بدتمیز لڑکا
کہانی: The Boy Who Made Faces
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
ولی ایک چھوٹا سا خوب صورت لڑکا تھا۔ اُس کی امی کے خیال میں وہ خاندان کا سب سے خوب صورت بچہ تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ولی اُن کی غیر موجودگی میں کس قدر بدصورت ہوجاتا ہے۔
وہ ننھے بچوں کو ڈرانے کے لیے طرح طرح کی شکلیں بنا تا تھا اور اپنے اساتذہ کی بھی نقلیں اتارتا تھا۔ ناک چڑھانا، گال پھلانا، بھینگا بن جانا اور زبان چڑانا اُس کے پسندید ہ مذاق تھے۔ ایک دن اسکول کے راستے میں اُسے ایک بوڑ ھا فقیر نظر آیا۔ ولی نے حسب عادت اسے زبان چڑائی اور اپنی آنکھیں بھینگی کر لیں۔ بوڑھا فقیر کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اُس سے رہا نہیں گیا اور وہ کہنے لگا:
”اپنی حرکتیں درست کر لو! کہیں ایسانہ ہو کہ تم ہمیشہ کے لیے بھینگے ہو جاؤ یا تمھاری زبان باہر لٹک آئے۔“
ولی کو یہ بات سُن کر بہت غصہ آیا اور وہ پاؤں پٹختا ہوا کوئی جواب دیئے بغیر آگے چل پڑا۔
اور پھر ایک عجیب بات ہوگئی۔ اس دو پہر جب ولی اسکول سے واپس گھر جارہا تھا تو اسے راستے میں ایک اخبار بیچنے والا نظر آیا۔ ولی نے اُسے دیکھ کر زبان چڑائی اور آنکھیں بھینگی کرلیں۔ جب وہ ذرا آگے بڑھا تو اُسے محسوس ہوا کہ اُس کی آنکھیں مستقل طور پر بھینگی ہوگئی ہیں اور اس کی زبان بار بارمنہ سے با ہر نکلی آرہی ہے۔
”اوہ! یہ مجھے کیا ہورہا ہے۔ میری آنکھوں میں درد شروع ہو گیا ہے اور یہ میں اپنی زبان منہ کے اندر کیوں نہیں رکھ پارہا۔ ارے اُف! سامنے سے ہیڈ ماسٹر صاحب چلے آرہے ہیں۔ بہتر ہے کہ میں سڑک پار کر کے دوسری طرف چلا جاؤں۔“ ولی نے پریشان ہو کر سوچا۔ لیکن اتنی دیرمیں ہیڈ ماسٹر قریب پہنچ چکے تھے۔
”دن بخیر ولی! گھر جا رہے ہو؟“
ولی نے جواب دینا چاہا تو اس کی زبان خود بخود باہر نکل آئی، آنکھیں پہلے ہی بھینگی ہو رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب حیرت اور غصے سے کانپ اُٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ ولی کی خبر لیتے، ولی وہاں سے نو دو گیارہ ہو چکا تھا۔
ولی اب سخت پریشان ہو چکا تھا۔ وہ ٹھیک سے راستہ بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ دانتوں میں زبان دبائے رکھنے کی کوشش کرتے کرتے اُس کے دانت اور زبان دکھنا شروع ہو گئے تھے۔ آخرنے کاروہ اپنے گھر پہنچ گیا۔
”ولی! آج تم بہت دیر سے آئے ہو۔“ اس کی امی نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آؤ اور کھانا کھا لو۔“
ولی نے منہ ہاتھ دھو یا اور کھانے کے کمرے میں آگیا۔ اُس نے بڑی مشکلوں سے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی ہوئی تھی۔ اپنی امی کی طرف دیکھے بغیر وہ نظریں جھکا کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران اُس کی زبان دانتوں کے ساتھ مل کر کھانے میں اتنی مصروف ہو گئی کہ ولی چند لمحے کے لیے اپنی پریشانی بالکل بھول گیا۔ اُس کی امی نے پوچھا:
”ولی! آج اسکول میں تمھارا ٹیسٹ کیسا رہا؟“
