skip to Main Content

ہمارے رسول ﷺ

خواجہ محمد عبدالحئی فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیدائش
ہمارے رسول کا نام محمد ہے،دوسرا نام احمد بھی ہے،صلی اللہ علیہ وسلم(اللہ اپنی رحمت اور سلامتی آپ پر اتارے)،آپ کے والد کا نام عبداللہ، دادا کا عبدالمطلب اور والدہ کا آمنہ ہے۔
آپ ۹ ربیع الاول یعنی ۰۲اپریل ۱۷۵ءکو پیر کے دن مکہ میں پیدا ہوئے۔گو عام طور پر مشہور یہی ہے کہ آپ کے پیدا ہونے کی تاریخ ۲۱ربیع الاول ہے۔آپ اپنے ماں باپ کے ایک ہی بیٹے تھے۔پیدا ہونے سے پہلے آپ کے والد فوت ہوچکے تھے۔دادا نے اس پیارے بچے کو گود میں لیا،بیت اللہ میں لے گئے اور دعاءمانگ کر واپس لائے۔ساتویں دن عقیقہ کیا اور تمام قوم کی دعوت کی۔لوگوں نے بچے کا نام پوچھا تو انہوں نے جواب دیا’محمد‘۔میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ تمام دنیا کی تعریف کا حق دار بن جائے۔
جب آپ آٹھ دن کے ہوئے تو عرب کی رسم کے مطابق حلیمہ سعدیہ دودھ پلانے کے واسطے آپ کو اپنے قبیلے میں لے گئیں۔ آپ چار برس تک ان کے پاس رہے۔وہاں ان کے بچوں کے ساتھ اکثر بکریاں چرانے بھی جایا کرتے تھے۔جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو والدہ مر گئیں۔دادا نے آپ کا بوجھ اٹھا لیا۔جب آٹھ برس کے ہوئے تو دادا فوت ہوگئے۔اب آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی پرورش شروع کی۔وہ آپ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اپنے بچوں کی بھی پروا نہ کرتے،سوتے تو آپ کو لے کر سوتے اور باہر جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔
تجارت
ہمارے رسول کو اپنے والد کی طرف سے کچھ بھی نہ ملاتھا۔آپ اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔آپ کے چچا ابو طالب تاجر تھے۔اکثر قریش تجارت ہی کیا کرتے تھے اور بات بھی یہی ہے کہ انسان کے لیے سب سے اچھا شریفانہ اور آزادانہ پیشہ تجارت ہی ہے کہ کماکر خود کھائے اور دوسروں کی خدمت کرے،اس لیے جب ہمارے رسول جوان ہوئے تو آپ کو بھی تجارت کا خیال آیا۔
آپ اپنے چچا کے ساتھ کئی تجارتی سفر کر چکے تھے،اور آپ کو ہر قسم کا تجربہ ہوچکا تھا۔لوگ عام طور پر آپ کو نفع میں شریک کرکے اپنا سرمایہ تجارت کے لیے آپ کو دیا کرتے تھے۔آپ کی امانت اور دیانت داری کی شہرت سب طرف ہوچکی تھی۔
مکہ میں ایک نہایت عقل مند اور مال دار بیوہ عورت تھیں، ان کا نام خدیجہ تھااور ان کے والد کا نام خویلد ،یہ قریش کے سرداروں میں سے تھے ۔حضرت خدیجہ کی عادت تھی کہ وہ اپنی تجارت کا سامان کسی امانت دار شخص کے سپرد کرکے شام اور یمن بھیجا کرتی تھیں۔انہوں نے لوگوں سے ہمارے رسول کی امانت،دیانت داری اور خوش معاملگی کی بہت تعریف سنی تھی،آپ سے درخواست کی کہ آپ میرے مال سے تجارت کریں،جس قدر بدلے میں اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنادوں گی۔آپ نے اس کو منظور فرمالیا۔آپ ان کا مال لے کر گئے اور خوب نفع کما کر واپس لوٹے۔اس سفر میں ان کاغلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھا،اس نے سفر میں آپ کی جو خوبیاں اور بزرگیاں دیکھی تھیں،سب کا ان سے ذکر کیا۔ان باتوں کو سن کرحضرت خدیجہ نے جن کی عمر اس وقت ۰۴ سال کی تھی ،آپ سے نکاح کرلیا۔جب کہ آپ صرف پچیس سال کے نوجوان تھے، یہ آپ کے نکاح میں ۵۲ سال تک رہیں۔اس درمیان میں آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا، ان کے مرجانے کے بعد بھی آپ اکثر ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتے۔
تاجر کے لیے بڑی ضروری چیز یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کا پکا اور معاملے کا صاف ہو۔ہمارے رسول میں یہ سب باتیں موجود تھیں۔ایک صحابی(ہمارے رسول کے دوست کو صحابی کہتے ہیں) ذکر کرتے ہیں کہ ابھی آپ رسول نہیں ہوئے تھے ،اس وقت میں نے آپ سے ایک معاملہ کیاتھا۔ابھی کچھ بات چیت باقی تھی،میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ پھر آﺅں گا۔اتفاق سے تین دن تک مجھے یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب وہاں گیا تو آپ میرا انتظار فرما رہے تھے۔آپ بالکل ناراض نہیں ہوئے۔ صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے تکلیف دی،میں تین دن سے اسی جگہ موجود ہوں۔
سائب نام کے ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔ صحابی نے عرض کیا،میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،آپ تجارت میں میرے شریک تھے مگر آپ نے معاملہ ہمیشہ صاف رکھا۔
بچو!تم بھی اپنے رسول کے پیچھے پیچھے چلو۔وہ تاجر تھے، تم بھی تجارت کرو۔وہ امانت دار،خوش معاملہ اور وعدہ کے پکے تھے،تم بھی ایسے ہی بن جاﺅتاکہ دوست دشمن تم پر بھروسہ کریں اور تم کو سچا جانیں۔
امن کی کوشش
ہمارے رسول دنیا کےلئے امن و سلامتی کاپیغام لے کر آئے تھے۔آپ نے دیکھا کہ عرب میں لوگوں کو امن حاصل نہیں۔راستے خطرناک ہیں۔ مسافر لٹ رہے ہیں اور غریبوں پر ظلم ہوتا ہے۔مکہ کے چند نوجوانوں نے ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی تو آپ بھی اس میں شریک ہوگئے،اس انجمن کا نام ’حلف الفضول‘ تھا۔اس میں ان باتوں کا اقرار لیا جاتاتھا:
ہم ملک سے بدامنی کو دور کریں گے۔
مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
غریبوں کی امداد کریں گے۔
عاجزوں پر ظلم نہ ہونے دیں گے۔
مکہ میں کسی ظالم کو نہیں رہنے دیں گے۔
آپ کے نیک کاموں کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ مکہ کا ہر شخص آپ کی دیانت،امانت،نیکیوں اور خوبیوں کی وجہ سے آپ کو سچا اور امانت دارکہہ کر پکارتا تھا،جس نے ایک مرتبہ آپ سے معاملہ کرلیا، وہ تمام عمرآپ کی تعریف کرتا رہا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے،خانہ کعبہ کی دیواریں پھٹ گئیں ،قریش نے ان کے بنانے کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ہر قسم کا سامان جمع کرلیا،یہ اللہ کا گھر تھاجس کی عزت سب کے دلوں میں تھی،اس لیے برکت حاصل کرنے کے واسطے ہر ایک قبیلہ کوایک ایک حصہ بنانے کے واسطے دے دیا گیا۔مگر جس وقت سیاہ پتھر یعنی حجر اسود کے رکھنے کا وقت آیا تو ہر ایک قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ یہ برکت صرف اسی کے حصے میں آئے ۔یہ جھگڑا چاردن تک رہا،ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ خطرناک جنگ کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا۔پانچویں دن ایک بوڑھے قریشی نے سب کواس بات پر راضی کرلیا کہ اب جو شخص سب سے پہلے اللہ کے گھرمیں داخل ہواسی کو پنچ(فیصلہ کرنے والا) مان لیا جائے۔
اللہ کی قدرت دیکھو کہ سب سے پہلے لوگوں کی نظریں جس پر پڑیں وہ خدا کے پیارے ہمارے رسول ہی کا مبارک چہرہ تھا،آپ کو دیکھ کر سب ہی پکار اٹھے،”امانت دار آگیا،ہم سب اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔“
آپ تو تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے،آپ نے پسند نہ کیا کہ یہ عزت اور برکت آپ ہی کو ملے۔آپ نے فرمایا کہ جو قبیلے اس کا دعویٰ کرتے ہیں سب کا ایک ایک سردار چن لیاجائے،آپ نے ایک چادر بچھائی ،اس پر پتھر رکھ دیا،پھر سرداروں سے کہا کہ چادر پکڑ کر اٹھائیں ۔جب پتھر کو وہاں تک لے آئے،جہاں اسے رکھنا تھا تو آپ نے اسے اٹھا کر کونے پر لگادیا۔
پہلا الہام
مکہ سے تین میل کے فاصلے پرایک غار ہے، اس کو غار حرا کہتے ہیں،یہ چارگز لمبا اور پونے دو گز چوڑا ہے۔
ہمارے رسول کے مزاج میں دن بدن لوگوں سے الگ رہنے کی عادت بڑھتی گئی۔آپ اکثر پانی اور ستو لے کر اس غار میں جا بیٹھتے، اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے رہتے اور جب تک آپ کا سامان ختم نہ ہوجاتا،گھر واپس نہ لوٹتے۔
اب آپ کو خواب نظر آنے لگے اور خواب ایسے سچے ہوتے تھے کہ جو کچھ رات کو دیکھتے،دن میں ویسا ہی ظاہر ہوجاتا۔
جب آپ کی عمر چالیس سال اور ایک دن ہوئی تو ۸۱رمضان کو جمعہ کی رات حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آئے:
اِقرَابِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ۔ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَق۔ اِقرَاوَرَبُّکَ الاَکرَمُ۔ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ۔ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَالَم یَعلَم۔
پڑھ تو ساتھ نام اپنے رب کے،جس نے پیدا کیابنایاآدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے،تو پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے،جس نے سکھلایا قلم سے،سکھایا انسان کو جو وہ نہ جانتا تھا۔
وہ رسول جو لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے،اللہ نے ان کو ایسا پاک نام اور پاک کلام پڑھایا جو سارے علموں کی کنجی ہے،پھر یہ دیکھو کہ جو کلام سب سے پہلے تمام جہانوں کے پالنے والے کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے اترا،وہ بھی انسان کی ابتدائی حالت ہی سے شروع ہوتاہے اور تعلیم کی ضرورت ظاہرکرتا ہے۔
اس کے بعد جبرئیل ہمارے رسول کو پہاڑ کے دامن میں لے گئے۔آپ کے سامنے خود وضو کیا۔پھر آپ نے بھی وضوکیا۔اس کے بعد دونوں نے مل کر نماز پڑھی۔نماز پڑھانے والے اللہ کے فرشتہ تھے۔
اس نئے واقعے سے آپ ڈر گئے اور فوراً گھر آکر لیٹ گئے۔بیوی سے کہا مجھ پر کپڑا ڈال دو۔تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا،میں ایسے واقعات دیکھتا ہوں جن سے مجھے اپنی جان کا خطرہ ہوگیا ہے،آپ کی نیک دل بی بی حضرت خدیجہ نے عرض کیا آپ کو کس چیز کا ڈر ہے،اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہ ہونے دے گا،اس لیے کہ:
آپ نیکی کرتے ہیں۔
صدقہ اور خیرات دیتے ہیں۔
رانڈوں،یتیموں اور غریبوں کی امداد کرتے ہیں۔
مہمانوں کی خاطرکرتے ہیں۔
لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
اور مصیبت زدوں سے ہمدردی کرتے ہیں۔
اس گفتگو کے بعد وہ صرف اپنی تسلی کے لئے آپ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور ان سے تمام قصہ بیان کیا۔ انہوں نے سب باتوں کو سن کرکہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام(ان پر اللہ کی سلامتی ہو)کے پاس آیا تھا۔آپ بے شک اللہ کے رسول ہیں۔آپ کی قوم آپ کا انکار کرے گی۔آپ کو تکلیفیں دے گی اور آپ کو وطن سے نکال دے گی۔اگر میں اس وقت تک زندہ رہاتو ضرور آپ کی مدد کروں گا۔
پہلے مسلمان
ہمارے رسول کا اب یہ کام تھا کہ اللہ کے حکم کو دوسروں تک پہنچائیں،چنانچہ اسی وقت آپ نے اپنا کام شروع کردیا۔آپ کا پیغام سنتے ہی جولوگ سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئے ،وہ یہ تھے:
عورتوں میں سے آپ کی بی بی حضرت خدیجہ، بچوں میں سے حضرت علی جن کی پرورش ہی آپ نے کی تھی،غلاموں میں سے حضرت زید اور بڑی عمر والوں میں سے حضرت ابوبکرآپ کے یارغاررضی اللہ عنہم(اللہ ان سب سے راضی ہو)
ان لوگوں کی کوشش سے اور بھی مسلمان ہوئے مگر یہ سارا کام چھپ کرہوتا تھا کہ دشمنوں کو خبر نہ ہو۔نماز کا وقت آتا تو ہمارے رسول کسی پہاڑ کی گھاٹی میں جاکر نماز اداکرتے۔
پہاڑی کا وعظ
تین سال کے بعد اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیاکہ آپ اپنے رشتہ داروںکو ڈرائیں۔اس حکم کو سن کر آپ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور مکہ کے تمام لوگوں کو جمع کرکے فرمایا،”تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟“سب نے ایک آواز ہوکر جواب دیاکہ”ہم نے اب تک کوئی غلط بات آپ کے منہ سے نہیں سنی،ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ صادق ہیں اور امین ہیں۔“آپ نے یہ سن کر فرمایا،”دیکھو میں اس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے کھڑے ہو،میں پہاڑ کی اُس طرف بھی دیکھ رہاہوں اور اِس طرف بھی۔اگر میں یہ کہوں کہ ڈاکوﺅں کی ایک جماعت ہتھیار باندھے دور سے آتی دکھائی دے رہی ہے،جو مکہ پر حملہ کرے گی تو کیا تم اس کا یقین کرلوگے؟“لوگوں نے کہا،”بے شک،کیونکہ ہمارے پاس آپ ایسے سچے آدمی کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں۔“آپ نے فرمایا”تم یقین کرلو کہ موت تمہارے سر پر آرہی ہے اور تمہیں ایک نہ ایک روز اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔اگر تم ایمان نہ لاﺅ گے تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا۔“یہ سن کر لوگ ناراض ہو کر چلے گئے۔ان جانے والوں میں آپ کا چچا ابولہب بھی تھا جو بعد کو آپ کا سخت جانی دشمن ثابت ہوا۔
آہستہ آہستہ مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی جس کی تعداد چالیس سے زیادہ تھی۔ہمارے رسول نے ایک روز بیت اللہ میں جاکراللہ کے ایک ہونے کا اعلان کیا۔کافر اس وعظ کو کس طرح پسند کرسکتے تھے،سنتے ہی سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے۔حضرت حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی تو آپ کو بچانے کے لئے دوڑے آئے۔اب انہوں نے آپ کو چھوڑ دیامگر حارث پر اتنی تلواریں پڑیں کہ شہید ہوگئے۔یہ پہلا خون تھا جو اسلام کی راہ میں بہایا گیا۔

وعظ کی باتیں
اب ہمارے رسول نے ہر گلی،کوچہ اور بازار میں وعظ کہنا شروع کیا۔کوئی مجلس اور میلہ ایسا نہ ہوتا تھا جس میں جاکر لوگوں کو نہ سمجھاتے ۔آپ فرماتے کہ خداایک ہے،صرف اسی کی عبادت کرو،بتوں،پتھروں اور درختوں کو نہ پوجو،بیٹیوں کو قتل نہ کرو،زنا اور جوے کو چھوڑدو،جسم کو پاک صاف رکھو،کپڑوں سے میل کچیل دورکرو،زبان سے گندی اور جھوٹی باتیں نہ کہو،وعدہ اور اقرار پورا کرو،لین دین میں کسی کو دھوکا نہ دو،یہ تم یقین کرلو کہ زمین اور آسمان ،سورج اور چاند،فرشتے اور پیغمبر سب کے سب اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں،سب اس کے محتاج ہیں،بیماروں کو اچھا کرنا،دعا قبول کرنااور مرادیں پوری کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے،اللہ کے حکم اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
قریش کی دشمنی
پہلے تو قریش بالکل چپ تھے مگرجب ہمارے رسول نے توحید کا وعظ خوب زور و شورسے شروع کیا تو اب ان لوگوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کوطرح طرح کی تکلیفیں دینی شروع کیں۔آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتے کہ رات میںآپ کے پاﺅں زخمی ہوجائیں۔آپ کے گھر کے دروازے پر گندی چیزیںپھینک دیتے۔
ایک دفعہ آپ بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے ،ایک کافرنے اپنی چادر لپیٹ کر رسی جیسی بنا لیا،اور جب آپ سجدہ میں گئے تو اس کو آپ کی گردن میں ڈال کر پیچ دینا شروع کئے یہا ں تک کہ آپ کی گردن بالکل بھنچ گئی مگر آپ برابر سجدہ میں ہی پڑے رہے،اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ(اللہ ان سے خوش ہو)آگئے، انہوں نے اس کافر کو دھکا دے کرالگ کیا،اس پر چند شریرلوگوں نے ان کو بھی خوب پیٹا۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپ بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کے جانی دشمن ابوجہل نے ایک شخص سے اونٹ کی اوجھڑی گندگی سے بھری ہوئی منگوائی۔جب آپ سجدہ میں گئے تو اس بدبخت نے آپ کی پیٹھ پر اس کو ڈال دیا۔کافر دیکھ کرخوش ہوتے اور ہنستے تھے ۔آخر آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ نے آکر اس اوجھڑی کو پھینکااور ان کافروں کو بھی سخت سست کہا۔
