skip to Main Content

جادوئی کتاب

کہانی: The Enchanted Book
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ : گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔

”مجھے اس کتاب سے خوف آرہا ہے۔“ فارس چلایا۔
ایک شاہکار کہانی کا عمدہ ترجمہ

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج سے تقریباً پچاس سال پہلے لندن میں ’فارس‘ نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ فارس اب بڑا ہوچکا ہے لیکن ابھی تک وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ حقیقت تھی یا محض ایک خواب تھا۔ آپ اس کہانی کو پڑھ کر فیصلہ کریں۔

فارس کی عمر اس وقت آٹھ برس تھی۔ وہ ایک عام سا لڑکا تھا۔ روز اسکول جاتا، کھیلتا کودتا، کھاتا پیتا اور رات میں سو جاتا۔ وہ کبھی کبھی شرارتیں بھی کرتا جیسے آپ سب کرتے ہیں اور کبھی آپ لوگوں کی طرح فرماں بردار اور نیک نظر آتا۔ جب وہ شرارتیں کرتا تو اس کی امی اور استاد اسے ڈانٹتے، جب وہ نیکی کے موڈ میں ہوتا تو سب اسے پیار کرتے تھے۔ وہ اس سے اکثر کہتے۔ ”فارس! تم کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، نیک، ایماندار اور مخلص انسان بننا چاہیے۔“ لیکن وہ کبھی اسے یہ نہیں بتایا کرتے تھے کہ اسے ایسا کیوں بننا چاہےے۔ وہ کبھی کبھی اس بارے میں سوچتا پھر اپنے آپ سے کہتا۔ ”میرا نہیں خیال کہ ان سب باتوں سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے۔ اگر میں کبھی کبھار کوئی جھوٹ بول لیا کروں تو کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ اگر میں ٹافیاں خرید کر سب اکیلے کھالوں تو مجھے ایسا کرنے کا پورا حق ہے، کسی کو کیا معلوم ہوگا۔ کل میں نے ہیری کا خرگوش والا ربر لے کر واپس نہیں لوٹایا تو کیا ہوا؟ اسے تو پتا بھی نہیں چلا کہ اس کی ڈیسک سے ربڑ میں نے اُٹھایا ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو اس طرح کا کوئی کام کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے اس کو معلوم ہوگیا کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی انسان کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس وقت تک فارس کبھی سچ بولتا تھا اور کبھی جھوٹ۔ کبھی وہ رحم دل ہوجاتا اور کبھی بے رحم، کبھی وہ بے حد ایمانداری کا مظاہرہ کرتا اور کبھی بے ایمانی کا مظاہرہ کرتا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ آدھا اچھا اور آدھا بُرا بچہ تھا۔ بہت سے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ایک دن وہ اکیلا خریداری کرنے بازار گیا۔ گھومتا، پھرتا وہ لندن کی ایک بہت پرانی سڑک پر پہنچ گیا جہاں پرانے سامان کی دکانیں تھیں۔ فارس ان گرد آلود دکانوں کے اندر جھانک کر دیکھنے لگا۔ وہاں پرانے زمانے کے شیشے تھے جن کے کناروں پر قدیم زمانے کے نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ پرانے چینی زیورات تھے، پرانی میز اور کرسیاں تھیں۔ پھر اس کی نظر ایک ٹوکری پر پڑی۔ وہ بہت قدیم مگر خوب صورت ٹوکری تھی۔ اس کے ڈھکن پر انگریزی حروف ”ایم ایل“ لکھے ہوئے تھے۔ فارس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس کی امی کا نام بھی ایم سے شروع ہو کر ایل پر ختم ہوتا تھا کیوں نہ وہ یہ ٹوکری خرید کر اپنی امی کو سالگرہ کے موقع پر گفٹ کردے۔
