تو شاہین ہے
فریدہ گوہر
۔۔۔۔۔
آج پھر گھر میں کھانا نہیں بنا تھا۔عدنان محلے کے بچوں کے ساتھ کھیل کر گھر آیا تو اسے سخت بھوک لگ رہی تھی اور گھر میں کھانا نہیں بنا تھا۔محلے سے گزرتے ہوئے گھروں سے کھانوں کی خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔اس خوشبو سے اس کی بھوک اور بھی تیز ہو گئی تھی۔بریانی اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو نے اسے پاگل کر دیا تھا۔
آج بھی جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اونچی آواز میں وہی پرانی بحث ہو رہی تھی جسے سن سن کروہ اتنا بڑا ہوگیا تھا۔عادل اور رخسانہ گھر کے کونوں کھدروں میں سہمے بیٹھے تھے۔ افلاس زدہ اور فاقوں کا شکار گھرانوں میں اکثرتو تکرار معمول بن جاتی ہے۔عدنان کا خاندان بھی اسی طرح کی صورت حال سے گزر رہا تھا۔
عموماً اس طرح کی بحث وتکرارکے تھوڑی دیر بعد گھر میں سناٹا چھا جاتا۔ابو گھر سے باہر چلے جاتے اور امی کی سسکیوں کی آوازیں گھر بھر میں دہائی دے رہی ہوتیں۔تینوں بچے کمرے کے ایک کونے میں یا برآمدے میں چارپائی پر ایک دوسرے کے اندر گھس کر بیٹھ جاتے، تسلی بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے۔وہ ایک دوسرے کو کس بات کی تسلی دے رہے ہوتے، یہ بات آج تک وہ خود بھی نہیں سمجھ پائے تھے۔ان کا کیا قصور تھا،ننھے ذہن سوچنے سے قاصر تھے۔ننھی رخسانہ منہ بسورنے لگتی، کبھی کبھی روبھی پڑتی، اسے بھی بھوک لگی ہوتی۔”بھیا بھوک لگی ہے۔“ وہ عدنان کے کندھے سے لگ کر کہتی۔آج بھی کچھ ایسے ہی ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔
عدنان سخت پریشان تھا۔اس نے اپنے دوست کے ابو کا پیغام اپنے ابو کو دیا کہ ایک ریٹائرڈ کرنل سے مل لیں شاید وہ آپ کی کوئی مدد کر سکیں۔عدنان کو یقین نہیں آیا جب ابو نے حامی بھر لی۔ورنہ ابو تو بہت غصے میں تھے۔
”دین محمد تم کیا کرتے ہو؟“کرنل صاحب نے پوچھا۔دین محمد اور اس کا بیٹا عدنان کرنل صاحب سے نوکری کے سلسلے میں ملنے آئے تھے۔ عدنان چھٹی کلاس میں ایک گورنمنٹ سکول میں پڑھنے جاتا تھا۔
”جی محنت مزدوری کرتا ہوں۔ کبھی مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔“دین محمد نے جواب دیا۔
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کرنل صاحب نے کہا:
”ٹھیک ہے دین محمد، محنت کیا کرو،اللہ رزق میں برکت ڈالنے والا ہے…… اور ہاں اپنے بیٹے عدنان کو اتوار کے اتوار یہاں بھیج دیا کرنا۔ یہ مجھے اخبار پڑھ کر سنا دیا کرے گا۔ میری نظر کمزور ہے۔میں اخبار ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتا۔ کچھ آرٹیکلز پڑھنے ہوتے ہیں مجھے۔“ ریٹائرڈ کرنل صاحب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”جی، ٹھیک ہے آپ جیسا کہیں۔“ دین محمد نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا اور رخصت چاہی۔
