skip to Main Content

۱۶ ۔ محبُوب ﷺاعظم کی جُدائی

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانوں کی بہتری اور بھلائی کی ٹھوس بنیادیں رکھ چکنے کے بعد حضرت محمّد ﷺ کااِنقلابی مشن مکمّل ہو چکا تھا۔اب ےُوں دکھائی دیتا تھا جیسے آپﷺ کو معلوم ہو چکا تھا کہ آپ ﷺعنقریب دُنیا سے جُدا ہونے والے ہیں ۔جُون ۶۳۲ء کی بات ہے کہ آپﷺ اپنے ایک آزادشدہ غلام اور قریبی دوست کے ہمراہ آدھی رات کے سنّاٹے میں مدینہ کے مشہُور قبرستان جنت البقیع تشریف لے گئے ۔قبروں پر فاتح پڑھنے کے بعد آپﷺ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ آپﷺ عنقریب اللہ تعالیٰ سے ملنے والے ہیں ۔۱۱ہجری کے دوران آپﷺ نے سفرِ آخرت کی باقاعدہ تیّاریاں شُروع کر دیں ۔چنانچہ آپ ﷺ کی عبادت اور اعتکا ف لمبے ہو تے چلے گئے ۔
آپ ﷺ خُوب جانتے تھے کہ لوگ آپﷺ سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ۔اِس لیے آنے والی جُدائی کے صدمے سہنے کے لیے آپﷺ نے لوگوں کو طرح طرح کے طریقوں سے تیّار کرانا شروع کر دیا۔حجۃالوداع کے خطبہ میں آپﷺ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ’’آیندہ حج میں تمھیں شاید نظر نہ آؤں ۔‘‘ایک دفعہ آپﷺ کوہِ اُحد تشریف لے گئے ۔شہدائے اُحد کے لیے فاتحہ کے بعد آپﷺ نے اُنھیں مخاطب کرتے ہُوئے فرمایا :’’میں عنقریب تم سے ملوں گا ۔‘‘ اور وہاں سے واپسی پر تو آپ ﷺ نے اپنی جدائی کا بالکل واضح اعلان کر دیا کرتا تھا ۔وفات سے چند روز قبل ہی حضورﷺ نے ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہُوئے لوگوں کو بیش بہا نصیحتوں سے نوازا اور ساتھ ہی اپنے وصال کے بارے میں بھی آگاہ کردیا۔یہ آپ ﷺ کا آخری عوامی خطاب تھا ۔
مرضِ موت کی شدّتیں
تھوڑی بُہت درد تو آپﷺ کافی عرصہ سے محسوس کر رہے تھے ۔مگر جُون ۶۳۲ ء میں درد کی یہ کیفیّت شدّت اختیار کرنے لگی ۔۲۹ صفر ۱۱ ہجری پیر کے دِن آپﷺ ایک جنازہ میں شرکت سے واپس لوٹے تو آپﷺ کو سخت درد ہو رہا تھا۔ایک صحابی نے در د کی شدّت کے بارے میں پُوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’کوئی شخص نبیوں سے زیادہ تکلیفیں نہیں سہتا ۔اِسی لیے اُن کا اَجر بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔‘‘آخری بیماری کا عرصہ تیرہ چودہ دن ہے ۔اِس میں سے پہلے گیارہ دن تو حضورﷺ باقاعدگی سے مسجدِ نبوی جاکر نمازوں کی امامت فرماتے رہے ۔وفات سے پانچ روز پہلے بخار اور درد کی شدّت انتہا کو جا پُہنچی تو آپﷺ نے حکم دیا کی غُسل کے لیے مدینہ کے مختلف کنوؤں سے سات لبالب بھرے مشکیزے لائے جائیں ۔ٹھنڈے پانی سے جی بھر کے نہانے سے آپ ﷺکو قدرے افاقہ محسوس ہُوا۔اسی حالت میں آپ ﷺ مسجدتشریف لے گئے اور لوگوں سے خطاب کیا۔آپﷺ نے اُنھیں نصیحت فرمائی کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کی قبرکو عبادت گاہ نہ بنادیا جائے ۔
