skip to Main Content

مرد کی پہچان ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

بعض لوگ اچھے ہوتے ہیں، اتنے اچھے کہ بس دل چاہتا ہے کہ ان کے ساتھ رہا جائے، اُن کی باتیں سنی جائیں۔ ایسا میٹھا انداز، اچھا رویہ، ایسا سلوک کہ جو ملے ان کا گرویدہ ہو جائے۔ دیکھو تو نہ کوئی عیب نہ کوئی خامی۔ صاف ستھرے لوگ۔!
مگر بھیا۔!
بے عیب تو بس خدا کی ذات ہے۔!
نفیس بھائی ایسے ہی تھے، پیارے پیارے، میٹھے میٹھے۔ اپنے نام کی طرح نازک اور نفیس۔ پھر دل میں کسی کے لیے کوئی میل نہیں مگر ہاں بس ایک عیب کہہ لو، خامی کہہ لویا جو جی چا ہے۔ کم ہمت تھے۔ یعنی اندر سے بز دل مگر عام لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا تھا ۔ ویسے بھی ہمت اور بہادری کوئی چمکتی دمکتی شے تو ہے نہیں کہ بندہ دیکھ لے، پہچان لے، وزن کر لے۔ یہ تو دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے اور وقت پڑنے پر برق کی طرح چمک کے ظاہر ہوتی ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی نفیس بھائی کی۔!
نفیس بھائی ہمارے محلے میں رہتے تھے۔دو بھائی تھے۔ ایک تو نفیس بھائی ہمارے محلے دار اور دوسرے رئیس بھائی جو شہر کے مضافاتی علاقے میں رہتے تھے۔جہاں ملی جلی آبادی تھی۔دونوں بھائیوں میں بڑا پیار تھا۔ بڑی محبت تھی۔ نفیس بھائی اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتے تھے اور رئیس بھائی اپنی بیوی کے ساتھ۔
ہفتے میں ایک بار ضرور ملنا ہوتا تھا مگر آتے رئیس بھائی ہی تھے۔نفیس بھائی خال خال ہی ان کی طرف جاتے تھے۔
کچھ عرصے سے شہر کے حالات سیاسی وجوہ کی بنا پر خراب ہو رہے تھے۔آئے دن کہیں نہ کہیں دنگا فساد ہو جاتا تھا۔دکانیں بند ہو جاتیں اور پھر ہڑتال۔جو جہاں ہوتا، وہیں پھنس جاتا،بڑی مشکلوں سے گھر پہنچتا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب موبائل فون نہیں تھے اور خیریت معلوم کرنے کا ذریعہ پرانے تاروالے فون تھے۔ مگر وہ بھی ہر جگہ اور ہر گھر میں نہیں ہوتے تھے۔ نفیس بھائی کی امی بہت پریشان رہتی تھیں، وہ بار بار اپنے بیٹے رئیس سے کہتیں:
’’ اتنا بڑا گھر ہے تو الگ کیوں رہتا ہے، یہاں آجا۔‘‘
رئیس بھائی ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے ٹال جاتے۔
در اصل ان کی بیگم علیحدگی پسند تھیں اور وہ یہ بات بتا کر ماں کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتے تھے۔ رئیس بھائی کی بیگم ان کی خالہ کی بیٹی تھیں۔ رئیس بھائی دونوں بہنوں میں رنجش ڈالنانہیں چاہتے تھے اور اپنی امی کو یہ احساس دلا نانہیں چاہتے تھے کہ جس بھانجی کو وہ بڑے پیار سے بیاہ کے لائی ہیں، وہ ان کے ساتھ رہناہی نہیں چاہتی ہیں۔
بعض لوگ دوسروں کے عیب کو ڈھانپ لیتے ہیں اور اسے اپنی کوتاہی بنالیتے ہیں۔
ایک دن نفیس بھائی نے کہا:
’’بھائی جان! آپ آ کیوں نہیں جاتے یہاں؟‘‘
