skip to Main Content

ہوشنگ کے کارنامے

توراکینہ قاضی
۔۔۔۔۔

نیلا آدمی
صدیاں گزریں۔ ایران کے ایک قدیم قصبے پارس گرد میں ایک کسان رہا کرتا تھا۔ اس کا نام ارث تھا۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ہوشنگ تھا۔ ارث کی بیوی عرصہ ہوا انتقال کر چکی تھی۔ اس کی موت کے بعد ارث نے ہوشنگ کو ہی اپنی تمام تر توجہ اور محبت کا مرکز بنا لیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتا تھا اور اس کی ضروریات کا ہر ممکن خیال رکھتا تھا ۔ ہوشنگ کو بھی اپنے باپ سے بہت محبت تھی۔ وہ اس کا بے حد ادب و احترام کرتا تھا اور اس کی ہر ممکن خدمت بجا لانے کی کوشش کرتا تھا۔
ارث ایک بے حد غریب کسان تھا۔ اس کے پاس بہت تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ کاشت کاری کرتا تھا۔ اس سے اُسے جو فصل حاصل ہوتی تھی، وہ اس کے گزارے کے لیے بہ مشکل ہی پوری پڑتی تھی۔ دوسرے کسانوں کی طرح اس کے پاس بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بھی نہ تھے۔ غرض یہ کہ وہ اور اس کا بیٹا ہوشنگ بڑی تنگی ترشی سے زندگی بسر کر رہے تھے۔
ہوشنگ ایک بہادر، بے خوف اور خطرات پسند لڑکا تھا۔ اس کا دل کاشت کاری میں نہ لگتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنے قصبے سے باہر نکلے۔ ملک ملک کی سیر کرے۔ دور دراز کے علاقوں کا سفر کرے۔ قسم قسم کے لوگوں سے ملے جلے۔ رنگا رنگ تجربات حاصل کرے، لیکن اس کا باپ اُسے قصبے سے باہر کہیں بھی جانے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ نہ ہوشنگ کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنے باپ کی نافرمانی کرے یا اس کا دل دکھائے۔
پھر ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک شام ارث اپنے کھیت سے گھر واپس آرہا تھا کہ اُسے ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔ اس کے زہر کے اثر سے فورا ًہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ باپ کی اس اچانک موت کا ہوشنگ کو بہت رنج اور صدمہ پہنچا۔ اس کا دل اپنے قصبے سے اچاٹ ہوگیا۔ چند دنوں بعد اس نے اپنی زمین اونے پونے بیچ دی اور اپنے کچھ کپڑوں اور چند ضروری چیزوں کو ایک گٹھری میں باندھا اور گھر سے نکل کھڑا ہوا ۔اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ اس کے قصبے کے باہر بہت سے ملک اور شہر آباد تھے لیکن وہ ان کے راستوں سے ناواقف تھا۔ چناں چہ قصبے سے باہر نکلتے ہی وہ ایک ایسی پگ ڈنڈی پر ہو لیا جو قصبے کے باہر واقع ایک گھنے جنگل میں سے گزرتی ہوئی پہاڑوں کی طرف جا نکلتی تھی۔ وہ بلند و بالا پہاڑ اس قصبے پارس گرد کے چاروں طرف کسی چہار دیواری کی طرح کھڑے تھے اور ان میں سے بے شمار ندیاں نالے نکل کر نیچے میدان میں پہنچ کر ایک بڑے سے دریا کی صورت اختیار کر لیتے تھے۔ یہ دریا تیز رفتاری سے بہتا ہوا پہاڑوں میں سے گزرتا آگے وسیع میدانی علاقوں میں جا نکلتا تھا۔ ہوشنگ نے سوچا۔ اسے دریا کے کنارے کنارے سفر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اس کے کنارے کون کون سے شہر اور قصبے آباد ہیں۔پگ ڈنڈی پر چلتا ہوا وہ جنگل میں داخل ہو گیا۔ اس جنگل سے آگے پہاڑ آتے تھے۔ پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد اسے اس تیز رفتار دریا کی جھلک دکھائی دی۔ وہ اس کے کنارے کنارے ہولیا۔
پہاڑی بلندیوں سے نیچے میدانی علاقے میں پہنچتے پہنچتے اس دریا کی رفتار کم ہو جاتی تھی اور وہ سست رفتاری سے بہنے لگتا تھا۔ میدانی علاقے میں اس کے کنارے بے شمار شہر اور قصبے آباد تھے۔ ہوشنگ دریا کے کنارے کنارے چلتا ہوا ان شہروں اور قصبوں کی سیر کرتا رہا۔ طرح طرح کے لوگوں سے ملتا رہا۔ پھر اس نے دریا کے کنارے سفر کرنے کا ارادہ ترک کر کے ایک نامعلوم سمت سفر کرنے کا قصد کیا۔ چناں چہ اس نے زاد راہ ساتھ لیا اور اسی نا معلوم سمت ہو لیا۔
ہوشنگ کو اس نامعلوم سمت سفر کرتے کرتے کئی ہفتے گزر گئے۔ اس کے راستے میں اِکا دُکا شہر اور دیہات آتے رہے۔ اکثر اوقات یہ ہوتا تھا کہ کئی کئی دن سفر کرتے رہنے کے باوجود اسے کسی آبادی کی جھلک نہ دکھائی دیتی تھی اور سینکڑوں میلوں تک بالکل ویران اور سنسان علاقے نظر آتے تھے۔ کہیں چٹیل پہاڑی سلسلے نظر آتے تھے تو کہیں ہرے بھرے سرسبز و شاداب میدان، جن میں ندیاں نالے اور دریا بہ رہے ہوتے تھے۔ ہوشنگ پہاڑی غاروں اور درختوں کے جھنڈوں میں رک کر سستا تا آرام کرتا،آگے بڑھتا رہا۔ پھر ایک جگہ اُس نے ایک بہت بڑے دریا کو تیر کو عبور کیا اور ایک بہت خوب صورت اور سرسبز و شاداب علاقے میں جاپہنچا۔ وہاں ایک مختصر سا قصبہ واقع تھا۔ اس نے اس قصبے میں چند دن قیام کیا اور آگے بڑھ گیا۔ آگے چل کر اس کے راستے میں چند چھوٹے بڑے شہر اور قصبات آئے۔ اس کے بعد وہ ایک وسیع پہاڑی سلسلے میں داخل ہو گیا۔ اس پہاڑی سلسلے میں ایسے بلند و بالا پہاڑ تھے جو گنبد دار تھے۔ انھیں دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے انہیں انسانی ہاتھوں نے تراشا ہو۔ بعض مقامات پر چٹانیں میناروں کی صورت میں کھڑی دکھائی دیتی تھیں۔ ہوشنگ بڑی حیرت اور دل چسپی سے انھیں دیکھتا ہوا اس پہاڑی سلسلے میں سفر کرتا رہا۔ اس پہاڑی سلسلے میں بے شمار گزرگاہیں اور درے تھے جو مختلف سمتوں کو جاتے تھے۔ کچھ دور آگے چل کر ہوشنگ ایک درے میں داخل ہو گیا۔ جسے دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں لوگ سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ درہ بہت طویل تھا۔ جب مسلسل کئی دنوں تک اس میں سفر کرتے رہنے کے بعد وہ اس میں سے باہر نکلا تو اس نے بلندی سے دور نیچے ایک چھوٹا سا گاؤں دیکھا۔ جس کے باہر ہرے ہرے کھیت پھیلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ تیزی سے چٹانوں پر سے اترتا ہوا اس گاؤں کی سمت ہولیا۔ جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو اُسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ تمام کا تمام گاؤں بالکل خالی پڑا تھا۔ اس کے باہر ہرے بھرے کھیتوں میں فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ چرا گاہوں میں مویشی چر رہے تھے۔ گھروں میں ساز و سامان بھی پڑا دکھائی دے رہا تھا لیکن ان کے مکین وہاں سے غائب تھے۔ ہوشنگ حیران و پریشان سا کافی دیر تک گاؤں میں گھومتا پھرا۔ پھر ایک ایسے مکان کے سامنے جاکر رک گیا جو گاؤں کے عام مکانات سے کچھ الگ تھلگ ایک کھیت کے کنارے کھڑا تھا۔ اس مکان کا دروازہ بند تھا۔ ہوشنگ نے سوچا شاید وہ مکان بھی گاؤں کے دوسرے مکانوں کی طرح خالی ہی ہوگا۔ لیکن اسی وقت اس مکان کے اندر سے کسی کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ وہ چونک گیا۔ اس مکان میں ضرور کوئی موجود تھا۔ اس نے سوچا اُسے اندر چل کر اس کھانسنے والے سے ملاقات کرنی چاہیے اور اس سے پوچھنا چاہیے کہ آخر اس گاؤں کی ساری آبادی کہاں غائب ہو گئی ہے۔ یہ سوچ کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا اور اسے آہستگی سے دھکا دیا۔ دروازہ بند نہیں تھا۔ وہ فورا ًہی کھل گیا اور ہوشنگ محتاط قدموں سے چلتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ ایک بڑے سے دالان سے گزرنے کے بعد چند کمرے آتے تھے۔ جن کے دروازے بند تھے اور اُن میں تالے لگے ہوئے تھے۔ البتہ ایک کمرے کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ ہوشنگ اس کی طرف بڑھ گیا۔ جب وہ اس کمرے میں داخل ہوا تو اس نے وہاں ایک بوڑھے آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ وہ اتنا بوڑھا تھا کہ اس کے سر کے بال، داڑھی، بھنویں، پلکیں سب برف کی طرح سفید تھے۔ اس نے جب ہوشنگ کو دیکھا تو خوف سے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ وہ بُری طرح سے کانپنے اور لرزنے لگا اور ایک کونے میں سکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہوشنگ یہ دیکھ کر پریشان سا ہوگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس بوڑھے آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرم لہجے میں بولا:
’’ ڈریے نہیں! میں ایک مسافر ہوں۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ میں تو سفر کرتے کرتے اس گاؤں میں آنکلا ہوں۔‘‘
بوڑھے آدمی نے اُسے غور سے دیکھا۔ پھر گہری سانس لی۔ اس کا خوف بڑی حد تک دور ہو گیا تھا۔
’’ تو تم ایک مسافر ہو۔ میں سمجھا تھا وہ ملعون نیلا آدمی مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آن پہنچا ہے ۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ نیلا آدمی ؟‘‘ ہوشنگ نے حیرت سے دُہرایا، ’’یہ نیلا آدمی کون ہے؟ اور یہ گاؤں کیوں ویران پڑا ہوا ہے؟ آپ یہاں اکیلے کیوں رہ رہے ہیں ۔‘‘
بوڑھے آدمی نے ایک سرد آہ بھری ۔
’’کچھ نہ پوچھو بیٹا۔ ہمارے اس ہنستے کھیلتے گاؤں پر اچانک یہ آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ برسوں سے ہم لوگ اپنے اس گاؤں میں ہنسی خوشی زندگیاں گزارتے آرہے تھے کہ جانے کہاں سے وہ منحوس نیلا آدمی یہاں آنکلا اور ہماری بربادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ آدمی اللہ کے ایک عذاب کی صورت میں ہم پر مسلط ہو چکا ہے۔ اس گاؤں کی آدھی سے زیادہ آبادی اس کے ہاتھوں ہلاک ہوچکی ہے۔ جو بچ رہی ہے وہ بھی ہلاکت سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ میں بھی جلد یا بدیر اس منحوس نیلے آدمی کے ہاتھوں ہلاک ہو جاؤں گا ۔‘‘
’’بابا جی !یہ نیلا آدمی ہے کون؟ یہ کہاں سے آیا ہے ۔‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ البتہ لوگ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اُسے ان پہاڑوں میں آتے جاتے اکثر دیکھا ہے۔ شاید وہ وہاں رہتا ہو، لیکن مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوا کرتی ہے کہ یہ پہاڑ تو کبھی کسی بلا یا عفریت کا مسکن نہیں رہے۔ پھر یہ اس منحوس نیلے آدمی کا مسکن کیسے بن گئے۔ ان کی صورتیں کیسے تبدیل ہو گئیں۔ وہ تو عام پہاڑوں کی طرح ہوا کرتے تھے۔ اب وہ گنبدوں اور میناروں کی صورت میں کیسے تبدیل ہو گئے؟ کیا یہ اس نیلے آدمی کی کارستانی ہے؟ وہ کیا کوئی غیر انسانی مخلوق ہے؟ کسی دوسرے سیارے سے آیا ہے یا زمین ہی کی کوئی بلا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھید معلوم کرنے کی کوشش کی تھی اور ان پہاڑوں میں جا کر اُسے کھوجتے پھرے تھے۔ انھیں پھر زندہ واپس آنا نہیں نصیب ہوسکا۔ شاید اس نیلے آدمی نے انھیں ہلاک کر دیا ہوگا۔‘‘
’’ اس نے گاؤں کے لوگوں کو کیسے ہلاک کیا؟ کیا وہ کوئی آدم خور عفریت ہے؟ ‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’یہ میں نہیں جانتا بیٹا۔ تم دیکھتے ہو کہ میرا یہ مکان گاؤں سے الگ تھلگ سی جگہ پر واقع ہے۔ مجھے گاؤں والوں سے ملنے کا بہت کم موقع ملا کرتا تھا۔ اس لیے ان سے بہت کم باتیں معلوم ہو پاتی تھیں۔ اس منحوس نیلے آدمی کے متعلق میں تمھیں صرف اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ وہ کوئی عام انسان نہیں۔ کوئی بلا یا عفریت ہی ہے۔ وہ جانے کہاں سے آکر ان پہاڑوں میں رہنے لگا تھا۔ وہ جب پہلی بار اس گاؤں میں نمودار ہوا تھا تو اُسے دیکھ کر سب لوگ ڈر گئے تھے۔ وہ سر سے پیر تک بالکل نیلا ہے۔ وہ گاؤں میں داخل ہو کر کچھ لوگوں کو زنجیریں پہنا کر اپنے ساتھ پہاڑوں میں لے گیا تھا۔ اس کے بعد وہ برابر یہاں آنے لگا اور لوگوں کو زنجیریں پہنا پہنا کر اپنے ساتھ پہاڑوں میں لے جانے لگا۔ یہاں تک کہ گاؤں کی آدھی آبادی اس کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک وہ اس گاؤں میں نہیں آیا، مگر چند دن ہوئے وہ پھر آگیا اور باقی آبادی کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ میرا یہ مکان عام آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے بچ گیا، لیکن میرا خیال ہے۔ وہ جلد یا بدیر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے یہاں آن ہی پہنچے گا۔ ‘‘
’’لیکن محترم! کیا گاؤں کے لوگوں نے اس کا مقابلہ نہیں کیا؟ کیا وہ ایسے کم زور ہمت اور بزدل لوگ تھے جو وہ نیلا آدمی انھیں اتنی آسانی سے زنجیریں پہنا کر اپنے ساتھ لے گیا ۔‘‘ ہوشنگ نے غصے سے پوچھا۔
’’ وہ نیلا آدمی عام انسانوں کی طرح کہاں ہے۔ وہ تو ایک بلا، ایک عفریت ہے بیٹا !‘‘بوڑھا آدمی بولا۔ ’’گاؤں والوں نے تو اس کا خوب مقابلہ کیا۔ اس سے باقاعدہ جنگ کی۔ لیکن اس پر نہ کوئی ہتھیار کارگر ہوتا ہے۔ نہ ہی اُسے کوئی چوٹ یا زخم آتا ہے۔ اس میں جانے کہاں کی جناتی طاقت ہے جو وہ ایک وقت میں سینکڑوں کو زیر کر لیتا ہے۔ بس اب وہ گاؤں کی ساری آبادی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ شاید اس نے تمام مردوں ،عورتوں اور بچوں کو ہلاک ہی کر دیا ہو گا۔ صرف میں باقی رہ گیا ہوں۔ مجھے بھی اس کے ہاتھوں موت کا انتظار ہے ۔‘‘
’’نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ۔‘‘ ہوشنگ ایک عزم کے ساتھ بولا۔’’ آپ زندہ رہیں گے۔ وہ نیلا آدمی آپ کو ہاتھ بھی نہ لگا سکے گا۔ میں اُسے ہلاک کر دوں گا۔‘‘
بوڑھا آدمی حیرت اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ تم یہ کام کیسے کرو گے بیٹا؟ اس بلاپر تو کسی قسم کا ہتھیار کارگر نہیں ہوتا۔ نہ اس پر قابو پانا اکیلے کسی آدمی کے لیے آسان ہے وہ تو الٹا تمھیں ہی ہلاک کر دے گا ۔‘‘
’’ نہیں جناب، میں ہر قیمت پر اُسے ہلاک کر کے رہوں گا۔ خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ جائے ۔‘‘ہوشنگ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔
’’یہ بہت خطرناک کام ہے بیٹا!‘‘بوڑھا آدمی اُسے سمجھاتے ہوئے بولا۔’’ تم ایک مسافر ہو۔ تمھارا بھی کہیں گھر ہوگا۔ ماں باپ بہن بھائی ہوں گے۔ تم میری بات مانو تو خاموشی سے اس جگہ سے نکل جاؤ۔ اپنی جان کو خواہ مخواہ ہلاکت میں مت ڈالو۔ تم ویسے بھی نو عمر لڑکے ہو۔ تمھیں ابھی زندہ رہنا چاہیے۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں۔ اس ظالم نیلے آدمی کو ہلاک کیے بغیر میں ہرگز یہاں سے نہیں جاسکتا ۔‘‘ ہوشنگ سختی سے بولا ۔’’ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ بلا زندہ رہے اور اس گاؤں کی طرح دوسرے دیہاتوں کی آبادیوں کو بھی اسی طرح ہلاک کرتی رہے؟‘‘
’’ تمھاری بات تو ٹھیک ہے بیٹا کہ اس بلا کو ہلاک ہو جانا چاہیے ۔‘‘بوڑھا آدمی بولا۔ ’’لیکن جہاں سینکڑوں لوگ مل کر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے وہاں تم اس کا کیا کر لو گے؟ ‘‘
’’ اللہ نے چاہا تو میں ضرور اس بلا کو ہلاک کرنے میں کام یاب ہو جاؤں گا ۔‘‘ہوشنگ یقین سے بولا، ’’ہاں آپ نے بتایا ہے کہ وہ نیلا آدمی ان پہاڑوں میں رہتا ہے۔ میں تو ابھی ابھی گنبد نما پہاڑوں میں سے گزر کر آیا ہوں۔ وہاں تو مجھے کہیں بھی اس کی جھلک نہیں دکھائی دی؟ ‘‘
’’ہو سکتا ہے بیٹا کہ وہ ان پہاڑوں میں کسی اور جگہ موجود ہو۔ یہ پہاڑی سلسلہ طویل بھی تو بہت ہے۔ ‘‘بوڑھا آدمی بولا۔
اس کے بعد اس نے ایک بار پھر ہوشنگ کواس نیلے آدمی کو ہلاک کرنے کی کوشش سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن ہوشنگ کا فیصلہ اٹل تھا۔ وہ ہر قیمت پر اس نیلے آدمی کو ہلاک کرنے کا تہیہ کرچکا تھا۔ اس نے بوڑھے آدمی کو تسلی تشفی دی۔ اُسے باہر سے کچھ پھل وغیرہ توڑ کر لا دیے۔ اس کے بعد اس سے رخصت ہو کر اس کے گھر سے باہر نکل گیااور گاؤں کی ویران و سنسان پگڈنڈیوں پر سے ہوتا ہوا ان پہاڑوں کی طرف بڑھ گیا جنہیں وہ کچھ دیر ہوئی عبور کر کے آیا تھا۔ گاؤں سے باہر نکل کر اس نے ایک جگہ کھڑے ہو کر ان پہاڑوں کا جائزہ لیا۔ وہ سلسلہ ہائے کوہ زیادہ طویل و عریض نہیں تھا۔ اس کے پہاڑ بھی عام پہاڑوں ہی کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ البتہ اُن کے درمیان جو پہاڑ اور چٹانیں تھیں۔ وہ گنبدوں اور میناروں کی صورت کی دکھائی دیتی تھیں اور ان کی تعداد بہت کم تھی۔ یعنی یہ بہت کم رقبے میں پھیلی دکھائی دیتی تھیں۔ ہوشنگ انہی عجیب و غریب پہاڑوں اور چٹانوں سے گزر کر اس بد قسمت گاؤں میں پہنچا تھا اور اس بوڑھے آدمی کے بیان کے مطابق اسی جگہ اس پر اسرارنیلے آدمی کا مسکن تھا۔ ہوشنگ کچھ دیر کھڑا ان پہاڑوں کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر ان کی طرف بڑھ گیا۔ اُسے اس بار ان پہاڑوں میں داخل ہونے کے لیے احتیاط کی ضرورت تھی۔ کیوں کہ اس بار وہاں اس کا سامنا یقینا اس پر اسرار نیلے آدمی سے ہو سکتا تھا۔
پہاڑوں کے قریب پہنچ کر وہ چٹانوں اور بڑے بڑے پتھروں کی اوٹ میں ہوتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ اس بار اس نے کسی درے گھاٹی میں داخل ہونے کی کوشش نہ کی۔ وہ پوری طرح سے چوکنا تھا اور ہر قدم پر رک رک کر اپنے چاروں طرف دیکھتا جاتا تھا۔ اسی طرح احتیاط سے کام لیتا ہوا وہ آہستہ آہستہ بلندی پر چڑھتا گیا۔ اس کے چاروں طرف مینار نما چٹانیں اور پہاڑ بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے جب انھیں غور سے دیکھنا شروع کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان پہاڑوں اور چٹانوں کو گنبدوں اور میناروں کی صورت دینے کے لیے جدید قسم کی مشینیں اور آلات وغیرہ استعمال کیے گئے ہوں۔ وہ کافی دیر تک ان گنبد نما پہاڑوں پر چڑھتا اُترتا آگے بڑھتا رہا۔ جب وہ ایک ایسے گنبد نما پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جو کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ رہ چکا تھا تو اس کے دہانے کے قریب پہنچ کر وہ چونک کر رہ گیا۔ اُسے اس کے اندر سے ہلکی ہلکی بھنبھنا ہٹوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ لمحہ بھر کے لیے وہ خوف زدہ سا ہو گیا لیکن پھر اُس نے دل کو مضبوط کیا اور احتیاط سے اس دہانے کے اندر جھانکا۔ اندر ایک گہرا خلا سا تھا۔ تاریکی میں اُسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔۔ اس نے سوچا اُسے اس دھانے میں اتر کر دیکھنا چاہیے کہ یہ بھنبھناہٹ کی آواز کیسی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اندر کہیں اس نیلے آدمی کا مسکن ہو۔ یہ سوچ کر وہ بڑی احتیاط سے قدم جماتا ہوا پہاڑ کے دہانے میں اُترنے لگا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا، مگر وہ محتاط قدموں سے نیچے اُترتا چلا گیا۔ اب بھنبھناہٹ کی آواز کچھ اونچی سنائی دینے لگی تھی۔ کچھ دور اور نیچے اُترنے کے بعد ہوشنگ ایک سرنگ میں داخل ہوگیا۔ وہ سرنگ خاصی کشادہ تھی۔ اس میں تاریکی بھی اتنی نہ تھی۔ اس نیم تاریک سرنگ میں جو ڈھلواں ہوتی جاتی تھی، ہوشنگ محتاط قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔ بھنبھنا ہٹ کی آواز اب ہلکے ہلکے شور میں تبدیل ہوگئی تھی۔
سرنگ میں کچھ اور آگے چل کر ہوشنگ کو روشنی نظر آئی۔ اس جگہ سرنگ کی دیواریں، چھت اور فرش بالکل سفید رنگ کے تھے اور چمکتے دکھائی دے رہے تھے۔ گویا ان پر کسی خاص قسم کا تعمیراتی مسالہ استعمال کیا گیا ہو۔ ہوشنگ آگے قدم رکھتے ہوئے ہچکچانے لگا۔ کیوں کہ آگے سرنگ دور دور تک صاف اور چمکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی اور خطرے کے وقت اس کے چھپنے کے لیے وہاں کوئی اوٹ یا چٹان نہ تھی۔ پھر بھی وہ اللہ کا نام لے کر محتاط قدموں سے چلتا ہوا اس سفید چکنے فرش پر آگے بڑھنے لگا۔ اب مشینوں کے چلنے جیسی آواز سنائی دینے لگی تھی۔ ہوشنگ احتیاط سے چلتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ پھر اُس نے دیکھا کہ آگے چل کر سرنگ کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ یہ شاخیں پہاڑ کے اندر مختلف حصوں کی طرف نکل گئی تھیں۔ وہ کچھ دیر اپنی جگہ پر کھڑا کچھ سوچتا رہا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ مشینوں کی آوازیں ہلکی ہو گئی ہیں۔ وہ آگے بڑھ گیا۔
کچھ دور آگے چل کر اُس نے دیکھا کہ راہداری کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے تھے۔ جن کے دروازے بند تھے۔ اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ایک دروازے کو کھولا اور اندر جھانکا۔ وہ ایک بہت وسیع و عریض کمرہ تھا۔ جس میں سامان نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اس نے دروازہ بند کر دیا۔ پھر اگلے کمرے کا دروازہ کھولا۔ وہ کمرہ بھی پہلے کمرے کی طرح بالکل خالی تھا۔ اس سے اگلے کمرے بھی سب خالی تھے۔ اُن سے کچھ دور پہنچ کر وہ راہداری ختم ہو جاتی تھی۔ ہوشنگ واپسی کے لیے مڑ گیا اور ایک دوسری راہداری میں داخل ہو گیا۔ اس راہداری میں بہت کم کمرے تھے۔ ان میں کچھ عجیب قسم کے آلات اور اوزار بڑے قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔ اُسے اس قسم کی چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ کیوں کہ وہ ایک دیہاتی لڑکا تھا۔ اس لیے وہ انھیں بڑی توجہ اور دل چسپی سے دیکھتا رہا۔ اس نے سوچا کہ وہ نیلا آدمی کوئی بلا یا عفریت ہرگز نہ ہوگا، بلکہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوگا۔ اُس نے اپنے بزرگوں سے سُن رکھا تھا کہ دوسرے سیاروں پر جو مخلوق آباد تھی وہ انسانوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن ہے لیکن یہ نیلا آدمی یہاں زمین پر کس طرح آن پہنچا تھا؟ اس نے ان پہاڑوں میں اپنا یہ مسکن کس لیے بنا لیا تھا۔ وہ یہاں کیا کر رہا تھا؟ وہ اس گاؤں کی تمام آبادی کو کیوں اس جگہ لے آیا تھا، وہ ان انسانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا تھا؟ کیا ایسا تو نہیں تھا کہ وہ ان پر اپنے خطرناک قسم کے تجربات کر رہا ہو؟ اور اس طرح انھیں ہلاک کر رہا ہو۔ اگر واقعی ایسی ہی بات تھی تو پھر یہ نیلا آدمی بہت خطرناک تھا۔ اس کا زندہ رہنا شاید دنیا بھر کے انسانوں کو ہلاکت اور تباہی سے دوچار کردے۔ اس لیے اس کا قصہ پاک کرنا ضروری تھا۔
ہوشنگ مختلف راہداریوں میں گھومتا ہوا، ان میں بنے ہوئے کمروں کا جائزہ لیتا رہا۔ بعض کمرے اسے بالکل خالی ملے۔ بعض میں اسی قسم کا عجیب و غریب سامان رکھا ہوا ملا۔ جب وہ تمام راہداریوں کے چکر لگا چکا تو اس نے اس بڑی سرنگ کا اچھی طرح سے جائزہ لیا۔ اس نے غور کیا تھا کہ مشینوں کے چلنے جیسی آواز بڑی سرنگ میں ہی واضح طور پر سنائی دیتی تھی۔ شاید اس جگہ کوئی خفیہ کمرہ یا تہ خانہ موجود تھا جسے اس نیلے آدمی نے اپنی تجربہ گاہ بنا رکھا تھا اور شاید اس نے گاؤں کی آبادی کو بھی وہیں قید کر رکھا تھا۔ وہ بڑے غور سے اس سرنگ کی دیواروں اور فرش کا جائزہ لینے لگا۔ جلد ہی اس نے دیکھ لیا کہ راہداریوں کے دہانے پر جہاں سرنگ ختم ہو جاتی تھی، چمکیلے سفید فرش پر ایک ہلکا سا چوکور نشان بنا ہوا تھا۔ وہ بیٹھ کر اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنی گٹھڑی کھول کر اس میں سے ایک بڑا سا تیز چاقو نکالا اور اُسے کھول کر اس سِل کو اکھاڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑی سی کوشش سے وہ سِل کسی ڈھکن کی مانند کھل گئی۔ وہ سل پتھریلی نہیں تھی۔ بلکہ کسی مضبوط دھات کی بنی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے اکھڑنے سے اس کے نیچے ایک خلا سا نمودار ہوگیا۔ اس خلا میں ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی اور نیچے سیڑھیاں بنی دکھائی دے رہی تھیں۔