اِ س کے بعد آپﷺ واپس گھر تشریف لے آئے ۔درد پھر شدّت پکڑنے لگا۔آپﷺ بُہت نحیف دکھائی دیتے تھے ۔کچھ مسلمان حبشہ سے ایک خاص دوائی لائے تھے ۔حضرت عباسؓ نے نیم غشی کی حالت میں یہ دوائی آپ ﷺکو پلا دی ۔جب آپﷺ کی طبیعت قدرے سنبھلی تو آپﷺ نے بلا اجازت دوائی پلانے پر اظہار ناراضی فرمایا ۔اور ایک دلچسپ سزا کے طور پر اُس وقت موجود سب افراد کو وہی دوائی پینے کا حُکم دیا۔
’’عُمرؓ نہیں ابُو بکرؓ ‘‘
جب بیماری مزید شدّت اختیار کر گئی تو آپﷺ نے حُکم دیا کہ ابو بکرؓ نمازوں کی امامت کرائیں ۔چنانچہ اُنھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اُنھوں نے حضورﷺ کی زندگی میں سترہ نمازوں کی امامت کی۔
حضرت عائشہؓ نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے ۔جب حضورﷺ نے یہ حکم دیا کہ اُن کی علالت کے دوران ابو بکرؓ امامت کریں تو عائشہؓ نے اس پر اعتراض کیا اُنھوں نے عرض کیا کہ اُن کے والد نازک طبع انسان ہیں ۔اُن کی آوازدھیمی ہے ۔قرآنِ حکیم پڑھتے وقت اُن پر بار بار رِقّت طاری ہو جاتی ہے ۔اور آنکھیں آنسو ؤں سے تر ہو جاتی ہیں ۔ویسے بھی عائشہ کو خدشہ تھا کہ حضورﷺ کی زندگی میں لوگ کسی دُوسرے کی امامت پسند نہیں کریں گے ۔اس لیے اپنے والد کی امامت اُنھیں کسی پہلو سے بھی مناسب دکھائی نہیں دیتی تھی ۔مگر حضورﷺ نے اپنے حکم میں کسی قسم کی ترمیم سے اِنکار کر دیا۔
اِسی دوران ایک دفعہ حضرت بلالؓ اذان دے چکے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کسی کو امامت کے لیے کہا جائے ۔عبداللہ بن زمان حضرت ابو بکرؓ کو ڈھونڈھنے نکلے تو اُنھیں وہ کہیں نظر نہ آئے ۔اتّفاق سے حضرت عمرؓ قریب ہی مِل گئے ۔اُنھوں نے عُمرؓ کو امامت کے لیے راضی کر لیا۔مگر حضرت عمرؓ نے ابھی ’’اللہ اکبر ‘‘ہی کہا تھا کہ حضورﷺ نے اُن کی پُر شکوہ آواز پہچان لی ۔آپﷺ نے فوراًفرمایا :’’عُمرؓ نہیں ابو بکرؓ امامت کریں گے ۔‘‘چنانچہ ابو بکرؓ کی از سرِ نو تلاش شُروع ہوئی ۔اُدھر عمرؓ نماز کرواتے رہے ۔اِسی اثنا میں حضرت ابو بکرؓ کو تلاش کر لیاگیا ۔مگر ان کے مسجد پہنچتے پہنتے حضرت عُمرؓ نماز مکمّل کر چکے تھے ۔
جب حضرت عُمرؓ کو اصل بات معلو م ہُوئی تو اُنھیں اپنی امامت پر بے حد رنج ہُوا ۔اُن کا خیال تھا اُنھیں امامت کے لیے حضورﷺ کے حُکم پر بُلایاگیاہے ۔اس پر حضرت عبداللہ نے اُن سے معذرت کرتے ہُوئے کہا’’جب مجھے ابو بکرؓ کہیں نظر نہ آئے تو میں نے سمجھا کہ اُن کی غیر حاضری میں آپؓ ہی امامت کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔‘‘
زِندگی کا آخری دِن
اتوار کو حضورﷺ نے اپنے تمام غلام آزاد کر دیے ۔در حقیقت یہ غلام تو پہلے ہی آزاد افراد سے بھی زیادہ حقوق و مراعات سے نوازے جا رہے تھے ۔آپﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ جَو کے عوض گروی پڑی تھی ۔آپ ﷺکا باقی ماندہ اسلحہ بیت المال کے حوالے کر دیا گیا ۔