’’اصل میں وہاں سے فیکٹری بہت قریب ہے، بس دس منٹ کا ہی راستہ ہے موٹر سائیکل پر۔ یہاں سے تو بہت دور پڑتی ہے اس لیے وہاں رہتے ہیں۔‘‘ رئیس بھائی نے نرمی سے چھوٹے بھائی کو جواب دیا۔
’’جیسا آپ مناسب سمجھیں۔‘‘
نفیس بھائی میں بحث کی عادت بالکل بھی نہیں تھی۔
پھر ایک دن اچانک ایک ٹر یفک حادثے کے باعث شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہر طرف جلاؤ گھیراؤ نے وحشت کا سماں پیدا کر دیا۔ کوئی پیدل گھر پہنچا۔ کسی نے اپنے رشتے دار کے ہاں پناہ لی،اسکول کا لج بند، دکانیں بند، ہو کا عالم۔ خاص طور پر شہر کے مضافاتی علاقوں میں صورت حال بہت ہی خراب ہو گئی۔
نفیس بھائی کی امی سخت پریشان ہو گئیں، بولیں۔’’ ذرا اپنے بھائی کی خیریت تو پتا کرو، وہ کیسا ہے، بس جا کے کسی بھی طرح انہیں یہاں لے آئو۔‘‘
نفیس بھائی کا دل بھی بھائی کے لیے بڑا بے چین تھا۔ چھوٹے بھتیجے کی صورت بار بار آنکھوں میں پھر رہی تھی۔ سعادت مندی سے بولے:
’’جی امی! میں جا تا ہوں۔‘‘
وہ نکلنے لگے تو ماں نے بے چین ہو کر روک لیا۔
’’اچھا تم نہ جائو، میں جاتی ہوں۔ لڑائی بھڑائی تو مردوں کی مردوں سے ہوتی ہے، عورتوں کو بھلا کون کچھ کہتا ہے؟‘‘
نفیس بھائی اندر سے کم ہمت تو تھے ہی، فوراً رک گئے۔
بہن نے کہا،’’ بھائی! امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں اور امی چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں جائوں گا تم گھر میں رہو اور امی کا خیال رکھو۔‘‘اچانک انہوں نے کہا اور گھر سے نکل گئے۔
وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گلی میں چلنے لگے۔کسی نے کھڑکی میں سے جھانک کے کہا:
ٍٍ ’’نفیس بھائی!گھر واپس جائیں حالات اچھے نہیں ہیں۔ بار بار فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی اندھی گولی لگ جائے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ نفیس بھائی ٹھٹک گئے۔ انہیں پسینہ سا آگیا۔
وہ پلٹ کے گھر پہنچے۔ ابھی وہ دروازے پر ہی تھے کہ اندر سے آوازیں آئیں۔امی بیٹی سے تشویش بھرے انداز میں کہہ رہی تھیں:
’’میرانفیس بہت چھوٹے دل کا ہے۔ چلا تو گیا ہے بھائی کی محبت میں ،بس اللہ اس کی حفاظت کرے، آ جائے تو اب اسے گھر سے نکلنے نہیں دوں گی۔‘‘
نفیس بھائی کو جھٹکا سا لگا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی کم ہمتی کا راز انہی تک محدود ہے اور کوئی اس بات کونہیں جانتا، مگر مائیں تو بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتی ہیں۔
چھوٹی بہن نے جواب دیا۔’’ امی! ایسی بات نہیں ہے، دراصل بھائی نرم مزاج ہیں اورجھگڑا غصہ پسند نہیں کرتے، اور آپ سمجھتی ہیں کہ بھائی کم ہمت ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بڑے بھائی جان کو لینے ہر گزنہیں جاتے۔ میرے بھیابہت بہادر ہیں!‘‘
باہر کھڑے نفیس بھائی کی آنکھوں میں اپنی بہن کے مان پر آنسو آ گئے۔ بہنیں بھائیوں کی ہرکمی پر کتنی خوبی سے پر دہ ڈال دیتی ہیں۔
