اُونچے درختوں کا باغ
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔
گرمیوں کے موسم میں جب تپش کی شدت سے لوگ گھبرار ہے ہوں۔ ایک صبح ٹھنڈی ہوا چلنے لگے۔فضا میں بادل گھر کر آجائیں اور ہوا کے جھونکے جسم کو چھوئیں تو بڑا لطف آتا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان سب خوش ہو جاتے ہیں، خاص طور پر بچے تو خوشی سے ناچ اٹھتے ہیں۔ ان کی خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسے سہانے موسم میں چھوٹے لڑکوں کے سکول بند ہو جاتے ہیں اور لڑکے یا تو باغوں کی طرف نکل جاتے ہیں یا گھروں میں اپنی ماؤں سے مزے مزے کے کھانے پکانے پر اصرار کرنے لگتے ہیں۔
ایک ایسی ہی سہانی صبح تھی۔ رحمت ہائی سکول کے طالب علموں نے ’’فائن ڈے، فائن ڈے ‘‘کا شور مچادیا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ دن بڑا سہانا ہے، اس لئے آج سکول سے چھٹی ہو جائے تو مزہ آجائے۔
سکول کے استادوں نے ہمیشہ کی طرح آپس میں مشورہ کیا اور لڑکوں کو یہ خوشخبری سنادی کہ آدھ گھنٹے تک سکول میں چھٹی ہو جائے گی۔ اتنا سننا تھا کہ لڑکے اپنے اپنے بستوں میں کتابیں، کاپیاں وغیرہ رکھنے لگے اور آٹھ بجے کا انتظار کرنے لگے۔
ادھر آٹھ بجے، ادھر گھنٹی نے اعلان کر دیا کہ سب طالب علموں کو چھٹی ہو گئی ہے۔
لڑکوں نے بستے سنبھالے اور اچھلتے کودتے سکول کے کمروں سے نکلنے لگے۔ ان لڑکوں میں ارشاد اورامتیاز بھی تھے۔
دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے۔ سکول سے واپسی پر گھر کا کام اور پڑھائی کرنے کے بعد ایک ساتھ کھیلتے بھی تھے۔ ان میں بڑی محبت تھی۔ ایک دوسرے کے بغیر کہیں آتے جاتے نہیں تھے۔
سکول سے چھٹی ہوئی تو دونوں نے سوچا کہ جلدی گھر جانے کے بجائے کسی خوبصورت باغ میں جا کر ڈیڑھ دو گھنٹے گزارے جائیں۔ نرم نرم سبز سبز گھاس پر بیٹھ کر باتیں کی جائیں اور گھوما پھرا جائے۔
اب دونوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جائیں تو کس باغ میں جائیں۔ سکول اور گھر سے کچھ دور یازیادہ دور کئی باغ تھے اور ان سارے باغوں میں وہ ایک بار نہیں کئی بار جاچکے تھے۔ وہ کسی نئے باغ میں جانا چاہتے تھے۔ ارشاد نے اپنے دوست امتیاز کو اپنی یہ خواہش بتائی تو وہ بولا۔ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں۔ پرانے باغوں میں جاکر کیا کریں گے۔ کسی ایسے باغ میں جانا چاہئے جہاں پہلے کبھی نہ گئے ہوں۔
امتیاز کو یاد آگیا کہ ایک دفعہ وہ اپنے ابو کے ساتھ ہوائی اڈے سے گھر آرہا تھا تو اس نے راستے میں ایک جگہ دیواروں کے پیچھے اونچے اونچے درخت دیکھے تھے۔ اور ان درختوں کو دیکھ کر اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ان کے ارد گرد پھولوں سے بھرے ہوئے پودے بھی ہوں گے اور گھاس بھی۔ اس وقت تو اس کے ابو کو گھر جانے کی جلدی تھی، اس لئے وہ ان سے باغ کے اندر جانے کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکا مگر اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ جب بھی موقع ملے گا وہ اس باغ کے اندر ضرور جائے گا۔
اس وقت امتیاز نے ارشاد سے اس باغ کا ذکر کیا تو وہ بول اٹھا:
’’ہم آج اسی باغ میں جاتے ہیں۔ ‘‘