حضور ﷺ کے پاس موجُود کل نقدی سات دینار تھی ۔جسے آپ ﷺنے خیرات میں تقسیم کرنے کے لیے کہہ رکھا تھا ۔آپ ﷺ کی علالت کی پریشانیوں میں حضرت عائشہؓ اس حکم کی تعمیل بھول گئیں ۔ علالت کے آخری روز جب حضورﷺ کو اطمینان کے چند سانس نصیب ہُوئے تو آپ ﷺ نے ان دیناروں کے بارے میں پُوچھا۔ عائشہؓ نے کہا وہ تو ابھی تک جُوں کے تُوں پڑ ے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا ’’دینار فوراًپیش کیے جائیں ۔‘‘دینار ہاتھ میں لیتے ہُوئے آپﷺ نے فرمایا:’’اگر یہ دینار اللہ کی راہ میں خرچ کیے بغیر یونہی پڑے رہتے تو میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیتا؟‘‘پھر آپﷺ نے سارے دینار حاجت مندوں میں تقسیم کر دیے۔
اُس تاریخی دِن حضر ت عائشہؓ کے گھر میں روشنی کے لیے تیل تک میسّر نہ تھا۔چنانچہ اُنھوں نے دیا جلانے کے لیے ایک پڑوسن سے تیل اُدھار لیا۔لوگوں کو ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال کرنے والے محسنِ اعظم کی شامِ زندگی کا آخری چراغ بھی اُدھار تیل سے جلانا پڑا ۔ایثار اور قربانی کی کتاب میں حضورﷺ آخری لمحوں تک بھی حیرت انگیز باب باندھتے رہے ۔
آخری باتیں ،آخری بوسے
اِسی روزایک بار بسترِ مرگ پر لیٹے لیٹے آپﷺ نے اپنے حجرہ مبارک کے دروازے کا پردہ سرکایا اور مسجدِ نبوی پر جھانک فرمائی تو حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھاتے دکھائی دیے ۔اس روح پرورنظّارہ سے آپﷺ کی طبیعت باغ باغ ہو گئی ۔پچھلی رات آپﷺ قدرے اطمینان سے سوئے بھی تھے ۔ چہرہ مبارک پرشگفتگی لوٹ آئی ۔طبیعت قدرے سنبھلی تو عباسؓ اور علیؓ کا سہارا لیتے ہُوئے آپﷺ مسجد تشریف لے گئے ۔
مسجد سے واپسی پر آپ ﷺ کی طبیعت پھر بگڑنے لگی ۔آپﷺ حضرت عائشہ کی گود میں لیٹ گئے اور حضرت فاطمہ بتولؓ کو بلا بھیجا ۔وہ آئیں تو اُن کے کان میں آہستہ سے فرمایا:’’میں دُنیا سے رُخصت ہو رہا ہوں ۔‘‘دوسری آخری بات جو آپﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کے کان میں کہی یہ تھی : ’’ ہمارے خاندان میں سے تم پہلی خاتون ہوگی جو جنت میں مجھ سے ملے گی ۔‘‘باپ کو شدید درد میں مبتلا دیکھ کر فاطمہؓ رونے لگیں توآپ ﷺ نے اُنھیں منع فرمایا ۔پھرآپﷺ نے دونوں نواسوں حسنؓ اور حسین ﷺ کو بُلایا اور اُن کے بوسے لیے ۔اِسی دوران آپ ﷺ کی حالت تیزی سے بگڑتی جا رہی تھی ۔ مگر اس حالت میں بھی آپﷺ کے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے :’’نماز،نماز اور تمھارے غلام ۔‘‘
اس دن (آٹھ جُون)کو بلا کی گرمی تھی ۔بسترِ مرگ کے قریب ٹھنڈ ے پانی سے بھرا مٹّی کا ایک برتن رکھا ہُوا تھا ۔آپﷺ گاہے گاہے اس میں ہاتھ ڈبوتے اور تر ہاتھوں کو سر پر مَلتے ۔اتنے میں حضرت ابو بکرؓ کا لڑکا عبدالرحمنؓ اندر داخل ہُوا اس کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی ۔حضورﷺ نے عائشہؓ کو اشارہ کیا کہ آپ ﷺ مسواک کرنا چاہتے ہیں ۔عائشہ نے مسواک اپنے دانتوں میں چبا کر نرم کی اورپھر حضور کے ہاتھ میں تھما دی ۔آپ نے اسے زور زور سے دانتوں پر ملا۔مگر مگر تھوڑی ہی دیر بعد مسواک آپ کے ہاتھ سے کھسک کر گر پڑی ۔کافی عرصہ بعد حضرت عائشہ ؓ نے اس واقعہ کو بڑے فخر اور اعزازسے بیان کرتے ہُوئے کہا:’’اُس ناقابلِ فراموش روز بھی اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کے لعابِ دہن ملا دیے۔‘‘
