بوبی کی دُم
کہانی:The Boy Who Pulled Tails
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
بوبی اپنے ابو امی کے ساتھ ایک گھنے جنگل کے قریب چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ اس کے والد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ بوبی اکثر ان کے ساتھ بکری کے بچوں اور چوزوں کو دیکھنے جایا کرتا تھا لیکن جانور اور پرندے بوبی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ انھیں تنگ کرتا اور اُن کی دمیں کھینچا تھا جس سے اُنھیں بہت تکلیف ہوتی تھی لیکن بوبی کو اُن کے درد کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
وہ اپنی امی کی پالتو بلی کی دُم بھی کھینچتا تھا۔ وہ گدھے کی دُم کھینچتا تھا۔ وہ اپنے والد کے بوڑھے کتے بنگو کی موٹی لمبی دم پکڑ کر کھینچتا تھا اور اسے درد سے چلانے پر مجبور کر دیتا تھا حتیٰ کہ وہ ڈولی مرغے کی خوب صورت جھکی ہوئی دُم بھی کھینچ لیتا تھا۔
بوبی کی امی اُس کی بد تمیزیوں کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں:
”بوبی! ایک دن تم پچھتاؤ گے۔ یہ جو تم بے زبان جانوروں کو اتنا تنگ کرتے ہو، اس پرتمھیں شرم آنی چاہیے۔“
لیکن بوبی کہاں سنتا تھا، وہ باہر نکلتے ہی کسی نہ کسی جانور کی دُم کھینچنا شروع کر دیتا۔
ایک دن بوبی پکنک منانے کے لیے جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا ارادہ جنگلی رس بھریاں جمع کرنے کا تھا۔ وہ ایک خوب صورت سنہرا دن تھا۔
بوبی سیٹیاں بجاتے ہوئے جنگل کی طرف جانے والے راستے پر چل رہا تھا۔ اُس نے ہر جگہ جنگلی رس بھریاں ڈھونڈیں مگر اُس کو ایک رس بھری بھی نہیں ملی۔
”شاید کچھ مزید اندر جا کر مل جائیں۔“یہ سوچ کر اس نے ایک دوسرا راستہ اختیار کرلیا جو گھنے جنگل کی طرف جاتا تھا۔
بوبی کو جلدہی وہاں رس بھریوں سے لدے ہوئے درخت نظر آگئے۔ اُس نے درجنوں رس بھریاں کھالیں۔ وہ چھوٹی اور میٹھی تھیں اور بہت مزے دار بھی، پھر اُس نے اچانک کسی اور کو بھی رس بھریاں جمع کرتے ہوئے دیکھا۔
وہ ایک ٹھگنا آدمی تھا۔ اُس نے ہرے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اُس کے جوتے بھی ہرے تھے اور آگے سے مڑے ہوئے تھے۔ اُس نے ایک ہری ٹوکری اُٹھائی ہوئی تھی اور اس میں وہ جنگلی رس بھریاں رکھ رہا تھا۔ اُس کی لمبی سی داڑھی تھی جو زمین کو چھورہی تھی۔ بوبی نے اُسے حیرت سے تکنا شروع کر دیا۔
”یہ ضرور بھوت ہے۔“ اس نے خود سے کہا۔”پتا نہیں، یہ رہتا کہاں ہوگا؟ مجھے درخت کے پیچھے چھپ کر دیکھنا چاہیے۔“
بوبی چھپ کر بھوت کو دیکھنے لگا۔ جب بھوت کی ٹوکری پوری بھر گئی تو وہ ایک سمت چل پڑا۔ بوبی نے مزید جوش محسوس کرتے ہوئے اُس کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔ چلتے چلتے راستہ اچانک چوڑا ہو گیا اور وہ ایک گلی میں مڑ گیا۔
گلی کے آخری سرے پر ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کی دیوار یں پیلی اور کھڑکیاں، دروازے نیلے تھے۔
بھوت گھر میں چلا گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ گھر سے ملحقہ باغ کے چاروں طرف ایک سرخ دیوار تھی اور اس پر ایک بڑی کالی بلی بیٹھی ہوئی تھی جس کی مونچھیں لال تھیں۔ بوبی نے سوچا:
”یہ ضرور بھوت کی بلی ہوگی۔“
بلی کی دم نیچے لٹک رہی تھی۔ بوبی نے بلی کی دم پکڑی، اس کو کھینچا اور پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ دم اکھڑ کر بوبی کے ہاتھوں میں آگئی۔ بلی نے خوف زدہ ہو کر چیخ ماری اور”میاؤں، میاؤں“ کرتی ہوئی گھر کے اندر بھاگ گئی۔
بوبی وہاں بلی کی دُم اپنے ہاتھ میں پکڑے کھڑا رہ گیا۔ وہ بھی اتنا ہی خوف زدہ تھا جتنی کہ خود بلی!