’’جاتے تو یہیں مگر میں بھول گیا ہوں کہ ہوائی اڈے سے واپسی پر اسے دیکھا کہاں تھا۔ ‘‘امتیاز کی بات سن کر ارشاد مایوس نہ ہوا اور کہنے لگا:
’’ڈھونڈلیں گے۔ میں بھی کئی بار ہوائی اڈے پر جاچکا ہوں۔ ‘‘
دونوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ اس باغ میں ضرور جائیں گے۔
سکول سے چھٹی ہو چکی تھی۔ گھر میں کوئی ضروری کام بھی نہیں تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ایسے سہانے دن کو بیکار گزارنا دونوں ہی کو پسند نہ تھا۔ دونوں چلنے لگے۔
باغ تلاش کرنے میں انہیں دقت تو ضرور ہوئی مگر زیادہ نہیں۔ ایک جگہ دیواروں کے پیچھے لمبے لمبے درختوں کو دیکھ کر امتیاز چلایا:
’’ارے! یہی تو ہے وہ باغ ۔‘‘
’’سچ‘‘
’’اور کیا۔ دیکھ لو یہ دیواریں اور اونچے اونچے درخت۔‘‘
اب ان کی کوشش یہ تھی کہ دروازہ نظر آجائے اور وہ اس کے ذریعے باغ میں داخل ہو جائیں۔
دروازہ نظر تو آگیا مگر انہیں دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ مقفل تھا اور قفل بھی کوئی چھوٹا نہیں کافی بڑا لگا تھا۔
’’یہ تو بہت برا ہوا۔ باغ میں کیسے جائیں۔ ‘‘ارشاد نے مایوسی سے سوال کیا۔
’’یاد آیا۔ میں پہلے بھی ادھر سے گزرا تھا تو تالا لگا ہوا تھا۔ ‘‘امتیاز بولا۔
’’امتیاز! ‘‘ارشاد نے کہا۔ ’’یہ باغ عام لوگوں کے لئے نہیں ہو گا ،کسی ایک شخص کی ملکیت ہو گا۔ ‘‘
’’تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ ‘‘امتیاز بولا۔
’’اس سے یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص جب چاہے اس کا دروازہ کھول سکتا ہے اور جب جی چاہے اسے بند کرسکتا ہے۔ ‘‘ ارشاد نے کہا۔
’’بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ مگر ہم ایسے اچھے موسم میں باغ کے اندر ضرور جائیں گے ۔‘‘
دونوں باغ کے اندر جانے کا پکا ارادہ کر چکے تھے۔ وہ دیواروں کے ارد گرد گھومنے لگے کہ کہیں دیوارنیچی ہو یا کوئی اور دروازہ بھی ہو اور وہ کھلا ہو تو اندر چلے جائیں۔
ایک جگہ دیوار کا اوپری حصہ گر چکا تھا۔ اور وہ آسانی سے باغ میں داخل ہو سکتے تھے۔
انہوں نے اینٹیں جمع کر کے ایک چبوترہ سا بنایا۔ پہلے ارشاد اوپر چڑھا اور دیوار کے اوپر سے اس نے اندر چھلانگ لگادی۔ اس کے بعد امتیاز کی باری تھی، اس نے بھی یہی کام کیا۔
باغ کے اندر جا کر وہ حیران رہ گئے۔ پودے بے شمار تھے مگر کسی پودے پر بھی کوئی کھلا ہوا پھول دکھائی نہیں دیتا تھا۔ گھاس بڑھ بھی چکی تھی اور زرد بھی پڑی تھی۔
’’یار امتیاز یہ کیا ہے؟ ‘‘
’’میں کیا بتاؤں۔ اونچے اونچے درخت دیکھ کر تو میں نے یہی اندازہ لگایا تھا کہ اس میں ہزاروں رنگارنگ پھول ہوں گے۔ سبز سبز گھاس ہوگی۔ تتلیاں اڑ رہی ہوں گی مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’باغ تو ہے نہیں ،بس ایک ویرانہ ہے ۔‘‘
’’ہاں ایک ویرانہ ہے ۔‘‘
وہ باہر نکلنے کی سوچ رہے تھے کہ ایک گرجتی ہوئی آواز آئی:
’’کیا کہا ،یہ ایک ویرانہ ہے؟ ‘‘
دونوں نے دیکھا کہ ان کے قریب ایک بوڑھا شخص انہیں سخت غصے سے دیکھ رہا ہے۔ لمباقد،سر پر ترکی ٹوپی، آنکھوں پر عینک، کمر جھکی ہوئی۔ وہ ڈر گئے۔
’’کیا یہ ویرانہ ہے؟ ‘‘
’’جی …جی… وہ …‘‘امتیاز نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر دہشت اور خوف کی وجہ سے اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ وہ خوفناک بوڑھا دو قدم اور ان کے قریب آگیا۔
