skip to Main Content

آخری خواہش

کہانی: Winkle Pip came out
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ”ونکل پپ“ جس کو اس کی آنٹی نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر ایک جادوئی لباس دیا۔ یہ ایک پیلا ریشمی لباس تھا۔ جس پر لال دھبے تھے اور اس کی بڑی بڑی جیبیں تھیں۔ ”اب تم جب بھی یہ سوٹ پہنو گے۔تمہاری خواہشات پوری ہوں گی مگر تمہیں ایک بات کا خیال رکھنا پڑے گا۔“ اس کی آنٹی نے کیا۔
”اور وہ کیا ہے؟“ ونکل پپ نے پوچھا۔ ”تمہیں سال میں ایک دفعہ انسانوں کی دنیا میں جا کر چھ بچوں کی خواہشات پوری کرنی ہوں گی، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا پپ!“ اس کی آنٹی نے کہا۔ ”ورنہ اس لباس کا جادو ختم ہوجائے گا۔“ پپ نے خوشی خوشی نہ بھولنے کا وعدہ کیا۔
اگلے دن پپ کی بوڑھی خالہ ماریہ اس سے ملنے آرہی تھیں۔ کھانے کے معاملے میں وہ بہت نفیس تھیں مگر پپ بدقسمتی سے اچھا باورچی نہیں تھا۔ وہ اکثر ان کو جلے ہوئے کیک اور کچے بسکٹ کھلاتا تھا لہٰذا پپ نے اگلے دن اپنا جادوئی لباس استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے صبح صبح جادوئی لباس پہنا اور اپنے کچن کا جائزہ لیا جو کافی گندا ہورہا تھا۔ ناشتے کے برتن ابھی تک جھوٹے پڑے تھے اور پردے بہت میلے ہورہے تھے۔
”اب میں اپنے لباس کو آزماتا ہوں۔“ پپ نے اپنے کپڑوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
”کچن! اپنے آپ کو خود ہی صاف کرلو کیونکہ یہ میری خواہش ہے۔“ وہ اونچی آواز میں بولا۔ اس کے ساتھ ہی چیزوں نے ایک دم ہلنا اور شور مچانا شر وع کردیا۔ پانی کا نل خود بخود کھل گیا اور گندے برتن سینک میں جا کر دھلنے لگے۔ فرش صاف کرنے والا کپڑا اپنی جگہ سے ہلا اور رگڑ، رگڑ کر فرش صاف کرنا شروع کردیا۔ قالین صاف کرنے والے برش نے اتنی دیر میں پورے گھر کے قالین صاف کردیے۔ پردے خود بخود کھونٹی سے اترے اور نل کے نیچے بیٹھ کر نہاے اور پھر کپڑے سکھانے والی رسی پر جا کر لٹک گئے۔ خشک ہونے پر استری نے جلدی جلدی ان پر استری کردی اور وہ واپس اپنی جگہ چلے گئے۔ یوں تھوڑی سی دیر میں گھر کا کونا، کونا چمک اٹھا۔ ”بہت اعلا!“ پپ خوشی سے چلایا۔ ”اور اب خالہ کے ناشتے کے لیے۔“ اس نے اپنی جیبوں میں دوبارہ ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ ”ایک بڑا چاکلیٹ کیک، فروٹ جیلی، سینڈوچز، بسکٹ، ناشپاتی، رس بھری، کباب اور کریم کافی کی ضرورت ہے!“ اس کا کچن دوبارہ جاگ اٹھا اور پل بھر میں اس کی فرمائش کردہ سب چیزیں تیار ہو کر میز پر سج گئیں۔
جب پپ کی خالہ آئیں تو کچن کا دروازہ کھولتے ہی دھک سے رہ گئیں۔ انہوں نے پپ کے صاف ستھرے چمکتے ہوئے کچن کو دیکھا جو ہمیشہ بہت گندا رہتا تھا اور پھر سلیقے سے سجی ناشتے کی میز کو دیکھا۔ ”خوب! کیا شاندار تبدیلی ہے۔“ وہ خوش ہو کر بولیں۔ ”تم نے تو آج بہت محنت کر ڈالی ہے پپ!“