ہوشنگ اللہ کا نام لے کر ان سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگا۔ ان کے اختتام پر ایک بڑا سا کمرہ آتا تھا۔ جو بالکل خالی پڑا تھا۔ اس کی ایک دیوار پر ایک عجیب طرح کا چراغ لگا تھا۔ جس سے کمرے میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ ہوشنگ اس کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ایسا چراغ نہ دیکھا تھا۔ جس سے دھواں بھی نہ اُٹھتا ہو اور جو تیل سے بھی نہ جلتا ہو۔ وہ اس چراغ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اُسے قریب ہی ایک شور سا سنائی دیا۔ اُس نے تیزی سے ادھر ادھر دیکھا اور جلدی سے سیڑھیوں کے نیچے بنے ہوئے ایک تاریک سے خلا میں دبک گیا۔ اسی وقت اس نے اس کمرے کی ایک دیوار میں ایک دروازہ کھلتے دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی اُسے مشینوں کے چلنے کا بڑا زبر دست شور سنائی دیا۔ اس نے یہ بات تہ خانے میں اُترتے ہی محسوس کی تھی کہ اس جگہ مشینوں کے چلنے جیسا شور اور گھڑ گھڑاہٹ کچھ زیادہ ہی بلند تھی۔ وہ دروازہ لمحہ بھر کے لیے کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ ہوشنگ اپنی جگہ پر دبکا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اس دروازے کو پھر کھلتے ہوئے دیکھا۔ اس کھلے ہوئے دروازے سے اندر کمرے میں اُسے تیز روشنی ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے اس میں سے ایک عجیب سے آدمی کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ آدمی دیکھنے میں عام انسانوں جتنی قد و قامت کا تھا، لیکن اس کا سر ضرورت سے زیادہ ہی بڑا تھا۔ اس کے ماتھے پر سانپ کی طرح بغیر پپوٹے کی بڑی بڑی سُرخ آنکھیں تھیں۔ جن میں پتلیاں نہیں تھیں۔ وہ سُرخ آنکھیں اپنے حلقوں سے گویا ابل پڑرہی تھیں۔ اس کے چہرے پر ناک نہ تھی اور ہونٹوں کی جگہ ایک گول سا سوراخ تھا۔ اس کا چہرہ بھی غیر معمولی طور پر لمبا تھا۔ اس کی گردن بھی بہت لمبی تھی۔ اس کے بازو اتنے لمبے تھے کہ اس کے ہاتھ اس کی پنڈلیوں تک پہنچ رہے تھے اور اس کے ہر ہاتھ میں سات سات انگلیاں تھیں۔ جن میں کوئی ناخن نہیں تھے۔ اس کے کان بھی نہیں تھے اور نہ ہی اس کے سر پر بال وغیرہ تھے۔ وہ سر سے پاؤں تک بالکل نیلا تھا۔ اس نے لباس اور بوٹ بھی نیلے رنگ کے پہن رکھے تھے۔ یہی وہ پر اسرار نیلا آدمی تھا جسے ہوشنگ نے دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھا تھا۔ واقعی وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق معلوم ہوتا تھا۔کمرے سے باہر نکل کر اس نیلے آدمی نے کمرے میں جھانکتے ہوئے زور سے آواز لگائی۔
’’ اب کام کرنا بند کرو اور اپنے کمرے میں جاؤ۔ باقی کام کل صبح شروع ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اس بڑے کمرے میں بنے ہوئے ایک دروازے کی طرف بڑھ گیا اور اُسے کھول دیا۔ اس کے پیچھے پہلے والے کمرے سے مردوں عورتوں اور بچوں کی ایک لمبی سی قطار نکل کر اس کمرے میں داخل ہونے لگی۔ ہوشنگ سمجھ گیا کہ یہ اسی گاؤں کے بد قسمت باشندے ہیں جنھیں وہ نیلا آدمی وہاں سے پکڑ لایا تھا۔ اُسے یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ ان لوگوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نیلے آدمی نے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچایا تھا۔ نہ ہی انھیں ہلاک کیا تھا، لیکن اس نے دیکھا کہ وہ سب لوگ بہت ڈرے سہمے اور خاموش دکھائی رہے تھے۔ جانے وہ آدمی اُنھیں کس مقصد کے لیے وہاں قید کیے ہوئے تھا اور ان کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔ جب سب لوگ اس کمرے میں داخل ہو چکے تو نیلے آدمی نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔ ہوشنگ نے اوپر سیڑھیوں کا ڈھکن کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
ہوشنگ کچھ دیر تک اپنی جگہ پر دم سادھے بیٹھا رہا۔ اس کے بعد وہ اپنی جگہ سے نکلا اور دبے پاؤں چلتا ہوا اس کمرے کی طرف بڑھ گیاجس میں گاؤں کے لوگ داخل ہوئے تھے۔ اس نے آہستگی سے دروازے کو اندر کی طرف دھکیلا۔ وہ بند نہیں تھا لہٰذا فوراً ہی کھل گیا۔ ہوشنگ اندر داخل ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک بہت ہی وسیع و عریض کمرہ تھا۔ جس میں اس پہلے کمرے جیسے عجیب سے چراغ روشن تھے۔ اس کمرے میں گاؤں کے لوگ دیواروں سے لگے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اس وقت بڑی خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے جب نیلے آدمی کی بجائے ایک نوعمر لڑکے کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ سب چیختے چلاتے اپنی جگہوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہوشنگ کی طرف لپکے ۔ہوشنگ نے تیزی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور ہاتھ اُٹھا کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
’’ خاموش رہو۔ رُک جاؤ ۔‘‘اُس نے چلا کر ان سے کہا۔
وہ سب اپنی جگہوں پر ساکت ہوگئے۔ ہوشنگ نے انھیں آرام سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جانے کو کہا۔ جب سب بیٹھ گئے تو ہوشنگ نے اُن کو بتایا کہ وہ ایک مسافر ہے جو گھومتا پھرتا اُن کے گاؤں میں آنکلا۔ وہاں ایک بوڑھے آدمی نے اُسے بتایا کہ اس گاؤں میں کوئی نیلا آدمی آیا تھا اور وہاں کی تمام آبادی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس نے اس بوڑھے آدمی سے گاؤں والوں کو اس نیلے آدمی سے نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے اور اب اُسے تلاش کرتا ہوا اس جگہ آن پہنچا ہے۔ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔ اب وہ اُسے ہلاک کرکے ہی رہے گا۔
’’ لیکن بیٹا۔ یہ کام آسان نہیں۔‘‘ ایک بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے بولا۔’’یہ نیلا آدمی کوئی ہما رے جیسا انسان نہیں بلکہ کسی سیارے کی مخلوق ہے۔ جس پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کرتا۔ نہ سینکڑوں انسان مل کر اس کا کچھ بگڑ سکتے ہیں۔ پھر تم ایک نوعمر لڑکے ہو۔ تم اس کا کیا بگاڑ لو گے ۔‘‘
’’ میں اُسے ہلاک کرنے کا تہیہ کر چکا ہوں۔ ہر قیمت اور ہر صورت میں۔‘‘ہوشنگ بولا۔’’ اگر اُسے ہلاک نہ کیا گیا تو یہ دوسری آبادیوں کو بھی ہلاکت اور تباہی میں ڈال دے گا لیکن آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ آپ سب کو اس کمرے میں بند کر کے خود کہاں چلا گیا ہے اور آپ لوگ یہاں اس کے لیے کیا کام کر رہے ہیں؟ ‘‘
’’ وہ منحوس آدمی اس وقت آرام کرنے گیا ہے۔ اگلی صبح وہ پھر ہمیں کام پر لگا دے گا ۔‘‘ بوڑھا آدمی بولا۔ ’’جب تک اس کا کام ختم نہیں ہو جائے گا۔ ہم برابر اس کی بیگار بھگتے رہیں گے۔ اس کے بعد وہ ہم سب کو اپنے ساتھ لے جائے گا ۔‘‘
ہوشنگ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
’’ کہاں لے جائے گا؟ وہ آپ لوگوں سے کیا کام کروا رہا ہے؟‘‘
’’ وہ ہم سے ایک بہت بڑی اڑن تشتری بنانے کا کام لے رہا ہے بیٹا!‘‘ بوڑھا آدمی بولا۔ ’’ان پہاڑوں کے اندر اس نے اپنی تجربہ گاہیں اور کارخانے بنا رکھے ہیں جن میں وہ طرح طرح کے تجربات کرتا اور چیزیں بناتا رہتا ہے۔ وہیں ایک جگہ وہ اپنی اڑن تشتری تیار کروا رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کی آدھی آبادی وہ پہلے اپنے مختلف تجربات کے لیے پکڑ لایا تھا۔ وہ لوگ خدا جانے کہاں گئے۔ شاید وہ ان پر اپنے ظالمانہ تجربات کرتا رہا ہوگا۔ جن میں وہ ہلاک ہو گئے ہوں گے۔ گاؤں کی باقی آبادی ہم ہیں۔ جنھیں وہ اُڑن تشتری مکمل ہوتے ہی اپنے ساتھ اپنے نیلے سیارے پر لے جائے گا ۔‘‘
’’یہ بات کیا اُس نے خود آپ لوگوں سے کہی ہے؟ ‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’ہاں۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے سیارے میں ہماری آباد کاری کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ ہم ہرگز وہاں نہیں جانا چاہتے، لیکن ہم اس کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہم نہ اس جگہ سے نکل کر کہیں جاسکتے ہیں نہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جاکر آباد ہو سکتے ہیں۔ اس ظالم نیلے آدمی نے کہا ہے کہ وہ ہمیں ہر جگہ ڈھونڈ نکالے گا اور ہر قیمت پر اپنے ساتھ اپنے نیلے سیارے میں لے جائے گا۔‘‘
’’ یہ بہت بھیانک بات ہے۔ ‘‘ہوشنگ بولا۔’’ ہم انسانوں کے رہنے کی جگہ یہ زمین ہے۔ ہم کسی اور سیارے میں جاکر آباد ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں یہ نیلا آدمی کیا آپ لوگوں کا یہاں اچھی طرح سے خیال رکھ رہا ہے؟ یہ کہیں آپ پر کوئی ظلم تو نہیں کرتا۔‘‘
’’اس کا سب سے بڑا ظلم تو یہی ہے بیٹا کہ یہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال کر اس قید خانے میں لے آیا ہے ۔‘‘بوڑھا آدمی بولا۔’’ ویسے یہ ہمیں تنگ نہیں کرتا۔ ہمیں بہترین پھل اور میوے کھانے کو دیتا ہے اور کچھ ایسی دوائیاں بھی جو ہمیں خوب چاق و چوبند رکھتی ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں یہ ہمیں پینے کے لیے پانی نہیں دیتا بلکہ پانی کا نام سنتے ہی بری طرح سے چیخنے چلانے لگتا ہے۔‘‘
ہوشنگ کو بڑی حیرت ہوئی۔’’ وہ کیوں ؟‘‘
’’خدا ہی جانے بیٹا!‘‘ بوڑھا آدمی بولا۔’’ وہ ہماری طرح کا انسان ہی ہے، اُسے بھی وہی کچھ پسند ہے جو ہم انسان پسند کرتے ہیں۔ پانی کا نام سنتے ہی وہ کچھ ایسا غضب ناک ہو جاتا ہے کہ اُسے دیکھ کر ڈر لگنے لگتا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ہم نے ان سب عورتوں اور بچوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ ہرگز اس کے سامنے پانی کا نام نہ لیا کریں۔ بلکہ رس بھرے پھل خوب اچھی طرح سے کھا لیا کریں۔ اس طرح اُن کی پیاس بجھ جایا کرے گی۔‘‘
’’ یہ عجیب ہی بات ہے؟ ‘‘ہوشنگ بڑبڑایا۔ پھر وہ بوڑھے آدمی سے بولا: ’’آپ سے مجھے بہت اہم معلومات حاصل ہو گئی ہیں۔ اب میں چلتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میں اس نیلے آدمی سے آپ کو چھٹکارا دلانے کے لیے کیا کر سکتا ہوں ۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ دروازہ کھول کر اس کمرے سے باہر نکل آیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔پھر سیڑھیاں چڑھ کر احتیاط سے ان کے اوپر لگا ہوا دھات کا ڈھکن اُٹھا کر اس تہ خانے سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر اس نے اس ڈھکن کو دوبارہ اس کی جگہ پر جما دیا اور محتاط قدموں سے سرنگ میں چلتا ہوا پہاڑ کے دہانے کی سمت ہو لیا۔ جب وہ وہانے سے باہر نکلا تو اس نے باہر ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا پایا۔ اور آسمان پر تارے چمکتے ہوئے پائے۔ دہانے سے باہر نکل کر وہ آہستہ آہستہ محتاط قدموں سے چلتا ہوا پہاڑ سے نیچے اُترنے لگا۔ اسے اب جو کچھ کرنا تھا۔ وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے کرنا تھا۔ کئی پہاڑیوں پر چڑھتا اُترتا وہ بالآخر اس پہاڑی سلسلے سے باہر نکل کر اسی گاؤں جانے والے راستے پر ہولیا۔ اس راستے کو اُس نے تیز رفتاری سے دوڑتے ہوئے طے کیا۔ گاؤں کے تمام گھر ویسے کے ویسے خالی پڑے تھے۔ وہ ایک خالی گھر میں گھس گیا۔ وہاں تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد اُسے ایک مشکیزہ مل گیا۔ اس نے باہر نکل کر ایک ندی سے اس مشکیزے کو بھرا اور اُسے کندھے پر لاد کر دوڑتا ہوا پہاڑوں کی طرف واپس ہولیا۔
پہاڑوں میں پہنچ کر اس نے تیزی سے اونچی نیچی پہاڑیوں کو طے کرنا شروع کیا اور جلد ہی اس پہاڑ کے دہانے تک پہنچ گیا جس کے اندر اس نیلے آدمی نے اپنی دنیا بنا رکھی تھی۔ اس نے مشکیزہ سے پانی کے قطرات ٹپکنے کے خطرے کے پیش نظر اس پر کپڑا لپیٹ دیا اور اُسے کند ھے پر لاد کر احتیاط سے پہاڑ کے دہانے میں داخل ہوگیا اور بڑی احتیاط سے نیچے اُترتا ہوا سرنگ میں داخل ہو گیا۔ سرنگ کے آخری حصے میں ویسی ہی ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ اس روشنی میں اس نے تہ خانے کے منھ پر جمی ہوئی دھات کی سیل اپنی جگہ سے اکھاڑی اور نیچے سیڑھیوں پر اتر کر اُسے اپنی جگہ پر جما دیا۔ مشکیزہ کندھے پر اٹھائے احتیاط سے سیڑھیاں اتر کر نیچے تہ خانے میں پہنچ گیا اور سیڑھیوں کے تاریک خلا میں داخل ہو گیا۔ اس نے مشکیزہ کندھے سے اتار کر فرش پر رکھ دیا اور خود بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔
پھر کافی دیر گزرنے کے بعد اس نے اوپر تہ خانے کی سیڑھیوں پر سے سیل ہٹائے جانے کی آواز سنی۔ وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ شاید صبح ہوگئی تھی اور وہ نیلا آدمی تہ خانے میں داخل ہورہا تھا۔ اُس نے فرش پڑا ہوا مشکیزہ اٹھایا اور نیلے آدمی کے نیچے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر اُس نے اُسے سیڑھیاں اترتے سُنا۔ اس نے مشکیزے کے منھ پر بندی ہوئی رسی کھول دی اور مشکیزے کے منھ پر سختی سے ہاتھ جما دیا۔ اس وقت وہ نیلا آدمی سیڑھیاں اتر کر نیچے آگیا اور اس کے سامنے سے گزر کر اس کمرے کی طرف جانے لگا۔ جس میں اس نے گاؤں کے لوگوں کو بند کر رکھا تھا۔
ہوشنگ نے فوراً ہی اپنی جگہ سے حرکت کی۔ اس نے بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ آگے بڑھ کر مشکیزے کا منھ نیلے آدمی کی طرف کرتے ہوئے اس پر سے ہاتھ ہٹا دیا۔ پانی کی ایک تیز بوچھاڑ نیلے آدمی پر پڑی۔ اس کے منھ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ وہ بُری طرح سے اُچھل پھاند کرنے اور چیخنے چلانے لگا، لیکن ہوشنگ رکے بغیر اس پر برابر مشکیزے کا پانی پھینکتا رہا۔ پھر اس نے ایک نہایت ہی حیرت ناک اور بھیانک نظارہ دیکھا۔ نیلے آدمی کا چیخنا چلانا بند ہوگیا۔ وہ ایک جگہ کھڑے ہوکر بُری طرح سے ادھر اُدھر جھومنے لگا۔ پھر اس کا جسم پگھلنا شروع ہوگیا۔ اس کے پگھلاؤ سے فرش پر نیلے رنگ کا سیال مادہ سا بہنے لگا۔ یوں ہی پگھلتے پگھلتے وہ نیلا آدمی قد و قامت میں گھٹتے گھٹتے بالکل ختم ہو گیا۔ اب اس کی بجائے تہ خانے کے فرش پر نیلے رنگ کا سیال مادہ بہہ رہا تھا۔
ہوشنگ کچھ حیران کچھ خوف زدہ تھوڑی دیر اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر وہ اس کمرے کی طرف بڑھ گیا جس میں گاؤں کے لوگ بند تھے۔ اس نے جب کمرے کے دروازے کو کھولا تو اُسے سب لوگ بہت سہمے ہوئے اور خوف زدہ سے کونوں کھدروں میں سکڑے سمٹائے دکھائی دیے۔ انھوں نے جب دروازہ کھلتے ہی نیلے آدمی کے بجائے ہوشنگ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو ان کا خوف وڈر ایک دم دور ہو گیا۔ وہ خوشی اور مسرت سے چلاتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے تہ خانے میں آنے والی نیلے آدمی کے چیخنے چلانے اور بھاگ دوڑ کرنے کی آوازیں سُن لی تھیں اور اس خیال سے ڈرنے اور خوف زدہ ہونے لگے تھے کہ شاید ہوشنگ اس پر قابو نہ پاسکے گا اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی نیلے آدمی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جائے گا۔ لیکن اب نیلے آدمی کی بجائے ہوشنگ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گئے تھے کہ یہ بہادر لڑکا واقعی اس نیلے آدمی کو ختم کرنے میں کام یاب ہوگیا ہے۔
ہوشنگ نے انھیں بتایا کہ وہ واقعی اس نیلے آدمی کو ختم کرنے میں کام یاب ہوگیا ہے پھر وہ انھیں اس بڑے کمرے میں لے آیا جہاں فرش پر نیلے رنگ کا سیال مادہ پھیلا ہوا تھا۔ اس نے انھیں وہ دکھاتے ہوئے کہا کہ اس نے کس طرح نیلے آدمی کو پانی سے ہلاک کیا ہے۔نیلا آدمی پانی سے بہت ڈرتا تھا اور اس کا یہ مطلب تھا کہ پانی اس کے لیے موت تھا۔ اس نے پانی ہی کے ذریعے اسے ہلاک کردیا۔
سب لوگ اس کی بہادری کی تعریفیں کرنے لگے۔ اس بلا سے نجات دلانے پر اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ وہ اس جگہ سے اپنی رہائی کی طرف سے بالکل نا اُمید ہو چکے تھے اور اب اس بہادر لڑکے نے اس پر اسرار نیلے آدمی کا خاتمہ کر کے انھیں اس جگہ سے رہائی دلا دی تھی۔ وہ اُس کے جتنے شکر گزار ہوتے کم تھا۔
گاؤں کے لوگ چوں کہ اپنے گاؤں واپس جانے کے لیے بے تاب ہوئے جارہے تھے۔ اس لیے وہ ہوشنگ سے اجازت لے کر اس جگہ سے رخصت ہونے لگے۔ ہوشنگ نے گاؤں کے چند نوجوانوں کو اپنے ساتھ وہیں روک لیا تھا۔ کیوں کہ وہ ان کے ساتھ اس جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ چناں یہ گاؤں والوں کے رخصت ہوجانے کے بعد ہوشنگ کے کہنے پر ان نوجوانوں نے اُسے اس نیلے آدمی کی اس زیر زمین دنیا کی مکمل سیر کرائی۔ اس نے دیکھا کہ ان گنبدوں اور میناروں کی صورت میں تراشے ہوئے پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر اس نیلے آدمی نے اپنی بڑی بڑی تجربہ گاہیں اور کارخانے بنا رکھے تھے۔ ان میں ایسی ایسی مشینیں، ہتھیار اور اوزار سجے تھے جنھیں دیکھ کر عقل چکرا جاتی تھی۔ ایک بہت ہی بڑے، بہت اونچی چھت والے کمرے میں دو اڑن تشتریاں کھڑی تھیں۔ ایک اُڑن تشتری بہت چھوٹی سی تھی۔ شاید وہ نیلا آدمی اس میں بیٹھ کر اپنے سیارے سے زمین پر آیا تھا۔ دوسری اُڑن تشتری بہت ہی بڑی جسامت کی تھی۔ اس میں سینکڑوں لوگ سوار ہو سکتے تھے۔ اس اُڑن تشتری پر گاؤں کے لوگوں سے کام کروا رہا تھا۔ اس نے مردوں کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی اپنے کارخانوں اور تجر بے گاہوں میں کام کرنے پر لگا رکھے تھے۔ ہوشنگ کو ان جگہوں کی سیر کرتے کرتے وہ خفیہ کمرہ بھی مل گیا۔ جہاں اس نیلے آدمی نے گاؤں کے اکثر لوگوں کو ہلاک کر کے ڈال دیا تھا۔ اب اس کمرے میں ان کی لاشوں کی کھوپڑیاں او ر ڈھانچے ہی باقی رہ گئے۔ یہ نظارہ دیکھ کر ہوشنگ کو بہت رنج ہوا۔
نیلے آدمی کو ہلاک کرنے کے بعد ہوشنگ چند دنوں تک اس گاؤں میں مقیم رہا۔ اس کے کہنے پر گاؤں والوں نے نیلے آدمی کے تہ خانے میں جا کر اس کی تجربہ گاہوں اور کارخانوں کی ہر چیز تباہ کردی۔ انھوں نے دونوں اڑن تشتریوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور ان ٹکڑوں کو گاؤں میں اٹھا لائے۔ اس کے بعد انھوں نے بھاری پتھر اور چٹائیں گرا گرا کر نیلے آدمی کی زیر زمین دنیا کو تباہ و برباد کر دیا۔ ہوشنگ کچھ عرصے اس گاؤں میں ٹھہرا رہا۔ گاؤں والے اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ پھر ایک دن اس نے ان سے اجازت لی اور ان سے رخصت ہو کر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔

ہنسنے والا پہاڑ
اس گاؤں سے نکل کر ہوشنگ نے شمالی جانب سفر کرنا شروع کیا۔ اس کے راستے میں چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبے آتے رہے۔ ندیاں نالے اور دریا گزرتے رہے۔ بعض مقامات پر بڑے شہر بھی آباد تھے۔ وہ ان میں چند روز قیام کرتا تھا اور پھر آگے بڑھ جاتا تھا۔ اس کا سفر کئی ماہ تک جاری رہا۔ پھر وہ ایک ایسے علاقے میں جا نکلا جو نیم صحرائی قسم کا تھا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے دیہات واقع تھے۔ جو ایک دوسرے سے بہت لمبی مسافت پر تھے۔ ان دیہاتوں سے گزر کر وہ چند دنوں تک مسلسل سفر کرتا ہوا ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا پہنچا اور وہاں کی سرائے میں جاکر ٹھیر گیا۔ اس سرائے کا مالک ایک بوڑھا آدمی تھا۔ جب تک ہوشنگ اس کی سرائے میں ٹھیرا رہا۔ وہ اس کے کھانے پینے اور آرام کا خاص خیال رکھتا رہا۔ پھر جب ہوشنگ وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اُس نے اسے نصیحت کی کہ وہ جس طرف چاہے سفر کرے لیکن مغربی سمت ہرگز سفر نہ کرے کیوں کہ اس سمت ہنسنے والا پہاڑ واقع ہے۔ ہوشنگ یہ نام سن کر حیران ہوا۔ اس نے سرائے دار سے پوچھا۔’’ یہ ہنسنے والا پہاڑ کیسا ہے؟‘‘
’’یہ کوئی سلسلہ ہائے کوہ نہیں بلکہ یہ ایک اونچے سے پہاڑ اور چند چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ایک مختصر سا پہاڑی رقبہ ہے۔ یہ اونچا سا پہاڑ ہی ہنسنے والا پہاڑ مشہور ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جوں ہی کوئی انسان یا جانور اس پہاڑی حصے میں قدم رکھتا ہے۔ وہ پہاڑ زور زور سے ہنسنا شروع کر دیتا ہے اور اس کے ہنسنے کی آواز کچھ ایسی خوف ناک ہوتی ہے کہ وہاں قدم رکھنے والا انسان یا جانور مارے دہشت کے یا تو مر جاتا ہے یا پاگل ہو جاتا ہے۔ جانے وہاں جانے والوں کے ساتھ کیا گزرتی ہے جو کسی کو وہاں سے صحیح سلامت واپس آنا نصیب نہیں ہوتا؟‘‘
’’کیا یہ ہنسنے والا پہاڑ کوئی بلا ہے؟ ‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’ یہ کوئی نہیں بتا سکتا بیٹا کہ یہ ہنسنے والا پہاڑ آخر ہے کیا؟ ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ یہ پہاڑ ان کے بزرگوں کے بزرگوں کے زمانے سے اسی طرح ہنسنے والا پہاڑ مشہور چلا آرہا تھا یعنی یہ صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ اس کے آس پاس دُور دُور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ لوگ اس پہاڑ کے پاس جاکر آباد ہونے اور بستیاں بسانے سے بہت ڈرتے ہیں۔‘‘ سرائے دار نے بتایا۔
’’لیکن یہ کیا واقعی صحیح ہے کہ اس پہاڑی علاقے میں داخل ہونے والے کو پھر زندہ واپس آنا نصیب نہیں ہوتا ؟‘‘ ہوشنگ نے پوچھا۔
’’یہ ہمارے بزرگ بتاتے تھے بیٹا۔ یہاں سے تو کوئی شخص اس پہاڑ کی طرف نہیں گیا۔‘‘ سرائے دار نے کہا۔
’’ یعنی کسی نے اس پہاڑی علاقے میں جاکر اس ہنسنے والے پہاڑ کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی؟ ‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’ یہی بات ہے بیٹا۔ بھلا ایسی خوف ناک باتوں کا کھوج لگانے کے لیے کون اپنی جان ہلاکت میں ڈالتا ہے ۔‘‘ سرائے دار نے کہا۔
’’ آپ نے ٹھیک کہا۔‘‘ ہوشنگ بولا۔
پھر اس نے سرائے دار کو الوداع کہا اور گاؤں سے باہر جانے والے راستے پر ہولیا۔ اس وقت اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ضرور مغرب کی سمت سفر کرے گا۔ اور اس ہنسنے والے پہاڑ کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ مسلسل مغرب کی سمت سفر کرتا رہا۔ اس کے راستے میں خانہ بدوشوں کے اکا دکا پڑاؤ آئے۔ اس کے بعد جنگلوں اور ویران میدانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس نے آخری گاؤں سے زادِ سفر کے طور پر کچھ خشک خوراک اپنے ہمراہ لے لی تھی۔ پیاس وہ راستے میں پڑنے والے ندیوں کے پانی سے بجھا لیتا تھا۔ اس لیے وہ بھوک پیاس کی تکلیف سے بے نیاز اطمینان سے سفر کرتا رہا۔ اُسے جب سفر کرتے کرتے کئی ہفتے گزر گئے تو ایک دن شام ہونے کے قریب اُسے بہت دور افق پر ایک مختصر سے پہاڑی علاقے کی دھندلی سی جھلک دکھائی دینے لگی۔ شاید وہیں وہ ہنسنے والا پہاڑ واقع تھا۔ اس نے اپنے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتے محسوس کیا اور تیزی سے قدم بڑھانے لگا۔
رات ہوتے ہوتے وہ اس پہاڑی علاقے تک کافی فاصلے طے کر چکا تھا۔ آدھی رات تک وہ مسلسل سفر کرتا رہا۔ پھر رات گزارنے کے لیے ایک بڑی سی چٹان کے سائے میں رک گیا۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں دور دور تک چھوٹی بڑی چٹانیں اور بڑے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے اور بے تحاشا لمبی لمبی گھاس، خود رو پودے اور چھوٹے چھوٹے درخت اُگے ہوئے تھے۔ اس جگہ کی ویرانی اور خاموشی ہوشنگ کو بے حد پر اسرار اور ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھی۔ وہ اس بڑی سی چٹان کے نیچے لیٹا کبھی سوتا کبھی جاگتا رہا۔ پھر جب صبح ہوئی تو اس نے اٹھ کر ایک ندی سے ہاتھ منھ دھویا۔ جو کی روٹی اور بھنے ہوئے باجرے کا ناشتا کرنے کے بعد اپنی گٹھڑی کندھے پر رکھ کر اس ہنسنے والے پہاڑ کی طرف روانہ ہو گیا۔