’’میرے خوبصورت باغ کو ویرانہ کہتے ہو۔ کون ہوتے ہو تم یہ کہنے والے …؟میں نے اتنے پیار سے، اتنی محبت سے یہ پودے لگوائے ہیں۔ دھوپ میں گھنٹوں محنت کی ہے۔ ان کی پوری پوری رکھوالی کی ہے۔ بولو کون ہو تم؟‘‘
دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے۔
’’بولتے کیوں نہیں ہو؟ ‘‘
’’جی، سچ اس گستاخی کے لئے آپ سے معافی مانگتے ہیں۔ ‘‘امتیاز بولا۔
وہ بوڑھا خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا ،پھر منہ موڑ کر ادھر دیکھنے لگا:
’’کون ہو تم، کہاں سے آئے ہو۔ ‘‘
’’ہم سکول میں پڑھتے ہیں، آٹھویں جماعت میں۔ ‘‘
بوڑھے نے سرہلایا۔ ’’ادھر کیوں آئے ہو میرے باغ میں؟‘‘
امتیاز خاموش رہا۔ ارشاد نے جواب دیا:
’’آج سکول میں چھٹی ہو گئی۔ جی چاہا کہ کسی بڑے اچھے سے باغ میں جا کر گھومیں پھریں۔ ہمیں بہت افسوس اور ندامت ہے کہ آپ کی اجازت کے بغیر یہاں آگئے۔ ابھی چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’اور آپ سے ایک بار پھر معافی مانگتے ہیں۔ ‘‘امتیاز بولا۔
دونوں چلنے لگے۔
’’کیا کہا ہے تم نے۔‘‘ وہ بوڑھا انہیں جاتے دیکھ کر بولا۔
’’معافی مانگی ہے ۔‘‘
’’میرے باغ کے متعلق کیا کہا ہے ؟‘‘
دونوں گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
’’کیا تم نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ ایک ویرانہ ہے۔ ‘‘
وہ خاموش رہے۔
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘اب کے اس کا لہجہ غضب ناک نہیں لگتا تھا۔ ’’تم نے بالکل درست کہا ہے۔ یہ ایک ویرانہ بن گیا ہے۔ افسوس صد افسوس ۔‘‘
بوڑھے نے آہ بھری اور ایک پودے کے پاس بیٹھ گیا۔
’’اس پودے میں سیاہ گلاب لگا تھا۔ لوگ دور دور سے آکر اسے دیکھتے تھے۔ ‘‘
ارشاد اور امتیاز کی گھبراہٹ اور خوف بہت حد تک دور ہو چکا تھا۔ وہ بوڑھے سے گفتگو کرنے لگے۔
’’اچھا باباجی ۔‘‘
’’سیاہ گلاب صرف میرے باغ میں تھا۔ میں نے یہ پودا بڑی محنت سے لگایا تھا اور وہ پودے۔ وہ سامنے دیکھ رہے ہونا۔ ان میں سرخ گلاب لگتا تھا۔ ان کی خوشبو باغ کے باہر دور دور تک پھیل جاتی تھی۔ ‘‘
امتیاز اور ارشاد، ان پودوں کو دیکھ رہے تھے جو بالکل سوکھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
’’میں نے نہ جانے کہاں کہاں سے پھولوں کے بیج ڈھونڈ نکالے تھے، سب ادھر لے آیا تھا۔ جتنے عمدہ عمدہ اور خوبصورت پھولوں کے پودے میرے باغ میں تھے، سارے شہر کے کسی باغ میں بھی نہیں تھے۔ آؤ میرے ساتھ، اپنے باغ کے تمہیں اور پودے دکھاؤں۔ ‘‘
’’بوڑھا انہیں سارے باغ میں گھماتا رہا۔ وہ تھک گئے تھے مگر بوڑھا نہیں تھکا تھا۔
یکایک بادل برسنے لگے۔ سیاہ بادلوں کی وجہ سے ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ وہ ایک چھتنار درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ بارش ہوتی رہی اور وہ چپ چاپ بیٹھے رہے۔
آخر بارش رک گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ بوڑھا اپنی جگہ پر نہیں تھا۔
’’پتہ نہیں کہاں گیا ہے، شاید یہیں کہیں ہو گا۔ ‘‘امتیاز نے جواب دیا۔