”یہ میرے جادوئی لباس کا کمال ہے خالہ۔“ پپ نے سچ کہا کیونکہ وہ ایک سچا جن تھا۔ پھر اس نے اپنی خالہ کو جادوئی لباس کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ”زبردست مگر بیٹا تم سال میں ایک دفعہ انسانوں کی دنیا میں جانا نہ بھولنا ورنہ تم اس لباس کا جادو کھو دو گے۔“ اس کی خالہ نے سب کچھ سن کر کہا۔
پپ نے اپنے جادوئی لباس سے اپنی اور اپنے دوستوں کی بہت ساری خواہشات پوری کیں۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے لباس کا جادو کمزور ہونا شروع ہو گیا اور وہ جان گیا کہ اب اسے انسانوں کی دنیا میں جانا ہی ہوگا۔ لہٰذا ایک دن پپ نے اپنا جادوئی لباس پہنا اور دنیا میں جانے کے لیے روانہ ہوا۔
”مجھے دیکھ کر سب بچے کتنا خوش ہوں گے کیونکہ شاید ہی انہوں نے کبھی کوئی جن دیکھا ہو۔“ پپ نے اپنے دوست سے کہا جو اسے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔
”اور جب ان کو پتا چلے گا کہ میں ان کی خواہشات پوری کرنے آیا ہوں تو وہ خوشی سے پاگل ہوجائیں گے۔“
”ضروری نہیں ہے۔“ اس کے دوست نے کہا۔ ”میں نے سنا ہے کہ آج کل کے بچے جنوں، پریوں پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے بارے میں کہانیاں سنیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری باتوں پر یقین ہی نہ کریں۔“
”ناممکن!“ پپ نے بے یقینی سے کہا اور انسانوں کی دنیا میں چلا آیا۔
اس کا رخ ایک چھوٹے سے شہر کی طرف تھا۔ وہ چلتا رہا اور گھروں کی کھڑکیوں سے اندر جھانکتا رہا۔ آخر کار اس نے ایک گھر کی کھڑکی سے دو بچیوں کو اپنے گڑیا گھر سے کھیلتے ہوئے دیکھا۔ وہ آپس میں باتیں بھی کرتی جارہی تھیں۔
” یہ گڑیا گھر بہت پرانے فیشن کا ہے۔“ ایک ننّی بچی نے کہا: ”اس میں بجلی کی لائٹ کے بجاے لالٹین جلائی جاتی ہے۔ یہ بہت احمقانہ بات ہے۔“
”ہاں! مگر مجھے یقین ہے کہ دادا کبھی بھی اس کے اندر بجلی سے جلنے والے بلب نہیں لگائیں گے۔“ دوسری بچی نے کہا: ”میری کتنی خواہش ہے کہ وہ ایسا کردیں۔“
”اوہ!“ پپ نے جو ان کی باتیں سن رہا تھا، اپنے آپ سے کہا: ”یہ میرے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ میں ان بچیوں کی خواہش پوری کر سکوں۔“ چنانچہ وہ کھڑکی سے کود کر کمرے میں آگیا اور بچیوں کے پیچھے خاموشی سے آکر کھڑا ہوگیا۔ ”کیا تم اس گڑیا گھر میں بجلی کے بلب جلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہو؟“ اس نے پوچھا۔ ”تو بس ایک دفعہ میری موجودگی میں ایسا کہو، تمہاری خواہش پوری ہوجائے گی۔“ بچیوں نے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا۔
”یقینامیں یہ چاہوں گی۔“ پہلی بچی نے کہا۔ ”میری خواہش ہے کہ اس پورے گڑیا گھر میں بجلی کے بلب ہوں۔“
