الف، بے، جیم
کہانی: Ti, Top and Tup
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی چھوٹے سے قصبے میں تین بھائی رہتے تھے جن کے نام الف، بے اور جیم تھے۔ وہ لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا گزارا کرتے تھے جیسا کہ قینچیاں تیز کرنا، کرسیوں کی مرمت کرنا اور ٹوٹے ہوئے برتنوں کو گوند سے جوڑنا۔ وہ خوش باش اور شرارتی نوجوان تھے۔ گلی، گلی گھوم کر وہ آوازیں لگاتے:
”ہے ہے اچھے لوگوں، آﺅ ہمارے پاس آﺅ،
ہم تمھاری کرسیاں تمھارے لیے بنائیں گے،
ہم تمھاری قینچیاں تمھارے لیے چمکائیں گے،
سب لوگ اپنی ٹوٹی ہوئی چیزیں ہم سے ہی جڑوائیں گے“
اور لوگ ان کی آواز سن کر اپنی ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت کرانے گھروں سے نکل آتے تھے۔
ایک دن وہ گھومتے پھرتے ایک ایسے قصبے میں جا نکلے جہاں بہت سے لوگ گلیوں میں جمع تھے اور ہر طرف افراتفری کا سماں تھا۔ ”ہیلو! یہاں کیا ہورہا ہے؟“ الف نے پوچھا۔
”ارے تمھیں نہیں پتا؟“ ایک بوڑھی عورت نے کہا۔ ”کل رات زلزلہ آیا تھا اور لارڈ ہائی چانسلر کا محل اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا۔“
”اوہ! تو کیا محل گرپڑا؟“ بے نے پوچھا۔ ”نہیں! لیکن محل کی تقریباً ہر چیز ہی ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔“ ٹوٹی پھوٹی چیزیں! ”تینوں کے کان بیک وقت کھڑے ہوگئے۔ ”تب ہماری وہاں ضرورت ہے، ہم محل جا کر تمام ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت کریں گے۔ ہماری تو قسمت ہی بدل جائے گی۔ اتنا سارا کام اور وہ بھی لارڈ ہائی چانسلر کے محل میں، واہ!“ انھوں نے ایک د وسرے کا ہاتھ تھاما اور ہنستے، گاتے محل کی جانب چل پڑے۔
”ہم ہیں تین بھائی، کریں گے خوب کمائی،
محل کی چیزیں جوڑیں گے، اپنی قسمت کھولیں گے۔“
”زیادہ خوش فہمی میں نہ رہنا، تم لوگوں کو کوئی زیادہ معاوضہ نہیں ملنے والا!“ ایک دکان دار نے ان کے پیچھے سے آواز لگائی۔ ”کیوں؟“ تینوں بھائیوں نے اکھٹے پوچھا۔
”کیوں کہ چانسلر پوری ریاست کا کنجوس ترین آدمی ہے۔ وہ تو اپنے دیے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونک بھی نہیں مارتا کہ کہیں ایک سانس ضائع نہ ہوجائے۔“ تینوں بھائی ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
محل ایک پہاڑی کے اوپر واقع تھا اور بے حد خوب صورت تھا لیکن اس کی ساری کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں، تینوں بھائی محل کے پچھلے دروازے پر گئے اور دستک دی۔ کچن کی ایک ملازمہ نے دروازہ کھولا۔ ”ہم مزدور ہیں، کیا محل میں ہمارے کرنے کے لائق کوئی کام ہے؟“ جیم نے ادب سے پوچھا۔ ”ہاں کیوں نہیں۔“ ملازمہ نے فوراً کہا۔ ”تم لوگ اندر آجاﺅ، میں جا کر پتا کرتی ہوں کہ چانسلر آپ لوگوں سے ملاقات کرسکتے ہیں یا نہیں۔“ تینوں بھائی اندر آگئے۔ ملازمہ نے باورچی کو بتایا، باورچی نے ہیڈ باورچی کو، ہیڈ باورچی نے چپراسی کو اور چپراسی نے چانسلر کو اطلاع دی۔ ”ہنھ! اندر بلاﺅ انھیں۔“ چانسلر نے کہا۔
