پیلے رنگ کی شہنائی
کہانی:YELLO TRUMPETS
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ: پیلے رنگ کی شہنائی
مترجم:احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پرستان میں دو بُھتنے رہتے تھے۔ وہ پرستان میں شہنائیاں بنایا کرتے تھے۔ شہنائی بھونپو کی طرح بجانے والا ایک باجا ہوتا ہے۔ آپ بچوں نے شادی پر اسے شہنائی نوازوں کو بجاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ وہ دونوں ہرقسم کی شہنائیاں بنایا کرتے تھے۔ بڑی بڑی، چھوٹی چھوٹی، لمبی لمبی سرخ رنگ کی، نیلے رنگ کی اور سفید بھی۔ وہ جتنی تیزی سے شہنائیاں بناتے تھے اتنی ہی تیزی سے وہ بک بھی جایا کرتی تھیں، کیوں کہ پریوں کے ننھے منے بچے بڑے شوق سے انھیں خریدنے آیا کرتے تھے اور خوب مزے سے بجاتے تھے۔
سارا دن وہ اپنی چھوٹی سی دکان میں بیٹھ کر شہنائیاں بیچتے رہتے اور جب رات ہو جاتی تو وہ دکان بند کر لیتے اور پھر شہنائیاں بنانے بیٹھ جاتے۔ جلد ہی پرستان میں پریوں، بھتنوں کے سارے بچوں کے پاس اپنی اپنی شہنائی ہو گئی۔ اب پرستان کی گلی گلی میں ہر طرف شہنائی بجنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ تن۔۔۔ تن۔۔۔ تارا۔۔۔ تن۔۔۔ تن۔۔۔ تارا۔۔۔ ہر طرف بچے انھیں بجاتے پھرتے تھے۔ بڑی پریاں اس شور کا برا نہیں مناتی تھیں۔انھیں بھی بچوں کو کھیل تماشا کرتے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی،بلکہ کئی دفعہ وہ خود بھی بچوں کے ساتھ اس کھیل میں شامل ہو جاتی تھیں۔
پھر ایک دن دوسرے بھتنے نے ایک ایسی شہنائی بنائی جس میں سے بہت اونچی آواز نکلتی تھی۔ اتنی اونچی کہ کسی گزرنے والے کے کان میں بجائی جاتی تو وہ ڈر کے مارے مرنے والا ہو جاتا۔ وہ ایک بہت بڑی، چوڑی اور پیلے رنگ کی بہت خوب صورت شہنائی تھی۔
اس نے سیمی کو بلا کر کہا:”سیمی! ذرا اِدھر آؤ اور میری نئی شہنائی کو دیکھو!“ سیمی بھاگ کر اسے دیکھنے آیا، بنٹی نے اسے شہنائی دکھائی اور پھر اسے باہر کھلنے والی کھڑکی کے پیچھے چھپا دیا۔
تبھی ایک بونا سامان اٹھائے کھڑکی کے پاس سے گزرا تو اچانک بنٹی نے زور سے شہنائی کو بجایا۔تن۔۔۔ تن۔۔۔ تارا۔۔۔ یہ اونچی آواز سیدھی بونے کے کان میں گئی۔ اس بے چارے نے ساری زندگی اتنی اونچی آواز نہیں سنی تھی۔ وہ ڈر کے ہوا میں اُچھلا۔ اس کے ہاتھ سے ساری چیزیں زمین پر گر گئیں۔ وہ زمین پر گرا اور پھر اٹھ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھے بغیر دوڑ لگا دی۔ اسے لگا جیسے کوئی خوں خوار جانور اس پر حملہ آور ہو گیا ہے۔ سیمی اور بنٹی اس کی حالت دیکھ کر اتنا ہنسے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
بنٹی کہنے لگا:”آؤ! یہ شہنائی بچوں کو دکھائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہر بچہ اسے خریدنے کی کوشش کرے گا، اس لیے ہم ہر شہنائی چھ سو روپے کی بیچیں گے۔“
سیمی نے بھی خوش ہو کر بنٹی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