کافروں نے ایک روز آپس میں مشورہ کیا کہ لوگ دور دور سے مکہ میں آتے ہیں،ان سے کوئی ایسی بات کہی جائے کہ وہ اس رسول کی باتوں میں نہ آئیں۔آخر سب نے مل کر یہ طے کیا کہ آپ کو ہر طرح سے دق کیا جائے ۔بات بات پر آپ کی ہنسی اڑائی جائے اور جو لوگ آپ پر ایمان لے آئے ہیں ان کو طرح طرح کی تکلیف دی جائے۔
یہ سب باتیں تھیں مگرہمارے رسول کے صبر اور ثابت قدمی کی یہ حالت تھی کہ آپ ان تمام تکلیفوں کو سہتے مگر اسلام کی تبلیغ کو نہیں چھوڑتے تھے جو آپ کا صلی کام اور فرض تھا۔
آپ کے دوست
اب تک یہ بیان تھا کہ ہمارے رسول کو کافر کیسی کیسی تکلیفیں صرف اسلام کی وجہ سے دیتے تھے۔اب تم آپ کے دوستوں کا حال سنواور دیکھو کہ ان کے دلوں میں اسلام اور رسول کی کیسی محبت تھی۔
حضرت بلال حبشی ایک کافر کے غلام تھے۔جب یہ مسلمان ہو گئے تو اس نے ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے ہاتھ میں دے دی کہ وہ ان کو پہاڑوں میں لئے پھریں۔مکہ کی گرم ریت پر ان کو لٹا دیا جاتا اور گرم گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دئیے جاتے۔مشکیں باندھ کر لکڑیوں سے پیٹا جاتا،دھوپ میں بٹھایا اور بھوکا رکھا جاتامگر وہ برابر ان تکلیفوں کو سہتے اور ”اللہ ایک ہے،ا للہ ایک ہے“کے نعرے لگاتے۔آخر حضرت ابوبکر نے ان کو خرید کر کے اللہ کے نام پر آزادکردیا۔
خبیب بن الحارث جب مسلمان ہوئے تو ان سے پہلے صرف چھ سات شخص اسلام لا چکے تھے۔قریش نے طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کیں۔ایک دن کوئلے جلا کر زمین پر بچھا دئیے،اس پر انہیں چت لٹا دیا۔ایک شخص چھاتی پر پاﺅں رکھے رہا کہ کروٹ نہ لیں،یہاں تک کہ پیٹھ کے نیچے کوئلے پڑے پڑے ٹھنڈے ہوگئے،اس کی وجہ سے ان کی بیٹھ بالکل سفید ہوگئی تھی۔
عمار،ان کے والد یاسر اور ان کی والدہ سمیہ،تینوں مسلمان ہوگئے تھے۔ابوجہل ان کو مارتا اور تکلیفیں دیتا،آخر اس بدبخت نے عمار کی والدہ کو نیزہ سے مار ڈالا۔
افلح کے پاﺅں میں رسی باندھ دی جاتی اور انہیں پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا۔
عثمان بن عفان کے مسلمان ہوجانے کی خبر ان کے چچاکو ہوئی تو وہ آپ کو کھجور کی صف میں لپیٹ کرباندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا۔
مصعب بن عمیرکو ان کی والدہ نے صرف اس لیے گھر سے نکا ل دیاتھا کہ وہ مسلمان ہوگئے تھے۔
زنیرہ حضرت عمر کے خاندان کی لونڈی تھیں،صرف اسلام کی وجہ سے حضرت عمر انہیں خوب ستاتے تھے۔ابوجہل نے اس کو اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔
لبینہ،یہ بھی حضرت عمر کے خاندان کی لونڈی تھی اور مسلمان ہو گئی تھی۔حضرت عمر کو ان کے مسلمان ہونے کی خبر ہوئی توان کو بے تحاشا مارتے ۔مارتے مارتے تھک جاتے توکہتے،دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔
ہمارے رسول کے دوستوں کو یہ تکلیفیں کیوں دی جاتی تھیں؟صرف اس لیے کہ وہ اللہ کو ایک مانتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے تھے۔ان کو اسلام سب سے زیادہ پیارا تھا ا ور رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں رچی ہوئی تھی،اس لیے وہ ان تمام تکلیفوں کو اٹھاتے مگر اسلام نہ چھوڑتے۔
بچو!تم بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی اسلام کی محبت پیدا کرو،تمہاری جان پر بن آئے مگر اسلام کو ہاتھ سے نہ دو۔
حبشہ کی ہجرت
قریش کی سختیوں کی وہ حالت تھی جو اوپر بیان ہوئی۔وہ کسی مسلمان کو اللہ کے گھر کے اندر بلند آواز سے قرآن نہیں پڑھنے دیتے تھے۔ایک دفعہ ہمارے رسول کے ایک دوست عبداللہ بن مسعود نے کہاکہ میں کعبہ میں جاکر ضرور قرآن پڑھوں گا۔لوگوں نے ان کو روکا بھی مگر وہ کب ماننے والے تھے۔گئے اور سورة الرحمن پڑھنی شروع کردی۔کافر ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے اور منھ پر طمانچے مارنے شروع کیے مگر وہ بھی پڑھتے ہی گئے۔جب واپس گئے تو چہرے پر زخموں کے نشان لے کر گئے۔
جب مسلمانوں کی مصیبتیں یہاں تک پہنچ گئیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت بھی نہ کرسکتے تھے تو اللہ کے پیارے ہمارے رسول نے اپنے دوستوں کو اسلام کی خاطر وطن چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ہجرت کرنے والوں میں گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ان کے بعد تراسی مرد اور اٹھارہ عورتوں نے بھی حبش کی طرف ہجرت کی۔
یہ لوگ وہاں جا کر امن کے ساتھ رہنے لگے مگر قریش کو یہ بھی پسند نہ آیا۔انہوں نے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس ایک جماعت بھیجی جو اپنے ساتھ بادشاہ اور درباریوں کے لیے قیمتی تحفے لیتی گئی۔اس نے دربار میں حاضر ہو کرشاہ سے کہا کہ ہمارے مجرم ہم کو واپس کردیجئے۔درباریوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملادی۔نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر پوچھا ،تم نے کون سا دین ایجاد کیاہے جو عیسائیوں اور بت پرستوں کے خلاف ہے۔
مسلمانو ںنے اپنی طرف سے جواب دینے کے لیے حضرت جعفر طیار کو چنا جو ہمارے رسول کے چچیرے اور حضرت علی کے سگے بھائی تھے،انہوں نے اس طرح تقریر شروع کی:
”اے بادشاہ! ہم جاہل تھے،بتوں کو پوجتے،ناپاک رہتے اور مردارکھاتے تھے۔ہم میں انسانیت اور ایمانداری کا نام و نشان تک نہ تھا،ہمسایہ کا خیال نہ تھا،کوئی قانون نہ تھا،اس حالت میں اللہ نے ہم میں سے ایک بزرگ کو بھیجا جس کی ذات پات،سچائی،دیانت،نیکی اور پاکیزگی سے ہم خوب واقف تھے۔اس نے ہم کو بتایا کہ اللہ ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،اس نے ہمیں پتھروں کی پوجا سے روکا،اس نے فرمایا کہ ہم سچ بولا کریں،وعدہ پور اکریں،گناہوں سے دور رہیں، برائیوں سے بچیں،نماز پڑھیں،صدقہ دیں اور روزے رکھیں،ہماری قوم ان باتوں پر بگڑ بیٹھی،ہم نے ان سے سخت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اب مجبور ہو کر تیرے ملک میں پناہ کے لیے آئے ہیں۔
بادشاہ نے تقریر سن کر کہا کہ مجھے کچھ قرآن سناﺅ،حضرت جعفر نے سورہ¿ مریم سنائی۔بادشاہ اور درباری سن کر رونے لگے اور کہا کہ محمد تو وہی رسول ہیں جن کی خبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی،اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس کا زمانہ ملا،پھر بادشاہ نے ان کافروں کو دربار سے نکلوا دیا اور ان کے تحفے بھی واپس کر دئیے۔
لالچ اور خوف
جب قریش نے دیکھاکہ حبشہ میں بھی ان کو کامیابی نہیں ہوئی تو اب انہوںنے یہ خیال کیا کہ شاید لالچ سے کام نکل آئے ،یہ صلاح کرکے انہوں نے مکہ کے ایک مشہور سردار عتبہ کو ہمارے رسول کے پاس بھیجا جس نے آپ کے سامنے یہ تقریر کی:
”میرے بھتیجے محمد!اگر تم اس کام سے دولت جمع کرنا چاہتے ہوتوہم خود تیرے پاس اتنی دولت جمع کرکے لے آتے ہیں کہ تو مال دار ہوجائے،اگر تو عزت چاہتا ہے تو ہم سب تم کو اپنا سردار اور رئیس مان لیتے ہیں،اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب تم کو عرب کا بادشاہ بنا لیتے ہیں،جو چاہو ہم کرنے کو حاضر ہیں ،شرط یہ ہے کہ تم اپنا یہ طریق چھوڑدواور اگر تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے تو بتادو کہ ہم اس کا علاج کرائیں۔“
ہمارے رسول نے فرمایا،تم نے جو کچھ میری بابت کہا،اس میں سے ایک بات بھی ٹھیک نہیں۔ عزت،دولت، حکومت اور ریاست کی مجھے کوئی خواہش نہیں۔ میرا دماغ بھی بالکل ٹھیک ہے،میں تمہیںتھوڑا سا قرآن سناتا ہوں۔اس سے تم کو معلوم ہوجائے گا کہ میں کیا ہوں۔ پھر آپ نے ایک سورت کی چند آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
عتبہ چپ چاپ قرآن سنتا رہا،وہ بالکل بے خود ہوگیا اور اس نے قریش سے جاکر کہاکہ تم لوگ محمد کو کچھ نہ کہو،جس طرح وہ کرتا ہے کرنے دو۔
جب لالچ سے کام نہ چلا تو تمام قبیلوں کے سردارہمارے رسول کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور ان سے کہا،ہم نے آپ کا بہت لحاظ کیا،آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں اور دیوو¿ں کوبہت برا کہنے لگا ہے جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں،اب ہم سے صبر نہیں ہوسکتا،آپ اس کو خاموش رہنے کی ہدایت کردیں ورنہ ہم اسے مار ڈالیں گے اور تم ہمارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔
چچا نے دیکھا کہ تمام ملک میرے بھتیجے کا دشمن ہوگیاہے،آپ نے ان کو بلایا،محبت اور درد بھرے دل سے کہاکہ تم بت پرستی کی برائی نہ کیا کروورنہ میں تمہاری مدد نہ کر سکوں گا۔
ہمارے رسول نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں، تب بھی اس کام سے نہ ہٹوں گااور اللہ کے حکم میں سے ایک حرف بھی کم یا زیادہ نہ کروں گا،خواہ اس میں میری جان ہی چلی جائے ،ساتھ ہی اس کے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ اٹھ کر چلے،ابوطالب نے فوراً آپ کو بلایا اور کہا،”اے بھتیجے! جا اور جو دل چاہتا ہے کر،میں ہرگز تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔“
دیکھو بچو!صبر واستقلال اسے کہتے ہیں،لالچ اور خوف میں سے کوئی چیز بھی آپ کو اسلام کی خدمت سے ہٹا نہ سکی،تم بھی لالچ اور خوف کی پروا نہ کرو،اپنے سچے دین اسلام پر قائم رہواور اسی کی اشاعت کرو۔
حمزہ اور عمر
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے رسول صفا کی پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں ابوجہل بھی وہاں آگیا،اس نے آپ کو گالیاں دیں مگر آپ خاموش رہے۔پھر آپ کے سر پر پتھر دے مارا جس کی وجہ سے خون بہنے لگا۔
آپ کے چچا حضرت حمزہ کو اس کی خبر ہوئی توانہوں نے رشتہ داری کے جوش میں ابوجہل کے سرپر اس زور سے کمان ماری کہ وہ زخمی ہوگیا،پھر حضور کے پاس آکر کہاکہ خوش ہوجاﺅ،میں نے تمہارا بدلہ لے لیاہے، آپ نے فرمایا،میں ان باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا، میں تو اس وقت خوش ہوں گا جب آپ مسلمان ہوجائیں گے۔حضرت حمزہ یہ سنتے ہیں مسلمان ہوگئے۔
دیکھو،اس کو اسلام کی محبت کہتے ہیں،اب بھی ہمارے رسول اسی بات سے خوش ہوں گے کہ ہم دوسروں کو مسلمان کریں۔
ان کے تین دن کے بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے۔ان کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک روز ہمارے رسول کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلے،راستے میں ان کو معلوم ہوا کہ ان کی بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں،یہ سن کر بہن کے گھر گئے اور دونوں کو خوب مارا۔
بہن نے کہا،جس کتاب پر ہم ایمان لائے ہیں ،اس کو سن لو۔اگر پسند نہ آئے تو جو چاہے کرلینا۔اس وقت ان کے گھر میں ہمارے رسول کے ایک دوست بھی موجود تھے جو حضرت عمر کے آنے پر چھپ گئے تھے،انہوں نے سورہ طہٰ کا ایک رکوع پڑھ کر سنایا،عمر سن رہے تھے اور زار زار رورہے تھے،آخر جو شخص گھر سے ہمارے رسول کو قتل کرنے نکلا تھا، وہ خود ہی آپ کا سچا جان نثار بن گیا اور آگے چل کر فارق اعظم کے نام سے مشہور ہوا۔
برادری سے خارج
جب کافروں نے دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح بھی اسلام کی تبلیغ نہیں چھوڑتے تو انھوں نے آپس میں مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ان کے تمام رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ ناطہ چھوڑ دو۔ انہیں گلی کوچے میں پھرنے نہ دو اور کوئی چیز ان کو مول نہ دو۔ یہ معاہدہ بیت اللہ میں لٹکا دیا گیا۔ آخر ہمارے رسول اور ان کے رشتے دار مجبور ہوکر ایک گھاٹی میں بند ہو گئے ،جس کا نام ابو طالب کی گھاٹی ہے۔ تین سال تک وہاں رہے۔ اس جگہ کبھی کبھی ان کی یہ حالت ہو جاتی تھی کہ بنو ہاشم کے بچے بھوک کی وجہ سے اس طرح رویا کرتے تھے کہ ان کی آواز گھاٹی کے باہر تک سنائی دیتی۔ جب کھانے کو نہ ملتا تو درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرتے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کو سوکھاہوا چمڑا ہاتھ آگیا، میں نے اس کو پانی سے دھویا ،آگ پر بھونااور پانی میں ملا کر کھا گیا۔
ان تکلیفوں اور مصیبتوں کے باوجود آپ نے اپنا کام نہ چھوڑا۔ حج کے دنوں میں آپ گھاٹی سے باہر نکلتے اور لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کو کہتے۔ ابولہب کم بخت بھی صبح سے شام تک آپکے پیچھے پیچھے پھرا کرتا۔ جب آپ وعظ سے فارغ ہو جاتے تو کہتا:”لوگو!یہ دیوانہ ہے، اس کی بات نہ مانو، جو اس کی بات مانے گا تباہ ہو جائے گا۔
آخر دیمک نے کافروں کے اس معاہدے کے کاغذ کو چاٹ لیا اور اس طرح تین سال کے بعد ہمارے رسول کو اس مصیبت سے نجات ملی،آپ گھاٹی سے باہر نکلے اور پھر وعظ کہنا شروع کردیا۔
اس درمیان میں حضرت علی کے والد اور ہمارے رسول کے چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا، جنہوں نے شروع سے اب تک آپ کی مدد کی تھی۔ اس کے تین دن بعد آپ کی بیوی حضرت خدیجہ بھی فوت ہوگئیں، سب سے پہلے یہی اسلام لائی تھیں اور انہوں نے اپنی تمام دولت آپ پر نثار کر دی تھی، اس لئے آپ کو ان دونوں کے مرجانے کا بہت سخت افسوس ہوا۔
دشمنوں کے لئے اب میدان بالکل صاف تھا ۔ ان کو اور زیادہ مخالفت کا موقع مل گیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک کافر نے آپ کے سر پر کیچڑ پھینک دی۔ آپ اسی حالت میں گھر آئے۔ آپ کی صاحبزادی سر دھلا تی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔ آپ نے فرمایا ،پیاری بیٹی! کیوں روتی ہو،اللہ خود تیرے باپ کی حفاظت کرے گا۔
طائف کا سفر
اگرچہ دنیا میں اب آپ کا ظاہری سہارا کوئی نہ تھا پھر بھی آپ نے اور زیادہ ہمت اور جوش کے ساتھ وعظ کہنا شروع کردیا اور طائف کی طرف تشریف لے گئے ۔ اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ آپ کے ساتھ تھے ۔راستے میں جو قبیلہ ملتا، آپ اس کو اس وعظ سناتے اور ایک اللہ کی طرف بلاتے، یہاں تک کہ آپ طائف پہنچ گئے، وہاں کے سرداروں نے آپ کی بات بالکل نہ سنی بلکہ سخت کلامی سے پیش آئے اور کہا کیا خدا کو پیغمبری کے لئے تیرے سوا اور کوئی نہیں ملتا تھا ، جب آپ وہاں سے چلے تو ان لوگوں نے اپنے غلاموں اور اوباشوں کو آپ کے خلاف ابھار دیا۔ انہوں نے آپ پر اتنے پتھر پھینکے کہ آپ لہو سے تربتر ہو گئے۔ لہوبہہ کر جوتے میں جم گیا اور وضو کے لیے جوتے سے پاؤں نکالنا مشکل ہو گیا۔
اس مقام پر ایک دفعہ وعظ کہتے ہوئے حضور کو اتنی چوٹیں آئیں کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ زید نے اپنی پیٹھ پر آپ کو اٹھایا، آبادی سے باہر لے گئے، پانی کے چھینٹے دیئے تب جا کر آپ کو ہوش آیا۔ آپ نے یہ تمام تکلیفیں صرف اس لیے اٹھائیں کہ وہ لوگ بتوں کی پوجا چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی پوجا کریں، مگر اس وقت ان میں سے ایک شخص بھی مسلمان نہ ہوا۔