تینوں بھائی چانسلر کے کمرے میں داخل ہوئے اور جھک کر سلام کیا۔ ”جناب! ہم ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت کرتے ہیں۔ کیا آپ ہم سے کام لینا پسند کریں گے؟“ الف نے ادب سے کہا۔ ”ہونھ! کل یہاں زلزلہ آیا تھا جس کی وجہ سے محل کی بہت سی چیزیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ تم لوگ یہاں کچھ دن رہ کر وہ سب چیزیں مرمت کرسکتے ہو مگر یاد رکھنا! کام بہترین ہونا چاہیے ورنہ تم سب کے سر قلم کرادوں گا۔“
”قلم کرانے کا کیا مطلب ہوتا ہے جناب؟“ بے نے پوچھا۔ ”ہونھ! حد ہوگئی، تمھیں اتنا بھی نہیں پتا؟ بہتر ہے تم لوگ دوبارہ اسکول میں داخلہ لے لو۔“ چانسلر نے ناک سکوڑی۔ ”لیکن جناب! یہ قلم کرنا ہوتا کیا ہے؟“ جیم نے پوچھا۔ چانسلر کو خود معلوم نہیں تھا لہٰذا وہ بولا: ”کیا احمقانہ سوال ہے! جاﺅ اور جا کر فوراً اپنا کام شروع کرو۔“
تینوں بھائی گوند سے بھری شیشیاں جھلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ پہلے تو انھوں نے گھوم پھر کر محل کا جائزہ لیا پھر وہ اکھٹے بیٹھ گئے۔ ”۴۵ کرسیاں“۔ الف بولا۔ ”۲۳ تصاویر۔“ بے بولا۔ ”۰۷ پلیٹیں۔“ جیم نے کہا۔ ”دو سو چالیس چائے کے کپ اور ایک سو بیس چینی کے پیالے۔“ الف بولا۔ وہ تینوں خوشی سے اُچھلنے کودنے لگے۔
”اتنا کام تو کبھی نہ ملا، ہوگا ہمارا اب بھلا ہی بھلا۔
ہر چیز جو یہاں کی جڑ جائے گی، ہمارے تو قسمت سنور جائے گی۔“
اب ان لوگوں نے بے حد محنت سے اپنا کام شروع کیا۔ محل کے سب ملازم ان سے خوش تھے۔ وہ نہ صرف ایماندار اور محنتی تھے بلکہ خوش مزاج اور خوش اخلاق بھی بہت تھے۔ صرف چانسلر انھیں ناپسند کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی اتنی عزت نہیں کرتے جس کا وہ مستحق تھا۔ تینوں بھائی جب صبح سویرے چانسلر سے ملتے تو اسے سلام کرکے کہتے:
”صبح بخیر لارڈ ہائی چانسلر، کیا سوئے اچھی طرح کل آپ رات؟ کیا ناشتہ کریں گے آپ پراٹھے کے ساتھ؟“
”ہونھ!“ چانسلر جواب میں بس یہ کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ جاتا۔
الف نے ایک نظم اس پر بھی بنائی اور کچن کے ملازمین کو سنائی:
”ہونھ وہ کہتے ہیں صبح اور شام، کیا نہیں آتا انھیں اور کوئی کام،
ہونھ وہ کہتے ہیں دن و رات، کیا نہیں کرنی آتی انھیں کوئی بات۔“
سب لوگ یہ سن کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جلد ہی یہ نظم اس قدر مقبول ہوگئی کہ محل کے سارے ملازم یہ گن گناتے سنائی دینے لگے اور پھر ایک دن چانسلر نے بھی سن لی۔ ”بدتمیز لڑکے! میں قسم کھاتا ہوں کہ انھیں ایک پائی معاوضہ نہیں دوں گا۔“ اس نے غصے میں مٹھیاں بھینچیں۔
چار ہفتے میں تینوں نے اپنا کام مکمل کرلیا۔ ”اب ہم جا کر اپنی مزدوری مانگتے ہیں۔“ الف بولا۔ ”ہمیں بہت سا روپیہ مل جائے گا۔“ بے بولا۔ ”کم از کم سو پاﺅنڈ۔“ جیم نے اندازہ لگایا۔ وہ لارڈ چانسلر کے پاس گئے اور جھک کر سلام کیا۔ ”جناب! ہم نے سارا کام مکمل کرلیا ہے، براے مہربانی ہمیں ہمارا معاوضہ عنایت کردیجیے۔“
