skip to Main Content

گھرتوآخر۔۔۔۔!

نائلہ صدیقی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نے بھی دوستوں کی دعوت کرنی ہے تو ذرا دھیان رکھیے کہیں آپ کے ساتھ بھی۔۔۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعد اور اس کے گھر والوں کے درمیان ایک بحث جاری تھی۔ بحث یہ تھی کہ سعد کا نہایت شاندار نتیجہ آیا تھا اور اس کی خوشی میں وہ اپنے دوستوں کو ایک دعوت دینا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ یہ دعوت گھر کے بجاے کسی ہوٹل یا ریستوران میں ہو جبکہ امی اور باجی اس خیال کی مخالفت کررہی تھیں۔ سعد کے ذہن میں بھی شاید یہ خیال نہ آتا اگر اس کے ایک دوست کے چچا نے اپنا ریستوران نہ کھولا ہوتا جو اس کے دوست کے بیان کے مطابق نہایت شاندار تھا، وہاں وہ سعد کے لیے رعایتی نرخوں پر دعوت کا انتظام کراسکتا تھا لیکن اس کی امی اور بہن اس خیال سے متفق نہ تھیں۔ 

’’ارے بیٹا! گھر میں پکے کھانے صاف ستھرے ہوتے ہیں جبکہ باہر کے کھانوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، ناجانے کس طرح پکائے جاتے ہیں۔ میں اور تمھاری بہن مل جل کر دعوت کا انتظام کرلیں گے اور تمھاری خالہ سے کھیر بنوالیں گے ان کے ہاتھ میں بہت لذت ہے۔ ‘‘امی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ 

’’ان کے جس ہاتھ میں لذت ہے شاید وہ اس سے کھانا نہیں پکاتیں۔‘‘ سعد نے منھ بنا کر کہا۔ ’’سعدیہ بریانی پکالے گی اور۔۔۔ ارے ارے غضب! اگر آپا بریانی پکائیں گی تو پھر اس دعوت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آپا کی پکائی ہوئی بریانی تو صرف چھوٹے بچے ہی کھاسکتے ہیں جن کے پورے دانت نہ نکلے ہوں اور وہ ٹھوس غذا میں پہلا قدم رکھ رہے ہوں اور دوسرا قدم رکھنے سے گھبرا رہے ہوں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا۔ ’’ارے وہ تو پچھلی مرتبہ چاول زیادہ دیر تک بھیگے رہ گئے تھے اس لیے بریانی ذرا نرم ہوگئی تھی۔‘‘ آپا نے جھینپ کر کہا اور گوشت بھی نہیں گلا تھا۔ سعد نے دوسرا الزام لگایا۔ 

’’اس کی وجہ مرغی تھی میں نہیں۔ جب تم ایسی بوڑھی پلپلی مرغیوں کا گوشت لاؤگے تو ایسی ہی بریانی پکے گی۔‘‘ آپا نے بے رخی سے کہا۔ 

’’ہاں اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ باہر دعوت کا انتظام کرلیتے ہیں۔ وہاں تو باقاعدہ تربیت یافتہ باورچی کھانا پکاتے ہیں اس لیے اُنّیس بیس ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور دیگر معاملات میں بھی ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب دیکھیں ناں گھر میں دعوت ہوگی تو گھر کی صفائی ستھرائی کرنا، برتن، پانی، تولیے، کرسیوں وغیرہ کا انتظام کرنا۔ ان تمام بکھیڑوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ریستوران میں کھانے کی دعوت جہاں نہ کھانے میں کمی بیشی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی لوگوں کو بٹھانے اور کھلانے پلانے کا انتظام کرنے کی فکر۔‘‘ سعد نے ایک تقریر جھاڑدی۔ 

’’ہاں امی یہ تو ٹھیک ہے۔ زرینہ آنٹی نے جو دعوت کی تھی اس میں کھانا تو اچھا تھا مگر بدنظمی اور بھگدڑ بہت مچی ہوئی تھی۔‘‘ سعد کے بھائی نے اس کی تائید کی۔ ’’ارے ہے مجھے اچھے کھانے کی کب خبر ہوئی؟ میں تو آخر وقت تک چمچہ اور پلیٹ ہی ڈھونڈتی رہی۔‘‘ امی نے کہا ۔

’’تو پھر امی آپ ابو سے اجازت لے لیں نا ریستوران میں دعوت کی۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ ’’اچھا! میں بات کروں گی۔‘‘ امی نے کہا تو سعد خوش ہوگیا۔

ابو نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے سعد خود ریستوران جا کر وہاں کے کھانے اور سروس کے معیار کا جائزہ لے اور اگر مطمئن ہو تو پھر وہاں سے دوست کے چچا (ریستوران کے مالک) کا فون نمبر لے آئے تاکہ ابو خود ان سے بات کرکے دعوت کا انتظام کرادیں۔ چنانچہ اس وقت سعد خوشی خوشی ’’بے مثال ریستوران‘‘ کی طرف گامزن تھا۔ ریستوران کا نام جتنا شاندار تھا، مقام اتنا ہی بیکار تھا۔ ایک اندھیری گلی کے کونے میں چھوٹی سی عمارت پر بے مثال ریستوران کی تختی لگی ہوئی تھی اور دروازے پر دو تین کتے مہمانوں کے استقبال کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے۔ اُنھوں نے بھونک بھونک کر سعد کو خوش آمدید کہا۔ دوسری طرف سے چند بلیاں بھی آکر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئیں اور اندر جانے کے لیے ضد کرنے لگیں۔ شاید وہ پہلے بھی ریستوران کے اندر جا کر کھانا کھاتی رہی تھیں۔ 