نفیس بھائی نے آسمان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ پاک سے التجا کی:
’’یا اللہ میری مددفرما اور مجھے اپنی امی اور بہن کے مان پر پورا اترنے کی ہمت عطاء فرما۔‘‘
دعا کر کے وہ خود کو مضبوط محسوس کرنے لگے۔ اللہ کی حفاظت پر یقین، دل کو بدل دیتا ہے۔
وہ بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے گلی سے نکل کے سڑک پر آئے اور ایک کھڑ کھڑاتے ہوئے رکشے کو آواز دی، جو ان حالات میں بھی رزق کی تلاش میںنکلا تھا۔
’’ کالونی جاؤ گے۔؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
رکشہ ڈرائیور نے انھیں دیکھا ،پھر بولا۔’’ بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’کتنے پیسے۔‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’ خیریت سے زندہ پہنچ گئے تو جو مناسب سمجھو دے دیا۔ ورنہ اللہ مالک ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر واپس بھی اسی رکشے پر آ جائیں گے۔‘‘ وہ بولے۔ ’’مجھے اپنے بھائی، بھتیجے اور بھاوج کو لانا ہے۔‘‘
’’ اچھا… اللہ مالک۔‘‘ رکشے والے نے رکشہ آگے بڑھادیا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں وہ مختلف سٹرکوں،گلیوں سے ہوتے فسادیوں سے بچتے بچاتے بھائی کی کالونی پہنچ ہی گئے۔ اس علاقے میں تو واقعی بہت ہی خراب حالات تھے۔
نفیس بھائی نے دروازے پر دستک دی تو کافی دیر کے بعد اندر سے رئیس بھائی نے دروازے کی جھری سے جھانکا اور چھوٹے بھائی کو دیکھ کر حیرت کی شدت سے چلا اٹھے:
’’ارے نفیس تم؟‘‘
’’بس جلدی کریں بھائی! بھابی اور گڈو کو لے کر آجائیں …جلدی… رکشہ کھڑا ہے۔‘‘
’’ بس چند منٹ۔‘‘ رئیس بھائی سے پہلے بھابی کی سہمی ہوئی آواز آئی۔ اگلے چند ہی منٹوں میں وہ ایک چھوٹا سا بیگ لے کر گڈو کو سینے سے لگائے رکشے میں آ بیٹھیں۔ رئیس بھائی نے گھر کو تالا لگا یا اور اللہ کے سپردکر دیا۔
واپسی بھی اسی طرح ہوئی۔ جگہ جگہ چیز یں اور سامان۔ اینٹ، پتھر بکھرے ہوئے تھے، وہ سب یا اللہ یا حفیظ کا ورد کرتے ہوئے گھر پہنچ گئے۔
بہن نے دروازہ کھولا اور دونوں بھائیوں، بھابی اوربھتیجے کو دیکھ کر نہال ہوگئی۔
’’ امی! دیکھیں نفیس بھائی سب کو لے آئے۔‘‘ اس نے بڑھ کر بھائی کے ہاتھ پکڑ لیے۔
’’ہاں آج تو نفیس نے میرا مان رکھ لیا۔ کیسے تن تنہا جا کے تینوں کو لے آیا۔ میں تو بس اسی وقت سے تم لوگوں کے لیے دعائیں کر رہی تھی۔‘‘
ٍ رئیس بھائی بولے:’’بلاشبہ آج نفیس نے شیخ سعدی کی حکایت کو سچ ثابت کردیا۔‘‘
’’ کون سی حکایت بھائی جان؟‘ بہن نے جلدی سے پوچھا۔
’’یہی کہ مردمصیبت میں پہچانا جاتا ہے۔‘‘ رئیس بھائی مسکرائے اور فخر سے بھائی کو دیکھا۔
نفیس بھائی آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔ اللہ پر بھروسے اور بھائی کی محبت نے ان کی کم ہمتی کودور کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top