skip to Main Content

سرورِ کائنات

علامہ ساحل بلگرامی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرب میں ایک زمانہ تھا۔جب چاروں طرف جہالت چھائی ہوئی تھی۔کہیں آگ پوجی جاتی تھی اور کہیں ستاروں کی عبادت ہوتی تھی ۔کوئی تین خداؤں کو مانتا تھا اور کوئی دو خدا بنائے بیٹھا تھا۔عرب کے بہت سے لوگ مورتیوں کو اپنا خدا سمجھتے تھے۔اور کعبہ جو اس وقت مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اور جس طرف منہ کرکے مسلمان نماز پڑھا کرتے ہیں ۔بت پوجنے والوں کی تیرتھ گاہ تھا۔چاروں طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔کوئی قانون تھا نہ قاعدہ۔ذراذرا سی بات پر جنگ چھڑ جاتی تھی ۔معمولی سے معمولی بات پر خاندان کے خاندان اپنی جانوں کی بازی لگا دیتے تھے۔ کہیں مویشی چرانے پر جھگڑا ہوجاتا تھا اور کہیں گھوڑے آگے بڑھانے پر بری طرح چل جاتی تھی۔
لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔جوا کھیلنے میں اپنادن دن گنوادیتے تھے۔اور شراب پی کر نالیوں میں گرتے اور اول فول بکتے پھرتے تھے ۔عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔کسی شخص کو مار ڈالنا اُن کے لیے کوئی بات نہ تھی ۔گھوڑ ڈور میں بازی لگا کر تباہ ہوتے تھے۔اور انسانوں کو اپنا غلام اور لونڈی بنا کراُن سے جانوروں کی طرح کام لیتے تھے۔نکاح جتنے چاہتے تھے کرتے تھے۔اور جب چاہتے تھے ،طلاق دے دیتے تھے۔عورتیں بے پردہ پھرا کرتی تھیں اور اپنے جسموں کو نیل سے گودا کرتی تھیں۔
یہی برائیاں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں کہ اللہ تعالی کی رحمت سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ (ہماری جانیں ان پر فدا ہوں)پیدا ہوئے۔
جس سال کعبے پر ہاتھیوں کے ذریعہ چڑھائی کی گئی تھی۔اسی سال ہمارے نبی ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔اس وقت عیسوی سن ۵۷۱ تھا۔
کچھ روز پہلے آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب شام گئے تھے ۔اور واپسی کے وقت مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔اس واقعے کے چند ماہ بعد رسول اللہﷺ کی ولادت ہوئی۔
باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ اس لیے آپ کے دادا عبدالمطلب بن ہاشم نے آپ کی پرورش کی ۔انہوں نے آپ کا نام محمد رکھا۔لیکن بی بی آمنہ آپ کو احمدﷺ کے نام سے پکارنے لگیں۔ ولادت کے ساتویں روز آپ کے دادا نے قربانی کی اور آٹھویں روز آپ کو دودھ پلانے کے لئے حلیمہ دائی کے سپرد کر دیا گیا۔وہ آپ کو اپنے گھر لے گئیں اور ہر چھٹے مہینے آپ کو آپکی والدہ کے پاس لاتی تھیں۔دو برس کا سن ہوا تو آپ کا دودھ چھڑایا گیا۔لیکن آپ حلیمہ دائی کے پاس چار برس رہے۔پھر اپنی ماں کے پاس آگئے۔بی بی آمنہؓ آپ کو چھ برس کے سن میں اپنے ہمراہ لیکر مدینہ منورہ گئیں اور واپسی کے وقت مقام ابواطر میں انتقال فرماگئیں۔
ابھی والد کے انتقال کو دو ہی سال گزرے تھے اور آپ کا سن ۸ ہی برس کا تھا کہ دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔دادا نے اپنے بیٹے حضرت ابو طالب کے حوالے کردیا کہ وہ آپ کی پرورش کریں۔
بچپن میں ہمارے نبی ﷺ کی عجیب حالت تھی جاہلیت کے زمانے کے عربوں کی عادتوں کو آپ اچھا نہ سمجھتے تھے۔لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے اور تنہارہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
جب آپﷺ ۱۳ سال کے ہوئے تو آپ نے اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ شام کا سفر کیا۔بصریٰ کے قریب بحیرہ راہب نے آپﷺ میں نبوت کے نشان دیکھے اور اس کی اطلاع اپنی قوم کو دی۔اس کے بعد دوسری بار جب آپ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا تجارتی سامان لے کر شام تشریف لے گئے تو ایک دوسرے راہب نسطورا نے بھی آپﷺ کو نبی کہا۔اس سفر میں حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ بھی ساتھ تھے۔انہوں نے واپس آکر اس کا ذکر حضرت خدیجہؓ سے کیااور آپﷺ کے اچھے اخلاق اور برتاؤ کا ذکر کیاتو ان پر بہت اثر ہوا۔پھر ان کی خواہش کی بنا پر حضرت ابو طالب نے ان سے آپﷺ کا عقد کر دیا۔اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی اور حضرت خدیجہؓ چالیس سال کی تھیں۔