اگلے ہی لمحے گڑیا گھر برقی قمقموں سے جگمگا اٹھا۔ بچیاں یہ زبردست نظارہ دیکھ کر اچھل پڑیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ہر دروازے پر چھوٹے، چھوٹے سوئچ لگے ہوئے ہیں اور انہیں کھولنے، بند کرنے سے گھر کی روشنیاں جل بجھ رہی ہیں۔ وہ ذوق و شوق کے ساتھ ان سے کھیلنے لگیں۔ اس عرصے میں جن شکریے کے ایک لفظ کے انتظار میں ان کے پیچھے کھڑا رہا مگر بچے تو لگ رہا تھا کہ اسے بالکل بھول گئے ہوں۔ وہ بہت افسردہ ہوا اور آخرکار خدا حافظ کہے بغیر کھڑکی سے باہر کود گیا۔
”حد ہوگئی! میں نے ان بچیوں کی خواہش پوری کی اور انہوں نے میرا شکریہ تک ادا نہ کیا۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔“ پپ نے سوچا۔ ”خیر! یہ میرے لیے ایک ناگوار تجربہ تھا۔“ وہ آگے چل پڑا۔ کچھ دیر بعد وہ دو بچوں سے ٹکرا گیا جو گھاس میں کوئی گم شدہ چیز تلاش کررہے تھے۔ ”وہ پیسے کہاں جاسکتے ہیں؟“ اس نے ان میں سے ایک کو کہتے ہوئے سنا۔
”اوہ! کاش پیسے مل جائیں ورنہ گھر جا کر بہت پٹائی ہوگی۔“ پپ ان بچوں کے پاس چلاگیا۔
”بچو! میں تمہاری خواہش پوری کرسکتا ہوں۔“ اس نے کہا: ” میں ایک جن ہوں اور میں نے جادوئی لباس پہن رکھا ہے۔“
”احمق نہ بنو!“ ایک لڑکے نے کہا: ”ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن بھوت جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی اور جہاں تک جادوئی لباس کا تعلق ہے، ہم تمہاری بے وقوفانہ باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں! جاؤ اپنا راستہ ناپو!“ پپ کا منھ سرخ ہو گیا۔ اس نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور بچوں سے پوچھا۔ ”اچھا! کیا تم واقعی چاہتے ہو کہ تمہارے کھوئے ہوئے پیسے تم کو واپس مل جائیں؟“
”ہاں! ظاہر ہے! ہماری خواہش ہے کہ پیسے جلد از جلد مل جائیں ورنہ ہماری شامت آجائے گی۔“
ان کے یہ کہتے ہی ان کے کھوئے ہوئے پیسے گھاس میں سے اٹھے۔ جہاں وہ گرے ہوئے تھے اور اڑ کر پپ کے ہاتھ میں آگئے۔
”لو یہ رہے تمہارے پیسے۔“ اس نے لڑکوں کو پیسے دیتے ہوئے کہا۔
مگر کیا وہ لڑکے خوش ہوئے؟
جی نہیں!! ذرہ بھر بھی نہیں! ”تم نے ہمارے پیسے چھپائے ہوئے تھے۔“ وہ چلائے۔ کیونکہ انہوں نے پیسے اڑ کر جن کے ہاتھ میں آتے نہیں دیکھے تھے۔ ”تم نے ہمارے ساتھ شرارت کی ہے، ہم تمہیں مار بھگائیں گے۔“ دونوں لڑکے غریب جن کے پیچھے لپکے اور وہ اپنی جان بچانے کو دوڑا۔ وہ بھاگ کر ایک دروازے کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی سانس درست کرنے لگا۔
”یہ خوب رہی۔“ اس نے دکھی ہو کر سوچا۔ ”دو خواہشات پوری کردی گئیں اور کسی ایک کے بدلے میں بھی شکریہ سننے کو نہیں ملا۔ یہ دنیا بھی کیسی ہوتی جارہی ہے! کیا یہاں ذرہ بھر بھی اخلاق اور تشکر باقی بچا ہے۔“
کچھ دیر بعد وہ آگے چلا اور جلد ہی ایک ننّی لڑکی کو ایک چھوٹے سے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بری طرح روتے دیکھا۔ ”کیا معاملہ ہے؟“ پپ نے دریافت کیا۔ اس کا نرم دل بچی کے رونے سے بھر آیا۔