سعد کسی نہ کسی طرح ان سے جان چھڑا کر اندر داخل ہوا۔ اندر تنگ سی جگہ میں بہت زیادہ تعداد میں کرسیاں اور میزیں ٹھونس ٹھونس کر رکھ دی گئی تھیں لہٰذا ایک گاہک کے گھٹنے دوسرے گاہک کے گھٹنوں سے ٹکرا رہے اور ایک کا سانس دوسرے کے کانوں میں جارہا تھا۔ ریستوران سے زیادہ یہ کسی گورنمنٹ اسکول کا کلاس روم لگ رہا تھا لیکن دانیال کے کاروباری چچا نے اسے ہوٹل کا رنگ و روپ دینے کے لیے چھت پر پیلے رنگ کے قمقمے اور میزوں پر لال رنگ کے ریشمی چمک دار میز پوش ڈال دیے تھے جو اتنے لمبے تھے کہ کئی لوگ ان میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچے۔ 

ہال کی پیلی روشنی میں سب گاہک یرقان کے مریض لگ رہے تھے۔ سعد ایک میز پوش میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچا پھر سنبھلتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ویسے بھی اس وقت ایسا ہی معلوم ہورہا تھا جیسے ہال میں بیٹھے تمام گاہک بھی گھسیٹ کر لائے گئے ہوں۔ سعد بہت دیر تک اس کونے والی اندھیری نشست پر بیٹھ کر پسینے پسینے ہوتا رہا۔ ریستوران کے کنجوس مالک نے ہال میں اے سی تک نہیں لگوایا تھا۔ چند ایک پنکھے تھے جو آہستہ آہستہ چل رہے تھے جیسے کوئی اُنھیں ہاتھ سے چلا رہا ہو۔ 

کنجوس مالک شاید بیروں کو تنخواہیں بھی نہیں دیتا تھا یا شاید بہت کم دیتا تھا لہٰذا تمام بیرے بہرے بنے ہوئے تھے اور ایک گوشے میں جمع ہو کر خوش گپیاں کررہے تھے۔ گاہک اپنے آرڈر کے انتظار میں ترس رہے تھے۔ سعد نے ہاتھ لہرا لہرا کر ایک بیرے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ بیزاری سے اس کے پاس چلا آیا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے تنک کر پوچھا۔ 

’’مجھے مینو کارڈ لادیجیے تاکہ میں آرڈر کرسکوں۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ بیرے نے منھ بنا کر اسے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جوتے گھسیٹا ہوا آیا اور ایک کارڈ اس کی میز پر پھینک کر چلتا بنا۔ سعد نے رومال سے پسینہ صاف کیا اور کارڈ پر جھک گیا۔ اس نے چند ڈشز منتخب کیں اور پھر بیرے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن یہاں صرف نگاہ دوڑانے سے کام نہیں بن سکتا تھا بلکہ خود دوڑ کر کسی بیرے کو پکڑنا تھا کیوں کہ یہاں بیرے تعداد میں کم اور مزاج کے تیز تھے۔ ’’میرا آرڈر نوٹ کرلیجیے۔‘‘ سعد نے ایک بیرے سے درخواست کی۔ 

’’آرڈر؟ ‘‘بیرا چونکا۔ ’’مگر جناب! آج تو ہمارے یہاں صرف بوفے یعنی ایک جگہ کھانا لگا ہوتا ہے۔ وہیں سے سب کو اپنا کھانا لینا ہوتا ہے۔ الگ الگ آرڈر کی تکمیل نہیں ہوتی۔‘‘ بیرے نے وضاحت کی۔ سعد تلملا کر رہ گیا۔ 

’’تو یہ بات مجھے پہلے والے بیرے نے کیوں نہیں بتائی؟‘‘ سعد نے غصے سے پوچھا۔ 

’’وہ تو آج ہی بھرتی ہوا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوگی یہ بات۔ ‘‘بیرا مسکرایا۔ 

