بڑا کلاز اور چھوٹا کلاز
کہانی: Big Clause and Small Clause
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
ایک بار کا ذکر ہے، ایک قصبے میں دو آدمی رہتے تھے جن کے نام ایک ہی تھے۔ ان میں سے ایک کے پاس چار گھوڑے تھے اور دوسرے کے پاس صرف ایک گھوڑا تھا، لہٰذا ایک دوسرے سے امتیاز کرنے کے لیے چار گھوڑوں کا مالک ”بڑا کلاز“ کہلاتا تھا اور جس کے پاس صرف ایک گھوڑاتھا، وہ چھوٹے کلاز کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ہفتے کے چھ دن چھوٹا کلاز، بڑے کلاز کے کھیتوں میں ہل چلاتا اور اُسے اپنا گھوڑا اُدھار دیتاتھا۔ اس کے بدلے ہفتے کے ساتویں دن یعنی اتوار کو بڑا کلاز اُسے اپنے چار گھوڑے اُدھار دے دیتا تھا۔ اُس دن چھوٹا کلاز بہت خوش رہتا تھا کیوں کہ کم از کم ایک روز کے لیے وہ پانچ خوب صورت گھوڑوں کا مالک بن جاتا تھا۔
اتوار کو جب لوگ اپنے بہترین لباس میں چرچ جاتے ہوئے اُس کے قریب سے گزرتے تو وہ اپنے پانچ گھوڑوں کے ساتھ ہل چلا رہا ہوتا اور وہ اس قدر خوش ہوتا کہ لوگوں کو دیکھتے ہی چلااٹھتا:
“ہرّا! پانچ خوب صورت گھوڑے اور سب میر ے۔“
بڑے کلاز نے کہا:
”تمھیں یہ بات بالکل نہیں کہنی چاہیے کیوں کہ پانچ میں سے صرف ایک گھوڑا تمہارا ہے۔“
لیکن چھوٹا کلاز جلد ہی بھول گیا اور جب ایک جماعت قریب سے گزری تو وہ پھر چلا اٹھا:
”ہرا!! پانچ خوب صورت گھوڑے اور سب میرے۔“
بڑے کلاز نے غصے سے چلا کر کہا:
”کیا میں تمھیں یہ کہنے سے منع نہیں کر چکا؟ اب اگر تم نے یہ بات کہی تو میں اسی وقت، اسی جگہ تمہارے گھوڑے کو مارڈالوں گا اور پھر تم ڈینگیں مارنے کے لائق نہیں رہ جاؤ گے۔“
”اوہ! اب میں یہ کبھی نہیں کہوں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔“ چھوٹے کلاز نے کہا اور واقعی اس کا ارادہ، و عدہ پورا کرنے کا تھا مگر اُسی وقت کچھ اور لوگ قریب سے گزرے اور انہیں دیکھتے ہی وہ خوشی سے چلا اٹھا:
”ہرا! پانچ خوب صورت گھوڑے اور سب میرے۔“
بڑا کلا زطیش میں چلایا:
”اب تمہارا علاج کرنا ہی پڑے گا۔“
یہ کہا اور ایک پتھر اٹھا کر چھوٹے کلاز کے گھوڑے کے سر پر دے مارا۔ پتھر اتنا بھاری تھا کہ غریب جانورفوراًہی مر گیا۔
چھوٹا کلاز روتے ہوئے بولا:
”اوہ! اب میرے پاس ایک بھی گھوڑا نہیں ہے۔“
تھوڑی دیر رونے دھونے کے بعد وہ مردہ گھوڑے کی کھال اتارنے میں جت گیا۔ اُس نے کھال کو ہوا اور دھوپ میں اچھی طرح خشک کر لیا۔ پھر خشک کھال کو ایک تھیلے میں ڈال کر قریبی قصبے میں اُسے بیچنے کے لیے چل پڑا۔ راستے میں ایک گھنا جنگل تھا۔ جنگل تک پہنچتے پہنچتے اسے رات ہوگئی۔ چھوٹا کلاز راستہ بھول گیا۔ ایک جگہ اسے ایک مکان نظر آیا۔
اُس نے مکان کے دروازے پر دستک دی۔ یہ گھر ایک کسان کا تھا۔ دستک کے جواب میں کسان کی بیوی نے درواز کھولا۔ چھوٹے کلاز نے اس سے گزارش کی کہ وہ ایک رات کے لیے اسے اپنے گھر میں پناہ دے دے کیوں کہ صبح ہونے سے پہلے وہ جنگل میں اپنا راستہ نہیں ڈھو نڈ سکتا۔ لیکن کسان کی بیوی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُس کا شوہر گھر پر نہیں ہے اور وہ اُس کی غیر حاضری میں ایک اجنبی کو گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ چھوٹے کلاز نے مایوس ہو کر کہا:
”اچھا،تب تو لازماً باہر ہی سونا پڑے گا۔“ اور کسان کی بیوی نے درواز ہ بند کر دیا۔