جب آپﷺ ۳۵ سال کے تھے ۔اس وقت آپ کے خاندان قریش کے بڑے بڑے آدمی کعبے کی دیواریں گرا کر اٹھا رہے تھے۔جب حجر اسود کو رکھنے کو نوبت آئی تو سردار آپس میں لڑنے لگے۔ہر شخص اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو رکھنا چاہتا تھا۔آخر میں مشورہ ہوا کہ اس کے لئے اس شخص سے فیصلہ کرایا جائے جو صبح کے وقت سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن صبح کو سب سے پہلے آپﷺ ہی تشریف لائے۔لوگوں نے کہا یہ امین ہیں۔یہی امانت داری سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔چنانچہ آپ کے سامنے یہ معاملہ بیان کیا گیا۔آپﷺ نے ایک کپڑے میں حجر اسود کو رکھ کر قریش کے سرداروں سے فرمایاکہ اس کپڑے کے کنارے پکڑ لو۔چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔جب حجر اسود اپنے مقام کے قریب پہونچاتو آپﷺ نے اسے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیااور یہ سارا جھگڑا ختم ہو گیا۔
تاریخوں میں ہے کہ اس کے بعد آپﷺ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے۔اور آپﷺ کا زیادہ وقت غار حرا میں گزرنے لگا۔یہاں آپﷺ کئی کئی راتیں خدا کی عبادت میں بسر کرتے تھے۔
آپ ﷺکا سن مبارک ۴۰ سال کا تھا کہ آپﷺ کے پاس خدا کی طرف سے (حضرت جبریل)آئے اور آپ ﷺسے باتیں کیں۔اسی کو وحی کہتے ہیں۔اس کے بعد وحی برابر اترتی رہی۔آپﷺ خدا کے پیغمبر ہو گئے۔اور سب سے پہلے بی بی خدیجہؓ آپ پر ایمان لائیں۔اس کے بعد آپﷺ کو معراج ہوئی اور مسلمانوں پر نماز فرض ہوئی۔
شروع میں ایمان لانے والے حضرت علیؓ، حضرت ابوبکرؓاور حضرت زیدؓ تھے۔حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓ دونوں بھائی بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی اپنے باپ سے چھپ کر پہاڑی دروں میں جاکر نماز پڑھا کرتے تھے۔
ایک دفعہ رسول اللہﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔اتفاق سے حضرت ابو طالب بھی ادھر آ نکلے ۔آپﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے باپ دادا کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔تاہم اتنا کر سکتا ہوں کہ تمہاری مخالفت نہ کروں گا۔اس کے بعد حضرت علیؓ سے کہا۔’’دیکھو محمدﷺ کا ساتھ نہ چھوڑنا۔یہ تم کو بھلائی کے سوا ا ور کچھ نہ سکھائیں گے۔‘‘
حضرت علیؓ کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور آنحضرتﷺ کے غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ نے اسلام قبول کیا۔اسی زمانے میں حضرت عثمان غنیؓ،سعدؓ بن ابی وقاص،عبد الرحمنؓ بن عوف،زبیرؓ بن العوام وغیرہ ایمان لائے۔ان لوگوں کے بعد حضرت عمرؓ کی ہمشیرہ فاطمہؓ وغیرہ مسلمان ہوئیں۔
ان بزرگوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی۔یہ لوگ مشرکین کے خوف سے جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر نماز پڑھتے تھے۔
وحی اترنے کے تین سال بعد آنحضرت ﷺنے عام لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا۔اس کا حال یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آپﷺ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور قریش کو اپنے پاس بلا کر کہا۔’’اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ صبح یا شام کو تمہارا دشمن تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے تو تم اس بات کو سچ جانو گے؟‘‘قریش نے کہا۔’’ہاں‘‘ اس وقت رسول اللہﷺ نے فرمایا’’آنے والے برے وقت سے ڈرو،بت پرستی چھوڑ دو اور ایک خدا پر ایمان لے آؤ۔‘‘
قریش یہ سن کر بڑبڑاتے ہوئے ادھر ادھر چل دئیے۔
اس کے بعد آپﷺ کو خدا کا حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتے داروں کو اسلام کی دعوت دو۔آپﷺ کے حکم سے حضرت علیؓ ابن طالب نے تھوڑا سا کھانا تیار کیااور آپﷺ نے حضرت عبد المطلب کی اولاد کو بلا کر کھانا کھلایااور اسلام کی دعوت دی۔بت پرستی سے منع کیااور خدا کے عذاب سے ڈرایا۔لیکن ان لوگوں نے ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔
جب قریش نے دیکھا کہ ان کے بتوں کی برائیاں کھلم کھلا بیان کی جاتی ہیں اور ان کو پوجنے سے روکا جاتا ہے توانہیں بہت ناگوار گزرا۔وہ سب ایک مکان میں جمع ہوئے اور آپ کی دشمنی پر تیار ہو گئے۔حضرت ابو طالب نے ان لوگوں کو روکا اور آنحضرتﷺ کی مدد پر تیار ہو گئے۔قریش نے حضرت ابو طالب کو اپنانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ ان کے نہ ہوئے۔
حضرت ابو طالب نے قریش کو جمع کرکے آنحضرتﷺ کو بھی اپنے پاس بلایااور قریش کی گفتگو کو دہرا کر ان کا ارادہ ظاہر کیا۔آپﷺ نے فرمایا ’’اے چچا!میں یہ کام نہ چھوڑوں گا چاہے خدا مجھے اس میں پوری کامیابی بخشے یا میں ہلاک ہو جاؤں۔‘‘ابو طالب یہ سن کر خاموش ہو گئے اور آپ کو تسلی دے کر کہا۔’’بھتیجے! جو باتیں تمہاری نزدیک ٹھیک ہو ں، وہی کہو۔خدا کی قسم میں تم کو ان کے سپرد نہ کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت عبد المطلب اور ہاشم کی اولادنے حضرت ابو طالب کے ساتھ رسول اللہﷺ کی حمایت پر کمر باندھی۔عرب کے تمام قبیلے مسلمانوں کو تکلیفیں دینے لگے۔آئے دن فساد ہونے لگا۔جب ان لوگوں کے مظالم بہت بڑھ گئے تو آپ ﷺنے غریب مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ملک حبشہ کی طرف چلے جائیں۔چنانچہ گیارہ بزرگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ان میں حضرت عثمانؓ، ان کی بیوی اور حضرت زبیرؓ بن العوام بھی تھے۔اس کے بعد اور مسلمان بھی حبشہ جاتے رہے اور ان کی تعداد تراسی تک پہنچ گئی۔حضرت جعفرؓ بن ابی طالب بھی حبشہ چلے گئے تھے۔
جب قریش نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ کو تکلیف پہنچانے سے آپ کے عزیزاور خصوصاً آپ ﷺکے چچا روکتے ہیں تو وہ یہ کرنے لگے کہ جو مکہ میں آتا تھا،اس سے آنحضرتﷺ کے متعلق کہتے تھے ۔’’ان کو جنون ہو گیا ہے، وہ جادو کرتے ہیں اور شعر کہتے ہیں۔‘‘اس قسم کی اور بھی بہت سی باتیں کرتے،تاکہ لوگ آپﷺ کے پاس جا کر مسلمان نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد ایک گروہ نے ان کو ایذا پہنچانے اور ان سے تمام تعلقات توڑدینے کا عہد کیا۔ان میں آپﷺ کے چچا ابولہب،ابو سفیان بن حرب اور ابو جہل وغیرہ شامل تھے۔
اسی زمانے میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ فاروق اسلام لائے۔اس کے بعد پہلے ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوااور اس کے ۳۵ یا ۵۵ روز بعد حضرت ابوطالب نے وفات پائی جس کا آپ ﷺکو بہت زیادہ صدمہ ہوا۔
ان بزرگوں کی وفات کے بعد عرب کے مشرکین رسول اللہﷺ کو زیادہ تکلیف پہنچانے اور مذاق اڑانے لگے۔نماز پڑھنے کی حالت میں آپﷺ پر غلاظت ڈال دیتے تھے۔چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا۔جو آپﷺ پر تالیاں بجاتے اور ڈھیلے مارتے تھے۔
مکہ کے لوگ آپﷺ کو تکلیف پہنچانے اور اسلام کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔لیکن پھر بھی مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔اس کے بعد ہی آپ ﷺکو معراج ہوئی،پہلے آپﷺ مکہ سے بیت المقدس گئے ،پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے۔اور تمام نبیوں ؑ سے ملاقات فرمائی۔
دشمنوں کی ظلم و زیادتی کے باوجود آپﷺ نا امید نہیں ہوئے۔ہر موقع پر لوگوں کو سمجھاتے اور سیدھی راہ دکھاتے رہے۔اور حج کے زمانے میں جو لوگ ادھر ادھر سے آتے تھے۔آپﷺ ان کے پاس جاتے اور انہیں مسلمان ہونے کی دعوت دیتے تھے۔
اب اسلام کی روشنی مدینہ میں اچھی طرح پھیل چکی تھی۔اور اس کے ساتھ مکہ کے کافروں کی عداوت بھی دن دونی رات چوگنی ہونے لگی تھی۔اس وقت رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب(ساتھیوں)کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔چنانچہ رفتہ رفتہ تمام صحابہ مدینے تشریف لے گئے۔اور مکہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ رہا۔اس وقت رسول اللہﷺ خدا وند تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں تھے۔
جب لوگوں نے مسلمانوں کو ہجرت کرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی اندازہ کیا کہ رسول اللہﷺ بھی عن قریب جانے والے ہیں تو قریش نے ایک جگہ جمع ہو کر مشورہ کیا ۔جمع ہونے والوں میں ابو سفیان اور ابو جہل بھی تھے۔قریش کے علاوہ اس جلسے میں اور قبیلوں کے لوگ بھی تھے۔مشورے میں ابوجہل کی یہ رائے ہوئی کہ ہر قبیلے سے ایک ایک جوان چنا جائے اور یہ سب مل کر رسول اللہﷺ کو قتل کر دیں تاکہ کسی ایک پر الزام نہ لگایا جا سکے۔جلسے میں شریک ہونے والوں نے اس رائے کو پسند کیا اور طے کیا کہ اسی رات کو یہ کام کر لیا جائے ۔