’’تو نئے بھرتی ہونے والوں کو ریستوران کے خفیہ اصول تو بتادیا کریں۔ ‘‘سعد تلملا کر بولا مگر بیرا آگے بڑھ چکا تھا۔ سعد کا وقت کافی ضائع ہوچکا تھا اور اس کی بھوک بھی بہت بڑھ چکی تھی لہٰذا اس نے کھانے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ بیرا ایک تاریک کونے کی طرف اشارہ کرکے گیا تھا جہاں ایک میز پر سب گاہک گرے پڑ رہے تھے جیسے شادی کی کسی تقریب میں کھانا کھلا ہو۔ سعد بھی بھوک مٹانے کے لیے اس دھکم پیل میں شامل ہوگیا۔ مینو کارڈ میں تو بے شمار لذیز کھانوں کے نام درج تھے لیکن اس میز پر چند نامعلوم کھانے سجے ہوئے تھے۔ کم روشنی میں ان کھانوں کو شناخت کرنا اور بھی مشکل کام تھا۔ ایک ڈش میں لمبی لمبی ٹیڑھی میڑھی ہڈیوں کا سالن تھا جس پر خوب ساری ادرک کے لچھے پڑے ہوئے تھے اور اس کے اوپر جنجر مٹن قورما کا لیبل لگا ہوا تھا شاید کوئی بکرا اپنی ساری ہڈیاں اس ڈش میں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اس پر ادرک کی فصل ہوٹل والوں نے خود اُگائی تھی۔ اگلے تھال میں کسی خشک مزاج مرغی کی ٹھنڈی اور سخت بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں جو بالکل سفید ہورہی تھیں شاید بہت دنوں تک فریزر میں قید رہنے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہوگی۔ فنگر فش شاید کسی وہیل مچھلی کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں اور وہ مچھلی بھی کافی روکھے پھیکے مزاج کی تھی۔ ہوٹل والوں نے اس کی رکھائی اور بدبو دونوں کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ چکن روسٹ کے لیے مرغی کی تمام ہڈیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ گوشت کو روسٹ ہونے سے بچایا گیا تھا اور کسی خفیہ جگہ پر چھپادیا گیا تھا تاکہ کسی گاہک کو بوٹی نصیب نہ ہو۔ سبھی ہڈیوں پر دانت تیز کررہے تھے۔ سعد یہی الم غلم پیٹ میں ڈال کر روٹی کی تلاش میں نکلا۔ ریستوران تو نیا تھا مگر نان شاید کسی پرانے ریستوران سے لائے گئے تھے جہاں دنیا کی پہلی روٹی پکی تھی۔ نان چباتے وقت اس کا پرانا پن چیخ چیخ کر اپنے باسی ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ ایک نان سبز رنگ کا بھی تھا جسے دیکھ کر سعد نے روٹی کھانے کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر اس نے میٹھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ ایک بڑے سے پیالے میں کوئی لج لجی سی چیز پڑی تھی اور اس پر پڈنگ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ سعد نے ایک چمچہ بھر کر منھ میں ڈالا تو اسے اُبکائی آگئی۔ کنجوس مالک نے اپنے گھر کے تمام خراب انڈوں کی پڈنگ تیار کرادی تھی جس میں سے بھبکے اُٹھ رہے تھے۔ وہ جلدی سے دوسری ڈِش کی طرف بڑھا جس میں کوئی لمبی سی گلابی چیز لپٹی ہوئی تھی۔ 

’’بے مثال ریستوران کی اسپیشل سوئٹ ڈش ہے یہ!‘‘ قریب سے گزرتے ایک بیرے نے سعد کو پریشان دیکھ کر وضاحت کی۔ کھانے کے بعد سعد کو اندازہ ہوگیا کہ کسی زمانے میں کھیر رہی ہوگی اور اب اس میں روح افزا ڈال کر اسپیشل ڈش کا نام دے دیا گیا تھا۔ اگلی ڈش میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور اس میں بلبلے بھی بن رہے تھے۔ بلبلوں والی اس ڈش کا نام رنگر کسٹرڈ تھا۔ سعد تھک ہا رکر واپس اپنی نشست پر آگیا اور بٹوے میں سے پیسے نکال کر بل ادا کیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’ہاں بھئی تم ہو آئے اپنے دوست کے چچا کے ریستوران سے؟‘‘ رات کو ابو نے پوچھا۔ جی! سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’اچھا تو فون نمبر دو، میں ان سے بات کرتا ہوں کہ تمھارے دوستوں کے لیے ایک اچھی سی دعوت کا انتظام کردیں اپنے ریستوران میں۔‘‘ ابو نے کہا۔ 

’’یہ لیجیے!‘‘ سعد نے ایک پرچہ ان کی طرف بڑھادیا۔ ابو نے کاغذ کھول کر پڑھا۔ ’’ارے یہ کیا؟ یہ تو ہمارے گھر کا فون نمبر ہے۔‘‘ ابو حیران ہو کر بولے۔ 

’’جی ابو! کیوں کہ سب سے اچھی دعوت یہیں ہوسکتی ہے۔ اب آپ امی کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ میرے دوستوں کے لیے ایک عمدہ سی دعوت کا انتظام کردیں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا تو ابو بھی مسکرانے لگے۔

*۔۔۔*

سعد اور اس کے گھر والوں کے درمیان ایک بحث جاری تھی۔ بحث یہ تھی کہ سعد کا نہایت شاندار نتیجہ آیا تھا اور اس کی خوشی میں وہ اپنے دوستوں کو ایک دعوت دینا چاہتا تھا۔ 

سعد اور اس کے گھر والوں کے درمیان ایک بحث جاری تھی۔ بحث یہ تھی کہ سعد کا نہایت شاندار نتیجہ آیا تھا اور اس کی خوشی میں وہ اپنے دوستوں کو ایک دعوت دینا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ یہ دعوت گھر کے بجاے کسی ہوٹل یا ریستوران میں ہو جبکہ امی اور باجی اس خیال کی مخالفت کررہی تھیں۔ سعد کے ذہن میں بھی شاید یہ خیال نہ آتا اگر اس کے ایک دوست کے چچا نے اپنا ریستوران نہ کھولا ہوتا جو اس کے دوست کے بیان کے مطابق نہایت شاندار تھا، وہاں وہ سعد کے لیے رعایتی نرخوں پر دعوت کا انتظام کراسکتا تھا لیکن اس کی امی اور بہن اس خیال سے متفق نہ تھیں۔ 

’’ارے بیٹا! گھر میں پکے کھانے صاف ستھرے ہوتے ہیں جبکہ باہر کے کھانوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، ناجانے کس طرح پکائے جاتے ہیں۔ میں اور تمھاری بہن مل جل کر دعوت کا انتظام کرلیں گے اور تمھاری خالہ سے کھیر بنوالیں گے ان کے ہاتھ میں بہت لذت ہے۔ ‘‘امی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ 