بچی نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اسے گھور کر دیکھا۔ تب اچانک گھر کے اندر سے ایک آواز آئی۔ ”اب یہ فضول کا رونا دھونا بند کرو مری! تم بہت بدتمیز ہو اور پٹائی کے قابل ہو۔ تم نے محض غصے میں آکر اپنی اتنی مہنگی گڑیا توڑ دی۔“
”میں اسے دوبارہ توڑوں گی اگر میرا دل چاہا۔“ بدتمیز ننّی بچی چلائی اور کھڑے ہو کر زور سے پاؤں پٹخے۔ جن کو اس بات سے زبردست دھچکا لگا۔
”تمہیں اس طرح اپنے بڑوں سے بات نہیں کرنی چاہیے، کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں ایک جن ہوں اور تمہاری ایک خواہش پوری کرنے آیا ہوں۔ اگر تم….“
”احمق آدمی! احمق آدمی۔“ بدمزاج بچی اس کی بات کاٹ کر چلائی اور اس کی طرف مکا لہرا کر بولی۔ ”میری خواہش ہے کہ تم یہاں سے دفع ہوجاؤ۔ بلکہ دوڑتے، دوڑتے شہر کے دوسرے سرے پر پہنچ جاؤ تاکہ میں دوبارہ تمہاری شکل نہ دیکھ سکوں۔“
ظاہر ہے کہ بچی کی خواہش پوری ہوئی اور غریب پپ نے اپنے آپ کو شہر کے دوسرے سرے کی جانب بری طرح دوڑتے ہوئے پایا۔ بہت جلد اس کی سانس پھول گئی مگر جب تک وہ شہر کے دوسرے سرے تک نہ پہنچ گیا۔ اس کے پیروں نے دوڑنا بند نہیں کیا۔
”میرے خدایا! کس قدر برا دن گزر رہا ہے! اور ابھی تین خواہشات پوری کرنا باقی ہیں۔ کاش میں جلد از جلد انہیں بھی نمٹا لوں اور واپس چلا جاؤں۔ یہ کام تو ایک مصیبت ہی بن گیا ہے۔“ اس نے سڑک کے کنارے اگی ہوئی گھاس پر بیٹھتے ہوئے سوچا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کے سامنے سے دو بچے گزرے، ایک بچہ اور ایک بچی۔
”ہیلو مسخرے! تم کہاں سے آئے ہو؟“ بچے نے بدتمیزی سے پوچھا۔ ” میں جن ہوں اور پرستان سے آیا ہوں۔“ پپ نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ”ہنہ! جاؤ جاؤ، کسی اور کو بے وقوف بناؤ! ہمیں پتا ہے کہ جن ون کچھ نہیں ہوتے۔“ لڑکے نے ہاتھ ہلایا۔ ”خیر ہوتے تو ہیں۔“ پپ نے کہا: ”اور مزید یہ کہ میں ایک خاص جن ہوں۔ میں آج تم لوگوں کی دنیا میں اس لیے آیا ہوں کہ چھ بچوں کی خواہشات پوری کرسکوں۔ میں نے تین خواہشات تو ضائع کردیں اور اب میں سوچ رہا ہوں کہ اس دنیا کا کوئی بچہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی کوئی خواہش پوری کی جائے۔“
”کیا؟ تمہارا مطلب ہے کہ تم ہماری خواہشات پوری کرسکتے ہو؟“
لڑکے نے کہا: ”میں اس بات پر یقین نہیں کرسکتا۔ خیر! میں تجربہ کرکے دیکھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ایک تربوز ایک ناریل اور ایک انناس تمہارے سر پر آکر چپک جائیں۔“ اور اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا تربوز، ایک موٹا تازہ ناریل اور ایک نوکیلا انناس ہوا میں اڑتے ہوئے آئے اور غریب پپ کے سر پر آکر چپک گئے۔ بے چارہ پپ ان پھلوں کے بوجھ تلے کراہنے لگا۔ بچوں نے یہ سب حیرت سے دیکھا اور پھر ہنسنے لگے۔ پھر وہ ذرا خوف زدہ نظر آنے لگے۔