مکہ لے لوگوں نے رات کے وقت رسول اللہﷺ کے گھر کو گھیر لیا۔آپﷺ کو وحی کے ذریعے اس کی اطلاع مل گئی۔چنانچہ آپ ﷺنے خدا کے حکم سے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا۔خدا نے کافروں کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے اور آنحضرتﷺ،حضرت ابوبکرؓکے گھر سے نکل کر رات ہی کو ایک غار میں چھپ کر بیٹھ رہے۔قریش آپ ﷺکو ڈھونڈتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔لیکن غار کے منہ پر مکڑیوں نے جالا تن دیا ۔اس لئے مطمئن ہو کر واپس چلے گئے اور آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کی گرفتاری کے لئے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کر دیا۔
جب اس غار (ثور)میں ان دونوں بزرگوں کو تین روز گزر گئے اور قریش کا زور کم ہوا تو ان کا رہبر عبداللہ دو اونٹنیاں لایا۔اور یہ دونوں حضرات ان پر بیٹھ کر کم آمد و رفت والے راستے سے مدینہ کو روانہ ہو گئے ۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے چلتے وقت اپنا سارا مال اپنے ساتھ لے لیا تھا۔دونوں حضرات چلتے چلتے آخر کار دوشنبہ کو مدینہ پہنچ گئے۔اس روز ربیع الاول کے مہینے کی آخری تاریخ تھی۔اورآفتاب ڈھل چکا تھا۔
آنحضرتﷺ مقام قباء میں سعد بن خثیمہؓ کے مکان پر اترے۔اور حضرت ابو بکرؓ مقام سخ میں خارجہ بن زید کے مکان پر ٹھہرے۔
آنحضرتﷺ کے روانہ ہو جانے پر حضرت علیؓ وہ امانتیں جو لوگوں کی رسول اللہﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ان کے مالکوں تک پہنچا کر مدینے روانہ ہو گئے اور چند روز میں آ نحضرتﷺ کے پاس قباء پہنچ گئے۔
سرور کائناتﷺ دو شنبہ سے پنجشنبہ تک قباء میں رہے۔اتنے میں وہاں ایک مسجد بن گئی جس میں آپﷺ نے جمعہ کی نماز ادا فرمائی اس کے بعد مدینے کے لوگوں میں جھگڑا شروع ہو گیا کہ رسول اللہﷺ کس کے مکان میں ٹھہریں۔۔۔آپ ﷺنے فرمایا۔’’میری اونٹنی کو نہ روکو،جہاں یہ ٹھہر جائے، وہیں میں ٹھہروں گا۔‘‘چنانچہ چلتے چلتے آپ ﷺکی اونٹنی بنو مالک کے محلہ میں ویران جگہ پر جا کر بیٹھ گئی۔وہاں کچھ دیر سستائی اور پھر آگے چلی۔لیکن پلٹ کر پھر وہیں آکر بیٹھ گئی۔ قریب ہی حضرت ابو ایوبؓ انصاری کا مکان تھا۔وہ آپﷺ کا سارا سامان اپنے گھر اٹھا لے گئے اور آپﷺ انہی کے ہاں ٹھہر گئے۔
اس مقام کو وہاں کے لوگوں نے مفت دے ڈالنا چاہا۔لیکن آپ ﷺنے قبول نہیں کیا اور اس کی قیمت ادا کر دی۔اور خود وہاں پر مسجد بنائی۔انصار اور مہاجرین نے بھی اس میں آپﷺ کی مدد کی۔
جب رسول اللہﷺکے راہبر عبد اللہ بن اریقط نے مدینے پہنچ کر عبد اللہ بن ابی بکرؓ کو آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کے خیریت کے ساتھ پہنچ جانے کی اطلاع دی ،تو عبد اللہ بن ابی بکرؓ اپنے ساتھ حضرت عائشہؓ اور ان کی ماں ام رومانؓ کو لے کر مدینے روانہ ہوئے رسو ل اللہ ﷺنے ام المومنینؓ سے سخ میں حضرت ابو بکرؓ کے مکان پر شادی کی۔
اسکے بعد مہاجرین کی امداد کے لئے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ پیدا کیا گیا اور ایک دوسرے کے بھائی بنائے گئے۔
جب مدینے میں آنحضرتﷺ کو اطمینان نصیب ہوا اور آپﷺ کے پاس انصار اور مہاجرین جمع ہو گئے توآپﷺ نے زکوٰۃ کا حکم جاری کیا اورمقیم پر نماز میں دو رکعتیں بڑھا کر چار رکعتیں کر دیں۔
ان واقعات کے بعد یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم اور سردار عبد اللہ بن سلام مسلمان ہو گئے۔اور ان کے مسلمان ہوتے ہی یہودیوں میں مخالفت کی ایک آگ بھڑک اٹھی۔انہوں نے مسلمانوں سے لین دین بند کر دیااور بہت سے مسلمانوں کو بہکا کر پھر بے دین کر لیا۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ کو خدا کی طرف سے جہاد کا حکم ہوااور آپ ﷺنے کافروں اور یہودیوں وغیرہ سے بہت سی جنگیں کیں جن میں بدر،احد،خندق اور جنگ خیبر وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے سترہویوں مہینہ کے شروع میں قبلہ بدل دیا گیا۔پہلے تمام مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔اب خدا کا حکم ہوا کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔
ماہ ذیقعدہ سن ۶ ہجری میں رسول اللہﷺ حج کے لئے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔آپﷺ کے ہمراہ انصاری اور مہاجرین کا بہت بڑا گروہ تھا۔
مکہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہﷺ آ رہے ہیں ،تو انہوں نے مزاحمت کی لیکن بعد میں مصالحت کے لئے نامہ و پیام شروع ہو گئے۔
حضرت عثمانؓ رسول اللہﷺ کی طرف سے مکہ کے مشرکین کے پاس صلح کا پیغام لے کر گئے ۔اتفاق سے ان کے واپس آنے میں دیر ہوئی اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو مشرکوں نے شہید کر ڈالا۔۔۔آنحضرت ﷺکو بہت رنج ہوا اور آپ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر لوگوں سے مرنے لیکن لڑائی سے نہ بھاگنے کا عہد لیا۔اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں۔
اس کے بعد قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو ،رسول اللہﷺ کی خدمت میں آیااور ان شرطوں پر سمجھوتا ہوا:
۱)اس سال رسول اللہﷺ واپس جائیں۔اور آئندہ سال حج کرنے کے لئے مکہ آئیں۔اپنے ساتھ ہتھیار نہ لائیں۔صرف تلوار لائیں۔اور تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔
۲)یہ صلح دس سال تک قائم رہے گی،اور ایک دوسرے کو اس مدت میں نہ ستائیں گے۔
۳)جو شخص کافروں میں سے مسلمانوں میں آجائے گا۔وہ واپس کر دیا جائے گااور جو مسلمانوں کا کافروں میں چلا جائے گاوہ واپس نہ کیا جائے گا۔
آخری شرط مسلمانوں کو ناگوار ہوئی لیکن رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ یہ شرط امن قائم کرنے اور اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ ہوگی۔
حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے معاہدہ لکھا۔جس میں آنحضرت ﷺکے نام کے ساتھ رسول اللہﷺ بھی لکھا ہوا تھا۔سہیل نے کہا اگر ہم محمد کو رسول اللہ مانتے تو ان سے لڑتے ہی کیوں؟
آ نحضرت ﷺنے حضرت علیؓ کو ’’رسول اللہ‘‘ مٹا دینے کا حکم دیا۔لیکن حضرت علیؓ نے اس کو بے ادبی خیال کیا تو رسول اللہﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے ’’یہ لفظ‘‘مٹا دیا۔اس معاہدے کے بعد مسلمانوں پر مشرکہ عورتیں اور کافروں پر مسلمان عورتیں حرام کر دی گئیں۔
اس صلح کے بعد آنحضرت ﷺکے اپنے بعض صحابہ کو عرب اور عجم کے بادشاہوں کے پاس اپنے خطوط دے کر بھیجا جن میں اسلام کی طرف بلایا گیا تھا۔یہ خطوط یمالہ، بحرین،عمان،اسکندریہ،روم،دمشق و حبش کے بادشاہوں کو لکھے گئے تھے۔
اسکندریہ کے والی نے آپ ﷺکے خط کی بہت عزت کی اور واپسی کے وقت چار لونڈیاں تحفے کے طور پر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔جن میں ایک ابراہیم ابن رسول اللہﷺ کی والدہ ماریہ قبطیہؓ بھی تھیں۔
روم کے بادشاہ ہرقل نے آپﷺ کے خط کو سر آنکھوں پر رکھا اور آپﷺ کی نبوت کو مانا ۔لیکن جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کیا تو ان لوگوں نے انکار میں جواب دیا۔
والی دمشق آپﷺ کے خط کو پڑھ کر برہم ہوااور اس نے غصے میں کہا’’کون ہے جو مجھ سے میرا ملک چھینے گا۔میں خود اس پر حملہ کروں گا۔‘‘رسول اللہﷺ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ ’’اس کا ملک تباہ ہوگا۔‘‘
نجاشی والی حبشہ کو جو خط رسول اللہﷺ نے لکھا تھا۔اس کے جواب میں اس نے لکھا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ آپﷺ خدا کے سچے نبی ہیں۔اور میں اسلام لاتا ہوں۔اسی کے ساتھ اس نے اپنے لڑکے کو ساٹھ حبشیوں کے ہمراہ رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا ۔لیکن ان کو لانے والی کشتی ڈوب گئی۔
بحرین اور عمان کے بادشاہ بھی ایمان لے آئے ۔مگر ایران کے بادشاہ نے بڑی گستاخی کی۔جب اسے آپ ﷺکا مبارک خط ملا تو اسے غصے میں آکر پھاڑ ڈالااور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔محمد مصطفی ﷺکو معلوم ہوا تو فرمایا۔’’اس کی بادشاہت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگی۔‘‘آخر ایسا ہی ہوا۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد سن آٹھ ہجری میں خالی بن ولیدؓ اور عمرو بن العاصؓ وغیرہ اسلام لائے ۔