’’ان کے جس ہاتھ میں لذت ہے شاید وہ اس سے کھانا نہیں پکاتیں۔‘‘ سعد نے منھ بنا کر کہا۔ ’’سعدیہ بریانی پکالے گی اور۔۔۔ ارے ارے غضب! اگر آپا بریائی پکائیں گی تو پھر اس دعوت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آپا کی پکائی ہوئی بریانی تو صرف چھوٹے بچے ہی کھاسکتے ہیں جن کے پورے دانت نہ نکلے ہوں اور وہ ٹھوس غذا میں پہلا قدم رکھ رہے ہوں اور دوسرا قدم رکھنے سے گھبرا رہے ہوں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا۔ ’’ارے وہ تو پچھلی مرتبہ چاول زیادہ دیر تک بھیگے رہ گئے تھے اس لیے بریانی ذرا نرم ہوگئی تھی۔‘‘ آپا نے جھینپ کر کہا اور گوشت بھی نہیں گلا تھا۔ سعد نے دوسرا الزام لگایا۔ 

’’اس کی وجہ مرغی تھی میں نہیں۔ جب تم ایسی بوڑھی پلپلی مرغیوں کا گوشت لاؤگے تو ایسی ہی بریانی پکے گی۔‘‘ آپا نے بے رخی سے کہا۔ 

’’ہاں اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ باہر دعوت کا انتظام کرلیتے ہیں۔ وہاں تو باقاعدہ تربیت یافتہ باورچی کھانا پکاتے ہیں اس لیے اُنّیس بیس ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور دیگر معاملات میں بھی ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب دیکھیں ناں گھر میں دعوت ہوگی تو گھر کی صفائی ستھرائی کرنا، برتن، پانی، تولیے، کرسیوں وغیرہ کا انتظام کرنا۔ ان تمام بکھیڑوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ریستوران میں کھانے کی دعوت جہاں نہ کھانے میں کمی بیشی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی لوگوں کو بٹھانے اور کھلانے پلانے کا انتظام کرنے کی فکر۔‘‘ سعد نے ایک تقریر جھاڑدی۔ 

’’ہاں امی یہ تو ٹھیک ہے۔ زرینہ آنٹی نے جو دعوت کی تھی اس میں کھانا تو اچھا تھا مگر بدنظمی اور بھگدڑ بہت مچی ہوئی تھی۔‘‘ سعد کے بھائی نے اس کی تائید کی۔ ’’ارے ہے مجھے اچھے کھانے کی کب خبر ہوئی؟ میں تو آخر وقت تک چمچہ اور پلیٹ ہی ڈھونڈتی رہی۔‘‘ امی نے کہا ۔

’’تو پھر امی آپ ابو سے اجازت لے لیں نا ریستوران میں دعوت کی۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ ’’اچھا! میں بات کروں گی۔‘‘ امی نے کہا تو سعد خوش ہوگیا۔

ابو نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے سعد خود ریستوران جا کر وہاں کے کھانے اور سروس کے معیار کا جائزہ لے اور اگر مطمئن ہو تو پھر وہاں سے دوست کے چچا (ریستوران کے مالک) کا فون نمبر لے آئے تاکہ ابو خود ان سے بات کرکے دعوت کا انتظام کرادیں۔ چنانچہ اس وقت سعد خوشی خوشی ’’بے مثال ریستوران‘‘ کی طرف گامزن تھا۔ ریستوران کا نام جتنا شاندار تھا، مقام اتنا ہی بیکار تھا۔ ایک اندھیری گلی کے کونے میں چھوٹی سی عمارت پر بے مثال ریستوران کی تختی لگی ہوئی تھی اور دروازے پر دو تین کتے مہمانوں کے استقبال کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے۔ اُنھوں نے بھونک بھونک کر سعد کو خوش آمدید کہا۔ دوسری طرف سے چند بلیاں بھی آکر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئیں اور اندر جانے کے لیے ضد کرنے لگیں۔ شاید وہ پہلے بھی ریستوران کے اندر جا کر کھانا کھاتی رہی تھیں۔ 

سعد کسی نہ کسی طرح ان سے جان چھڑا کر اندر داخل ہوا۔ اندر تنگ سی جگہ میں بہت زیادہ تعداد میں کرسیاں اور میزیں ٹھونس ٹھونس کر رکھ دی گئی تھیں لہٰذا ایک گاہک کے گھٹنے دوسرے گاہک کے گھٹنوں سے ٹکرا رہے اور ایک کا سانس دوسرے کے کانوں میں جارہا تھا۔ ریستوران سے زیادہ یہ کسی گورنمنٹ اسکول کا کلاس روم لگ رہا تھا لیکن دانیال کے کاروباری چچا نے اسے ہوٹل کا رنگ و روپ دینے کے لیے چھت پر پیلے رنگ کے قمقمے اور میزوں پر لال رنگ کے ریشمی چمک دار میز پوش ڈال دیے تھے جو اتنے لمبے تھے کہ کئی لوگ ان میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچے۔ 

ہال کی پیلی روشنی میں سب گاہک یرقان کے مریض لگ رہے تھے۔ سعد ایک میز پوش میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچا پھر سنبھلتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ویسے بھی اس وقت ایسا ہی معلوم ہورہا تھا جیسے ہال میں بیٹھے تمام گاہک بھی گھسیٹ کر لائے گئے ہوں۔ سعد بہت دیر تک اس کونے والی اندھیری نشست پر بیٹھ کر پسینے پسینے ہوتا رہا۔ ریستوران کے کنجوس مالک نے ہال میں اے سی تک نہیں لگوایا تھا۔ چند ایک پنکھے تھے جو آہستہ آہستہ چل رہے تھے جیسے کوئی اُنھیں ہاتھ سے چلا رہا ہو۔ 

