skip to Main Content
ڈپٹی کمشنر کی ڈائری

ڈپٹی کمشنر کی ڈائری

قدرت اللہ شہاب

۔۔۔۔۔۔

’’جو صاحبان ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرنا چاہیں، وہ سوموار اور جمعرات کے روز صبح 9 بجے سے 12 بجے تک بے روک ٹوک تشریف لے آئیں‘‘۔
’’بے مقصد کے ملاقاتی اور سفارشی حضرات آنے کی تکلیف نہ اُٹھائیں‘‘۔
یہ اُس نوٹس بورڈ کی عبارت ہے جو میں نے شروع ہی سے اپنے دفتر کے سامنے لگادیا تھا۔ پہلے تو اس سلیس عبارت کا مفہوم کسی کی سمجھ میں نہ آیا اور پیشہ ور ملاقاتیوں اور سفارشیوں کے علاوہ اور کوئی شخص میرے نزدیک تک نہ پھٹکا۔ لیکن رفتہ رفتہ حالات بڑی سُرعت سے بدلنے لگے۔
پیر اور جمعرات کے روز دو کلرک صبح آٹھ بجے سے دفتر کے برآمدے میں بیٹھ جاتے تھے۔ جو جو آتا تھا، ان کے نام اُسی ترتیب سے ایک فہرست میں درج کرتے جاتے تھے اور ملاقاتی اسی فہرست کے مطابق باری باری سب میرے پاس آتے تھے۔ اول اول شہر کے حاجت مند لوگ آنا شروع ہوئے، پھر آس پاس کے قصبوں سے کچھ لوگ آنے لگے اور کچھ عرصے کے بعد دور دراز کے دیہات سے ہر طبقہ کے لوگ آنے لگے۔
شروع شروع میں ملاقاتیوں کی تعداد پندرہ بیس کے قریب ہوتی تھی۔ دو مہینے کے اندر اندر ان کی تعداد سو سوا سو کے لگ بھگ پہنچ گئی اور کچھ عرصے کے بعد ایسا وقت بھی آیا کہ ملاقات کے روز مجھے تین تین چار چار سو لوگوں کے ساتھ ملنا پڑتا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھ زمین ہے، جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے، لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے، لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔
اس کی دردناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اُٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا ’’حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں‘‘۔
گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا ’’جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں‘‘۔
ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کردیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا ’’بی بی، لو تمہارا کام ہوگیا۔ اب خوش رہو‘‘۔
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبردار سے پوچھا ’’کیا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟‘‘
نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہوگئے۔
یہ سولہ آنے واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کردیا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایک دور افتادہ گاؤں کا نمبردار ملاقات کے روز آیا۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصے سے ایک ملنگ نے گاؤں میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ دوپہر کے وقت موسم گرما کی شدید تمازت میں بھی وہ آگ جلا کر باہر دھوپ میں بیٹھتا ہے اور دن بھر چلم پیتا رہتا ہے۔ دور دور سے لوگ اپنی مرادیں لے کر اس کے پاس آتے ہیں۔ کسی سے وہ گھی کا کنستر وصول کرتا ہے۔ کسی سے گندم کی بوری یا چاول یا چینی کے انبار۔ خاص طور پر عورتوں سے سونے چاندی کی مرکیاں، انگوٹھیاں اور چوڑیاں تک اُتروا لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی فرمائشیں پوری نہ کرسکے تو وہ جلال میں آکر سائل کی جانب کئی بار ہاتھ جھٹکتا ہے۔ اس عمل سے سائل کے بدن کا کوئی حصہ سُن ہوکر مفلوج سا ہوجاتا ہے، لوگ اسے چارپائی پر لٹا کر گھر لے جاتے ہیں جہاں پر ڈیڑھ دو ماہ وہ یہ اذیت کاٹ کر ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے درجنوں کیس اس علاقے میں رونما ہوچکے ہیں۔ نمبردار نے کہا ’’ساری آبادی اس کے خوف سے سہمی ہوئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں کیا نہ کریں‘‘۔