حدیبیہ کی صلح کے بعد مکہ کے کافر برابر مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچاتے رہے اور عہد نامے کے خلاف باتیں کرتے ۔جب ان کی یہ حرکتیں حد سے گزر گئیں تو رسول اللہ ﷺنے مکہ کی طرف روانگی کا حکم دیا۔
تمام صحابہ اپنے اپنے ہتھیار درست کرنے لگے۔۱۰رمضان المبارک سن ۸ ہجری کو آنحضرتﷺ دس ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔راہ میں آنحضرتﷺ کے چچا عباسؓ بن عبد المطلب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آتے ہوئے ملے۔رسول اللہﷺ کے کہنے سے حضرت عباسؓ نے اپنا اسباب مدینہ بھیج دیا اور خودرسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ کو واپس ہوئے۔
عشاء کے وقت ایک جگہ اسلامی فوج اتری۔آنحضرتﷺ نے ایک ہزار سپاہیوں کو الگ کرکے آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔حضرت عباسؓ کو خیال ہوا کہ اگر اب کی بار مکہ والوں نے آنحضرتﷺ کی مخالفت کی اور آپﷺ زبردستی مکہ میں داخل ہوئے تو قریش کی خیریت نہیں۔اس خیال سے وہ رسول اللہﷺ کے خچر پر بیٹھ کرلشکر سے نکلے کہ کسی آنے جانے والے ذریعے ہر خبر مکہ والوں کو پہنچا دیں۔راہ میں ایک جگہ ابو سفیان خبر سننے کے لئے ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔حضرت عباسؓ نے ابو سفیان سے اپنا خیال ظاہر کیا اور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ قریش اسلام قبول کر لیں۔یہ سن کر ابو سفیان حضرت عباسؓ کے ساتھ لشکراسلام کی طرف روانہ ہوئے ۔دوسرے دن ابو سفیان کو حضرت عباسؓ نے رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیااور وہ مسلمان ہو گئے۔اس کے بعد حضرت عباسؓ نے آنحضرتﷺ سے گزارش کی کہ ابو سفیان مکہ کا سردار ہے ۔اس لیے آپﷺا سے کوئی خاص عزت بخشیں تاکہ دوسروں کے مقابلے میں وہ بڑا ظاہر ہو۔آپﷺ نے فرمایا’’جو شخص ابو سفیان کے مکان میں داخل ہو جائے گا۔اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے گی۔اس کے بعد آنحضرت ﷺنے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابو سفیان کو راستے کے نکڑ پر لے کر کھڑے ہو جاؤ تاکہ وہ اللہ کے لشکر کو دیکھے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو سفیان اس فوج کو دیکھ کر بہت زیادہ حیران ہوئے۔اس کے بعد ابو سفیان مکہ واپس گئے اور مکہ والوں کو ان تمام باتوں سے آگاہ کیا۔
اسلامی فوج کا جھنڈا اس وقت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا۔لیکن اس کے بعد ان کے ہاتھ سے جھنڈا لے کرحضرت علیؓ بن ابی طالب کو دے دیا گیا۔سیدھے ہاتھ کی طرف کی فوج حضرت خالدؓ بن ولید اوربائیں ہاتھ کی فوج کو حضرت زبیرؓ لیے ہوئے تھے۔اور لشکر کے درمیان رسول اللہ ﷺ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓاور حضرت عثمانؓ تھے۔فوج کے سرداروں کو حکم دیا گیا تھاکہ جو روکے اس سے جنگ کرو۔ آنحضرتﷺ ذی طویٰ کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے ۔عکرمہ بن ابو جہل وغیرہ نے کچھ لوگوں کو مقابلے کے لئے جمع کیا۔جن سے خالدؓ بن ولید نے مقابلہ کیا۔اس میں تین صحابی شہید ہوئے اور مکہ کے تیرہ کافر مارے گئے۔باقی آدمیوں کو آنحضرتﷺ نے امان دے دی۔اور اس طرح مکہ فتح ہو گیا۔
مکہ فتح ہوجانے کے بعد آپﷺ مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔کعبہ کا طواف کیا۔عثمان بن طلحہ سے کعبہ کی کنجی لے کر اندر داخل ہوئے اوربعد میں کعبہ کا مجاور عثمان ہی کو مقرر کیا۔کعبہ کے اندر باہر اور ادھر ادھر جتنے بت تھے،سب کو توڑ کر گرا دینے کا حکم دیا،بت اوندھے منہ ہوہو کر گرنے لگے۔اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔حضرت بلالؓ نے اذان دی۔صحابہ جمع ہو گئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی گئی۔
فتح مکہ کے دوسرے روز رسول اللہﷺ نے کعبے کے دروازے پر کھڑے ہو کرزم زم کا پانی حاجیوں کو پلایا۔مجاورت کو بر قرار رکھا اور فرمایاکہ’’اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی کو حق نہیں کہ وہ کعبہ میں جنگ کرے۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے خطبہ دیا۔پھر کوہ صفا پر جا بیٹھے اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے لئے بیعت لینے لگے۔پھر وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