ا گر عدنان دن کے دو گھنٹے بھی یہاں گزار لیتا ہے تو یہ اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہوگی۔کرنل صاحب کی لمبی چوڑی کوٹھی کے بڑے سے لان میں کھڑا ہونا اسے بھی اچھا لگ رہا تھا،لیکن وہ یہاں ہمیشہ تو نہیں آسکتا تھا۔ بس خدا حافظ کہہ کر وہ واپس گھر آ گئے۔گھر آکر عدنان نے امی کو ساری باتوں سے آگاہ کیا۔امی خوش اور مطمئن تھیں۔سارا دن کرنل صاحب کا لمبا چوڑا لان اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔وہ صحن میں آکر بیٹھ گیا۔ گھر کا صحن اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا۔تصور ہی تصور میں اس نے گھر کے صحن میں ڈھیروں پھول کھلا دئیے۔اپنا گھر تو ہر ایک کو پیارا ہوتا ہے۔اس گھر میں وہ اپنے ابو امی اور بہن بھائی کے ساتھ رہتا ہے اور یہ ان کی اپنی ملکیت تھا۔ کرایہ نہیں دینا پڑتا تھا۔
”بیٹا عدنان خالہ کے ہاں سے پودینہ تو توڑ لاؤ،میں چٹنی بنا لوں،تمہیں بھوک لگی ہو گی۔“
امی نے کچن سے آواز لگائی اور وہ خالہ کے گھر کی طرف پودینہ لینے چل پڑا۔خالہ کے صحن میں اچھی خاصی سبزی لگی ہوئی تھی اس نے خالہ سے اجازت لے کر پودینہ تو ڑ لیا۔ لیکن اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا کہ کیا میں اپنے گھر کے صحن میں ایسی ہی سبزیاں لگا لوں تو کیسا رہے گا۔
گھر آ کر اس نے کیاریاں بنانے کے لیے نشان لگائے۔ہمسایوں سے ’کسی‘لے آیا اور زمین کی کھدائی کر کے کیاریاں تیار کیں۔ باڑے سے گوبر لا کر اس کی کھاد تیار کی اور کیاریوں میں ڈالی۔خالہ کے گھر سے پودینے کی جڑیں لا کر لگا دیں۔خالہ نے اس کی کیاریوں کی تعریف کی، اسے موسمی سبزیوں کے بیج بھی دیے۔ اس نے وہ بیج لا کر کیاریوں میں ڈالے اور پانی لگایا۔اس نے امی کو بھی کام میں اپنے ساتھ لگائے رکھا۔ اس کی امی کو پورا یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا ئیں گے، نہ ادھار لیں گے۔ رزق حلال محنت سے کمائیں گے۔ عدنان نے بھی امی کو سختی سے کہا ہوا تھا کہ وہ گھر میں آنے والے پیسوں کو احتیاط سے خرچ کیا کریں۔جو بھی خرچ کریں اسے لکھ لیں،آمدنی کا بھی لکھیں کہ کس دن کتنے پیسے کہاں سے آئے۔اس طرح انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ انہیں اپنی گزر بسر کے لیے کتنے پیسوں کی روزانہ ضرورت پڑتی ہے۔ اسی میں گزارا کرنا ہے اور صبر سے کام لینا ہے۔کہنے لگا:
”اب ہم نے کیاریاں بنانے اور سبزی لگانے میں جتنا خرچ کیا ہے، وہ جلد وصول کر لیں گے۔ان شا ء اللہ۔“
امی نے بھی مسکراتے ہوئے کہا:”ان شاء اللہ!“
اب عدنان کی مصروفیت بڑھ گئی تھی۔ وہ اپنے گھرمیں سکون لانا چاہتا تھا۔صبح سکول جاتا، سکول سے واپسی پر محلہ کی مسجد میں قرآن پاک پڑھنے جاتا، وہ اپنے چھوٹے بھائی عادل کو ساتھ لے جاتا تھا۔وہ قرآن پاک مولوی صاحب کوحفظ سنایا کرتا تھا اور عادل قرآن ناظرہ پڑھا کرتا تھا۔اور پھر وہ کھیلنے گراؤنڈ میں چلے جاتے تھے۔ اب وہ کھیلنے کے بجائے گھر پر امی کے پاس وقت گزارنے لگے۔اس نے محسوس کیا کہ امی اس کے ساتھ رہتے ہوئے خوش رہتی ہیں جیسے انہیں ان کا ساتھ چاہئے اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارتے۔ مغرب کی نماز مسجد میں پڑھ کر جب وہ گھر آتے تو بہن بھائی کو پڑھانے بیٹھ جاتا۔وہ رخسانہ اور عادل کا بہت خیال رکھتا تھا۔