آخری شرارت
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کی شام تھی میں صحن میں کرسی ڈالے امتحان کی تیاری کررہا تھا۔ الفاظ بار بار ذہن سے نکل جاتے، معاشیات کے خشک قوانین بلائے جان بنے ہوئے تھے۔ اچانک کوئی چیز کان کو چھوتی ہوئی پیروں میں آگری، چونک کر دیکھا تو کاغذی جہاز تھا۔ مقام پرواز دیکھنے کے لیے نظر گھمائی تو حسب توقع نومی کو ہی پایا ۔ وہ دیوار پر سے گردن نکالے جھانک رہا تھا۔
” یہ کیا حرکت ہے؟“ میں نے کہا۔ وہ بولا
” آپ بھی کمال کرتے ہیں ہر وقت پڑھائی؟ اتنی پتنگیں اڑرہی ہیں …. آئیں چھت پر پتنگ اڑاتے ہیں۔“
”تم کو معلوم ہے؟ میرے امتحان سر پر ہیں۔“
” لیکن آپ کے سر پر تو مکھیاں اڑرہی ہیں۔“ وہ معصومیت سے بولا۔
” جاؤ اپنا کام کرو۔ بڑوں سے مذاق اچھا نہیں ہوتا۔“ میں نے غصے سے کہا۔
” آپ مجھ سے صرف پانچ سال ہی تو بڑے ہیں اور میں نے اسکول کا کام کر لیا ہے۔“ جب میں نے دیکھا وہ ٹلنے والا نہیں تو کتابیں اٹھائے اندر چلا گیا۔
نومی ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، وہ پانچویں جماعت کا ذہین طالب علم تھا، ہر وقت ہنستا بولتا رہتا ، بلا کا شرارتی اور حاضر جواب تھا۔ اس کی ہر بات میں شوخی اور ذہانت نمایاں ہوتی۔ دونوں گھروں کی درمیانی دیوار ایک ہی تھی۔ دیوار کے ساتھ چھت پر جانے کا زینہ تھا، وہ زینے پر چڑھ کر جھانکتا رہتا۔ دونوں گھرانوں میں اچھے تعلقات تھے اکثر اس کی امی ہمارے گھر میری امی سے ملنے چلی آتیں۔ وہ پڑھے لکھے ، سلجھے ہوئے لوگ تھے، اس کے ابو کسی دفتر میں کام کرتے تھے۔
نومی کی شرارتوں سے سب تنگ آئے ہوئے تھے لیکن اس کی معصومیت اور بھولپن کو پسند بھی کرتے تھے۔ میرا اکثر اس سے واسطہ پڑتا اگرچہ اس کی حرکتوں پر غصہ آتا لیکن اس کا معصومیت بھرے انداز میں بھائی جان کہنا اچھا بھی لگتا، میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا، اس کے منہ سے اپنے لیے بزرگانہ الفاظ اچھے لگتے۔
دن بدن اس کی شرارتوں کا دائرہ کار وسیع ہو رہا تھا ۔ اس میں دوسرے پڑوسی، دکاندار اور پھیری والے بھی شامل ہو رہے تھے۔ ایک دن ایک پھل فروش گلی میں کیلے بیچ رہا تھا۔ وہ اس کے پا س گیا اور پوچھا۔
” کیلے کیا کلو ہیں؟“ پھل فروش نے حیرانگی سے اسے دیکھا اور بولا
” میاں تیس روپے درجن ہیں۔“
”درجن کیوں؟آپ کلو کے حساب سے کیوں نہیں بیچتے ؟“ دراصل کراچی آنے سے پہلے وہ لوگ اندرون سندھ میں رہے تھے وہاں اکثر کیلے اور کینو وغیرہ کلو کے حساب سے بکتے تھے۔ نومی کی بات صحیح تھی، لیکن پھل فروش کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بعد میں اگرچہ نومی کو پتا چل گیا کہ یہاں کیلے درجن کے حساب سے بکتے ہیں لیکن وہ پھل فروش جب بھی گلی مےں آتا نومی اس سے جرح ضرور کرتا۔
ایک روز میں کتابیں ٹھیک کر رہا تھا ۔ وہ آن ٹپکا ۔ ” کیا ہو رہا ہے بھائی جان!“ دیکھ نہیں رہے کتابیں درست کررہا ہوں۔“