بے ہو شی سے چند ہی لمحے پہلے آپ ﷺکے منہ سے یہ الفاظ سُنے گئے :
۱۔ اللہ اُن لوگوں کو برباد کرے جو نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنادیتے ہیں ۔
۲۔ جزیرہ نمائے عرب میں دو مذاہب (یہودیت اور عیسائیت )کاکوئی مقام نہیں ۔‘‘
اور پھر ۱۲ ربیع الاول ۱۱ہجری کی پیر کوآخروہ جانکاہ سانحہ رُونما ہوہی گیاجس کاحضورﷺکے پروانوں کوعرصہ سے خدشہ لاحق تھا۔حضورﷺ پر وفات کی غشی طاری ہوچکی تھی ۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ :’’حضورﷺ !ابھی میری گود ہی میں تھے کہ اُن کا سانس اُکھڑنا شُروع ہُوا ۔مُجھے ےُوں محسوس ہُوا جیسے اُن کا جسدِ مبارک اچانک بوجھل ہو گیا ہو۔آپﷺ کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے ۔ میں نے آپ ﷺ کی آنکھوں پر نگاہ ڈالی تو وُہ جم چکی تھیں ۔‘‘وہ غمناک لمحہ آخر آ پہنچا جب محسنِ انسانیت اپنے خالقِ حقیقی سے جا مِلے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِ لَےْہِ رَا جِعُوْن
اُس پیر کو آپﷺ کی عُمر کے تریسٹھ سال پُورے ہونے میں ابھی آٹھ دِ ن باقی تھے ۔درحقیقت پیر کا دِن آپﷺ کی زندگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے ۔آپﷺ پیر کو پیدا ہُوئے ۔پیر کو آپﷺ نے حجرِ اسود کے ہنگامہ کا تصفیہ کر وایا۔پیر کے دن ہی آپﷺ کو نبوّت عطاء ہُوئی ۔مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منوّرہ ہجرت کا سفر بھی پیر کے روز شُروع ہُوااور پیر ہی کو آپﷺ مدینہ پہنچے ۔اور پھر پیر ہی کو آپﷺ ہم سے جُدا ہُوئے ۔
تدفین سے قبل اِنتشار کا خاتمہ
حضورﷺ کے اِ نتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح جزیرہ نمائے عرب کے کونے کونے میں پھیل گئی۔مسلمانوں پر حسرت و یاس کے بادل اُمڈ آ ئے ۔حضرت عمرؓ نے تو آپ ﷺ کی وفات کی خبر تسلیم کرنے سے صاف اِ نکار کر دیا۔حضرت ابو بکرؓ اس وقت مدینہ سے باہر اپنی بیوی کے آبائی گاؤں گئے ہُوئے تھے ۔جب آپﷺ نے یہ خبر سُنی تو ایک تیز رفتار اُونٹ پر سوار ہوکر فوراًمدینہ پہنچے ۔دیکھا تو حضرت عمرؓ گرماگرم تقریر کر رہے ہیں کہ حضورﷺ کا اِنتقال نہیں ہُوا ۔اُدھر حُجرہ عائشہؓ سے المناک آہوں اور سسکیوں کی صدائیں بھی متواتر بلند ہو رہی تھیں ۔
اُونٹ سے اُترتے ہی حضرت ابو بکرؓ سیدھے حجرہ نبوی میں داخل ہُوئے ۔جب آپؓ کو حضورﷺ کی وفات سے متعلق ذاتی یقین ہو گیا تو آپؓ فوراًباہر تشریف لے آئے ۔آپؓ نے پریشان مجمع سے خطاب کرتے ہُوئے کہا :’’لوگو !آپ میں سے کوئی اگر محمّد ﷺ کی پُوجا کرتاتھا تو محمّد ﷺ تو وفات پا چکے ہیں ۔مگر اگر آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو زندہ اورلا فانی ہیں ۔‘‘ابو بکرؓ کی باتوں سے حضرت عُمرؓ سمیت تمام سامعین کو یقین آ گیا کہ حضورﷺ واقعی وفات پا چکے ہیں اور یہ کہ اب صبرو تحمل ہی سے کام لینا ہو گا ۔چنانچہ مجمع کا ہیجان آہستہ آہستہ ماند پڑ تا گیا ۔