اس کے بعد بھی اسلامی فوج کو کئی جنگیں لڑنی پڑیں جن میں کامیاب ہوتی رہی۔چنانچہ حنین اور تبوک کی لڑائیں اسی زمانے کی ہیں۔
تبوک کی لڑائی کے بعد عرب کے لوگوں کے گروہ کے گروہ مسلمان ہونے لگے۔
۹ہجری میں آنحضرت ﷺپر سورۂ برأت کی ابتدائی چالیس آیتیں اتریں۔جن میں بیان کیا گیا کہ’’جنت میں کوئی کافر نہ جائے گا۔اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرنے پائے گا۔کوئی شخص برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرے گا۔اور جس کا جو عہد رسول اللہﷺ کے ساتھ ہے وہ اپنی مدت تک پورا کیا جائے گا۔‘‘
آنحضرت ﷺنے حضرت ابو بکرؓ کو امیر حج مقرر کرکے ان آیتوں کے ساتھ روانہ کیا۔آپ ذوالخلیفہ میں پہنچے تھے کہ حضرت علیؓ ابن طالب کو آنحضرت ﷺ نے بھیجا۔اور انہوں نے ان آیات کو حضرت ابوبکرؓ سے لے لیا۔حضرت ابوبکر نے واپس آکر آنحضرت ﷺسے پوچھا کہ کیا ان کے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔آنحضرت ﷺنے فرمایا’’نہیں۔لیکن ان آیتوں کو لوگوں تک پہنچانے کا کام مجھے یا میرے خاندان والوں کو کرنا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جا کر حج کرایا اور حضرت علیؓ نے سورۂ برأت کی آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائیں۔
اس کے بعد برابر عرب کے قبیلوں اورخاندانوں کے بڑے بڑے لوگ آآکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے رہے۔
۱۰ہجری کی پانچویں ذیقعدہ کو آنحضرت ﷺحج کے لیے مدینے سے مکہ کو روانہ ہوئے۔آپﷺ کے ہمراہ مہاجرین،انصاراور عرب کے رئیسوں کا ایک گروہ تھا۔اور سو اونٹ تھے۔آپﷺ ۴ ذی الحجہ کو اتوار کے روزمکہ میں داخل ہوئے۔حضرت علیؓ بن ابی طالب نحروں سے آکر مکہ میں آپ سے آملے،اور آپ کے ساتھ حج کیا۔
آنحضرتﷺ نے اس سال لوگوں کو بتایاکہ حج کرنے کے کیا طریقے ہیں۔عرفات میں آپﷺ نے ایک خطبہ دیاجو بہت زیادہ مشہور ہے اور اس میں آنحضرتﷺ نے دین کے پورا ہونے اور آخری نصیحتیں بیان کی ہیں۔اس حج ’’کو حجۃ الوداع‘‘ کیا جاتا ہے۔
حج سے واپسی پر صفر ۱۱ہجری کی دو راتیں باقی تھیں کہ آنحضرتﷺ کو درد کی شکایت پیدا ہوئی۔پہلے تو اسی حالت میں اپنی بیویوں کے حجروں میں باری باری قیام فرماتے رہے۔جب ام المؤمنین حضرت میمونہؓ کی باری آئی تو آپ ﷺنے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ علالت کی باقی مدت آپﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں گزاریں گے۔تمام بیویوں نے اجازے دے دی۔اور آپﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں چلے گئے۔
پھر باہر آکر آپﷺ نے خطبہ دیا۔جس میںآپﷺ نے فرمایا کہ’’ بیشک ایک بندہ کو اللہ جل شانہ نے اپنے بندوں میں سے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا۔پس بندے نے وہ اختیار کیا،جو اس کے پاس ہے۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ جلسہ میں حاضر تھے۔اس فقرے کو سمجھ کر رونے لگے اور عرض کی’’اے رسول اللہﷺ!ہم آپ کا اپنی جانوں اور بچوں سے فدیہ دیتے ہیں۔‘‘فرمایا’’خاموش رہو۔‘‘
اس کے بعد ایک خطبہ میں آپﷺ نے نصیحت کی اور لوگوں کے دریافت کرنے پر آپﷺ نے فرمایا۔’’میرے قریبی عزیز مجھے غسل دیں۔مجھے انہیں کپڑوں میں دفن کیا جائے جو میرے جسم پر ہوں۔اگر نئے کپڑے کا کفن دینا تو مصری یا یمامہ کاہو۔جنازہ تیار کرکے قبر کے کنارے رکھ کر ایک ساعت کے لیے باہر چلے جانا۔یہاں تک کہ فرشتے میری نماز پڑھ لیں۔اس کے گروہ گروہ کرکے جنازے کی نماز پڑھنا۔پہلے میرے خاندان کے مرد نماز پڑھیں۔اس کے ان کی عورتیں اور پھرمیرے خاندان والے مجھے قبر میں اتاریں۔
یہ کہہ کر آپﷺ نے فرمایاکہ’’میرے پاس کاغذ اور دوات لاؤ میں تم کو کچھ لکھ دوں تاکہ میرے بعد گمراہ نہ ہو۔‘‘لوگ اس پر بحث کرنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد جب یہ بات پھر چھیڑی گئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’تم لوگ مجھے چھوڑ دو۔میں جس حال میں ہوں اچھا ہوں جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو۔‘‘پھر آپ نے تین باتوں کی وصیت کی۔اس میں ایک تو یہ تھی کہ مشرکوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا۔دوسرے وفدوں کو جائزہ دینا۔تیسرے سے آپﷺ نے خاموشی اختیار کی یا یہ کہ راوی بھول گیا۔
