skip to Main Content
22روپے کی کہانی

22روپے کی کہانی

محمدفاروق دانش

……………………………………………………………………

کوئی 16گھنٹے دودھ فرج میں رکھا رہااور اسے نکالتے ہی آگ پر رکھ دیا گیاتھا۔

……………………………………………………………………

احمد سائیکل سے اترا اور دوڑا۔ سمن غبارہ پھلانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اس نے اچانک غبارے سے منہ ہٹا دیا۔ غبارہ میں ہوا تھی، اس کا منہ کھلا تھا۔ فضا میں کچھ اوپر ہوا۔ عجیب سی آواز پیدا ہوئی اور وہ زمین پر آرہا لیکن سمن کے پاس یہ منظر دیکھنے کا وقت نہ تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ نجم اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے بھی کام کو درمیان میں چھوڑا۔قلم کوایک طرف پھینکا اور یہ جاوہ جا۔
تینوں ایک ساتھ ہی اپنے امی کے کمرے میں دوڑتے ہوئے پہنچے تھے۔ گھستے ہوئے سمن اور اسد تو آپس میں ٹکرا گئے۔ سمن کمزور تھی اس لئے وہ دروازے کے پاس گری۔ نجم تیزی سے کمرے میں گھسا تو نیچے پڑی سمن سے ٹکرا کر گرا مگر اس نے اٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
’’جی امی! تینوں کے منہ سے آگے پیچھے نکلا تھا۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔وہ اپنے امی سے اتنے نہیں ڈرتے تھے۔ جتنا ان کی پکار سے ڈرتے تھے۔ جب اسی کی دوسری پکار انہوں نے سنی تھی تو وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر ان کے کمرے کی طرف بھاگے تھے۔ امی کا کہنا تھا کہ جب میں پکاروں تو مجھے فوری جو اب ملنا چاہئے۔ ورنہ ان کا غصہ قابل دید ہوتا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی امی کو غصہ کرنے دیں اور پھر خوامخواہ ان کا بلڈ پریشر بڑھ جائے اور رات وہ سو بھی نہ سکیں ’’ارے یہ کیا۔۔۔‘‘ انہوں نے تینوں کو گرتے پڑتے اپنے پاس آتے دیکھا تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ ’’تم تینوں کو کس نے بلایا۔‘‘ انہوں نے اپنی حیرانگی ظاہر کی۔
’’آپ نے!‘‘ اسد نے فوری جواب دیا۔
’’اور بھلا کون بلاسکتا ہے آپ کے علاوہ! ’’نجم نے اسی کے قریب جاتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی آواز سنکر ہی تو ہم دوڑے آئے ہیں۔‘‘ سمن بھلا کیسے چپ رہتی ‘‘۔ 
’’مگر میں نے تم تینوں کو تو نہیں پکارا تھا۔ ‘‘ وہ کہنے لگے۔ ’’میں نے تو کہا تھا۔۔۔‘‘
’’ادھر آؤ بھئی!‘‘ نجم نے اچانک امی کا جملہ مکمل کر ڈالا۔
’’بالکل یہی کہا تھا۔‘‘ امی خوشی سے بولیں’’دیکھو میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم تینوں ادھر آؤ۔‘‘ انہوں نے اپنے جملے کی وضاحت کی۔
’’مگر اس میں مخاطب کی وضاحت بھی تو نہیں۔‘‘ اسد نے کہا۔
’’اسی لیے ہم میں سے ہر ایک نے یہی سمجھا کہ شاید آپ نے ہمیں ہی پکارا ہو۔‘‘ سمن نے شوخی سے کہا۔’’اور یوں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔‘‘ 