کنجوس مالک شاید بیروں کو تنخواہیں بھی نہیں دیتا تھا یا شاید بہت کم دیتا تھا لہٰذا تمام بیرے بہرے بنے ہوئے تھے اور ایک گوشے میں جمع ہو کر خوش گپیاں کررہے تھے۔ گاہک اپنے آرڈر کے انتظار میں ترس رہے تھے۔ سعد نے ہاتھ لہرا لہرا کر ایک بیرے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ بیزاری سے اس کے پاس چلا آیا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے تنک کر پوچھا۔ 

’’مجھے مینو کارڈ لادیجیے تاکہ میں آرڈر کرسکوں۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ بیرے نے منھ بنا کر اسے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جوتے گھسیٹا ہوا آیا اور ایک کارڈ اس کی میز پر پھینک کر چلتا بنا۔ سعد نے رومال سے پسینہ صاف کیا اور کارڈ پر جھک گیا۔ اس نے چند ڈشز منتخب کیں اور پھر بیرے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن یہاں صرف نگاہ دوڑانے سے کام نہیں بن سکتا تھا بلکہ خود دوڑ کر کسی بیرے کو پکڑنا تھا کیوں کہ یہاں بیرے تعداد میں کم اور مزاج کے تیز تھے۔ ’’میرا آرڈر نوٹ کرلیجیے۔‘‘ سعد نے ایک بیرے سے درخواست کی۔ 

’’آرڈر؟ ‘‘بیرا چونکا۔ ’’مگر جناب! آج تو ہمارے یہاں صرف بوفے یعنی ایک جگہ کھانا لگا ہوتا ہے۔ وہیں سے سب کو اپنا کھانا لینا ہوتا ہے۔ الگ الگ آرڈر کی تکمیل نہیں ہوتی۔‘‘ بیرے نے وضاحت کی۔ سعد تلملا کر رہ گیا۔ 

’’تو یہ بات مجھے پہلے والے بیرے نے کیوں نہیں بتائی؟‘‘ سعد نے غصے سے پوچھا۔ 

’’وہ تو آج ہی بھرتی ہوا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوگی یہ بات۔ ‘‘بیرا مسکرایا۔ 

’’تو نئے بھرتی ہونے والوں کو ریستوران کے خفیہ اصول تو بتادیا کریں۔ ‘‘سعد تلملا کر بولا مگر بیرا آگے بڑھ چکا تھا۔ سعد کا وقت کافی ضائع ہوچکا تھا اور اس کی بھوک بھی بہت بڑھ چکی تھی لہٰذا اس نے کھانے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ بیرا ایک تاریک کونے کی طرف اشارہ کرکے گیا تھا جہاں ایک میز پر سب گاہک گرے پڑ رہے تھے جیسے شادی کی کسی تقریب میں کھانا کھلا ہو۔ سعد بھی بھوک مٹانے کے لیے اس دھکم پیل میں شامل ہوگیا۔ مینو کارڈ میں تو بے شمار لذیز کھانوں کے نام درج تھے لیکن اس میز پر چند نامعلوم کھانے سجے ہوئے تھے۔ کم روشنی میں ان کھانوں کو شناخت کرنا اور بھی مشکل کام تھا۔ ایک ڈش میں لمبی لمبی ٹیڑھی میڑھی ہڈیوں کا سالن تھا جس پر خوب ساری ادرک کے لچھے پڑے ہوئے تھے اور اس کے اوپر جنجر مٹن قورما کا لیبل لگا ہوا تھا شاید کوئی بکرا اپنی ساری ہڈیاں اس ڈش میں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اس پر ادرک کی فصل ہوٹل والوں نے خود اُگائی تھی۔ اگلے تھال میں کسی خشک مزاج مرغی کی ٹھنڈی اور سخت بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں جو بالکل سفید ہورہی تھیں شاید بہت دنوں تک فریزر میں قید رہنے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہوگی۔ فنگر فش شاید کسی وہیل مچھلی کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں اور وہ مچھلی بھی کافی روکھے پھیکے مزاج کی تھی۔ ہوٹل والوں نے اس کی رکھائی اور بدبو دونوں کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ چکن روسٹ کے لیے مرغی کی تمام ہڈیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ گوشت کو روسٹ ہونے سے بچایا گیا تھا اور کسی خفیہ جگہ پر چھپادیا گیا تھا تاکہ کسی گاہک کو بوٹی نصیب نہ ہو۔ سبھی ہڈیوں پر دانت تیز کررہے تھے۔ سعد یہی الم غلم پیٹ میں ڈال کر روٹی کی تلاش میں نکلا۔ ریستوران تو نیا تھا مگر نان شاید کسی پرانے ریستوران سے لائے گئے تھے جہاں دنیا کی پہلی روٹی پکی تھی۔ نان چباتے وقت اس کا پرانا پن چیخ چیخ کر اپنے باسی ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ ایک نان سبز رنگ کا بھی تھا جسے دیکھ کر سعد نے روٹی کھانے کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر اس نے میٹھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ ایک بڑے سے پیالے میں کوئی لج لجی سی چیز پڑی تھی اور اس پر پڈنگ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ سعد نے ایک چمچہ بھر کر منھ میں ڈالا تو اسے اُبکائی آگئی۔ کنجوس مالک نے اپنے گھر کے تمام خراب انڈوں کی پڈنگ تیار کرادی تھی جس میں سے بھبکے اُٹھ رہے تھے۔ وہ جلدی سے دوسری ڈِش کی طرف بڑھا جس میں کوئی لمبی سی گلابی چیز لپٹی ہوئی تھی۔ 