اِسی دوران اطلّاع موصول ہُوئی کہ سعد بن عبادہ کو حضورﷺ کا زبر دستی جانشین مقرر کرنے کے لیے چند فسادی ایک بڑا اجتماع منعقد کر رہے ہیں ۔حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکرؓ فوراً موقع پر جا پہنچے ۔ وہاں گرما گرم تقریریں ہو رہی تھیں اور حالات بُہت بگڑ تے دکھائی دے رہے تھے ۔مگر ابو بکرؓ اور عمرؓ نے اپنی جرأت اور دانشمندی سے اضطراب اور اِنتشار کی اس فضا کوبھی بڑی عمدگی سے ختم کر دیا۔پھر کثرت رائے سے حضرت ابو بکرؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ مقرّر ہُوئے ۔مسجدِ نبوی میں سب مسلمانوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں صاف صاف اعلا ن کر دیا کہ ’’اگر میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم بھی میری فرمان برادری کرو ۔مگر اگر میرے قول و فعل سے اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی نافرمانی پائی جائے تو پھر تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہوتی ۔‘‘
آخری غسل ،دیدار اَور جنازہ
حضرت ابو بکرؓ کے اعلانِ خلافت اور بیعتِ عام کے فوراًبعد حالات معمول پر آگئے تو مسلمان حضورﷺ کی تدفین کے اقدامات کی طرف متوجّہ ہُوئے ۔حضرت علیَؓ ،حضرت عباسؓ ،اُن کے دو صاحبزادے الفضل اور قثمان ،حضرت اُسامہ اور حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام شرقان آخری غسل میں شریک ہُوئے ۔ایک بدوی اَوس بن خولی حضورﷺ کے ساتھ جنگِ بدر میں شریک ہُوئے تھے ۔اُنھوں نے آخری غُسل کی رسومات میں شرکت کی استدعا کی تو حضرت علیؓ نے اُنھیں بھی اجازت دے دی ۔
اُس روز بلا کی گرمی تھی ۔مسلمانوں کے باہمی انتشار کے باعث حضورﷺ کا جسدِ مبارک کافی عرصہ بغیر غسل اور تکفین و تدفین پڑا رہا۔مگر اس کے باوجود اُس سے سارا عرصہ خوشبوؤں کی مہک آتی رہی ۔غُسل کے بعد آپﷺ کوکفن پہنایا گیا اور پھر ایک چارپائی پر لٹا کر دیدارِ عام کے لیے رکھ دیا گیا ۔ دیدار کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔لوگ مسجدِ نبوی والے دروازے سے حجرہ میں داخل ہوتے اور آخری دیدار کے بعد دُوسرے دروازہ سے باہر نکل جاتے ۔
جب حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ اندر داخل ہُوئے تو ایک عجب جذباتی سماں بندھ گیا ۔حضرت ابوبکرؓ نے بھرّائے ہُوئے الفاظ میں آپﷺ کو آخری سپاس عقیدت پیش کیا۔حضورﷺ کی میّت مبارک پر حضرت ابوبکرؓ کے اس مختصر سے خطاب سے غم زدہ مسلمانوں کی ڈھارس بندھی اور اُن کے حزن وغم کا بوجھ قدرے ہلکا ہُوا ۔