’’شکریہ میرے بچو!‘‘ ابی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے دراصل تم لوگوں کو اس لیے پکارا تھا کہ۔۔۔ ’’اچانک ابی نے جملہ ادھورا چھوڑ کر اپنی انگلی دانتوں میں دبالی۔ ایسا وہ اس وقت کرتے تھے جب کوئی بات بھول جاتے تھے۔ ابھی انہیں بات پوری طرح یاد بھی نہیں آئی تھی کہ امی کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’میں کہتی ہوں، کسی نے دودھ والے کا دھیان رکھا بھی کہ نہیں!‘‘
’’آگیا یاد آگیا۔‘‘ ابی خوشی سے چلائے۔ ‘‘ میں نے اسی لیے آواز لگائی تھی۔‘‘
’’کس لیے ابی؟‘‘ سمن نے انتہائی معصومیت سے کہا۔
’’ارے بھئی، اگر دودھ والا آجائے تو اسے کوئی باہر سے ہی چلتا نہ کردے۔‘‘ وہ بولے۔
’’مگر آج ۲۹ تاریخ ہے۔ اس کے حساب میں تو ۳ دن رہتے ہیں۔‘‘ نجم نے کہا۔ 
’’ہاں، دودھ تو کئی بھی گیٹ پر جاکر لے لیتا ہے۔‘‘ اسد نے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا، ہمیں کو نسا برتن لے کر جانا ہوتا ہے۔ وہ تھیلی پکڑا کر چل دیتا ہے۔‘‘
اب سمن نے اپنی باری کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
’’مگر آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے۔‘‘ ابی نے قدرے غصے سے کہا۔
’’کیا آپ اس سے دودھ میں ملایا گیا پانی نکلوائیں گے۔ ’’نجم نے مسکرا کر کہا۔
’’ارے نہیں بھئی!‘‘ ابی جھلا کر بولے۔
’’تو بہ ہے تم لوگوں سے۔‘‘ اب کی بار امی نے مداخلت کی۔‘‘ تم لوگ تو بال کی کھال اتارنے لگ جاتے ہو۔‘‘ انہیں ابو کی پریشانی ایک آنکھ نہ بھائی۔
وجاہت صاحب سیدھے سادے انسان تھے۔ شہر میں ان کی چوڑیوں کی ایک دکان تھی۔ اس دکان سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ ان کا گھرانہ بڑے پرسکون انداز میں اپنی گزر بسر کرلیتا تھا۔ ان کے چار بچے تھے۔ ۳ بیٹے اور ایک بیٹی۔ اسد، نجم، اور سمن پرائمری کلاس کے طالب علم تھے۔ انکے امتحانات ہوچکے تھے اس لیے وہ کھیل کود میں مصروف تھے۔ فاران چھٹی کلاس کا طالبعلم تھا اور تینوں سے بڑا۔ اس کے امتحان، ان تینوں کے امتحان کے خاتمے کے فوراً بعد شروع ہوئے تھے۔ فاران امتحانی تیاری کے لیے محلے میں اپنے دوست کے گھر چلا جاتا تھا جہاں دو دوست اور جمع ہوتے تھے یوں وہ چاروں مل جل کر تیاری کر رہے تھے۔
فاران اس وقت بھی اپنے دوست توثیق کے گھر پڑھائی میں مصروف تھا جیسے ہی احسن کی پڑھائی ختم ہوئی، فاران نے اپنی کتابیں سمیٹیں اور گھر کی جانب چل پڑا۔
کال بیل کی آواز کے ساتھ ہی وہ تینوں دروازے کی جانب دوڑے۔
’’آگیا بھئی آگیا دودھ والا!‘‘ ابی سرشاری سے پلنگ کے نیچے سے اپنی چپلیں نکالتے ہوئے بولے۔ 
’’میں بھی چلتی ہوں۔ ذرا بات تو کریں اس سے۔‘‘ امی نے بھی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ ’’ضرور نکلیں۔ دو آدمیوں کی بات میں وزن بھی زیادہ ہوگا۔‘‘ ابی بھی اب کمرے سے باہر آچکے تھے۔ ان دونوں کا رخ مین گیٹ کی طرف تھا۔ وہ تینوں دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ اسد دروازہ کھول کر دودھ والے کو روک چکا تھا۔ سمن اور نجم بھی اس کے پیچھے کھڑے تھے۔ اسد آج کے دودھ کی تھیلی لے کر سمن کے حوالے کرچکا کہ ابی اور امی دونوں دروازے پر پہنچ گئے۔