وہ تمام دن تیز رفتاری سے سفر کرتا رہا۔ ہنسنے والا پہاڑ اب کافی نزدیک آچکا تھا۔ رات ہونے کے قریب ہوشنگ بالآخر اس مختصر سے پہاڑی علاقے تک پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ آسمان پر چاند اور تارے نمودار ہو چکے تھے۔ ان پہاڑیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہوشنگ نے سوچا کہ صبح ہونے سے پہلے اس پہاڑی علاقے کا جائزہ لینا مشکل ہی تھا۔ اس لیے اس نے سوچا کہ وہ صبح ہونے پر ہی اس پہاڑی علاقے کا جائزہ لے گا۔ چناں چہ اس نے اپنے سونے کے لیے ایک اونچی سی چٹان کے سائے میں ایک محفوظ جگہ تلاش کی اور گٹھڑی سرہانے رکھ کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ گہری نیند سو گیا۔
جب آدھی رات گزرگئی تو ان چٹانوں سے کسی بھاری جسم کے گھسٹنے کی ہلکی سی آواز بلند ہوئی۔ ہوشنگ ایک دم نیند سے بیدار ہوگیا۔ وہ پھرتی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اسی وقت کسی کے بھاری قدموں کی آواز اُسے سنائی دی۔ وہ چٹان کے سائے میں اندر کی طرف دبک گیا۔ بھاری قدموں کی آواز آہستہ آہستہ قریب آتی جارہی تھی۔ وہ کسی کے قدموں ہی کی آواز تھی۔ ہوشنگ دم سادھے اس کے اور قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کسی چیز کے بھاری قدموں کے زمین پر پڑنے سے زمین پر گویا زلزلہ سا آیا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ پھر جلد ہی وہ بلا اس چٹان کے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گئی۔ چاند کی روشنی میں ہوشنگ نے دیکھا کہ وہ کچھ عجیب ہی طرح کی بلا تھی۔ اس کی رنگت پہاڑوں کی رنگت کی طرح بھوری تھی۔ اس کے جسم پر بڑے بڑے کانٹے اُگے ہوئے تھے۔ اس کی لمبائی پندرہ سولہ فیٹ کے لگ بھگ تھی۔ وہ بہت فربہ تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے کسی پہاڑی چٹان کا خیال آجاتا تھا۔ اس کی ٹانگیں بہت موٹی اور چھوٹی چھوٹی تھیں۔ اس کے بڑے بڑے پاؤں انسانوں کے پاؤں جیسے تھے۔ اس کے بازو چھوٹے چھوٹے تھے اور ہاتھوں کی جگہ درندوں کی طرح بڑے بڑے تیز ناخنوں والے پنجے تھے۔ چٹان کی وجہ سے ہوشنگ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔
وہ بلا ان چٹانوں میں سے گزر کر نیچے میدان کی طرف ہولی۔ پھر ایک جگہ رک کر اس نے بھاڑ سا منھ کھولا اور ایسی دل ہلا دینے والی ہنسی کی آواز حلق سے نکالی کہ فرط دہشت سے ہوشنگ نے اپنے آپ کو سرد پڑتے محسوس کیا۔ وہ نیم بے ہوش سا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دُھند کی چھا گئی، لیکن اس نے جلد ہی اپنی حالت پر قابو پالیا اور اس بلا کو دیکھنے لگا۔ وہ بلا اب آہستہ آہستہ پہاڑی ڈھلوانوں سے نیچے اُتر رہی تھی۔ ہوشنگ نے سوچا کہ اُسے اس کا تعاقب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ کہاں جاتی ہے۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط سے اپنی پناہ گاہ سے نکلا اور لمبے لمبے پودوں اور لمبی لمبی گھاس میں چھپتا چھپاتا آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا پھر اس نے دیکھا کہ وہ بلا پہاڑی ڈھلوان سے نیچے اُترتے اُترتے ایک اونچے سے پتھر پر چڑھ گئی۔ اس نے منھ اوپر اٹھاتے ہوئے زور زور سے ہوا میں کچھ سونگھا ۔ہوشنگ ایک دم جھاڑیوں میں تقریبا ًزمین سے لگ کر چمٹ گیا۔ وہ اس خیال سے خوف زدہ ہوگیا تھا کہ وہ بلا کہیں ہوا میں اُس کی بو نہ سونگھ لے اور اس پر آن پڑے۔ وہ اس جگہ اس سے بچ کر کہیں نہ جاسکتا تھا لیکن بلانے اس کی طرف مڑکر بھی نہ دیکھا جہاں وہ چھپا ہوا تھا اور پتھر سے اُتر کر ایک سمت ہولی ۔ہوشنگ بھی جھاڑیوں اور لمبی لمبی گھاس میں چھپتا چھپاتا اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔
اس بلا کی ٹانگیں چوں کہ چھوٹی چھوٹی تھیں۔ اس لیے وہ زیادہ تیز نہ چل پارہی تھی۔ ہوشنگ درختوں اور جھاڑیوں میں پوشیدہ رہتے ہوئے اس کا تعاقب کرتا رہا۔ کچھ دور آگے چل کر اس نے دیکھا کہ وہ بلا چلتے چلتے ایک دم بیٹھ گئی اور چوپایوں کی طرح چاروں ہاتھوں پیروں پر تیزی سے دوڑنے لگی۔ اس کے دوڑنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہوشنگ پھر اس سے بہت پیچھے رہ گیا لیکن وہ بلا اپنے عظیم جثے کی وجہ سے اُسے دور سے بھی برابر دکھائی دے رہی تھی۔ اس لیے وہ اُسے اپنی نظروں میں رکھے آسانی سے اس کا تعاقب کرتا رہا۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ بلا دوڑتے دوڑتے ایک جگہ رک گئی۔ اس نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر زور زور سے سونگھا۔ پھر تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ ہوشنگ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ بلا کافی دور تک اسی طرح چاروں ہاتھوں پیروں پر تیزی سے دوڑتی رہی۔ ہوشنگ اس سے کچھ فاصلے پر رہتے ہوئے اس کا تعاقب کرتا رہا۔ پھر اس نے اس بلا کو رکتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر کھڑی ہوگئی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ ہوشنگ نے دور سے دیکھا۔ اس جگہ ایک وسیع میدان تھا۔ وہاں چاند کی روشنی میں بہت کم درخت اور جھاڑیاں اگے دکھائی دے رہے تھے۔ اس جگہ کسی خانہ بدوش قبیلے نے اپنے خیمے گاڑ رکھے تھے۔ وہ بلا انہی خیموں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ شاید وہ وہاں سوئے ہوئے جانوروں یا انسانوں کو اپنی خوراک بنانا چاہتی تھی۔ ہ اپنی جگہ پر رک گیا اور ایک اونچے سے درخت پر چڑھ کر اس بلا کی نقل و حرکت کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا۔ وہ بلا چوپایوں کی طرح چلتی ہوئی خیموں میں داخل ہوتی تھی اور ان میں سوئے ہوئے انسانوں کو اپنے منھ میں دبائے باہر آجاتی تھی۔ اور انھیں ایک جگہ رکھتی جاتی تھی۔ ان سوتے ہوئے لوگوں کو کوئی خبر نہ تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ یوں ہی بہت سے سوئے ہوئے انسانوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد وہ بلا ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہوشنگ نے ہڈیاں کڑکڑانے اور چبانے کی ہلکی ہلکی آواز سنیں۔ ان آوازوں میں کبھی کبھی کوئی انسانی چیخ اور کراہ بھی سنائی دے جاتی تھی۔ وہ تیزی سے درخت سے نیچے اُتر آیا اور واپسی کے راستے پر ہولیا۔ اس نے ہوا کے رخ کے مخالف راستہ اختیار کیا تھا۔ تاکہ اپنے مسکن میں واپس جاتے ہوئے اس عفریت کو اُس کی بو نہ سنگھائی دے جائے۔ وہ تیزی سے پہاڑ کی طرف واپس جاتے ہوئے مڑمڑ کر پیچھے بھی دیکھتا جاتا تھا کہ وہ بلا اب واپس آرہی تھی یا نہیں۔ پھر جب وہ آدھے راستے پر پہنچا تو اس نے دور سے اس بلا کو پہاڑ کی طرف واپس آتے دیکھا۔ وہ اسی راستے سے پہاڑ کی طرف واپس جارہی تھی جس راستے سے وہ خانہ بدوشوں کی بستی تک گئی تھی۔ ہوشنگ نے خدا کا شکر کیا کہ اس نے واپسی کے لیے وہ راستہ اختیار نہ کیا تھا، ورنہ وہ بلا اس کی بو سونگھ لیتی اور یوں اس کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔
جب وہ بلا کافی آگے نکل گئی تو وہ اس کے راستے پر ہولیا اور مناسب فاصلہ رکھ کر اس کا تعاقب کرنے لگا۔ اس وقت صبح ہونے کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔ آسمان پر سے تارے رفتہ رفتہ غائب ہوتے جارہے تھے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ بلا اس پہاڑی علاقے تک جاپہنچی اور بڑی بڑی چٹانوں کے عقب میں جاکر نظروں سے غائب ہو گئی ۔ ہوشنگ جب وہاں پہنچا تو اُسے ان چٹانوں میں کہیں دور سے کچھ عجیب سی چٹخنے پٹخنے جیسی آوازیں سنائی دیں۔ اس وقت تک صبح کا اجالا پھیل چکا تھا اور ہر چیز صاف اور واضح دکھائی دینے لگی تھی۔ ہوشنگ احتیاط سے چھوٹے بڑے پتھروں اور چٹانوں پر قدم رکھتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ اب وہ چٹخنے پٹخنے کی آواز باقاعدہ ہڈیاں چبانے کی آوازوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ اوپر چڑھتے چڑھتے وہ اسی بڑی چٹان تک جاپہنچا جس کے سائبان تلے وہ پناہ گزیں ہوا تھا۔ اس چٹان سے آگے کچھ اونچی نیچی پہاڑیاں آتی تھیں۔ وہ بڑی احتیاط سے بغیر آواز پیدا کیے ان کے گرد چکر کاٹتا آگے بڑھتا رہا۔
اسے اگلی چٹانوں سے آگے کچھ خلا سا دکھائی دے رہا تھا اور سامنے وہ بلند پہاڑ دکھائی دے رہا تھا جو اس جگہ کا واحد پہاڑ تھا۔ جسے لوگ ہنسنے والا پہاڑ کہتے تھے۔ وہ ہڈیاں چبانے کی آواز اسی طرف سے آرہی تھی۔ ہوشنگ چٹانوں کی آڑ میں ہوتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا۔ ہر چٹان کی آڑ میں پہنچ کر وہ ذرا سا سر نکال کر آگے جھانک لیتا تھا۔ پھر جب وہ ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ میں پہنچا جس کے آگے ڈھلوان شروع ہو جاتی تھی تو اس کی اوٹ سے ڈھلوان کی طرف نظر کرنے پر اس نے اس رات والی بلا کو بیٹھے دیکھا۔ رات کو وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا تھا۔ اب جو دن کی روشنی میں اس نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو اُسے خوف و دہشت کی ایک سرد لہر اپنے رگ وپے میں سرایت کرتے محسوس ہوئی۔ وہ کوئی جہنمی بلا دکھائی دیتی تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک پہاڑوں کے رنگ کی طرح بھوری تھی۔ اس کے جسم پر گردن سے لے کر پاؤں تک ہر جگہ بڑے بڑے کانٹے اُگے ہوئے تھے۔ اس کے جسم کی سب سے خوف ناک چیز اس کا چہرہ تھا۔ جو کسی بڑے ہاتھی کے منھ کی طرح بڑا تھا اور بھورے رنگ کا تھا۔ اس پر بھورے ہی رنگ کے بڑے بڑے بال اُگے ہوئے تھے۔ اس کے سر پر بھی ہلکے ہلکے کانٹے اگے دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے کان کسی بھیڑیے کی طرح سے تھے۔ اس کی آنکھیں ایسی بھورے رنگ کی تھیں گویا مٹی کی بنائی گئی ہوں۔ وہ بہت بڑی بڑی اور خوف ناک قسم کی گول گول آنکھیں تھیں۔ ناک کی جگہ اس کے منھ پر دو بڑے بڑے سوراخ تھے۔ اس کا منھ بہت چوڑا اور خوف ناک تھا۔ اس میں سے ہاتھی کے دانتوں کی طرح دو مڑے ہوئے دانت باہر نکلے ہوئے تھے۔ سامنے کے دانت بھی بہت تیز نوکیلے اور خوف ناک تھے۔ وہ بلا اس وقت اپنے سامنے ایک آدمی اور ایک بکری کی لاش رکھے انھیں چیرنے پھاڑنے اور انھیں نوچ نوچ کر کھانے میں مصروف تھی۔ اس بد نصیب آدمی اور اس جانور کو شاید وہ انہی خانہ بدوشوں کے ڈیرے سے پکڑ لائی تھی۔ ہوشنگ نے دیکھا کہ اس جگہ بے شمار جانوروں اور انسانوں کی کھوپڑیاں، ہڈیاں اور پنجر پڑے تھے۔ وہ بلا جانے کب سے اس جگہ کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھی اور اب تک جانے کتنے انسانوں اور جانوروں کو ہلاک کر چکی تھی۔
ہوشنگ کو اس کے پیچھے پہاڑ میں ایک غار بھی دکھائی دے گیا۔ جو شاید اس بلا کا مسکن تھا۔ ہوشنگ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس بلا نے دونوں لاشیں چٹ کرلیں۔ پھر اس نے کھڑے ہو کر بھاڑ سامنھ کھولا۔ اس کے خوف ناک دانت دیکھ کر ہوشنگ کو جھر جھری آگئی۔ دوسرے ہی لمحے اس بلا کے منھ سے ایسی بلند اور خوف ناک ہنسی کی آواز بلند ہوئی کہ ہوشنگ سرسے پیر تک بری طرح سے لرز گیا۔ حالاں کہ ایسی آواز دہ رات کو بھی اس بلا کے منھ سے نکلتی سُن چکا تھا، لیکن اس بار اس کی یہ چنگھاڑ کچھ زیادہ ہی بلند اور خوف ناک تھی۔ اس نے ہنسی نما چنگھاڑ بلند کی اور غار میں داخل ہوگئی اور اندر جاکر غائب ہوگئی۔
جب کافی دیر گزرگئی تو ہوشنگ واپس مڑا اور اس چٹان کی طرف آگیا جس کے نیچے اس نے اپنی گٹھڑی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے گٹھڑی کھول کر اس میں سے اپنا تیز دھار کا بڑا سا چاقو باہر نکالا اور غار کی سمت ہولیا۔ پھر چاقو ہاتھ میں لیے آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ غار کے اندر بدستور خاموشی تھی۔ جانے وہ بلا اندر جاکر کہاں غائب ہو گئی تھی۔ ڈھلوان اُترنے کے بعد ہوشنگ جانوروں اور انسانوں کی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے ڈھیروں سے بچتا بچاتا پھونک پھونک کر قدم رکھتا غار کی سمت چل پڑا۔ اس کے دہانے کے قریب پہنچ کر وہ کچھ ٹھٹکا۔ پھر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہوگیا۔ اندر دھوپ کی وجہ سے خاصی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ غار کے فرش پر وہ خوف ناک بلا لیٹی سورہی تھی۔ ہوشنگ محتاط قدموں سے چلتا ہوا اس کے سرہانے جا پہنچا۔ اُس نے چاقو کے دستے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اُسے سر سے بلند کرتے ہوئے پوری قوت سے اس کے پھل کو اس بلا کی دونوں آنکھوں کے درمیان اُتار دیا۔ ہڈی ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ چاقو دستے تک اس بلا کے سر میں گھس گیا۔ وہ ایک زبر دست چنگھاڑ کے ساتھ نیند سے بیدار ہوگئی اور پاگلوں کی طرح چیختی چلاتی غار سے باہر بھاگ اٹھی۔ اس کے سرسے خون کا فوارہ بہ رہا تھا۔ اس کی اچھل پھاند اور بھاگ دوڑ سے اس مختصر سے پہاڑی علاقے میں گویا قیامت برپا ہوگئی تھی۔ پتھر اور چٹانیں اپنی جگہ سے لڑھک رہے تھے۔ انسانی اور حیوانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں ادھر ادھر اڑ رہی تھیں۔ اس بلا کی چیخوں نے الگ ایک شور برپا کر رکھا تھا۔
ہوشنگ ایک بڑی سی چٹان کے پیچھے جو غار کے دہانے پر تھی، چھپا ہوا اس بلا کی دیوانگی دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بلا اپنے خون میں نہائی ہوئی زمین پر گر گئی۔ اس کے جسم سے ڈھیروں خون بہ چکا تھا اور اب وہ اپنی آخری سانسوں پر تھی۔ اس نے چند چیخیں ماریں جو بلند قہقہوں کی آواز سے مشاہدہ تھیں۔ اس کے بعد اس کا جسم تڑپ تڑپ کر ساکت ہو گیا۔
ہوشنگ اپنی جگہ سے باہر نکلا۔ اس نے اس بلا کے مردہ جسم کے قریب جاکر اس کی کھوپڑی میں گھسا ہوا اپنا چاقو باہر نکال لیا اور اُسے صاف کر کے بند کر دیا۔ پھر وہ ڈھلوان چڑھ کر اوپر آگیا۔ وہ کچھ دیر اوپر کھڑا نیچے پڑی مردہ بلا کو دیکھتا رہا پھر آگے چل پڑا۔ اس نے اس چٹان کے سائے میں پڑی ہوئی اپنی گٹھڑی کھول کر چا قو اس میں رکھا اور گٹھڑی کندھے پر رکھ کر تیزی سے ان چٹانوں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے نیچے اُتر آیا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک سمت ہو لیا۔
وہ پراسرار ہنسنے والا پہاڑ در حقیقت بھورے رنگ کی کانٹوں بھرے جسم والی خوف ناک بلا تھی جس کے چیخنے دھاڑنے کی آواز کسی بلند قہقہے سے مشابہہ تھی۔ اُسے کسی نے بھی نہ دیکھا تھا۔ کیوں کہ وہ صرف رات کے وقت ہی ان پہاڑیوں سے شکار کے لیے باہر نکلتی تھی۔ اس لیے جب کبھی لوگ اسے ان پہاڑیوں میں چنگھاڑتے سنتے تھے تو یہی سمجھتے تھے کہ وہ قہقہے لگانے کی آواز اس بلند پہاڑ سے آرہی ۔ اسی لیے سب اس طرف جاتے ڈرتے تھے اور اس کے نزدیک آبادیاں قائم کرنے سے گھبراتے تھے۔ یوں سب کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوئے وہ بلا ایک مدت سے زندہ چلی آرہی تھی۔ کسی نے کبھی ان پہاڑیوں کی طرف جانے اور ہنسی کی آوازوں کا کھوج لگانے کی کوشش نہ کی تھی۔ اب وہ بلا ہلاک ہو چکی تھی۔ ہوشنگ نے سوچا کہ اب جب کافی عرصے تک لوگ اس پہاڑ کو ہنستے نہ سنیں گے تو شاید وہ بے خوف و خطر اس جگہ آنے لگیں گے۔ وہ جلد ہی وہاں اس بلا کے مردہ جسم کو دیکھ لیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ ہنسنے والے پہاڑ کی اصل حقیقت کیا تھی۔

پراسرار جزیرہ
ہوشنگ کئی دن کئی راتیں مسلسل سفر کرتا رہا۔ اس کے راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں اور شہر آئے۔ وہ ان میں چند دن رکتا، آرام کرتا۔ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک چھوٹے سے ساحلی شہر میں جا پہنچا۔ اس شہر کے لوگوں کی اکثریت تجارت پیشہ تھی۔ یہ لوگ سمندری جہازوں کے ذریعے اپنا مالِ تجارت دور دور کے ملکوں میں پہنچاتے تھے اور اس کے بدلے وہاں سے مال منگوایا کرتے تھے۔ ہوشنگ نے اس شہر کی سیر کرتے ہوئے یہ بات خاص طور پر دیکھی کہ اس شہر کا ہر باشندہ خوش حال اور فارغ البال تھا۔ اس کی منڈیوں اور دکانوں میں ہر قسم کے مال کی فراوانی تھی۔ لوگ بھی بڑے عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
ایک دن وہ گھومتا ہوا بندرگاہ کی طرف جانکلا۔ وہاں اس نے ہر قسم کے چھوٹے بڑے تجارتی، مال بردار اور مسافر بردار جہازوں کی آمد ورفت کا نظارہ کیا۔ بندرگاہ میں خوب رونق اور گہما گہمی تھی، ملاحوں ،مسافروں،تاجروں، ملازموں، غلاموں نے وہاں خوب چہل پہل پیدا کر رکھی تھی۔ بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی تھیں۔ مال تجارت کے ڈھیر کے ڈھیر لگے تھے۔ اکثر جہازوں پر مالِ تجارت لادا جارہا تھا اور اکثر سے اُتارا جا رہا تھا۔ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی جا بجا دکھائی دے رہی تھیں۔ اکثر مقامات پر سمندر سے پکڑی گئی ہر قسم کی مچھلیوں کے ڈھیر لگے تھے۔
ہوشنگ نے اپنی زندگی میں کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا تھا۔ اس کے دل میں ہمیشہ یہ تمنا کر وٹیںلیتی رہتی تھی کہ وہ کبھی بحری جہاز میں سوار ہوکر سمندر کا سفر کرے۔ وسیع و عریض نیلے سمندر کا نظارہ کرے۔ نت نئے ملکوں کی سیر کرے اور نئی دل چسپیوں کی چیزوں اور عجائبات کو دیکھے۔ وہ پُر شوق نظروں سے ان بڑے بڑے شان دار جہازوں کو دیکھتا ہوا بندرگاہ کی سیر کرتا رہا۔ پھر ایک جگہ اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑے مسافر بردار جہاز پر بہت سے مرد، عورتیں اور بچے سوار ہو رہے تھے۔ شاید وہ لوگ کہیں سمندر پار کے ملکوں کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔ اس جہاز کا ناخدا (کپتان) ایک طرف کھڑا کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا تھا۔ پھر جب وہ لوگ اس سے رخصت ہو گئے تو ہوشنگ کچھ ہچکچاتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس سے دریافت کیا کہ اس کا جہاز کن ملکوں کے سفر کے پر جارہا تھا۔
’’ساحل نیل، قرطاجنہ،سروانیہ اور گال کے علاقوں کے سفر پر ۔‘‘کپتان نے جواب دیا۔’’ کیا تم بھی کہیں جانا چاہتے ہو ؟‘‘
’’ہاں۔ تم مجھے ساحل نیل تک اپنے جہاز پر لے چلو۔ میں اس علاقے کی سیاحت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہوشنگ نے کہا۔
’’ ٹھیک ہے۔ بہت سے مسافر وہاں اُتر رہے ہیں۔ تم بھی ان کے ساتھ ہی وہاں اُتر جانا ۔‘‘
ہوشنگ نے اُسے کرایے کی رقم ادا کی اور دوسرے مسافروں کے ساتھ جہاز میں سوار ہو گیا۔ جب سب مسافر جہاز میں سوار ہوگئے تو ملاحوں نے جہاز کے لنگر اُٹھا دیے اور بادبان چڑھا دیے۔ اس کے بعد وہ جہاز آہستہ آہستہ بندرگاہ سے دور ہٹنے لگا۔ کھلے سمندر میں پہنچ کر جہاز کے بادبانوں میں ہوا بھر گئی اور وہ تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ ہوشنگ عرشے پر کھڑا بڑی دل چسپی سے ملاحوں کو کام کرتے دیکھ رہا تھا ۔ سمندر کا نظارہ بھی اسے بڑا دل کش معلوم ہو رہا تھا۔ اس جہاز میں طرح طرح کے مسافر سوار تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندری سفر کے عادی تھے اور بہت سے ہوشنگ کی طرح پہلی بار سمندری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔
ہوشنگ کو اس جہاز میں سفر کرتے کئی دن گزر گئے۔ سمندر بالکل پر سکون تھا۔ ہوائیں بھی موافق تھیں۔ اس لیے ان کا سفر بڑے اطمینان سے طے ہو رہا تھا۔مسافروں کو اُمید تھی کہ وہ ایک دو دن تک ساحل نیل پہنچ جائیں گے لیکن ہوا یہ کہ ایک صبح جہاز کے مسافر سو کر اُٹھے تو انھوں نے سمندر میں طوفان برپا دیکھا۔ سمندر میں اونچی اونچی موجیں اٹھ رہی تھیں اور تیز و تند ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جلد ہی وہ برسنا شروع ہو گئے۔ موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اس شدید سمندری طوفان میں جہاز بُری طرح سے ہچکولے کھانے اور ڈولنے لگا۔ ملاح طوفان سے لڑتے بھڑتے جہاز کو کھینے کی ناکام کوششیں کر رہے تھے لیکن طوفان کا زور ایسا شدید تھا اور ہواؤں میں ایسی تیزی اور تن دہی تھی کہ ان کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ جلد ہی جہاز کے بادبان پھٹ گئے اور جہاز کسی تنکے کی طرح لہروں کے رحم وکرم پر ابھرنے ڈوبنے لگا۔ پھر دور سے آنے والی ایک چیختی چلاتی دیو پیکر لہر اس زور سے جہاز سے ٹکرائی کہ وہ اکثر مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جہاز میں تیزی سے پانی بھرنا شروع ہوگیا۔ اسی وقت پے در پے کئی بلند و بالا لہروں نے جہاز پر بڑے غضب ناک انداز میں حملہ آور ہو کر اُسے بالکل توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ جہاز کے تمام مسافر سمندر میں جا پڑے۔جو مسافر تیرنا جانتے تھے، انھوں نے ہاتھ پیر چلاتے ہوئے جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختوں کو پکڑلیا۔ جو تیرنا نہیں جانتے تھے انھیں سمندر کی لہریں نگل گئیں۔
ہوشنگ نے سمندر میں گرتے ہی اپنے قریب ہی بہنے والے ایک تختے کو پکڑ لیا تھا۔ سمندری لہریں اسے آنا فاناً کہیں سے کہیں نکال لے گئیں۔ وہ کوشش کر کے اس تختے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور اُسے مضبوطی سے پکڑ لیا اس کی گٹھڑی اس کے کندھے سے بندھی ہوئی تھی۔ اسے ادھر اُدھر سے جہاز کے مسافروں کی چیخ پکار سنائی دے رہی تھی۔ پھر جلد ہی تیز اور دیو پیکر لہریں ہوشنگ کے تختے کو ایک نامعلوم سمت بہا لے گئیں۔
طوفان تمام دن تمام رات جاری رہا۔ اگلی صبح جب سورج طلوع ہوا تو سمندر کافی حد تک پرسکون ہو چکا تھا۔ ہواؤں کی شدت میں بھی کمی آگئی تھی۔ ہوشنگ کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ وہ سمندر میں کس جگہ نکل آیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سمندری لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا ۔ جو کسی نامعلوم سمت بہائے لیے جارہی تھیں۔ اس نے سمندر میں جانے کتنے میلوں کا سفر کر لیا تھا۔ اُسے دُور دُور تک کہیں بھی زمین نہ دکھائی دی تھی اور نہ ہی کوئی بحری جہاز یا کشتی نظر آئی تھی۔ اس کی طرح تختوں کے سہارے بچ نکلنے والے جہاز کے مسافر بھی جانے کہاں نکل گئے تھے۔ اب وہ وسیع و عریض نیلے سمندر میں بالکل اکیلا تختے پر بیٹھا سمندری لہروں کے رحم و کرم پر کسی نامعلوم سمت کی طرف چلا جارہا تھا۔ اس کے پاس اپنی گٹھڑی میں کئی دنوں کے لیے خشک خوراک موجود تھی، جو سمندر میں گرنے کے سبب کافی حد تک بھیگ گئی تھی۔ پانی کی ایک چھوٹی چھا گل بھی اس کے پاس موجود تھی۔ اس لیے اس طویل سمندری سفر میں بھوک پیاس نے اسے اتنا تنگ نہ کیا۔ وہ کھانے پینے میں بہت کفایت شعاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی چھوٹی سی مچھلی سمندر سے اچھل کر اس کے تختے پر آپڑتی تھی۔ وہ اسے فوراً پکڑ لیتا تھا اور کچا ہی کھا جاتا تھا۔
اُسے جب اسی طرح سمندر میں سفر کرتے کرتے کئی ہفتے گزر گئے تو ایک دن اُسے دور سے ہرے بھرے جزیرے کی جھلک دکھائی دی۔ وہ ایک دم خوش ہو گیا اور بڑے اشتیاق سے اس جزیرے کو لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کا تختہ اس کے ساحل سے جاٹکرایا اور وہ چھلانگ لگا کر خشکی پر اُتر گیا۔ اس نے تختے کو بھی خشکی پر کھینچ لیا اور درختوں کے ایک جھنڈ میں لاکر ڈال دیا۔