دونوں اس جگہ پہنچ گئے جہاں دیوار کا اوپری حصہ گر پڑا تھا۔ دونوں نے جلدی جلدی اینٹیں جمع کر کے ایک ڈھیر لگایا۔ پہلے ارشاد اس ڈھیر پر چڑھ کر دیوار کی دوسری طرف کو دا، پھر امتیاز بھی کود پڑا۔ اس کے پاؤں زمین پر لگے ہی تھے کہ ایک شخص بھا گا ہوا آیا اور اس نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے۔
’’کیا لینے گئے تھے باغ کے اندر؟ ‘‘
’’ہمارا جی چاہا تھا۔‘‘
’’جی چاہا تھا۔ کیوں جی چاہا تھا۔ ‘‘
’’ویسے ہی جی۔ ہم نے اس کے مالک سے معافی مانگ لی تھی۔‘‘
’’اس کے مالک سے۔ کون ہے وہ؟‘‘
ارشاد نے امتیاز کو اشارہ سے کہا۔ ’’تم بتاؤ۔ ‘‘
امتیاز کہنے لگا۔ ’’وہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ سر پر ترکی ٹوپی تھی اور آنکھوں پر عینک۔‘‘
’’کیا کہا۔ سر پر ترکی ٹوپی۔ ‘‘
’’اور آنکھوں پر عینک۔ کوٹ سفید رنگ کا تھا۔ کمر جھکی ہوئی تھی۔ اس نے کہا تھا ،میں اس باغ کا مالک ہوں۔
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو لڑکے۔ ‘‘وہ شخص بڑی حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں جناب۔ انہوں نے ہمیں معاف کر دیا تھا، ہم سے باتیں کی تھیں، ہمیں بتایا تھا کہ انہوں نے کتنی محبت سے ایک ایک پودا لگا یا تھا۔ ‘‘
’’وہ آدمی خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا ،پھر بولا۔ ’’چلو میرے ساتھ۔ ‘‘
ارشاد اور امتیاز ایک شاندار بنگلے میں صوفے پر بیٹھے تھے، اس آدمی کے علاوہ جس نے انہیں دیوار پھلانگتے ہوئے دیکھا تھا اور پکڑ کر لے آیا تھا، وہاں ایک اور آدمی بھی تھا جو کافی عمر کا لگتا تھا۔
’’چچا جان! یہ لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔‘‘وہ آدمی کافی عمر والے آدمی سے کہنے لگا۔
’’میری سمجھ میں سب کچھ آگیا ہے۔ ‘‘ چچا بولا۔
’’کیا سمجھ میں آگیا ہے۔ ‘‘
’’سلیم بیٹا! تمہارے باپ اور میرے بڑے بھائی کو اپنے باغ سے بے حد محبت تھی، اس نے ایک ایک پودا بڑے پیار اور شوق سے لگایا تھا۔ اسے مرے ہوئے چالیس برس گزر چکے ہیں مگر اپنے باغ سے اس کی محبت نہیں مری، ابھی زندہ ہے۔ آج اپنے اجڑے ہوئے اور ویران باغ کو دیکھ کر اس کی روح کو کتنا صدمہ پہنچا ہے۔ یہ تم نہیں جان سکتے۔‘‘
اپنے چچا کے یہ الفاظ سن کر اس آدمی کے چہرے پر ندامت پھیل گئی۔
’’ آپ نے ٹھیک کہا ہے چچا جان۔ مجھے سخت شرمندگی ہے کہ اپنے ابا جان کے باغ کی طرف توجہ نہ کرسکا۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ میں باغ کی پوری پوری نگرانی کروں گا۔‘‘
ارشاد اور امتیاز اس آدمی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے جسے اس شخص نے چچا جان کہا تھا۔
’’بچو! ‘‘چچا بولا۔ ’’تم حیران ہو گئے ہو اور تمہیں حیران ہونا بھی چاہئے، جس بوڑھے کو آج تم نے باغ میں دیکھا ہے اسے دنیا سے رخصت ہوئے پورے چالیس سال گزر گئے ہیں۔ یہ اس کا بیٹا ہے جو تمہاری باتیں سن کر تمہیں یہاں لے آیا تھا۔ شاید تم نے اصلی معاملہ سمجھ لیا ہے۔ ‘‘
ارشاد اور امتیاز نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر ان دونوں کے سر ہاں کہنے کے انداز میں ہلنے لگے۔
ایک گھنٹے کے بعد جب وہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ باغ کا بوڑھا مالک ان کے ساتھ ساتھ چلا جارہا ہے اور بتارہا ہے کہ فلاں پودے پر کیسے پھول لگتے تھے اور فلاں پودے کے پھولوں کا رنگ کیسا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھار ہے تھے۔