سیمی کہنے لگا:”اس طرح تو ہم بہت امیر ہو جائیں گے اور ہمیں مزید شہنائیاں بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر ہم مزے سے زندگی کام کیے بغیر گزار یں گے۔“
پھر دونوں شرارتی بھتنوں نے نئی شہنائی بچوں کو دکھائی اور انھیں سمجھایا کہ لوگوں کو ڈرا کر انھیں بڑا مزے آئے گا۔ پریوں کے بچوں کو یہ ترکیب بہت پسند آئی۔ ان سب نے سیمی اور بنٹی سے ان کے لیے شہنائیاں بنانے کو کہا اور سب بچے ایک شہنائی کے لیے چھ سو روپے دینے کو تیار ہو گئے۔
سیمی اور بنٹی پھر کام میں جت گئے۔ اگلے دن انھوں نے بارہ شہنائیاں بنا لی تھیں۔ انھوں نے ہر شہنائی چھ سو روپے کی بیچی۔ پرستان کی گلیوں میں بھی شور مچ گیا۔تن۔۔۔ تن۔۔۔ تارا۔۔۔تن۔۔۔ تن۔۔۔ تارا۔۔۔ نئی شہنائیوں کی اونچی آواز نے پرستان کے کئی لوگوں کو بہرا کر دیا اور کئی ڈر کر مرتے مرتے بچے۔
پرستان کے بادشاہ کو سب معلوم ہوا تو وہ کہنے لگے:”یہ اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ چھوٹی شہنائیوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا،لیکن یہ بڑے بھونپو تو بہت شور مچاتے ہیں۔“سیمی اور بنٹی کو مزیداس طرح کی شہنائیاں نہیں بنانی چاہییں۔
لہٰذا بادشاہ سلامت نے بنٹی اور سیمی کو پیغام بھیجوا دیا کہ مزید شہنائیاں نہ بنائیں۔ وہ یہ حکم سن کر بہت مایوس ہوئے کہ مزید شہنائیاں نہ بنائیں۔ وہ امیر ہونے ہی والے تھے۔ اب کیا ہوگا؟ سیمی اور بنٹی بہت ناراضی سے اس حکم کے خلاف بحث کرتے رہے۔
پھر اچانک بنٹی نے سیمی کے کان میں کوئی سرگوشی کی۔ اس نے بنٹی کو کہا:”ہم شہنائیاں بناتے رہیں گے اور بیچتے بھی رہیں گے، ہم گاہکوں سے کہیں گے کہ وہ رات کو شہنائیاں خریدنے آئیں۔ اس رازکے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہو سکے گا، ٹھیک ہے نا۔“ سیمی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
پھر جب ان کے ننھے گاہک باجے خریدنے آئے تو انھوں نے ننھے منوں کو سمجھایا کہ اگر وہ واقعی شہنائیاں خریدنا چاہتے ہیں تو آدھی رات کو چھپ کر آئیں۔پھر کیا تھا ہر رات ننھے شرارتی، پریوں، بھتنوں اور بونوں کے بچے سیمی اور بنٹی کے گھر کے پچھواڑے میں آتے اور شہنائیاں خریدتے۔ سیمی اور بنٹی امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور پرستان کی گلیوں میں شور بڑھتا گیا۔
اب تو بڑی عمر کی پریاں بہت ناراض ہوئیں۔ وہ شور کی وجہ سے رات کو سو بھی نہیں سکتی تھیں۔ اگرچہ وہ روز آ کر سیمی اور بنٹی کی دکان کا بغور جائزہ لیتیں لیکن انھیں کبھی نہیں لگا کہ سیمی اور بنٹی مزید شہنائیاں بیچ رہے ہیں۔ لیکن انھیں معلوم نہیں ہورہاتھاکہ پھر یہ شہنائیاں کہاں سے آ رہی ہیں؟
ایک سیانی پری کہنے لگی:”مجھے پتا ہے کہ ہمیں کیا کرناچاہیے؟ ہم سیمی اور بنٹی کی دکان پر جائیں گے اور اس کی مکمل تلاشی لیں گے۔ ہمیں پتا چل جائے گاکہ واقعی وہ دونوں شہنائیاں بنا رہے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ نہیں بنا رہے تو پھر کوئی اور بنا رہا ہوگا۔ جیسے ہی دکان کھلے گی ہم فوراً دکان پر چلتے ہیں۔“