معراج
اللہ کے جتنے نیک بندے گزرے ہیں ،لوگوں نے ہمیشہ ان کو تکلیف دی ہے مگر ان بزرگوں نے تکلیفوں اور مصیبتوں کی کبھی کوئی پروا نہیں کی بلکہ ان مصیبتوں نے ان کی ہمت کو اور مضبوط کر دیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشمنوں نے آگ میں ڈال دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون نے قتل کرنے کی کوشش کی۔یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں گرا دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے طرح طرح کی تکلیفیں دیں، مگر ان لوگوں نے تبلیغ اسلام کو نہیں چھوڑا اور مرتے دم تک اپنا فرض ادا کرتے رہے۔
یہ تکلیفیں اور مصیبتیں رسولوں کے درجے کو بلند کرتی ہیں۔ قریش اور ان کے دوست تواللہ کے رسول کو اس طرح ذلیل کر کے خوش ہو رہے تھے مگر اللہ آپ کے درجوں کو اور اونچا کر رہا تھا۔ چنانچہ 27 رجب 10 نبوت کو معراج ہوئی، حضرت جبرائیل سب سے پہلے آپ کو بیت المقدس لے گئے جہاں آپ نے امام بن کر تمام نبیوں اور رسولوں کو نماز پڑھائی ۔پھر آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے، ہر ایک نبی سے ملاقات کی۔ اسی رات آپ کو پانچ نمازوں کا حکم ہوا اور آپ واپس تشریف لے آئے۔ یہ تمام واقعہ ایک ہی رات میں ہوا۔
طفیل بن عمرو دوسی
قبیلہ دوس کا سردار طفیل شاعر اور عقلمند آدمی تھا، وہ مکہ آیا تو لوگوں نے شہر سے باہر جاکر اس کا استقبال کیا، بہت خاطر تواضع کی اور اس سے کہا” یہاں ایک جادوگر پیدا ہوا ہے، اس سے بچنا۔وہ خاندان میں جدائی ڈال دیتا ہے اور ہم سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کی قوم بھی پریشانیوں میں پھنس جائے۔ تم کو ہماری نصیحت یہ ہے کہ تم اس کے پاس نہ جاؤ، نہ اس کی بات سنو، اور نہ اس سے بات چیت کروں۔“
ان باتوں نے طفیل پر اثر کیا،جب وہ بیت اللہ میں جاتا تو اپنے کانوں کو روئی سے بند کر لیتا کہ ہمارے رسول کی آواز اس کے کانوں میں نہ پڑ جائے، طفیل کہتے ہیں، ایک روز میں بہت سویرے بیت اللہ گیا، دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور ایک عجیب وغریب کلام پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت میں نے اپنے آپ کو بہت برا بھلا کہا کہ آخر میں خود شاعر ہوں۔ نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہوں۔ میں یہ کلام کیوں نہ سنوں۔ اگر اچھا ہوگا مان لوں گا ورنہ رد کردوں گا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے چلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا ۔مکان پر حاضر ہو کر میں نے اپنا تمام قصہ بیان کیا اور عرض کیا کہ آپ کچھ فرمائیں۔ آپ نے قرآن پڑھا ۔خدا کی قسم میں نے ایسا پاکیزہ کلام کبھی نہ سنا تھا جو اس قدر نیکی اور انصاف کا حکم دیتا ہو۔
قریش کو جب معلوم ہوا کہ طفیل مسلمان ہوگئے تو ان کو سخت رنج ہوا۔
وہ نبی
ہمارے رسول کو مکہ میں لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے دس سال ہوچکے تھے۔ گیارہویں سال کا ذکر ہے کہ آپ نے مکہ سے چند میل کے فاصلے پر کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا ۔آپ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کے سامنے اللہ کی بڑائی بیان کی۔ بتوں سے نفرت دلائی اور برے کاموں سے روکا۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اپنے شہر کے یہودیوں کو اکثر یہ کہتے سنا تھا کہ بہت جلد آخری نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس لئے یہ فوراً ایمان لے آئے اور اپنے وطن جا کر ہر ایک کو آپ کی خوشخبری دی کہ وہ نبی جس کا انتظار تھا آگیا۔
اگلے سال مدینہ سے 12 آدمی آئے۔ انہوں نے آپ کے مبارک ہاتھوں پر ان باتوں کا عہد کیا:
ہم ایک خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔
ہم چوری اور زنا نہیں کریں گے۔
ہم اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے۔
ہم نہ کسی کی چغلی کھائیں گے ، نہ کسی پر تہمت لگائیں گے۔
ہر اچھی بات میں اپنے رسول کی اطاعت کریں گے۔
جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو آپ نے ان کی تعلیم کے لئے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی ساتھ کر دیا۔ یہ بڑے ہی امیر گھرانے کے لاڈلے بیٹے تھے ۔جب سوار ہو کر نکلتے تو آگے پیچھے غلام چلا کرتے، اور نہایت ہی قیمتی پوشاک پہنتے مگر جب مدینے میں اسلام کی منادی کرنے گئے تو ان کے کندھوں پر کمبل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا تھا جسے کیکر کے کانٹوں سے اگلی طرف اٹکا لیا کرتے تھے۔
اسلام کا مرکز
مدینہ میں آکر حضرت مصعب یہاں کے ایک نہایت معزز رئیس حضرت اسعد بن زرارہ کے یہاں ٹھہرے۔ انصار کے ایک ایک گھر کا روزانہ دورہ کرتے اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے۔ آخر اس بزرگ خادم اسلام کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ انصار کے تمام قبیلوں میں اسلام پھیل گیا اور اگلے سال 72 مردوں اور دو عورتوں کا قافلہ اس لئے مکہ میں حاضر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دے۔
ہمارے رسول نے ان کو اللہ کا پیغام سنایا اور پوچھا:” کیا تم لوگ اس سچے دین کی منادی میں میری پوری پوری مدد کرو گے اور جب میں وہاں جاکر رہوں تو میری اور میرے ساتھیوں کی اپنے بیوی بچوں کی طرح حفاظت کرو گے۔“ ان لوگوں نے پوچھا:” کہ اس کا کیا ثواب ملے گا؟“ آپ نے فرمایا:” جنت اور اللہ کی خوشنودی ،پھر ان لوگوں نے اتنا اور عرض کیا کہ حضور یہ بھی فرما دیں کہ آپ ہمارا ساتھ تو کبھی نہ چھوڑیں گے ۔آپ نے فرمایا میرا جینا اور مرنا تمہارے ساتھ ہو گا ۔تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں۔ یہ سنتے ہی سب کے دل عشق خداوندی اور آپ کی محبت سے بھرپور ہو گئے اور سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اس واقعہ کے بعد اب جو شخص مسلمان ہو جاتا ،آپ اس کو مدینہ بھیج دیتے کیونکہ وہاں اسلام کا مرکز قائم ہوچکا تھا اور مسلمانوں کی حفاظت کرنے والی جماعت بن گئی تھی۔
صہیب رومی
لیکن مسلمانوں کے لیے مکہ چھوڑنا بھی آسان نہ تھا۔ حضرت صہیب رومی چلنے لگے تو کافروں نے انہیں گھیر لیا اور کہا جب تم یہاں آئے تھے تو غریب اور مفلس تھے۔ اس جگہ رہ کر تم نے خوب کمایا۔ اب تم یہ چاہتے ہو کہ تمام دولت لے کر چلے جاؤ۔ ہم تمہیں ہرگز نہ جانے دیں گے۔ صہیب نے کہا، اگر میں اپنا تمام مال اسی جگہ چھوڑ دوں تو جانے کی اجازت مل جائے گی۔ قریش نے کہا ،صرف اسی صورت میں اجازت مل سکتی ہے۔
صہیب نے اپنا مال و متاع کافروں کے حوالے کیا اور خود مدینہ کو روانہ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصہ سنا تو فرمایا کہ اس سودے میں صہیب نے خوب نفع کمایا۔
ام سلمہ
حضرت ام سلمہ، ان کے خاوند اور ان کا بچہ تینوں اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کو چلنے لگے تو ام سلمہ کے خاندان نے ابوسلمہ کو آکر گھیر لیا اور کہا ،تم جا سکتے ہو مگر ہماری لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ اتنے میں ابو سلمہ کے رشتہ دار بھی آگئے۔ انہوں نے لڑکا چھین لیا ۔ابوسلمہ اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ کر تنہا اللہ کی راہ میں ہجرت کر گئے۔
ام سلمہ کی اب یہ عادت تھی کہ وہ روزانہ شام کے وقت وہاں آتیں جس جگہ ان کے خاوند اور بچے کو الگ کردیا گیا تھا۔ گھنٹوں روتیں، پھر واپس چلی جاتیں۔ اسی طرح پورا ایک سال گزر گیا۔ آخر ان کے ایک چچیرے بھائی کو رحم آیا۔ ان کو بچہ واپس دے دیا گیا اور مدینہ جانے کی بھی اجازت مل گئی ۔ وہ تنہا اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کو چل دیں۔
اے عزیز بچّو! تم ان قصوں کو بار بار پڑھو، ان کو یاد رکھو، دیکھو اسلام کے لیے انہوں نے کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائیں، تب جاکر اسلام کا اس قدر بول بالا ہوا، مگر اسلام کی تبلیغ سے پہلے انہوں نے اپنی حالت کو درست کیا۔ ہر اچھی بات پر عمل کیا اور برائی سے دور رہے۔ ان کا یہ اچھا نمونہ ہی اصل میں لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتا تھا۔ تم خود اچھے بننے کی کوشش کرو کہ لوگ تم کو دیکھ کر اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں۔
قتل کا مشورہ
جب اس طرح ہجرت کرتے کرتے مکہ میں بہت تھوڑے مسلمان رہ گئے تو قریش کو خیال پیدا ہوا کہ اب ان کی طاقت مدینہ میں روزبروز زور پکڑ رہی ہے۔ ایسا نہ ہو یہ قوت پیدا کرکے مکہ پر حملہ کردیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اسلام کا بالکل ہی خاتمہ کردیا جائے۔ اس غرض کے لیے قریش کے سرداروں کا ایک خفیہ جلسہ ہوا۔ مشورہ یہ تھا کے آپ کے قتل کرنے کا اس سے بہتر وقت پھر نہ مل سکے گا۔ اس کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔
ہر شخص نے اپنی اپنی رائے پیش کی مگر ہر ایک کی تجویز پر اعتراض کیا گیا۔ آخر ابو جہل نے ایک صورت بیان کی اور سب نے اس کو پسند کیا ۔اس کی تجویز یہ تھی کہ قریش کے ہر ایک مشہور قبیلے میں سے ایک ایک جوان چن لیا جائے ۔رات کے وقت یہ تمام نوجوان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیر لیں۔ جب صبح کے وقت آپ نماز کے لئے باہر آئیں تو سب یکدم آپ کی بوٹی بوٹی کر دیں۔ اس طرح ان کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور محمد کے قبیلے کویہ ہمت نہ ہو گی کہ خون کا بدلہ لے۔
اس تجویز کے مطابق ایک رات کو تمام نوجوان تلواریں لے کر ہمارے رسول کے گھر کے چاروں طرف کھڑے ہوگئے کہ جب صبح کو آپ نکلیں تو سب ایک ساتھ ان پر ٹوٹ پڑیں۔
رسول کی ہجرت
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے اس مشورے کی خبر کر دی اور حکم دیا کہ اب آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں ۔جب رات کے وقت آپ کے گھر کے چاروں طرف نوجوان آپ کے خون کے پیاسے گھوم رہے تھے۔ آپ نے حضرت علی کو اپنی چارپائی پر لٹا دیا اور فرمایا کوئی فکر نہ کرو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
کافر اگرچہ آپ کے سخت دشمن تھے مگر اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھا کرتے تھے کیونکہ آپ کو سب کے سب صادق اور آمین کہتے تھے ۔آپ نے حضرت علی کو وہاں رہنے دیا کہ آپ کے بعد وہ لوگوں کی امانتیں ادا کردیں۔ جاںنثار علی تو ننگی تلواروں کے سائے میں خوب اطمینان سے سو رہے اور ہمارے رسول اللہ کی حفاظت میں سورہ یاسین پڑھتے ہوئے صاف نکل گئے۔ کسی کافر نے بھی آپ کو نہ دیکھا۔ یہ واقعہ 27 صفر 13 نبوت ،12 ستمبر 622ءجمعرات کے دن کا ہے۔
بچو! تم بھی ایسے ہی صادق اور امین بن جاؤ کہ دوست تو دوست دشمن بھی تمہاری سچائی اور دیانت داری پر بھروسہ کر سکیں۔
وہاںسے اللہ کا نبی اپنے پیارے دوست ابوبکر کے گھر گیا اور رات کے اندھیرے میں ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر غار ثور میں دونوں بزرگ تین رات چھپے رہے ۔چوتھی رات کو ابوبکر کے گھر سے دو اونٹنیاں آگئیں۔ آپ ان پر سوار ہوکر پیر کے روز یکم ربیع الاول یعنی سولہ ستمبر کو یہاں سے روانہ ہوئے اور آٹھ ربیع الاول 13 نبوت پیر کے روز ،23 ستمبر کو قبا پہنچ گئے۔ یہاں تین دن تک ٹھہرے رہے۔ اس جگہ ایک مسجد بنائی، بارہ ربیع الاول 1 ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔ آپ نے سو آدمیوں کے ساتھ بنو سالم کے محلے میں جمعہ کی نماز ادا کی۔
جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو انصار کی لڑکیاں جوش محبت میں گیت گا رہی تھیں۔ ہر ایک انصار کی یہ خواہش تھی کہ حضور میرے گھر میں تشریف رکھیں مگر آپ سب کو یہی جواب دیتے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو جہاں وہ خود بخود ٹھہر جائے گی، اسی جگہ میں اتر پڑوں گا۔ جہاں اب مسجد نبوی کا دروازہ ہے ، وہاں آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی ۔آپ بھی اسی جگہ اتر پڑے اور فرمایا، ان شاءاللہ یہی ہمارے ٹھہرنے کی جگہ ہوگی۔
بھائی چارہ
آپ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ( اللہ ان سے راضی ہو) کے گھر میں اترے اور سات مہینے تک اسی جگہ ٹھہرے رہے۔ مدینہ میں سب سے پہلا کام آپ نے یہ کیا کہ اللہ کا گھر بنایا۔ دونوں جہان کے سردار ،تمام رسولوں کے پیشوا ،اور ہمارے آقا مزدوروں کے لباس میں تھے۔ بزرگ صحابہ پتھر اٹھا کر لاتے اور سب مل کر اللہ کا گھر بناتے تھے۔ اس کی دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں۔ کھجور کے ستون تھے اور اسی کی چھال کاچھپر، فرش بالکل کچا تھا ، جس میں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو جاتی تھی، اس کے اردگردحجرے بنوائے، جب وہ تیار ہو گئے تو آپ اس مکان سے اٹھ آئے اور اپنی بی بیوں کو بھی وہاں بلوا لیا۔
جن لوگوں نے مکہ سے ہجرت کی تھی، وہ مہاجر تھے، ان کا وہاں کوئی گھر بار نہ تھا۔ مدینہ کے رہنے والوں نے ان مسافروں کی امداد کی اور انصار کہلائے ۔ہمارے رسول نے ان مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کرادیا۔ پھر ان بھائیوں کی حالت یہ تھی کہ ایک دوسرے پر اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار تھے ۔بعض انصاریوں نے تو یہاں تک کیا کہ اپنی جائداد کے دو حصے کر کے اپنے مہاجر بھائی سے کہا ،اس میں سے جو حصہ پسند آئے لے لو۔
بچو! تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ،تم بھی ایسے ہی بھائی بننے کی کوشش کرو اور دنیا کو بتا دو کہ اس بھائی چارہ کو کوئی چیز نہیں توڑ سکتی۔
امن کی پہلی کوشش
پہلے ہی سال ہمارے رسول نے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں اتفاق ہوجائے۔ آپ نے انصار اور یہود کو بلا کر چند شرطوں پر ایک اقرار نامہ لکھوا دیا جس کو دونوں فریقوں نے منظور کر لیا۔ اس کی بڑی بڑی شرطیں یہ تھیں:
۱) مسلمان اور یہود ایک قوم ہوں گے۔
۲)دونوں جماعتیں اپنے اپنے دین پر رہیں گی، ایک گروہ دوسرے کو تکلیف نہ دے گا۔
۳)ان میں سے جس جماعت کو جنگ پیش آئے گی اگر وہ مظلوم ہو تو دوسرا فریق اس کی مدد کرے گا۔
۴) مدینہ پر حملہ ہو تو دونوں فریق مل کر اس کو دور کریں گے۔
۵) جب صلح ہوگی تو دونوں فریق صلح کریں گے۔
۶) مدینہ کا شہر دونوں قوموں کے لئے عزت کی جگہ ہوگی، اس کے اندر خون نہیں بہایا جائے گا۔
۷)تمام جھگڑوں کا آخری فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( اللہ کی رحمت اور سلامتی ان پر ہو) کریں گے۔
مکہ میں جو نماز فرض ہوئی تھی تو صرف دو رکعت تھی، اب یہاں ظہر، عصر اور عشاءکی نماز میں دو دو رکعت بڑھا دی گئیں لیکن سفر کی نماز وہی دو رکعت ہی رہی۔
مکہ اور مدینہ