”اوہ! یہ تو واقعی جن ہے کیونکہ ہماری خواہش پوری ہو گئی۔“ پپ اتنا غصے میں تھا کہ اسے سمجھ میں نہےں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ بچوں نے اسے آخری بار دیکھا اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ انہیں ڈر تھا کہ جن ان سے بدلہ لے گا۔
بے چارہ پپ! اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ بچے اس کے ساتھ اتنی گھٹیا شرارت کریں گے جب کہ وہ تو ان کی خواہش پوری کرنے آیا تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ پھل اس کے سر سے اتر جائیں مگر وہ اس کے سر پر اتنی مضبوطی سے جمے ہوئے تھے کہ ہلے بھی نہیں۔ ”اوہ مالک۔“ جن رونے لگا۔ ”یہ پھل مجھے اپنے سر پر لگا کر گھومنا پڑے گا کیونکہ جب تک میں چھ بچوں کی خواہش پوری نہیں کروں گا، میں خود اپنے لیے کوئی خواہش نہیں کرسکتا۔“
اس وقت وہاں سے ایک چھوٹی لڑکی گزری جس نے اپنے سر پر لکڑیوں کا ایک بھاری گٹھڑ اٹھایا ہوا تھا۔ وہ جن کو دیکھ کر رک گئی اور اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔ ”تم یہ سب چیزیں اپنے سر پر رکھ کر کیوں گھوم رہے ہو؟ کیا یہ بہت وزنی نہیں ہیں؟“ اس نے پوچھا۔ ”ہاں! مگر میں انہیں اپنے سر سے نہیں اتار سکتا۔“ جن نے آہ بھر کے کہا اور اس نے اپنی کہانی اس ننّی لڑکی کو سنائی۔
”اوہ! یہ تو بہت افسوس کی بات ہے۔“ ننّی لڑکی نے کہا: ”میری خواہش ہے کہ یہ بوجھ تمہارے سر سے اترجائے۔“ لڑکی کے یہ کہتے ہی سارے پھل جن کے سر سے غائب ہو گئے۔ ”ہرا!“ جن نے خوشی سے چلا کر کہا۔ ”تم آج کے دن ملنے والی وہ واحد بچی ہو جو بدتمیز اور خود غرض نہیں ہے۔“
”مگر میری سوتیلی ماں تو کہتی ہے کہ میں بہت سست اور خودغرض ہوں۔ حالانکہ میں کوشش کرتی ہوں کہ ان کے تمام کام وقت پر کر دیا کروں۔“ بچی نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
”بے چاری بچی!“ پپ نے دل میں سوچتے ہوئے کہا: ”اتنی سی بچی سے اتنا بھاری لکڑیوں کا گٹھڑ اٹھوانا کون سی انسانیت ہے؟“ پھر اس نے پوچھا۔ ” کیا تمہارے باپ زندہ نہیں ہیں؟“
”نہیں! مگر میری ایک خالہ ہیں۔ جو چاہتی ہیں کہ میں ان کے ساتھ جا کر رہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری سوتیلی ماں نے مجھے اپنی نوکرانی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ درست بات ہے لیکن اگر وہ مجھے مارا نہ کریں اور پیٹ بھر کے کھانے کو دیا کریں تو میں ان کا ہر کام کرنے میں خوشی محسوس کروں گی۔ میرے والد کی وفات کے بعد ہم نے اپنا پرانا گھر چھوڑ دیا اور یہاں آکر رہنے لگے۔ میری سوتیلی ماں میری خالہ کو پسند نہیں کرتیں۔ کیونکہ خالہ مجھے بہت چاہتی ہیں۔ مگر وہ اب نہیں جانتےں کہ ہم دونوں یہاں رہنے لگے ہیں۔“ پپ کی آنکھوں میں یہ دکھی کہانی سن کر آنسو آگئے۔