وہ انہیں سمجھاتا، گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کی نصیحت کرتا، انہیں اپنا کردار ادا کرنے کا کہتا۔گھر کے چھوٹے چھوٹے کام اس نے دونوں میں تقسیم کر رکھے تھے،ان کے بارے میں پوچھتا اور مناسب درستگی کرتا۔جہاں شاباش دینے کی ضرورت ہوتی، وہ شاباش ضرور دیتا،ان کے اس طرح مل جل کر رہنے سے امی ابو بہت خوش ہوتے۔ اب وہ لڑتے بھی کم تھے۔یہ بات ان کے لیے بڑی ہی تسلی بخش تھی۔
چھٹی والے دن عدنان کرنل صاحب کے گھر جاتا۔وہ اس کے پاس لان میں ایک سٹول پر بیٹھ جاتا اور اخبار پڑھ کر کرنل صاحب کو سنایا کرتا تھا۔ پہلے پہلے تو وہ اخبار پڑھنے میں اتنا اچھا نہیں تھا۔بار بار اٹک جاتا تھا۔لیکن جلد ہی کرنل صاحب کی طرف سے درستگی کروانے پر وہ بہتر ہوتا جا رہا تھا۔پہلے اسے اخبار پڑھنے کا بالکل پتہ نہیں تھا، نہ ہی اسے اس میں دلچسپی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وہ اخبار پڑھ کرسناتا جا رہا تھا۔ اس کی اپنی معلومات میں اضافہ ہو رہا تھا۔
کرنل صاحب کی نظر کمزور تھی، اس لیے وہ اخبار زیادہ دیر تک نہیں پڑھ سکتے تھے اور بہرہ پن بھی تھا،کان میں آلہ لگا کر سنا کرتے تھے۔وہ جتنی دیر ان کے پاس رہتا، ان کی دیکھ بھال میں وقت گزار دیتا، ان کا اخبار سنبھال کر رکھتا، ان کی عینک، ان کے کان کا آلہ، چیک کرتا کہ درست کام کر رہا ہے۔ انہیں پیاس لگتی تو پانی پلا دیتا۔
’روشانے‘ کرنل صاحب کی دس سالہ پوتی تھی اور ان کے دو پوتے عبداللہ سات سال کا اور عبدالرحمن پانچ سال کا تھا۔وہ بھی کبھی کبھی لان میں آکر اپنے دادا ابو کے پاس آ کر بیٹھ جاتے اور کھیلنے لگتے۔ان کی دادی،کرنل صاحب کی بیگم ایک نفیس خاتون تھیں،نماز سے فارغ ہو کر تسبیح لے کر گھڑی دو گھڑی کے لیے ان کے پاس آبیٹھتی تھیں۔عدنان کو ان سب کا مل جل کر رہنا اور پر وقار انداز سے بات کرنا پسند آیا۔وہ بہت آہستگی سے بات کرتے۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے اورنماز کی پابندی کرتے۔
عدنان نے معصومیت سے کرنل صاحب سے بھی کہہ دیا کہ مجھے آپ کے گھر میں ایک دوسرے کے لیے ادب و احترام بہت اچھا لگتا ہے۔اس پر انہوں نے اسے ایک کتاب دی کہ تم اسے پڑھنا۔عدنان وہ کتاب گھر لے آیا۔رات کو وہ سب کاموں سے فارغ ہو ا اور پڑھنے کے لیے کتاب کھولی۔یہ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی ﷺ تھی۔اس نے یہ کتاب پہلی بار دیکھی تھی۔
عدنان ساری باتیں گھر آکر بتایا کرتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ اس کے گھر میں بھی ایسا ہی ماحول ہو۔لیکن پھر بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ گھر کے ماحول میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو جاتی۔وہ آپس میں لڑ پڑتے۔
اس دن خالہ اپنے چاروں بچوں کے ساتھ آ گئیں۔خوشی تو بہت ہوئی لیکن گھر میں پکانے کو کچھ نہیں تھا۔امی پریشان پھر رہی تھیں۔ وہ اپنی بہن پر یہ ظاہر بھی نہیں کرنا چاہ رہی تھیں۔کونے کھدرے میں ہر جگہ انہوں نے دیکھ لیا کہ شاید کوئی بھولے بسرے رکھے پیسے مل جائیں اور وہ کچھ پکانے کو منگوا لیں۔لیکن کچھ بھی نہ ملا۔