مکان کے قریب سوکھی گھاس کا بہت اونچاڈ ھیر تھا۔ گھر اور اس ڈھیر کے درمیان تنکوں سے بنا ہوا ایک چھوٹا سا چھپر تھا۔ چھوٹے کلاز نے چھپر کو دیکھ کر سوچا کہ میں یہاں سوسکتا ہوں اور وہ چھپر پر چڑھ گیا۔ وہاں سے اُس نے دیکھا کہ مکان کی ایک کھڑ کی کھلی ہوئی ہے اور وہ کھڑکی سے مکان کے اندر دیکھ سکتا ہے۔ اُس نے دیکھا کہ کمرے میں ایک بڑی میز ہے جس پر روٹی، بھنا ہوا گوشت، تلی ہوئی مچھلی اور شربت سجے ہوئے تھے۔ کسان کی بیوی اور قصبے کا گورکن میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ گورکن مچھلی کے ایک بڑے قتلے کو کھانے میں مصروف تھا۔
”یہ ان کی بہت غلط بات ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کی اتنی اچھی چیزوں کو اپنے لیے رکھا ہوا ہے۔“چھوٹے کلاز نے آہ بھری۔
”میں یہ سب چیزیں کتنے شوق سے کھاتا ہوں۔“ اُس نے کھانے کی میز پر رکھے ہوئے کیک کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
اسی وقت اُس نے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنی، جو سڑک سے مکان کی جانب آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ یہ کسان تھا جو گھر واپس آرہا تھا۔ کسان ایک اچھے دل کا مالک تھا مگر اُس کی ایک عجیب کم زوری تھی۔ وہ کسی گورکن کو دیکھنا برداشت نہیں کرتا تھا۔ گورکن کو دیکھتے ہی وہ نصف پاگل ہو جاتا تھا۔
پڑوسی قصبے کا گورکن کسان کی بیوی کا قریبی رشتے دار تھا۔ گورکن چوں کہ بہت غریب تھا اس لیے کسان کی بیوی اُس کا خیال رکھتی تھی اور وہ بچپن کے ہم جولی تھے لہٰذا یہ جانتے ہوئے کہ آج شام کسان گھر پر نہیں ہوگا، وہ گورکن اپنی کزن سے ملنے آ گیا تھا اور کسان کی بیوی نے خوشی میں کھانے پینے کی بہترین چیزیں اُس کے سامنے رکھ دی تھیں۔ اب جو اس نے کسان کے گھوڑے کی ٹاپ سنی تو وہ خوف زدہ ہوگئی۔ اُس نے گورکن سے کہا کہ وہ لکڑی کے اس بڑے خالی صندوق میں گھس جائے جو کمرے کے ایک کونے میں رکھا ہوا تھا۔ گورکن نے ایسا ہی کیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ کسان اپنے گھر میں ایک گورکن کو دیکھ کر غصے سے پاگل ہو جائے گا۔
تب کسان کی بیوی نے جلدی جلدی کھانے کی قابوں اور مشروبات کو چولھے کے پیچھے چھپا دیا۔ اُسے خوف تھا کہ اگر اُس کے شوہر نے یہ چیزیں میز پر بھی دیکھیں تو وہ پوچھ سکتا ہے کہ اُس نے کس کی دعوت کے لیے یہ تیاری کی ہے؟
”اوہ خدایا!“ چھوٹے کلاز نے کھانے کی اچھی چیزوں کو نظروں سے اُوجھل ہوتا دیکھ کر آہ بھری۔
”کیا اُو پر کوئی ہے؟“ کسان نے آواز سن کر او پر دیکھا اور وہاں چھوٹے کلاز کو پایا۔
”تم وہاں کیوں لیٹے ہوئے ہو؟ نیچے اتر و اور میرے ساتھ گھر آؤ۔“ لہٰذا چھوٹا کلاز نیچے اُترا اور کسان کو بتایا کہ وہ کس طرح اپنا راستہ بھول گیا اور رات کو رہنے کے لیے اُس نے کسان سے درخواست کی۔
”یقینا!“اچھی فطرت والے کسان نے کہا۔”جلدی اندر آ جاؤ، بھوک لگ رہی ہے۔“‘
کسان کی بیوی نے خوش اخلاقی سے اُن کا استقبال کیا۔ لمبی میز کا ایک سرا کپڑے سے ڈھانکا اور اس پر جو کے دلیے کی سینی رکھ دی۔ کسان بہت بھوکا تھا اور اپنا دلیا جلدی جلدی کھا رہا تھا مگر چھوٹے کلاز کا دھیان اس بھنے ہوئے گوشت، مچھلی اور کیک کی جانب لگا ہوا تھا جو چولہے کے پیچھے چھپا دیا گیا تھا۔ چوں کہ دلیا کھانے سے اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی لہٰذا اس نے اپنا تھیلا، جس میں گھوڑے کی سوکھی ہوئی کھال تھی، میز کے نیچے رکھا اور اسے اپنے پاؤں سے دبانے لگا۔ یہاں تک کہ خشک کھال اونچی آواز میں چر مرا نے لگی۔
”ہش!“ چھوٹے کلاز نے اپنے تھیلے سے سرگوشی کی اور اسی وقت دوبارہ تھیلے کو دبانے لگا تا کہ اس میں سے پہلے سے زیادہ بلند آواز یں آنے لگیں۔ کسان نے پوچھا:
”تمھارے اس تھیلے میں کیا ہے؟“
چھوٹے کلاز نے جواب دیا:
”اس میں ایک چھوٹا سا جادوگر ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں دلیا کھانے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ اس نے اپنے جادو سے بھنا ہوا گوشت، تلی ہوئی مچھلی، کیک اور مشروبات تیار کر کے چولھے کے پیچھے رکھ دیے ہیں۔“
کسان چلایا:
”تم نے کیا کہا، جادوگر؟“ اور بھاگ کر اس نے چولھے کے پیچھے دیکھا۔ یہ سب چیزیں وہاں موجود تھیں جو کسان کی بیوی نے چھپائی تھیں۔ مگر کسان سمجھا کہ یہ تھیلے میں موجود جادوگر کا کمال ہے۔ کسان کی بیوی خوف کے مارے ایک لفظ کہنے کی جرات نہ کرسکی۔ وہ بھی تقریباً اتنی ہی حیران ہوئی جتنا اُس کا شوہر تھا۔ اُس نے یہ چیزیں میز پر چن دیں۔
کسان اور اس کا مہمان خوشی خوشی کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ کھانے کے بعد مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسان نے سوچا کہ ایسا جادو گر رکھنا کتنی اچھی بات ہے۔
آخر اس نے کہا:
”تمھارا جادو گر تو واقعی بہت شان دار ہے۔ تمھارا کیا خیال ہے! کیا یہ جادو گر مجھے ایک شیطان بنا کر دکھا سکتا ہے؟ میں ایک شیطان دیکھنا پسند کروں گا۔“
چھوٹے کلاز نے جواب دیا:
”کیوں نہیں! میرا جادوگر ہر کام کر سکتا ہے۔“
اُس نے اپنے تھیلے کو دباتے ہوئے کہا:
”کیوں جادو گر! کیا تم نہیں کر سکتے؟“
اُس نے کسان سے پوچھا:
”کیا تم اسے ہاں کہتے ہوئے نہیں سن رہے؟ مگر میں تم کو پہلے ہی خبر دار کر دوں کہ وہ شیطان ایک سیاہ اور بدصورت شخص کی شکل میں نظر آئے گا اور شاید تم اسے دیکھنا پسند نہ کرو۔“
کسان نے کہا:
”اوہ میں خوف زدہ نہیں ہوں۔ وہ کس قسم کا ہوگا؟“
چھوٹا کلاز بولا:
”وہ بالکل ایک گورکن جیسا ہو گا۔“
کسان نے کہا:
”ایک گورکن! افسوس! تم نہیں جانتے کہ میں ایک گورکن کو دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا مگر خیر کوئی بات نہیں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ کوئی اصل گور کن نہیں ہو گا۔ مجھے اس کی کوئی پروانہیں ہوگی لیکن اُسے مجھ سے بہت قریب نہ آنے دینا۔“
چھوٹے کلاز نے کہا: خوب!
”خوب! میں جادوگر سے دوبارہ پوچھتا ہوں۔“ اور یہ کہہ کر تھیلا دبانے لگا۔ یہاں تک کہ وہ ”چوں چوں“ کرنے لگا۔
کسان نے پوچھا:
”اب وہ کیا کہہ رہا ہے؟“
”وہ کہتا ہے کہ تمھیں سامنے والے کونے میں رکھے ہوئے بڑے صندوق کو کھولنا ہوگا۔ تم صرف ڈھکن اُٹھانا اور پھر تم اندر شیطان کو چھپے ہوئے دیکھ لو گے مگر تمھیں ڈھکن کو مضبوطی سے پکڑ نا ہوگا تا کہ وہ باہرنہ نکل سکے۔“
کسان صندوق کی طرف لپکا جہاں اُس کی بیوی نے اصلی گورکن کو چھپایا ہوا تھا۔ کسان نے ڈھکن کو تھوڑ اسا اُٹھایا اور اندر جھانکا۔ پھر فوراً ہی خوف سے چیختا ہوا پیچھے ہٹ گیا:
”میں نے اسے دیکھ لیا، وہ بالکل ہمارے گورکن جیسا ہے۔ اوہ! کتنا خوف ناک منظر تھا۔“
وو دونوں دوبارہ میز پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ کسان نے کہا:
”کیا تم جانتے ہو؟ میں تمھارا جادو گر خریدنے کے بارے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ کیا تم اسے بیچنا پسند کرو گے؟ منہ مانگی قیمت دوں گا۔ مجھے کوئی پروا نہیں اگر مجھے ایک من اشرفیاں بھی اسی وقت ادا کرنی پڑیں۔“
چھوٹے کلاز نے کہا:
”تم ایسی بات کہہ سکتے ہو؟ یہ اتنا کارآمد اور وفادار ملازم جادوگر ہے کہ میں اسے چھوڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، چاہے مجھے اس کے بدلے میں اس کے وزن سے دس گنا زیادہ سونا بھی دیا جائے۔“
کسان نے کہا:
”میں تمھیں اتنا زیادہ سونا دینے کی پیش کش نہیں کر سکتا مگر پھر بھی میں اسے خرید نا بہت زیادہ پسند کروں گا۔“
چھوٹے کلاز نے کچھ بحث کے بعد آخر کہا:
”اچھا، چوں کہ تم نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے ایک رات رہنے کی جگہ دی ہے لہٰذا میں تم سے انکار نہیں کروں گا۔ میں تمھیں اپنا جادوگر صرف ایک من اشرفیوں کے بدلے دے سکتا ہوں۔“
کسان نے خوش ہو کر کہا:
”بالکل ٹھیک، مگر تمھیں یہ صندوق بھی لے جانا ہوگا۔ میں اسے اپنے گھر میں ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ مجھے ہمیشہ اُس خوف ناک گورکن کی یاد دلاتا رہے گا جس کا چہرہ میں نے اس کے اندردیکھا تھا۔“
لہٰذا سودا طے ہو گیا اور چھوٹے کلاز نے کسان کو اپنا تھیلا، جس میں سوکھی کھال تھی، ایک من اشرفیوں کے بدلے بیچ دیا۔ کسان نے اُسے ایک ہتھ گاڑی بھی دی جس پر وہ اشرفیاں اورصندوق اُٹھا کر لے جا سکے۔
چھوٹے کلاز نے کہا:
”خدا حافظ۔“ اور اپنی ہتھ گاڑی لے کر چل پڑا۔
جنگل کی ایک جانب ایک بہت چوڑے پاٹ کا دریا بہتا تھا جس کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ کوئی اس کے مخالف رُخ پر تیر نہیں سکتا تھا۔ چھوٹے کلاز نے اس دریا کے اوپر بنے ہوئے پل پر چلنا شروع کر دیا مگر اس کے بیچ میں پہنچ کر رک گیا اور با آواز بلند کہنے لگا تا کہ گورکن بھی سن لے:
”بھئی! یہ صندوق آخر میرے کس کام کا ہے؟ کیوں نہ میں اسے دریا میں پھینک دوں۔ اگر یہ میرے پیچھے تیرتا ہوا گھر آ گیا تو ٹھیک ہے، اگر نہیں آیا تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘اس نے صندوق پکڑا اور ایسا ظاہر کیا جیسے واقعی اُسے دریا میں پھینکنے جارہا ہو۔
صندوق کے اندر سے گورکن چلایا:
”ایسا مت کرو۔ میں تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔ پہلے مجھے باہر آنے دو۔“
چھوٹا کلاز خوف زدہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے چلایا:
”ارے! کیا یہ جادو کا صندوق ہے؟ اگر ایسا ہے تو جتنی جلدی یہ دریا میں ڈوب جائے،اتناہی اچھا ہو گا۔“
گورکن چلایا:
”اوہ!نہیں نہیں، مجھے باہر آنے دو۔ میں تمھیں ایک من اور اشرفیاں دوں گا۔“
”آہا… ایک بالکل دوسرا معاملہ ہے۔“ چھوٹے کلاز نے کہا اور صندوق نیچے رکھ کر ڈھکن کھول دیا۔ گورکن اپنی رہائی پر خوش ہوتا ہوا باہر نکل آیا۔ اس نے لات مار کر خالی صندوق کو پانی میں پھینک دیا اور چھوٹے کلاز کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ جہاں اس نے حسب وعدہ ایک من اشرفیاں دیں۔ اب چھوٹے کلاز کے پاس اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک ہتھ گاڑی تھی۔
”مجھے اپنے گھوڑے کی کھال کی بہت اچھی قیمت مل گئی۔“اس نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنے آپ سے کہا اور ایک ڈھیری کی صورت میں اشرفیاں فرش پر الٹ دیں۔
”بڑا کلاز کتنا حسد کرے گا جب اُسے پتہ چلے گا کہ میرے گھوڑے کی کھال نے مجھے کتنا امیر بنادیا ہے مگر میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟“
پھر اُس نے ایک چھوٹے لڑکے کو بڑے کلاز کے پاس بھیجا تا کہ وہ من کا وزن کرنے والاتر از وادھار لے آئے۔
”من کو تولنے والے ترازو سے وہ کیا کام لے گا بھلا؟“
بڑے کلاز نے سوچا اور اُس نے چالا کی سے ترازو کی تہ میں چکنی مٹی مل دی تا کہ جو کچھ بھی اس میں تولا جائے گا، اس میں سے کچھ تہ میں چپکا رہ جائے گا اور یہی ہوا۔ جب تر از ووا پس آیا تو اس نے چاندی کی تین اشرفیاں اس کی تہ میں چپکی ہوئی پائیں۔ بڑا کلاز چلایا:
”اوہ میرے خدایا!“
وہ اپنے ہم نام کے گھر کی جانب دوڑ پڑا اور اس سے سوال کیا:
”تمھارے پاس اتنی اشرفیاں کہاں سے آئیں؟“
جواب آیا:
”میرے گھوڑے کی کھال سے، جو میں نے کل فروخت کی۔“
بڑے کلاز نے کہا:
”کیا گھوڑوں کی کھالیں اس قدر مہنگی ہیں؟ کون یہ سوچ سکتا تھا؟“
اور وہ سیدھا گھر بھاگا۔ ایک کلہاڑی لی۔ اپنے چاروں گھوڑوں کو اس سے مار ڈالا اور پھر چاروں کی کھالیں اُتار لیں۔ پھر انھیں لے کر قصبے میں بیچنے چل پڑا۔ کھالیں…کھالیں…کون کھالیں خریدے گا؟“وہ سڑکوں سے گزرتے ہوئے چلا رہا تھا۔ قصبے کے تمام موچی اور چمڑا رنگنے والے اُس کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے کہ وہ ان کھالوں کے بدلے کیا چاہتا ہے؟
بڑے کلاز نے جواب دیا:
”ہر کھال کے بدلے میں ایک من اشرفیاں۔“
اُنھوں نے کہا:
”کیا تم پاگل ہو؟ تمھارے خیال میں کیا ہمارے پاس اتنی اشرفیاں ہیں کہ ہم منوں کے حساب سے اسے خرچ کر سکیں؟“
بڑا کلاز دوبارہ چلایا:
”کھالیں…تازہ کھالیں کون کھالیں خریدے گا؟“
جتنے بھی لوگوں نے اس سے پوچھا کہ بدلے میں کیا چاہتا ہے تو اس نے یہی جواب دیا:
”ایک من اشرفیاں۔“
آخر کسی نے انتہائی غصے سے کہا:
”یہ گنوار ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔“
تب موچیوں نے اپنے چمڑے کے تسمے لیے اور چمڑا رنگنے والوں نے اپنے چمڑے کے پیش بند (ایپرن) اُٹھائے اور بڑے کلا ز کو مارنے لگے۔ اُنھوں نے بڑے کلا ز کی نقل اُتاری:
”کھالیں…تازہ کھالیں… اچھی تازہ کھالیں۔ اب ہم خود اس کی کھال کو کالا اور نیلا کردیں ہے۔ اس عظیم گدھے کو قصبے سے باہر نکال دو۔“لہٰذا انھوں نے بڑے کلاز کو مار مار کر قصبے سے باہر نکال دیا۔
بڑا کلا ز بڑبڑایا:
”چھوٹے کلاز کو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ میں اسے مار مار کر ہلاک کر دوں گا۔“
اتفاق سے اُسی شام چھوٹے کلاز کی دادی کا انتقال ہو گیا۔ وہ نہایت بدمزاج اور غصے والی خاتون تھیں اور چھوٹے کلاز کے ساتھ اُن کا رویہ کافی خراب تھا مگر چھوٹا کلاز اُن کے مرنے سے بہت افسردہ تھا۔ لہٰذا اس نے مردہ دادی کو اٹھا کر اپنے گرم بستر پر لٹا دیا کہ شاید گرمی پا کر وہ پھر سے زندہ ہو جائیں۔ اپنے لیے اُس نے سوچا کہ وہ رات کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی کرسی پر گزار سکتا ہے۔ جس طرح اس سے پہلے وہ اکثر گزار چکا تھا۔
نصف رات کے قریب اُس کے گھر کا دروازہ کھلا اور بڑا کلاز ایک کلہاڑی ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ چھوٹے کلاز کا بستر کہاں ہے لہٰذاوہ سیدھا بستر کی طرف گیا اور مردہ دادی کو چھوٹا کلازسمجھتے ہوئے ایک وحشیانہ ضرب اُن کے سر پر لگائی۔
وہ چلایا:
”یہ تمھارا انجام ہے۔ اب تم مجھے دوبارہ کبھی بے وقوف نہیں بنا سکو گے۔“ اور وہ گھر چلاگیا۔
چھوٹے کلاز نے آہ بھری:
”کیا مکار آدمی ہے۔ تو وہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے، یہ ایک اچھی بات ہوئی کہ دادی پہلے ہی مر چکی تھیں ورنہ اس ضرب سے وہ بہت زیادہ زخمی ہو جاتیں۔“
اُس نے اپنی دادی کو چھٹی والے دن کے کپڑے پہنائے، پڑوسی سے ایک گھوڑا اُدھار لیا، اسے تانگے میں جوتا، اپنی دادی کو پچھلی نشست پر اس طرح بٹھایا کہ وہ تا نگا چلنے سے گر نہ پڑیں اور اس طرح جنگل میں چل پڑا۔ سورج طلوع ہونے پر وہ ایک بڑے ہوٹل کے پاس پہنچا۔ یہاں چھوٹا کلاز اتر گیا اور کچھ کھانے کے لیے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔ ہوٹل کا مالک ایک امیر اور معقول آدمی تھا مگر اُس کا مزاج ہری مرچ کی طرح تیز تھا۔
”صبح بخیر!“ اُس نے چھوٹے کلاز سے کہا۔
”آج اتنے صبح سویرے کیسے آگئے؟“
چھوٹے کلاز نے کہا:
”میں اپنی دادی کے ساتھ قصبے جارہا ہوں۔ وہ تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی ہیں مگر وہ اندر نہیں آنا چاہتیں۔ کیا تم خود ان کے لیے ایک گلاس شربت نہیں لے جا سکتے؟ یہ ضرور ہے کہ تمھیں بہت اونچا بولنا پڑے گا کیوں کہ وہ اچھی طرح نہیں سن سکتیں۔“