وہ جزیرہ بڑا سرسبز و شاداب تھا۔ ہوشنگ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جزیرے کو گھوم پھر کر دیکھنے لگا۔ اس جزیرے میں ہر طرف خوب سرسبز گھنی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اس کے ساحل پر ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ پھیلے ہوئے تھے۔ دوسرے پھل دار درختوں کی بھی بہتات تھی۔ ہوشنگ خوش خوش جزیرے کی سیر کرتا رہا اور اس کے اس حصے کی طرف جا نکلا جہاں ایک مختصر سا پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ وہ پہاڑیاں بھی خوب ہری تھیں۔ ان پر جنگلی پھولوں اور پھلوں کے پیڑ بہ کثرت اُگے ہوئے تھے۔ ہوشنگ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف کیا تھا۔ ایک پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ اس نے اس کی چوٹی پر پہنچ کر دوسری طرف دیکھا تو اسے اپنے سامنے نیلا سمندر تاحد نگاہ موجیں مارتا دکھائی دیا۔ وہ پہاڑی سلسلہ سمندر کے کنارے کچھ دور تک پھیلتا چلا گیا تھا۔ کچھ چٹا نیں سمندر میں ڈوبی دکھائی دے رہی تھیں۔ چوں کہ اب شام ہونے کو آرہی تھی۔ اس لیے ہوشنگ نے اس طرف اتر کر اس جگہ کا جائزہ لینے کا ارادہ ترک کر دیا اور پہاڑی سے واپس نیچے اُتر آیا۔ اس نے درختوں سے کچھ پھل وغیرہ توڑ کر کھائے۔ زمین پر گرے ہوئے ناریوں کا صحت بخش میٹھا پانی پیا۔ پھر ساحل سے کچھ فاصلے پر گھنے پودوں کے درمیان ایک محفوظ جگہ پر لیٹ کر سو رہا۔
اگلی صبح اس نے ناریل کے پانی اور تازہ پھلوں کا ناشتہ کرنے کے بعد دوبارہ ان پہاڑیوں کا رخ کیا۔ اس وقت خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ اور دور دور کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ہوشنگ اپنی گٹھڑی کندھے پر لادے ان پہاڑیوں پر چڑھتا اُترتا بالآخر اس مختصر سے پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف اتر گیا۔ وہاں اُترتے وقت اس نے نہ جانے کیوں کچھ عجیب سا خوف محسوس کیا۔ اس نے دیکھا کہ اس طرف سے پہاڑیاں کچھ عجیب طرح سے کٹی پھٹی تھیں۔ شاید سمندر میں طوفان آتے وقت اس کی تیز اور بپھری ہوئی لہریں ان پہاڑیوں سے ٹکراتی ہوں گی اور ان کے یوں ٹکراتے رہنے سے ان پہاڑیوں میں عجیب سے کٹاؤ پیدا ہو گئے ہوں گے۔ اس وقت سمندر پرسکون تھا۔ اس لیے اس پہاڑی سلسلے سے کافی آگے تک خشک زمین دکھائی دے رہی تھی۔
ہوشنگ اس علاقے کا جائزہ لیتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ہی اپنے عقب میں کوئی آہٹ سی سُن کر وہ تیزی سے اپنی جگہ سے گھوم گیا لیکن اس کے پیچھے کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے احتیاطاً اس جگہ کو اچھی طرح سے دیکھا بھالا۔ پھر اس آہٹ کو اپنا وہم سمجھتا ہوا آگے بڑھ گیا لیکن وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو چکا تھا۔ وہ غیر آباد جزیرہ اسے عجیب آسیبی جگہ معلوم ہونے لگا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس جزیرے سے بھاگ جائے۔ خوف دم بہ دم اسے اپنی گرفت میں لے رہا تھا۔ پھر ایک دم ہی اس نے اپنے پیچھے کچھ کھڑکھڑاہٹ جیسی آواز سنی۔ اس کے ساتھ ہی اسے قریبی چٹان پر کوئی سایہ سا دکھائی دیا۔ وہ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ اس کے اس بر وقت اقدام نے اُسے بچالیا۔ کیوں کہ جس کا وہ سایہ تھا۔ وہ عین اس جگہ آکر پڑا تھا۔ جہاں وہ پہلے کھڑا تھا۔ ہوشنگ نے جب اُسے دیکھا تو شدید خوف و دہشت کی ایک سرد سی لہر اس کے رگ وپے میں سرایت کر گئی۔ اس کے سامنے ایک انسانی ڈھانچہ کھڑا تھا۔ وہ خوف سے کپکپاتا ہوا پیچھے ہٹنے لگا۔ اسی وقت اس ڈھانچے نے کڑک دار آواز میں اُسے مخاطب کیا۔
’’ بدبخت لڑکے!تو کون ہے؟ اور یہاں کس لیے آیا ہے؟ تجھے نہیں معلوم کہ یہ میرا جزیرہ ہے ۔یہاں قدم رکھنے والا زندہ نہیں رہتا ؟‘‘
’’ خبیث ڈھانچے۔ میں یہاں تیری موت بن کر آیا ہوں۔ پھر دیکھتا ہوں یہ جزیرہ کیسے تیری ملکیت بنارہ سکتا ہے ۔‘‘ہوشنگ تاؤ کھا کر بولا۔ اس کا تمام ڈر اور خوف آناً فاناً غائب ہو چکا تھا اور اس کے اندر کا بہادر اور خطرات سے کھیلنے والا لڑکا پوری طرح سے بیدار ہو چکا تھا۔ اس کی بات نے اس ڈھانچے کو آگ بگولا بنا دیا۔
’’تیری یہ مجال! یہ جرات! تجھے نہیں معلوم کہ میں کون ہو؟ میں اتھلان ہوں ۔سا تویںصدی کا مشہور بحری قذاق۔ جس سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا۔ میں اپنی موت کے بعد بھی زندہ چلا آرہا ہوں اور اس جزیرے میں رہتے ہوئے اپنے اس خزانے کی حفاظت کر رہا ہوں جو میں نے ان پہاڑیوں میں چھپا رکھا ہے۔ یہ جزیرہ میرا ہے۔ اس پر کوئی قدم نہیں رکھ سکتا جس کسی نے یہاں قدم رکھا وہ میرے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گیا۔ اب تیری باری ہے ۔‘‘یہ کہ کر ڈھانچہ اپنے استخوانی پنجے آگے کیے ہوشنگ کی طرف بڑھنے لگا۔
ہوشنگ نے تیزی سے زمین پر پڑا ہوا ایک بھاری پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے ڈھانچے کو دے مارا۔ ڈھانچہ پتھر کھا کر کھڑ بڑا ہٹ کی ایک زوردار آواز کے ساتھ زمین پر جاگرا۔ اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی ہڈیاں دوبارہ اپنی جگہوں پر جڑ گئیں اور وہ زمین سے اُٹھ گیا۔ اس نے ایک خوف ناک قہقہہ لگایا اور بولا:
’’کچھ بھی کر کے دیکھ لے احمق لڑکے! میں نہیں مروں گا۔ تجھ سے پہلے بے شمار لوگ مجھے مارنے کی کوشش میں خود ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تیرا بھی یہی حشر ہوگا۔ مجھے ہلاک کرنے کی کوشش میں تو خود میرے ہاتھوں ہلاک ہو جائے گا؟‘‘
اتنی دیر میں ہوشنگ وہاں اُگے ہوئے ایک چھوٹے سے درخت کو جڑ سے اکھاڑ چکا تھا۔ ڈھانچے کے آگے بڑھنے پر اس نے درخت کو پوری قوت سے گھما کر ڈھانچے کی کھوپڑی پر رسید کیا۔ اس کی کھوپڑی چٹخنے کی ایک زور دار آواز کے ساتھ اس کی گردن کی ہڈی سے ٹوٹ کر دور جاگری۔ ہوشنگ کا خیال تھا کہ اب ضرور اس ڈھانچے کی موت واقع ہو جائے گی، لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ کھوپڑی زمین پر گرتے ہی فورا ًہی اُڑ کر ڈھانچے کی گردن پر آکر جم گئی۔ ڈھانچے نے پھر ایک خوف ناک قہقہہ لگایا اور کھر کھراتی سی آواز میں بولا:
’’ احمق لڑکے! میں نے کہا ناکہ تو خواہ کچھ بھی کرلے تو مجھے ہرگز ہلاک نہ کر سکے گا۔ میں صدیوں سے زندہ چلا آرہا ہوں۔ مجھے موت آہی نہیں سکتی!یہ لے! میں تجھے ہلاک کرتا ہوں۔ اس بار بھی جو کرنا ہے کرلے؟ ‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے خوف ناک استخوانی پنجے آگے بڑھائے ہوشنگ کی طرف بڑھنے لگا۔ ہوشنگ اب کچھ گھبرانے لگا تھا۔ اس نے جلدی میں ایک بار پھر وہ درخت پوری قوت سے گھما کر ڈھانچے کی کھوپڑی پر رسید کیا۔ اس بار اس کی ضرب زیادہ شدید تھی۔ ڈھانچے کی کھوپڑی اس کی گردن سے اڑ کر دور سمندر میں جاگری، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ بڑی تیزی سے تیرتی ہوئی ساحل کی طرف آنے لگی۔ ہوشنگ کی گھبراہٹ لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔ اسے اب اپنی موت اپنے سامنے دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ سوچنے لگا تھا کہ اس جناتی ڈھانچے کے ہاتھوں وہ ضرور موت کا شکار ہو جائے گا۔ اُسے ہلاک کرنے کی اُسے کوئی صورت نہ دکھائی دے رہی تھی۔ ادھر ساحل تک پہنچتے ہی وہ کھوپڑی اُڑ کر ڈھانچے کی گردن پر جم گئی۔ اس نے پھر ایک خوف ناک قہقہہ لگایا اور بولا:
’’اب تو تجھے یقین آگیا نا احمق لڑکے کہ مجھے ہلاک کرنا ناممکن ہے۔ لے اب اپنی موت کے لیے تیار ہو جا۔‘‘ یہ کہہ کر ڈھانچہ اپنے پنجے آگے کیے آگے بڑھنے لگا۔
ہوشنگ خوف زدگی اور گھبرا ہٹ کے عالم میں پیچھے ہٹنے لگا۔ ڈھانچے نے اس کی گردن کی طرف اپنے خوف ناک پنجے بڑھا دیے۔ ہوشنگ بھاگ کر دوسری طرف چلا گیا۔ اسے ایک نئی تدبیر سو جھی۔ اس نے تیزی سے اپنی گٹھڑی کھول کر دو چقماق باہر نکالے اور ایک لکڑی کے سرے پر چربی مل کر اُسے چقماق رگڑتے ہوئے جلانے کی کوشش کرنے لگا۔ ڈھانچہ ہوشنگ کو بے خبر پاکر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پھر جب اس نے ہوشنگ کے عقب میں پہنچ کر اس کی گردن کی طرف اپنے مڑے ہوئے خوف ناک استخوانی پنجے بڑھائے تو اسی وقت ہوشنگ چقماق رگڑ رگڑ کر لکڑی کو آگ لگانے میں کام یاب ہو گیا۔ چربی لگی ہوئی لکڑی تیزی سے جلنے لگی۔ لکڑی کو ہاتھ میں لیے تیزی سے اپنی جگہ سے مڑا۔ ڈھانچے سے ایک خوف ناک چیخ نکلی۔
’’ اُف آگ! ‘‘وہ خوف زدہ آواز میں چلایا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
ہوشنگ جلتی ہوئی لکڑی لیے اس کے پیچھے لپکا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس منحوس ڈھانچے کی موت صرف آگ میں جل کر ہی واقع ہو سکتی ہے۔ اب وہ ہر قیمت پر اُسے جلا کر ہلاک کر دینا چاہتا تھا۔ وہ منحوس ڈھانچہ چیختا چلاتا، ہڈیاں کھڑ کھڑاتا تیزی سے اس کے آگے آگے دوڑ رہا تھا۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہوشنگ کے لیے اس تک پہنچنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔ اس نے یہ کیا کہ ڈھانچے کا تعاقب کرتے کرتے جلتی ہوئی لکڑی اس پر اچھال دی۔ جوں ہی وہ جلتی ہوئی لکڑی ڈھانچے پر گری۔ اس کے منھ سے ایک خوف ناک چیخ نکلی۔ دوسرے ہی لمحے وہ کسی پرانے کاغذ کی طرح دھڑا دھڑ جلنے لگا۔ اس کی چیخ و پکار نے فضا میں ایک حشر سا برپا کر دیا۔
’’ہائے میں جلا! ہائے میں مرا۔ او بد بخت لڑکے! تجھے موت آئے۔ تو نے مجھے مار ڈالا۔ ہائے۔ ہائے میرا خزانہ۔ ہائے میں مر گیا۔ ہائے ہائے۔ ‘‘
ہوشنگ خاموشی سے ایک جگہ کھڑا اسے یوں چیخ پکار کرتے اور جلتے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی چیخ پکار دم توڑ گئی اور وہ جل کر راکھ ہوگیا۔ ہوشنگ نے اس کے پاس جاکر ایک چھڑی سے اس راکھ کو کرید کر دیکھا۔ اس میں سے عجیب کراہیت انگیز بدبو آرہی تھی۔ اس نے ایک لکڑی کے ٹکڑے کی مدد سے اس راکھ کو ایک بڑے سے پتے پر جمع کیا اور اُسے سمندر میں پھینک دیا۔
’’ہمیشہ قائم رہنے والی ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ منحوس ڈھانچہ تو کوئی شیطانی طاقت ہی تھا۔‘‘ اس نے سوچا۔
اس کے بعد اس نے اس خزانے کی تلاش میں ان پہاڑیوں کو کھوجنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر تک تلاش کرتے رہنے کے بعد اسے ایک پہاڑی میں ایک غار بنا ہوا دکھائی دے گیا۔ وہ اس کے اندر داخل ہو گیا۔ اس کے اندر کچھ دور تک چلتے رہنے کے بعد اُسے اپنے آگے روشنی سی ہوتی دکھائی دی۔ جب وہ محتاط قدموں سے چلتا ہوا وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سامنے ایک بہت بڑا خزانہ زمین پر ڈھیر تھا۔ ہیروں، موتیوں اور جواہرات کی چمک نے غار کے اس حصے میں اجالا ساکر رکھا تھا۔ وہ خزانہ اتنا بڑا تھا کہ اسے بلاشبہ کئی بادشاہوں کا خزانہ کہا جاسکتا تھا۔ اس کے آس پاس کئی انسانی ڈھانچے پڑے تھے۔ جن کی پسلیوں اور کھوپڑیوں میں خنجر پیوست دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہ وہ لوگ تھے جو اس خزانے کو لوٹنے کے چکر میں آپس میں لڑ مرے تھے۔ ان کے پنجر بھی بہت پرانے دکھائی دے رہے تھے۔
ہوشنگ غار میں کھڑا اس خزانے کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا رہا۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ اُسے یہ تمام خزانہ سمندر کے حوالے کر دینا چاہیے۔ یہ عین ممکن تھا کہ کوئی نہ کوئی کشتی یا جہاز بھٹک کر اس جزیرے پر آ نکلتا اور اس کے مسافر یہ خزانہ ڈھونڈ نکالتے۔ پھر ان میں بھی انھی مرے ہوئے لوگوں کی طرح اس خزانے کو لوٹنے کے سلسلے میں مارکٹائی اور قتل وغیرہ ہونے لگتے۔ اب اس منحوس ڈھانچے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل چکا تھا لیکن اس خزانے کی خاطر قتل اور ہلاکتوں کا خطرہ بدستور قائم تھا اور اس خطرے کا سدباب نہایت ضروری تھا۔ وہ غار سے باہر نکل آیا۔ اس نے اپنی گٹھڑی کھول کر اس میں بندھی ہوتی تمام چیزیں نکال کر ایک جگہ رکھ دیں اور گٹھڑی کا بڑا سا مضبوط کپڑا لیے غار میں داخل ہو گیا۔ خزانے کے ڈھیر کے قریب پہنچ کر اس نے وہ کپڑا زمین پر بچھا دیا اور اس میں مٹھیاں بھر بھر کر اشرفیاں، ہیرے اور جواہرات ڈالنے لگا۔ پھر اُس نے اُن کی گٹھڑی بنائی اور اسے کندھے پر لاد کر غار سے باہر نکل آیا اور سمندر میں دور تک ڈوبی ہوئی چٹانوں کی سمت ہو لیا۔ آخری چٹان کے مقام پر سمندر بہت گہرا تھا اور یہاں موجوں کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی کشتی یا جہاز اس طرف نہ آسکتا تھا۔ اس نے کندھے سے گٹھڑی کھول کر اس میں بندھے تمام ہیرے جواہرات اور اشرفیاں سمندر میں گرا دیے اور خالی کپڑا لیے غار کی سمت واپس ہولیا۔ وہ خزانہ اتنا بڑا تھا کہ اُسے وہ تمام کا تمام سمندر برد کرنے کے لیے کئی چکر لگانے پڑے۔ پھر جب وہ اس تمام خزانے کو سمندر کی تہ میں پہنچا چکا تو اس نے اس غار میں پڑے انسانی ڈھانچوں کو بھی باہر لے جاکر سمندر میں پھینک دیا۔ ان کے ساتھ ہی وہ چاقو اور خنجر بھی سمندر میں پھینک دیے۔ جو ان کی کھوپریوں اور ہڈیوں میں گڑے تھے۔
یوں وہ غار بالکل پاک صاف ہو گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر ہوشنگ نے ایک بار پھر ان پہاڑیوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اب وہاں کوئی دہشت زدہ کرنے والی چیز باقی نہ رہی تھی۔ جزیرے کی فضا بھی خوف و دہشت کے اثرات سے پاک ہوچکی تھی۔ وہاں کی آسیب زدگی دور ہو چکی تھی۔ ہوشنگ مطمئن ہو کر اپنی گٹھڑی سنبھالے ان پہاڑیوں پر چڑھ کر ان کے دوسری طرف اسی جگہ پر واپس آگیا۔ جہاں ناریل کے درختوں کے جھنڈ میں اس نے اپنا تختہ رکھا ہوا تھا۔ چوں کہ اس وقت تک شام ڈھل چکی تھی اور رات ہونے کو آرہی تھی۔ اس لیے وہ وہاں اپنی گٹھڑی سرہانے رکھ کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اگلی صبح اس نے اپنی چھوٹی سی چھاگل میں ناریوں کا پانی بھرا۔ کچھ پھل وغیرہ توڑ کر گٹھڑی میں باندھے اور جہاز کے اس تختے کو گھسیٹتا ہوا سمندر کی طرف لے آیا۔ تختہ موجوں کے سہارے آہستہ آہستہ اس جزیرے سے دور ہونے لگا۔ اس پر سوار ہوشنگ اس بات سے بالکل لاعلم تھا کہ اس سمندری سفر کے دوران اس بار اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔

غرق شدہ جہاز
اس جزیرے سے دور ہٹتے ہٹتے ہوشنگ کا تختہ کھلے سمندر میں پہنچ گیا۔ وہاں لہروں کا زور زیادہ تھا اور ہواؤں میں بھی کچھ تیزی تھی۔ اس لیے تختہ تیزی سے ایک طرف بہنے لگا۔ہوشنگ چاہتا تھا کہ وہ کسی ملک میں پہنچ جائے تاکہ دوبارہ خشکی کا سفر اختیار کر سکے اور اسے نت نئے ملک اور شہر دیکھنے کا موقع ملے۔ اس نے سوچا کہ اس کا تختہ یونہی سمندر میں بہتے بہتے ضرور کسی نہ کسی ملک کے ساحل تک پہنچ جائے گا۔
سمندر میں سفر کرتے ہوئے اسے کئی دن گزر گئے۔ اس کی خوش قسمتی رہی کہ اس دوران سمندر بالکل پرسکون رہا اور ہوائیں بھی موافق چلتی رہیں۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اس کا تختہ سمندر میں ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں سمندر کا پانی نیلے رنگ کی بجائے کچھ سیاہ رنگ کا دکھائی دے رہا تھا۔ اس میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے بھنور بنے ہوئے تھے۔ ان بھنوروں میں اکثر اس کا تختہ پھنس جاتا تھا اور تیزی سے چکر کھانے لگتا تھا لیکن فوراً ہی ان سے باہر نکل آتا تھا اور آگے بڑھنے لگتا تھا۔ ہوشنگ کو اس جگہ سمندر کے پانی کی سیاہی اور اس کی سطح کا بھنوروں سے پر ہونا عجیب پر اسرار سا معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی گٹھڑی کو مضبوطی سے اپنے کندھے سے باندھ لیا تھا اور تختے کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیا تھا۔ اس کا خیال تھا اس عجیب سے سمندر میں اُسے ضرور کوئی حادثہ پیش آسکتا تھا۔ اس کا یہ خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ وہ ایک چھوٹے سے بھنور سے نکل کر کچھ آگے ہی گیا تھا کہ اُسے دور سے مہیب گڑگڑاہٹ کی آواز سُنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے دیکھا کہ اس کے آس پاس سے سمندر کا پانی ایک طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ پھر جلد ہی اس کا تختہ بھی اسی سمت کھنچا چلا جانے لگا۔ہوشنگ نے تختہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور آنے والے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوکر بیٹھ گیا۔ گڑ گڑاہٹ کی آواز اب بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی۔ پھر پانی کے ایک زبردست اچھال کے ساتھ اس کا تختہ ایک مہیب گرداب میں جاگرا اور بُری طرح سے چکر کھانے لگا۔ وہ گڑ گڑاہٹ کی آواز اسی گرداب سے بلند ہو رہی تھی۔ تختے کے چکر کھانے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہوشنگ کو اپنا سر چکراتا اور آنکھوں تلے اندھیرا چھاتا محسوس ہونے لگا۔ اس کا تختہ تھوڑی دیر ایک بے جان تنکے کی طرح اس عظیم گرداب میں چکراتا رہا۔ پھر ایک دم ہی اس گرداب کے مرکز میں پہنچ کر نیچے ہی نیچے سمندر کی تہ کی طرف جانے لگا۔ ہوشنگ نے اس موقع پر بھی اپنے ہوش و حواس بحال رکھے اور مضبوطی سے تختے سے چمٹا رہا۔ اس کا تختہ بہت تیزی سے چکراتا ہوا نیچے جارہا تھا۔ پھر اچانک اس کا چکرانا بند ہوگیا۔ اور ہوشنگ کے چاروں طرف سمندر میں روشنی ہی روشنی پھیل گئی۔ اس روشنی میں ہوشنگ کو سمندر میں مچھلیاں، کچھوے، جھینگے، ہشت پاوغیرہ صاف اور واضح طور پر تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔اسے حیرت تھی کہ اتنی دیر تک پانی میں رہنے کے باوجود نہ تو اس کے کپڑے بھیگے تھے اور نہ ہی اُسے سانس لینے میں کوئی تکلیف پیش آرہی تھی۔ شاید سمندر کے اس حصے میں کوئی الف لیلوی دنیا آباد تھی جو انسانی دنیا سے مطابقت رکھتی تھی جس میں وہ اس گرداب کے راستے داخل ہو گیا تھا۔
اس کا تختہ آہستہ آہستہ سمندر کے اندر نیچے ہی نیچے جا رہا تھا۔ جیسے کوئی نادیدہ قوت اسے کھینچ رہی ہو۔ پھر جلد ہی ہوشنگ کو اپنے نیچے سمندر کی تہ میں ایک بہت بڑا اور بہت پرانا جہاز گرا دکھائی دینے لگا۔ وہ جہاز اس طرح گراہوا تھا کہ اس کا ایک پہلو سمندر کی ریتلی تہ میں دھنسا ہوا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنا پرانا ہونے کے باوجود اس کے بادبان اور مستول بالکل صحیح حالت میں تھے۔ عرشے کا جنگلا بھی صحیح و سالم تھا۔ اس پر کسی ملک کا رنگ برنگا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ صرف جہاز کے ڈھانچے پر لگے ہوئے زنگ سے اس کے پرانے ہونے کا پتہ چلتا تھا۔ ہوشنگ کا تختہ اس جہاز ہی کی طرف جارہا تھا۔ نیچے آتے آتے وہ اس کے عرشے پر آکر رک گیا۔ ہوشنگ اس پر سے اُتر گیا اور محتاط قدموں سے چلتا ہوا عرشے کا جائزہ لینے لگا۔ عرشے کا فرش جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا اور اکھڑا ہوا تھا۔ اکثر کمروں کے دروازے غائب تھے، چھتیں اڑی ہوئی تھیں، لیکن کچھ کمرے ابھی بھی صحیح حالت میں تھے۔ ان کے دروازے، چھتیں بھی صحیح سلامت تھیں۔ ایک جگہ تو ہوشنگ کو جہاز کے ایک دور کے حصے میں واقع کمروں سے ملانے والی سیڑھی بھی صحیح سلامت دکھائی دی۔ اسے اس بات پر بہت حیرت ہوئی۔ اس نے سوچا اُسے چل کر دیکھنا چاہیے کہ ان کمروں میں کیا ہے اور وہ کیوں کر اتنا عرصہ پانی میں ڈوبے رہنے کے باوجود صحیح و سلامت تھے۔
چناں چہ وہ ان کمروں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ کمرے تعداد میں تین تھے۔ ان کے دروازے بند تھے۔ ہوشنگ نے ایک دروازے کو احتیاط سے دھکا دیا۔ وہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھل گیا۔ وہ اندر داخل ہوگیا۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ اس کی دیواروں میں چاروں طرف الماریاں بنی تھیں۔ ہوشنگ نے انھیں باری باری کھول کر دیکھا تو اُسے ان میں قدیم زمانے کا اسلحہ، ہتھیار اور عجیب سے لباس رکھے دکھائی دیے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی جنگی جہاز تھا جو کسی بحری معرکے میں ڈوب گیا تھا۔ یہ لباس اور اسلحہ وغیرہ اس پر سوار سپاہیوں کے تھے۔ وہ اس کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے بے شمار تلواریں، نیزے، تیر کمان اور ڈھالیں وغیرہ فرش پر ڈھیر کی صورت میں پڑے دیکھے۔ وہ سب چیزیں جانے کب سے اسی طرح پڑی زنگ آلود ہو رہی تھیں۔ ہوشنگ کچھ دیر اسلحہ کے اس ڈھیر کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ وہاں سے نکل کر تیسرے کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس کمرے میں بے شمار لوہے کی زنجیریں اور بڑے بڑے رسے پڑے تھے۔ وہ ان پر ایک نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ پھر وہ ان سیڑھیوں پر چڑھنے لگا جو جہاز کے اوپر والے کمروں کی طرف جاتی تھیں۔ وہ کمرے ایک گولائی کی صورت کے برآمدے میں بنے ہوئے تھے اور تعداد میں دو تھے۔ ان کے دروازے بند تھے۔ ہوشنگ نے ایک کمرے کے دروازے کو دھکا دیا وہ فوراً ہی کھل گیا اور وہ اندر داخل ہو گیا۔
اندر داخل ہوتے ہی اونچے اونچے قہقہوں اور میزوں کے بجانے کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔ اس نے دیکھا کہ کمرے کے درمیان ایک لمبی چوڑی میز بچھی تھی اور اس کے گرد ملاحوں جیسے لباس پہننے لمبی لمبی داڑھیوں اور بڑے بڑے بالوں والے کئی آدمی بیٹھے ایک عجیب سا شطرنج نما کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی وہ لمبے لمبے گلاسوں میں بے تحاشا شراب پی رہے ہیں۔ ہوشنگ انھیں دیکھ کر کچھ خوف زدہ سا ہو گیا۔ جانے وہ کون لوگ تھے اور اس غرق شدہ جہاز میں کب سے موجود تھے۔ انھوں نے نہ کمرے کا دروازہ کھلنے پر اس کی طرف دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے کمرے میں چلے آنے پر کوئی توجہ دی بلکہ وہ بدستور اپنا شطرنج نما کھیل کھیلنے ،قہقہے لگانے اور شرابیں پینے میں مصروف تھے۔ ہوشنگ آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب گیا۔ اس نے جب ان آدمیوں کو دیکھا تو اُسے کچھ خوف سا محسوس ہوا۔ وہ لوگ اُسے بہت پراسرار سے معلوم ہوئے۔ وہ ہر طرح تو ٹھیک ٹھاک تھے لیکن ان کے چہروں پر ان کی آنکھیں کچھ عجیب ہی لگ رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں بجھی بجھی سی بے نور آنکھیں تھیں گویا مردہ انسانوں کی آنکھیں ہوں۔
ہوشنگ کے اتنا قریب آکر کھڑے ہونے پر بھی انھوں نے ایک بار بھی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا اور بدستور اپنے کھیل میں مشغول رہے۔ ہوشنگ کافی دیر تک ان پر اسرار لوگوں کے قریب کھڑا انھیں دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ وہ لوگ وقت سے بالکل بے نیاز تھے۔ ان کے کھیل کی بازیاں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں۔ نہ اُن کے ہنسی قہقہوں میں کوئی کمی آتی تھی۔ ان کے گلاس بھی پراسرار طور پر شراب سے ہر دم لبریز رہتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ اس کمرے سے باہر نکل آیا اور اس کے ساتھ والے کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہاں کچھ لوگ بستروں پر لیٹے سورہے تھے۔ اس نے ہمت کر کے ایک سوئے آدمی کو جگانے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن پھر رک گیا۔ اُسے کچھ خوف سا محسوس ہوا تھا۔ وہ فوراً ہی اس کمرے سے باہر نکل آیا اور سیڑھیوں پر سے اتر کر نیچے آگیا۔