حضورﷺ کا جسدِ خاکی جس جگہ دیدارِ عام کے لیے رکھا گیا تھا وہ بُہت تنگ تھی ۔اِس لیے بیک وقت ایک بڑی سے نمازِ جنازہ ناممکن تھی ۔چنانچہ زائرین دس دس کی تعداد میں ایک دروازے سے اندر جاتے اور درُود و سلام اور نماز کے بعد دُوسرے دروازے سے باہر نِکل جاتے ۔اِسی طرح پھر اگلے دس افراد اندر داخل ہو جاتے ۔یہ سِلسلہ بُہت دیر تک جاری رہا۔
حضورﷺ کی تدفین کے واقعات
حضورﷺ کی تکفین و تدفین کے مختلف مراحل پر مسلمانون میں متعدد اُمور پر اختلاف رائے ہُوا ۔ آپﷺ کو کس شہر میں دفن کیا جائے ؟جب یہ بحث چل نکلی تو تین مقام زیرِ غور آئے : (ا) بیت المقدّس (ب) مکّہ مکرّمہ اور (ج) مدینہ منوّر ہ ۔کافی بحث و تمحیض کے بعد بالاآخرمدینہ ہی کو تدفین کے لیے بہترین شہر قرار دیا گیا ۔پھر اِس بات پر بھی اختلافِ رائے ہُوا کہ تدفین مدینہ کے کس مقام پر ہو ۔تین جگہیں تجویز ہُوئیں :
(۱) حضورﷺ کے صحابہ کرامؓ کی قبروں کے درمیان ۔
(ب) مسجدِ نبوی کے منبر کے پاس ۔اور
(ج) حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں عین اُس جگہ ،جہاں آپﷺ کا انتقال ہُوا تھا ۔
آخر حجرہ ہی میں تدفین مناسب سمجھی گئی ۔قبر کی ہےئت پر بھی بحث ہُوئی ۔کُچھ لوگ صُندوق نُما اور کچھ لحدی یا بغلی قبر کے حق میں تھے ۔مکّہ کے لوگ اپنے مُردوں کے لیے صُندوق نُمااور اہلِ مدینہ لحدی یا بغلی قبربنایاکرتے تھے ۔آخر فیصلہ ہُوا کہ جس قبر کا ماہر سب سے پہلے دستیاب ہو جائے بس اُسی قسم کی قبر کھود لی جائے ۔ابو طلحہؓ لحدی قبر کھودنے کے ماہر تھے ۔اِتّفاق سے وہی پہلے ہاتھ آ گئے ۔اور ےُوں حضورﷺ کی تدفین کے لیے لحدی قبرتیار کرلی گئی ۔
قبر کی کھُدائی مکمّل ہُوئی تو تدفین کے لیے بھی اُنہی افراد کی ٹیم قبر میں اُتری جس نے آپﷺ کو آخری غُسل دیا تھا۔اس مرحلہ پر بھی اَوس نے حضرت علیؓ سے ٹیم کے ساتھ قبر میں اُترنے کی خصوصی اجازت لے لی ۔مغیرہ بن شیبہ نے قبر سے باہر نکلنے والے آخری فرد کا اعزاز حاصِل کرنے کے لیے ایک عجیب چال چلی ۔جب سب لوگ قبر سے باہر نکل آئے تو مغیرہ نے اپنے انگشتری جان بوجھ کر قبر میں پھینک دی اور لوگوں سے کہنے لگا :’’میری انگشتری قبر میں گِر گئی ہے ۔میں ذراِ سے اُٹھانے کے لیے نیچے اُتر رہا ہوں ۔ویسے بھی قبر میں پاؤں کی جانب ایک نقص رہ گیا ہے ۔اسے بھی درُست کر ڈالوں گا ۔‘‘ چنانچہ وہ چالاک نوجوان قبر میں اُتر گیا اور اُس وقت ہی باہر نِکلا جب باہر کھڑے لوگوں نے قبر کو مٹی سے خاصا بھر دیاتھا۔
تدفین کا جانکاہ عمل آخر ختم ہُوا ۔افسردہ چہرے گھروں کو لوٹنے لگے ۔غم زدہ فاطمہؓ نے اَنسؓ سے کہا :
’’اواَنسؓ ! تم اپنے نبیﷺ کی قبر میں مٹّی ڈالنے پر کیسے رضامند ہُوئے ؟‘‘آنسوؤں میں غرق اَنسؓ جواب میں کچھ نہ کہہ پائے ۔
پیارے والد ﷺ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ کے ہونٹوں کبھی مسکراہٹ نہ دیکھی گئی ۔اِ س اند وہناک سانحہ کے بعد وہ پریشانیوں اور غموں کے بوجھ تلے دب گئیں ۔اور پھر صرف چھ ماہ زندہ رہنے کے بعد وہ بھی جنت روانہ ہُوئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top