پھر انصار کے بارے میں فرمایا کہ’’یہ لوگ میرے مددگار ہیں مہاجروں کو لازم ہے کہ وہ اپنے احسان کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔‘‘اے گروہ مہاجرین تم لوگ بڑھتے چلے گئے اورانصار نہیں بڑھے۔پھر آپﷺ نے مسجد کی طرف جتنے دروازے تھے بند کرا دیے،صرف حضرت ابوبکرؓکے حجرے کا دروازہ کھلا رکھا اور ارشاد فرمایاکہ میں ابوبکرؓ سے زیادہ بزرگ اپنی صحبت میں کسی کو نہیں جانتا ہوں اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ بناتا تو ابوبکرؓ کو ہی بناتا۔‘‘
اس کے بعد پھر درد کی اس قدر زیادتی ہوئی کہ آپﷺ بے ہوش ہو گئے۔آپ کی بیویاں،آل عبا،حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ سب کے سب آپ ﷺکے قریب جمع تھے۔اس عرصے میں نماز کا وقت آگیا اور درد اتنا کم ہو گیا کہ آپﷺ ہوش میں آگئے لیکن کمزوری کی وجہ سے اٹھ نہ سکے۔
اس وقت آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’ابو بکرؓ سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ’’ابو بکرؓ ایک ضعیف دل کے کمزور اور مدہم آواز کے انسان ہیں۔یہ حکم عمر رضی اللہ عنہ کو دیا جائے۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا’’اللہ تعالیٰ اور مومنین ابو بکرؓ کی موجودگی میں دوسرے کی امامت پسند نہ کریں گے۔‘‘
حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور ابوبکرؓ نے پیچھے ہٹنے کا ارادی کیا تو آپﷺ نے ان کا کندھاپکڑ کر وہیں پر کھڑا رکھا۔چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔اس کے بعد رسول اللہ کی علالت کے زمانے میں حضرت ابوبکرؓ نے تیرہ نمازیں پڑھائیں۔
منگل کے روز آپﷺ سر مبارک پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے۔حضرت ابوبکرؓ اس وقت بھی نماز پڑھا رہے تھے۔انہوں نے بیٹھنا چاہا لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں روک دیا اور نماز ادا کی۔
نماز کے بعد آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلے گئے اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئے پھر اٹھ کر مسواک کیا۔لیکن پھر اس کو چھوڑ کر حضرت عائشہؓ کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا اور پاؤں پھیلا دئیے۔حضرت عائشہ دیکھتی رہ گئیں اور آپﷺ کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
انتقال کے بعد صحابہ میں بہت زیادہ پریشانی پھیل گئی۔حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے ہوگئے کہ جو ایسا کہے گا اس کا قتل کر دیا جائے گا۔اس حالت کو حضرت ابو بکرؓ نے دور کیا۔اور سب کو سمجھا بجھا کر فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ’’رسول اللہﷺ نے انتقال فرمایا۔‘‘
اتنے میں ایک شخص نے آکر خبر دی کہ انصار اور مہاجرین بنی ساعدہ میں جمع ہیں اور انصار سعد بن عبادہؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓمہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔اور حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ اور ان کے دونوں بیٹے اور رسالہ بن زیدؓ رسول اللہﷺ کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہوگئے۔
حضرت علیؓ آپ ﷺکی پیٹھ کو ٹیک لگائے غسل دے رہے تھے۔حضرت عباس اور ان کے دونوں لڑکے کروٹ بدلاتے جاتے تھے۔شقران پانی ڈالتے تھے اور حضرت علیؓ قمیض کے اندر سے جسم کو مل رہے تھے۔غسل کے بعد آپﷺ کو کپڑوں کا کفن دیا گیا اور آپﷺ کے حجرے میں بغلی قبر کھود کر اس میں دفن کیا گیا۔
گروہ گروہ کرکے مردوں اور عورتوں نے نمازیں پڑھیں۔کوئی کسی کی امامت نہ کرتا تھا۔آپﷺ بدھ کی آدھی رات کو دفن کئے گئے۔حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ یہ واقعہ ربیع الاول کی بارہویں شب کا ہے ۔اس حساب سے ہجرت کے دس سال پورے ہو گئے اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپﷺ کا انتقال ہوا۔
واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top