skip to Main Content

۶ ۔ کامیابی کا زمانہ

نظرزیدی

۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور ﷺ نے جب صبر شکر کے ساتھ وہ ساری تکلیفیں برداشت کیں جو کافروں نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو پہنچائیں،تو آخر وہ وقت آگیا جب آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آپ ﷺ کے لئے آسانیاں پیدا کردیں۔
معراج
کامیابی کے اس زمانے کی ابتداء معراج کے واقعے سے ہوئی۔معراج عربی زبان میں سیڑھی یااوپر چڑھنے کی چیز کو کہتے ہیں ۔اسلامی تاریخ میں رسول ﷺ کی مبارک زندگی کے ایک خاص واقعے کو معراج کا نام دیا گیا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے ایک رات حضور ﷺ آرام کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ ﷺکو اپنے ساتھ کعبہ شریف میں اور پھر بیت المقدس لے گئے۔وہاں آپ ﷺنے مسجد اقصیٰ میں سب نبیوں کے ساتھ نماز پڑھی۔اس نماز میں آپ ﷺ ہی سب نبیوں کے امام بنے۔
بیت المقدس اب فلسطین کا ایک بہت بڑا اور مشہور شہر ہے۔مسجد اقصیٰ اسی شہر میں ہے۔اس زمانے میں اس عبادت گاہ کو بیت المقدس کہتے تھے جو مشہور پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنوائی تھی۔ اس واقعے کاذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور رسول ﷺ نے حدیثوں میں خود بھی بیان کیا ہے۔
حضور ﷺ نے جو باتیں بیان کیں انہیں حدیث کہتے ہیں اور آپ ﷺ کی فرمائی ہوئی سب باتیں حدیثوں کی کتابوں میں درج ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پاک ہے وہ(اللہ)جس نے اپنے بندے(رسول)کو راتوں رات مسجد حرام سے اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے چاروں طرف ہم نے برکت رکھی ہے،تاکہ ہم اسے(رسول اللہ) کو،اپنی کچھ نشانیان دکھائیں۔بے شک وہ (اللہ)سننے والا،دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت نمبر۱)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے اس سفر کو اسریٰ کا نام دیا ہے۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ خاص اس سفر سے متعلق دو معنی بیان کیے گئے۔ایک رات کے وقت چلنا اور دوسرا اونچی جگہ جانا ۔بہرحال اسریٰ کے معنی کچھ بھی ہوں، یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے رسول ﷺ کوکعبہ شریف سے فلسطین کی مسجد اقصیٰ میں پہنچا دیا جہاں آپ ﷺ نے تمام نبیوں کے ساتھ نماز پڑھی اور خود اس نماز میں سب نبیوں کے امام بنے۔
اس سفر کے بارے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔براق جنت کی ایک سواری ہے جو اس قدر تیز چلتی ہے کہ جہاں تک انسان کی نگاہ جاتی ہے وہاں اس کا قدم پڑتا ہے۔
یہ بات پڑھ کر شاید بعض بچے یہ سوچیں کہ بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز اس قدر تیز دوڑے!ایسے بچوں سے ہم کہیں گے کہ ہاں ایسا ہو سکتا ہے۔اللہ پاک کی تو وہ شان ہے کہ اس کے لئے کوئی کام بھی مشکل نہیں ۔
یہ کامیابی تو انسانوں نے بھی حاصل کر لی ہے کہ ان کے بنائے ہوئے ہوائی جہاز آواز کی رفتار سے بھی بہت تیز اڑتے ہیں اور راکٹوں اور میزائلوں کی رفتار تو ان ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ ہے۔
بہرحال اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز اداکرنے کے بعدرسول ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ آپ کے اس سفرکو معراج کہا جاتا ہے۔اس سفر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺکے ساتھ تھے،لیکن وہ ایک مقام ’سدرۃ المنتہیٰ‘تک ہی جا سکے۔اس سے آگے آپ ﷺتنہا گئے۔اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کیں۔
سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر بیری کا ایک درخت ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آگے حضرت جبرئیل بھی نہیں جا سکتے جو سب فرشتوں کے سردار ہیں۔
اس سفر میں رسول ﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ بہت سے پیغمبروں سے ملاقات کی۔برائی کے راستے پر چلنے والوں کو سزا پاتے ہوئے دیکھا اور دوسری بہت سی چیزیں ملاحظہ فرمائیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ خاص بات یہ ہوئی کہ آپ ﷺ کی امت، یعنی ہم مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔فرض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان نماز نہ پڑھے گا، اسے سزا ملے گی۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