اچانک گھر کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے وہی بھوت طیش کی حالت میں باہر آیا اور چلانے لگا:
”تم ایک ظالم اور بے رحم لڑکے ہو۔ تم نے میری بلی کی دم کھینچ کر اکھیڑ دی۔“
بوبی نے کہا:
”میں یہ نہیں چاہتا تھا۔“ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ ر ہے تھے۔
بھوت چلایا:
”تم ہمیشہ دمیں کھینچتے ہو۔ ہر قسم کے جانور اور پرندے تمھارے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔“
بوبی نے پوچھا:
”اب میں اس دُم کو کیا کروں گا؟ کیا تم اسے دوبارہ اپنی بلی پر لگا سکتے ہو؟“
بھوت بولا:
”نہیں! میری بلی ایک سال میں نئی دم اُگالے گی۔ بھوتوں کی بلیوں کی دمیں آسانی سے اکھڑ جاتی ہیں اور تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو گے!“
بوبی نے کہا:
”نہیں! میں نہیں جانتا تھا۔ میں اس بلی کی دم بھی نہ کھینچتا اگر مجھے یہ بات معلوم ہوتی۔“
بھوت نے اچانک کہا:
”تم اس دُم کو اپنے پاس رکھ سکتے ہو!“
اُس نے بوبی کے ہاتھ سے دم جھپٹ لی اور اس پر کھینچ کر ماری۔ وہ بوبی کی پشت پر چپک گئی۔ بولی کے پیچھے بلی کی لمبی دم جیسے اُگ آئی۔ بھوت نے ہنسنا شروع کر دیا۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر اس نے اپنی جیب سے ایک سیٹی نکالی اور اسے بجانا شروع کر دیا۔
ارد گرد کے بہت سے چھوٹے چھوٹے گھروں سے پریوں اور بھوتوں کی ایک فوج نکل آئی اور جب بھوت نے اُن کو بتایا کہ کیا واقعہ ہوا ہے تو وہ بھی ہنسنے لگے لیکن بوبی رور ہا تھا۔
وہ بھوت سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ بلی کی دُم سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے مگر وہاں ہر کوئی اس قدر زور زور سے ہنس رہا تھا کہ اس شور میں وہ خود اپنی آواز بھی نہیں سن سکتا تھا۔
وہ پلٹ کر تیزی سے بھاگنے لگا اور پریوں اور بھوتوں کے قہقہوں کی پہنچ سے دور نکل آیا۔ وہ جنگل کے باہر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ اُس نے اپنی دُم کو زور سے جھٹکا دیا مگر وہ بہت مضبوطی سے لگی ہوئی تھی۔ وہ دُم کو تو نہیں اُکھاڑ سکا البتہ کھینچنے سے اُسے بہت تکلیف ہوئی۔
یہ کتنی اذیت ناک بات تھی کہ اب اُسے اس دُم کے ساتھ گھر واپس جانا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ کالی دم اُس کے پیچھے لہرارہی تھی۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا۔ اُس کی امی نے اُسے دیکھا تو وہ حیرت سے چلا اٹھیں:
”تمھارے پیچھے دم کیسی ہے؟“
بوبی نے انھیں سب کچھ بتادیا۔ اُس کی امی بہت افسردہ ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا:
”میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر تم اس طرح جانوروں اور پرندوں کی د میں کھنچتے رہے تو ایک نہ ایک دن کچھ ضرور ہو کر رہے گا۔ اب تم صرف یہ کر سکتے ہو کہ دمیں کھینچنے سے باز رہو اور امید رکھو کہ شاید اس طرح تمھاری دم آہستہ آہستہ غائب ہو جائے۔“