نیچے جو کمرے صحیح و سالم حالت میں موجود تھے۔ ان میں سے اکثر ویران پڑے تھے۔ ان میں صرف ٹوٹا پھوٹا سامان بکھرا دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ کمروں میں بہت پرانی وضع کے لباسوں میں ملبوس لوگ زمین پر ادھر اُدھر پڑے تھے۔ گویا وہ گہری نیند سورہے ہوں۔ ہوشنگ ان کمروں کا جائزہ لینے کے بعد جہاز کے دوسری طرف جا نکلا جہاں جہاز چلانے کا پہیہ اور اس کی بھٹی تھی۔ اس کمرے کی چھت بھی اُڑ چکی تھی۔ پہیہ ٹوٹ کر ایک طرف گرا ہوا تھا۔ باقی چیزیں بھی بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھیں۔ وہاں کوئی انسان نہ دکھائی دیا۔ ہوشنگ وہاں سے نکل کر عرشے پر چلا آیا اور وہاں کھڑا ہوکر اس جگہ کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے دیکھا کہ جہاز کا اگلا حصہ کافی حد تک سمندر کی ریتلی تہ میں دھنسا ہوا تھا اور پچھلا حصہ اوپر اُٹھا ہوا تھا لیکن ترچھاپن اتنا زیادہ نہ تھا۔ ذرا سی کوشش سے جہاز کے اگلے حصے کو سمندر کی تہ سے کھود کر نکالا جاسکتا تھا لیکن اس کے باوجود جہاز کا سیدھا ہونا اور دوبارہ سطح آب پر ابھر آنا ممکن نہ تھا۔ کیوں کہ اس کے پیندے میں جگہ جگہ شگاف پڑے ہوئے تھے۔اس نے سوچا اسے سب سے پہلے ان شگافوں کو بند کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے بعد جہاز کا پہیہ جوڑنے اور دوسری چیزوں کی مرمت کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہو سکتا تھا کہ کسی نہ کسی ترکیب سے جہاز سمندر کی تہ سے نکل کر دوبارہ سطح آب پر آجائے۔
یہ کام بہت مشکل تھا، بلکہ ناممکن ہی دکھائی دیتا تھا لیکن ہوشنگ ایک بہادر اور باہمت لڑکا تھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ اُمید کا دامن تھامے رکھتا تھا۔ چناں چہ وہ فوراً ہی اپنے کام میں لگ گیا۔ اس نے جہاز کے مختلف کمروں میں تلاش کر کے بیلچے اور کدال ڈھونڈ نکالے اور ان کی مدد سے بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ جہاز کے سمندر کی تہ میں دھنسے ہوئے حصے کو کھود کر نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ کئی دن کئی راتیں مسلسل کام کرتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن ایسا آگیا کہ جہاز کا وہ حصہ سمندر کی تہ سے باہر نکل آیا اور جہاز ایک زبر دست چرچراہٹ کے ساتھ سیدھا ہوگیا۔ ہوشنگ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کی محنت بالآخر بار آور ہو ہی گئی تھی۔ اب اس نے جہاز کے پیندے میں پڑے شگافوں کا جائزہ لیا۔ وہ اتنے زیادہ اور بڑے نہ تھے۔ اس نے جہاز میں تلاش کر کے کچھ دھات کی چادریں اور لوہے کے پترے ڈھونڈ نکالے اور بڑی تن دہی کے ساتھ ان شگافوں کو ان پتروں سے بند کرنے کے کام مصروف ہوگیا۔ اُسے اپنے گاؤں پارس گرد میں کچھ عرصے تک وہاں کے ایک لوہار کی شاگردی کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے آہن گری کے کاموں میں خاصا واقف تھا۔ چناں چہ چند ہی دنوں میں اُس نے جہاز کے پیندے کے تمام شگاف بند کر دیے۔ اب جہاز کے سکان اور پہیہ کی مرمت کرنی رہ گئی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام بالکل آسان تھا۔ اس نے چند ہی دنوں میں ان دونوں چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی مرمت کر ڈالی۔ اس کے بعد اس نے بادبانوں کو حرکت دی۔ اس کے ایسا کرتے ہی جہازنے ایک جھرجھری سی لی۔ اور اس پر گویا ایک قیامت سی برپا ہوگئی۔ اس نے حیرت بھری نظروں سے دیکھا کہ اس ٹوٹے پھوٹے شکستہ اور زنگ آلود سے جہاز کی جگہ ایک دم ہی ایک بالکل نئے رنگ روغن سے آراستہ شان دار اور چمکتے دمکتے جہاز نے لے لی۔ اس کے کمروں سے لوگ نکل نکل کر عرشے پر آنے لگے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھیں ہوشنگ اوپر والے کمروں میں قہقہہ لگاتے، شراب پیتے دیکھ چکا تھا۔ وہ بھی تھے جنھیں اس نے مختلف کمروں میں اُلٹی سیدھی حالتوں میں پڑے سوتے دیکھا تھا۔ وہ سب خوشی اور مسرت سے چیختے چلاتے جہاز کے عرشے پر آکر جمع ہورہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک شخص جو دوسروں کے مقابلے میں مختلف رنگ کا شان دار لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنی سرخ داڑھی اور بڑے بڑے سرخ بالوں اور نیلی آنکھوں اور لمبے چوڑے قد کی وجہ سے سب میں ممتاز دکھائی دیتا تھا، ہوشنگ کی طرف بڑھا ۔اس نے اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے اس کے کندھے جکڑ لیے اور بے حد خوف ناک اور بھیانک آواز میں چلایا:
’’بہادر لڑکے! تم نے وہ کام کر دکھایا ہے جو ہم میں سے کوئی بھی نہ کر سکا ۔‘‘
پھر وہ عرشے پر کھڑے آدمیوں کی طرف مڑا اور محکمانہ انداز میں ان سے بولا :’’چلو! سب کے سب اپنے کام میں مصروف ہو جاؤ۔ ہمیں جلد از جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچ جانا چاہیے۔ اس سے قبل کہ کوئی اور بھیانک طوفان ہمیں آن لے۔ چلو! جلدی کرو! زور لگاؤ! شاباش! ‘‘
ملاحوں کی طرف سے بلند نعروں اور شور وغل کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ ایک ساتھ زور لگا کر بادبانوں کو حرکت دینے اور بانسوں کو چڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔ جہاز نے دو تین ہچکولے سے لیے۔ پھر وہ زبر دست گڑگڑاہٹ کی آواز کے ساتھ سمندر کی تہ سے اوپر اُٹھنا شروع ہو گیا۔ سرخ بالوں اور داڑھی والا ناخدا عرشے پر کھڑا انھیں چیخ چیخ کر ہدایات دے رہا تھا۔ پہیہ چلانے والے نے پہیہ سنبھال لیا تھا۔ سکان گیر اپنا کام کر رہا تھا۔ ملاح نعرے لگا رہے تھے۔ شور مچارہے تھے۔ہوشنگ کچھ خوف کچھ حیرت سے یہ سارا نظارہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آیا یہ خواب تھا یا عالم بیداری۔ جہاز تیزی سے سمندر کے پانی کو چیرتا ہوا اوپر جارہا تھا۔ یہاں تک کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ سطح آب پر ابھر آیا۔ یہ وہی سیاہ رنگ کا سمندر تھا۔ جس کے ایک مہیب گرداب نے ہوشنگ کو نگلتے ہوئے اس پر اسرار جہاز میں پہنچا دیا تھا۔
سطح آب پر ابھرنے کے بعد جہاز بڑی تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ ہوشنگ جہاز کے اگلے حصے میں عرشے پر آکر کھڑا ہوگیا اور اُسے تیزی سے پانی چیرتے سمندر میں آگے بڑھتے دیکھنے لگا۔ صبح کا وقت تھا۔ آسمان پر سورج کو طلوع ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی۔ اس لیے جہاز کا سفر بڑے آرام سے طے ہو رہا تھا، لیکن اس کی منزل کہاں تھی؟ اس بارے میں ہوشنگ کچھ نہ جانتا تھا۔ اس نے ناخدا سے بھی اس بارے میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ محسوس کی۔
تمام دن سفر کرنے کے بعد جب شام ہونے کے قریب جہاز سمندر میں ایسی جگہ داخل ہوا جہاں سمندر کے پانی کا رنگ ہلکا نیلا اور شفاف ساتھا تو ایک عجیب ہی بات ہوئی۔ جہاز پر ایک دم قبرستان جیسا سکوت اور خاموشی چھا گئی۔ تمام دن مسلسل سنائی دینے والا شور غل چیخ پکار اور بھاگ دوڑ کی آوازیں ایک دم بند ہوگئیں۔ ہوشنگ کو اس پر بے حد حیرت ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے مڑا۔ اس نے عرش پر گھوم پھر کر دیکھا۔ اُسے کہیں بھی کام کرنے والے ملاح نہ دکھائی دیے۔ تمام عرشہ بالکل ویران پڑا تھا۔ اس نے جاکر دیکھا کہ سکان گیر اور پہیہ چلانے والے بھی کہیں نظر نہ آرہے تھے بلکہ اس جگہ فرش پر چند انسانی ڈھانچے پڑے تھے۔ جن کے جسموں پر پھٹے پرانے بوسیدہ سے لباس چیتھڑوں کی صورت میں چمٹے ہوئے تھے۔ اس نے تیزی سے جہاز کے اوپر اور نیچے کے کمروں میں دیکھ ڈالا۔ اس نے جہاز کے سمندر کی تہ میں پھنسے ہونے کے وقت اس کے جن کمروں میں لوگوں کو بستروں پر اور فرش پر سوتے پایا تھا، ان کی جگہ اب انسانی ڈھانچے پڑے تھے جو مدتوں پرانے معلوم ہوتے تھے۔ جس کمرے میں اُس نے جہاز کے ناخدا اور ملاحوں کو شطرنج نما کھیل کھیلتے، قہقہے لگاتے، شرابیں پیتے دیکھا تھا، وہاں انسانی ڈھانچے میز کے گرد ٹوٹی پھوٹی حالت میں بیٹھے تھے۔ میز پر شراب کے خالی گلاس اُلٹے پڑے تھے۔
ہوشنگ یہ نظارہ دیکھ کر کچھ خوف زدہ سا ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا تھا۔ اس کالے رنگ کے سمندر سے شفاف اُجلے پانی والے سمندر میں آتے ہی وہ سب لوگ اس طرح ڈھانچوں میں تبدیل ہو گئے تھے؟ کیا وہ سمندر کی تہ میں رہتے ہوئے زندہ تھے؟ مگر اس وقت بھی وہ کوئی انسان نہیں معلوم ہوتے تھے؟ نہ جہاز کے چلتے وقت ان کی حرکتیں زندہ انسانوں جیسی تھیں۔ ان کی آوازیں تو صاف طور پر غیر انسانی معلوم ہوتی تھیں۔ ہوشنگ نے سوچا۔ اگر وہ ان کے بارے میں اسی طرح سوچتا رہا تو اس کا ذہن اُلجھ جائے گا۔ بہتر ہے کہ وہ سمندر میں اس جہاز پر اپنا سفر جاری رکھے اور کسی نہ کسی منزل پر پہنچنے کی کوشش کرے۔ چناں چہ اس نے فیصلہ کیا کہ اُسے اُن سب انسانی ڈھانچوں کو سمندر میں پھینک دینا چاہیے اور خود جہاز کو چلاتے ہوئے کسی ساحل تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرتے ہی اس نے جہاز کے مختلف کمروں میں پڑے ہوئے انسانی ڈھانچوں کو اُٹھا اُٹھا کر سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا۔ جب اُس نے آخری ڈھانچے کو عرشے پر پہنچ کر سمندر کے حوالے کیا تو ایک عجیب ہی بات رونما ہوئی۔ وہ جہاز جو بالکل نیا دکھائی دیتا تھا۔ خوب رنگ و روغن سے آراستہ تھا اور بہت شان دار دکھائی دیتا تھا۔ ایک بے حد شکستہ و بوسیدہ تنگ خوردہ جہاز میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے کمرے اس کی چھتیں، سیڑھیاں، سب ٹوٹ پھوٹ گئے۔ بادبان گر گئے۔ عرشہ بھی چیخ چیخ کر ٹوٹنے لگا۔ پھر چٹخاؤ کی ایک زور دار آواز کے ساتھ جہاز کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور یہ ٹکڑے بڑی تیزی سے سمندر میں ڈوبنے لگے۔ ہوشنگ نے جہاز کو ٹوٹتے دیکھتے ہی سمندر میں چھلانگ لگادی تھی اور تیزی سے تیرتے ہوئے اس جگہ سے دور ہٹنے لگا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی وہ پراسرار جہاز کا تمام کا تمام سمندر میں غرق ہو گیا اور سطح آب پر صرف لکڑی کا ایک تختہ باقی رہ گیا۔ ہوشنگ نے اُسے فوراً ہی پہچان لیا۔ یہ وہی لکڑی کا تختہ تھا۔ جس پر وہ اب تک سمندر میں سفر کرتا آیا تھا۔ وہ سمندر میں لہروں کے رحم و کرم پر بہتا ہوا ایک طرف جارہا تھا۔ ہوشنگ اس تک پہنچنے کے لیے تیزی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا اور بالآخر اس تک پہنچنے میں کام یاب ہو گیا۔ اُسے گرفت میں لیتے ہوئے وہ اس پر سوار ہوگیا۔ اب وہ ایک بار پھر ویران وسنسان وسیع و عریض سمندر میں لہروں کے سہارے کسی نامعلوم منزل کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کی گٹھڑی اس کے کندھے سے بندھی تھی۔ اس میں اس کے لیے کئی دن کے لیے خشک خوراک بھی موجود تھی اور پانی بھی۔ وہ ان کے سہارے سمندر میں کافی دنوں تک اپنا سفر جاری رکھ سکتا تھا۔

سینگوں والا آدمی
ہوشنگ کے تختے کو سمندر میں بہتے بہتے کئی دن گزر گئے۔ سمندر بالکل پرسکون رہا اور ہوائیں بھی موافق چلتی رہیں۔ اس لیے اس کا تختہ بڑے آرام سے لہروں کے ذریعے بہتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اس بار بھی ہوشنگ کو اپنی منزل کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ اس بار سمندر سے اُسے پھر اس پراسرار جہاز جیسا کوئی واقعہ پیش آئے گا یا وہ ایک بار پھر کسی نہ کسی ویسے ہی بحری قزاقوں کے خزانے والے پُر اسرار جزیرے پر جا پہنچے گا۔ وہ تن بہ تقدیر تختے پر کسی نا معلوم قیمت بہتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پاس گٹھڑی میں جو خشک خوراک تھی وہ ختم ہونے کو آرہی تھی اور چھاگل میں بہت کم پانی باقی رہ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ جلد ہی کسی بندرگاہ یا جزیرے پر نہ پہنچا تو یوں سمندر میں سفر کرتے ہوئے اس کی خوراک اور پانی ختم ہو جائے گا۔ پھر بھوکا پیاسا رہتے ہوئے اس کے لیے سمندر کا سفر جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
سمندری سفر کو کافی دن گزرنے کے بعد اُسے بالآخر ایک دن زمین نظر آگئی۔ اُسے دُور سے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس کا تختہ لہروں کے سہارے بہتاہوا ساحل سے آ لگا۔ وہ تختے سے خشکی پر اُتر گیا۔ اس نے تختے کو بھی خشکی پر گھسیٹ لیا اور اُسے ایک جگہ درختوں کے جھنڈ میں لاکر ڈال دیا اور خود آگے بڑھ گیا۔ تمام دن سفر کرتے رہنے کے بعد وہ شام ہونے کے قریب ایک چھوٹے سے شہر میں پہنچ گیا۔ وہاں وہ سرائے میں جاکر ٹھہر گیا۔ اُسے سمندری مہمات اور طویل سمندری سفروں نے بہت تھکا دیا تھا۔ اس لیے وہ کچھ دن تک اس سرائے میں آرام کرتا رہا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے رخصت ہو کر آگے بڑھ گیا۔ یوں ایک بار پھر اس کا خشکی کا سفر شروع ہو گیا۔ اس کے راستے میں چھوٹے بڑے گاؤں اور قصبات آتے رہے۔ وہ وہاں رکھتا،سستاتا، آگے بڑھتا رہا۔ پھر اس کا گزر ایک وسیع و عریض بے آب و گیاہ میدان سے ہوا۔ اس کے بعد گھنے جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ وہ بہادرانہ انھیں طے کرتا رہا۔ پھر بالآخر کئی دنوں کے سفر کے بعد وہ ایک ہرے بھرے سر سبز و شاداب خوب صورت گاؤں میں جا پہنچا۔
وہ گاؤں خاصا گنجان آباد تھا۔ وہاں کے لوگ خوش حال دکھائی دیتے تھے۔ ان کے کھیت گاؤں کے باہر بڑے وسیع رقبے پر دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے گھروں اور باڑوں میں مویشیوں کی بھاری تعداد موجود تھی، لیکن اس کے باوجود ہوشنگ نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ گاؤں کا کوئی شخص بھی خوش یا مطمئن نہ دکھائی دیتا تھا بلکہ کسی فکر یا خوف میں مبتلا دکھائی دیتا تھا۔ وہ کافی دیر تک اس گاؤں کے گلی کوچوں میں گھومتا پھرا۔ اس نے گاؤں کے بچوں کو بھی خوف زدہ سا پایا۔ گاؤں والوں کی اس فکر و خوف کی وجہ ضرور ہوگی۔ وہ چلتے چلتے گاؤں کی سرائے میں داخل ہوگیا۔ سرائے کا مالک ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے اس سے وہاں چند روز قیام کی بات طے کی۔ پھر اس سے کہا:
’’بابا جی!یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس گاؤں کا ہر شخص اتنا پریشان اور خوف زدہ کیوں دکھائی دیتا ہے۔ بچے تک ڈرے سہمے نظر آتے ہیں ۔‘‘
سرائے دار نے گہری سانس لی اور بولا۔
’’ اس کی وجہ سینگوں والا آدمی ہے بیٹا۔ وہ کئی سال سے ہر روز شام کے وقت یہاں آتا ہے اور ڈھیر سی خوراک کھا جاتا ہے۔ گاؤں کے لوگ مجبور ہیں کہ اس کے لیے خوراک کا انتظام کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ آدمی اس گاؤں پر جانے کیا تباہی لے آئے۔‘‘
’’ سینگوں والا آدمی ؟‘‘ہوشنگ نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں بیٹا !‘‘ سرائے دار بولا ،’’یہ آدمی چند سال ہوئے اس گاؤں کے باہر واقع جنگلوں میں نمودار ہوا تھا۔ گاؤں کا ایک آدمی اس وقت کہیں باہر سے سفر کرتا ہوا ان جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے گاؤں واپس آرہا تھا۔ وہ اُسے دیکھتے ہی اس کے پیچھے لگ گیا۔ گاؤں والا اُسے دیکھ کر اتنا خوف زدہ ہوا کہ اپنا سامان وہیں پھینک کر سرپٹ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ سینگوں والے آدمی نے اس کا تعاقب کیا اور گاؤں تک آن پہنچا۔ وہاں کھیتوں میں اس وقت کسان بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ اس خوف ناک آدمی کو دیکھتے ہی وہ کھانا پینا بھول کر کھیتیوں سے بھاگ اُٹھے۔ اس عفریت نے کھیتوں میں گھس کر سب ہی کسانوں کا کھانا کھا لیا۔ اس کے بعد وہ جنگل میں واپس چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد گاؤں والے بے حد ڈر گئے۔ جن لوگوں نے اس سینگوں والے آدمی کو دیکھا تھا۔ ان کے خوف و دہشت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ ایک عام آدمی جتنے قد کا تھا۔ انسانوں کی طرح اس کی دو ٹانگیں تھیں لیکن پیروں کی جگہ اس کی ٹانگوں پر بیل جیسے کھر لگے ہوئے تھے۔ اس نے انسانوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے، لیکن اس کی پشت پر بیل جیسی لمبی دم نکلی ہوئی تھی۔ اس کے بازو اور ہاتھ بالکل انسانوں جیسے تھے لیکن اس کی گردن بہت موٹی تھی۔ اس کا چہرہ انسانوں جیسا تھا لیکن ناک کی جگہ بیل جیسے نتھنے تھے اور سر پر بیل ہی کی طرح بڑے بڑے مڑے ہوئے سینگ تھے۔ اس کے کان اور آنکھیں انسانوں جیسی تھیں۔ ایسے عفریت کو دیکھ کر ظاہر ہے گاؤں کے لوگوں نے ڈرنا ہی تھا۔ اُسے کوئی بھیانک اور خوف ناک بلا سمجھتے ہوئے انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں اس عفریت کے لیے ہر روز شام کے وقت گاؤں کے باہر بھاری مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں لے جا کر ڈال دینی چاہییں تاکہ وہ گاؤں میں گھسنے اور انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ چناں چہ اس وقت سے لے کر اب تک یہ معمول چلا آرہا ہے کہ شام ہوتے ہی گاؤں کے لوگ بھاری مقدار میں خوراک اور پھل گاؤں کے باہر ایک خاص جگہ پر جا کر رکھ آتے ہیں۔ دہ عفریت یہاں آتا ہے اور سب کچھ کھا پی کر چلا جاتا ہے۔ آج تک کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ گاؤں والوں نے اُسے کھانے کو کچھ نہ ڈالا ہو۔ اس کی خوراک واقعی ایک بیل کی خوراک ہے۔ وہ بے تحاشا سب کچھ کھا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا اور گاؤں میں جانے کب تک یونہی خوف و دہشت کی فضا ر ہے گی؟‘‘
’’گاؤں کے لوگ اگر اس سے اتنے ہی خوف زدہ اور تنگ ہیں تو وہ آخر اس کو ہلاک ہی کیوں نہیں کر دیتے ـ؟‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’ کسی کو آج تک ایسی جرات نہیں ہوسکی ۔‘‘سرائے دار بولا ،’’یہ لوگ اُسے ایک پراسرار اور مافوق الفطرت مخلوق سمجھتے ہیں اور اُسے کوئی نقصان پہنچاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ‘‘
ــ’’عجیب ہی بات ہے۔‘‘ہوشنگ بولا۔’’ معلوم ہوتا ہے اس گاؤں کے لوگ بہت توہم پرست واقع ہوتے ہیں اور اسی توہم پرستی نے انھیں بزدل بنا رکھا ہے۔ ورنہ بہادری کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس عفریت سے دو دو ہاتھ کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ آخر ہے کیا چیز؟‘‘
’’نہیں بیٹا۔ بغیر سوچے سمجھے خطرات میں کودنا بہادری نہیں۔‘‘ سرائے دار بولا۔’’ ورنہ اس گاؤں کے لوگ ایسے بزدل بھی نہیں ہیں۔‘‘
ہوشنگ نے اس سے مزید کچھ کہنا سنتا بے کار سمجھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ سوچنے لگا کہ اس گاؤں کے لوگ واقعی بزدل ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک اس سینگوں والے عفریت کو ضرور ٹھکانے لگایا جا چکا ہوتا۔ وہ عفریت نہ صرف ابھی تک اتنے عرصے سے زندہ چلا آرہا تھا بلکہ گاؤں والوں سے خوب خوراک بھی حاصل کرکے کھا رہا تھا۔ شاید گاؤں والے اس کے مرنے تک طویل عرصے تک اسے یونہی کھلاتے پلاتے رہیں گے اور اس سے اس طرح ڈر ڈر کر شدید دہشت زدگی اور پریشانی کے عالم میں زندگیاں گزارتے رہیں گے۔ یہ سوچتے سوچتے ہوشنگ کے دل میں اس عفریت کو دیکھنے اور اُسے ٹھکانے لگانے کی خواہش پیدا ہونے لگی اور وہ اس کا قصہ پاک کرنے کے لیے مختلف تدبیریں سوچنے لگا۔
شام ہونے کے قریب وہ سرائے سے باہر نکلا۔ اُسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ سارا گاؤں اس وقت بالکل ویران و سنسان پڑا تھا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، گلیوں میں کھیلتے دکھائی دینے والے بچے، گلیوں میں گھوم پھر کر چیزیں بیچنے والے سب غائب ہو چکے تھے۔ دکانوں اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں مضبوطی سے بند تھیں۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ وقت اس سینگوں والے عفریت کے گاؤں کے باہر آکر اپنی خوراک کھانے کا تھا۔ اس لیے گاؤں کی تمام گلیاں اور سڑکیں دیران و سنسان دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ ان ویران گلیوں میں سے گزرتا ہوا گاؤں سے باہر نکل آیا۔ گاؤں کے باہر ایک نہر بہتی تھی۔ وہ چلتا چلتا اس نہر کے کنارے جاپہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہاں ایک بہت لمبا چوڑا دستر خوان بچھا تھا۔ جس پر طرح طرح کے کھانے، پھل اور دودھ کے برتن رکھے تھے۔ وہ خوراک اتنی تھی جسے کوئی دیو ہی کھا سکتا تھا۔ ہوشنگ اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ وہ اس سینگوں والے عفریت کی خوراک تھی جو گاؤں نے اس کے لیے وہاں لاکر رکھی تھی۔ وہ عفریت اس خوراک کو کھانے کے لیے آنے ہی والا تھا ۔ہوشنگ تیزی سے ایک بڑے سے درخت کے چوڑے سے تنے کے پیچھے جھاڑیوں میں دبک گیا۔
تھوڑی دیر بعد زمین پر کسی بڑے جانور کے چلنے کی بھاری آواز سنائی دی۔ وہ درخت کے تنے کے پیچھے سمٹ گیا اور جھاڑیوں سے منھ نکال کر دیکھنے لگا۔ اُسے سامنے سے ایک عجیب و غریب بیل نما انسان آتا نظر آیا۔ اس کے سر پر بیل جیسے بڑے بڑے مڑے ہوئے سینگ تھے۔ بیل جسے نتھنے تھے اور بیل کی طرح کے کھر تھے۔ اس کے پیچھے اس کی بیل جیسی دُم لہرا رہی تھی۔ وہ بہت موٹا تھا۔ اس لیے اس کے چلنے سے زمین پر دھمک سی ہورہی تھی۔ اس کے سر پر بڑے بڑے سیاہ بال تھے۔ جو اس کے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ دھم دھم کی آواز کے ساتھ چلتا ہوا اس دستر خوان کے پاس آپہنچا۔ اس نے ایک نظر کھانے پینے کی چیزوں پر ڈالی۔ اس کے بعد وہ نہر کی طرف بڑھ گیا۔ ہوشنگ نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ اس نے نہر کے کنارے بیٹھ کر اس کے پانی میں ہاتھ دھوئے کلی کی پھر دستر خوان کے کنارے آکر بیٹھ گیا اور بڑے آرام اور سکون کے ساتھ کھانے پینے میں مصروف ہوگیا۔ اس کی خوراک واقعی بہت زیادہ تھی۔ وہ تھوڑی ہی دیر بعد دستر خوان سے اُٹھ کر نہر کے پاس گیا، ہاتھ دھوئے کلی کی اور جنگل کی سمت ہولیا۔ ہوشنگ درخت کے تنے کی اوٹ سے نکلا اور اپنا بڑا اور تیز چاقو ہاتھ میں لیے اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ بیل نما انسان کہاں جاتا ہے۔ اس کی حرکتوں نے اسے اچنبھے میں ڈال دیا تھا۔
جنگل میں داخل ہونے کے بعد وہ بیل نما انسان ایک طرف مڑ گیا اور کافی دور تک جنگل میں چلتے رہنے کے بعد ندی کے کنارے ایک گھاس پھونس کی بنی ہوئی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ ہوشنگ کو اس پر اور بھی زیادہ حیرت ہوئی۔ اس نے سوچا یہ بیل نما انسان کوئی بلا نہیں ہے۔ اس کے سامنے جاکر دیکھنا چاہیے اور معلوم کرنا چاہیے کہ وہ در حقیقت کون ہے؟ اس نے اپنا چاقو ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑا اور احتیاط سے چلتا ہوا جھونپڑی کی سمت ہو لیا۔ جب وہ اس جھونپڑی میں داخل ہوا تو اس نے اس بیل نما آدمی کو ایک کونے میں زمین پر گھاس پھونس کے فرش پر بیٹھے دیکھا۔ ہوشنگ کو دیکھتے ہی وہ خوف زدہ ہوگیا اور اپنی جگہ سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہوشنگ نے اس کی جانب چاقو تان لیا اور اس کی طرف بڑھا۔ اس بیل نما آدمی نے کھڑے ہوتے ہی اس پر جھپٹ پڑنے کی بجائے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور گھگھیائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’ رحم ۔ رحم کرو اچھے لڑکے۔ مجھے مت مارو۔ مجھے مت مارو؟ ‘‘
اسے انسانوں کی زبان بولتے دیکھ کر ہوشنگ کو اتنی حیرت ہوئی کہ اس کے ہاتھ سے چاقو چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔
’’تم کون ہو ؟‘‘ اس نے اس بیل نما آدمی سے پوچھا۔’’ تم انسانوں کی طرح بول رہے ہو لیکن مکمل انسان نہیں ۔‘‘
’’میں انسان ہی ہوں، جیسے تم ہو۔ ایک ظالم اور شیطان صفت شخص نے مجھے اس حال کو پہنچا دیا۔‘‘ اس بیل نما آدمی نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