ہمارے رسول مکہ میں 13 سال تک رہے مگر قریش نے آپ کو کبھی آرام سے رہنے نہ دیا۔ ہمیشہ تکلیف ہی پہنچاتے رہے۔ وہاں صرف یہی لوگ آپ کے دشمن تھے مگر جب آپ مدینہ میں آگئے تو یہاں کئی دشمن پیدا ہو گئے۔ یہودیوں نے اگرچہ آپ کے ساتھ عہد کر لیا کہ امن قائم رکھیں گے مگر تم آگے چل کر پڑھو گے کہ ان لوگوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو دھوکا دیا۔ ان کے دشمنوں کی مدد کی اور اسلام کے فنا کرنے میں کبھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
یہاں ان کے علاوہ ایک اور جماعت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ منافقین تھے جو ظاہر میں مسلمان تھے۔ نماز میں شریک ہوتے اور اسلامی جلسوں میں حصہ لیتے تھے مگر دل میں کفر تھا اور اسلام کے سخت دشمن، یہ لوگ بھی اسلام کے لئے آگے چل کر بہت بڑا خطرہ ثابت ہوئے۔
بدر کی لڑائی
قریش نے یہاں بھی ہمارے رسول کو چین نہ لینے دیا۔ انہوں نے مدینہ ایک خط بھیجا اور انصار کو دھمکی دی کہ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دوستوں کو قتل نہیں کرتے تو ہم سب تم پر حملہ کر دیں گے۔ ہمارے رسول نے بڑی کوشش کی کہ امن قائم رہے اور کسی طرح قریش اور مسلمانوں میں صلح ہوجائے مگر قریش کب ماننے والے تھے۔ چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور آخر ہجرت کے دوسرے سال بدر کی لڑائی ہوگئی۔
ایک ہزار جوانوں کے ساتھ قریش مکہ سے چلے اور بدر کے میدان میں خیمے ڈال دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے ۔کم عمر بچوں کو واپس کردیا گیا۔ عمیر بن ابی وقاص ایک کمسن بچہ تھے۔ ان سے واپسی کے لئے کہا گیا تو رو پڑے۔ آخر آنحضرت نے اجازت دے دی۔ اب فوج کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی جس کے پاس دو گھوڑے اور ساٹھ اونٹ تھے۔ 17 رمضان جمعہ کے روز جنگ ہوئی۔ اللہ نے اپنے رسول کو فتح دی۔ کافروں کے تمام بڑے بڑے سازشی سردار مارے گئے اور بہت سے قید ہو گئے۔
ان لوگوں نے ہمارے رسول اور مسلمانوں کو مکہ میں ہمیشہ تکلیف دی تھی ۔اگر ہمارے رسول چاہتے تو ان تمام قیدیوں کو قتل کردیتے تاکہ دشمن پر مسلمانوں کا رعب قائم ہوجائے، مگر آپ تو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے ۔اس لئے آپ نے تمام قیدیوں کو تاوان لینے کے بعد رہا کردیا۔ ان لوگوں کے پاس کپڑے نہ تھے۔ آپ نے سب کو کپڑے دلوائے۔ البتہ ان میں سے جو پڑھے لکھے قیدی تھے، ان کا تاوان آپ نے یہ مقرر فرمایا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔
بچو! دیکھو ہمارے رسول پڑھنے لکھنے کو کتنا پسند کرتے تھے ۔تم بھی خوب پڑھولکھو کہ اللہ کے رسول تم سے محبت کریں اور تم بھی ان سے محبت کرنا سیکھو۔
اذان
اب تک نمازیوں کو مسجد میں جمع کرنے کا کوئی طریق مقرر نہیں تھا۔ مدینہ میں اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہمارے رسول نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا۔ لوگوں نے مختلف رائیں دیں مگر آپ نے کسی کو پسند نہیں کیا ۔آخر دوسرے روز حضرت عمر نے ایک تجویز پیش کی، جس کو آپ نے پسند کیا اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ اذان دیں،اس طرح ایک طرف مسلمانوں کو نماز کی اطلاع ہو جائے گی ،دوسری طرف اسلام کے پیغام کا دن میں پانچ دفعہ اعلان ہوگا ۔یہ واقعہ دو ہجری کا ہے۔
اسی سال زکوٰة اور سال بھر میں رمضان کے روزوں کا حکم ہوا۔
احد کی لڑائی
اب قریش کے گھر گھر ماتم تھا ۔تمام مکہ بدلہ لینے کو تیار ہورہا تھا۔ چند لوگوں نے ابو سفیان سے جا کر درخواست کی کہ محمد نے ہماری تمام قوم برباد کردی ہے۔ ان سے بدلہ لینا ضروری ہے کہ مال تجارت کا جو نفع اب تک جمع ہے ۔اس کام میں خرچ کیا جائے ۔ادھر قریش کو یہ شرم و ندامت کھائے جا رہی تھی کہ مٹھی بھر جماعت نے ان کو شکست دے دی ،اس لیے تیسرے سال پھر ان کافروں نے مدینہ پر حملہ کر دیا۔ پانچ ہزار کا لشکر احد کے میدان میں آ کر ٹھہر گیا، جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر شمال کی طرف ہے ۔تمام کھیتوں کو اجاڑ دیا اور چراگاہوں پر قبضہ کر لیا۔
ہمارے رسول کو جب اس لشکر کی خبر ملی تو آپ نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور جمعہ کے دن نماز پڑھ کر ایک ہزار صحابہ کے ساتھ شہر سے نکلے مگر راستے میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمی لے کر واپس آ گیا اور اب میدان میں صرف 700 مسلمان رہ گئے ۔آپ نے فوج کا جائزہ لیا۔ رافع بن خدیج سے فرمایا کہ تم عمر میں چھوٹے ہو ،واپس چلے جاؤ۔ وہ انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہوگئے کہ قد اونچا نظر آئے۔ ان کی یہ ترکیب چل گئی اور وہ لے لیے گئے۔ سمرہ ایک اور نوجوان ان کے ہم عمر تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں کشتی میں رافع کو پچھاڑ لیتا ہوں۔ ان کو اگر اجازت ملتی ہے تو مجھ کو بھی ملنی چاہیے۔ دونوں کا مقابلہ کرایا گیا اور سمرہ نے رافع کو زمین پر دے مارا۔ اس لیے ان کو بھی اجازت مل گئی۔
۷ شوال 3 ہجری کو لڑائی ہوئی۔ ہمارے رسول کے چار دانت ٹوٹ گئے۔ پیشانی اور بازو زخمی ہوئے ۔ پھر ایک غار میں گرپڑے۔ حضرت علی اپنی ڈھال میں پانی بھر کر لاتے اور فاطمہ اپنے باپ کے زخموں کو دھوتیں، پیشانی کا خون تھمتا نہ تھا، اس میں چٹائی جلا کر بھر ی، آپ کے ستر(۰۷) دوست اس جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت عائشہ اور ام سلیم مشقوں میں پانی لالا کر زخمیوں کو پلاتی تھیں۔
اس جنگ میں مسلمان مردوں اور عورتوں نے بڑی ہی بہادری اور رسول کی محبت کا ثبوت دیا۔
صحابہ کی جان نثاری
دشمن ہمارے رسول پر تیر برسا رہا تھا اور طلحہ اپنے ہاتھ پر ان کو روکتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا یہ ہاتھ بالکل شل ہوگیا ۔یہ ظالم تو آپ پر تیر برسا رہے تھے اور تمام جہانوں کی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان پریہ الفاظ تھے، ”اے خدا !میری قوم کو بخش دے، وہ نہیں جانتی۔“ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا۔ آپ نے فرمایا، کون مجھ پر جان دیتا ہے۔ زیاد بن السکن پانچ انصاری لے کر آگے بڑھے۔ ایک ایک نے لڑ کر جان دیدی۔ زیاد کو یہ عزت نصیب ہوئی کہ ان کالا شہ حضور کے قریب لایا گیا ۔ابھی جان باقی تھی۔ اس نے قدموں پر منہ رکھ دیا اور جان دے دی۔
ابن نضر فوج میں گھس گئے اور لڑ کر شہید ہو گئے۔ لڑائی کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسی(۰۸) سے زیادہ تیر، تلوار اور نیزے کے زخم تھے اور سب کے سب سامنے تھے۔پیٹھ پر ایک بھی زخم نہ تھا، زخموں کی کثرت کی وجہ سے کوئی شخص ان کو پہچان نہ سکا۔ آخر ان کی بہن نے انگلی دیکھ کر پہچانا۔ ایک انصاری عورت کا باپ، بھائی اور خاوند اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ باری باری اس کو ان سب کی شہادت کی خبر دی گئی مگر ہر مرتبہ وہ یہی پوچھتی رہی کہ ہمارے رسول کا کیا حال ہے۔ جب اس نے آپ کا چہرہ دیکھ لیا تو بے اختیار پکار اٹھی۔ اب ان تمام مصیبتوں کی کچھ بھی پروا نہیں ۔
حضرت ابو طلحہ مشہور تیر انداز تھے۔ انہوں نے اس قدر تیربرسائے کہ دوتین کمانیں ٹوٹ گئیں۔ اب انہوں نے اپنی ڈھال سے آنحضرت کے چہرے کو چھپا لیا کہ آپ پر کوئی وار نہ کر سکے۔ رسول پاک کبھی گردن اٹھا کردشمن کی فوج کی طرف دیکھتے تو عرض کرتے کہ آپ گردن نہ اٹھائیں، ایسا نہ ہو کوئی تیر لگ جائے۔ یہ میرا سینہ سامنے ہے۔
بچو! یہ واقعات ہیں، تم ان کو بار بار پڑھو اور دیکھو کہ صحابہ کرام کو ہمارے رسول کے ساتھ کتنی محبت تھی کہ وہ اپنی جانوں اور عزیزوں کی بھی آپ کی محبت میں پروا نہیں کرتے تھے ۔تم بھی اپنے رسول کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو۔
حضرت خبیب
4 ہجری کا واقعہ ہے کہ ہمارے رسول کے ایک صحابی حضرت خبیب کو بعض کافروں نے گرفتار کرکے قریش کے ہاتھ بیچ دیا۔ قریش نے ان کو حارث بن عامر کے گھر میں کئی روز تک بھوکا پیاسا رکھا۔ ایک روز حارث کا لڑکا تیز چھری سے کھیلتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا ۔انہوں نے اس کو تو اپنے زانو پر بٹھا لیا اور چھری لے کر زمین پر رکھ دی۔ بچے کی ماں نے دیکھا تو چیخ مار دی۔ انہوں نے کہا کہ کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ میں اس بچے کو مار ڈالوں گا۔ مسلمانوں کا کام بے وفائی اور غذر کرنا نہیں ہے۔
چند روز کے بعد قریش نے ان کو سولی کے نیچے کھڑا کر کے کہا کہ اگر تم اسلام کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں معاف کردیتے ہیں ۔انھوں نے جواب دیا کہ اگر اسلام نہ رہا تو پھر جان بچانے کا کیا فائدہ۔ پھر قریش نے کہا اگر کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔ انہوں نے کہا صرف دو رکعت نماز پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ کافروں نے اجازت دے دی۔ آپ نے اچھی طرح وضو کر کے دل کے ساتھ نماز ادا کی اور کہا، میں چاہتا تھا کہ نماز میں دیر لگاؤ صرف تمہارے خیال سے میں نے اس کو مختصر کر دیا کہ تم یہ نہ کہنے لگ جاؤ کہ موت کے ڈر سے نماز لمبی کر دی ہے۔
اب کافروں نے ان کو سولی پر لٹکا دیا اور ہر طرف سے نیزے مارنے شروع کر دیے۔ ایک سخت دل نے ان کے جگر کو چھید کر پوچھا، اب تو تم یہ چاہتے ہو گے کہ تمہاری جگہ پر محمد ہوں اور تم چھوٹ جاؤ۔ حضرت خبیب نے فوراً جواب دیا ،اللہ خوب جانتا ہے کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے ۔آخر اس بزرگ اسلام نے سولی ہی پر جان دے دی۔
انہوں نے سولی پر چڑھنے سے پہلے کچھ شعر کہے ہیں۔ ان میں سے صرف دو شعروں کا ترجمہ یہ ہے:
(۱)اللہ کی قسم، جب میں اسلام پر جان دے رہا ہوں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں کہ میں اللہ کی راہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں اور کس طرح جان دیتا ہوں۔
(۲)اللہ چاہے تو میرے گوشت کے ایک ایک ٹکڑے میں برکت عطا فرما سکتا ہے۔
عزیز بچو! اسلام اور رسول کی محبت اسے کہتے ہیں ۔تم بھی ایسے ہی مسلمان بن جاؤ اور کسی کے ساتھ بے وفائی اور عذر نہ کرو۔
یہودیوں کی پہلی شرارت
تم پہلے پڑھ چکے ہو کہ مدینہ میں یہودی رہتے تھے ۔وہ سودی لین دین کرتے تھے۔ انہوں نے تمام دوسرے لوگوں کو قرض میں جکڑ رکھا تھا۔ قرض میں ان کے بچوں اور عورتوں کو رہن رکھ لیتے۔ تاوان کی وجہ سے دو دو چار چار روپے کے زیور کے لئے بے گناہ بچوں کو پتھر سے مار ڈالتے تھے۔ ان میں زنا کا مرض عام طور پر موجود تھا۔
اسلام آیا تو ان کی یہ خرابیاں ظاہر ہونے لگیں اور ان کو معلوم ہوگیا کہ اب انصار پر ہمارا جادو نہیں چلے گا، اس لئے انہوں نے اسلام کے خلاف اپنی ناپاک کوششیں شروع کردیں۔ ان کی عادت تھی کہ جب وہ ہمارے رسول کے پاس آتے تو السلام علیکم نہ کہتے بلکہ اس کی جگہ السام علیکم کہتے، یعنی تم مر جاﺅ،مگر آپ ان باتوں پر صبر کرتے۔
بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ان یہودیوں کو خیال ہوا کہ اگر مسلمان طاقت پکڑ گئے تو ہمیں نقصان پہنچے گا۔ اس لئے ان کے تین قبیلوں میں سے ایک نے کھلم کھلا اس معاہدے کو توڑ ڈالا جو ہمارے رسول نے مدینہ آتے ہی ان کے ساتھ کیا تھا۔
اس درمیان میں ایک اور واقعہ پیش آگیا۔ ایک انصاریہ دودھ بیچنے کے لئے ان کے محلے میں گئی۔ ان شریروں نے اس کو سربازار ننگا کردیا ۔ایک مسلمان کو غیرت آئی تو اس نے یہودی کو مارڈالا۔ یہودیوں نے اس مسلمان کو مار ڈالا اوربلوہ بھی کیا ۔ساتھ ہی اس کے عہدنامہ واپس کرکے لڑائی کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ جنگ کا اعلان تھا۔آخر ہمارے رسول نے مجبور ہو کر پندرہ دن تک ان کے مکانوں کو گھیرے رکھا۔ اس کے بعد ان کو یہ سزا دی گئی کہ شہر خالی کرکے خیبر میں جا کر آباد ہوں، یہ شوال ۲ ہجری کا واقعہ ہے۔ یہ شرارت کرنے والے بنو قینقاع تھے۔ جو یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے۔
دوسری شرارت
۴ ہجری کا ذکر ہے کہ ہمارے رسول معاہدے کے مطابق خوں بہا لینے کے لئے بنونضیر کے محلے میں گئے ،جو یہودیوں کا دوسرا بڑا قبیلہ تھا۔ انہوں نے پہلے ہی سے شرارت کا ارادہ کرلیا تھا۔ جب آپ وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے آپ کو ایک دیوار کے نیچے بٹھا دیا اور ایک ملعون یہودی کو اوپر بھیج دیا کہ آپ پر چکی کا پاٹ گرا دے۔ اللہ نے آپ کو اس شرارت کی خبر کر دی اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔
اس شرارت پر بنو نضیر کو یہ سزا دی گئی کہ مدینہ کو چھوڑ کر خیبر میں آباد ہوں۔ انہوں نے اس تجویز کو پسند کیا۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو گرا دیا اور اونٹوں پر سامان لاد کر باجے بجاتے خیبر جابسے۔ اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت کو حکم دیا کہ وہ عبرانی زبان لکھنا پڑھنا سیکھ لیں اور فرمایا کہ مجھے یہودیوں پر اعتبار نہیں۔حضرت زید نے صرف پندرہ دن میں عبرانی زبان سیکھ لی۔
شراب حرام ہوگئی
عرب میں لوگ عام طور پر شراب پیتے تھے اور اس کی وجہ سے ہر قسم کی برائی اور پلیدی ان میں رواج پکڑ گئی تھی۔ دنیا میں سب سے پہلے ہمارے رسول نے اس شراب کو برائیوں کی جڑ ام الخبائث کا نام دیا اور ۴ ہجری میں اللہ کی طرف سے اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا حکم آ گیا۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابوطلحہ کے گھر میں بیٹھے تھے اور میں انہیں شراب پلا رہا تھا۔ اتنے میں شہر میں منادی ہونے لگی کہ شراب حرام ہوگئی، یہ سنت ہے کہ جتنی شراب باقی تھی پھینک دی گئی۔ اس روز مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہہ نکلی۔
خندق کی جنگ
جو یہودی مدینہ سے نکل کر خیبر میں آباد ہوگئے تھے، انہوں نے قریش کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ مسلمانوں کا نام و نشان ہی دنیا سے مٹا دیا جائے، چنانچہ انہوں نے آس پاس کے قبیلوں کو بھی بھڑکانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ذیقعدہ ۵ ہجری میں یہ سب لوگ چوبیس ہزار سے زیادہ فوج لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔
ہمارے رسول کو اس لشکر کی اطلاع ملی تو آپ نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور شہر کی حفاظت کے لئے اس کے ایک طرف خندق کھودنے کا حکم دیا۔ جاڑے کی راتیں اور تین تین دن کے فاقے ،مگر سب مسلمانوں نے مزدور بن کر کام کیا اور بیس دن میں اس کو پورا کردیا۔
شہر میں یہودیوں کا ایک ہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا جس کا نام بنوقریظہ تھا۔ اگرچہ یہ بھی مسلمانوں سے عہد کرچکا تھا مگر اس وقت اس نے بھی دھوکہ دیا اور دشمنوں کے ساتھ مل گیا۔ اور اس طرح ایک ہی وقت میں ہمارے رسول کو دو دشمنوں سے جنگ کرنی پڑی۔ شہر کے باہر چوبیس ہزار کا لشکر مسلمانوں کو کچلنے کے لئے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور اندر یہودی اور منافقین فساد پھیلا رہے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد کل تین ہزار تھی اور سب طرف سے گھرے ہوئے تھے۔ ایک ماہ تک دشمن اس سختی سے مسلمانوں کو گھیرے رہے کہ ہمارے رسول اور آپ کے دوستوں پر تین تین فاقے گزر گئے۔ آخر اللہ کی قدرت سے دشمن کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی۔ جاڑے کی راتوں اور تیز آندھی نے اور ان کا ستیاناس کر دیا۔ ان کا دل ٹوٹ گیا اور ناکام اپنے ڈیرے اٹھا کر چل دیئے۔