” کیا کتابیں بگڑ بھی جاتی ہیں؟ وہ ناک پر انگلی رکھتے ہوئے بولا۔
”دماغ مت کھاؤ۔“ میں نے ڈانٹا۔” کیا دماغ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟ “ اس نے معصومیت سے پوچھا۔ میں خاموش رہا۔ ان دنوں میں مسلمان اکابرین کی تصویریں جمع کررہا تھا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔ سر سید احمد خان کی تصویر پر نظر پڑی تو حیرت سے بولا۔
” یہ تو ایک دن ہمارے گھر آئے تھے۔“ میں نے اسے گھورا۔
” جب ہم نواب شاہ میں رہتے تھے تو ایک دن یہ ہمارے گھر آئے تھے۔ میں نے ایک کتاب اٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگا۔
” اچھا آپ کو یقین نہیں آتا میں ابھی آیا۔“ وہ باہر بھاگ گیا۔ عجیب لڑکا ہے میں نے سوچا۔ کچھ دیر بعد اپنی امی کو لیے چلا آیا۔ مجھے شرمندگی ہو رہی تھی۔ ”دیکھئے امی! یہ ہمارے گھر آئے تھے نا؟“
اس کی امی نے حیرت سے تصویر لے لی پھر ہنس کر بولیں ” یہ تو سر سید احمد خان ہیں، یہ ہمارے گھر کہاں آئے تھے؟ “ پھر سوچتے ہوئے بولےں ” اچھاتم شاید اپنے ابو کے ماموں کی بات کررہے ہو۔ ہاں ان کا حلیہ ہو بہو سرسید احمد خان جیسا ہی تھا۔“ میں نے بامشکل ہنسی کو دباتے ہوئے کہا۔ ”نومی تم بہت شرارتی ہو۔“ وہ حیرت سے بولا ” لیکن میں شرارت تو نہیں کرتا۔“ میرا دل چاہا اسے ایک تھپڑ لگاؤں۔
ایک دفعہ پوچھنے لگا۔ ”بھائی جان افلاطون سقراط کا شاگرد تھا یا سقراط افلاطون کا؟“ میں نے طنزاً کہا ”کیوں کیا یہ لوگ بھی تمہارے گھر آئے تھے۔“ ہنس کر بولا ” نہیں یہ تو مشہور فلسفی تھے، میں نے کہیں پڑھا ہے اب یاد نہیں آرہا ۔ میرے بھی ذہن میں نہ تھا اس لیے کہا ”جاؤ مجھے یاد نہیں۔“
وہ بولا ” واں! آپ اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں اور اتنے سے سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔“
ہمارے گھر میں جامن کا درخت تھا لیکن اس پر پھل نہیں لگتا تھا۔ ایک دن رات کو اس کی امی میری امی کے ساتھ تخت پر بیٹھی باتیں کررہی تھیں ۔ درخت کے متعلق باتیں ہونے لگیں، قریب ہی وہ بھی موجود تھا۔ وہ بولا ” اب تو اس میں جامن آنے لگی ہیں۔“ میری امی نے حیرت سے کہا ” کہاں بیٹا اس میں پھل کہاں آتا ہے؟“
” وہ دیکھیں …. میں نے خود دن میں دیکھی تھیں۔“ نومی نے اشارہ کیا۔ سب اوپر دیکھنے لگے ۔ میں اندر کمرے میں تھا لیکن میرے کان بھی ادھر لگ گئے۔ نومی کی امی بولیں ” ہاں دیکھیں کچھ لگا تو ہے، اندھیرے میں ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔ امی نے مجھے آواز دی۔ ” بیٹا ذرا ٹارچ لا کر دیکھو۔“ میں ٹارچ لے کر گیا۔ اسی اثناءمیں وہ جا چکا تھا۔ روشنی ہوئی تو معلوم ہوا کسی نے ہری مرچیں دھاگے میں باندھ کر شاخوں میں لگا رکھی ہیں۔ میری امی بہت ہنسیں۔ میں نے کہا۔ یہ بھی ضرور نومی کی شرارت ہے۔“
برابر گھر سے آواز آئی۔ ” بھائی جان لیکن میں شرارت تو نہیں کرتا۔“
اس کی امی بولیں ” ٹھہر ابھی آکر بتاتی ہوں۔“