اور پھر واقعی بوبی نے د میں کھینچنا بند کر دیں لیکن جیسے ہی بلیوں، کتوں، گدھوں، گھوڑوں، مرغیوں اور بطخوں نے بوبی کی دم دیکھی تو وہ خوشی سے تقریبا ًپاگل ہو گئے۔
جب بھی بوبی اُن کے قریب سے گزرتا، وہ اس کی دُم کھینچتے۔ اب بوبی کو پتہ چلا کہ جب دم کھینچی جاتی ہے تو کیسا در دمحسوس ہوتا ہے۔
کتے چھپ کر اُس کے آنے کا انتظار کرتے اور اُس کی دُم زور سے کھینچتے، بلی اس کی دم پر پنجے مارتی اور مرغیاں اُس کی دُم پر کاٹ لیتیں۔ ایسی دم کے ساتھ چلنا پھرنا ایک عذاب تھا۔
بوبی سوچتا:
”اب میں جان گیا ہوں کہ سارے جانور اور پرندے کیوں اپنی دُم کھینچے جانے سے نفرت کرتے ہیں۔ میں آئندہ کبھی یہ بری حرکت نہیں کروں گا۔“
بوبی نے ہفتوں بھوت کی بلی کی دم لگائے رکھی اور روزانہ کئی کئی بار کھنچوائی۔ وہ کوشش کرتا کہ دم کا ایک سرا اپنی کسی جیب کے اندر رکھے مگر دم وہاں ٹکتی نہیں تھی۔ وہ خود باہر آ جاتی اور ہوا میں لہراتی رہتی۔
”میں کبھی دوبارہ دم نہیں کھینچوں گا۔“بوبی دن میں کئی بار کہتا۔
“ تمھاری دم جاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔“ اس کی امی نے تشویش ظاہر کی۔”میرا خیال تھا کہ شاید یہ آہستہ آہستہ غائب ہو جائے گی۔ میں بھوت کو ایک خط لکھوں گی اور اُسے بتاؤں گی کہ تم کافی سبق سیکھ چکے ہو۔ شاید وہ تمھاری دم ہٹا دے۔“
پھر انھوں نے بھوت کو ایک خط لکھا کہ بوبی ایک اچھا لڑکا بن گیا ہے لہٰذا براہ مہربانی تم آکر اُس کی دُم ہٹا دو لیکن بھوت نہیں آیا۔
اگلے دن جب بوبی کتے کے لیے پانی کا پیالہ بھر رہا تھا، اُس کی دُم بل کھانا شروع ہو گئی اور ایک عجیب طریقے سے یوں مڑگئی جیسے خود کو اکھاڑنے کی کوشش کر رہی ہو۔
پھر وہ اچانک اُکھڑ کر ہوا میں بلند ہو گئی اور ایک منٹ کے لیے ہوا میں ناچتی رہی۔ پھر وہ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی دور ہوتی چلی گئی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ بوبی حیران ہو کر دم کو دیکھتا رہا، وہ دُم کو جاتے دیکھ کر بہت خوش تھا۔ اُس نے بھاگ کر اپنی امی کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔
اُنھوں نے کہا:
”اب یا درکھو بوبی! دوبارہ د میں کھینچنا مت شروع کر دینا ورنہ یہ دم دوبارہ بھی آسکتی ہے۔“
بوبی جلدی سے بولا:
”امی! کبھی نہیں، میں اپنی زندگی میں کبھی کسی کی دم دوبارہ نہیں کھینچوں گا۔“
پھر واقعی بوبی نے کسی جانور یا پرندے کی دُم کبھی نہیں کھینچی اور ایک اچھا لڑکا بن گیا۔
جہاں تک اُس عجیب دم کا تعلق ہے، کسی نے اُسے دوبارہ نہیں دیکھا۔ اگر چہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی اور شریرلڑکے کے پیچھے اُگنے کا انتظار کر رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ میں یا آپ نہیں ہوں گے۔