skip to Main Content

برتن بنانے والا جیک

آئر لینڈ کی لوک کہانی
اردو ترجمہ:محمد فیصل
۔۔۔۔۔

آئر لینڈ کے علاقے لیمرک کے ایک قصبے بیلنگیری میں جیک نامی ایک شخص رہتا تھا جو برتن بنانے اور ان کی مرمت کا کام کرتا تھا۔آپ یہ جان لیں کہ ہر برتن بنا نے والا بہت غریب ہوتا ہے اور بمشکل گزربسر کرتا ہے۔مگر جیک باقی برتن بنانے والوں سے تھوڑا سا بہتر تھا۔وہ ایک آرام دہ گھر اور ایک باغیچے کا مالک تھا،مگر اس کا ذریعہ معاش ایسا تھا کہ وہ مختلف قصبوں اور شہروں میں سفر کرتا اور لوگوں کو نئے برتن بنا کر دیتا یا پھر ان کے پرانے برتن مرمت کر دیتا۔کچھ مہینے سفر کرتا اور اس آمدنی سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بقیہ مہینے اپنے گھر پر رہتا۔ایک دن وہ معمول کے مطابق کمائی کرنے نکلا کہ اسے راستے میں ایک بزرگ ملے۔دونوں کچھ دیر اکٹھے سفر کرتے رہے۔جیک نے بزرگ کا خیال رکھا اور بزرگ بھی اس کی خدمت اور سادہ لوحی سے بہت خوش ہوئے۔انھوں نے اسے مخاطب کیا:
”سنو اے جوان!میں تم سے بہت خوش ہوا ہوں اور تمھاری کوئی سی تین خواہشیں بھی پوری کردوں گا۔مانگو کیا مانگتے ہو؟“
جیک کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا: ”آپ نے مجھ سے میری خواہش پوچھی ہے تو میں آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ میرے گھر ایک ہی کرسی ہے جو بھی آتا ہے اس پر بیٹھ جاتا ہے اور مجھے کھڑا رہناپڑتا ہے۔آپ اس طرح کریں کہ جو بھی اجنبی اس پر بیٹھے وہ میری مرضی کے بغیر وہاں سے اٹھ نہ سکے۔“
بزرگ کا منہ ہی کھل گیا۔اس نے کہا:
”ٹھیک ہے! اب دوسری خواہش اور ہاں اب سوچ سمجھ کر خواہش کرنا“۔
جیک پھر کچھ سوچنے لگا اور بولا:
”میرے باغیچے میں سیب کا ایک درخت ہے،جس پر بہت عمدہ سیب اُگتے ہیں،مگر اڑوس پڑوس کے لڑکے بالے اور گلہریاں وغیرہ سارے سیب چرا لیتے ہیں یا خراب کردیتے ہیں۔آپ ایسا کچھ کریں کہ جو بھی میرے سیبوں کو ہاتھ لگائے میری مرضی کے بغیر اپنا ہاتھ نہ چھڑا سکے۔“
بزرگ نے اسے تھوڑی دیر دیکھا اور بولے:
”ٹھیک ہے! مگر اب تیسری اور خواہش ایسی کرنا جس سے تمھیں فائدہ پہنچے!“
جیک کافی دیر سوچتا رہا اور بولا:
”میری بیوی اُون کاتتی ہے اور اپنی اُون ایک تھیلے میں رکھتی ہے۔اس تھیلے سے بونے اکثراُون چرا لیتے ہیں۔آپ ایسا کردیں کہ جو بھی اس تھیلے میں اُون کو ہاتھ لگائے وہ تھیلے میں قید ہوجائے اور میری مرضی کے بنا وہاں سے نکل نہ سکے۔“
بزرگ کو جیسے سکتہ ہوگیا مگر وہ بولا:
”ٹھیک ہو گیا! مگر تم نے اپنے فائدے کی تو کوئی چیز نہیں مانگی۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنی راہ لی۔جیک کچھ مہینے ادھر ادھر گھوما،کچھ رقم جمع کی اور گھر واپس آگیا۔کچھ دن گزرے کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔وہ پورا سال کہیں نہ جاسکا اور اس کی تمام جمع پونجی آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔اس کے گھر فاقے شروع ہوگئے اور جیک ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ایک دن اس کے گھر ایک اجنبی آیا اور جیک کو مخاطب کر کے بولا:
”میں جانتا ہوں کہ تمھارے حالات بہت بگڑ چکے ہیں اور تم اور تمھارے بچے فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔میں تم سے ایک معاہدہ کرتا ہوں۔میں سات سال تمھیں ہر ماہ ایک معقول رقم دوں گا۔اتنی کہ تم آرام سے زندگی گزار دومگر صرف سات سال۔اس کے بعد تم میرے غلام بن جاؤ گے!“
جیک نے اسے بغور دیکھا اور پوچھا:
”آپ کون ہیں؟“
”میں تمھیں سچ بتاؤں گا۔میں شیطان ہوں۔“
جیک کچھ دیر سوچتا رہا۔اس کے سامنے اس کے حالات تھے لہٰذا وہ شیطان سے معاہدہ کر بیٹھا اور وعدے کے مطابق سات سال ہر مہینے اسے انتہائی معقول رقم ملنے لگی اور اس کی زندگی اتنی پرسکون ہوگئی کہ اس نے اپنا کام بھی چھوڑ دیا۔سات برس جیسے پلک جھلکتے گزر گئے۔سات سال بعد شیطان ان کے گھر آن دھمکا اور اسے اپنا وعدہ یاد دلایا۔جیک بولا:
”جی بالکل!مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔آپ اس طرح کریں ذرا اس کرسی پر بیٹھیں میں اپنے بچوں اور بیوی سے مل لوں۔“
اس نے اس کرسی کی طر ف اشارہ کیا جس کے لیے اس نے بزرگ سے خواہش کی تھی۔شیطان اس کرسی پر بیٹھ گیا۔جیک اپنے بیوی بچوں سے ملا اور آکر بولا:
”چلیں!“
شیطان نے اٹھنے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔وہ جتنا زور لگاتا،جتنے منتر پڑھتا سب بے کار۔آخر اس نے جیک کی منت کی:
”میں تمھیں اگلے سات سال پہلے سے دگنی رقم دوں گا مگر مجھے اس کرسی سے نجات دلواؤ۔“
جیک مسکرایا اور اسے آزاد کردیا۔اگلے سات برس پہلے سے بھی زیادہ آرام اور اطمینان سے گزرے۔وہ پورے قصبے میں سب سے امیر آدمی بن گیا۔لوگ اس سے بڑے متاثر ہوتے کہ ایک برتن بنانے والا اتنا امیر اور مال دار ہے۔یہ سات برس بھی گزر گئے۔شیطان پھر اسے لینے آگیااور آتے ہی بولا:
’’چلو!اس بار میں کرسی پر نہیں بیٹھوں گا۔تم جلدی کرو اور میرے ساتھ چلو!“
جیک فوراً بولا: ”جی بالکل چلیں!“
دونوں باہر نکلے۔سیب کے درخت کے سامنے جیک رکا اور بولا:
”ہمارا سفر یقینا بہت لمبا ہوگا۔راستے کے لیے یہ سیب توڑتے ہیں۔“
شیطان بولا:”خیال برا نہیں۔“
جیک نے درخواست کی:”آپ کا قد مجھ سے لمبا ہے لہٰذا آپ کچھ سیب توڑ دیں۔“
شیطان اس کی چال میں آگیا اور سیب کے درخت سے چپک گیا۔اس نے پھر تمام منتر پڑھ لیے، زور لگا لیا مگر بے سود۔آخر اس نے جیک کی منت کی:
”میں تمھیں اگلے سات سال پہلے سے تین گنا زیادہ رقم دیا کروں گا۔مجھے اس اذیت سے نجات دلاؤ۔“