ہوشنگ کو اس سے بہت ہمدردی محسوس ہوئی۔ اس نے زمین پر گراہوا اپنا چا قو اُٹھا کر اُسے بند کر کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور نرم لہجے میں اس سے بولا:
’’کیا تم مجھے اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کرو گے، تم کون ہو؟ تمھیں کس نے اس حال کو پہنچایا ہے؟‘‘
’’ضرور بتاؤں گا۔‘‘ وہ بیل نما شخص اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔
’’آؤ تم یہاں میرے پاس آکر بیٹھ جاؤ۔ میں تمھیں اپنی کہانی سناتا ہوں۔ یہ سُن کر تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ میں کتنا دکھی اور مظلوم انسان ہوں۔ مجھ سے اس گاؤں کے لوگ بلا وجہ ڈرتے ہیں۔ میں ایک بے ضرر انسان ہوں۔ میں ان کا کوئی نقصان نہیں کرتا۔ وہ خود ہی میرے کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں۔‘‘
ہوشنگ اس کے قریب ہی گھاس پھونس کے بستر پر آکر بیٹھ گیا اور ہمدردانہ لہجے میں اس سے بولا:
’’ہاں اب تم مجھے اپنی کہانی سناؤ۔ شاید میں تمھیں دوبارہ مکمل انسان کی صورت میں لانے کے لیے کچھ کرسکوں ۔‘‘
’’میں تمھارا بے حد شکر گزار ہوں نیک دل لڑکے کہ تم نے مجھ سے ڈرنے اور مجھے نقصان پہنچانے کی بجائے مجھ سے ہمدردی کی۔‘‘ بیل نما آدمی بولا ،’’ اگر تم مجھے میری اصلی حالت میں واپس لانے کے لیے کچھ کر سکو تو یہ مجھ پر تمھارا بہت بڑا احسان ہوگا۔ اچھااب تم میری کہانی سنو:
میرا نام زرمک ہے۔ میرا گاؤں اس جگہ سے بہت دور جانب شمال مشرق ایک سلسلہ ہائے کوہ کے دوسری طرف واقع ہے۔ وہ ایک بہت ہرا بھرا خوب صورت اور زرخیز گاؤں ہے۔ ان کی آبادی بھی خاصی کم ہے اور اپنے زرخیز کھیتوں اور ہرے بھرے باغات کے سبب خوب خوش حال ہے۔ اسی گاؤں میں میرا گھر ہے۔ اس گھر میں، میں اپنے والدین اور دو چھوٹے بہن بھائی کے ساتھ رہتا تھا۔ میرا باپ ایک محنتی کسان تھا۔ وہ تمام دن اپنے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ جب کہ میری والدہ گھر پر رہتے ہوئے ہم بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور گھرداری کے کام کیا کرتی تھیں۔ وہ کچھ پڑھی لکھی تھیں۔ اس لیے وہ ہم بہن بھائیوں کو بھی گھر میں تھوڑا بہت پڑھا دیا کرتی تھیں۔ وہ ہمیں صرف شام کے وقت تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر نکل کر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیتی تھیں۔
ہمارا گاؤں چوں کہ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس لیے وہاں لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ البتہ ایک شخص ایسا تھا جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ ہمارے والد نے اس کے بارے میں صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ جب ہمارے دادا زندہ تھے اور وہ خود بہت کم سن تھے تو وہ شخص جانے کہاں سے آکر ان کے گاؤں میں بس گیا تھا۔ اس نے گاؤں کے تمام مکانات سے ہٹ کر ایک الگ تھلگ سی جگہ ایک مکان بنایا اور اس میں رہنے لگا۔اس نے گاؤں میں کسی سے میل ملاپ نہ رکھا۔ وہ ایک آدم بے زار اور سرد مزاج شخص تھا۔ وہ کسی ضرورت کے بغیر کبھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلتا تھا۔ ہر وقت اپنے گھر میں بند رہتا تھا۔ اس کا رویہ دیکھتے ہوئے گاؤں کے لوگوں نے بھی اس سے ملنے کی کوشش نہ کی۔
وہ پر اسرار شخص اپنے گھر میں بند رہ کر کیا کیا کرتا تھا؟ کن کاموں میں مصروف رہتا تھا؟ یہ کوئی بھی نہ جانتا تھا لیکن گاؤں کے لوگ اس کے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے کچھ کوٹنے پیسنے کی آوازیں سنتے تھے۔ کبھی کبھار وہ اس کے گھر کی چمنی سے رنگین دھواں نکلتے ہوئے بھی دیکھتے تھے۔ اس دھوئیں سے عجیب قسم کی بو آرہی تھی۔ کبھی کبھی وہ آدمی صبح کو جنگل کی طرف جاتا اور شام گئے قسم قسم کی جڑی بوٹیوں سے لدا پھندا واپس آتا۔ اس سے گاؤں کے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ شاید یہ شخص کوئی کیمیا گر ہے۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ ہم بچے کھیلتے کودتے اس کے گھر کے کھلے صحن میں جا نکلتے تھے۔ وہاں ہم بڑے بڑے چولھوں پر بڑے بڑے لوہے کے کڑاہوں میں کچھ عجیب ہی قسم کے، عجیب ہی بو والے مرکبات اُبلتے دیکھتے تھے۔ اس شخص نے اپنے صحن کے گرد کوئی اینٹوں یا مٹی گارے کی دیوار نہ کھڑی کر رکھی تھی بلکہ مختلف پودوں اور جھاڑیوں کی ایک باڑ لگادی تھی۔ ہم بچے اس باڑ میں سے گزر کر اس کے صحن میں داخل ہو جایا کرتے تھے۔ وہ اگر اس وقت صحن میں موجود ہوتا تھا تو ہمیں کچھ نہ کہتا تھا بلکہ چپ چاپ چولھوں پر چڑھے کڑھاؤں میں لکڑی کے بڑے بڑے کف گیر چلانے ،ان میں مختلف سفوف جھونکنے اور ان کے نیچے آگ تیز یا ہلکی کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ ہم پہلے پہل تو اس کی موجودگی میں کچھ ڈرتے کچھ ہچکچاتے رہے لیکن پھر ہمارا ڈر اور ہچکچاہٹ دور ہوتی گئی۔ اور ہم اطمینان سے اس کے صحن میں آنے جانے لگے۔ پھر ہم نے اس کے کمروں میں بھی گھسناشروع کر دیا۔
اس نے اپنے مکان میں چار کمرے بنا رکھے تھے۔ ایک کمرہ اس کے سونے کا تھا۔ دوسرے دو کمروں میں اس نے جڑی بوٹیاں، خشک پودے، مختلف سفوفوں سے بھری بوتلیں، مشروبات و مرکبات، مختلف شکلوں والے اوزار رکھے تھے۔ چوتھا کمرہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کے دروازے پر بڑا سا قفل لگا رہتا تھا۔ بچوں کی فطرت ہوتی ہے کہ انھیں خفیہ چیزوں کا بھید معلوم کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ یہی حال ہم بچوں کا بھی تھا۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ اس نے اس کمرے میں کیا رکھا ہوا تھا جو اس کا دروازہ ہر دم بند رہتا تھا۔ جب تک ہم اس کے گھر میں رہتے تھے۔ وہ کبھی اس کمرے کا رُخ نہ کرتا تھا۔
وقت اسی طرح گزرتا گیا۔ ہم بچے بھی بڑے ہوتے گئے۔ اب بھی ہم اکثر اس کے گھر جایا کرتے تھے۔ اب ہمیں اس کے تجربات کی کچھ نہ کچھ سمجھ آنے لگی تھی لیکن میرے سوا کسی بچے نے اس کے تجربات میں دل چسپی نہ لی تھی۔ صرف میں ہی تھا جو اکثر اکیلا اس کے پاس چلا جاتا تھا اور اُسے مختلف کڑھا ہوں میں مختلف جڑی بوٹیاں، گھاس پھونس، سفوف اور تیل وغیرہ ملاتے اور قسم قسم کے مرکباب تیار کرتے غور سے دیکھا کرتا تھا۔ میرے پوچھنے پر وہ شخص مجھے سوائے اس کے اور کچھ نہ بتاتا تھا کہ وہ ایک خاص دوا تیار کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا تھا اور اس کے یہ تجربات اسی سلسلے میں تھے۔ وہ خاص دوا کس قسم کی تھی۔ اس کی خصوصیات کیا تھیں۔ اس بارے میں اس نے مجھے کبھی کچھ نہ بتایا تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ میں تنہا اس کے پاس چلا گیا۔ وہ اس وقت بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ بالآخر وہ دوا تیار کرنے میں کام یاب ہو گیا ہے۔ اس نے ایک ایسی دوا تیار کرلی تھی جو ایک انسان کو بیل کی طرح طاقت ور اور زیادہ سے زیادہ محنت کے کام کرنے کے قابل بنا سکتی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر اس گاؤں کے لوگ اس کی تیار کی ہوئی دوا کھالیں تو وہ نہ صرف بے حد صحت مند، تن درست اور طاقت ور بن جائیں گے بلکہ اپنے کھیتوں اور زمینوں پر زیادہ سے زیادہ کڑی محنت کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ اس نے کہا کہ اس کی دوا انسانیت کی بڑی خدمت ہے۔
میں اس وقت تمھاری ہی طرح کا نو عمر سا لڑکا تھا۔ اس شخص کی باتیں سُن کر میں جوش میں آگیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اس سے وہ دوا لے کر کھالوں، اس طرح مجھ میں خوب قوت و طاقت پیدا ہو جائے گی اور میں اپنے سے بڑے آدمیوں کے مقابلے میں خوب کھیتوں میں کام کرنے لگوں گا۔ میں اس کی دوا استعمال کرنے پر آمادہ ہو گیا۔
وہ شخص تو گویا اس انتظار میں ہی تھا کہ مجھ جیسا کوئی بے وقوف اس کے ہاتھ لگے اور وہ اس پر اپنی اس منحوس دوا کا تجربہ کرے۔مجھے آمادہ دیکھ کر وہ فوراً مجھے اس کمرے میں لے گیا جسے ہمیشہ مقفل رکھتا تھا۔ میں جب اس کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کمرے میں بہت سے طاقچے بنے ہوئے تھے جن پر رنگا رنگ محلول سے بھری بوتلیں رکھی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی چند طاقچوں پر پر انسانی کھوپڑیاں اور انسانی جسم کی مختلف ہڈیاں رکھی تھیں۔ اس شخص نے مجھے کمرے میں داخل کرنے کے بعد اس کا دروازہ بند کردیا۔ پھر اس نے طاقچے پر رکھی ایک انسانی کھوپڑی اٹھائی۔ اس کے کاسہ سر کے سوا باقی حصہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اس لیے وہ ایک پیالے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے اس پیالے میں ایک بوتل کھول کر سبز رنگ کا سیال انڈیلا اور مجھے اُسے پی لینے کو کہا۔ مجھے انسانی کھوپڑی میں دوا لیتے ہوئے کراہت اور خوف محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ دہ دوا صرف اسی صورت میں اثر کر سکتی ہے کہ اسے انسانی کھوپڑی میں پیا جائے۔ میرا دل اس طرح وہ دوا پینے کو نہ چاہ رہا تھا لیکن طاقت ور اور توانا بننے کے شوق میں، میں آنکھیں بند کر کے اور سانس روک کر کھوپڑی سے دوا پی گیا۔ اس پر اس شخص نے مجھے خوب شاباش دی اور بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے گھر سے نکل کر گاؤں سے باہر جانے والے راستے پر ہولیا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس دوا کا اثر ہونے تک میرے لیے سب لوگوں سے الگ تھلگ اور دور کسی جنگل میں اکیلے رہنا ضروری ہے۔
گاؤں سے باہر کافی دور پہاڑوں کے دامن میں ایک جگہ اس شخص نے اپنے لیے ایک اور گھر بنا رکھا تھا۔ جس کا گاؤں میں کسی کو علم نہ تھا۔ وہ شخص مجھے اس گھر میں لے گیا۔ اپنے اس گھر میں اس نے ایک گھوڑا بھی رکھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے اس گھوڑے پر اپنے ساتھ بٹھایا اور اسے تیزی سے دوڑاتا ہوا میلوں کا سفر طے کرکے اس جنگل میں آیا۔ اس جنگل میں لاکر اس نے میرے لیے جھونپڑی بنادی اور کہا اس دوا کے پوری طرح اثر کرنے تک میں اس جھونپڑی میں ٹھیرا رہوں۔ اس نے مجھے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی دیں تاکہ میرا گزارا ہوتا رہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جب وہ دوا مجھ پر پوری طرح اثر کر چکے اور میں اپنے آپ کو کسی بیل کی طرح طاقت ور اور تنومند محسوس کرنے لگوں، میرا قد کاٹھ بڑھ جائے یا ڈیل ڈول کسی پہلوان جیسا ہو جائے، تو میں اپنے گاؤں واپس آجاؤں۔
اس شخص نے جانے مجھ پر کوئی جادو کر دیا تھا یا اس کی دوا نے میری سوچ سمجھ کی قوتیں سلب کرلی تھیں کہ میں اس کی ہر بات مانتا چلا گیا۔ مجھے نہ اپنے ماں باپ بہن بھائی کا کوئی خیال آیا نہ اپنے ساتھیوں کی یاد ستائی۔ اس شخص کے جانے کے بعد میں آرام سے اس جھونپڑی میں رہنے لگا۔ چند دن گزرنے کے بعد میں محسوس کرنے لگا کہ اس کی دوا مجھ پر اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ پہلے تو میرا قد بڑھنا شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک نوعمر لڑکے کے قد سے بڑھ کر ایک جوان آدمی کے جتنا ہوگیا۔ اس کے بعد میرا جسم پھولنے لگا۔ پھر میرے پیروں کی جگہ بیل جیسے کھر نمودار ہونے لگے۔ میرے سر پر گومڑسے ابھر آئے۔ یہ گومڑ آہستہ آہستہ سینگ بننے لگے ۔اس کے ساتھ ہی میری ناک پھیلنے لگی اور پھیلتے پھیلتے بیل کے نتھنوں جیسی ہو گئی۔ ادھر میرے سر پر اُگنے والے سینگ بھی بیل کے سینگوں کی طرح بڑے بڑے نوک دار مڑے ہوئے سینگ بن گئے۔ یوں میں ایک بیل نما انسان بن گیا۔ میری بھوک پیاس بھی عام انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہو گئی۔ اپنی یہ درگت مجھے آٹھ آٹھ آنسو رلاتی تھی۔ میں ایک عام سا انسان تھا۔ جس کے جسم اور چہرے کی ہر چیز عام انسانوں جیسی تھی مگر اب میں ایک بیل نما انسان بن گیا تھا۔ ایسی حالت میں، میں بھلا اپنے گاؤں واپس کس طرح جاسکتا تھا؟ کس طرح عام انسانوں کے ساتھ رہ سکتا تھا؟ یہ ضرور تھا کہ میں اب اپنے آپ کو بے حد طاقت ور اور توانا محسوس کرنے لگا تھا۔ لیکن یہ طاقت اور توانائی مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی؟ میں تو عام انسانوں کو بھی منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ میں اسی جھونپڑی میں رہنے لگا۔
میرا خیال تھا کہ شاید اب میری تمام عمر اسی صورت اور حلیے کے ساتھ تنہا اس جنگل میں رہتے ہوئے کٹ جائے گی۔ اس جنگل میں خدا کا شکر ہے کہ درندے نہیں ہیں۔ یہاں جو چھوٹے چھوٹے جانور ہیں وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ مجھے اس جنگل میں یوں تنہا رہتے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میرے ماں باپ بہن بھائی کس حال میں ہیں۔ میری اس اچانک گم شدگی نے ان پر کیا اثر ڈالا ہوگا۔ شاید وہ میری جدائی میں روتے ہوں گے اور جانے وہ شیطان آدمی کس حال میں ہوگا۔ جس کی اس منحوس دوا کی بہ دولت میں اس حال کو پہنچا ہوں۔ میرا دل اس سے بہت نفرت محسوس کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ایک بار اس خبیث شخص کو دیکھ لوں تو اُسے ہرگز زندہ نہ چھوڑوں۔ اتنے سالوں سے وہ ایک بار بھی مجھ پر اپنی دوا کا اثر دیکھنے نہیں آیا۔ شاید وہ پہلے سے ہی جانتا ہوگا کہ اس کی دوا کسی انسان پر کیا اثر کرتی تھی۔
ایک دن میں اپنی جھونپڑی سے نکل کر اس طرف آنکلا تھا جہاں قریبی گاؤں کے لوگ اکثر آمد و رفت رکھتے تھے۔ وہاں مجھے گاؤں کا ایک آدمی جاتا ہوا ملا۔ میں نے اسے آواز دی اور روکنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ میں اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے اُسے روکنے کی کوشش کرتا رہا کہ کم از کم وہ میری بات تو سن لے۔ لیکن وہ نہ رکا اور دوڑتے دوڑتے گاؤں جا پہنچا۔ وہاں کھیتوں میں کام کرنے والے سب لوگ مجھے دیکھ کر ڈر گئے اورکھیتوں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ اپنے کھانے پینے کی چیزیں وہیں کھیتوں میں چھوڑ گئے تھے۔ مجھے چوں کہ صرف پھلوں اور جڑی بوٹیوں پر گزارا کرتے عرصہ گزر چکا تھا اب جو اپنی پسند کا پکا ہوا کھانا مجھے نظر آیا تو میں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور گاؤں میں گھسنے کی بجائے خاموشی سے جنگل میں واپس چلا گیا۔ میرا خیال تھا اگلے دن گاؤں میں جاکر گاؤں والوں سے مل کر انھیں اپنی حالتِ زار سے آگاہ کرنے اور اُن سے مدد مانگنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن جب اگلے دن شام کو میں گاؤں کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گاؤں والوں نے نہر کے کنارے ایک لمبے چوڑے دستر خوان پر باقاعدہ میری ضیافت کا سامان سجا رکھا تھا۔ لگتا تھا وہ مجھے کوئی عفریت سمجھ بیٹھے تھے۔ جسے کھانے پینے کی چیزوں کی پیش کش ہی سے مطمئن رکھا جاسکتا تھا۔
مجھے اس پر بہت افسوس اور رنج ہوا۔ میں نے سوچا کہ ان لوگوں سے کچھ کہنا بالکل بے کار ثابت ہوگا۔ یہ مجھ سے اس طرح ڈرتے اور خوف کھاتے رہے تو یہ میری کوئی مدد کہاں کر سکیں گے۔ مجھے یہ بات بری نہ محسوس ہوئی کہ یہ میرے لیے اس طرح دستر خوان سجا دیا کریں۔ مجھے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوگا کہ تم جیسا کوئی بہادر انسان مجھ سے ملنے اور میرے حالات جاننے کے لیے میرے پاس چلا آئے گا۔وہ مجھے میری اصلی حالت میں واپس لانے کے لیے میری مدد بھی کر سکے گا۔ اللہ کا شکر ہے جو اس نے تمھیں میرے پاس بھیج دیا۔ تم نے مجھ سے خوف زدہ ہوئے بغیر میری کہانی توجہ سے سنی ہے۔ اس پر میں تمھارا شکر گزار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم مجھے میری اصلی حالت میں لوٹانے کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کر سکو گے ۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ بیل نما شخص رزمک خاموش ہو گیا۔
’’ہاں یہ میرا وعدہ ہے۔ ‘‘ہوشنگ پر عزم لیے میں بولا ،’’میں ضرور تمھیں تمھاری اصلی حالت میں واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ تم ظاہر ہے اپنی اس حالت میں اپنے گاؤں نہیں جاسکتے اس لیے تم مجھے بتادو کہ تمھارا گاؤں کس طرف اور یہاں سے کتنے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی واضح نشانیاں کیا ہیں ۔‘‘
رز مک نے اسے اپنے گاؤں کے متعلق سب کچھ تفصیل سے بتا دیا اور کہا،’’گاؤں میں داخل ہوتے ہی تمھیں عام آبادی اور کھیتوں سے ہٹ کر ایک بلند مقام پر جو مکان بنا ہوا دکھائی دے گا۔ وہ اسی خبیث شخص کا ہے۔ تم کیا اس سے جاکر ملو گے ؟‘‘
’’یہ میں بعد میں دیکھوں گا ۔‘‘ ہوشنگ نے کہا۔
پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ اس نے چاقو گٹھڑی میں ڈالا۔ گٹھڑی کندھے پر لٹکائی اور رزمک سے بولا۔
’’ اب میں چلتا ہوں۔ میں کوشش کروں گا کہ جلد از جلد واپس آجاؤں۔ میں جس کام کے لیے تمھارے گاؤں جارہا ہوں۔ وہ خطرناک اور مشکل ضرور ہے لیکن مجھے اللہ تعالی پر بھروسہ ہے۔ میں ان شاء اللہ کام یاب واپس لوٹوں گا۔‘‘
رزمک نے جھونپڑی سے باہر نکل کر اُسے خدا حافظ کہا اور ہوشنگ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا۔ وہ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر چاند اور ستارے چمک رہے تھے۔ ان کی روشنی میں ہوشنگ تیزی سے سفر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اس پر اب تھکن اور نیند غالب آرہی تھی۔ اس لیے وہ ایک گھنے درخت کے نیچے لیٹ کر سو رہا۔ پھر جب وہ سوکر اُٹھا تو بالکل تازہ دم تھا۔ اس نے درختوں سے توڑ کر کچھ پھل وغیرہ کھائے۔ ندی کا ٹھنڈا پانی پیا اور تیزی سے آگے روانہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ دوپہر ہونے تک وہ ایک سلسلہ ہائے کوہ تک جاپہنچا۔ اس سلسلے کوطے کر کے جب وہ دوسری طرف ایک سرسبز و شاداب وادی میں اُترا تو اُسے وہاں ایک پہاڑی کے دامن میں ایک ٹوٹا پھوٹا سا مکان دکھائی دیا۔ وہ اس مکان کی سمت ہولیا۔
ہوشنگ جب اس مکان میں داخل ہوا تو اس نے وہاں چمگادڑوں کا بسیرا دیکھا۔ جنگلی چوہوں نے اور اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں نے بھی وہاں اپنے بل بنا رکھے تھے۔ ان کمروں میں سے اکثر کمرے بالکل خالی پڑے تھے۔ چند کمروں میں تھوڑا بہت سامان کچھ برتن کچھ اوزار وغیرہ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ ان پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ ایک کمرہ بہت بڑا تھا۔ وہاں پانی کی ناند اور گھاس پھونس کے خشک ڈھیر پڑے تھے۔ ایک کونے میں ایک انسانی ڈھانچہ پڑا تھا جس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ گھر سے باہر نکل آیا اور تیزی سے رزمک کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس پہاڑی سلسلے سے رزمک کا گاؤں زیادہ دور نہ تھا ۔وہ شام ہونے کے قریب وہاں جاپہنچا۔ اُسے دور ہی سے وہ مکان دکھائی دے گیا تھا جو گاؤں کی عام آبادی سے ہٹ کر کھیتوں کے باہر ایک اونچے سے ٹیلے پر واقع تھا۔ یہ مکان بھی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے وہ برسوں سے خالی پڑا ہوا ہو۔ اس کے باہر ابھی بھی سرسبز پودوں اور جھاڑیوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ وہ اس باڑ میں سے گزر کر اندر داخل ہوگیا۔ اندر وسیع صحن تھا جو ویران پڑا تھا۔ اس سے آگے جو کمرے تھے ان کے دروازوں پر بڑے بڑے قفل لگے تھے۔ شاید وہ پراسرار شخص اس مکان کو بند کر کے کہیں جا چکا تھا۔ ایک کمرے کا دروازہ البتہ کھلا تھا۔ ہوشنگ اس میں داخل ہو گیا۔ اس نے اس کمرے کے فرش اور ہر چیز کو دھول میں اٹا ہوا پایا۔ گویا برسوں سے وہاں کوئی نہ آیا ہو۔
اس نے سوچا اُسے باقی کمروں کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ان میں کیا ہے۔ چناں چہ اس نے ایک بڑا سا پتھر لیا اور بند کمروں کے قفل توڑ دیے۔ وہ کمرے بھی خالی پڑے تھے۔ ہوشنگ کو پھر اس کمرے کا خیال آگیا جس کے متعلق اُسے رزمک نے بتایا تھا کہ پراسرار شخص اُسے ہمیشہ بند رکھتا تھا اور جہاں اس نے اپنی عجیب و غریب دوائیاں محفوظ کر رکھی تھیں۔ وہ کمرہ صحن کے ایک کونے میں واقع تھا۔ اس کے دروازے پر بھی بڑا سا قفل لگا تھا۔ ہوشنگ نے پتھر مار کر اُسے توڑ دیا۔ جب وہ اس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو مختلف دوائیوں کی عجیب و غریب بو نے اس کا استقبال کیا۔ چوں کہ اب رات کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس لیے ہوشنگ نے اپنی گٹھڑی کھول کر چراغ نکال کر اُسے روشن کیا اور اس کی روشنی میں کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ اس کمرے میں بے شمار طاقچے بنے ہوئے تھے۔ جن پر انسانی کھوپڑیاں، ہڈیاں مختلف رنگوں کے محلولوں کی بوتلیں اور جانے کیا کیا رکھا تھا۔ چراغ کی روشنی میں ہوشنگ اس کمرے کی ہر چیز کو غور سے دیکھنے لگا۔ بہت تلاش کرنے کے بعد اسے بالآخر ایک ایسی چیز مل گئی جو اس کے بہت کام آسکتی تھی۔
یہ ایک بہت پرانی سی کتاب تھی جس پر اس پراسرار شخص نے اپنی تیار کی ہوئی مختلف دوائیوں اور تجربات کے بارے میں لکھ رکھا تھا۔ ہوشنگ چراغ کی روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔ جوں جوں وہ اس کتاب کو پڑھتا گیا۔ اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے گئے۔ اس کیمیا گر نے تو بہت خطرناک اور بھیانک نسخے تیار کر رکھے تھے۔ ان نسخوں کے استعمال سے انسان جانوروں پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کی صورت میں تبدیل ہو جاتے یا ان کے چہروں اور جسموں کے مختلف حصے ان جیسے ہو جاتے۔ اس کتاب میں اس نے اپنے رزمک پر آزمائے جانے والے نسخے کے بارے میں بھی لکھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اس نسخے کا توڑ کس طرح ممکن تھا یعنی کس طرح بیل نما انسان کو اپنی اصلی حالت میں واپس لایا جاسکتا ہے۔
ہوشنگ کے لیے وہ کتاب بہت قیمتی تھی۔ اس نے اسے اپنی گٹھڑی میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس نے یہ کیا کہ صبح ہوتے ہی باہر جنگل سے ڈھیر ساری خشک گھاس پھونس اور لکڑیاں لاکر اس مکان کے گرد بچھا دیں اور اُنھیں آگ لگادی۔ اس پرانے اور ٹوٹے پھوٹے مکان نے فوراً ہی آگ پکڑلی اور دھڑا دھڑ جلنے لگا۔ اس مکان کو یوں جلتا دیکھ کر گاؤں کے لوگ دوڑے دوڑے اس طرف آنے لگے۔ یہ دیکھ کر ہوشنگ فوراً ہی وہاں سے چل دیا اور جنگل میں داخل ہوگیا۔ جنگل میں داخل ہو کر ہوشنگ تمام دن وہاں گھوم پھر کر وہ جڑی بوٹیاں اور پودے جمع کرتا رہا، جن کا اس کیمیا گر نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا تھا۔
شام ہونے کے قریب جب اس کے پاس مطلوبہ جڑی بوٹیاں جمع ہوگئیں تو وہ انھیں سنبھالے اسی پرانے اور ٹوٹے پھوٹے سے مکان میں چلا گیا، جہاں اصطبل میں اس نے انسانی ڈھانچہ پڑے دیکھا تھا۔وہ ڈھانچہ اب بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے اس کی کھوپڑی توڑ کر کاسہ سر الگ کرلیا اور باقی ڈھانچے اور ٹوٹی ہوئی کھوپڑی کو مکان کے باہر زمین کھود کر دفن کر دیا۔ اس کے بعد اس نے اس مکان کے ایک کمرے میں بکھرے گرد آلود برتنوں میں ایک کھلے منھ کا برتن لیا اور اسے اچھی طرح باہر بہنے والی ایک ندی کے پانی سے دھو کر اس میں ایک خاص مقدار میں جڑی بوٹیاں ڈال دیں۔ اس کے بعد اس نے اس میں اس کیمیا گر کے اس مخصوص کمرے سے حاصل کی ہوئی کچھ اور چیزیں بھی ڈالیں۔ پھر اس نے بہت سی لکڑیاں جلا کر ایک بڑا سا چولھا بنایا اور اس برتن کو اس چولھے پر چڑھا دیا۔ وہ برتن تمام رات چولھے پر چڑھا رہا۔ ہوشنگ اس میں مسلسل کفگیر کے طور پر درخت کی ایک شاخ ہلاتا رہا اور چولھے میں لکڑیاں جھونکتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہوتے ہوتے برتن میں ایک سیاہ رنگ کا گاڑھا گاڑھا سا محلول تیار ہوگیا۔ ہوشنگ نے اُسے ایک بوتل میں ڈالا اور بوتل کو اس ڈھانچے کے کاسہ سر کے ساتھ اپنی گٹھڑی میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس نے اس بدباطن کیمیا گر کی وہ کتاب جلتے ہوئے چولھے میں ڈال کر جلا دی۔