بنو قریظہ کا انجام
اس مصیبت سے نجات پانے کے بعد ہمارے رسول نے بنو قریظہ کو بلا بھیجا کہ اس کا جواب دیں کہ انہوں نے کیوں معاہدہ توڑا اور دشمن کی مدد کی۔؛ بدر کی لڑائی میں بھی ان لوگوں نے قریش کی ہتھیاروں سے مدد کی تھی۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بجائے یہ قلعہ بند ہوگئے اور لڑائی کی تیاری شروع کر دی۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ یہودی لڑنے کو تیار ہیں تو انہوں نے ذالحجہ میں ان کے قلعہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ان کا محاصرہ پچیس دن تک رہا ۔آخر انہوں نے ہمارے رسول کو کہلا بھیجا کہ ہم سعد بن معاذ قبیلہ اوس کے سردار کو اپنا سرپنچ تسلیم کرتے ہیں ۔وہ جو فیصلہ کریں ،اسے آپ بھی منظور کر لیں۔
اس پر محاصرہ اٹھا لیا گیا، بنوقریظہ قلعہ سے نکل آئے اور مقدمہ سعد بن معاذ کے سپرد کر دیا گیا ۔انہوں نے پوری تحقیق کے بعد یہ فیصلہ کیا:
۱) بنوقریظہ کے لڑائی کے قابل مرد قتل کردیئے جائیں۔
۲)ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنا لیا جائے۔
۳) ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم ہو۔
اس طرح مدینہ کے یہودیوں کا خاتمہ ہوا۔
حدیبیہ کی صلح
۶ ہجری میں ہمارے رسول نے خواب دیکھا کہ مسلمان مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں، اس لئے آپ اپنے ڈیڑھ ہزار دوستوں کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کو روانہ ہوئے اور قربانی کے اونٹ بھی ساتھ لے لئے تاکہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، مگر جب ان کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ لڑنے کو تیار ہو گئے بلکہ خود سر نوجوانوں کی ایک جماعت اس کام کے لئے شہر سے باہر نکل بھی آئی۔
آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش میں صلح کی گفتگو شروع ہوئی ۔ان کا ایک سردار عر وہ آپ کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ صحابہ اپنے رسول کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ کوئی شخص نظر اٹھا کر بھی آپ کے چہرہ مبارک کو نہیں دیکھتا۔ آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر نہیں گرنے دیتے بلکہ اس کو تبرک کے طور پر آنکھ اور منہ پر مل لیتے ہیں۔
قریش کے سفیر نے واپس جا کر اپنی قوم سے کہا کہ میں نے ایران اور روما کے درباروں کو دیکھا ہے مگر میں نے کسی بادشاہ کو اپنی ریاست میں اس قدر محبوب اور معزز نہیں پایا، جس قدر یہ رسول اپنے دوستوں میں ہیں۔ وہ لوگ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔
ہمارے رسول جنگ کرنی نہیں چاہتے تھے، اس لئے آپ نے اپنی طرف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا کہ قریش کو سمجھائیں کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیں ۔یہاں مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ دشمنوں نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا ہے۔ ہمارے رسول نے سنا تو آپ کو بہت رنج ہوا اور سب دوستوں سے اس بات کا اقرار لیا کہ اگر لڑنا پڑا تو ثابت قدم رہیں گے۔ اس اقرار کو بیعت رضوان یا بیعت شجرہ کہتے ہیں، اس لئے کہ اس بیعت پر اللہ نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ درخت کے نیچے ہوئی تھی اس لئے اس کے دو نام مشہور ہو گئے۔ بعد کو حضرت عثمان کے قتل کی خبر غلط ثابت ہوئی ۔آخر بڑی مشکل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان ان شرطوں پر صلح ہو گئی۔
۱)مسلمان اس سال واپس چلے جائیں ۔اگلے سال عمرہ کریں مگر تلوار کے سوا ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو اور وہ بھی نیام میں۔ صرف تین دن حرم میں ٹھہریں۔ ان دنوں قریش شہر خالی کر کے باہر چلے جائیں گے۔
۲)مسلمانوں اور قریش کو اس بات کی اجازت ہے کہ عرب کے قبیلوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کریں۔
۳)اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے تو مسلمان اس کو واپس کر دیں، لیکن اگر کوئی مسلمان بھاگ کر قریش کے پاس چلا جائے تو قریش اسے واپس نہ کریں گے۔
۴)یہ معاہدہ دس سال تک رہے گا۔ اس درمیان میں دونوں فریق آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔
بچو! یہ شرطیں ظاہر میں اچھی نہیں ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رسول نے دب کر صلح کی، مگر ایسا نہیں۔ آپ امن کے پیغام بر تھے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ لڑائی ہو، اس لیے آپ نے ان شرطوں کو قبول کرلیا۔ اب اگر ان شرطوں کا نتیجہ دیکھوتو ہمارے رسول کو زبردست فتح ہوئی۔ لوگ جوق در جوق اسلام لانے لگے اور تھوڑے دنوں میں سب طرف مسلمان ہی مسلمان ہو گئے۔
اسلام لانے والوں میں حضرت خالد بن ولید بھی تھے جو جنگ احد میں کافروں کے ایک ر سالہ کے افسر تھے۔ پھر مسلمان ہوکر انہوں نے تمام عراق اور شام کا آدھا ملک فتح کیا۔ تمام عمر اسلام کی خدمت کرتے رہے۔ ہمارے رسول نے ان کو” سیف اللہ “(اللہ کی تلوار)کا لقب دیا تھا۔
حضرت عمر بن العاص بھی اسی زمانہ میں اسلام لائے۔ یہی وہ بزرگ تھے جن کو قریش نے نجاشی شاہ حبشہ کے پاس بھیجا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ان کے حوالے کر دے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مصر کو فتح کیا تھا۔
یہودیوں کی آخری شرارت
تم پڑھ آئے ہو کہ یہودی جب تک مدینہ میں رہے ،ہمیشہ شرارت کرتے رہے ۔آخر ان کو خیبر میں جلاوطن کر دیا گیا لیکن یہاںبھی یہ لوگ چین سے نہ بیٹھے۔ ۶ ہجری میں ان کے سردار نے آس پاس کا دورہ کیا اور ان قبیلوں کی بہت بڑی فوج لے کر مدینہ پر حملے کی تیاری کی۔ جب ہمارے رسول کو خبر ہوئی تو آپ محرم ۷ ہجری کو ۰۰۶۱ سپاہی لے کرمدینہ سے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ کئی روز تک لڑائی رہی۔ حضرت علی نے اس جنگ میں بہادری کے خوب ہی جوہر دکھائے ۔آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
یہودیوں نے آپ سے درخواست کی کہ زمین ہمارے ہی قبضے میں رہے ۔تمام پیداوار کا آدھا حصہ ہم آپ کی خدمت میں ہر سال پیش کردیا کریں گے۔ آپ نے ان کی اس شرط کو قبول فرما لیا اور زمین ان کے قبضہ ہی میں رہنے دیں۔
بادشاہوں کے نام خط
ہمارے رسول تمام دنیا کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اس لئے ضروری تھا کہ آپ دنیا کی تمام قوموں کے پاس اپنا پیغام بھیج دیں۔ جب حدیبیہ کی صلح ہوگئی اور آپ کو اطمینان ہو گیا تو آپ نے ۷ ہجری میں محرم کی پہلی تاریخ کو مشہور بادشاہوں کے نام خط بھیجے ، جن میں ان کو اسلام کی طرف بلایا۔ جو سفیر جس قوم کے پاس بھیجا گیا وہ وہاں کی زبان اچھی طرح جانتا تھا کہ تبلیغ اچھی طرح کر سکے اورہر خط پر آپ کی مہر ہوتی تھی جو چاندی کی بنی ہوئی تھی اور اس پر تین سطروں میں لکھا ہوا تھا: محمد رسول اللہ
موتہ کی لڑائی
ہمارے رسول نے جن بادشاہوں کے نام اسلام کی دعوت کے خط بھیجے ،ان میں ایک بصریٰ کا بادشاہ بھی تھا، جس کا نام شرحبیل بن عمروتھا، اس نے قانون کے خلاف ہمارے رسول کے سفیر حضرت حارث بن عمیر کو قتل کردیا، اس کا بدلہ لینے کے لئے آپ نے جمادی الاولیٰ ۸ ہجری میں تین ہزار فوج روانہ کی۔ اس کا سردار زید بن حارثہ کو بنایا جو پہلے آپ کے غلام تھے۔ بعد میں ان کو آزاد کر دیا تھا۔ آپ نے لشکر روانہ ہوتے وقت یہ فرما دیا تھا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفر بن ابی طالب کو امیر بنانا اور اگر وہ بھی شہادت کا پیالہ پی لیں تو عبداللہ بن رواحہ امیر بن جائے۔
غسانی بادشاہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے ایک لاکھ فوج کے ساتھ میدان میں آگیا اور ہرقل شاہ روم نے بھی اس کی امداد کے لیے اپنے امیروں کو فوج کے ساتھ بھیجا۔ غرض لڑائی شروع ہوئی ،مسلمانوں کے تینوں امیر ایک ایک کرکے شہید ہوگئے ۔حضرت جعفر کے جسم پر تلواروں اور برچھیوں کے ۰۹ زخم تھے جو سب کے سب سامنے تھے ۔پیٹھ پر ایک بھی نہ تھا۔ آخر حضرت خالد بن ولید خود امیر بن گئے۔ اس روز آٹھ تلواریں ان کے ہاتھ سے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں اور بڑی مشکل سے ان مسلمانوں کی جان بچی۔
ڈیڑھ دن کی لڑائی کے بعد حضرت خالد مسلمانوں کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر سلامتی سے مدینہ واپس لے آئے۔ اسی لڑائی کے بعد ہمارے رسول نے حضرت خالد بن ولید کو سیف اللہ( اللہ کی تلوار) کا لقب عطا فرمایا۔
مکہ کی فتح
گو حدیبیہ کے میدان میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان دس سال کے لیے صلح ہوگئی تھی مگر قریش اس صلح کو قائم نہ رکھ سکے۔ انہوں نے ہمارے رسول کے ایک دوست قبیلے پر حملہ کردیا اور عین حرم کے اندر ان کو قتل کیا۔ ان میں سے جو لوگ بچ گئے، انہوں نے مدینہ میں آکر دربار رسول میں شکایت کی اور امداد طلب کی۔ آپ ان مظلوموں کی مدد کے لیے دس ہزار مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ دس رمضان ۸ ہجری کو مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مکہ میں خون بہے ،آپ نے کوشش کی کہ آپ کے روانہ ہونے کی خبر قریش کو نہ ہو۔ شہر میں داخل ہوتے وقت آپ نے اپنی فوج کو یہ ہدایتیں دیں:
۱)جو شخص ہتھیار پھینک دے ،اسے قتل نہ کیا جائے۔
۲)جو بیت اللہ کے اندر چلا جائے، اسے قتل نہ کیا جائے ۔
۳)جو اپنے گھر میں بیٹھ رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
۴) جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
۵) جو حکیم بن حزام کے گھر میں جا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
۶) زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔
۷) قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔
۸) بھاگ جانے والے کا پیچھا نہ کیا جائے۔
اللہ کا پیار اور رسول ۰۲ رمضان کو شہر میں داخل ہوا۔ اونٹ کی سواری پر آپ بیت اللہ کو جا رہے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے آزاد کئے ہوئے غلام زید کے صاحبزادے اسامہ بھی سوار تھے۔ آپ کا سر مبارک جھکا ہوا تھا اور سورہ فتح کی تلاوت فرمارہے تھے ۔اللہ کے گھر میں داخل ہوئے تو اس میں ۰۶۳ بت تھے۔ آپ نے ان بتوں سے اللہ کے گھر کو پاک و صاف کیا ۔ہر ایک بت کو خود اپنے ہاتھ سے گرایا۔ پھر اس میں چاروں طرف اللہ اکبر کے ترانے گائے۔ نمازشکر ادا کی اور اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ کر اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔
جب آپ بیت اللہ سے باہر نکلے تو مکہ کے تمام سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ انہوںنے برابر ۱۲ سال تک آپ کو، آپ کے دوستوں کو اور آپ کے مال و جائیداد کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ آپ نے ان سے فرمایا:
”اے قریش کے لوگو! اللہ نے آج تمہارے غرور اور فخر کو توڑ دیا، جو تم اپنے باپ دادا پر کیا کرتے تھے۔ سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنایا گیا تھا ۔ اللہ فرماتا ہے ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ۔ہم نے تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔اللہ کے دربار میں عزت صرف اسی شخص کی ہے جس میں پرہیزگاری زیادہ ہو ۔ جاؤ تم آزاد ہو اور آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔“
بچو! ہمارے رسول جیسا رحم دل انسان تمہیں کوئی نہیں ملے گا ۔وہ اگر چاہتے تو اپنے دشمنوں سے بدلہ لیتے اور سب کو قتل کردیتے مگر آپ نے سب کو معاف کر دیا۔ تم بھی جب اپنے دشمن پر قابو پا لو تو معاف کردو۔ تم اپنے خاندان پر غرور نہ کرو بلکہ نیک بنو کہ اللہ کے پاس وہی عزت والا ہے جو سب سے زیادہ نیک ہے۔
حنین کی لڑائی
ہمارے رسول کو اطلاع ملی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کو جمع ہوگئے ہیں۔ یہ عرب کے مشہور تیرانداز اور لڑنے والے تھے۔ آپ بھی بارہ ہزار فوج کے ساتھ مکہ سے حنین کی طرف بڑھے۔ صحابہ نے جب دیکھا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے تو ان کے دل میں غرور پیدا ہوا اور کہنے لگے کہ آج ہمارے پاس اتنی فوج ہے کہ ہم کبھی شکست نہیں کھا سکتے۔
اللہ کو ان کا یہ غرور پسند نہ آیا۔ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور دشمن کے تیروں کے سامنے بھاگنے لگے مگر اللہ کے رسول نے ان کو واپس بلایا ۔پھر جو جم کر لڑے اور دل سے غرور نکال دیا تو ان کو فتح ہو گئی۔
دیکھو! غرور اور تکبر کیسی بری بلا ہے۔ اس سے تمہیں ہمیشہ بچنا چاہیے ۔تمہیں یہ چاہیے کہ جو کام تم کرنا چاہو اس میں اپنی تمام قوت خرچ کردو اور نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دو۔ اپنی تعداد ،دولت اور عقل پر بھروسہ نہ کرو۔ بھروسہ فقط اللہ کی مدد پر ہونا چاہیے۔
طائف میں قبیلہ ہوازن ہی کے لوگوں نے ہمارے رسول کو پتھروں سے زخمی کیا تھا۔ جب آپ شروع شروع میں ان کے پاس گئے تھے کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں، اب فتح کے بعد اس قبیلہ کے سردار جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے قیدیوں کے رہا کئے جانے کی درخواست کی تو آپ نے نہ صرف ان قیدیوں کو رہا کیا بلکہ ان کو اپنے پاس سے لباس پہنا کر رخصت کیا ۔ان قیدیوں میں آپ کی دودھ بہن شیما بھی تھی۔ لوگوں نے ان کو گرفتار کیا تو کہنے لگیں میں تمہارے رسول کی بہن ہوں، لوگ تصدیق کے لئے ان کو آپ کے پاس لے آئے ۔انہوں نے اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی کہ ایک دفعہ آپ نے بچپن میں دانت سے کاٹا تھا۔ اس کا نشان ہے۔
آپ کی آنکھوں میں محبت کی وجہ سے آنسو بھر آئے۔ ان کے لئے زمین پر اپنی چادر بچھا دی۔ محبت کی باتیں کیں۔ کچھ اونٹ اور بکریاں دیں۔ پھر فرمایا، جی چاہے تو میرے پاس رہو،اور یہ بہتر ہے اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پاس تمہیں پہنچا دیا جائے ۔وہ وطن جانا چاہتی تھیں، آپ نے ان کو بہت سے تحفے دیے اور عزت کے ساتھ ان کے گھر پہنچا دیا۔
رسول کی محبت
اس لڑائی کے بعد ہمارے رسول نے مال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا، مگر سب سے زیادہ ان لوگوں کو ملا جو مکہ کے تھے،اور ابھی ابھی مسلمان ہوئے تھے،اس پر انصار کو رنج ہوا اور ان میں سے بعض نوجوانوں نے کہا کہ آپ نے قریش کو انعام دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا،کسی نے کہا کہ مشکلوں میں ہم یاد آتے ہیں اور غنیمت کا مال دوسروں کو ملتا ہے۔
آپ نے سنا تو انصار کو بلایا،چمڑے کا ایک خیمہ لگایا گیا۔جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ باتیں کہی ہیں،انہوں نے عرض کیا صرف نوجوانوں نے ایسا کہا ہے۔اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور انصار سے فرمایا:
”کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے ،اللہ نے میری وجہ سے تم کو ہدایت دی،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،میرے ذریعے سے تم میں اتفاق ہوا،تم غریب تھے،میری بدولت اللہ نے تم کو غنی کیا۔“
آپ یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار ہر فقرہ پر کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے۔
آپ نے فرمایا: نہیں،تم لوگ یہ جواب دے سکتے تھے کہ اے محمد،ساری دنیا نے تم کو جھٹلایا،ہم نے تمہاری تصدیق کی۔سب نے تم کو چھوڑ دیا مگر ہم نے پناہ دی۔تو محتاج آیا،ہم نے تیری مدد کی۔تم یہ جواب دو،میں تمہاری ہر ایک بات کی تصدیق کروں گا،لیکن اے گروہ انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ اور لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد کو اپنے گھر لے چلو۔
یہ سن کر انصار بے اختیار چیخ اٹھے،ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں،اور عرض کیا، بس ہم کو صرف محمد درکار ہے۔
حیرت انگیز ایثار
اس جنگ میں جس قدر قیدی تھے،ان کو رہا کرانے کے لئے ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا،یہ وفد اس قبیلے کا تھا جس سے آپ کی دودھ ماں حضرت حلیمہ تھیں۔قبیلہ کے سردار نے زبردست تقریر کرکے آپ سے درخواست کی کہ آپ قیدیوں کو چھوڑ دیں۔ آپ نے فرمایا ،عبدالمطلب کے خاندان کا جتنا حصہ ان قیدیوں میں ہے، وہ تمہارا ہے، لیکن اگر تم تمام قیدیوں کو چھڑانا چاہتے ہو تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے بعد سب کے سامنے یہ درخواست پیش کرو۔ ان لوگوں نے ظہر کی نماز کے بعد ایسا ہی کیا ۔آںحضرت نے فرمایا ،مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے، البتہ میں سب سے ان کے لئے سفارش کرتا ہوں۔ تمام حاضرین بول اٹھے، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ اس طرح چھ ہزار قیدی فوراً آزاد ہوگئے۔
جنگ تبوک
مدینہ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ رومیوں نے شام میں بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور فوج میں سال بھر کی تنخواہ بھی تقسیم کر دی ہے کہ مسلمانوں سے بدلہ لیں ۔یہ سن کر مسلمانوں کو بڑی فکر ہوئی ۔ہمارے رسول نے بھی تیاری شروع کردی۔ قحط کا زمانہ، گرمی کی شدت، اور دور کا سفر تھا۔ اکثر لوگوں کو گھر سے نکلنا پسند نہ تھا۔ منافقین خود بھی جی چراتے اور دوسروں کو بھی روکتے تھے۔ صحابہ نے اس موقع پر اسلام کی محبت کا زبردست ثبوت دیا اور اپنی اپنی حیثیت کے موافق لشکر کی مدد کی۔ حضرت ابوبکر گھرکی ایک ایک چیز گن کر لے آئے ۔آخرر جب۹ ہجری کو ہمارے رسول تیس ہزار فوج کے ساتھ تبوک کی طرف روانہ ہوگئے۔
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ آپ وہاں بیس دن تک ٹھہرے۔ آس پاس کے عیسائیوں نے آپ کی اطاعت قبول کی اور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو لوگ شوق میں استقبال کو نکلے۔ یہاں تک کہ عورتیں بھی گھروں سے باہر نکل آئیں اور لڑکیوں نے خوشی میں گیت گائے۔
حج کا حکم
۹ ہجری میں حج کا حکم ہوا۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو حاجیوں کا امیر بنا کر بھیجا اور تین سو صحابہ ان کے ساتھ روانہ کیے۔ بعد کو حضرت علی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ وہاں جاکر ان لوگوں نے اعلان کیا کہ اب آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کے اندر نہ آ سکے گا اور نہ ننگے بدن اس کا طواف کر سکے گا۔
حجة الوداع
تمام عرب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور وہاں کے رہنے والے مسلمان ہوگئے، یعنی ہمارے رسول جس کام کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے وہ ایک حد تک پورا ہوگیا۔ اسلام کے حکموں میں صرف ایک حج باقی رہ گیا تھا جو آپ نے ابھی تک ادا نہیں کیا تھا۔ اب آپ نے ذیقعدہ ۰۱ ہجری میں حج کا اعلان کیا اور اسی مہینہ کی ۶۲ تاریخ کو مدینہ سے روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان آپ کے ساتھ تھے۔
جب آپ مکہ پہنچے تو خاندان ہاشم کے لڑکے خوشی سے باہر نکل آئے۔ آپ نے محبت کی وجہ سے کسی کو آگے اور کسی کو پیچھے اونٹ پر بٹھا لیا ،پھر آپ نے کعبہ کا طواف کیا۔ آپ نے عرفات کے میدان میں اونٹنی کی پیٹھ پر خطبہ دیا جس کے آخر میں آپ نے فرمایا ،اپنے رب کی پوجا کرو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو ،مہینے کا روزہ رکھا کرو اور اپنے مسلمان حاکموں کی بات مانو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو اسی جگہ یہ آیت نازل ہوئی:
اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیةَ لَکُمُ الاِسلَامَ دِیناً
آج میں نے کامل کردیا تمہارے لئے تمہارے دین کو اور پورا کردیا تم پر اپنا احسان اور پسند کیا تمہارے لئے دین اسلام۔
قربانی کے دن ہمارے رسول نے ۳۶ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے اور آپ کی طرف سے ۷۳ اونٹ حضرت علی نے ذبح کیے۔
وفات
حج سے واپس آکر ہمارے رسول ۹۲ صفر ۱۱ ہجری دوشنبہ کے دن بیمار ہوئے۔جب تک کہ آپ کے جسم میں طاقت رہی، آپ برابر مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے رہے۔ وفات سے پانچ روز پہلے آپ نے فرمایا، تم سے پہلے ایک قوم گزر چکی ہے جو نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ کرتی تھی، تم ایسا نہ کرنا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اس آخری نصیحت کو بھلا دیا۔
بچو! تم اس کو یاد رکھو اور کبھی کسی قبر کے آگے اپنا سر نہ جھکاؤ اور مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو۔
گھر میں جو کچھ تھا، اللہ کی راہ میں دے دیا تھا۔ جس رات کی صبح کو آپ کا انتقال ہوا ہے، اس رات چراغ کا تیل حضرت عائشہ نے اپنی ایک پڑوسن سے مانگا تھا ۔آپ کی ایک زرہ یہودی کے پاس گرو تھی۔ نزع کی حالت میں حسن اور حسین آئے تو نانا کا حال دیکھ کر رونے لگے۔ آپ نے ان دونوں کو چوما، حضرت علی سے فرمایا، لونڈی اور غلام کی نسبت اللہ کا حکم یاد رکھو، انہیں خوب کھلاؤ پلاؤ اور ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے بات کرو۔
آخر میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے،” نماز، نماز، لونڈی اور غلام کے حقوق۔“پاس ہی پانی کی لگن تھی۔ اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرے پر ملتے۔ چادر کبھی منہ پر ڈالتے اور کبھی ہٹا لیتے۔ ہاتھ اٹھا کر انگلی سے تین دفعہ اشارہ کرکے فرمایا،” اے اللہ! بہترین رفیق ۔“یہی کہتے کہتے ہاتھ لٹک آئے، آنکھیں پتھرا گئیں ۔آخر ۲۱ ربیع لاول ۱۱ ہجری کو دوشنبہ کے دن ۳۶ سال پانچ دن کی عمر میں چاشت کے وقت آفتاب رسالت غروب ہو گیا اور ہمارے پیارے رسول ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے۔ جس جگہ فوت ہوئے، وہیں دفن کر دیے گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون( ہم سب اللہ ہی کے ہیں اورہم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔)
مبارک صورت
ہمارے رسول نہایت ہی خوبصورت تھے ۔آپ کا قد میانہ تھا اور رنگ سرخ سفید ۔پیشانی چوڑی اور اونچی تھی۔ آواز میں بھاری پن تھا۔ آنکھیں سیاہ اور پلکیں بڑی بڑی تھیں۔آپ کے دوستوں پر آپ کی خوبصورتی کا بہت زیادہ اثر تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے جب پہلی مرتبہ آپ کا مبارک چہرہ دیکھا تو فوراً بول پڑے، اللہ کی قسم یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں۔
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ آپ کا چہرہ چاند اور سورج کی طرح چمکتا تھا ۔آپ کے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ رات کو چاند نکلتا تو میں کبھی آپ کو دیکھتا تھا اور کبھی چاند کو۔ آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
باتیں
آپ اکثر خاموش رہتے اور بغیر ضرورت کے کبھی بات نہ کرتے ۔جب بولتے تو ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے ۔ایک ایک فقرہ الگ الگ ہوتا کہ سننے والا یاد رکھ سکتا تھا۔ عام طور پر ایک ایک بات کو تین تین بار دہراتے۔ اگر کسی بات پر زور دینا ہوتا تو اسے کئی بار فرماتے۔ تمام گفتگو ایسی ہوتی گویا موتی پروئے ہوئے ہیں۔ الفاظ ایسی ترتیب سے بیان کرتے کہ سننے والا اگر چاہتا تو انہیں گن سکتا تھا۔ آپ کی باتیں میٹھی اور شیریں ہوتیں
ہنسی
آپ کبھی کھلکھلا کر نہیں ہنسے ۔مسکرانا ہی آپ کا ہنسنا تھا۔ تہجد کی نماز میں اکثر رو پڑا کرتے۔ کبھی کسی وفادار دوست کی وفات پر آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ آپ کے فرزند حضرت ابراہیم دودھ پیتے گزر گئے۔ جب انہیں قبر میں رکھا گیا تو ہمارے رسول کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ فرمایا، آنکھوں میں آنسو ہیں اور دل میں غم ہے، مگر ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے۔ ابراہیم ہمیں تمہاری وجہ سے رنج ہوا۔
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعود آپ کو قرآن پاک سنا رہے تھے۔ جب وہ پڑھتے پڑھتے ایک آیت پر پہنچے تو آپ نے فرمایا، بس ٹھہرو ،انہوں نے آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔
غذا
آپ سرکہ، شہد، حلوہ ،روغن زیتون اور کدو خاص طور پر پسند فرماتے تھے ۔ایک دفعہ حضرت امام حسن اور عبداللہ بن عباس، حضرت سلمیٰ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ ہمیں وہ کھانا کھلاؤ جو ہمارے رسول کو بہت پسند تھا ۔بولیں،بھلا تم اس کو کیسے پسند کرو گے۔ مگر جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو آپ نے جو کا آٹا پیس کر ہانڈی میں چڑھا دیا اور اوپر سے روغن زیتون ،زیرہ اور کالی مرچیں ڈال دیں۔ پکنے پر لوگوں کے سامنے رکھا اور کہا کہ آپ کی سب سے زیادہ پسندیدہ غذا یہی تھی۔
لباس
چادر، قمیض، تہمد، آپ کا عام لباس تھا۔ پاجامہ آپ نے خریدا ہے مگر پہنا نہیں ۔آپ کو یمن کی چادر بہت پسند تھی ،جو دھاری دار ہوتی۔ عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا،جس کے نیچے سر سے لپٹی ہوئی ٹوپی ہوتی۔ بچھونا چمڑے کا گدا ہوتا، جس میں روئی کی بجائے کھجور کے پتے ہوتے ۔چارپائی بان کی بنی ہوتی، جس سے اکثر آپ کے مبارک جسم میں نشان پڑ جاتے۔
صفائی
آپ کو صفائی اور ستھرائی بہت پسند تھی ۔اکثر کسی کو میلے اور خراب کپڑے پہنے دیکھتے تو اسے صفائی کی طرف توجہ دلاتے۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن آپ مسجد میں تشریف لائے ۔مسجد تنگ تھی۔ کام کاج والے لوگ میلے کپڑوں میں چلے آئے۔ گرمی کا زمانہ تھا۔ پسینہ آیا تو بو تمام مسجد میں پھیل گئی۔ آپ نے فرمایا، نہا کر آتے تو اچھا ہوتا۔ اسی روز سے جمعہ کے روز نہانا شریعت کا ایک حکم بن گیا۔
اگر کوئی شخص مسجد کی دیواروں پر یا سامنے زمین پر تھوک دیتا تو اس کو سخت ناپسند فرماتے اور خود چھڑی کی نوک سے کھرچ دیتے۔ ایک دفعہ آپ نے دیوار پر تھوک دیکھا تو غصے سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ایک انصاری عورت نے اس دھبے کو مٹایا اور اس جگہ خوشبو لگا دی تو آپ بہت خوش ہو گئے اور اس کی تعریف کی۔
ایک دفعہ ایک صحابی نماز پڑھا رہے تھے۔ اسی حالت میں انہوں نے تھوک دیا ۔آپ نے دیکھا تو فرمایا کہ یہ شخص اب نماز نہ پڑھانے پائے۔ بو دار چیزوں سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ پیاز، لہسن اور مولی کھا کر مسجد میں آنے کی اجازت نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص پیاز، لہسن کھائے وہ ہمارے پاس نہ آئے اور ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے۔ آپ نے حکم دیا کہ مسجدوں میں مجنون نہ آنے پائیں۔ جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو کی انگیٹھیاں جلائی جائیں۔
عرب کے لوگ راستے میں پیشاب کردیا کرتے تھے ۔آپ نے اس سے روکا اور ان لوگوں پر لعنت کی جو راستے میں یا درختوں کے سائے میں بول(پیشاب) کرتے ہیں۔ امیر اور دولتمند لوگ صرف کاہلی اور سستی کی وجہ سے برتن میں پیشاب کر لیا کرتے ہیں ۔آپ نے اس سے بھی روکا۔
دن رات کے کام
صبح کی نماز پڑھ کر آپ اسی جگہ تشریف رکھتے۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو آپ خواب سن کر اس کی تعبیر بیان فرماتے۔ دن چڑھ جاتا تو گھر میں جاکر پھٹے کپڑے سیتے ۔جوتے کو گانٹھ لگاتے اور دودھ دوہ لیتے۔
عشاءکی نماز کے بعد کسی سے بات کرنا پسند نہ فرماتے۔ کبھی معمولی بستر پر آرام فرماتے۔ کبھی کھال پر ۔کبھی چٹائی پر اور کبھی خالی زمین پر سوجاتے۔ سوتے وقت تھوڑا سا قرآن پڑھتے ۔رات کے پچھلے پہر اٹھ کر پہلے مسواک کرتے، پھر وضو کر کے آٹھ رکعت نفل پڑھتے۔ کبھی کبھی آپ تمام رات نماز میں گزار دیتے اور آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا۔
میل ملاقات
جب آپ کسی سے ملتے تو سب سے پہلے آپ خود سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے۔ ہاتھ ملانے کے بعد آپ دوسرے کا ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ خود نہ چھوڑ دیتا۔ اگر کوئی شخص جھک کر آپ کے کان میں کچھ کہنا چاہتا تھا توآپ اس کی طرف سے رخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود منہ نہ ہٹا لیتا۔
اگر کوئی شخص ملنے کے لئے آتا تو دروازے پر کھڑے ہوکر اسے السلام علیکم کہنا پڑتا۔ پھر اندر آنے کی اجازت مانگتا۔ اگر کوئی اس طرح نہ کرتا تو آپ اسے واپس کردیتے۔ ایک دفعہ قریش کے ایک سردار نے اپنے بھائی کے ہاتھ دودھ، ہرن کا بچہ اور لکڑیاں ہمارے رسول کی خدمت میں بھیجیں ۔وہ اجازت لیے بغیر اندر آ گیا ۔آپ نے فرمایا، واپس جاؤ اور سلام کرکے اندر آﺅ۔
حضرت جابر بن عبداللہ آپ کی خدمت میں حاضری کے خیال سے آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔آپ نے پوچھا، کون ہے؟ جابر نے جواب دیا، میں، آپ نے فرمایا، میں،میں، یعنی اپنا نام بتاؤ۔
آپ بھی جب کسی سے ملنے جاتے تو دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر السلام علیکم کہہ کر اجازت مانگتے ۔اگر گھر کے اندر سے اجازت نہ ملتی تو واپس جاتے ۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے حجرہ میں سوراخ میں سے جھانک رہا تھا ۔آپ اٹھے اور اس کی آنکھ پھوڑ ڈالنے کا ارادہ کیا۔ پھر فرمایا، اگر کوئی شخص بغیر اجازت تمہیں جھانکے اور تم کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو کوئی حرج نہیں۔
خاص خادم
ہمارے رسول کے ایک خادم حضرت عبداللہ بن مسعود تھے،انہوں نے آپ کی مبارک زبان سے سن کر قرآن پاک کی ستر سورتیں یاد کی تھیں،یہ آپ کے ساتھ سفر میں رہتے،آپ کے سونے،وضو اور مسواک کا انتظام کرتے،جب آپ مجلس سے اٹھتے تو جوتیاں پہناتے،راستے میں چھڑی لے کر آگے آگے چلتے۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے خاص خادم اور موذن تھے،جب حضرت ابوبکر نے انہیں خرید کرکے آزاد کردیا، تو اسی وقت سے یہ برابر آپ کی ہی خدمت میں رہتے تھے،آپ کے گھر کا انتظام یہی کرتے،بازار سے سودا لانا،قرض دام لینا،اور ادا کرنا، مسلمانوں کو کھانا کھلانا ان کے ذمہ تھا۔