یہ عجیب واقعہ سن کر مجھے شوق چرایا کہ میں خود وہاں جاکر اس بھید کا کھوج لگاؤں۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر میں نے سول اسپتال سے ایک اسٹریچر منگوا کر گاڑی میں رکھوالیا اور ایک اردلی اور نمبردار کو اپنے ساتھ بٹھا کر گاؤں کی جانب روانہ ہوگیا۔ پچاس پچپن میل کا سفر تھا۔ راستے بھر میں لگاتار آیت الکرسی اور چاروں قل صمیمِ قلب سے پڑھتا رہا۔ میں نے گاڑی گاؤں کے قریب رکوائی۔ نمبردار اور اردلی سے کہا کہ وہ گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہیں۔ میں اکیلا ملنگ کے ڈیرے پر جاؤں گا۔ اگر میں نصف گھنٹے تک واپس نہ آیا تو وہ اسٹریچر لے کر وہاں آجائیں۔
ڈیرے پر ایک کالا بھجنگ، فربہ بدن، کریہہ المنظر شخص دھوپ میں بیٹھا چلم پی رہا تھا۔ اس کے چہرے پر داڑھی کے بال اس طرح لٹک رہے تھے جیسے کھجور کے درخت کی شاخوں سے تیز تیز لانبے لانبے کانٹوں کے گچھے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ سامنے آگ کے الاؤ کے قریب چند چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ چٹائیوں پر کچھ مرد اور چند عورتیں ادب سے دو زانو بیٹھی تھیں۔ میں بھی ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ باری باری ہر شخص ملنگ کو مخاطب کرتا تھا، ’’حضرت جی، میری عرض سنو‘‘۔ لیکن سرخ سرخ آنکھوں والا ملنگ کسی کی عرض سننے کے موڈ میں نہ تھا۔ بلکہ کش پر کش لگا کر گم سم بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد میں نے ملنگ کو للکارا ’’ارے او بدمعاش غنڈے۔ بولتا کیوں نہیں۔ کیا تو گونگا ہے؟‘‘
یہ سنتے ہی چٹائیوں پر بیٹھے لوگ اُٹھ کر بھاگ گئے اور دور کھڑے ہوکر مجھے نصیحت کرنے لگے، ’’شہری بابو تجھے معلوم نہیں۔ یہ جلالی بابا ہے۔ تم کو بھسم کر ڈالے گا‘‘۔
میری للکار سن کر ملنگ بھی غصے میں آگیا۔ اس نے چلم ہاتھ سے رکھ دی اور زور سے چنگھاڑ کر سروقد کھڑا ہوگیا۔ میرے وجود میں بھی کوئی اسپرنگ کھلا اور میں بھی اس کے ساتھ بے اختیار کھڑا ہوگیا۔ ملنگ نے پانچ سات بار زور زور سے جھٹک کر میری جانب اپنا ہاتھ مارا۔ ایک دو لمحوں کے لئے میرے بازوؤں میں ہلکی سی سنسناہٹ تو ضرور ہوئی۔ لیکن فوراً ہی رفع بھی ہوگئی۔ اپنے عمل کی اس ناکامی پر ملنگ گھٹنوں میں سر دے کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اسی دوران نمبردار اور میرا اردلی بھی کار لے کر وہاں آگئے۔ اب گاؤں کی آبادی کا بڑا حصہ یہ تماشا دیکھنے وہاں پر جمع ہوگیا۔ میں نے لوگوں سے کہا ’’یہ کوئی شیطانی عامل ہے۔ اللہ کے کلام کی برکت سے اس کا عمل ٹوٹ گیا ہے۔ اب تم بے خوف ہوکر آگے آؤ اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھ کر اس کے ایک ایک جوتا لگاؤ‘‘۔
یہ سُن کر گاؤں کا ایک زندہ دل نوجوان زور زور سے لاحول پڑھتا ہوا آیا اور ملنگ کو زمین پر اُلٹا لٹا کر اس کی پیٹھ پر گھوڑے کی طرح سوار ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد باری باری مرد، عورتیں اور بچے آتے اور لاحول پڑھ کر ملنگ کو ایک یا دو جوتے رسید کرجاتے۔
میرے کہنے پر نمبردار نے ملنگ کا حجرا بھی کھولا، جو گھی کے کنستروں، شہد کی بوتلوں، گندم اور چاول کی بوریوں، نئے کپڑوں کے بنڈلوں اور سونے چاندی کے زیورات کے ڈبوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا۔ میں نے مقامی معززین کی ایک کمیٹی بنا کر یہ سارا مالِ غنیمت اس کے سپرد کردیا کہ جن جن لوگوں کی ملکیت ہو وہ مال انہیں واپس کردیا جائے۔ اگر کچھ اشیاء بچ جائیں تو انہیں غریب غربا میں بانٹ دیں۔
اس کے بعد میں ملنگ کو اپنی کار میں بٹھا کر جھنگ لے آیا۔ میں نے اسے بہت کریدنے کی کوشش کی کہ اس نے یہ شیطانی اور سفلی عمل کب اور کیسے سیکھا ہے؟ لیکن سارا راستہ وہ چُپ سادھے بیٹھا رہا۔
جھنگ پہنچ کر میں وہاں کے ایس پی آغا شجاعت علی کے ہاں گیا اور ساری روداد سنا کر پوچھا، کہ اب کیا کرنا چاہئے؟