”مجھے اس ٹوکری کی قیمت پوچھنی چاہیے۔“ یہ سوچ کر وہ دکان کے اندر داخل ہوگیا۔ دکان کے ایک اندھیرے کونے سے ایک عجیب و غریب وضع کا شخص نکل کر سامنے آگیا۔
”یہ ٹوکری کتنے کی ہے؟“ فارس نے پوچھا۔
”دو پاﺅنڈ۔“ دکان دار نے کہا۔
فارس نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اس کے پاس گھر میں دو پاﺅنڈ موجود تھے مگر ان سے اسے اپنے لیے قلم بھی خریدنا تھا۔ اگر وہ پورے پیسے ٹوکری خریدنے میں خرچ کردے تو قلم کیسے خریدے گا! لہٰذا کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”میرے پاس صرف پانچ شلنگ ہیں۔“ اس نے جھوٹ بولا۔
”تو پھر تم دکان میں کچھ اور دیکھ لو۔“ بوڑھے دکان دار نے کہا اور دوبارہ دکان کے ایک اندھیرے کونے میں غائب ہوگیا۔
فارس اس میلی کچیلی، دھول مٹی سے بھری دکان میں اکیلا کھڑا رہ گیا پھر اس نے دکان کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کی نظر ایک پرانی کتابوں کی الماری پر پڑی اور یہیں فارس نے وہ کتاب دیکھی جسے وہ بعد میں ہمیشہ جادوئی کتاب کہہ کر یاد کرتا رہا۔ وہ ایک بڑی اور موٹی کتاب تھی جس کا سرورق غیر معمولی طور پر اتنا چمک دار تھا جیسے اس میں آگ جل رہی ہو۔ ابھی وہ سرورق ہی دیکھ رہا تھا کہ بوڑھا دکان دار دوبارہ باہر نکل کر دکان میں آگیا۔
”بہتر ہوگا کہ تم اس کتاب کو نہ دیکھو۔“ اس نے کہا۔ ”یہ ایک خطرناک کتاب ہے۔ اس کے اندر تم خود ہو۔“ فارس یہ سن کر حیران رہ گیا۔
”کیا مطلب؟“ اس نے پوچھا۔
”یہ ایک عجیب کتاب ہے۔“ بوڑھے نے کہا۔ ”جو کوئی اس کو اچھی طرح اندر سے دیکھے گا، اس کواس کتاب میں اپنا مستقبل نظر آئے گا۔ اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو اس کتاب کو کھول کر نہ دیکھتا کیوں کہ یہ تمھیں جو کچھ اس کتاب میں نظر آئے گا وہ تمھیں اچھا نہیںلگے۔“
”کیوں اچھا نہیں لگے گا؟“ فارس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا۔ میں دیکھنا چاہوں گا کہ میں ڈاکٹر بن کر کیسا لگتا ہوں؟“
”اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو کبھی اس کتاب کو کھول کر نہ دیکھتا۔“ بوڑھے نے دہرایا اور اس کے ہاتھ سے کتاب چھیننے کی کوشش کی۔
”دیکھو لڑکے! میں بوڑھا اور تجربے کار ہوں۔ تمھارے چہرے کے نقوش مجھے کچھ سخت لگ رہے ہیں۔ تمھاری پیشانی پر سلوٹیں سی ہیں جس سے مجھے پتا چل رہا ہے کہ تم سخت دل ہو۔ تمھاری آنکھوں سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سچ نہیں بولتے۔ لہٰذا تم اس کتاب کو کھول کر نہ ہی دیکھو تو اچھا ہے۔ ممکن ہے تم اسے دیکھ کر خوف زدہ یا غم زدہ ہوجاﺅ۔“
مگر فارس تو یہ سب کچھ سن کر کتاب کھول کر دیکھنے کے لیے مزید بے چین ہوچکا تھا۔ ”میں یہ کتاب دیکھنا چاہتا ہوں۔“ اس نے کہا۔ ”براہِ مہربانی آپ مجھے اسے دیکھ لینے دیں۔ میں کتاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچاﺅں گا۔“ وہ بوڑھے آدمی کو دیکھ کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ بہت پیاری تھی۔ اس کی آنکھیں جگمگانے لگیں، چہرے پر یک لخت نرمی آگئی اور وہ بے حد معصوم دکھائی دینے لگا۔ بوڑھے آدمی نے اسے غور سے دیکھا۔ ”میرا خیال ہے کہ تم مکمل اچھے یا مکمل بُرے لڑکے نہیں ہو۔ اگر یہی بات ہے تو یہ کتاب تمھیں دو تصویری کہانیاں دکھائے گی۔ پہلی کہانی، کتاب کے پہلے صفحے سے شروع ہوگی اور دوسری کہانی پڑھنے کے لیے تمھیں کتاب کو اُلٹی طرف سے کھول کر آخری صفحے سے پڑھنا ہوگا۔ ٹھیک ہے! تم یہ کتاب دیکھ سکتے ہو۔“ بوڑھے نے کتاب کھول دی۔ پہلے ہی صفحے پر اپنی تصویر دیکھ کر فارس حیرت زدہ رہ گیا۔ جرسی اور نیکر میں ملبوس وہ خود کتاب میں موجود تھا۔
”یہ تم ہو۔“ بوڑھے نے کہا اور ایک صفحہ پلٹا۔ ”یہ دیکھو! یہاں تم ایک ایسی حرکت کررہے ہو جس پر تمھیں شرمندہ ہونا چاہیے۔ تم حساب کے ٹیسٹ میں نقل کررہے ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے اور یہاں دیکھو! تم اپنے دوستوں سے ان کاموں کے بارے میں شیخیاں بگھار رہے ہو جو تم نے کبھی کیے ہی نہیں اور یہ دیکھو، یہ کیسی تصویر ہے؟ تم اس میں کافی بڑے نظر آرہے ہو۔ ہاں! تقریباً دو سال بڑے۔ تم ایک جھوٹ بول رہے ہو اور یہ جھوٹ بولتے ہوئے تمھارے چہرے پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی بھی نظر نہیں آرہی۔ تم ایک انعام جیت گئے ہو محض اس جھوٹ کی بدولت!“
”مجھے یہ کتاب پسند نہیں آئی۔“ فارس نے کہا اور اس نے کتاب بند کرنے کی کوشش کی مگر بوڑھے نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔
”نہیں! جب تم نے ایک دفعہ یہ کتاب کھول لی تو اب اسے مکمل دیکھنا پڑے گی۔ اس تصویر کو دیکھو! تم اس میں خاصے بڑے لگ رہے ہو۔ یہاں تم ایک چھوٹے بچے کی پٹائی کررہے ہو اور کیوں کہ تمھیں کوئی دیکھ نہیں رہا لہٰذا تمھیں کوئی ڈر نہیں ہے۔ اچھا! اب یہ تصویر دیکھو! کیا یہ تمھاری امی ہیں؟“
”ہاں!“ فارس نے کہا۔ ”لیکن یہ اس تصویر میں روتی ہوئی کیوں نظر آرہی ہیں؟“۔
”کیوں کہ وہ تم سے بے حد مایوس ہوچکی ہیں۔“ بوڑھے نے کہا۔ ”دیکھو! یہ ان کی سالگرہ کا دن ہے۔ ان کے ہاتھ میں سالگرہ کا کارڈ نظر آرہا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ یہ دن تم ان کے ساتھ گزارو اور تم نے ان سے یہ وعدہ بھی کرلیا تھا مگر عین وقت پر تمھارے کسی دوست نے پکنک کا پروگرام بنالیا اور تم اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں چلے گئے۔ تمھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ وہ تمھاری اس حرکت سے کتنی افسردہ ہوں گی۔ وہ تمھارے بارے میں سوچ کر غمگین ہورہی ہیں کیوں کہ تم ایک خود غرض، شیخی باز اور سخت دل نوجوان بنتے جارہے ہو۔“
” مجھے یہ تصویر بالکل پسند نہیں آئی۔“ فارس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ جلدی صفحہ پلٹیں۔“ صفحہ پلٹ دیا گیا۔
”اوہ! یہ دیکھو! تم اس تصویر میں جوان ہوچکے ہو۔“ بوڑھے نے کہا۔ ”ایک خوبصورت نوجوان! تم ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہے ہو۔ اس تصویر میں جو استاد نظر آرہا ہے وہ تم سے کہہ رہا ہے کہ تم ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرسکتے ہو۔ مگر تم ہنس رہے ہو۔ تم امیر ہونے کے لیے ڈاکٹر بن رہے ہو۔ تم اپنے مریضوں سے بڑی، بڑی رقمیں بٹوروگے۔“ فارس خاموش رہا۔ اسے ان تصویروں میں اپنا آپ بالکل پسند نہیں آیا۔ بوڑھا اس کی طرف مڑا۔ ”تم نے جو کچھ دیکھا، تمھیں اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔“ بوڑھے نے سنجیدگی سے کہا۔ ”کیوں کہ بہرحال تم اس عمر میں بھی لوگوں کو جھوٹی سچی کہانیاں گھڑ کر سناتے ہو اور بعض دفعہ سخت دل اور خود غرض ہوجاتے ہو۔ تم ہمیشہ ایمانداری کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے تو میرے بچے! یہ سب عادتیں بھی عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں اور آخر میں ایسا شخص کیسا بن جاتا ہے، یہ بھی دیکھو ہی لو!“ صفحے پھر پلٹے گئے۔ فارس نے اپنے آپ کو بڑے ہوتے دیکھا۔ اس نے اپنے آپ کو امیر ہوتے دیکھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک خوبصورت بیوی اور خوش باش بچوں کے ساتھ دیکھا۔ اس نے اپنے آپ کو بوڑھے ہوتے دیکھا۔ اس کے چہرے پر سختی اور خود غرضی کے تاثرات تھے۔ اس نے اپنے آپ کو امیروں کے ساتھ خوش اخلاقی اور غریبوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ اس نے اپنے آپ کو دوسروں کو دھوکا دیتے دیکھا۔ اس نے خود کو گھر میں ایک بدمزاج بوڑھے کے روپ میں دیکھا اور بچوں کو ڈانٹتے، ڈپٹتے دیکھا اور پھر اس کے سامنے کچھ بہت خوفناک تصویریں آگئیں۔ وہ ایک جرم کرتے ہوئے پکڑا گیا اور اس کی ساری دولت جیل سے رہائی پانے میں صرف ہوگئی۔ اس کی شہرت خاک میں مل گئی۔ اس کے بچوں نے جوان ہو کر اس کا گھر چھوڑ دیا کیوں کہ وہ ظالم اور سخت گیر تھا۔ اس کی خوبصورت بیوی، بدصورت اور بدمزاج ہوتی گئی کیوں کہ وہ اکیلی اور ناخوش تھی۔
”مجھے اس کتاب سے خوف آرہا ہے۔“ فارس چلایا۔ تصویریں اب ختم ہوگئی تھیں۔ بوڑھے نے کتاب اب دوسری جانب سے اُلٹی کھول لی۔ ”صبر کرو۔“ اس نے کہا۔ ”تم نصف اچھے اور نصف بُرے بچے ہو۔ اب ہم دیکھیں گے کہ تمھارا بقیہ نصف تمھیں کہاں پہنچاسکتا ہے۔“
اور اب وہ کتاب صفحہ بہ صفحہ فارس کی زندگی کا وہ رخ دکھا رہی تھی جو اس صورت میں ممکن تھا اگر وہ اپنے نصف بہتر حصے کو پھلنے پھولنے کا موقع دے گا۔ وہ انعامات جیت رہا تھا! دھوکے سے نہیں بلکہ سخت محنت سے۔ اس کے بہت سارے دوست تھے جو اس کی شیخیوں سے نہیں بلکہ اس کے اچھے سلوک کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے۔ اس کی امی مسکرا رہی تھیں اور اپنے محنتی اور مخلص بیٹے پر فخر کررہی تھیں۔ وہ ڈاکٹر بننے کے لیے سخت محنت کررہا تھا لیکن اس دفعہ وہ امیر ہونے کے خواب نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ کہہ رہا تھا کہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک وہ جو مدد کرتے ہیں اور دوسرا وہ جن کو مدد کی ضرورت ہے۔ میں ان لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ چاہے میں پیسہ کماﺅں یا نہ کماﺅں، مگر میں نیکیاں ضرور کمانا چاہتا ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنے بیوی، بچوں کو دیکھا جو اس کے حسن سلوک سے بے حد خوش تھے۔ جب وہ گھر آتا تو اس کا استقبال گرم جوشی سے کیا جاتا۔ اس کے گھر والے اس سے بے حد محبت کرتے تھے۔ وہ بہت زیادہ امیر تو نہیں تھے مگر ان کے دل مطمئن تھے۔
اس کے چہرے پر وہ سختی نہیں تھی جو اس نے پہلے دیکھی تھی بلکہ اس کے چہرے پر نرمی اور خوش مزاجی تھی۔ وہ ایک عظیم اور نیک شخص کا چہرہ تھا۔