جیک ہنسا اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔اگلے سات سال مزید آسانی کے تھے، مگر جیسے ہر سال گرما کے بعد خزاں آتی ہے، ایسے ہی سات برس گزر گئے اور شیطان جیک کو لینے پھر آن دھمکا اور آتے ہی بولا:
”تمھارا وقت پورا ہوا۔چلو میرے ساتھ۔اس بار میں تمھاری کسی چال میں نہیں آؤں گا۔“
جیک گھر سے اپنی بیوی کا اُون والا تھیلا کندھے پر رکھ کر روانہ ہوا۔دونوں کافی دیر چلتے رہے پھر آرام کے لیے ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔جیک اسے اپنے بچپن کے بارے میں بتارہا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اس تھیلے میں چھپ جاتا تھا۔شیطان ہنسا اور بولا:
”یہ کیسے ممکن ہے؟“
جیک فوراً بولا:”تم خود تجربہ کرلو۔“
شیطان اس کی باتوں میں آگیا اور اس تھیلے کو اپنے قدموں میں رکھا ہی تھا کہ دھڑام سے اس کے اندر گھس گیا۔جیک نے تھیلا بند کیا اور ایک طرف روانہ ہو گیا۔شیطان نے اس کی بے حد منت سماجت کی مگر بے سود۔جیک ایک طرف بڑھتا رہا۔ایک جگہ تین ہٹے کٹے مرد لکڑی کے ڈنڈوں سے گندم پیس رہے تھے۔جیک نے ان سے کہا:
”برائے مہربانی اس تھیلے کو بھی کوٹ دو۔یہ بہت وزنی ہے۔شاید ہلکا ہوجائے۔“
تینوں مرد زور زور سے ڈنڈے برسانے لگے مگر تھیلا اتنے کا اتنا ہی رہا۔تینوں مرد ایک ساتھ بولے:
”یہ عجیب تھیلا ہے لگتا ہے اس میں شیطان بند ہے۔“
جیک کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری ”شاید“ اور وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔کچھ دیر کے بعد وہ ایک پن چکی پر پہنچااور مالک سے درخواست کی کہ وہ اس کے تھیلے کو چکی میں ڈال دے۔چکی والا مان گیا اور تھیلے کو چکی میں ڈالا مگر تھیلے کو کچھ نہ ہوا بلکہ ایک زوردار آواز کے ساتھ چکی ہی ٹوٹ گئی۔چکی والا بہت غصے ہوا اور بولا:
”دور ہو جاؤ۔یہ تھیلامجھے تو شیطان کا تھیلا لگتاہے۔“
جیک بولا:”یہ شیطان کا تھیلا ہو بھی سکتا ہے۔“ اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ ایک لوہار کی دکان پر پہنچا،جہاں چھ لوہار لوہا کوٹ رہے تھے۔جیک ان سے بولا:
”بھائی صاحب!ذرا اس تھیلے کو بھی کوٹ دینا۔یہ بہت بھاری ہے شاید ہلکا ہوجائے۔“
چھ کے چھ لوہار اپنے ہتھوڑے اٹھا کر تھیلے پر پل پڑے مگر بے سود۔الٹا ان کے ہتھوڑے تڑخ گئے۔ایک لوہار نے غصے میں آکر ایک گرم سلاخ تھیلے پر لگائی مگر تھیلے کا کچھ نہ بگڑا۔جیک نے تھیلا اٹھایا کہ اندر سے شیطان کی روتی ہوئی آواز آئی:
”جیک!مجھے جانے دو۔میں تمھیں پہلے سے چار گنا رقم دیا کروں گا اور تمھیں اپنا غلام بھی نہیں بناؤں گا بس مجھے جانے دو۔میری کمر داغ دی ہے تم نے!“
جیک مسکرایا اور اسے آزاد کردیا۔اس کے بعد اس کی بقیہ زندگی انتہائی آرام اور سکون سے گزری۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top