’’بے مثال ریستوران کی اسپیشل سوئٹ ڈش ہے یہ!‘‘ قریب سے گزرتے ایک بیرے نے سعد کو پریشان دیکھ کر وضاحت کی۔ کھانے کے بعد سعد کو اندازہ ہوگیا کہ کسی زمانے میں کھیر رہی ہوگی اور اب اس میں روح افزا ڈال کر اسپیشل ڈش کا نام دے دیا گیا تھا۔ اگلی ڈش میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور اس میں بلبلے بھی بن رہے تھے۔ بلبلوں والی اس ڈش کا نام رنگر کسٹرڈ تھا۔ سعد تھک ہا رکر واپس اپنی نشست پر آگیا اور بٹوے میں سے پیسے نکال کر بل ادا کیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’ہاں بھئی تم ہو آئے اپنے دوست کے چچا کے ریستوران سے؟‘‘ رات کو ابو نے پوچھا۔ جی! سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’اچھا تو فون نمبر دو، میں ان سے بات کرتا ہوں کہ تمھارے دوستوں کے لیے ایک اچھی سی دعوت کا انتظام کردیں اپنے ریستوران میں۔‘‘ ابو نے کہا۔ 

’’یہ لیجیے!‘‘ سعد نے ایک پرچہ ان کی طرف بڑھادیا۔ ابو نے کاغذ کھول کر پڑھا۔ ’’ارے یہ کیا؟ یہ تو ہمارے گھر کا فون نمبر ہے۔‘‘ ابو حیران ہو کر بولے۔ 

’’جی ابو! کیوں کہ سب سے اچھی دعوت یہیں ہوسکتی ہے۔ اب آپ امی کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ میرے دوستوں کے لیے ایک عمدہ سی دعوت کا انتظام کردیں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا تو ابو بھی مسکرانے لگے۔