”کاش تمہاری خالہ تمہیں مل جائیں اور اپنے ساتھ لے جائیں۔“ اس نے کہا: ”ہاں! میری بھی یہی خواہش ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ رہوں۔“ لڑکی نے اپنے کاندھوں پر لکڑی کا گٹھڑا دوبارہ لادتے ہوئے کہا اور پھر وہ خوشی سے چلائی اور گٹھڑا پھینک دیا۔ سامنے سے ایک موٹی اور رحمدل خاتون دوڑتی ہوئی آرہی تھیں۔
”خالہ! خالہ!!“ بچی چلائی۔ ”میں ابھی آپ ہی سے ملنے کی خواہش کررہی تھی۔“
”ارے ہاں! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا کہ ابھی ایک خواہش بچی ہوئی ہے۔“ پپ نے اپنے آپ سے خوش ہوتے ہوئے سوچا۔ ”اس نے ایک خواہش مجھے پھلوں کے بوجھ سے آزادی دلانے میں استعمال کی تو یہ اس کا حق بھی تھا کہ خود اپنے لیے بھی یہ کچھ مانگ سکے۔“
”آپ کہاں سے آگئیں خالہ! میں آپ کو بہت یاد کرتی تھی۔“ بچی نے اپنی خالہ کی گردن میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئی ہوں۔ میں تمہیں کافی عرصے سے تلاش کررہی تھی اور آج تم مل گئیں۔ چلو گھر!“ خالہ نے محبت سے کہا: ” مگر میری سوتیلی ماں کا کیا ہوگا؟“ بچی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”تم اپنی خالہ کے ساتھ گھر جاؤ۔ میں یہ لکڑیاں تمہاری سوتیلی ماں کے گھر دے آؤں گا اور انہیں یہ بتا بھی دوں گا کہ تم اب واپس نہےں آؤگی۔“ پپ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ننّی لڑکی خوشی خوشی اپنی خالہ کی انگلی پکڑ کر چلی گئی۔ پپ نے لکڑیوں کا گٹھڑا اپنے کندھے پر لادا اور اس چھوٹے سے مکان کی طرف دوڑ لگا دی جس کی طرف بچی نے اشارہ کیا تھا۔
ایک بدمزاج عورت نے دروازہ کھولا اور پپ کو گھور کر دیکھا۔
”میں آپ کے لیے لکڑیوں کا وہ گٹھڑا لایا ہوں جو آپ کی سوتیلی بیٹی لارہی تھی۔ وہ اپنی خالہ کے ساتھ رہنے چلی گئی ہے۔“ جن نے کہا۔
”اوہ! اس کی یہ مجال؟“ عورت نے جھاڑو اٹھاتے ہوئے کہا۔ ” مجھے یقین ہے کہ اس معاملے میں ضرور تمہارا ہاتھ ہوگا۔ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے احمق آدمی! میں تمہارا بھرکس نکال دوں گی۔“ وہ ننّے جن کی طرف دوڑی مگر اس نے جلدی سے اپنے جادوئی لباس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ ”میں نے چھ انسانی خواہشات پوری کر دی ہیں۔ اب میرا لباس میری خواہشات پوری کرنے کے لیے پھر سے تیار ہوگیا ہے۔ اس لیے میں خواہش کرتا ہوں کہ میں فوراً پرستان واپس پہنچ جاؤں۔“ اس کے ساتھ ہی وہ ہوا میں بلند ہوا اور غصیلی عورت کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ وہ خوف سے پیلی پڑگئی اور جلدی سے گھرکا دروازہ بند کر دیا۔ وہ اتنی خوف زدہ ہو گئی تھی کہ اس نے پھر کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ اس کی سوتیلی بیٹی کہاں چلی گئی۔
جہاں تک پپ کا تعلق ہے وہ اپنے گھر واپس پہنچ کربہت خوش تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کو اپنے ساتھ پیش آنے والے سب واقعات سنائے اور اپنے جادوئی لباس کو تہہ کرکے ہمیشہ کے لیے الماری کے اندر رکھ دیا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top