مالک نے کہا:
”ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔“
پھر وہ ایک بڑا گلاس شربت لے کر باہر چلا گیا۔ جہاں دادی اماں تانگے میں اکڑ کر سیدھی بیٹھی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔
مالک نے کہا:
”آپ کے پوتے نے آپ کے لیے شربت کا ایک گلاس بھیجوایا ہے۔“ مگر مری ہوئی دادی نے جواب میں ایک لفظ بھی نہ کہا اور بالکل خاموش بیٹھی رہیں۔
مالک اتنے زور سے چلا یا جتنا وہ چلا سکتا تھا:
”کیا آپ سن نہیں رہیں؟ آپ کے پوتے نے آپ کے لیے شربت کا ایک گلاس بھیجاہے۔“
بار بار اُس نے چلا کر یہی کہا لیکن دادی ہلی بھی نہیں۔ مالک غصے سے بے قابو ہو گیا اور شربت کا گلاس کھینچ کر دادی کے منہ پر دے مارا۔ گلاس دادی کی ناک پر جا کر لگا اور وہ تانگے میں پیچھے کی جانب گر پڑیں کیوں کہ وہ صرف سیدھی پشت لگا کے بٹھائی گئی تھیں اور بندھی ہوئی نہیں تھیں۔
چھوٹا کلاز ہوٹل سے دوڑ کر نکلتے ہوئے چلایا اور مالک کا گلا دبوچ لیا:
”کیا کیا تم نے؟ میری دادی کو مارڈالا۔ دیکھو! اُن کی پیشانی پر کتنا گہرا گھاؤ آیا ہے۔“
مالک ہاتھ ملتے ہوئے بولا:
”اوہ! کیا بد قسمتی ہے۔ یہ سب میرے تیز غصے کی وجہ سے ہوا۔ پیارے چھوٹے کلاز!میں تمھاری دادی کو اپنی دادی سمجھ کر دفن کروں گا اور میں تمھیں ایک من اشرفیاں دوں گا۔ بس صرف تم اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہ بتانا ور نہ لوگ مجھے مارڈالیں گے اور یہ بہت برا ہوگا۔“
چھوٹا کلاز مان گیا لہٰذا ایک من اشرفیاں اور مل گئیں اور ہوٹل کے مالک نے اُس کی دادی کو دفنا دیا۔ چھوٹے کلاز نے گھر جاتے ہی اپنے لڑکے کو بڑے کلاز سے تر از و مانگنے کے لیے بھیج دیا۔
بڑے کلاز نے کہا:
”یہ کیا بات ہوئی۔ کیا میں اُسے قتل نہیں کر چکا تھا؟ مجھے خود اس معاملے کی تحقیق کرنا ہو گی۔ لہٰذاو ہ خود تراز و لے کر چھوٹے کلاز کے گھر گیا۔اُس نے کہا:
”تم اتنی ڈھیر ساری اشرفیاں کہاں سے لائے ہو؟“
چھوٹے کلاز نے کہا:
”تم نے میرے بجائے میری دادی کو قتل کر دیا تھا لہٰذا میں نے انھیں ایک من اشرفیوں کے بدلے میں فروخت کر دیا۔“
بڑے کلاز نے کہا:
”ایک فوت شدہ دادی کی یہ بہت اچھی قیمت ہے۔“
وہ گھر گیا، ایک کلہاڑی لی اور اپنی دادی کو قتل کر دیا۔ پھر اُس نے اُسے ایک تانگے میں ڈالا اور قصبے کے عطار کے پاس گیا۔ اُس نے عطار سے دریافت کیا کہ وہ ایک لاش خریدے گا؟
عطار نے پوچھا:
”وہ کس کی لاش ہے اور تم نے اُسے کہاں سے حاصل کیا؟“
بڑے کلاز نے جواب دیا:
”وہ میری دادی ہے۔ میں نے اُسے قتل کیا ہے تا کہ میں اُس کی لاش کے بدلے ایک من اشرفیاں حاصل کر سکوں۔“
عطار نے کہا:
”خدا تم پر رحم کرے، کیا تم دیوانے ہو جو ایسی باتیں کر رہے ہو؟ اب اس جرم کی وجہ سے تمھارا سر قلم کر دیا جائے گا۔“
پھر اس نے سنجیدگی سے اُسے بتانا شروع کیا کہ اُس نے کتنا بڑا جرم کیا ہے اور اس نوعیت کا مجرم سزا پائے بغیر نہیں چھوٹ سکتا۔ اُس نے بڑے کلاز کو اس حد تک خوف زدہ کر دیا کہ وہ عطار کی دُکان سے باہر بھاگا۔ تانگے میں چھلانگ لگا کر سوار ہوا۔ گھوڑے کو چابک رسید کیا اور گھر کی جانب چل پڑا۔ عطار اور دوسرے تمام لوگوں نے اسے پاگل سمجھتے ہوئے جانے دیا۔
”تمھیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی چھوٹے کلاز!‘“بڑا کلاز گھر کے قریب پہنچ کر بڑبڑایا۔ گھر پہنچتے ہی اُس نے بہت بڑا تھیلا اُٹھایا اور چھوٹے کلاز کے پاس پہنچ گیا۔
