skip to Main Content
وفادار سپاہی

وفادار سپاہی

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر جنہیں مکہ کا شہزادہ کہا جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳ ہجری جنگ احد اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ جس میں ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور فتح شکست میں بدل گئی۔ جب قریش میدانِ جنگ سے چلے گئے تو مسلمان اپنے شہداء کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ مکہ کے ایک جوان رعنا، چہرے کے بل گرے ہوئے خاک و خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ سرور عالم کو ان کی شہادت سے دلی صدمہ پہنچا اور آپ پیارے صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاش کے قریب کھڑے ہو گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’مومنین میں بعض ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اﷲ سے جو وعدہ کیا ہے سچ کر دکھایا۔‘‘ 
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غمزدہ لہجے میں فرمایا: ’’میں نے مکہ میں تمہارے جیسا حسین اور خوش لباس اور کوئی نہیں دیکھا لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال گرد آلود ہیں۔ تمہارے جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت کے دن تم لوگ اﷲ کی بارگاہ میں پورے اعزاز کے ساتھ حاضر کیے جاؤ گے۔‘‘ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعریف و توصیف تاریخ اسلام کے نڈر سپاہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمائی۔ 
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر جنہیں مکہ کا شہزادہ کہا جاتا تھا۔ فی الحقیقت سارے مکہ میں ان جیسا خوبرو اور خوش پوش نوجوان کوئی نہیں تھا۔ وہ اعلا سے اعلا ریشمی کپڑے پہنتے اور عمدہ سے عمدہ خوشبو استعمال کرتے تھے جس گلی سے گزرتے تھے۔ وہ مہک جاتی تھی۔ ان کا زیادہ تر وقت اپنی تزئین و آرائش اور خوب صورت زلفوں کو بنانے اور سنوارنے میں گزرتا۔ اسلام کی دعوت کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز کیا تو اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ذہن نے فوراً اس دعوت حق کو لبیک کہا۔ 
آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان اصحاب مقدس میں ہوتا ہے جنہوں نے عین عالم جوانی میں عیش و آرام کی زندگی کو محض اﷲ کے لیے ترک کر دیا اور راہ حق میں ایسے ایسے مظالم جھیلے کہ جھرجھری آجاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار السابقون الاولون کے اس طبقے میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے تین ہجرتیں کی۔ اسلام لانے کے بعد بڑے ذوق و شوق سے ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم حاصل کرتے اور قرآن کی جو آیت نازل ہوتی اسے فوراً حفظ کر لیتے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ بعد عالم دین اور فقیہ سمجھے جانے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ زہد و فقر کی زندگی کو عیش کی ہزار زندگیوں پر ترجیح دیتے تھے۔
ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دن دربار رسالت میں اس حال میں داخل ہوئے کہ جسم پر ستر پوشی کے لیے معمولی کپڑا بھی میسر نہ تھا۔ ایک کھال کے ٹکڑے سے جسم کو باندھ رکھا تھا اور اس میں بھی جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ 
۲ ہجری میں غزوہ بدر کے موقع پر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ان تین سو تیرہ سپاہیوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے اپنی استقامت کی داستانیں صفحہ تاریخ پر مرتب کیں اور انہیں اصحاب بدر کا عظیم لقب عنایت ہوا۔ ۳ ہجری میں غزوہ احد پیش آیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوگئی۔ اس موقع پر بہت سے مسلمان ہمت ہار گئے اور بہت سے مسلمان یہ سوچ کرکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جینے سے کیا حاصل۔ شہادت کے حصول کے لیے میدان میں کفار سے مقابلے کے لیے گھس گئے۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر نے اس موقع پر ایک آیت کی تلاوت فرمائی۔ جس کا ترجمہ ہے: ’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔‘‘ اور کہا: ’’میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ 
ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر کفار پر ٹوٹ پڑے اور بڑی جگری سے لڑے۔ یہاں تک کہ کفار کے مشہور شہسوار ابن قمیہ نے پہلے دائیں ہاتھ پر وار کرکے ہاتھ شہید کر ڈالا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے علم بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس نے دوسرا ہاتھ بھی شہید کر دیاتو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کٹے ہوئے بازوؤں کا حلقہ بنا کر علم کو تھام لیا مگر گرنے نہ دیا۔ اسی اثناء میں ابن قیمہ نے گردن پر وار کیا کہ ان کے سینے میں نیزے کی انی گھس گئی اور وہ گر پڑے۔ اسی وقت ان کے بھائی ابو الروم رضی اللہ عنہ بن عمیر نے علم کو سنبھال لیا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ تدفین کے وقت اس شہید راہ حق کی چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ آخر کار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سر کو ڈھانپ دو اور پاؤں کو گھاس سے ڈھک دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی۔ یوں یہ وفادار سپاہی اس جہاں سے رخصت ہوا۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top