*۔۔۔*

سعد اور اس کے گھر والوں کے درمیان ایک بحث جاری تھی۔ بحث یہ تھی کہ سعد کا نہایت شاندار نتیجہ آیا تھا اور اس کی خوشی میں وہ اپنے دوستوں کو ایک دعوت دینا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ یہ دعوت گھر کے بجاے کسی ہوٹل یا ریستوران میں ہو جبکہ امی اور باجی اس خیال کی مخالفت کررہی تھیں۔ سعد کے ذہن میں بھی شاید یہ خیال نہ آتا اگر اس کے ایک دوست کے چچا نے اپنا ریستوران نہ کھولا ہوتا جو اس کے دوست کے بیان کے مطابق نہایت شاندار تھا، وہاں وہ سعد کے لیے رعایتی نرخوں پر دعوت کا انتظام کراسکتا تھا لیکن اس کی امی اور بہن اس خیال سے متفق نہ تھیں۔ 
’’ارے بیٹا! گھر میں پکے کھانے صاف ستھرے ہوتے ہیں جبکہ باہر کے کھانوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، ناجانے کس طرح پکائے جاتے ہیں۔ میں اور تمھاری بہن مل جل کر دعوت کا انتظام کرلیں گے اور تمھاری خالہ سے کھیر بنوالیں گے ان کے ہاتھ میں بہت لذت ہے۔ ‘‘امی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ 
’’ان کے جس ہاتھ میں لذت ہے شاید وہ اس سے کھانا نہیں پکاتیں۔‘‘ سعد نے منھ بنا کر کہا۔ ’’سعدیہ بریانی پکالے گی اور۔۔۔ ارے ارے غضب! اگر آپا بریائی پکائیں گی تو پھر اس دعوت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آپا کی پکائی ہوئی بریانی تو صرف چھوٹے بچے ہی کھاسکتے ہیں جن کے پورے دانت نہ نکلے ہوں اور وہ ٹھوس غذا میں پہلا قدم رکھ رہے ہوں اور دوسرا قدم رکھنے سے گھبرا رہے ہوں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا۔ ’’ارے وہ تو پچھلی مرتبہ چاول زیادہ دیر تک بھیگے رہ گئے تھے اس لیے بریانی ذرا نرم ہوگئی تھی۔‘‘ آپا نے جھینپ کر کہا اور گوشت بھی نہیں گلا تھا۔ سعد نے دوسرا الزام لگایا۔ 
’’اس کی وجہ مرغی تھی میں نہیں۔ جب تم ایسی بوڑھی پلپلی مرغیوں کا گوشت لاؤگے تو ایسی ہی بریانی پکے گی۔‘‘ آپا نے بے رخی سے کہا۔ 
’’ہاں اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ باہر دعوت کا انتظام کرلیتے ہیں۔ وہاں تو باقاعدہ تربیت یافتہ باورچی کھانا پکاتے ہیں اس لیے اُنّیس بیس ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور دیگر معاملات میں بھی ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب دیکھیں ناں گھر میں دعوت ہوگی تو گھر کی صفائی ستھرائی کرنا، برتن، پانی، تولیے، کرسیوں وغیرہ کا انتظام کرنا۔ ان تمام بکھیڑوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ریستوران میں کھانے کی دعوت جہاں نہ کھانے میں کمی بیشی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی لوگوں کو بٹھانے اور کھلانے پلانے کا انتظام کرنے کی فکر۔‘‘ سعد نے ایک تقریر جھاڑدی۔ 
’’ہاں امی یہ تو ٹھیک ہے۔ زرینہ آنٹی نے جو دعوت کی تھی اس میں کھانا تو اچھا تھا مگر بدنظمی اور بھگدڑ بہت مچی ہوئی تھی۔‘‘ سعد کے بھائی نے اس کی تائید کی۔ ’’ارے ہے مجھے اچھے کھانے کی کب خبر ہوئی؟ میں تو آخر وقت تک چمچہ اور پلیٹ ہی ڈھونڈتی رہی۔‘‘ امی نے کہا ۔
’’تو پھر امی آپ ابو سے اجازت لے لیں نا ریستوران میں دعوت کی۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ ’’اچھا! میں بات کروں گی۔‘‘ امی نے کہا تو سعد خوش ہوگیا۔
ابو نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے سعد خود ریستوران جا کر وہاں کے کھانے اور سروس کے معیار کا جائزہ لے اور اگر مطمئن ہو تو پھر وہاں سے دوست کے چچا (ریستوران کے مالک) کا فون نمبر لے آئے تاکہ ابو خود ان سے بات کرکے دعوت کا انتظام کرادیں۔ چنانچہ اس وقت سعد خوشی خوشی ’’بے مثال ریستوران‘‘ کی طرف گامزن تھا۔ ریستوران کا نام جتنا شاندار تھا، مقام اتنا ہی بیکار تھا۔ ایک اندھیری گلی کے کونے میں چھوٹی سی عمارت پر بے مثال ریستوران کی تختی لگی ہوئی تھی اور دروازے پر دو تین کتے مہمانوں کے استقبال کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے۔ اُنھوں نے بھونک بھونک کر سعد کو خوش آمدید کہا۔ دوسری طرف سے چند بلیاں بھی آکر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئیں اور اندر جانے کے لیے ضد کرنے لگیں۔ شاید وہ پہلے بھی ریستوران کے اندر جا کر کھانا کھاتی رہی تھیں۔ 
سعد کسی نہ کسی طرح ان سے جان چھڑا کر اندر داخل ہوا۔ اندر تنگ سی جگہ میں بہت زیادہ تعداد میں کرسیاں اور میزیں ٹھونس ٹھونس کر رکھ دی گئی تھیں لہٰذا ایک گاہک کے گھٹنے دوسرے گاہک کے گھٹنوں سے ٹکرا رہے اور ایک کا سانس دوسرے کے کانوں میں جارہا تھا۔ ریستوران سے زیادہ یہ کسی گورنمنٹ اسکول کا کلاس روم لگ رہا تھا لیکن دانیال کے کاروباری چچا نے اسے ہوٹل کا رنگ و روپ دینے کے لیے چھت پر پیلے رنگ کے قمقمے اور میزوں پر لال رنگ کے ریشمی چمک دار میز پوش ڈال دیے تھے جو اتنے لمبے تھے کہ کئی لوگ ان میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچے۔ 
ہال کی پیلی روشنی میں سب گاہک یرقان کے مریض لگ رہے تھے۔ سعد ایک میز پوش میں اُلجھ کر گرتے گرتے بچا پھر سنبھلتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ ویسے بھی اس وقت ایسا ہی معلوم ہورہا تھا جیسے ہال میں بیٹھے تمام گاہک بھی گھسیٹ کر لائے گئے ہوں۔ سعد بہت دیر تک اس کونے والی اندھیری نشست پر بیٹھ کر پسینے پسینے ہوتا رہا۔ ریستوران کے کنجوس مالک نے ہال میں اے سی تک نہیں لگوایا تھا۔ چند ایک پنکھے تھے جو آہستہ آہستہ چل رہے تھے جیسے کوئی اُنھیں ہاتھ سے چلا رہا ہو۔ 