”رخسانہ میری بات سنو!“ عدنان نے رخسانہ کو بلایا۔
”اگر تم اپنے چوزے امی کو دے دو تو وہ اس کا شوربے والا سالن بنا کر سب کو کھلا دیں گی تو ان کی پریشانی دور ہو جائے گی۔“ عدنان نے کہا اور رخسانہ کا ردِ عمل دیکھنے لگا۔دو مہینے پہلے یہ چوزے اسی نے اسے لا کر دیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ اسے کھیلنے کو ایک کھیل جومل گیا تھا۔وہ ہر وقت ان کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔کبھی انہیں دانہ کھلا رہی ہے۔کبھی انہیں صحن میں لیے بیٹھی ہے کہ وہاں سے انہیں جو کچھ ملے، کھا لیں۔ چوزے کیڑے مکوڑے کھا لیا کرتے تھے۔ کچن کے کوڑے کو تو وہ اپنے پنجے مار مار کر کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے نکال ہی لیتے تھے۔ رخسانہ اپنے حصے کی روٹی کے ٹکرے باریک باریک کر کے انہیں کھلاتی تھی۔دستر خوان میں کوئی روٹی بیکار نہ جاتی تھی۔ اسے ان سے بہت پیار تھا۔رخسانہ سوچ میں پڑ گئی۔
”کیا سوچ رہی ہو؟“ عدنان نے اسے شانے سے پکڑ کر ہلایا۔
”نہیں امی سے مجھے زیادہ پیار ہے۔یہ لے لو۔ا سے ذبح کراؤ اور سالن بنوا لو۔“رخسانہ نے چوزہ عدنان کو دے دیا۔
”شاباش مجھے تم سے یہی توقع تھی۔میں جلد ہی تمہیں اور چوزے لا کر دوں گا۔“ عدنان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
اس دن سالن بہت اچھا بنا تھا۔ سب نے مل کر کھایا تھا اور اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔اسی دن شام کو ابو آئے تو ان کے ہاتھ میں آج کی دیہاڑی کے پیسے تھے۔سب خوش تھے۔امی نے انہیں کھانا دیا۔ آج کی ساری بات انہیں سنائی تووہ بھی خوش تھے۔ان کے کھانے کے بعد امی نے ہانڈی میں ہی کھانا شروع کر دیا۔انہیں بہت بھوک لگی ہوئی تھی خوشبو سونگھ سونگھ کر تو بھوک اور بھی زیادہ بھڑک رہی تھی لیکن امی میں کمال کا ضبط تھا۔وہ ابو سے پہلے کھانا نہیں کھایا کرتی تھیں۔
رات کو سب اپنے اپنے بستر پر تھے جب عدنان نے سیرت النبی کی کتاب سے پڑھ کر سب کو سنانا شروع کیا۔
”زہد اور قناعت کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ کبھی کبھی آپ ﷺ نے اچھے کھانے کھائے اور اچھے کپڑے استعمال کیے ہیں۔لیکن اصلی میلان طبع زخاف دینوی سے اجتناب تھا۔فرمایا کرتے تھے کہ فرزند آدم کو ان چند چیزوں کے سوا اور کسی چیز کا حق نہیں۔ رہنے کے لیے گھر، ستر پو شی کے لیے ایک کپڑا اور شکم سیری کے لیے روکھی سوکھی روٹی اور پانی۔“
”ہاں بیٹا وہ بہت زاہد اور قانع تھے۔ جو کچھ ان کے پاس آتا۔سب ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔“امی جان نے آبدیدہ ہو کر کہا۔
”حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ کبھی آپ ﷺ کا کوئی کپڑا تہ کر کے نہیں رکھا گیا۔یعنی صرف ایک جوڑا کپڑا ہوتا تھا،دوسرا نہیں ہوتا تھا جو تہ کر کے رکھا جاسکتا۔“ عدنان نے کتاب سے پڑھ کر سنایا۔وہ بہت حیران تھا۔
”سبحان اللہ،سبحان اللہ“ ابو تڑپ کر اٹھ بیٹھے۔ عدنان نے آگے پڑھنا شروع کیا:
”پیہم دو دو مہینے تک گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔حضرت عائشہ نے ایک موقع پر جب یہ واقعہ بیان کیا تو عروہ بن زبیر نے پوچھا کہ آخر گزارا کس چیز پر تھا؟ بولیں کہ پانی اور کھجور۔البتہ ہمسائے کبھی کبھی بکری کا دودھ بھیج دیتے تو پی لیتے تھے۔“
”کتنے صبر والے لوگ تھے۔کم کم کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔اس پر اپنے حصے کا کھانا ضرورت مندوں کو دے دینا بہت کمال کی بات ہے۔اسی لیے تو مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے تھے۔ سبحان اللہ۔“ امی جان نے کہا۔
”ایک دفعہ ایک شخص خدمت اقدس میں حاضر ہوا کہ سخت بھوکا ہوں۔آپ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کے ہاں کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کو بھیج دو۔جواب آیا گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں۔آپ ﷺ نے دوسرے گھر کہلا بھیجامگر وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔مختصراً یہ کہ آٹھ دس گھروں میں سے کہیں پانی کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی۔“
عدنان سوچ میں پڑ گیا۔اس نے کتاب بند کی اور غور و فکر کرنے لگا۔کھانے کی چیزیں مہیا کرنا اور غریبوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
عدنان کو خیال آیا کیوں نہ وہ مرغیوں کا دڑبہ گھر میں بنا لے اور کڑک مرغی کے نیچے انڈے رکھ کر چوزے نکالے۔رخسانہ چوزوں کی دیکھ بھال اچھی کر لے گی اور مصروف بھی رہے گی۔عدنان نے امی سے بات کی مگر امی کا خیال تھا کہ مرغیاں گندگی بہت پھیلاتی ہیں۔
”لیکن امی ان کا فائدہ بھی تو ہے۔“ عدنان نے کہا۔
”کتے بلیوں سے خطرہ رہتا ہے کہ وہ انہیں کھا جائیں گی،ان کی حفاظت کون کرے گا، محلے میں چور بھی ہیں مرغیاں چوری کر کے لے گئے تو فائدہ تو کچھ نہ ہوا۔“ امی نے آہستگی سے کہا۔
”اس کا ہم کچھ انتظام کریں گے ناں۔“ عدنان نے کہا۔
”امی! بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہمیں مرغیاں رکھ لینی چاہئیں۔“ رخسانہ نے امی کی منت کی۔
”امی ہم صحن میں مرغیوں کے لیے دڑبہ بنا لیں گے۔“ عادل نے تجویز پیش کی۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔“ امی نے کہا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔بچے سر جوڑ کر بیٹھے۔ پہلے کا غذ پر دڑبے کا خاکہ بنایا گیا اور پھرکباڑیے کی دکان سے اشیاء جمع کی گئیں۔
جمعے کے مبارک دن ایک شان دار دڑبہ تیار کیا گیا اور اس میں ایک مرغی چھوڑ دی گئی۔مرغی اکیس دن انڈوں پر بیٹھی رہی تب جا کر انڈوں سے بچے نکلے اور بچے برابر ان کی دیکھ بھال کرنے لگے۔
عدنان سوچ رہا تھا کہ بھوس افلاس اور آزمائش پر بجائے جھنجھلانے کے اگر ہم صبر سے کام لیں اور مثبت سرگرمی دکھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ برکتیں عطاء نہ فرمائے۔عدنان سوچ رہا تھا کہ یہ سیرت پر عمل ہی کی برکت ہے کہ اب ان سب کا وقت بجائے بحث و تکرار کے صبر و محنت میں گزرنے لگاہے۔ اور وہ ساتھ ہی میز پر رکھی مولانا شبلی نعمانی کی کتاب ”سیرت النبی ﷺ“ پڑھنے لگا۔