غرض اسی طرح ہنستے کھیلتے دن گزر رہے تھے، امتحانوں کے بعد میں کہانیاں پڑھتا رہتا۔ ایک دن کتاب میں گم تھا۔ وہ آیا اور پاس بیٹھ گیا۔ خلاف توقع وہ دیر تک کچھ نہ بولا تو میں نے کتاب سے نظر ہٹا کر دیکھا اس کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
”خیریت …. کیا ہوا؟ “ میں نے پوچھا۔” ابو کا تبادلہ دوسرے شہر میں ہو گیا ہے، اگلے ہفتے ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔“ اس نے دھیرے سے لب کشائی کی۔
”ا چھا تم چلے جاؤ گے۔“ میں بے خیالی میں بولا ۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر مجھے دیکھا شاید کوئی چھبتا ہوا جملہ کہنا چاہتا تھا لیکن پھر سر جھکا لیا۔ مجھے لگا وہ رو رہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، اس کی بات نے اداس کر دیا تھا۔ پھر میں نے اسے قریب کر لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا ” دیکھو وہاں جا کر کھیل کود میں وقت ضائع نہیں کرنا اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھنا۔ وہ کچھ دیر بیٹھا رہا پھر گھر چلا گیا۔
زندگی میں ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں اور پھر بچھڑ جاتے ہیں۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ لیکن ان کے جانے کا سب کو افسوس تھا حیرت انگیز طور پر مجھے بھی، اداسی مجھ پر ڈیرے ڈال رہی تھی۔ میں دھیان ہٹانے کے لیے کوئی کتاب اٹھاتا لیکن ذرا سی پڑھ کر رکھ دیتا۔
روانگی والے دن وہ میرے پاس آیا اور بولا ” بھائی جان آپ کا تحفہ …. “ اس نے پھولدار کاغذ میں لپٹا ڈبہ میری طرف بڑھایا۔ ” اس کی کیا ضرورت تھی؟“
” بس میرا دل چاہ رہا تھا۔“ میں نے بھی اسے کہانیوں کی کتابیں دیں۔ وہ بہت خوش ہوا اور مل کر رخصت ہوگیا۔
دوسرے دن گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ لوگ جا چکے تھے۔ میں بور ہو رہا تھا کہ مجھے نومی کے تحفے کا خیال آیا۔ کاغذ اتار کر ڈبہ کھولا تو اس میں دوسرا ڈبہ تھا، اسے کھولا تو اس میں ایک اور چھوٹا ڈبہ تھا، اس طرح چوتھے پانچویں کے بعد آخری ڈبے میں سے کاغذ کا ایک پرزہ برآمد ہوا جسے میں نے غصے سے زمین پر پھینک دیا۔ آخر کار وہ جاتے جاتے بھی اپنی حرکت سے باز نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر میں غصے سے کھولتا رہا پھر خیال آیا دیکھو تو کیا لکھا ہے، لکھا تھا۔
” بھائی جان! آپ ناراض ہوں گے۔ مےں نے پھر شرارت کی۔ آپ ہمیشہ میری حرکتوں کا برا مناتے تھے اور مجھے شرارتی کہتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ میری حرکتیں کبھی بھی ایسی نہ ہوتی تھیں جن سے کسی کو نقصان پہنچے اس لیے میں ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں شرارت نہیں کرتا ، یقین ہے آپ مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔ خدا حافظ ۔“
مجھے لگا میری آنکھوں میں نمی اتررہی ہے۔ میں دھیرے سے بڑبڑایا۔ ” ہاں…. شاید تم ٹھیک ہی کہتے تھے۔“
٭….٭