skip to Main Content
قیدی کی دعا

قیدی کی دعا

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔

یہ ایک بھری دوپہر کی بات ہے۔ جب سورج آہستہ آہستہ آسمان پر چڑھ رہا تھا۔ ہر طرف لوگ اپنے کام دھندے میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں مکہ کے بازار میں منادی ہوتی ہے۔ جسے سن کر لوگ جوق در جوق ایک سمت چل پڑتے ہیں۔ آج بھی مکہ کے کسی بازار میں تماشا دکھایا جانا ہے۔ ڈھول بج رہے ہیں۔ دف پیٹے جا رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جشن کا سماں ہے۔ لوگ رنگ برنگے جھنڈے ہاتھوں میں لیے چہروں پر شیطانی مسکراہٹوں کے ساتھ بے چینی سے تماشا دیکھنے کے منتظر ہیں۔ 
ایسے میں کچھ لمحے بعد مجمع کی نظر ایک شخص پر پڑتی ہے۔ معصوم صورت۔ پاکباز۔ یہ شخص زنجیروں میں جکڑ کر وہاں لایا جاتا ہے۔ مجمع کے افراد اس شخص کو اس حالت میں دیکھ کر خوشی و مسرت سے نعرے بلند کرتے ہیں۔ تالیاں پیٹتے ہیں کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ظلم و بے بسی کا عجیب منظر ہے۔ ایک بے بس قیدی کو بیسیوں مسلح افراد تلوار و نیزے تانے مقتل میں لاتے ہیں۔ ظالموں نے اس پردیسی کو قتل کرنے کے لیے خاص اہتمام کیا تھا اور طے کیا تھا کہ اسے سولی پر لٹکا کر نیزوں کے کچوکوں سے ہلاک کریں گے۔ ابھی مجمع میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے کہ دوبارہ سے ماحول میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ 
اس قیدی کو لانے والوں نے قیدی سے دریافت کیا: ’’کوئی خواہش ہو تو بیان کرو پوری کی جائے گی۔‘‘ مجمع کے لوگ سوچ رہے تھے کہ شاید قیدی امان مانگے یا شاید مال و دولت مانگے مگر قیدی نے کہا: ’’میری اور تو کوئی خواہش نہیں ہے۔ البتہ یہ چاہتا ہوں کہ دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دی جائے۔‘‘ قیدی کو مہلت مل جاتی ہے۔ قیدی قبلہ رخ ہو کر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر نماز مکمل کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: ’’ میں نماز میں زیادہ وقت صرف کرتا لیکن نہیں کہ تم سمجھوگے کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں اور قتل کا وقت ٹال رہا ہوں۔‘‘
اس کے بعد یہ قیدی بڑی دلیری و شجاعت کے ساتھ سولی کے نیچے کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر بلند آواز سے چند اشعار پڑھتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ الٰہی ہم نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا ہے تو اپنے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم برحق کو ہمارے حال کی خبر پہنچا دے۔‘‘ دعا مانگنے کے بعد قیدی نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور مجمع میں موجود ہر شخص کے لیے باآواز بلند بددعا کی کہ یارب ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔‘‘ اس کے بعد قیدی نے پھندا گلے میں ڈال لیا۔ اس موقع پر ظالموں نے دوبارہ قیدی کو ایک لالچ دیا: ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں آرام کرو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری جگہ سولی پر لٹکا دیا جائے۔ یہ سن کر قیدی نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جواب دیا : ’’خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے پاؤں میں کانٹا چبھے اور میں آرام سے بیٹھا رہوں۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ ظالموں نے سولی کا رسہ کھینچ دیا اور قیدی کو تیروں اور نیزوں سے زدو کوب کیا۔ اس موقع پر اس قیدی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا اور دعا کی کہ یااﷲ ان کی خبر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی جائے۔ لہٰذا دوسری طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت کے درمیان رونق افروز تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور منھ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔
’’علیک السلام یاخبیب۔‘‘ (اے خبیب رضی اللہ عنہ تجھ پر سلام)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حیرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حیرت بھانپ لی اور مخاطب ہو کر فرمایا: ’’ خبیب رضی اللہ عنہ کو اﷲ کے دشمنوں نے قتل کر ڈالا۔ یہ جبرائیل امین مجھے اس کا سلام پہنچانے آئے تھے۔‘‘
یہ شہید راہ حق قبیلہ اوس کے چشم و چراغ حضرت خبیب بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ مدینہ کے ان خوش نصیب ہستیوں میں سے تھے۔ جنہیں ہجرت سے قبل اسلام کی سعادت ملی۔ جنگ بدر کے تین سو تیرہ بہادروں میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس غزوہ میں مشرکین کے ایک بڑے رئیس حارث بن عامر کو جہنم واصل کیا۔ یہی آپ رضی اللہ عنہ کا مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرا بڑا قصور تھا۔ جس پر قریش نے آپ رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے قابوکرکے جس بدکرداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ کھلی شیطانیت اور بزدلی تھی۔ ایسا فعل تو عرب کی قومی روایت کے بھی خلاف تھا مگر قریش کے مشرکین جوش انتقام میں بالکل اندھے ہو چکے تھے۔ اسی لیے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو اس بے دردی سے شہید کیا گیا۔ 
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دن بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضی اللہ عنہ کو آپ رضی اللہ عنہ کا جسد خاکی مکہ سے لانے کا حکم دیا۔ حضرت زبیررضی اللہ عنہ اور حضرت مقدادرضی اللہ عنہ نے مکہ پہنچ کر جب آپ رضی اللہ عنہ کا جسد خاکی سولی سے اتارا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا جسم بالکل تازہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے زخموں سے ابھی تک خون ٹپک رہا ہے۔ بے شک حضرت خبیب رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد میں بھی بہادری و استقامت کا مظاہر ہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سلام بھیجا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top