے چل رہا تھا۔پتا نہیں لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ اس کے گھٹنوں پر چوٹ آئی ہے۔ اس کے سفید کپڑے غلاظت سے سیاہ ہو چکے تھے۔
ہم گھر کی دہلیز پر پہنچے تو اندر سے رعنا آپی کے رونے پیٹنے کی آواز یں آنے لگی تھیں۔
’’ہمیں دیکھتے ہی وہ چیل کی طرح کلو پر جھپٹیں۔
’’ ذلیل کمینے!… میرے بچے کو گٹر میں پھینک دیا، اس سے جلتا ہے نا تو۔‘‘
میں نے دیکھا، اتنی دیر میں ریحانہ آپی اوررضوانہ نے جنید کو نہلا دیا تھا۔ وہ تو لیے میں لپٹا ہوا امی کی گود میں سہما سہمالیٹا تھا۔
’’یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟ اسی نے تو گٹر میں کود کے جنید کو نکالا ہے۔‘‘میں نے رعنا آپی کا ہاتھ پکڑ کر زور سے چھٹکا۔
’’کیا…؟‘‘انہیں جیسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
’’کک…کیا اس نے جنید کو بچایاہے…؟ ‘‘وہ بڑبڑائیں۔
حسیب جلدی جلدی سارا قصہ سنانے لگا۔
اور اس وقت نجانے کیا ہوا کہ آپی نے گندے، کالے، غلاظت سے لتھڑے ہوئے کلو خو بصورت کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگالیا۔
’’میرابچہ… میرا بچہ…!‘‘
وہ ایک بار پھر رورہی تھیں اور اس کا ماتھا چوم رہی تھیں۔
کلو خوبصورت حیرت سے آنکھیں پھاڑے انھیں دیکھ ر ہاتھا۔
پھر ہم نے دیکھا کہ رعنا آپی اسے خود سے لپٹائے ہوئے صحن والے نل کے پاس لے گئیں اورمل مل کر اسے نہلانے لگیں۔ انھوں نے اسے اچھی طرح صابن سے نہلا یا پھر بڑا سا تولیہ اسے لپیٹا اوراٹھ گئیں۔
اس وقت ماسی خالہ نے کہا:
’’بیٹا! آپ کے سارے کپڑے ناپاک ہو گئے ہیں، جائیں جا کر بدل لیں۔‘‘
’’اچھا…‘‘رعنا آپی نے خود کو دیکھا اور پھر خاموشی سے اندرکمرے میں چلی گئیں۔
ماسی نے کلوخو بصورت کو کمرے میں لے جا کروہی پرانے کپڑے پہنا دیے۔
وہ تھوڑی دیر میں کمرے سے باہر آ یا اور دورکھڑے ہوکر ہمیں دیکھنے لگا۔
رعنا آپی کی نظر اس پر پڑی تو انھوں نے اسے اشارے سے بلایا۔
’’وہاں کیوں کھڑے ہو، میرے پاس آؤ۔‘‘
کلو خو بصورت نے انھیں حیرت سے دیکھا، پھرجھجکتا ہوا آہستہ آہستہ قریب آ گیا۔
’’تم کو جنید سے کھیلنا ہے؟‘‘رعنا آپی نے پوچھا۔
’’ہاں…!‘‘اس نے کچھ ایسی معصومیت سے گردن ہلائی کہ اس بارامی نے اسے سینے سے لگا لیا۔
’’ایک بات تو بتاؤ۔ تمہیں تو پانی سے ڈرلگتا تھا، پھر تم گٹر میں کیسے کودگئے؟‘‘
’’وہ…وہ نا…!‘‘ وہ کہتے کہتے رکا۔
ہم سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
’’میرا چھوٹا بھائی ڈوب گیا تھا پانی کے تالاب ہیں۔ مجھے لگا کہ جیسے وہ ڈوب رہا ہے، بس میں نے اسے بچالیا۔ ‘‘
وہ چپ ہو گیا اور ہمیں دیکھنے لگا۔
اس لمحے ہم سب کو احساس ہوا کہ ہم سب تو صرف گورے تھے، سفید تھے، مگر اصل میں تو ’’کلو ‘‘ہی خوبصورت تھا۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top