”تم نے دیکھا؟“ بوڑھے نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔ ”تم میں اچھائی اور برائی، دونوں قوتیں جمع ہیں۔ اپنے اندر کے بُرے بچے کو پھلنے پھولنے کا موقع دو اور ایک بُرے انسان بن جاﺅ یا اپنے اندر کے اچھے بچے کو آگے لاﺅ اور ایک اچھے انسان بن جاﺅ۔ خود بھی خوش رہو گے اور دوسروں کو بھی خوش رکھ سکو گے۔ میرے بچے! یہ جو تم سے کہا جاتا ہے ناں کہ جھوٹ نہ بولو، دھوکا نہ دو، بے ایمانی نہ کرو، ظالم نہ بنو، خود غرض نہ بنو تو ان سب نصیحتوں کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہے۔ جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم سب کے پاس انتخاب کا حق ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر چھپی کسی شخصیت کو پروان چڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ حق صرف اور صرف ہمیں حاصل ہے، دوسرے آپ کو صرف سمجھا ہی سکتے ہیں۔“
”صحیح۔“ فارس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”تم جھوٹ بولتے ہوئے سوچتے ہو گے کہ کسی کو کیا معلوم کہ تم جھوٹ بول رہے ہو لیکن تمھیں خود تو معلوم ہوتا ہے ناں! بس ایسی چیز سے فرق پڑتا ہے۔ یہ تمھارے اندر کے بُرے انسان کو تقویت دیتا ہے۔ خیر! میرے بچے! اب تمھیں اپنے گھر واپس جانا چاہیے۔ جہاں تک اس ٹوکری کا تعلق ہے، میں اسے کسی ایسے گاہک کو بیچنا چاہتا ہوں جو اس کی پوری قیمت ادا کرسکے۔“ بوڑھے نے کہا۔
”میرے پاس یہ ٹوکری خریدنے کے پیسے ہیں۔“ فارس نے کہا۔ ”میں کل آکر یہ ٹوکری خریدلوں گا۔ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ دراصل مجھے ایک قلم بھی خریدنا تھا لیکن اب میں اپنے تمام پیسوں سے امی کے لیے یہ ٹوکری خریدنا چاہتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے! تم یہ ٹوکری لے جاﺅ اور کل آکر پیسے دے جانا۔“ بوڑھے دکان دار نے کہا۔
”کیا آپ مجھ پر اتنا بھروسہ کریں گے؟“ فارس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”میں نے ابھی آپ سے ایک جھوٹ بولا تھا!“
”ہاں! میں تم پر بھروسہ کروں گا میرے بچے! تم اسی بھروسے کو قائم رکھنا۔ لو یہ ٹوکری لے جاﺅ!“ بوڑھا شفقت سے مسکرایا۔ فارس ٹوکری لے کر گھر آگیا۔ بہت ساری باتیں ایک دم ہی بہت واضح طور پر اس کی سمجھ آنے لگیں تھیں، اب وہ سمجھ سکتا تھا کہ زندگی میں صحیح اور غلط کا انتخاب کیوں اتنے معنی رکھتا ہے۔ یہ سب آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو بگاڑنا یا سنوارنا ہر کسی کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
فارس کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک مشہور ڈاکٹر ہے۔ رحم دل اور ایمان دار ترین انسان! وہ کہتا ہے کہ جو باتیں میں نے اس کتاب سے سیکھیں وہ ہر بچے کو سیکھنی چاہییں۔
اگرچہ ڈاکٹر فارس کو تو وہ پرانی دکان پھر کبھی نہ مل سکی جہاں اُنھوں نے وہ کتاب دیکھی تھی مگر مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی زندگی میں ایک ایسی کتاب ضرور موجود ہے جو اچھائی اور برائی کے آئینے میں ہمیں اپنے انجام سے خبردار کرتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top