کنجوس مالک شاید بیروں کو تنخواہیں بھی نہیں دیتا تھا یا شاید بہت کم دیتا تھا لہٰذا تمام بیرے بہرے بنے ہوئے تھے اور ایک گوشے میں جمع ہو کر خوش گپیاں کررہے تھے۔ گاہک اپنے آرڈر کے انتظار میں ترس رہے تھے۔ سعد نے ہاتھ لہرا لہرا کر ایک بیرے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ بیزاری سے اس کے پاس چلا آیا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے تنک کر پوچھا۔ 
’’مجھے مینو کارڈ لادیجیے تاکہ میں آرڈر کرسکوں۔‘‘ سعد نے درخواست کی۔ بیرے نے منھ بنا کر اسے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جوتے گھسیٹا ہوا آیا اور ایک کارڈ اس کی میز پر پھینک کر چلتا بنا۔ سعد نے رومال سے پسینہ صاف کیا اور کارڈ پر جھک گیا۔ اس نے چند ڈشز منتخب کیں اور پھر بیرے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن یہاں صرف نگاہ دوڑانے سے کام نہیں بن سکتا تھا بلکہ خود دوڑ کر کسی بیرے کو پکڑنا تھا کیوں کہ یہاں بیرے تعداد میں کم اور مزاج کے تیز تھے۔ ’’میرا آرڈر نوٹ کرلیجیے۔‘‘ سعد نے ایک بیرے سے درخواست کی۔ 
’’آرڈر؟ ‘‘بیرا چونکا۔ ’’مگر جناب! آج تو ہمارے یہاں صرف بوفے یعنی ایک جگہ کھانا لگا ہوتا ہے۔ وہیں سے سب کو اپنا کھانا لینا ہوتا ہے۔ الگ الگ آرڈر کی تکمیل نہیں ہوتی۔‘‘ بیرے نے وضاحت کی۔ سعد تلملا کر رہ گیا۔ 
’’تو یہ بات مجھے پہلے والے بیرے نے کیوں نہیں بتائی؟‘‘ سعد نے غصے سے پوچھا۔ 
’’وہ تو آج ہی بھرتی ہوا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوگی یہ بات۔ ‘‘بیرا مسکرایا۔ 
’’تو نئے بھرتی ہونے والوں کو ریستوران کے خفیہ اصول تو بتادیا کریں۔ ‘‘سعد تلملا کر بولا مگر بیرا آگے بڑھ چکا تھا۔ سعد کا وقت کافی ضائع ہوچکا تھا اور اس کی بھوک بھی بہت بڑھ چکی تھی لہٰذا اس نے کھانے کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ بیرا ایک تاریک کونے کی طرف اشارہ کرکے گیا تھا جہاں ایک میز پر سب گاہک گرے پڑ رہے تھے جیسے شادی کی کسی تقریب میں کھانا کھلا ہو۔ سعد بھی بھوک مٹانے کے لیے اس دھکم پیل میں شامل ہوگیا۔ مینو کارڈ میں تو بے شمار لذیز کھانوں کے نام درج تھے لیکن اس میز پر چند نامعلوم کھانے سجے ہوئے تھے۔ کم روشنی میں ان کھانوں کو شناخت کرنا اور بھی مشکل کام تھا۔ ایک ڈش میں لمبی لمبی ٹیڑھی میڑھی ہڈیوں کا سالن تھا جس پر خوب ساری ادرک کے لچھے پڑے ہوئے تھے اور اس کے اوپر جنجر مٹن قورما کا لیبل لگا ہوا تھا شاید کوئی بکرا اپنی ساری ہڈیاں اس ڈش میں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اس پر ادرک کی فصل ہوٹل والوں نے خود اُگائی تھی۔ اگلے تھال میں کسی خشک مزاج مرغی کی ٹھنڈی اور سخت بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں جو بالکل سفید ہورہی تھیں شاید بہت دنوں تک فریزر میں قید رہنے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہوگی۔ فنگر فش شاید کسی وہیل مچھلی کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں اور وہ مچھلی بھی کافی روکھے پھیکے مزاج کی تھی۔ ہوٹل والوں نے اس کی رکھائی اور بدبو دونوں کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ چکن روسٹ کے لیے مرغی کی تمام ہڈیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ گوشت کو روسٹ ہونے سے بچایا گیا تھا اور کسی خفیہ جگہ پر چھپادیا گیا تھا تاکہ کسی گاہک کو بوٹی نصیب نہ ہو۔ سبھی ہڈیوں پر دانت تیز کررہے تھے۔ سعد یہی الم غلم پیٹ میں ڈال کر روٹی کی تلاش میں نکلا۔ ریستوران تو نیا تھا مگر نان شاید کسی پرانے ریستوران سے لائے گئے تھے جہاں دنیا کی پہلی روٹی پکی تھی۔ نان چباتے وقت اس کا پرانا پن چیخ چیخ کر اپنے باسی ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ ایک نان سبز رنگ کا بھی تھا جسے دیکھ کر سعد نے روٹی کھانے کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر اس نے میٹھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ ایک بڑے سے پیالے میں کوئی لج لجی سی چیز پڑی تھی اور اس پر پڈنگ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ سعد نے ایک چمچہ بھر کر منھ میں ڈالا تو اسے اُبکائی آگئی۔ کنجوس مالک نے اپنے گھر کے تمام خراب انڈوں کی پڈنگ تیار کرادی تھی جس میں سے بھبکے اُٹھ رہے تھے۔ وہ جلدی سے دوسری ڈِش کی طرف بڑھا جس میں کوئی لمبی سی گلابی چیز لپٹی ہوئی تھی۔ 
’’بے مثال ریستوران کی اسپیشل سوئٹ ڈش ہے یہ!‘‘ قریب سے گزرتے ایک بیرے نے سعد کو پریشان دیکھ کر وضاحت کی۔ کھانے کے بعد سعد کو اندازہ ہوگیا کہ کسی زمانے میں کھیر رہی ہوگی اور اب اس میں روح افزا ڈال کر اسپیشل ڈش کا نام دے دیا گیا تھا۔ اگلی ڈش میں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا اور اس میں بلبلے بھی بن رہے تھے۔ بلبلوں والی اس ڈش کا نام رنگر کسٹرڈ تھا۔ سعد تھک ہا رکر واپس اپنی نشست پر آگیا اور بٹوے میں سے پیسے نکال کر بل ادا کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’ہاں بھئی تم ہو آئے اپنے دوست کے چچا کے ریستوران سے؟‘‘ رات کو ابو نے پوچھا۔ جی! سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’اچھا تو فون نمبر دو، میں ان سے بات کرتا ہوں کہ تمھارے دوستوں کے لیے ایک اچھی سی دعوت کا انتظام کردیں اپنے ریستوران میں۔‘‘ ابو نے کہا۔ 
’’یہ لیجیے!‘‘ سعد نے ایک پرچہ ان کی طرف بڑھادیا۔ ابو نے کاغذ کھول کر پڑھا۔ ’’ارے یہ کیا؟ یہ تو ہمارے گھر کا فون نمبر ہے۔‘‘ ابو حیران ہو کر بولے۔ 
’’جی ابو! کیوں کہ سب سے اچھی دعوت یہیں ہوسکتی ہے۔ اب آپ امی کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ میرے دوستوں کے لیے ایک عمدہ سی دعوت کا انتظام کردیں۔‘‘ سعد نے مسکرا کر کہا تو ابو بھی مسکرانے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top