حضرت انس دس سال تک آپ کی خدمت میں رہے،لوگوں کے پاس آنا جانا،چھوٹے چھوٹے کام کرنا،اور وضو کا پانی لانا آپ کا کام تھا،ایک روز آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی،الٰہی!اسے مال بھی بہت دے،اور اولاد بھی بہت دے،اور جو کچھ اسے دے،اس میں برکت بھی دے۔
عام عادت
دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے کام کرنا آپ کو بہت پسند تھا،مسجد میں پہلے دایاں پاؤں رکھتے،جوتا پہلے دائیں پاؤں میں پہنتے،اگر کوئی چیز باندھتے تو دائیں طرف سے،اگر کوئی کام شروع کرتے تو بسم اللہ کہہ کر شروع کرتے۔
کمزوروں کا خیال
آپ کی ایک پاک بی بی کا نام حضرت صفیہ تھا،ایک دفعہ سفر میں وہ آپ کے ساتھ تھیں،ان کی عادت یہ تھی کہ تمام جسم کو چادر سے ڈھانپ کر پچھلی جگہ پر آپ کے ساتھ سوار ہوا کرتی تھیں،جب وہ اونٹ پر سوار ہونے لگتیں تو آپ اپنا گھٹنا آگے بڑھادیتے،حضرت صفیہ اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے پر رکھ کر اونٹ پر سوار ہوجایا کرتیں۔
ایک دفعہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا،ہمارے رسول اور حضرت صفیہ دونوں گر پڑے،ابو طلحہ دوڑے دوڑے آپ کی طرف آئے،آپ نے فرمایا،پہلے عورت کی خبر لو۔
رحم و کرم
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ احد کی لڑائی میں کافروں نے آپ کے دانت شہید کر دیے،سر پھوڑا،اور حضور ایک غار میں گر گئے،آپ کے دوستوں نے آپ سے درخواست کی کہ ان کافروں پر بد دعا کریں،آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں،بلکہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں۔پھر آپ نے یوں دعا فرمائی،اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے وہ مجھے نہیں جانتی۔
ایک دفعہ ایک درخت کے نیچے آپ آرام فرما رہے تھے اور آپ کی تلواردرخت کے ساتھ لٹک رہی تھی کہ ایک کافر آگیا،اس نے تلوار نکالی اور گستاخی سے آپ کو جگا کر پوچھا ،اب تمہیں کون بچائے گا،آپ نے فرمایا: اللہ،یہ سننا تھا کہ وہ چکر کھا کر گر پڑا ۔اب آپ نے تلوار اٹھائی اور پوچھا، اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟وہ بالکل حیران رہ گیا،آپ نے فرمایا،جاﺅ،میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔
ایک شخص نے آپ کی بیٹی حضرت زینب کے نیزہ مارا تھا۔ وہ ہودج سے گر پڑیںاور اسی صدمے سے فوت ہو گئیں،اس شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگی تو آپ نے اسے معاف کر دیا۔
صبر اور حلم
آپ کو ایک شخص کا قرض دینا تھا،وہ ایک روز مانگنے کے لئے آیا،اور آتے ہی آپ کے مبارک کندھوں سے چادر اتار لی،جسم کے کپڑے پکڑ لئے اور کہنے لگا کے آپ کے خاندان والے کبھی وقت پر قرض ادا نہیں کرتے،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات پر اس کو جھڑک دیا،آپ ہنس پڑے،اور فرمایا،عمر تمہیں یہ چاہیے تھا کہ ہم دونوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے،مجھے اچھی طرح ادا کرنے کو کہتے،اور اسے شریفانہ طور پر مانگنے کو،پھر آپ نے حضرت زید سے فرمایا ،ابھی وعدہ میں تین دن باقی ہیں،آخر حضرت عمر کو حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کر دو،اور کچھ زیادہ بھی دینا کیوں کہ تم نے اس کو ڈرایا دھمکایا بھی تھا۔
ایک بدو آپ کی خدمت میں حاضر ہوااور اس زور سے آپ کی چادر کو جھٹکا دیا کہ اس کا کنارہ آپ کی گردن میں گڑ گیا۔اور نشان پڑ گیا،پھر اس نے کہا،اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ مال جو تیرے پاس ہے،نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا،بلکہ خدا کا ہے،اس میں سے مجھے بھی ایک اونٹ کا بوجھ دلاؤ،آپ تھوڑی دیر چپ رہے،پھر فرمایا،بے شک اللہ کا مال ہے،اور میں اس کا غلام ہوں،اس بدو کو جو اور کھجور کا ایک ایک اونٹ کا بوجھ دے دو۔
جب آپ وعظ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ پر کیچڑ پھینکی، آوازے کسے،اور اتنے پتھر مارے کہ آپ خون سے تر بہ تر ہو گئے،اور بے ہوش ہو گئے،باوجود اس کے پھر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی تباہی نہیں چاہتا،اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔
رحمت
ہمارے رسول تمام جہانوں،تمام ملکوں اور تمام کاموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے،اپنے ملک کو،قوموں،رنگوں اور زبانوں کافرق دور کرکے سب کے دلوں،دماغوں اور زبانوں پر ایک ہی پاک کلمہ، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ،جاری کردیا۔
ایسے رسول کے دربار میں عثمان بن طلحہ بھی موجود ہے،جس کے پاس خانہ کعبہ کی کنجی تھی،عرب کے لوگ اس کی ویسی ہی عزت کرتے تھے،جیسے پوپ کی عیسائی۔
اسی دربار میں عبداللہ بن سلام بھی ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں،جن کو عرب کے تمام یہودی اپنا بہترین آدمی اور سردار مانتے تھے۔
بے شک کسی دربار میں حرمہ بن انس بھی ہے۔جو تمام الہامی کتابوں کا جاننے والا ہے،جو شام اور بیت المقدس کا سفر کر چکا ہے، ہرقل شاہ روم کے دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،جس کی کرامتوں کا چرچا حبشہ کے دربار میں ہوتا ہے،اور جس کو عرب کے تمام عیسائی اپنا لاٹ پادری مانتے ہیں،وہ اب کھلم کھلا اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں،محمد اللہ کے رسول ہیں،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور مریم علیہا السلام کے بیٹے ہیں۔
یہیں پر تمہیں حضرت سلمان فارسی ملیں گے،جو فارس کے بہت بڑے زمیندار کے اکلوتے بیٹے تھے،پہلے آگ کو پوجتے تھے،پھر عیسائی بنے مگر جب اس سے بھی ان کے دل کی پیاس نہ بجھی تو وہ ایران سے شام،شام سے عراق،اور عراق سے حجاز پہنچے،اب انہوں نے آپ ہی کے قدموں کی مٹی کو اپنا فرش بنالیا ہے۔
ایک طرف تمہیں خالد بن ولید دکھائی دیں گے،جنہوں نے احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست دی تھی،اب و ہی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ لات وغزیٰ کے توڑنے کی اجازت دیجئے۔
دوسری جانب ذوالبجا دین پر نظر پڑے گی جنہوں نے گھر بار چھوڑ دیا۔ اب کمبل کا تہمد ہے اور کمبل کا کرتا، جس کو ببول کے کانٹوں سے اٹکا رکھا ہے اور اسی میں خوش ہیں۔
یہ ہیں ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے نتیجے جس نے اللہ کی نعمت سے سب کو بھائی بھائی بنا دیا،جس نے ماں باپ کی بابت یہ تعلیم دی:
”ان کے لئے انکسار کے بازوﺅں کو زمین پر بچھا،اور دعا بھی کیا کر، اے خدا ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپنے سے پالا ہے۔“
ہاں یہی جہانوں کے لئے رحمت ہمارے رسول ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لئے شراب اور جوا حرام کر دیا۔
وعظ و نصیحت
آپ نے اپنی تمام زندگی وعظ و نصیحت میں خرچ کر دی،ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
لوگو! اپنے اور بیگانے سب کو سلام کرو۔
کھانا کھلایا کرو۔
رشتے داروں سے اچھا برتاؤ کرو۔
اور لوگ جب رات کو سو رہے ہوں تو تم اللہ کی عبادت کیا کرو۔
پندرہ باتیں
ایک دفعہ قبیلہ ازوکاوفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا،اس وفد میں سات آدمی تھے۔ آپ کو ان لوگوں کی وضع قطع پسند آئی،اور پوچھا،تم لوگ کون ہو،انہوں نے جواب دیا ہم مومن ہیں،آپ نے فرمایا،تمہارے ایمان کا کیا مطلب ہے،انہوں نے کہا،ہم میں پندرہ باتیں ہیں،پانچ باتوں کو دل سے ماننے کا اور پانچ باتوں پر چلنے کا حکم آپ کے بھیجے ہوئے لوگوں نے دیا ہے،اور پانچ کے ہم پہلے سے پابند ہیں۔
پانچ دل سے ماننے کی باتیں یہ ہیں: ایمان اللہ پر،فرشتوں پر،اللہ کی کتابوں پر،اللہ کے رسولوں پر،اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر۔
پانچ باتیں کرنے کی یہ بتائی گئی ہیں: لا الہ الا اللہ کہنا،پانچ وقت کی نماز پڑھنا،زکوٰة دینا،رمضان کے روزے رکھنا،اور جسے طاقت ہو اسے اللہ کے گھر کا حج کرنا۔
پانچ باتیں جن کے ہم پہلے سے پابند ہیں: آسودگی کے وقت شکر کرنا،مصیبت میں صبر کرنا،اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا،امتحان کے وقت سچائی پر قائم رہنا،اور دشمن کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع نہ دینا۔
آپ نے سنا تو فرمایا،جن لوگوں نے تمہیں یہ تعلیم دی ہے،وہ حکیم اور عالم تھے،ان کی عقل کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ پیغمبر تھے،اب پانچ چیزیں اور یاد کر لو کہ پوری بیس ہو جائیں:
وہ چیز جمع نہ کرو جسے کھانا نہ ہو۔
وہ مکان نہ بناؤ جس میں رہنا نہ ہو۔
ایسی باتوں میں مقابلہ نہ کرو جنہیں کل چھوڑ دینا ہو۔
اللہ کا ڈر رکھو جس کی طرف لوٹ کر جانا اور اس کے دربار میں پیش ہونا ہے۔
ان چیزوں کا شوق اپنے دل میں رکھو جو آخرت میں تمہارے کام آئیں گی،جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔
ان لوگوں نے آپ کی نصیحت پر پورا پورا عمل کیا۔
چند نصیحتیں
۰۱ہجری میں قبیلہ خولان کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا،انہیں آپ نے اور باتوں کے علاوہ خاص طور پر یہ نصیحتیں کیں:
وعدہ پورا کرنا۔
امانت ادا کرنا۔
اپنے پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنا۔
کسی شخص پر بھی ظلم نہ کرنا کہ ظلم قیامت کے دن اندھیراہوگا۔
ماں باپ کی خدمت
ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں اسلام کے دشمنوں سے لڑنا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا،کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ۔وہ بولا ہاں،یارسول اللہ! آپ نے فرمایا،انہیں کی خدمت میں حد درجہ کی کوشش کرو۔
پہلوان
آپ نے فرمایا،پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو کشتی میں پچھاڑ دیتا ہے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو روک لیتا ہے۔
حیوانوں سے ہمدردی
ہمارے رسول نے فرمایا،ایک شخص سفر کر رہا تھا،راستے میں پیاس لگی،اتفاق سے کنواں مل گیا،وہ اس میں اترا اور پانی پی کر باہر آ گیا،باہر نکل کر دیکھا کہ ایک کتا زبان منہ سے باہر نکالے ہوئے ہے اور پیاس کی وجہ سے تر زمین کو چاٹ رہا ہے،اس شخص نے دل میں کہا،کتے کو ایسی ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی،اب وہ پھر کنویں میں اترا اپنا موزہ پانی سے بھر کر لایا۔ اسے پلا دیا۔ اللہ نے اس کے اس کام کو پسند کیا اور اسے بخش دیا۔
آپ کے دوستوں نے سوال کیا کہ کیا حیوانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ہمیں ثواب ملے گا ۔آپ نے جواب دیا ،ہر ایک جاندار جو زندہ ہے اس کی بابت تم کو ثواب ملے گا۔
منافق کی نشانی
آپ نے فرمایا، جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں، وہ منافق ہے ۔اگر ان چار میں سے ایک بات اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک نشانی ہے۔
بولے تو جھوٹ بولے۔
وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔
اس کے پاس کچھ امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
جھگڑا کرے تو گالی بکنے لگے۔
بہترین کام
۰۱ ہجری میں وفد سلامان آپ کی خدمت میں آیا، اس وفد میں ایک شخص حبیب بن عمرو تھا۔ اس نے پوچھا کہ سب کاموں میں سے بہترین کام کونسا ہے۔ آپ نے فرمایا،وقت پر نماز کا پڑھنا۔
ان لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے یہاں بارش نہیں ہوئی۔آپ نے اسی وقت زبان مبارک سے یوں دعا کی۔ اے اللہ ان کے گھروں میں بارش بھیج۔حبیب نے عرض کیا،یارسول اللہ ان مبارک ہاتھوں کو اٹھاکر دعا کیجئے ،آپ مسکرائے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
جب یہ لوگ اپنے وطن واپس گئے تو معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی روز بارش ہوئی تھی جس دن آپ نے دعا فرمائی تھی۔
جسمانی صحت
ہمارے رسول فرمایا کرتے تھے کہ رات کوبھوکا نہیں سونا چاہیے۔ اس لیے کہ اس سے آدمی جلد بوڑھا ہوجاتا ہے۔ کھانا کھاتے ہی سونے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
غذا کم کھاؤ، معدہ کا ایک حصہ کھانے کے لئے ،ایک پانی کے لئے اور ایک خود معدے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔
تندرستوں کو ایسی بیماریوں سے احتیاط کی تاکید کرتے جو میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کو لگ جاتی ہیں اور آپ خود بھی اس کا خیال رکھتے۔ آپ کی خدمت میں قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو اس میں ایک کوڑھی بھی تھا ۔آپ اس سے نہیں ملے بلکہ کہلا بھیجا کہ لوٹ جاؤ،ہم نے تمہاری بیعت قبول کر لی ہے۔
علاج کی بابت آپ کا حکم یہ تھا کہ کسی لائق تجربہ کار طبیب سے علاج کرانا چاہیے اور پرہیز کرنا چاہیے۔ ناتجربے کار اور نیم حکیم کو علاج سے منع فرماتے اور اس سے کسی بیمار کو نقصان پہنچتا تو اس کا ذمہ دار اس نیم حکیم کو ٹھہراتے۔
جن چیزوں کو شریعت نے حرام کیا ہے، فرماتے، ان کو استعمال نہ کرو، اس لیے کہ ان میں اللہ نے شفا نہیں رکھی۔ شراب کی بابت فرمایا ،وہ دو انہیں خود بیماری ہے۔
بیمار پرسی
اگر آپ کے دوستوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس کی مزاج پرسی کے لیے جاتے ۔بیمار کے پاس بیٹھ جاتے، اس کو تسلی دیتے، فرماتے، ان شاءاللہ یہ بیماری تمہارے گناہوں کو دھو ڈالے گی۔بیمار سے پوچھتے کہ کسی چیز کو جی چاہتا ہے اور اگر اس سے نقصان نہ ہوتا تو اس کا انتظام کر دیتے۔ایک یہودی لڑکا آپکی خدمت کیا کرتا تھا ،وہ بیمار ہوا تو آپ اسے دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔
آپ نے فرمایا ،جب بیمار کا مزاج پوچھنے جاؤ تو اس سے زیادہ زندہ رہنے کی امید دلاؤ۔اس سے ہوتا تو کچھ نہیں مگر بیمار کا دل خوش ہوجاتا ہے۔
نام
آپ اچھے نام پسند فرماتے اور برے نام رکھنے سے روکتے۔ آپ نے فرمایا اللہ کو سب سے زیادہ یہ نام پسند ہے۔عبداللہ، عبدالرحمن،ایک عورت کا نام عاصیہ(نافرمان)تھا۔ آپ نے اس کا نام بدل دیا۔ فرمایا تو عاصیہ نہیںجمیلہ ہے۔ آپ کو اس بات کا یہاں تک خیال تھا کہ آپ نے حکم دے دیا تھا کہ آپ کے پاس ڈاک لانے والے وہ لوگ ہوں جن کے نام اچھے ہو ں۔
سلام
آپ نے فرمایا، سب سے بہتر اسلام یہ ہے کہ آدمی مسکینوں کو کھانا کھلائے اور ہر کس و ناکس کو سلام کرے،اگر کسی شخص میں تین باتیں جمع ہو جائیں تو اس میں ایمان جمع ہو گیا۔
اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا۔
سب کو سلام کرنا۔
تنگی میں اللہ کے نام پر خرچ کرنا۔
ایک مرتبہ آپ لڑکوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے پہلے خود انہیں سلام کیا۔ایک دن عورتوں کی طرف آپ کا گزر ہوا تو انہیں اشارے سے سلام کیا۔
آپ نے حکم دیا:
چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔
راستہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو۔