”ہونھ! میں تمھیں ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔“ چانسلر غرایا۔ ”کیا؟“ تینوں بھائی چلائے۔ ”لیکن ہماری مزدوری تو تقریباً سو پاﺅنڈ بنتی ہے جناب!“
”سو پاﺅنڈ؟ ہونھ! دفع ہوجاﺅ! تم لوگ چار ہفتے میرے محل میں رہے، یہاں کھایا پیا، بستر استعمال کیے، یہی تم لوگوں کا معاوضہ ہے بدتمیز لڑکو! اب میں تم لوگوں کو یہاں ایک منٹ بھی مزید برداشت نہیں کروں گا۔“
”لیکن جناب!“ جیم نے کہنا چاہا۔ ”لیکن ویکن کچھ نہیں۔ تم لوگ جاتے ہو یا میں اپنے سپاہیوں کو بلواﺅں؟“ چانسلر چلایا۔ یہ سنتے ہی تینوں بھائیوں نے باہر کی طرف دوڑ لگادی۔ کچن میں پہنچ کر ان تینوں نے ایک دوسرے کی جانب مایوسی سے دیکھا۔ ”ایک پائی بھی نہیں ملی!“ الف بولا۔ ”اور ہم نے اتنی محنت سے کام کیا تھا۔“ ب بولا۔ ”آﺅ! وہ ساری چیزیں ہم دوبارہ توڑ دیتے ہیں جو ہم نے جوڑی تھیں۔“ جیم نے کہا۔ ”نہیں! اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر ہم چانسلر کو اس کی چالاکی اور کنجوسی کی سزا دیے بغیر نہیں جائیں گے۔“ الف نے کہا۔
”ہاں! چیزیں توڑتے ہوئے تو ہم فوراً ہی پکڑے جائیں گے، کچھ اور سوچتے ہیں۔“ بے نے کہا۔ تینوں سوچنے لگے اور آخر کار تینوں نے مختلف ترکیبیں سوچ ہی لیں۔ ”میں چانسلر کی چائے دانی کے کنڈے میں گوند لگادوں گا اور جب وہ صبح اپنی چائے نکالے گا تو کنڈے سے ہاتھ نہیں ہٹاسکے گا۔“ الف نے کھل کھلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاہا! اور میں بیرونی دروازے پر پڑے پائیدان پر گوند لگادوں گا تاکہ جب وہ باہر نکلے تو اس کے پاﺅں چپک کر رہ جائیں۔“ بے مسکرایا۔ ”ہی ہی! اور میں اس کے بہترین ہیٹ کے اندر گوند ڈال دوں گا تاکہ جب وہ اسے پہنے تو اُتار نہ سکے۔“ جیم نے چہک کر کہا۔ ”بہت خوب! تب اسے پتا چلے گا کہ گھٹیا اور کنجوس لوگوں کی کیا سزا ہوتی ہے۔“ الف نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہم محل میں ہی چھپ کر سارا تماشا دیکھیں گے۔ بڑا مزا آئے گا۔“بے نے گوند کی بوتل اٹھاتے ہوئے کہا۔
صبح جب چانسلر ناشتے کی میز پر آیا تو میز پر ایک خط موجود تھا۔ چانسلر نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ تینوں بھائی پردے کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ ”ملکہ اور بادشاہ سلامت آج یہاں تشریف لارہے ہیں اور شام کی چاے ہمارے ساتھ نوش فرمائیں گے۔ واہ! کیا اعزاز کی بات ہے۔“ چانسلر نے خط پڑھ کر چاے دان اٹھایا اور کپ میں چاے ڈالی مگر وہ چاے دان واپس میز پر نہ رکھ سکا کیوں کہ وہ اس کے ہاتھ سے چپک کر رہ گیا تھا! ”اوہ! یہ کیا مصیبت ہے؟ میں اپنا ہاتھ چاے دان سے نہیں ہٹاسکتا۔ کیا یہ کوئی جادو ہے؟“ اس نے اپنا ہاتھ الگ کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس نے چاے دان گھما کر توڑنے کی کوشش کی مگر وہ زمین پر نہ گرسکا البتہ اس سے گرم، گرم چاے نکل کر اس کے اوپر گرنے لگی۔ چانسلر زور، زور سے چلانے لگا۔ بٹلر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا، چپراسی اس کے پیچھے تھا۔ وہ حیرت سے چانسلر کو چیختے اور اچھلتے، کودتے دیکھنے لگے۔ چاے دان سے چاے نکل نکل کر پورے کمرے میں گر رہی تھی۔ ”جناب والا! نیا قالین خراب ہورہا ہے!“ بٹلر چلایا۔ ”قالین خراب ہورہا ہے؟ ارے! یہاں میرا انگوٹھا خراب ہوگیا۔ میرا انگوٹھا اس چاے دان سے الگ نہیں ہورپارہا۔ میں کیا کروں؟“ چانسلر بھی چلایا۔ تینوں بھائی پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر ہنس رہے تھے، مگر ان کی آواز کسی نے نہیں سنی کیوں کہ سب لوگ چانسلر کا انگوٹھا چاے دان سے الگ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ ”اوہ! تم لوگ تو مجھے زخمی کردوگے۔ دفع ہوجاﺅ سب یہاں سے!“ پھر محل کا ڈاکٹر آیا لیکن وہ بھی ناکام رہا۔ گوند بہت طاقتور تھی اور غریب چانسلر کو اپنا ناشتہ چاے دان پکڑے، پکڑے کرنا پڑا اور ساری صبح وہ جہاں بھی گیا، چاے دان اس کے ہمراہ تھا۔ ”اور آج ہی بادشاہ اور ملکہ بھی آرہے ہیں۔ اُف!وہ میرے بارے میں کیا خیال کریںگے جب میں ان کا استقبال چاے دان کے ساتھ کروں گا۔“ چانسلر نے پاﺅں پٹخے، پھر وہ مرکزی دروازے پر جا کر اپنے سپاہیوں کو استقبال کے حوالے سے احکامات دینے لگا۔ اس کے بعد جب وہ اندر جانے کے لیے مڑا تو پلٹ نہ سکا۔ اس کے قدم پائے دان سے چپک کر رہ گئے۔ ”یہ کیا ہوا؟ میں اپنے قدم نہیں اُٹھا پارہا!“ چانسلر چلایا۔ سپاہیوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ وہ چانسلر کو پاے دان سے اترنے کی جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر ایک سپاہی بولا: ”اپنے جوتے اتار لیجیے جناب والا!“ چانسلر اس مشورے پر عمل کرنے ہی والا تھا کہ اسے یاد آیا کہ اس کے ایک موزے میں بڑا سا سوراخ ہے لہٰذا وہ سپاہیوں کے سامنے جوتے نہیں اتارسکتا ہے، چنانچہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ پائے دان سمیت چھلانگ لگا کر اپنے کمرے میں چلاجائے اور اس نے یہی کیا، یہ بہت مشکل کام ثابت ہوا خصوصاً سیڑھیوں پر اس طرح چلنا مگر وہ مجبور تھا۔ محل کے سب لوگ مغرور اور غصے ور چانسلر کو اس طرح اچھل، اچھل کر چلتے دیکھ کر حیرت زدہ تھے جس کے ہاتھ میں چاے دان اور پاﺅں میں پاے دان چپکا ہوا تھا، جہاں تک تینوں بھائیوں کا تعلق تھا وہ مارے ہنسی کے ایک دوسرے سے بات کرنے کے بھی قابل نہیں تھے۔
چانسلر نے کمرے میں پہنچتے ہی اپنے جوتے اتار پھینکے اور دوسرے پہن لیے۔ بادشاہ اور ملکہ کی آمد کا وقت قریب تھا۔ اس نے جلدی سے اپنا بہترین ہیٹ سر پر لگایا اور نیچے اتر کر مرکزی دروازے پر مہمانوں کا استقبال کرنے پہنچ گیا۔ وہ ظاہر کررہا تھا جیسے چاے دان ہاتھ میں لے کر مہمانوں کا استقبال کرنا کوئی عجیب بات نہ ہو، جیسے ہی معزز مہمان محل کے دروازے پر آئے، سب لوگوں نے اپنے، اپنے ہیٹ اتار کر جھک کر سلام کیا، چانسلر نے بھی ایسا ہی کرنا چاہا مگر وہ سر سے ہیٹ نہ اتار سکا، ہیٹ اس کے سر پر چپک کر رہ گیا تھا۔