ولی نے اُن کی طرف دیکھا اور جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس کی زبان منہ سے باہر نکل آئی۔ اُس کی امی پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
”ولی! تم مجھے زبان کیوں چڑا رہے ہو؟ اور یہ تم نے اپنی آنکھوں کو بھینگا کیوں کیا ہوا ہے؟ تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے؟“ وہ غصے میں چلائیں۔ لیکن ولی زبان چڑا تا رہا کیوں کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔ اُس کی امی سے برداشت نہ ہوا۔
”ولی! اپنے کمرے میں جاؤ! آج شام تم کھیلنے کے لیے باہر نہیں جاؤ گے۔“ انھوں نے اُس کا بازو پکڑ کر کمرے سے باہر نکال دیا۔
شام میں جب اُس کے والد گھر آئے تو وہ بہت غصے میں تھے۔
”ولی کہاں ہے؟ آج اُس کے ہیڈ ماسٹر صاحب مجھ سے ملے اور انھوں نے شکایت کی ہے کہ ولی نے اُن کو منہ چڑایا ہے۔ میں اس قسم کی بدتمیزی بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ کہاں ہے وہ؟“
”وہ اپنے کمرے میں ہے۔ آج وہ مجھے بھی آنکھیں بھینگی کر کے زبان چڑا رہا تھا۔ میں نے سزا کے طور پر اسے اپنے کمرے میں رہنے کو کہہ دیا تھا۔ پتہ نہیں، آج اُسے کیا ہو گیا ہے!“امی نے حیرت اور فکر مندی سے کہا۔
”اسے جو بھی ہوا ہو، میں اُسے دومنٹ میں ٹھیک کر دوں گا۔“ ولی کے والد یہ کہتے ہوئے او پر ولی کے کمرے کی طرف لپکے، ولی نے قدموں کی چاپ سنی اور گھبراہٹ میں بستر کے اندر گھس کر چادر تان لی۔
”اوہ! کاش میری زبان ابو کے سامنے باہر نہ نکلے، ورنہ میری تو آج خیر نہیں ہے۔“ ولی نے ڈرتے ہوئے سوچا۔
”ولی!“ اس کے والد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ”مجھے پتہ ہے تم جاگ رہے ہو۔ یہ میں نے تمھارے ہیڈ ماسٹر سے کیا سنا ہے؟ تم نے ان کو زبان چڑائی ہے؟ تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا ہے؟ بتاؤ! یہ سچ ہے یا نہیں؟“
ولی نے مجبور اًچا در منہ سے ہٹائی اور نفی میں سر ہلایا۔
”سر کیا ہلا رہے ہو؟ مجھے منہ سے جواب دو، ہاں یا نہیں!“ اس کے والد نے غصے کہا۔ اور یہ تم نے آنکھیں کیوں چڑھائی ہوئی ہیں؟“
”اوہ ابو!“ ولی نے وضاحت کرنے کے لیے منہ کھولالیکن اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا کیوں کہ اسی وقت اُس کی زبان منہ سے باہر نکل آئی۔
یہ حرکت دیکھ کر اُس کے والد کا پارہ چڑھ گیا۔ ولی کے ابو غصے کے بہت تیز تھے۔ کچھ نہ پوچھیے کہ اس کے بعد ولی کی کیسی شامت آئی۔
بہر حال صرف یہ بتانا کافی ہوگا کہ پٹائی کے بعد ولی کی زبان واپس اندر چلی گئی۔ شاید وہ بھی ولی کے ابو کے غصے سے ڈر گئی تھی۔ لیکن اُس کی آنکھیں ابھی بھی بھینگی ہیں۔ آنکھوں کے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ علاج مکمل ہونے تک ولی کو چشمہ لگانا ہوگا۔
ولی کو چشمہ لگانا بالکل پسند نہیں تھا لیکن اب وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ لوگوں کا مذاق اُڑانے اور خدا کی عطا کردہ اچھی بھلی شکل کو بگاڑنے کی سزا تھی جو اسے ہر صورت کاٹنی تھی۔ بے چارہ ولی!!