’’ذرا ایک طرف کو ہولو۔‘‘ ابی نے اسد کو راستے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ اسد نے ابی کو راستہ دینے میں دیر نہیں لگائی۔ وہ مین گیٹ سے باہر نکل کر دودھ والے کے پاس پہنچ گئے جبکہ امی دروازے کے پاس جاکر کھڑی ہوگئیں۔ اسد اور نجم بھی امی کے پیچھے تھے جبکہ سمن دودھ رکھنے کچن جاچکی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘ دودھ والے نے وجاہت صاحب کو باہر آتے دیکھا تو فوراً بولا۔ ’’خیر تو ہے وجاہت صاحب‘‘۔
’’خیر ہی تو نہیں ہے!‘‘ ابی ذرا سخت لہجے میں بولے۔
’’آج کل کیسا دودھ لارہے ہیںآپ بھائی صاحب۔ ’’ابی کی بات کو امی نے مکمل کرتے ہوئے کہا۔
’’مم۔۔۔مم۔۔۔میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ ’’دودھ والا اچانک بوکھلا اٹھا۔‘‘ دودھ تو میں بالکل صحیح لارہا ہوں۔ ’’وہ اپنے آپ پر قابو پاچکا تھا۔
’’کیا خاک صحیح لارہے ہو دودھ!‘‘ وجاہت صاحب فوراً بولے۔
’’آپ یقین کریں بالکل خالص دودھ لارہا ہوں میں۔‘‘ دودھ والا کب چوکنے والا تھا۔
’’گویا ہم غلط کہہ رہے ہیں۔‘‘ وجاہت صاحب کو اب غصہ آگیا۔ ’’یعنی تم صحیح ہو اور میں جھوٹ بول رہا ہوں۔‘‘
’’میں نے ایسا تو نہیں کہا صاحب!‘‘ وجاہت صاحب کا غصہ دیکھ کر دودھ والا نرمی سے بولا۔
’’بھائی صاحب، اگر آپ دودھ صحیح لارہے ہوتے تو ہمیں شکایت کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ’’بیگم وجاہت نے وجاہت صاحب کی تلخی کو ماند کرنے کے لیے نہایت اطمینان سے کہا۔ 
’’مگر آپ کی شکایت کیا ہے۔ کچھ پتہ تو چلے؟‘‘ وہ حیرانگی سے منہ کھول کر بولا۔
’’تم کل جو دودھ دے کر گئے تھے۔ وہ پھٹ گیا۔ سارا کا سارا دودھ پھینکنا پڑا۔ ’’بیگم صاحبہ نے اصل بات بتاتے ہوئے کہا۔
اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی دو ایک بار ایسا ہوچکا ہے۔‘‘ وجاہت صاحب نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا۔
اس عرصے میں فاران گھر پہنچ چکا تھا۔ اس نے جب اپنے گھر کے باہر اجتماع دیکھا تو حیران ہوگیا۔ دودھ والے کی موٹر سائیکل دروازے کے آگے کھڑی تھی جبکہ اس کے ابی دودھ والے سے کسی بات پر الجھ رہے تھے۔ اس کے دونوں بھائی بھی ساتھ ہی موجود تھے۔ وہ بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے وہیں آکر کھڑا ہوگیا۔
’’ایسا ہونا تو نہیں چاہئے تھا۔‘‘ دودھ والے نے فکر مندی سے کہا۔
’’ایسا ہوچکا ہے حضرت!‘‘ ابی کو آج صبح سے ہی اس پر غصہ تھا۔ اس لیے اس کی بے فکری دیکھ کر وہ الجھ رہے تھے۔
’’کیا آپ نے دودھ شام کو ہی گرم کرلیاتھا۔اسے اپنے دودھ کی شکایت پر حیرانگی تھی اس لیے وہ ہر بات کی وضاحت چاہ رہا تھا۔
’’نہیں، کل کیا ضرورت تھی ہمیں دودھ گرم کرنے کی۔‘‘ وجاہت صاحب آپے سے باہر ہوگئے۔
’’ابھی کچھ ہی دیر پہلے رکھا تھا گرم کرنے۔‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولے۔
’’ارے صاحب آپ تو ناراض ہونے لگے۔ ‘‘ وہ مسکرا کر بولا۔’’میں تو احتیاطاً معلوم کررہا تھا‘‘ 