آغا صاحب بولے ’’مقدمہ بھی دائر ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے مقدمات میں بیشتر لوگ ملنگوں کے خلاف گواہی دینے سے گھبراتے ہیں۔ اس لئے ایسے مقدمے اکثر کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اسے ہمارے حوالے کردیں۔ ہمارا ’’چھتراؤ‘‘ کرنے والا بڑا اچھا ماہر ہے وہ دو دن میں ’’چھتراؤ‘‘ کرکے اس کے سر سے شیطان کا بھوت اُتار دے گا۔ اس کے بعد ہم اسے ضلع جھنگ سے نکال باہر کریں گے۔ جہاں اس کے سینگ سمائیں وہاں چلا جائے‘‘۔
بعد میں یہ کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ اس سفلی عامل کے سینگ کہاں سمائے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دو بڑے زمینداروں کا تذکرہ کئے بغیر جھنگ میں میرے ملاقاتیوں کا سلسلہ تشنۂ تکمیل رہ جائے گا۔
ایک روز ایک بڑے زمیندار صاحب ملاقات کے لئے آئے۔ خود تو بڑی حد تک ناخواندہ تھے، لیکن تعلیم کے فضائل اور فوائد پر ایک طویل تقریر کرنے کے بعد بولے ’’جناب آپ اس پسماندہ ضلع کے لئے نیکی کا ایک اور کام بھی کرتے جائیں۔ فلاں گاؤں میں اگر ایک پرائمری اسکول کھول دیا جائے تو اس علاقے پر یہ ایک احسانِ عظیم ہوگا۔ اگر آپ قبول فرمائیں تو بندہ اسکول کے لئے زمین مفت، کمروں کی تعمیر کے لئے بیس ہزار روپے نقد اور ایک اُستاد کی ایک برس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے حاضر ہے‘‘۔
میں نے ان کی روشن خیالی اور فیاضی کی تعریف کرکے کہا ’’نیکی اور پوچھ پوچھ؟ آپ جب فرمائیں گے، اسکول کھولنے کا بندوبست ہوجائے گا، بلکہ میں تو یہ کوشش بھی کروں گا کہ اس اسکول کا افتتاح کرنے کے لئے عزت مآب وزیر تعلیم کو بذاتِ خود یہاں مدعو کیا جائے‘‘۔
زمیندار صاحب خوش خوش میری جان و مال کو دعائیں دیتے ہوئے تشریف لے گئے۔
کوئی ایک ہفتے بعد اسی علاقے کے ایک اور بڑے زمیندار ملنے آئے۔ چھوٹتے ہی انہوں نے روہانسا ہوکر گلہ شکوہ شروع کردیا ’’جناب میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے اس قدر کڑی سزا دی جارہی ہے؟ بندہ بالکل بے گناہ ہے‘‘۔
میں نے حیران ہوکر اس شکوے کی وضاحت طلب کی کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے اور کون یہ ظلم کررہا ہے؟ انہوں نے گلوگیر آواز میں یہ تفصیل سنائی، ’’پچھلے ہفتے اسکول کے بارے میں جو شخص ملنے آیا تھا، وہ یہ اسکول اپنے گاؤں میں نہیں بلکہ میرے گاؤں میں کھلوا رہا ہے۔ ہمارے درمیان پشتوں سے خاندانی دشمنی چلی آرہی ہے۔ پہلے ہم ایک دوسرے کے مویشی چرا لاتے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کے مزارعوں کو قتل کروادیتے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کی فصلیں اُجاڑ دیتے تھے۔ لیکن اب وہ کمینہ میرے گاؤں کی نسلیں برباد کرنے پر اُتر آیا ہے۔ اسی لئے آپ سے اسکول کھولنے کا وعدہ لے کر گیا ہے‘‘۔
فروغِ تعلیم کے فضائل پر یہ نرالی منطق سن کر میں سکتے میں آگیا۔ چند منٹ سوچنے کے بعد میں نے گزارش کی ’’آپ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے؟ جو پیشکش انہوں نے کی ہے، اگر وہی بار آپ بھی اُٹھالیں۔ تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ان کے گاؤں میں بھی بہ یک وقت ویسا ہی اسکول قائم کردیا جائے گا‘‘۔
یہ سُن کر ان کی کسی قدر تشفی تو ہوئی، لیکن اس کے بعد دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اپنی فیاضی کی پیشکش لے کر دوبارہ میرے پاس نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد میں نے یہ واقعہ جھنگ کے بیرسٹر یوسف صاحب کو سنایا، تو وہ مسکرا کر بولے۔ ’’حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ تعلیم جیسی بڑی خطرناک وبا کو اپنے اپنے گاؤں سے دور رکھنے کے لئے دونوں نے اسے اپنا مشترکہ فرض سمجھ کر مک مکا کرلیا ہوگا۔ بڑے زمینداروں اور جاگیروں میں ابھی تک تعلیم ہی کو سب سے بڑا اور تباہ کن دشمن سمجھا جاتا ہے‘‘۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top