اس کے بعد وہ وہاں سے آگے روانہ ہو گیا۔ اب اس نے وہ دوا تیار کرلی تھی جسے پی کر رزمک اپنی اصلی صورت میں واپس آسکتا تھا۔ سلسلہ ہائے کوہ عبور کرنے کے بعد وہ تیزی سے اس جنگل کی طرف روانہ ہوگیا جہاں رزمک کی جھونپڑی واقع تھی۔ تمام رات سفر کرنے کے بعد جب صبح ہونے کے قریب ہوشنگ رزمک کی جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس نے اُسے جھونپڑی کے باہر بے چینی سے اپنا انتظار کرتے پایا۔
’’اب تم ٹھیک ہو جاؤ گے رزمک؟ ‘‘ہوشنگ نے دور سے چلا کر کہا،’’ میں وہ دوا لے آیا ہوں جسے پی کر تم دوبارہ عام انسانوں جیسے ہو جاؤ گے ۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ رزمک خوشی سے کپکپاتی آواز میں بولا۔’’ آہ! میں کس زبان سے تمھارا شکریہ ادا کروں۔ تم نے میرے لیے بڑی تکلیف اٹھائی ہے ۔‘‘
’’ہرگز نہیں ۔‘‘ہوشنگ بولا ،’’تم نہ بھی کہتے تب بھی میں تمھیں تمھاری اصلی حالت میں واپس لانے کے لیے ضرور کچھ کرتا۔‘‘
’’ تم واقعی ایک نیک دل اور بہادر لڑکے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور اس احسان کا اجر دے گا ۔‘‘ رزمک بولا۔’’ آؤ اندر چلیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ تم میرے گاؤں میں کب پہنچے؟ اس ملعون شخص کا کیا حال ہے؟ اور تم نے یہ دوا کیسے حاصل کی؟ ‘‘
’’ یہ دوا میں نے کہیں سے حاصل نہیں کی بلکہ خود بنائی ہے اور وہ شخص جس نے تمھیں یوں بیل نما انسان بنا دیا تھا، مرچکا ہے۔ اس کی لاش کا ڈھانچہ میں نے اس کے اس مکان میں پڑا پایا تھا، جس کے بارے میں تم نے مجھے بتایا تھا۔ میں نے اُسے وہیں زمین کھود کر دفن کر دیا ہے۔‘‘ ہوشنگ نے کہا۔
اس کے بعد اس نے رزمک کو اول تا آخر تمام حالات کہہ سنائے پھر اس نے اپنی گٹھڑی میں سے گاڑھے محلول والی بوتل نکال کر رزمک کو دکھائی اور اس کیمیاگر کی کھوپڑی کا کاسہ سر بھی نکال لیا۔
’’یہ دوائی پینے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے انسانی کھوپڑی کے کا سہ سر میں پیا جائے ۔‘‘ اس نے رزمک سے کہا:’’ اس کیمیا گر کی کتاب میں یہی ہدایت کی گئی ہے۔ بہ صورت دیگر یہ دوائی ہرگز اثر نہ کرے گی۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے بوتل کھول کر اس میں بھرا سیاہ رنگ کا گاڑھا محلول اس کا سہ سر میں انڈیلا اور رزمک کی طرف بڑھا دیا۔ رزمک اسے فوراً ہی آنکھیں بند کر کے پانی گیا۔ اس دوائی نے رزمک کے حلق سے نیچے اترتے ہی تیزی سے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے تو اس کے بیل جیسے چوڑے نتھنے سکڑنا شروع ہو گئے اور ان کی جگہ کھڑی ہڈی کی انسانی ناک نکل آئی۔ اس کے بعد اس کے سینگ ایک دم سرسے جھڑ کر زمین پر آگرے اور ان کی جگہ رزمک کے سر پر بال اُگ آئے۔ پھر اس کے بیل جیسے کھروں کی جگہ آہستہ آہستہ انسانی پاؤں نمودار ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا پھولا ہوا بھدا سا جسم بھی خوب صورت اور چھریرا انسانی جسم بن گیا۔ مکمل طور پر اپنی اصلی حالت میں واپس آتے ہی رزمک یہ کہتے ہوئے مسرت سے ہوشنگ سے لپٹ گیا۔’’ تمھارا میں انتہائی شکر گزار ہوں نیک دل لڑکے۔ تمھارا مجھ پر یہ ایک ایسا احسان ہے جو میں مرتے دم تک نہ بھول سکوں گا۔‘‘ وہ جذبات سے بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’نہیں اس میں احسان کی کوئی بات نہیں ۔‘‘ہوشنگ بولا، ’’تم اپنی اصلی حالت میں آگئے۔ یہ میرے لیے بھی بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہاں اب تم اپنے گاؤں کی راہ لو۔ تمھارے ماں باپ اتنے عرصے بعد تمھیں دیکھ کر کتنے خوش ہوں گے۔‘‘
’’ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ میں تمھیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائی سے ملاؤں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ تم نے کس طرح ایک بیل نماآدمی سے مجھے مکمل انسان بنایا۔ وہ تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘رزمک نے اصرار کیا۔
’’میں ضرور تمھارے ساتھ چلتا۔ تمھارے گھر والوں سے مل کر مجھے دلی مسرت ہوگی لیکن مجھے ابھی آگے سفر کرنا ہے اور یہ سفر بہت لمبا ہے۔ اس لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں کہ میں تمھارے ساتھ تمھارے گاؤں نہ جاسکوں گا۔ تم آرام سے اپنے گھر جاؤ تمھارے ماں باپ بہن بھائی بڑی شدت سے تمھارے منتظر ہوں گے ۔‘‘ہوشنگ نے کہا۔
ہر چند کہ رزمک نے اسے اپنے ساتھ لے چلنے پر بہت اصرار کیا، ہوشنگ نے اس کے ساتھ چلنے سے معذرت کردی۔ چناں چہ رزمک اُسے خدا حافظ کہہ کر اکیلا ہی اپنے گاؤں کی سمت روانہ ہو گیا۔ جب تک وہ ہوشنگ کو دکھائی دیتا رہا وہ برابر اُسے دیکھ کر ہاتھ ہلاتا رہا۔ پھر جب وہ بہت دور درختوں کے جھنڈ میں جاکر نظروں سے اوجھل ہو گیا تو ہوشنگ بھی اپنی راہ چل پڑا۔

پر اسرار سیپی
اس جنگل سے نکل کر ہوشنگ اس سمت روانہ ہو گیا جہاں دور ایک پہاڑی سلسلہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس پہاڑی سلسلے کی سمت مسلسل سفر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ دو دن رات گزرنے کے بعد وہ اس تک جا پہنچا ۔پہاڑی سلسلہ زیادہ لمبا چوڑا نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پہاڑ زیادہ بلند تھے لیکن وہاں اس کثرت سے ہرے بھرے درخت، پھول دار پودے اور گھاس اُگی ہوئی تھی کہ ہوشنگ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس پہاڑی سلسلے میں قدرتی چشموں، ندیوں نالوں کی بھی بہتات تھی جو اونچائی سے بہتے ہوئے دور نیچے ڈھلوانوں میں چلے گئے تھے۔ ہوشنگ کو وہ پہاڑی سلسلہ ایسا خوب صورت لگا اور پسند آیا کہ وہ کافی دیر تک اس کی سیر کرتا رہا۔ اس کے بعد وہ اس کے دوسری طرف اُتر گیا۔ دوسری طرف اس پہاڑی سلسلے کے دامن میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ اوپر پہاڑوں سے بہ کر آنے والے ندی نالوں کا پانی کچھ دور آگے چل کر ایک بڑے دریا کی صورت میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بہ رہا ہے۔ اس نے سوچا اسے اس دریا کے کنارے کنارے سفر کرنا چاہیے، ممکن ہے وہ کسی شہر یا قصبے میں جا پہنچے۔ یہ سوچ کر وہ اس تیز رفتار شور مچاتے دریا کے کنارے کنارے چل پڑا۔
ہوشنگ بڑی مستقل مزاجی سے اس کے کنارے کنارے سفر کرتا رہا۔ اس سفر کے دوران اس نے یہ عجیب بات دیکھی کہ اس دریا کے کنارے دور اور نزدیک کہیں بھی کوئی قصبہ یا شہر آباد نہ تھا۔ خانہ بدوشوں کے پڑاؤ بھی کہیں نہ دکھائی دیتے تھے۔ ہوشنگ کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی تھی۔
جب اُسے دریا کے کنارے کنارے سفر کرتے کئی ہفتے گزر گئے تو وہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچا جہاں وہ دریا ایک بڑی سی جھیل میں جاگرتا تھا۔ اس کا پانی گہرے نیلے رنگ کا تھا۔ اس کے کناروں پر دور دور تک ریت ہی ریت دکھائی دے رہی تھی۔ اکثر مقامات پر ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے کھڑے تھے۔ اس ریتلے ساحل سے ہٹ کر سرسبز و شاداب میدان آتا تھا۔ جس میں درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ اُگے ہوئے تھے۔ ہوشنگ کو وہ جگہ بہت پسند آئی۔ اس نے سوچا اُسے رات اس جگہ گزار لینی چاہیے۔ چناں چہ رات ہوتے ہی وہ ریت کے ایک بلند ٹیلے کے پیچھے ایک مناسب جگہ جا کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اس وقت آسمان پر چاند نکلا ہوا تھا اور اس کی چاندنی میں آس پاس کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ہوشنگ کی نظروں کے سامنے ریتلاساحل پھیلا ہوا تھا۔ جس کے آگے جھیل کا پانی چاند کی روشنی میں چمکتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس وقت جھیل کے پانی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ ہوشنگ کچھ دیر تک جھیل کا نظارہ کرتا رہا۔ پھر اُسے نیند آنے لگی اور جلد ہی وہ گہری نیند سو گیا۔
اسے سوئے تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک عجیب سے بھیانک شور سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا۔ جھیل کی سطح پر مسلسل بلبلے پیدا ہورہے ہیں اور اس مقام سے عجیب خوف ناک قسم کا شور اُٹھ رہا ہے۔ وہ ٹیلے کے سائے میں سمٹ گیا اور غور سے جھیل کی سطح پر پیدا ہونے والے ان بلبلوں کو دیکھنے لگا۔ وہ بلبلے آہستہ آہستہ ساحل کے قریب آتے گئے۔ ساتھ ہی اس شور کی آواز بھی بلند ہوتی گئی۔ پھر ایک دم ہی ایک بڑی سی سیپی جھیل کے پانی سے اچھل کر ساحل پر آگری۔ اس سیپی کی رنگت اور جسامت دیکھ کر ہوشنگ حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ سیپی چمک دار زرد رنگ کی تھی اور اس کی جسامت ایک بڑے سے کچھوے جتنی تھی۔ اس سیپی کا منھ آہستہ آہستہ کھل گیا۔ ہوشنگ کو اس میں سے کچھ بھی نکلتا نہ دکھائی دیا لیکن پھر ایک دم ہی بادلوں کی گرج جیسی آواز اس جگہ کی خاموش فضا میں گونج اٹھی۔
’’ آج بھی یہاں کوئی نہیں آیا۔ کوئی آدم زاد بھی نہیں آیا۔ جھیل کے تمام ساحل ویران پڑے ہیں۔ کہیں بھی کوئی جان دار نظر نہیں آرہا۔ جانے کب کوئی یہاں آکر مجھے اس منحوس سیپی کی قید سے چھڑائے گا ۔پچاس سال گزر چکے ہیں۔ اب تک کوئی بھی میری مدد کے لیے یہاں نہیں آیا۔ ہائے اس طرح تو مجھے کبھی اس سیپی کی قید سے رہائی نصیب نہ ہوگی اور میں اس قید میں ہی مر جاؤں گا۔ اپنے وطن سے دور… اپنے گھر سے دور… اپنے بیوی بچوں سے دور… آہ… کاش! کوئی اس طرف آنکلے …اور مجھے اس عذاب سے چھٹکارا دلا دے ۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہوشنگ کو ایسی آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے کوئی رو رہا ہو۔ وہ دم سادھے ان آوازوں کو سنتا رہا۔ اس کی نظریں اس پر اسرار سیپی پر جمی تھیں۔ اس کے دل میں اس نادیدہ ہستی کے لیے جو کچھ بھی وہ تھی، ہمدردی اور رحم کے جذبات پیدا ہورہے تھے۔ اس کی آہ و زاری نے اس کے دل پر عجیب سا اثر کیا تھا۔ اس نے سوچا اُسے چل کر دیکھنا چاہیے کہ وہ آخر کون ہے جو دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اس طرح رو رہا ہے؟ اسے کس قسم کی مدد درکار تھی، وہ اس سیپی میں کیوں قید تھا؟ یہ سوچ کر وہ ٹیلے کے سائے سے نکلا اور اس زرد رنگ کی چمک دار سیپی کی طرف گیا۔ اسی وقت وہ رونے جیسی پراسرار آوازیں ایک دم بند ہوگئیں اور بادلوں کی گرج جیسی ایک بھیانک آواز بلند ہوئی۔
’’اے لڑکے! اے آدم زاد! تو کون ہے؟ اور کہاں سے اس طرف آنکلا ہے؟‘‘
’’میں ایک سیاح ہوں۔ میرا نام ہوشنگ ہے۔ میں نئے نئے علاقوں اور ملکوں کی سیاحت کرتا ہوا یہاں آیا ہوں۔ میں نے ابھی تمھاری آہ و زاری سُنی ہے ،میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہوشنگ نے کہا۔
’’ لیکن تم تو ایک نو عمر لڑکے ہو۔ تم میری کیا مدد کر سکو گے؟ جب کہ یہ کام بہت مشکل ہے ۔‘‘ اس آواز نے کہا۔
’’میں مشکلات سے نہیں گھبراتا۔ میں ضرور تمھاری مدد کروں گا۔ تم مجھے بتاؤ تم کون ہو اور اس سیپی میں کیوں قید ہو؟ ‘‘ہوشنگ نے کہا۔
’’ میں تمھارا شکر گزار ہوں نیک دل لڑکے!‘‘اس گرج دار آواز میں اس بار نرمی تھی،’’ اتنے طویل عرصہ میں تم پہلے آدم زاد ہو جو میری مدد کے لیے یہاں پہنچے ہو۔ ورنہ یہاں سے تو میری قوم کے بھی کسی فرد کا گزر نہیں ہوا۔ ہاں آؤ۔ تم یہاں سیپی کے قریب بیٹھ جاؤ۔ میں تمھیں اپنی کہانی سناتا ہوں۔‘‘
’’لیکن تم مجھے نظر کیوں نہیں آرہے؟ کیا تم کوئی جن یا بھوت ہو ؟‘‘ہوشنگ نے پوچھا۔
’’نہیں۔ میں کوئی جن یا بھوت نہیں، لیکن میں ایک ایسی قوم کا فرد ضرور ہوں جو جنوں بھوتوں ہی کی طرح انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ہم انسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ہاں اب آؤ۔ تم یہاں اس سیپی کے پاس آکر بیٹھ جاؤ اور میری کہانی سنو۔‘‘ اس آواز نے کہا۔
ہوشنگ کچھ جھجکا پھر اس زرد چمک دارسیپی کے قریب ریت پر جاکر بیٹھ گیا۔
’’ میرا نام تا بال ہے ۔‘‘وہ آ وازکہنے لگی۔ وہ پہلے ہی کی طرح گرج دار تھی لیکن اس میں اب دھیما پن اور نرمی پیدا ہو چکی تھی۔
’’ اور جیسا کہ میں نے تمھیں بتایا ہے میرا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جو جنوں بھوتوں کی طرح انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ انسانوں کی طرح ہمارے بھی کئی ملک ہیں۔ جن پر مختلف بادشاہ حکومت کرتے ہیں لیکن ہم انسانوں کی طرح آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔ نہ ہم میں خون ریز جنگیں ہوتی ہیں۔ ہم امن اور صلح سے رہنے والی قوم ہیں۔ انسانوں کی طرح ہم میں بھی اچھے اور بُرے لوگ ضرور ہوتے ہیں لیکن یہ انسانوں کی طرح جذباتی اور انتہا پسند نہیں ہوتے۔
میں جس ملک کا باشندہ ہوں۔ وہ یہاں سے بہت دور کو ہستان قفقاز کے دوسری طرف میلوں کا سفر طے کرنے کے بعد ایک عظیم سلسلہ ہائے کوہ آراش عبور کرنے کے بعد آتا ہے۔ تمھیں وہاں پہنچتے پہنچتے بہت عرصہ لگ جائے گا، ممکن ہے سال دو سال لگ جائیں۔ اس ملک کا نام ارلاک ہے۔ وہاں میرے بیوی بچے ،ماں باپ، بہن بھائی سارا خاندان آباد ہے۔ ہم پر جو بادشاہ حکومت کرتا ہے اس کا نام ناران ہے۔ اس کا خاندان صدیوں سے ارلاک پر حکمران چلا آرہا ہے۔ ناران بادشاہ ایک رعایا پرور رحم دل اور انصاف پسند حکمران ہے۔ اس کے زیر حکمرانی ملک خوش حال اور رعایا فارغ البال ہے۔ اس کے تعلقات آس پاس کے ہم قوم ممالک کے حکمرانوں سے بھی نہایت اچھے ہیں۔
میں اسی نیک دل حکمراں ناران بادشاہ کا خزانچی تھا۔ اس سے پہلے میرا باپ شاہی خزانچی تھا۔ جب وہ بہت بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اب چوں کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا لہٰذا اُسے اپنی ملازمت سے سبک دوش کر دیا جائے اور اس کی جگہ اس کے بیٹے کو یعنی مجھے شاہی خزانچی بنا دیا جائے کیوں کہ میں بہت محنتی تھا۔ بڑا حساب دان تھا۔ دیانت دار اور فرض شناس تھا۔ بادشاہ نے میرے باپ کی یہ درخواست قبول کرلی اور اس کی جگہ مجھے شاہی خزانچی بنا دیا۔
جب تک میرا باپ شاہی خزانچی رہا۔ اس نے کبھی اپنے گھر میں یا اپنے دوستوں میں بادشاہ کے خزانے کا کوئی تذکرہ نہ کیا تھا بلکہ کسی کے اصرار پر بھی کبھی یہ نہ بتایا تھا کہ بادشاہ کے خزانے میں کیا کیا زر و جواہر تھے۔ کتنے سونے چاندی کے ڈھیر تھے۔ ان کی مالیت کتنی تھی۔ وہ اسے کسی مقدس راز کی طرح اپنے سینے میں محفوظ رکھتا تھا۔ میرے شاہی خزانچی بننے پر اس نے مجھے بھی یہی ہدایت کی کہ میں شاہی خزانے کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتاؤں۔ نہ خود کسی سے تذکرہ کروں نہ کسی کے اصرار پر کچھ بتاؤں بلکہ اسی کی طرح اس کے رازوں کی حفاظت کروں۔ میں نے اس سے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا۔
پھر جب مجھے شاہی خزانچی بنا دیا گیا اور شاہی خزانے کی کنجیاں میرے حوالے کی گئیں تو مجھے اس شاہی خزانے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خزانے کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔وہ خزانہ کیا تھا! زرو جواہر کے پہاڑ کے پہاڑ تھے جو ایک بہت بڑے غار میں سر اُٹھائے کھڑے تھے۔ ان میں ایسے ایسے ہیرے، نیلم، الماس، یا قوت اور دیگر جواہرات تھے جو کسی کو خواب میں بھی دکھائی نہ دے سکتے تھے۔ رنگا رنگ چھوٹے بڑے موتیوں کا تو جواب ہی نہ تھا۔ ان میں شاہی خاندان کے افراد کے مختلف قسم کے زیورات کے علاوہ بے شمار جڑاؤ تاج بھی تھے جنھیں خاص طور پر ایک الگ طاقچے پر سجایا گیا تھا۔ وہ تاج ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن ان میں ایک تاج ایسا تھا جس میں صرف یاقوت لگے ہوئے تھے۔ وہ یاقوت ایسے تھے اور اس طرح تراشے گئے تھے کہ ان پر نگاہیں نہ ٹھیرتی تھیں۔ وہ تاج سب سے خوب صورت اور قیمتی تھا۔ مجھے بھی وہ تاج بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس میں سامنے کی طرف جو ستارے کی شکل کا ایک بڑا سا یا قوت لگا تھا۔ اس نے تو خاص طور پر میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ میں اب یہ کرنے لگا کہ جب کبھی میں خزانے کا جائزہ لینے یا کسی کام کے لیے اس غار میں داخل ہوتا تھا تو اس طاقچے کے سامنے جاکر کافی دیر تک وہاں کھڑا اس تاج میں جڑے اس ستارے کی شکل والے خوب صورت اور بیش بہا یاقوت کو دیکھتا رہتا تھا اور اس کی خوب صورتی اور چمک دمک کو دل ہی دل میں سراہتا رہتا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ اس یاقوت کی کشش نے آہستہ آہستہ میرے دل میں اسے چُرا لینے کی خواہش ابھارنی شروع کر دی۔ میں نے اس شیطانی خواہش کو دبانے اور اُس سے چھٹکارا پانے کی بہت کوشش کی، لیکن خواہش بڑھتی ہی گئی اور میں ہر دم اُسے تاج سے نکال کر اپنے قبضے میں کرلینے کے لیے بے چین رہنے لگا۔ اس خوب صورت یاقوت کو حاصل کرنے کی اس شیطانی خواہش نے مجھے اس حد تک اندھا کر دیا کہ میں بھول ہی گیا کہ بادشاہ مجھ پر کتنا اعتماد کرتا ہے۔ اُسے میری دیانت داری اور وفاداری پر کتنا بھروسہ ہے۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ میرے باپ پر بادشاہ کو کیسا اعتماد اور بھروسہ ہوا کرتا تھا اور اس اعتماد پر ہی اس نے میرے باپ کی جگہ مجھے شاہی خزانچی بنانا منظور کیا تھا۔ میں اب کسی بات کے بارے میں نہ سوچ رہا تھا۔ مجھے نہ اپنے باپ کی عزت کی پروا رہی تھی، نہ بادشاہ کے اعتماد کی۔ نہ مجھے اس کا ڈر تھا کہ اپنی چوری کھل جانے کے بعد میرے خاندان کو کس ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور بادشاہ کس حد تک ہم پر غضب ناک ہوگا اور مجھے اس سنگین جرم پر کیا سزا دے گا۔
میں ہر قیمت پر وہ خوب صورت یاقوت اپنے قبضے میں کرنے کے لیے بے چین تھا۔ چناں چہ ایک دن میں نے اس خزانے والے غار میں اُتر کر بڑی مہارت سے اس ستارہ نما خوب صورت یا قوت کو تاج سے اکھاڑ لیا اور اُسے ایک محفوظ جگہ پر لاکر چھپا دیا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ مجھے ایسا کرتے ہوئے اس غار کے آہنی دروازے پر متعین ایک بوڑھے نگران نے دیکھ لیا۔ اس نے فوراً ہی بادشاہ کو جاکر خبر کر دی کہ میں نے اس کے ایک تاج میں سے سب سے بڑا یاقوت چوری کرلیا تھا۔ بادشاہ نے یہ اطلاح ملتے ہی میری گرفتاری کے لیے اپنے سپاہی میرے گھر بھیج دیے۔ جو مجھے پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لے گئے۔ بادشاہ نے مجھ سے سختی سے پوچھ گچھ کی کہ آخر میں نے اس کے خزانے میں چوری کیوں کی تھی جب کہ اس نے مجھے اس کا محافظ بنا رکھا تھا۔ میں نے اس چوری سے انکار کیا اور کہا کہ بوڑھے نگران کو سراسر غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس پر بادشاہ نے وہ تاج اپنے دربار میں منگوایا ۔
اس میںیا قوت غائب تھا۔ اسے اس بوڑھے نگران پر مکمل بھروسا تھا کہ وہ ہرگز مجھ پر جھوٹا الزام نہ لگا سکتا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ میں وہ یاقوت واپس کردوں ورنہ مجھے سخت سزا دی جائے گی۔ میں برابر چوری سے انکار کرتا رہا۔ اس پر بادشاہ نے اپنے خاص عامل کو بلوا بھیجا جس نے مختلف قسم کے عملیات کے بعد بادشاہ کو بتایا کہ میں ہی یاقوت کا چور ہوں۔ میں نے ہی اُسے تاج سے نکال کر کسی محفوظ جگہ پر چھیا دیا ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت غضب ناک ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ تجھے ایسی بھیانک سزا دی جائے جو اس سے پہلے اس ملک میں کسی کو نہیں دی گئی۔ چناں چہ اس کے حکم پر عاملوں نے مجھے اس سیپی میں بند کر دیا اور اسے اس جھیل کی تہ میں دبادیا۔ میں تمھیں بتا نہیں سکتا کہ اس سیپی کی قید میرے لیے کتنی اذیت ناک ہے۔
میرا دل اپنی رہائی کے لیے، اپنے وطن، اپنے گھر، اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے پاس جانے کے لیے کیسا تڑپتا رہتا ہے۔ مجھے اس سیپی میں قید ہوئے پچاس سال گزر چکے ہیں۔ میں ہر رات کو اس جھیل کی تہ سے نکل کر کنارے پر آتا ہوں کہ شاید مجھے کوئی ایسا انسان یا اپنا ہم قوم مل جائے۔ جسے میں اپنی کہانی سنا سکوں جس سے مدد کی درخواست کرسکوں لیکن اب تک سوائے تمھارے کوئی بھی اس طرف نہیں آیا۔‘‘
’’ تمھاری کہانی بہت افسوس ناک ہے تابال ۔‘‘ہوشنگ ہمدردانہ لہجے میں بولا ،’’تم مجھے بتاؤ کہ میں تمھاری کس طرح مدد کر سکتا ہوں ہے ؟‘‘
’’تمھاری ہمدردی اور مدد کے لیے میں تمھارا شکر گزار ہوں نیک دل لڑکے ۔‘‘تابال بولا ،’’تمھیں یہ کرنا ہے کہ میرے وطن جاکر وہ یاقوت اس کی محفوظ جگہ سے نکال کر بادشاہ کے حوالے کر دیناہے اور اس سے درخواست کرنی ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے اور اس منحوس سیپی کی قید سے آزاد کر دے۔ اتنے عرصے سے میں اپنی اس حرکت پرپچھتاتا اور نادم ہوتا رہا ہوں۔ میری اس حرکت نے جہاں اس نیک دل بادشاہ کو مجھ سے ناراض کیا ہے۔ وہاں میرے خاندان کو بھی ذلت اور رسوائی کا عذاب سہنا پڑا ہے۔‘‘
’’ ایسا ضرور ہوگا تابال۔ میں ہر قیمت پر تمھاری مدد کرنے کا تہیہ کر چکا ہوں۔ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے وہ یاقوت کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ ہوشنگ نے کہا۔
’’وہ یاقوت میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی دائیں ٹانگ میں چھپایا ہوا ہے۔ تم جب میرے وطن کے قریب پہنچو گے تو وہاں سوائے ایک وسیع و عریض میدان کے اور کچھ بھی نظر نہ آئے گا لیکن اسی میدان میں ہمارا ملک ارلاک واقع ہے۔ اس میں چھوٹی بڑی عمارتیں، مکانات، محلات، عبادت گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ باغات، کھیت، نہریں دریا بھی سب موجود ہیں۔ تم جب اس میدان میں داخل ہو گے تو تم وہاں میری قوم کے لوگوں کی صرف آوازیں ہی سن سکو گے۔ انھیں دیکھ نہ سکو گے۔ تم ان سے کہنا کہ وہ تمھیں میرے گھر پہنچا دیں۔ وہاں میرے ماں باپ بہن بھائی اور بیوی بچے سب اکٹھے رہتے ہیں۔ تم انھیں میری کہانی سنانا اور ان سے کہنا کہ میرے سب سے چھوٹے بیٹے کی دائیں ٹانگ میں سے وہ ستارہ نما یاقوت نکال کر تمھیں دے دیں۔ تم وہ یاقوت بادشاہ کو جاکر دے دینا اور اس سے میرے لیے معافی کے خواستگار ہونا۔ وہ بہت رحم دل اور نیک سیرت حکمراں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ تمھاری زبانی میری ندامت اور پشیمانی کی کہانی سُنے گا تو ضرور مجھے معاف کر دے گا۔‘‘ تابال نے کہا۔
’’ضرور ایسا ہی ہوگا تابال۔ بادشاہ ضرور تمھیں معاف کر دے گا۔پھر تم دوبارہ اپنے وطن میں اپنے خاندان کے ساتھ سکھ چین سے زندگی بسر کرنے لگو گے ۔‘‘ہوشنگ نے کہا۔
پھر وہ اپنی جگہ ہے اُٹھ گیا۔’’ اب میں چلتا ہوں۔ صبح ہونے ہی والی ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ کم سے کم عرصے میں تمھارے ملک میں پہنچ جاؤں۔‘‘
’’ خدا تمھارا حافظ و نگہبان ہو نیک دل ہوشنگ۔‘‘ تابال بولا۔ اس کی آواز فرط ممنونیت و تشکر سے کپکپا رہی تھی۔’’ تمھارا یہ احسان میں عمر بھر نہ بھولوں گا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی وہ زرد رنگ کی چمک دار سیپی بند ہوگئی اور تیزی سے گھومتی ہوئی اچھل کر جھیل کے پانی میں جاگری اور آناً فاناً ڈوب گئی۔ تابال اپنی سزا کاٹنے جھیل کی تہ میں پہنچ گیا تھا۔