اس رات ایک ننھا گاہک شہنائی خریدنے آیا تو اس نے دونوں بھتنوں کو بتایا کہ اس نے کیا سنا ہے یہ سن کر دونوں بھتنے بہت خوفزدہ ہوئے۔ انھیں معلوم تھا کہ اگر ان کی چوری پکڑی گئی تو انھیں سیدھا پرستان سے نکال دیا جائے گا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ہو۔
سیمی پریشان ہو کر بڑ بڑا رہا تھا:”ہم کیا کریں، ہم کیا کریں؟ ہمارے پاس اور کوئی جگہ بھی نہیں جہاں ہم ان شہنائیوں کو چھپا سکیں۔“
بنٹی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر کہنے لگا:”میں جانتا ہوں، ہمیں ان کو کھیتوں میں چھپانا چاہیے۔ اب جلدی کرو اور جتنی شہنائیاں اٹھا سکتے ہو اٹھا لو۔“ پھر وہ دونوں کھیتوں کی طرف بھاگے، جہاں لاکھوں پیلے رنگ کے پھول اگے ہوئے تھے۔
بنٹی کہنے لگا:”ہم ان پھولوں کی مدد سے ان پیلی شہنائیوں کو چھپا لیں گے۔ کسی کو اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ شہنائیاں یہاں چھپائی گئی ہیں۔“
جلدی جلدی ان پھولوں کے ساتھ وہ یہ باجے ٹانگنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد وہ اپنی دکان پر واپس آ گئے۔ دکان کھولنے کا وقت ہو گیا تھا۔ انھوں نے دکان کھولی۔ تبھی پریوں کے بادشاہ دکان میں داخل ہوئے۔ انھوں نے سیمی اور بنٹی کو بتایا کہ وہ اس دکان کی تلاشی لینے آئے ہیں۔
سیمی کہنے لگا:”ضرور لیجیے! آپ کو ایک بھی پیلی شہنائی یہاں نہیں ملے گی۔“
پھر واقعی دکان سے ایک بھی شہنائی نہیں ملی۔لیکن جب وہ مایوس ہو کر واپس جانے لگے تو ایک بونا بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا:”آئیے اور دیکھیں کھیتوں میں کتنے خوب صورت پھول اُگے ہوئے ہیں۔ آپ میں سے کسی نے اتنا خوب صورت نظارہ نہیں دیکھا ہوگا۔“
وہ سب کھیتوں میں گئے،اور جب پریوں نے غور سے پھولوں کو دیکھا تو انھیں سمجھ آ گئی کہ پھول اتنے خوب صورت اور عجیب کیوں لگ رہے تھے؟ ان کی پتیوں کے ساتھ شہنائیاں لٹک رہی تھیں۔ پریاں چلا کر کہنے لگیں:”اچھا شیطانو! تو تم ان کو یہاں چھپاتے ہو۔“ پھر انھوں نے سیمی اور بنٹی کو پکڑ لیا اور حکم دیا کہ فوراً پرستان سے نکل جاؤ۔ دونوں بھتنے گڑ گڑا کر معافی مانگنے لگے۔
تبھی ایک پری کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ بولی:”ہمیں ان دونوں کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ شہنائیاں بنا بنا کر پھولوں کے ساتھ ٹانگتے رہیں۔ دیکھو! شہنائیوں کی وجہ سے پھول کتنے خوب صورت لگتے ہیں۔“
سب پریاں اور بونے اس تجویز کو سراہنے لگے۔ لہٰذا یہ طے پا گیا۔ تب سے اب تک سیمی اور بنٹی انتہائی محنت سے شہنائیاں بنا بنا کر پھولوں کے ساتھ ٹانگ رہے ہیں۔ آپ نے بھی ان پھولوں کو دیکھا ہوا ہے۔ انھیں نرگس کے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ ہر باغیچے اور باغ میں اُگے ہوتے ہیں۔ اگلی بہار آنے پر ان کو غور سے دیکھنا کہ ان پھولوں کے ساتھ کتنی خوب صورتی سے سیمی اور بنٹی شہنائیاں ٹانگ رہے ہیں۔
٭٭٭