’’بھائی صاحب آپ بھی تو بات بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے رات ہی گرم کرلیا تھا دودھ۔‘‘
ان کی امی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
’’میں ابھی دیئے دیتا ہوں اس کے بدلے کا دودھ! ’’دودھ والے نے خوشدلی سے کہا اور اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے ڈرم اتارا اور اس کا ڈھکن کھولنے لگا۔ ’’جب دودھ شام ہی گرم کرلیا تھا تو پھر خیر ہے۔ ہوگئی ہوگی گڑبڑ۔ ‘‘ وہ خود سے بڑ بڑا رہا تھا۔ ڈرم کا ڈھکن اٹھا کر وہ اسد کی جانب گھوما اور اسے اندر سے برتن لانے کا اشارہ کیا۔ تھیلیوں میں وہ اپنی مخصوص پارٹیوں کا دودھ باندھ کر چلتے تھے۔الگ سے دودھ طلب کرنے والوں کو وہ اپنے ڈرم میں سے ناپ کر فروخت کر دیا کرتے تھے۔
’’ٹھیرئیے جناب!‘‘ اچانک فاران کو جانے کیا بات سوجھی کہ وہ زور سے پکار اٹھا۔ ’’آپ کو دودھ دینے کی ضرورت نہیں ہے!‘‘ اس کا یہ جملہ سن کر دودھ والا پریشان ہوگیا ۔ بے خیالی میں اس نے ڈرم کا ڈھکن واپس لگا دیا۔ 
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو فاران!‘‘ ابی بھی حیرانگی سے بولے۔ ‘‘یہ دودھ تو ہمار ا ہوگا!‘‘
’’سنیے جناب! ’’فاران کہہ رہا تھا۔‘‘ دودھ کے پھٹنے کے حوالے سے جو باتیں یہاں کی گئیں وہ سب درست تھیں لیکن ایک معاملے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ ’’وہ سنجیدہ تھا۔ 
’’وہ بھلا کیا؟!‘‘
’’امی نے بتایا کہ دودھ کل شام گرم کرلیا گیا تھا۔ ‘‘ وہ بولا۔‘‘ لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ دودھ آج صبح گرم کیا گیا تھا۔‘‘
امی کچھ شرمندہ سی ہوگئیں۔ ابی کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ انہوں نے گھور کر فاران کو دیکھا امی دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہہ رہی تھیں۔ محض ذرا سی غلط بیانی سے انہیں ایک لیٹر دودھ مفت میں ملنے والا تھا۔ اب کیاخاک انہیں دودھ ملے گا؟
’’کوئی 16گھنٹے دودھ فرج میں رکھا رہا۔‘‘ فاران کہہ رہا تھا۔ ’’اور اسے نکالتے ہی آگ پر رکھ دیا گیا۔ اس طرح فوری ٹھنڈا گرم کرنے سے تضاد (Incompetibility)کا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘ وہ سائنسی وجوہ بھی بیان کر رہا تھا۔ ’’بس پھٹ گیا دودھ۔‘‘
’’جاؤ میاں جاؤ ہمیں نہیں چاہئے بدلے کا دودھ‘‘ وجاہت صاحب اپنی جھینپ مٹاتے ہوئے بولے۔
’’مجھے یقین تھا کہ دودھ کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔‘‘ دودھ والا بولا۔‘‘ لیکن میں آپ کے بیان کو سن کر دودھ آپ کو دے رہا تھا۔‘‘
’’اب ہم کہاں مانگ رہے ہیں دودھ! تم جاؤ۔ ‘‘ انہوں نے اسے اجازت دیتے ہوئے کہا۔ ’’فاران میاں کی سچائی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ اب تو میں دودھ دیکر ضرور جاؤں گا۔‘‘ دودھ والے نے کہا اور اپنے ڈرم کا ڈھکن اٹھانے لگا۔ وہ سب حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
ء۔۔۔ء

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top