ہوشنگ نے قریبی جنگل میں جاکر درختوں سے کچھ پھل وغیرہ توڑ کر کھائے۔ ایک ندی کا تازہ پانی پیا اور اپنی گٹھڑی کندھے پر لاد کر اللہ کا نام لے کر اس سمت چل پڑا جہاں تابال کا وطن واقع تھا۔ تابال کا وطن ارلاک واقعی بہت دور تھا۔ ہوشنگ کو سفر کرتے کرتے جانے کتنا عرصہ گزر گیا۔ اس طویل سفر کے دوران وہ بے شمار چھوٹے بڑے شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں سے گزرا۔ اس نے بے شمار ندیاں نالے اور دریا عبور کیے۔ سرسبز و شاداب میدان، ہرے بھرے جنگلات صحرا اور برف زار عبور کیے۔ پھر وہ سلسلہ ہائے کوہ قفقاز عبور کرکے دوسری طرف وسیع و عریض وادی میں جا نکلا اور اس سمت ہولیا جس کے بارے میں تابال نے اسے ہدایت دی تھی۔ اس وادی سے آگے کا سفر بہت طویل تھا۔ وہ مختلف میدان، جنگلات، دریا ندیاں نالے عبور کرتا رہا۔ اس کے اس سفر میں اس کے راستے میں اس بار بہت کم شہر اور دیہات آئے۔ پھر یہ ہوا کہ آخری دیہات سے گزرنے کے بعد اس کا سفر زیادہ تر ویرانوں اور پہاڑوں کو عبور کرنے میں کٹنے لگا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اب وہ بالآخر تابال کے ملک کے قریب پہنچتا جا رہا تھا۔
پھر بالآخر وہ عظیم سلسلہ ہائے کوہ بھی آن پہنچا۔ جس کے بارے میں تابال نے اُسے بتایا تھا کہ اُسے پار کرنے کے بعد اس کا ملک آتا تھا۔ اس سلسلہ ہائے کوہ کے پہاڑ بہت اونچے اور پھیلے پھیلے سے تھے۔ اُن کی چوٹیاں آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں میں غائب تھیں۔ ان پر برف جمی ہوئی تھی۔ جو دھوپ میں چمک رہی تھی۔ اس سلسلہ ہائے کوہ میں داخل ہوتے ہی ہوشنگ کو کچھ عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ہرگز اس سلسلہ ہائے کوہ کے پار نہ جائے۔ بلکہ اسی جگہ سے واپس لوٹ جائے، لیکن وہ تابال سے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کر چکا تھا اور بہت ہی لمبا سفر بھی کر چکا تھا۔ اس لیے اس کے لیے قریب آتی منزل سے واپس لوٹ جانا ممکن نہ تھا۔ وہ حوصلہ اور ہمت مجتمع کیے اس سلسلہ ہائے کوہ کو عبور کرنے لگا۔ اس کوشش میں کئی دن صرف ہو گئے۔ پھر جب وہ اس سلسلہ کوہ عبور کر کے دوسری طرف پہنچا تو اس نے اپنے سامنے گھنے جنگلات پھیلے دیکھے۔وہ ان میں داخل ہو گیا۔ ان جنگلات کی فضا اُسے عجیب پر اسرار سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اُسے آگے بڑھتے ہوئے ایک بار پھر شدید خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کچھ لوگ اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوئے اسے دیکھ رہے ہوں لیکن اسے سوائے پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہرنوں اور خرگوشوں جیسے جانوروں کے بولنے کی آوازوں کے اور کسی قسم کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ وہ بڑی ہمت اور استقلال سے تیز تیز چلتا ہوا جنگلات عبور کرتا رہا۔ ان جنگلات میں وہ کہیں بھی آرام کرنے یا دم لینے کے لیے نہ رُکا۔ اس طرح بغیر رکے چلتے چلتے وہ جنگلات سے نکل کر ایک وسیع و عریض میدان کے سامنے آگیا۔ یہ ویسا ہی میدان تھا جیسا کہ تابال نے اُسے بتایا تھا، لیکن وہ اتنا وسیع و عریض تھا کہ اس کی حدیں اُفق میں گم ہوتی دکھائی دیتی تھیں۔ اس میں کسی قسم کے ندیاں نالے درخت پودے نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ نہ ہی کہیں گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر کچھ ڈرتے کچھ ہچکچاتے اس میدان میں قدم رکھ دیا اور آہستہ آہستہ محتاط قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ معاً ایک بے حد بھیانک گرج دار آواز نے اس کے قدم روک لیے۔
’’ آدم زاد! تو یہاں کہاں آنکلا ہے! تو نہیں جانتا کہ یہ ہم لوگوں کا علاقہ ہے؟ جا واپس لوٹ جا۔ کہیں تجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔‘‘
ہوشنگ سمجھ گیا کہ وہ بالآخر تابال کے ملک میں داخل ہوچکا تھا اور اسے مخاطب کرنے والا تا بال ہی کا ہم قوم کوئی شخص تھا۔ اس نے نرمی سے کیا۔
’’ بھائی میں یہاں تابال کے گھر والوں سے ملنے آیا ہوں۔ کیا تم مجھ پر اتنی مہربانی کرو گے کہ مجھے وہاں ان تک پہنچا سکو۔‘‘
’’ تابال؟ اچھا وہ بادشاہ کا معتوب۔ اُسے تو سارا ملک جانتا ہے۔ اس نے بادشاہ کے خزانے میں چوری کی تھی۔ جس پر اُسے ملک بدر ہونے کی سزا ملی لیکن اس کے ماں باپ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں اور اس کے بہن بھائی بھی اس کا گھر چھوڑ گئے ہیں۔ اب اس کے گھر میں صرف اس کی بیوی اور بچے رہتے ہیں۔ آؤ میں تمھیں اُن کے پاس لے چلوں۔‘‘
اس گرج دار نے کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ وہ اتنا سرد تھا کہ ہوشنگ کپکپا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے ہوش ہوتے محسوس کیا۔ پھر جب اُسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ اسی لق وق چٹیل میدان میں کھڑا تھا۔ البتہ اُسے وہ جنگلات کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ جن میں سفر کرتا ہوا وہ اس میدان تک پہنچا تھا۔
’’یہ تمھارے سامنے تابال کا گھر ہے ۔‘‘ اسی گرج دار آواز نے کہا ،’’ تم اندر داخل ہو جاؤ۔ اندر تمھیں اس کی بیوی اور بچے مل جائیں گے۔ اب میں چلتا ہوں ۔‘‘
’’تمھارا بہت بہت شکریہ مہربان بھائی ۔‘‘ہوشنگ نے کہا اور محتاط قدموں ہے چلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے سوائے چٹیل میدان کے کچھ نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس نادیدہ مخلوق کی دُنیا میں کوئی چیز نہیں دیکھ سکتا تھا۔ نہ ان کی آپس کی باتیں اور آوازیں سُن سکتا تھا۔ اُسے ان کی صرف وہی آواز سنائی دے سکتی تھی جو اس سے خطاب کرتی ہو۔ وہ کچھ دیر ہی آگے چلا تھا کہ ایک دم ہی ایک گرج دار آواز نے اُسے اپنی جگہ پر روک دیا۔
’’اے آدم زاد! یہ تم کہاں منھ اٹھائے چلے آرہے ہو؟ تمھیں نہیں معلوم کہ یہ ہمارا گھر ہے۔ چلو نکلو یہاں ہے۔ ورنہ ہم تمھیں اس حرکت کی سخت سزا دیں گے ۔‘‘
’’میں تم لوگوں سے ہی ملنے کے لیے آیا ہوں مہربان لوگو؟ ‘‘ہوشنگ نے کہا،’’مجھے اس گھر کے مالک تابال نے تمھارے پاس بھیجا ہے ۔‘‘
’’تا بال نے؟‘‘ ایک اور گرج دار آواز اچانک گونج اٹھی۔ ہوشنگ نے محسوس کیا وہ آواز نسوانی تھی ۔
’’اے لڑکے!اے آدم زاد !تم نے کیا واقعی میرے شوہر سے ملاقات کی تھی؟ وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ اس نے تم سے کیا باتیں کی تھیں؟ ذرا مجھے بتاؤ۔‘‘
’’ بتاتا ہوں۔ میں آپ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ہی یہاں پہنچا ہوں۔ اب ان شاء اللہ آپ کے شوہر کو اپنی قید سے رہائی مل جائے گی اور وہ آپ کے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘ہوشنگ نے کہا۔
’’واقعی !‘‘ وہ گرج دار آواز مسرت سے بلند ہوئی۔’’ چلو اے نیک دل آدم زاد !اندر آجاؤ۔ اس طرف اپنے دائیں طرف چلو ۔‘‘
ہوشنگ دائیں طرف چلنے لگا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ گرج دار آواز پھر بلند ہوئی۔ ’’یہ ہماری نشست گاہ ہے۔ تم جوتے اتار کر آرام سے قالین پر بیٹھ جاؤ۔‘‘
ہوشنگ کو نہ وہ نشست گاہ دکھائی دے رہی تھی نہ قالین نہ کوئی چیز۔ اس کے چاروں طرف بس چٹیل میدان ہی پھیلا ہوا تھا۔ پھر بھی اس نے جوتے اتارے اور اس نادیدہ قالین پر بیٹھ گیا۔ یعنی ننگی زمین پر بیٹھ گیا۔
’’تم بہت تھکے ہوئے ہو گے تمھیں بھوک پیاس بھی لگ رہی ہوگی۔ اس لیے بہتر ہے پہلے تم کچھ کھا پی لو۔ اس کے بعد تم ہمیں اپنی کہانی سُنانا۔‘‘ اس گونجتی ہوئی نسوانی آواز نے کہا۔
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ شاید ہوشنگ کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں رکھی جارہی تھیں۔ پھر وہ آواز اس سے مخاطب ہوئی۔
’’ لو نیک دل لڑکے۔ اب کھاؤ پیو۔ تم اپنے سامنے رکھی جس چیز کو ہاتھ لگاؤ گے۔ وہ تمھارے سامنے ظاہر ہو جائے گی ۔‘‘
ہوشنگ نے احتیاط سے اپنے سامنے ہاتھ بڑھایا۔ اس کا ہاتھ زمین پر رکھے ایک برتن سے ٹکرا گیا۔ اس نے دیکھا وہ نیلے رنگ کی کسی عجیب سی دھات کا بنا ہوا بڑا سا گلاس تھا۔ جس میں گلابی رنگ کا کوئی مشروب بھرا تھا۔ ہوشنگ نے اُسے اُٹھاتے ہوئے اس کا ایک گھونٹ لیا۔ اُسے اس مشروب کا ذائقہ کچھ عجیب سا لیکن بہت فرخت بخش محسوس ہوا۔ اس نے فوراً ہی اُسے ختم کر ڈالا۔ اس کے بعد اس نے اپنے سامنے ہاتھ بڑھایا۔ اس کا ہاتھ لگتے ہی بڑے تھالوں میں سجے سیب، انار، انگور اور پھل اس کے سامنے ظاہر ہو گئے۔ وہ انہیں کھانے لگا۔ ان پھلوں کا مزہ انسانوں کی دنیا کے پھلوں سے مختلف قسم کا تھا لیکن ان کی مہک بہت عمدہ تھی۔
جب وہ کھانے پینے سے فارغ ہوچکا تو اس نے تابال کی بیوی اور بچوں کو اپنی کہانی سنائی کہ وہ کون تھا اور کس طرح سفر کرتا ہوا اس سمندر نما جھیل کی طرف جا نکلا تھا۔ جہاں اُسے وہ پراسرار سیپی ملی تھی جس میں تابال قید تھا۔ تابال نے اس کے ساتھ جو باتیں کی تھیں، وہ بھی اس نے اپنے میزبانوں کو سنائیں اور کہا:
’’تا بال نے وہ ستارہ نما یا قوت اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی دائیں ٹانگ میں چُھپا دیا تھا۔ اسی لیے کسی کو اس کے بارے میں پتہ نہ چل سکا۔ اگر آپ وہ یاقوت اس کی ٹانگ سے نکال کر مجھے دے دیں تو میں اُسے آپ کے بادشاہ کے حضور پیش کر دوں گا اور اس سے درخواست کروں گا کہ وہ تابال کا قصور معاف کر دے اور اسے اس تکلیف دہ قید سے رہائی دلاتے ہوئے آپ لوگوں کے پاس آنے کی اجازت دے دے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ نیک دل حکمران ضرور تا بال کو معاف کر دے گا۔‘‘
’’ حیرت ہے! تابال نے تو مجھ سے بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ اس نے وہ منحوس یاقوت حمدون کی ٹانگ میں چھپایا ہوا ہے۔ ٹھیرو میں تمھیں وہ اس کی ٹانگ سے نکال دیتی ہوں۔‘‘تابال کی بیوی کی آواز آئی۔
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر اس آواز نے کہا:
’’یہ لو نیک دل آدم زاد۔ یہ رہا وہ منحوس یاقوت۔ تم اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہو کہ اب تو وہ تابال کو معاف کردے۔ اُسے ہم سے جدا ہوئے پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں اس کے ماں باپ بھی فوت ہو گئے۔ بہن بھائی ادھر اُدھر نکل گئے۔ ہمیں تو اس کی گھر واپسی کی کوئی امید نہ رہی تھی لیکن تم نے آکر ہماری ڈھارس بندھا دی۔ اللہ تمھیں اس کا عظیم اجر دے گا۔ یہ یاقوت تمھارے سامنے ہی پڑا ہے۔ تم اسے چھوئو گے تو وہ تمھاری نظروں میں آجائے گا ۔‘‘
ہوشنگ نے اپنے سامنے ہاتھ بڑھایا۔ اس کا ہاتھ ایک ٹھوس سی چیز سے ٹکرا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ چیز اس کی نظروں میں آگئی۔ وہ ایک بہت خوب صورت اور انتہائی بیش بہا ستارے کی شکل کا یاقوت تھا جسے دیکھ کر ہوشنگ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے سوچا۔ اس یاقوت کو دیکھ کر ہر کسی کے دل میں اُسے چرانے کا خیال ضرور پیدا ہو سکتا تھا۔ اگر تابال نے اُسے چرا لیا تھاتو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اس نے وہ یاقوت اُٹھا کر احتیاط سے اپنے رومال میں باندھا اور اسے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ پھر اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔
’’ مجھے اب بادشاہ کے پاس چلنا چاہیے ۔‘‘اس نے کہا۔’’ آپ لوگوں میں سے اگر کوئی اس کے دربار تک میری رہ نمائی کر دے تو مہربانی ہوگی۔‘‘
’’ ہاں چلو میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں ۔‘‘ ایک گرج دار مردانہ آواز نے کہا ،’’ میں فرہوق ہوں۔ حمدون کا بڑا بھائی۔ میں تمھیں شاہی دربار تک لے چلتا ہوں۔ آگے تم خود اندر بادشاہ کے پاس چلے جانا۔‘‘
ہوشنگ نے جوتے پہنے اور فرہوق کی آواز کی رہ نمائی میں چلتا ہوا گھر سے باہر نکل کر بادشاہ کے محل کی سمت ہو لیا ۔
فرہوق چلتے ہوئے اُسے مسلسل بتاتا جارہا تھا کہ اس وقت وہ کہاں سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک شان دار رہائشی علاقہ تھا جہاں کھلے کھلے شان دار مکانات بنے ہوئے تھے۔ جن کے باہر خوب ہرے بھرے باغیچے لگے تھے۔ جب کہ ہوشنگ کو اپنے ہر طرف ویسا ہی لق دق چٹیل میدان دکھائی دے رہا تھا۔ پھر فرہوق کے کہنے کے مطابق وہ ایک بازار میں داخل ہوگئے۔ جہاں خوب رونق لگی تھی اور لوگ ایک آدم زاد کو یعنی ہوشنگ کو وہاں سے گزرتے دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہو رہے تھے۔ اس بازار کے بعد چند اور رہائشی علاقے آئے تھے۔ بادشاہ کا محل امرا کی شان دار کالونی میں ایک الگ تھلگ سی جگہ پر واقع تھا۔ فرہوق نے ہوشنگ کو بتایا کہ اس کا محل بے حد قیمتی پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ جس کے اندر کی ہر چیز بہت شان دار اور نفیس تھی۔ شاہ ارلاک، ناران بادشاہ اس وقت بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہت جلد تخت و تاج اپنے بڑے بیٹے شہزادہ حران کے حوالے کر کے خود گوشہ نشین ہو جائے گا۔ شہزادہ حران بھی اپنے باپ کی طرح بہت نیک دل اور شریف فطرت تھا۔ اُمید کی جاتی تھی کہ وہ بھی رعایاکے لیے ایک مثالی حکمران ثابت ہوگا۔
’’لواب ہم شاہی دربار کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔‘‘فرہوق نے کہا ،’’ تم یہیں ٹھیرو۔ میں باہر کھڑے محافظوں سے کہتا ہوں کہ وہ تمھیں اپنے ساتھ اندر بادشاہ کے حضور لے جائیں۔‘‘
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ ہوشنگ اپنی جگہ کھڑا اپنے گرد و پیش پھیلے ویران و سنسان چٹیل میدان کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے فرہوق کی آواز سنی۔
’’چلو اب تم آگے بڑھو۔ یہ محافظ تمھیں اپنے ساتھ اندر بادشاہ کے حضور لے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمھیں کام یاب کرے ۔‘‘
ہوشنگ آگے بڑھا۔ چند قدم آگے بڑھتے ہی اُسے ایک گرج دار آواز سنائی دی۔
’’ اے آدم زاد! اپنے جوتے یہاں اُتار دو۔ تم اب شاہی دربار میں داخل ہورہے ہو ۔‘‘
ہوشنگ نے اپنے جوتے اتارے اور آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور آگے جاتے ہی وہ گرج دار آواز پھر بلند ہوئی۔
’’ اے آدم زاد۔ رک جاؤ۔ تم ہمارے عظیم المرتبت شہنشاہ کے سامنے پہنچ چکے ہو۔ تمھیں اُن سے جو کچھ کہنا ہے کہو ۔‘‘
ہوشنگ نے اس نادیدہ حکمران کو نہایت ادب و احترام سے جھک کر تعظیم اور بولا:
’’ اے عظیم المرتبت شہنشاہ۔ اے نیک دل حکمران! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے بہت دور سے سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ آپ کی رحم دلی، انصاف پسندی، رعایا پروری اور خدا ترسی کو دیکھتے ہوئے میں امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور مجھے پر نظر کرم فرمائیں گے اور اپنے دربار عالی سے ہرگز مجھے مایوس نہیں لوٹائیں گے ۔‘‘
’’ آدم زاد!‘‘ اس کے سامنے ایک بے حد بارعب اور پُر وقار گونج دار آواز بلند ہوئی۔ ’’تم جو کوئی بھی ہو بہت بہادر اور بلند حوصلہ لڑکے ہو جو ہمارے حضور پیش ہو کر ہم سے دادرسی چاہنے کے لیے اتنا طویل اور پر صعوبت سفر کر کے ایک ایسے علاقے میں آن پہنچے ہو جہاں کبھی کسی آدم زاد نے قدم رکھنے کی جرات نہیں کی۔ تمھاری یہ بہادری اور بے خوفی ہمیں پسند آئی ہے، لیکن اپنا معاملہ ہمارے حضور پیش کرنے سے پہلے تم ہمیں کچھ اپنے بارے میں بتاؤ۔‘‘
اس پر ہوشنگ نے اُسے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہے کس غرض سے اپنے گھر سے نکلا ہوا ہے اور اب تک کیسی کیسی مہمات انجام دے چکا ہے۔ اس کے بعد اس نے اسے اپنی تابال سے ملاقات کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ وہ اس کی مدد کرنے کے ارادے سے وہاں پہنچا تھا۔
’’ تابال اپنے کیے پر بہت نادم اور پشیمان ہے شہنشاہ معظم !‘‘ اس نے کیا۔’’ اس نے مجھے اس چوری کے یاقوت کا پتا بتاتے ہوئے مجھے سے درخواست کی تھی کہ میں اُسے اس کی خفیہ جگہ سے نکال اسے آپ کے حضور پیش کردوں۔ میں اُسے اپنے ساتھ لایا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس میں سے ستارہ نما یا قوت نکال کر بادشاہ کو پیش کردیا۔
’’ آہا! یہ تو وہی یاقوت ہے بلاشبہ ۔‘‘بادشاہ کی بارعب اور پروقار گرج دار آواز بلند ہوئی۔’’ ہم تم سے ہرگز یہ نہیں پوچھیں گے کہ تابال نے اُسے کہاں چھپا رکھا تھا۔ اسے اپنی حرکت پر جو پشیمانی اور ندامت ہے۔ یہی اس کے لیے کافی سزا ہے۔ اب ہم حکم دیتے ہیں کہ اسے اس تکلیف دہ قید سے رہا کر دیا جائے۔ تاکہ وہ وطن واپس آکر دوبارہ آرام سے اپنے گھر، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے لگے۔ ہم اُسے دوبارہ شاہی خزانچی بنا دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے تمام فرائض دیانت دارانہ طور پر اور پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دے گا اور اے بہادر آدم زاد! آفرین تم پر کہ تم نے اپنے ہم نسلوں سے ایک قطعی مختلف قوم کے ایک فرد کے لیے اتنی تکلیفیں اور مصائب جھیلے۔ ہماری رعایا کے ایک فرد پرتمھارا یہ احسان خود ہم پر احسان ہے۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ تم جو کچھ ہم سے طلب کرو گے ہم دیں گے۔‘‘
’’ شہنشاہ معظم کا اقبال بلند رہے۔ ‘‘ہوشنگ بولا ،’’میں نے جو کیا ہے وہ صرف جذبہ ہمدردی کے تحت کیا ہے۔ کسی انعام یا صلے کے لالچ میں نہیں کیا۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عظیم المرتبت شہنشاہ نے تابال کا قصور معاف فرما دیا اور اسے اپنے سابقہ معزز مقام پر بحال فرما دیا اور اس پر اظہار اعتماد فرما دیا۔‘‘
’’نہیں! ‘‘بادشاہ کی آواز گونجی۔’’ تم نے جو کچھ کیا ہے اس کا تمھیں ضرور صلہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد میں اپنے آدمیوں سے کہوں گا وہ تمھیں جہاں تم کہو چھوڑ آئیں۔ ایک بہادر بلند حوصلہ اور نیک آدم زاد کی حیثیت سے تم ہمیں ہمیشہ یاد رہو گے ۔‘‘
’’یہ شہنشاہ معظم کی بے پناہ مہربانی ہے۔ ‘‘ہوشنگ نے مودبانہ کہا۔
اسی وقت سرد ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا ۔ہوشنگ کپکپا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ پھر جب اُسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک بڑے سے دریا کے کنارے کھڑا تھا۔ اس کے سامنے گھنے جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ اسی وقت اس کے قریب ایک بھیانک کی گرج دار آواز بلند ہوئی۔
’’ہم تمھیں اپنے ملک سے باہر انسانوں کی دنیا میں لے آئے ہیں آدم زاد۔ تم جہاں کہیں جانا چاہو گے۔ ہم تمھیں وہاں پہنچا دیں گے۔بتاؤ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ ‘‘
’’تمھارا بہت بہت شکریہ نیک دل لوگو !‘‘ہوشنگ نے کہا،’’میں تم سے صرف اتنا ہی چاہتا ہوں کہ تم مجھے کوہستان قفقاز کے دوسری طرف پہنچا دو۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ہم تمھیں وہاں پہنچا دیتے ہیں۔‘‘ اس آواز نے کہا۔
اس کے بعد ایک بار پھر ہوشنگ کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے بے ہوش کر دیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو اس وسیع وادی میں کھڑے پایا۔ جسے وہ پہلے عبور کرکے کوہستان قفقاز کی طرف روانہ ہواتھا۔ اسی وقت اس گرج دار آواز نے اسے مخاطب کیا:
’’ہم نے تمہیں قفقاز کے دوسری طرف پہنچا دیا ہے آدم زاد !اب ہم جاتے ہیں۔ یہ ہمارے عالی مرتبت بادشاہ کی طرف سے تمھارے لیے ایک تحفہ ہے۔ اُسے ہم تمھارے پاس ہی زمین پر رکھ رہے ہیں۔ تم اُسے ہاتھ لگاؤ گے تو یہ تمھارے سامنے ظاہر ہو جائے گا۔ خدا حافظ۔‘‘
ہوشنگ نے زمین پر بیٹھتے ہوئے ہاتھ سے ادھر اُدھر ٹٹولا ۔کچھ دیر تلاش کے بعد اس کا ہاتھ ایک بڑے سے پتھر پر رکھی کسی دھات کی چیز سے ٹکرایا۔ اس کا ہاتھ لگتے ہی وہ چیز فوراً ظاہر ہوگئی۔ وہ ایک بڑا سا صندوقچہ تھا جو مضبوطی سے بند تھا۔ ہوشنگ نے اسے اُٹھا لیا اور ایک جگہ بیٹھ کر اُسے کھولا۔ دوسرے ہی لمحے اُسے اپنی آنکھیں خیرہ ہوتی محسوس ہوئیں۔ وہ صندوقچہ ہیرے جواہرات، موتیوں اور سونے کے سکوںسے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے اس صندوقچے کو مقفل کیا اور اُسے اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا۔ اور تیزی سے ایک سمت روانہ ہوگیا۔

گھر واپسی
کئی دنوں کئی راتوں تک ہوشنگ اس وادی میں مسلسل سفر کرتا رہا۔ پھر وہ بالآخر ایک گاؤں میں جا پہنچا۔ اس کے قریب تجارتی کاروانوں کا راستہ گزرتا تھا۔ کچھ روز تک اس گاؤں کی سرائے میں قیام کرنے کے بعد ہوشنگ وہاں سے گزرنے والے ایک تجارتی قافلے میں شامل ہو گیا اور اس کاروانی راستے پر چل پڑا۔ قافلے والوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ وادی فرات کے شہروں کی طرف جارہے تھے۔ وادی فرات ہوشنگ کے وطن فارس سے زیادہ دور نہ تھی۔ اس لیے ہوشنگ نے سوچا تھا کہ وہ وادی فرات پہنچ کر پھر اپنے وطن روانہ ہو جائے گا۔
اسے اپنا آبائی گاؤں پارس گرد چھوڑے ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ بے شمار علاقوں، ملکوں شہروں کی سیر کر چکا تھا۔ ہر تہذیب ہر تمدن کا مطالعہ کر چکا تھا۔ نت نئے انسانوں سے مل چکا تھا۔ کئی حیرت انگیز کارنامے انجام دے چکا تھا۔ اس سیاحت اور مہم جوئی نے اب اسے بے حد تھکا ڈالا تھا۔ اتنے طویل عرصے سے اپنے وطن سے دور رہتے ہوئے اُسے اپنے وطن کی یاد بھی بہت ستانے لگی تھی۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب اسے اپنے وطن لوٹ چلنا چاہیے اور باقی عمر آرام سے اپنے گھر میں رہتے ہوئے گزارنی چاہیے۔
اس کاروانی راستے پر سفر کرتے کرتے جب وہ تجارتی قافلہ وادی فرات میں داخل ہوا تو ہوشنگ اس سے الگ ہوکر اپنے وطن فارس کی طرف روانہ ہوگیا۔ جس کی سرحدیں وہاں سے کچھ زیادہ دور نہ تھیں۔ کئی دنوں کے مسلسل سفر کے بعد بالآخر اپنے وطن پہنچ کر اُسے بے پناہ خوشی اور مسرت ہوئی۔ پھر جب وہ پارس گرد پہنچا تو اس کے جوش و مسرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کا گاؤں اب بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ وہ اُسے چھوڑ کر گیا تھا۔ وہاں اسی طرح تھوڑے سے مکانات اور کھیت تھے۔ وہی ندیاں نالے تھے۔ اتنے عرصے میں اس گائوں میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ البتہ جن لوگوں کو وہ جوان چھوڑ کر گیا تھا وہ بوڑھے ہو چکے تھے جو بوڑھے تھے وہ وفات پاچکے تھے اور اس کی عمر کے بچے اب جوان ہو چکے تھے۔
اتنے طویل عرصے بعد واپسی پر گاؤں والوں نے ہوشنگ کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ ہوشنگ چوں کہ گاؤں سے جاتے وقت اپنا مکان زمینیں سب فروخت کر گیا تھا۔ چناں چہ وہ وہاں سرائے میں ٹھہر گیا۔ وہاں ہر روز گاؤں والے اس سے ملنے آتے تھے جنھیں وہ اپنی سیاحتوں اور مہمات کے قصے سناتا تھا۔ جسے سن سن کر وہ انتہائی حیرت زدہ ہوتے تھے اور اس پر اظہار فخر کرتے تھے۔
چند دنوں تک سرائے میں قیام کرنے کے بعد ہوشنگ نے شاہ ارلاک کی دی ہوئی سونے کی اشرفیوں سے پارس گرد میں زمینیں خریدیں اور اپنے لیے ایک عالی شان گھر تعمیر کروالیا۔ گاؤں والے اس کی بہت عزت اور توقیر کرتے تھے۔ اس کے بہادرانہ کارناموں کے سبب اُسے ہیرو کا درجہ دیتے تھے اور بڑے فخر سے باہر کے لوگوں کو اس کے کارنامے سُناتے تھے۔
٭٭٭
(ختم شد)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top