سوار پیدل کو۔
اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو۔
جب آپ کسی مجلس میں تشریف لاتے تو سلام کرتے،اور جب جاتے تو سلام کرتے۔آپ نے فرمایا،مجلس میں آؤ تو سلام کرو، جانے لگو تو سلام کرو۔ ایک دفعہ آپ کا گزر ایسی مجلس کے پاس سے ہوا جس میں مسلمان اور مشرک ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپ نے سب کو سلام کیا۔جب کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کوسلام پہنچاتا تو سلام کرنے والے اور پہنچانے والے دونوں کو جواب دیتے۔
دوسروں کا کام
خباب بن ارت ایک صحابی تھے،جنہیں آپ نے کسی جنگ پر بھیج دیا تھا۔ ان کے گھر میں کوئی مرد نہ تھا اور عورتیں دودھ دوہنا نہیں جانتی تھیں،آپ روزانہ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور دودھ دوہ دیا کرتے۔
ایک دفعہ آپ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے کہ ایک بدو آیا اور آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا کہ میرا تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، پہلے آپ اسے کر دیجئے ورنہ میں بھول جاؤں گا ۔آپ اس کے ساتھ فوراً مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور اس کا کام کر کے پھر نماز شروع کی۔
اپنا کام
ایک دفعہ آپ کے خاص خادم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خود اپنے ہاتھ سے اونٹ کے بدن پر تیل مل رہے ہیں۔
جب بیت اللہ کی عمارت بن رہی تھی اور آپ ابھی بچے ہی تھے تو آپ پتھر اٹھا اٹھا کر معماروں کے پاس لاتے تھے ۔مسجد قباء،مسجد نبوی،اورخندق کھودنے میں آپ نے کام کیا، ایک سفر میں صحابہ نے بکری ذبح کی اور اس کے پکانے کے لئے آپس میں کاموں کو بانٹ لیا۔آپ نے فرمایا کہ جنگل سے لکڑیاں میں لے آؤں گا ۔آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تو آپ خود ہی اس کو درست کر لیتے۔ چند صحابہ نے دیکھا کہ آپ اپنے مکان کی مرمت کررہے ہیں تو وہ بھی آپ کے شریک ہو گئے۔ کام ختم ہونے پر آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔
حسن خلق
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا ،جس سے میں نے قرض لیا کرتا تھا۔ ایک سال اتفاق سے کھجوریں نہ پھلیں اور میں قرض ادا نہ کر سکا، یہاں تک کہ پورا سال گزر گیا۔ اگلے سال پھر یہی ہوا ۔اب اس نے تقاضا شروع کیا ۔ میں نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے مہلت دینے سے انکار کردیا۔ میں نے تمام واقعہ آپ کی خدمت میں عرض کیا ۔آپ دو مرتبہ اس یہودی کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے سفارش کی مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوا۔ آخر آپ نے فرمایا کہ چبوترہ پر فرش بچھا دو۔ آپ اس پر سو گئے۔ اٹھے تو پھر اس یہودی سے فرمایا کہ مہلت دے دو، وہ اب بھی راضی نہ ہواتو درختوں کے جھنڈ میں تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کھجوریں توڑنی شروع کر دو۔ آپ کی برکت سے اتنی کھجوریں نکلیں کہ قرض ادا کرنے کے بعد بھی بچ رہیں۔
ایک دفعہ آپ گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ اتنے میں ایک عورت آئی اور سیدھی آپ کے پاس چلی آئی۔ آپ نے اس کی بہت تعظیم کی اور اپنی چادر اس کے لیے بچھا دی۔ لوگوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ آپ کی دودھ اماں تھیں۔
ایسے ہی ایک مرتبہ آپ تشریف رکھتے تھے کہ آپ کے دودھ والد آگئے،آپ نے ان کیلئے چادر کا ایک حصہ بچھا دیا۔ پھر دودھ اماں آگئیں،تو دوسرا حصہ بچھا دیا۔ آخر میں دودھ بھائی آ گئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔
حضرت ابوذر ایک مشہور صحابی ہیں۔ آپ نے انہیں ایک مرتبہ بلابھیجا ۔وہ گھر پر نہ تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد آئے تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ آپ انہیں دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سینے سے لگا لیا۔
مردانہ ورزشیں
ہمارے رسول اپنے دوستوں کو ورزش کا شوق د لایا کرتے تھے۔ عرب کے ایک نہایت مشہور پہلوان رکانہ تھے۔ انہوں نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ کشتی میں مجھے پچھاڑ دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا۔ آپ نے ان کو تین بار پچھاڑا ۔آخر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
نشانہ بازی کی مشق کے لئے آپ لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے کہ تیر چلا نے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔
گھوڑ دار آپ کے حکم سے ہوا کرتی تھی۔ لمبی دوڑ پانچ یا چھ میل کی، اور ہلکی ایک میل کی ہوتی تھی۔
بچو! تم بھی مردانہ ورزشیں سیکھو اور اپنے آپ کو مضبوط بناؤ ،ہمارے رسول اس بات کو بہت پسند کرتے تھے۔
گھر کے اندر
ایک شخص نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ ہمارے رسول گھر میں کیا کیا کرتے تھے۔ جواب دیا کہ گھر کے کام کاج میں لگے رہتے، گھر میں خود جھاڑو دیتے، دودھ دوہ لیتے ،بازار سے سودا خرید لاتے، خود اپنے ہاتھ سے کپڑوں میں پیوند لگا تے، جوتی پھٹ جاتی تو خود گانٹھ لیتے ،ڈول میں ٹانکے لگا لیتے، اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے، اس کو چارہ ڈال دیتے اور غلام کے ساتھ مل کر آٹا گوندھتے تھے۔
بچو!تم بھی ان کاموں کو ذلیل نہ سمجھو ،جب ہمارے رسول سب کام کر لیتے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کی کوشش کرو اور کوئی شرم نہ کرو۔
بچوں کے ساتھ
ہمارے رسول کو بچے بڑے ہی محبوب اور پیارے تھے۔ آپ بچوں سے خوب محبت اور پیار کیا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا حق نہ پہچانے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔
آپ کی عادت تھی کہ جب آپ بچوں کے پاس سے گزرتے تو آپ خود ان کو سلام کرتے۔ آپ کے ایک دوست حضرت انس کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس تھا ۔آپ بچوں کے پاس سے گزرے جو کھیل رہے تھے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔
جب آپ سفر سے واپس تشریف لاتے تو جو بچے راہ میں ملتے ، ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ سواری پر آگے پیچھے بٹھا لیتے۔ جب آپ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور بنو ہاشم کے لڑکوں نے آپ کا استقبال کیا تو محبت کی وجہ سے ان کو اپنی اونٹنی پر آگے اور پیچھے بٹھا لیا۔ ایک مرتبہ آپ اونٹنی پر سوار تھے ،آگے حسن بیٹھے تھے اور پیچھے حسین۔
ایک مرتبہ خالد بن سعید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی لڑکی بھی ان کے ساتھ تھی جو سرخ رنگ کا کرتا پہنے ہوئے تھی۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا بہت اچھا ،بہت اچھا۔اب وہ آپ کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں تو خالد نے ان کو ڈانٹا۔ آپ نے روکا کہ کھیلنے دو۔
ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک سیاہ چادر آئی جس میں دونوں طرف آنچل تھے۔ آپ نے لوگوں سے کہا کہ یہ چادر کس کو دوں۔ لوگ چپ رہے۔ آپ نے فرمایا خالد بن سعید کی لڑکی کو لاؤ۔ وہ آئیں تو آپ نے ان کو پہنایا اور دو مرتبہ فرمایا، پہننا اور پرانی کرنا ۔چادر میں جو بیل بوٹے تھے ،آپ ان کو دکھا دکھا کر فرماتے، یہ کیسا اچھا ہے ،یہ کیسا خوبصورت ہے۔
ام قیس بنت محصن کہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔اس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا ۔آپ نے اس کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ پر پیشاب کر دیا۔آپ نے پانی منگوایا اور اس جگہ پر ڈال دیا جہاں اس نے پیشاب کیا تھا۔
حضرت انس چھوٹے سے بچے تھے اور آپ ہی کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ آپ محبت سے ان کو”دوکانوں والے“فرمایا کرتے تھے۔
ان کا بیان ہے کہ ایک روز آپ نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا۔ میں نے کہا ،خدا کی قسم میں ہرگز نہ جاؤں گا۔ لیکن میرے دل میں یہ بات تھی کہ جس کام کو آپ نے فرمایا ہے، اسے ضرور کروں گا۔ میں وہاں سے چلا تو رستہ میں بچے کھیلتے ہوئے مل گئے۔ میں بھی کھیل میں لگ گیا ۔اتنے میں کسی نے پیچھے سے میری گردن کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو آپ ہنس رہے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ، اے انس جاﺅ،جس کام کا میں نے کہا تھا،میں نے عرض کیا ،یارسول اللہ !جاتا ہوں۔
انہوں نے دس سال آپ کی خدمت کی۔ ان کا بیان ہے کہ آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں بچپن میں انصار کے کھجور کے باغوں میں چلا جاتا اور ڈھیلوں سے مارکر کھجوریں گراتا،ایک مرتبہ لوگ مجھ کو پکڑ کر آپ کی خدمت میں لے گئے ۔آپ نے پوچھا ڈھیلے کیوں مارتے ہو،میں نے کہا کھجوریں کھانے کے لئے ۔فرمایا جو کھجور زمین پر ٹپکتی ہیں، ان کو اٹھا کر کھا لیا کرو۔ ڈھیلے نہ مارا کرو۔ یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعادی۔
حضرت عائشہ کی خدمت میں ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی تھیں۔ اس وقت ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک کھجور زمین پر پڑی ہوئی تھی، وہی اٹھا کر دے دی۔ عورت نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیا۔ جب ہمارے رسول باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے یہ قصہ سنایا ۔آپ نے فرمایا، جس کو خدا اولاد کی محبت میں ڈالے اور وہ ان کا حق ادا کرے تو وہ دوزخ سے بچ جائے گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نماز شروع کرتا ہوں اور ارادہ ہوتا ہے کہ اس کو لمبی کروں گا، اتنے میں صف سے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے اور اس خیال سے مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔
جب کسی کے کوئی بچہ پیدا ہوتاتو صحابیات سب سے پہلے اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتیں۔ آپ بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ اپنے منہ میں کھجور ڈال کر اس کے منہ میں ڈالتے اور اس کے لئے برکت کی دعا فرماتے۔
ایک دفعہ ایک لڑائی میں چند بچے جھپٹ میں آکر مارے گئے۔ آپ کو خبر ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے۔ ایک شخص نے کہا ،وہ تو کافروں کے بچے تھے۔ آپ نے فرمایا، خبردار ان بچوں کو قتل نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو۔
آپ کی عادت تھی کہ جب فصل کا نیا میوہ آپ کی خدمت میں پیش ہوتا تو حاضرین میں جو سب سے کم سن بچہ ہوتا اس کو دیتے۔
بچوں کو چومتے اور پیار کرتے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپ بچوں کو پیار کر رہے تھے کہ ایک بدوی آیا،اس نے کہا تم لوگ بچوں کو پیار کرتے ہو۔ میرے دس بچے ہیں مگر اب تک میں نے کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا، اللہ اگر تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کرو ں۔
جابر بن سمرہ آپ کے دوست ہیں، وہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ اپنے گھر کی طرف چلے۔ میں بھی ساتھ ہو لیا کہ ادھر سے چند اور لڑکے نکل آئے۔ آپ نے سب کو پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا۔
جب آپ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ میں داخل ہورہے تھے تو انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں خوشی سے دروازوں سے نکل نکل کر گیت گا رہی تھیں۔ آپ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا لڑکیو! تم مجھے پیار کرتی ہو؟ سب نے کہا،ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا،میں بھی تمہیں پیار کرتا ہوں۔
حضرت انس کے چھوٹے بھائی کا نام ابوعمیر تھا۔ انہوں نے ایک ممولہ(پرندے کا بچہ) پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ مرگیا۔ ابو عمیر کو بہت رنج ہوا۔ آپ نے ان کو رنج میں دیکھا تو فرمایا، اے ابا عمیر تمہارا ممولا کیا ہوا۔
ابو قتادہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ مسجد نبوی میں حاضر تھے کہ دفعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ کو کندھے پر چڑھائے ہوئے تشریف لائے اور اسی حالت میں نماز پڑھی ۔جب رکوع میں جاتے تو ان کو اتار دیتے تھے۔ جب کھڑے ہوتے تو چڑھا لیتے ۔اسی طرح پوری نماز اداکی۔
حسن اور حسین سے آپ کو بہت محبت تھی ۔جب آپ حضرت فاطمہ کے گھر جاتے تو فرماتے ،میرے بچوں کو لاﺅ۔ وہ صاحبزادوں کولاتیں، آپ ان کو سونگھتے اور سینے سے لپٹا تے۔
ایک دفعہ آپ کہیں دعوت میں جا رہے تھے۔ امام حسین راہ میں کھیل رہے تھے۔آنے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دئیے۔ وہ ہنستے ہوئے پاس آکر نکل جاتے تھے۔ آخر آپ نے ان کو پکڑ لیا۔ ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی پر اور ایک سر پر رکھ کر سینے سے لپٹا لیا۔ پھر فرمایا کہ حسین میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔
آپ کے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم بھی تھے۔ وہ مدینہ سے چار میل فاصلے پر پرورش پاتے تھے ۔ان کے دیکھنے کے لیے مدینہ سے پانوں پرچل کر جاتے۔ گھر میں دھواں ہوتا رہتا تھا، گھر میں جاتے ،بچہ کو لیتے اور منہ چومتے۔
نتیجہ
یہاں پر ہمارے رسول کی زندگی کے تمام حالات ختم ہوگئے۔ کیسا پیارا رسول تھا اور کیسے پیارے اس کے کام تھے۔ اس نے اپنی تمام زندگی نیک کاموں میں خرچ کر دی۔ وہ کیا کیا کرتے تھے:
وہ شروع میں اپنی روزی تجارت کے ذریعے سے کماتے تھے ،تم بھی تجارت ہی کو اپنا پیشہ بناﺅ۔
ان کی تمام زندگی قرآن اور اسلام کے پھیلانے میں گزر گئی، تم بھی اپنی زندگی ایسے ہی نیک کاموں میں لگا دو۔
انہوں نے دشمنوں سے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں،مگر کبھی ان پر بددعا نہ کی اور جب ان پر قابو پایا تو ان کے گناہوں کو معاف کر دیا اور ان پر اپنی رحمت کی بارش برسائی، تم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو۔
وہ لڑائی کے تمام کرتب جانتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شہسوار تھے ۔تم بھی سپہ گری کا فن سیکھو اور اپنے آپ کو مضبوط بناوٗ۔
آپ علم کی بہت قدر کرتے تھے اور آپ کی تمام زندگی پڑھانے میں گزری ،تو خود علم سیکھو اور اپنے بھائیوں کو تعلیم دینے کی کوشش کرو۔
اپنے گھر کا کام آپ خود کرلیا کرتے تھے، تم بھی اپنے گھر کا کام کرنے میں شرم نہ کرو۔
آپ کی وفات کا وقت جب بالکل قریب تھا تو آپ نے فرمایا نماز،نماز، تم نماز کو کبھی نہ چھوڑو اور ہمیشہ پابندی کے ساتھ ادا کرو۔
اے بچو!اپنے دل میں اس رسول کی محبت پیدا کرو ،اس کی محبت یہی ہے کہ جس طرح اس نے اپنی زندگی گزار دی اسی طرح تم بھی اپنی زندگی گزار دو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور تم سب کو اپنے رسول پاک کی محبت دے۔آمین

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top