skip to Main Content
علم کا دروازہ

علم کا دروازہ

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیبر کا قلعہ ایک بہت ہی مضبوط قلعہ تھا۔ جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتح کیا اور وہاں کے سردار مرحب کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔ صبح کے اجالے ہر طرف پھیلنے لگے۔ ایسے میں یہ شہر بہت صاف نظر آنے لگا۔ یہ ایک بڑا شہر تھا۔ جس میں بڑے بڑے مکانات، باغات اور کھیت تھے۔ ساتھ ہی کچھ چھوٹے بڑے قلعے بھی نظر آرہے تھے۔ مگر ایک چیز جو بہت صاف نظرآرہی تھی۔ وہ تھا لوگوں کا ایک بڑا مجمع۔ جو اپنے سردار کی رہنمائی میں دعا میں مشغول تھا۔ دوسری طرف شہر والے ایسے بے خبر سوئے کہ انہیں صبح ہونے کا پتا ہی نہ چلا۔ جب کافی دیر بعد شہر والے جاگے اور اپنے کھیتوں پر جانے کے لیے اپنے اوزار یعنی پھاوڑا اور کدال لے کر شہر کے دروازے سے نکلے تو باہر موجود مجمع میں سے ان کے سردار کی آواز آئی :’’ قلعہ خراب یعنی برباد ہو گیا۔‘‘
سات دن تک ان نیک لوگوں نے شہر میں داخل ہونے کے لیے مختلف حملے کیے۔ اصل میں ان شہر والوں کو ﷲ تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں دی تھیں مگر وہ ﷲ کا شکر ادا کرنے کے بجاے ﷲ کے ساتھ کسی دوسرے خدا کو شریک کرتے تھے۔ جو کہ بہت گناہ کی بات ہے۔ اس لیے ﷲ کے ایک نیک بندے نے اپنے ساتھیوں کو لیا اور ان سے مقابلہ کرنے اس شہر کے باہر جمع ہوئے۔ ان شہر والوں کو اپنی طاقت پر بھی بہت غرور تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے شہر میں داخل ہونے کی جگہ اونچی اونچی دیواریں اور دروازے بنائے۔ جنہیں قلعہ کہا جاتا ہے۔ تاکہ جب کوئی شہر پر حملہ کرے تو جلدی سے دروازہ بند کر لیں اور اپنی حفاظت کرسکیں۔ اب جو یہ لوگ ان شہر والوں سے مقابلہ کے لیے آئے تو انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور سات دن تک کوئی نہ ان دروازوں کو توڑ سکا اور نہ ہی ان سے مقابلے میں کامیابی حاصل کرسکا۔ ساتویں دن ان نیک لوگوں کے سردار نے لوگوں سے کہا:’’ کل میں مقابلے کے لیے اس آدمی کو بھیجوں گا جو اﷲ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر نیک لوگوں میں موجود سب لوگوں کو ہی مقابلے کی خواہش پیدا ہوئی مگر ان کے سردار نے نام لے کر ایک آدمی کو پوچھا: جب وہ آدمی (جن کو نام لے کر ان کے سردار نے بلایا تھا) مقابلہ کے لیے آئے تو بہت بہادری سے مقابلہ کیا اورآخر کار اس قلعے کا دروازہ اکھاڑ دیا اور یہ حملہ کامیاب ہوا۔
نیک لوگوں کا یہ مجمع مسلمانوں کی جماعت اور صحابہ کرام کی جماعت تھی اور ان کے سردار انبیاء کے سردار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ جس بہادر کو مقابلے کے لیے بھیجا۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ جن کا لقب حیدر یعنی شیر تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن طالب ۔صحابی رسول۔ چوتھے خلیفہ راشد۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔
خیبر کا قلعہ ایک بہت ہی مضبوط قلعہ تھا۔ جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتح کیا اور وہاں کے سردار مرحب کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طاقت کا یہ حال تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی قلعے کا دروازہ اکھاڑ پھینکا۔ جبکہ جنگ کے بعد کئی لوگوں نے مل کر اس دروازے کو اٹھانا چاہا تو نہیں اٹھاسکے۔

*۔۔۔*

حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت طاقتور ہی نہیں بہت بہادر بھی تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت عطا ہوئی تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ﷲ نے حکم دیا کہ اپنے خاندان والوں کو دین اسلام کی طرف بلاؤ۔ اس کے لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کو کھانے کی دعوت دی اور کھانے کے بعد دین اسلام کے بارے میں بتایا۔ یہ تمام کے تمام بڑے سردار تھے اور چالیس افراد تھے۔ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے پوچھا: ’’کون ہے جو میری بات قبول کرتا ہے۔‘‘ اس پر وہ تمام لوگ خاموش رہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جو دس گیارہ سال کے بچے تھے۔ انہوں نے پورے مجمع میں کھڑے ہو کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آپ کی پرورش کی۔ وہ اس طرح کہ مکہ میں بہت سخت قحط پڑا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوطالب بہت غریب تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے بھائی بہن بہت چھوٹے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے آئے اور ان کے دوسرے بھائی جعفر رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس رکھ لیا اوراس طرح ان کی پرورش ہوئی۔ نبوت ملنے کے بعد ایک دن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر ایک جگہ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر پوچھا تھا: ’’یہ آپ لوگ کیا کررہے تھے۔ جس پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام اور نماز کے بارے میں بتاکر ایمان قبول کرنے کو کہا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غور کرنے کی اجازت لی اور رات بھر کے غور کے بعد صبح صاف ذہن کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوتراب (یعنی مٹی والا) کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بے حد پسند تھا۔ ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ابوتراب! تمہیں معلوم ہے سب سے ظالم شخص کون ہے؟‘‘ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’وہ جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا۔‘‘
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اور سب سے ظالم شخص آئندہ کون ہو گا؟ ‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’نہیں معلوم۔‘‘ اس پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر پر ایک طرف ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’جو اس جگہ وار کرے گا۔‘‘
۱۷ رمضان المبارک کو حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح نماز کے لیے مسجد کی طرف چلے۔ راستے میں آپ لوگوں کو بھی نماز کے لیے آواز دے دے کر جگاتے تھے۔ا تنے میں ابن ملجم نامی شخص سے سامنا ہوا اور اس نے اچانک آپ پر تلوار کا بھرپور وار کیا۔ جس کے نتیجے میں آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے۔ مگر آپ کی وفات تین دن بعد یعنی ۲۱ رمضان المبارک کو ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل دیا اور آپ کی نماز جنازہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ 
بہادری کے علاوہ سادگی، عبادت اور خوف الٰہی آپ کی سیرت کی خاص خوبیاں تھیں۔ زمانہ خلافت میں تنہا بازاروں میں گھومتے پھرتے۔ بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ بتاتے۔ کمزوروں کی مدد کرتے اور تاجروں، دکانداروں کو عدل کے بارے میں قرآنی آیات سنا کر عدل کا حکم دیتے۔ معمولی غذا اور سادہ لباس استعمال فرماتے۔ زمانہ خلافت میں بھی انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ آپ کی خلافت کا زمانہ ۴ سال نو ماہ ہے۔ اپنے دور خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے بہت انصاف سے فیصلے کیے۔ ﷲ تعالیٰ آپ سے راضی ہو۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top