”تو تم نے مجھ سے ایک اور چال چلی تھی، پہلے تم نے میرے گھوڑوں کو مار ڈالا اور پھر دادی کو۔ یہ تمھاری چال تھی مگر اب تم مجھے آئندہ بے وقوف نہیں بنا سکو گے۔“ یہ کہہ کر بڑے کلاز نے چھوٹے کلا زکو پکڑ کر باندھا اور تھیلے میں ٹھونس کر اپنے کندھے پر تھیلا ڈالتے ہوئے بولا:
”اب میں تمھیں ڈبونے جارہا ہوں۔“
لیکن دریا تک پہنچنے کے لیے اُسے ایک طویل سفر کرنا تھا اور چھوٹے کلاز کا وزن کوئی ہلکا وزن نہیں تھا۔ جب وہ چرچ کے قریب سے گزرا تو ساز بج رہا تھا۔ کیوں کہ مذہبی اجتماع اُسی وقت شروع ہوا تھا۔ عبادت کرنے والوں کے اجتماع میں بڑے کلاز کو ایک شخص نظر آیا جس سے وہ کچھ بات کرنا چاہتا تھا اور چھوٹا کلاز خود سے اس تھیلے سے باہر نہیں آسکتا تھا۔
اُس نے سوچا کہ اور کوئی شخص اس کی مدد بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ سب لوگ چرچ کے اندر ہیں۔ کیوں نا میں اندر جا کر دو منٹ اُس شخص سے بات کرلوں۔ یہ سوچ کر اُس نے تھیلا نیچے رکھ دیا اور چرچ کے اندر چلا گیا۔
چھوٹے کلاز نے تھیلے کے منہ پر بندھی رسی کو ڈھیلا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آہ بھر کر کہا:
”اوہ مالک، اوہ مالک!“
اُسی وقت ایک بہت بوڑھا مویشیوں کا بیو پاری نزدیک سے گزرا۔ اُس کے بال برف کی طرح سفید تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھی جس کی مدد سے وہ گائے اور بیلوں کے ایک گلے کو ہانک رہا تھا مگر گلہ اس سے کہیں زیادہ بڑا تھا جتناوہ ہانکنے کے قابل تھا کیوں کہ وہ بہت کم زور تھا۔ ایک بیل تھیلے سے جا کر ٹکرایا اور تھیلا لڑ کنے لگا۔
”آہ!“ چھوٹا کلاز چلایا:
”میں اس قدر جوان ہونے کے باوجود اتنی جلدی جنت میں جا رہا ہوں۔“
”اور میں غریب آدمی۔“ بوڑھے بیوپاری نے آہ بھری:”اتنا بوڑھا ہونے کے باوجود جنت میں نہیں جاسکتا۔“
چھوٹے کلاز نے کہا:
”تھیلا کھول دو، میرے بجائے تم تھیلے میں گھس جاؤ، پھر تم چندلمحوں میں آسمان پر ہو گے۔“
بوڑھے بیوپاری نے کہا:
”ہاں! میں یہی کروں گا۔“ اور تھیلا کھول دیا جس میں سے چھوٹا کلاز اُچھل کر باہر آ گیا۔
بوڑھے بیو پاری نے تھیلے کے اندر رینگتے ہوئے کہا:
”کیا تم میرے مویشیوں کی دیکھ بھال کرو گے؟“
چھوٹے کلاز نے ”ہاں“ کہہ کر تھیلے کو باندھ دیا۔ پھر تمام گائے بیلوں کے ساتھ آگے چل دیا۔
اُس وقت بڑا کلاز واپس بھاگتا ہوا آیا۔ اُس نے تھیلا اُٹھایا اور اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ اُسے یہ ہلکا محسوس ہوا کیوں کہ بوڑھا بیو پاری چھوٹے کلاز کے وزن کا آدھا بھی نہیں تھا۔ بڑے کلاز نے کہا:
”بوجھ اب کتنا ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ یہ یقینا اس وجہ سے ہے کہ میں خدا کی حمد سنتار ہا ہوں۔“
در یا پر پہنچ کر اس نے تھیلے کو پانی میں پھینک دیا اور چلایا:
”اب تم مجھے کبھی دھوکا نہیں دے سکو گے، چھوٹے کلاز!“
پھر وہ گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ مگر راستے میں اُسے چھوٹا کلاز بہت سارے مویشیوں سمیت ملا۔
بڑے کلاز نے پوچھا:
”کیا یہ واقعی تم ہو؟ کیا میں نے تمھیں ڈبونہیں دیا تھا؟“
”ہاں!“ چھوٹے کلاز نے کہا:”تم نے مجھے آدھے گھنٹے پہلے دریا میں پھینکا تھا۔“
بڑے کلاز نے دریافت کیا۔”مگر پھر تم ان تمام خوب صورت مویشیوں کے ساتھ کیسے باہر نکل آئے؟“
چھوٹا کلاز بولا:
”یہ سمندری مویشی ہیں۔ میں تمھیں ساری کہانی سناتا ہوں۔ مجھے ڈبونے کا شکریہ، اس سے میں بے حد امیر ہو گیا ہوں۔ جب تم نے مجھے پل سے دریا میں پھینکا تو میں بے حد خوف زدہ تھا۔ میں فور اًدریا کی تہہ میں چلا گیا مگر میں زخمی نہیں ہوا تھا۔ کیوں کہ میں نرم اور تازہ گھاس پر گرا تھا۔ فوراًہی تھیلے کا منہ کھل گیا اور ایک خوب صورت چھوٹی لڑکی میری طرف آئی۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس تھی۔ سبز پتوں کا تاج لگائے ہوئے شاید وہ جل پری تھی۔ اُس نے مجھ سے کہا:
”تو تم آگئے چھوٹے کلاز! یہاں تمھارے لیے چند مویشی ہیں۔ یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر ایک اور زیادہ بڑا گلہ چر رہا ہے۔ وہ گلہ بھی تم لے جا سکتے ہو۔ تب میں نے دیکھا کہ دریا ایک قسم کی شاہ راہ ہے جس پر سمندر سے لوگ آجارہے ہیں۔ دریا کی تہہ دنیا کی خوب صورت ترین جگہ ہے۔ جو حسین پھولوں اور خوش بودار گھاس سے ڈھکی ہوئی ہے اور بہت خوش لباس لوگ میں نے وہاں دیکھے اور بہت اچھے مویشی میں نے وہاں چرتے ہوئے پائے۔“
بڑے کلاز نے پوچھا:
”تو پھر تم نے باہر آنے میں اتنی جلدی کیوں کی؟ اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو کبھی اتنی خوب صورت جگہ چھوڑنے کے بارے میں نہ سوچتا۔“
چھوٹے کلاز نے کہا:
”کیا میں نے تمھیں نہیں بتایا کہ سمندری جل پری نے مجھے بتایا ہے کہ ایک میل آگے سڑک پر اور سڑک سے اُس کی مراد صرف دریا ہو سکتا ہے کیوں کہ پری ہماری زمینی سڑکوں پر نہیں آسکتی۔ میرے لیے ایک زیادہ بڑا گلہ موجود ہے مگر میں جانتا ہوں کہ دریا بہت زیادہ موڑ مڑتا ہے اور اس کا راستہ بہت بیچ دار ہوتا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ میں زمینی راستے پر سفر کر کے اپنا نصف میل بچا سکتا ہوں۔ لہٰذا اب میں اپنے سمندری مویشی حاصل کرنے جارہا ہوں۔“
بڑا کلاز چلایا:
”تم کتنے خوش قسمت انسان ہو! تمھارا کیا خیال ہے۔ اگر میں بھی دریا کی تہہ میں چلا جاؤں تو کیا مجھے بھی چند مویشی مل جائیں گے؟“
چھوٹے کلاز نے کندھے اچکا کر کہا:
”میں کیا کہہ سکتا ہوں؟“
بڑا کلاز چلایا:
”تم بہت حاسد انسان ہو اور تمام خوب صورت مویشی خود رکھنا چاہتے ہو، میں سمجھ گیا۔ اگر تم مجھے پانی کے کنارے لے جا کر وہاں سے دھکا نہیں دو گے تو میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ اب تم فیصلہ کرلو۔“
چھوٹے کلاز نے التجا کی:
”براہ مہربانی غصے میں مت آؤ۔ میں تمھیں تھیلے میں ڈال کر دریا تک نہیں لے جا سکتا۔ کیوں کہ تم بہت وزنی ہو لیکن اگر تم میرے ساتھ پیدل چل کر وہاں چلے اور پھر تھیلے میں گھس گئے تو میں تمھیں خوشی سے دریا میں پھینک دوں گا۔“
بڑے کلاز نے دھمکی دی:
”لیکن اگر میں نے وہاں سمندری مویشی نہیں پائے تو میں واپس آتے ہی تمھیں قتل کر دوں گا۔ یہ یا درکھنا!“
وہ دریا کی جانب اکٹھے چل پڑے۔ جیسے ہی مویشیوں نے پانی کو دیکھا۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بھاگے، ہر ایک سب سے پہلے پانی پینا چاہتا تھا۔ چھوٹے کلاز نے کہا:
”ذرا میرے سمندری مویشیوں کو دیکھو۔ وہ دریا کی تہہ میں واپس جانے کے کتنے خواہش مندہیں۔ بڑے کلاز نے کہا:
”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر تمھیں میری مدد کرنی ہوگی۔“
یہ کہہ کر اس نے ایک بیل کے اوپر پڑے تھیلے کو اٹھایا اور اس میں گھس گیا۔ بڑے کلاز نے پھر کہا:
”میرے ساتھ ایک بھاری پتھر بھی ڈال دو۔ ورنہ شاید میں تہہ تک نہ ڈوب سکوں۔“
چھوٹے کلاز نے جواب دیا:
”اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔“
تاہم اس نے تھیلے میں ایک بڑا پتھر ڈالا، رسی کس کر باندھی اور تھیلے کو دریا میں پھینک دیا۔وہ سیدھا تہہ کی جانب چلا گیا۔
چھوٹے کلاز نے پل سے نیچے جھانکتے ہوئے کہا:
”مجھے ڈر ہے وہ اپنے سمندری مویشی کبھی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔“
پھر وہ اپنا گلہ ہانکتے ہوئے قصبے میں اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