بادشاہ اور ملکہ نے ہاتھ کے اشارے سے سب کے سلام کا جواب دیا اور محل کے دروازے سے اندر داخل ہوئے جہاں چانسلر کھڑا تھا، بادشاہ نے اسے تعجب سے دیکھا کیوں کہ چانسلر کے ایک ہاتھ میں چاے دان اور سر پر ہیٹ ابھی تک موجود تھا۔ ”یہ ضرور پاگل آدمی ہے۔“ بادشاہ نے سوچا۔ چانسلر کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہ اندر آئے اور اپنی خصوصی نشستوں پر جلوہ افروز ہوئے۔ چانسلر کے سر پر ہیٹ ابھی تک موجود تھا جو شاہی آداب کے خلاف تھا۔ ”اپنا ہیٹ اتارلو چانسلر!“ آخر کار بادشاہ نے بے صبری سے کہا۔ ”نہیں نہیں اتارسکتا جناب عالی!“ چانسلر نے ہکلاتے ہوئے کہا، ”مجھ پر صبح سے ہی کسی نے جادو کردیا ہے۔ آج صبح میں چاے دان سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹاسکا، پھر آج دوپہر میں پاے دان سے اپنے پاﺅں نہیں ہٹاسکا اور اب میں اپنا ہیٹ نہیں اتارسکتا۔“ درباری چپکے، چپکے ہنس رہے تھے۔ بادشاہ اپنی نشست سے اٹھا اور غور سے چانسلر کے ہیٹ کو دیکھا، پھر بولا۔ ”یہ جادو نہیں گوند ہے۔“
”گوند؟“ سب حیرت سے چلائے۔ ”گوند؟“ چانسلر غصے سے چلایا۔
”ہاں گوند۔“ بادشاہ نے کہا۔ ”تو پھر یہ ضرور الف، بے اور جیم کی حرکت ہے۔ انھیں فوراً ڈھونڈ کر لاﺅ سپاہیو!“ چانسلر چلایا اور چند ہی لمحوں میں تینوں بھائیوں کو پکڑ کر بادشاہ کے حضور پیش کردیا گیا۔ ”اس نامناسب حرکت کا مطلب کیا تھا؟“ بادشاہ نے پوچھا۔ تینوں بھائی بادشاہ کی غصیلی آواز سن کر تھر، تھر کانپنے لگے۔ ”جناب! ہم چار ہفتے تک اس محل کی ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت کرتے رہے اور ہم نے اپنا کام پوری ایمان داری اور محنت سے کیا مگر جب ہم نے اپنے کام کا معاوضہ طلب کیا تو چانسلر نے ہمیں ایک پائی دینے سے انکار کردیا۔ ”آخر الف نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ”اوہ! کیا یہ سچ ہے؟“ بادشاہ نے چانسلر سے پوچھا۔ ”جی!“ چانسلر کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہوگیا۔ ”تب تو تم سزا کے حق دار ہو۔“ بادشاہ بولا اور پھر تینوں بھائیوں کی طرف مڑا۔ ”مگر تم تینوں بھائیوں کو کوئی حق نہیں تھا کہ چانسلر کو اس طریقے سے خود سزا دو، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اگر تمھیں چانسلر سے کوئی شکایت تھی تو تم کو میرے پاس آکر کرنی چاہیے تھی۔ میں تم لوگوں کو چانسلر سے تمھارا معاوضہ دلواتا، تم لوگوں نے بہت احمقانہ حرکت کی ہے اور اس حرکت سے تم لوگوں کو اپنا معاوضہ بھی وصول نہیں ہوا۔“
”ہم معافی چاہتے ہیں جناب!“ تینوں بھائیوں نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ”میں تم لوگوں کو اپنے محل میں ملازمت دیتا ہوں کیوں کہ تم لوگوں پر اتنا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے لیے خود کام تلاش کرو اور جب چاہو، لوگوں کو اپنی احمقانہ حرکتوں سے پریشان کرو، چاہے وہ چانسلر ہو یا اس سے زیادہ بہتر کوئی انسان!“
”جی جناب عالی!“ تینوں بھائیوں نے سعادت مندی سے کہا اور فرشی سلام کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔ چانسلر چاے دان ہاتھ میں پکڑے غصے سے انھیں گھورتا رہ گیا۔
٭….٭