رسول ﷺ کی معرا ج کے بارے میں دو باتیں کہی جاتی ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے یہ سفر اپنے جسم کے ساتھ کیا،یعنی اس حالت میں آسمان پر گئے جس حالت میں دنیا کے اندر زندگی گزار رہے تھے۔
دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کو خواب کی حالت میں معراج ہوئی۔ان دونوں باتوں میں پہلی کو ٹھیک مانا جاتا ہے،یعنی نے خواب نہیں دیکھا ،بلکہ اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں پرگئے۔دین کی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے والے عالموں نے یہی لکھا ہے کہ حضورﷺ نے خواب نہ دیکھا تھا،بلکہ اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔
پہلے زمانے میں تو یہ بات سمجھنے میں ضرور کچھ دشواری ہوتی ہوگی،وہی لوگ اس بات پر ایمان لاتے ہوں گے،جنہیں اپنے دین ہر پورا پورا یقین ہوگا،لیکن اب یہ بات سمجھنے میں بالکل آسانی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ انسان اپنے بنائی ہوئی مشین،راکٹ میں بیٹھ کر چاند کی سیر کر چکا ہے اور یہ کوشش کر رہا ہے کہ زہرا اور مشتری وغیرہ ستاروں کی بھی سیر کرے اور چاند ستاروں میں اپنی بستیاں بسا کر وہاں اسی طرح رہنے لگے جس طرح زمین پر رہتا ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اپنی مہربانی سے کچھ علم اور کچھ طاقتیں دے دی ہیں اور اسی علم اور اسی طاقت سے کام لے کر اس نے یہ کامیابی حاصل کر لی ہے کہ چاند ستاروں میں بستیاں بسانے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور اپنے راکٹ آسمان کی بلندوں میں اڑا رہا ہے۔انسان کی اس کامیابی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس نے یہ طاقت حاصل کرلی ہے توجس اللہ نے اسے بنایا ہے اور سب طاقتیں دی ہیں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ ایسی شاندار کامیابیاں حاصل کرنے والے انسان نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں بنایا،بس اتنا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان سے کام لینا سیکھ لیا ہے۔
مقناطیس،ریڈیائی لہریں،بجلی،آگ،پانی اور ہوا وغیرہ ساری چیزیں اللہ نے بنائی ہیں اور لوہا،تانبااور چاندی سونا وغیرہ دھاتیں بھی اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہیں۔بڑے سے بڑا سائنس دان اور قابل سے قابل موجد،یعنی چیزیں ایجاد کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جو چیزیں بنائی ہیں ،ان میں مسالہ بھی اپنا بنایا ہوا لگایا ہے۔انہوں نے تو بس اتنا کیا ہے کہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے پانی اور اللہ کی بنائی ہوئی آگ استعمال کرکے انجنوں کو چلانے والی بھاپ بنا لی۔یہی صورت ،ایٹمی طاقت اور دوسری چیزوں کی ہے۔اور جب حالت یہ ہے ، تو یہ بات بالکل آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ سب کچھ بنانے والے اللہ کے لئے کوئی بات بھی ناممکن نہیں وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اپنے رسول ﷺ کوآسمانوں پر بلا لینا تو کوئی بات ہی نہیں۔
مدینہ کے خوش نصیب
طائف سے واپس آکررسول اللہ ﷺ نے تبلیغ ‘یعنی لوگوں کو دین کی باتیں سنانے کے لیے یہ طریقہ اپنایا کہ آپ ﷺمکہ آنے والے قافلوں میں چلے جاتے اور انہیں بتاتے :میں اللہ کا رسول ؐ ہوں‘اگر تم میری باتیں مان لو گے تو دنیا میں سب سے زیادہ عزت حاصل کر لو گے اور دوسرے جہاں میں بھی عزت ملے گی۔
ایسے قافلے حج کے دنوں میں بہت آتے تھے۔حضور ﷺ ایک ایک قافلے میں جاتے اور انہیں دین اسلام کی باتیں بتاتے ۔مکہ کے کافر آپؐ کی اس کوشش میں بھی رکاوٹ ڈالتے تھے ۔آپ ؐ کے ساتھ ساتھ پھر تے رہتے اور لوگوں کو روکتے کہ وہ آپؐ کی باتیں نہ سنیں ‘ لیکن اللہ کا فیصلہ اب یہ تھا کہ کافر چاہے جتنی کو شش کریں اسلام کی روشنی کو پھیلنے سے نہ روک سکیں گے۔
رسول اللہ ؐ کی اس کوشش سے جن لوگوں نے سب سے پہلے فائدہ اٹھایا وہ مدینہ شہر کے رہنے والے خوش قسمت تھے ۔اس زمانے میں مدینہ کا نام یثرب تھا اور اس میں زیادہ تر یہودی رہتے تھے۔
مدینہ کے پہلے نام یثرب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ سب سے پہلے یثرب نام کا ایک آدمی آباد ہوا تھا ۔یہ حضرت نوح ؑ کے خاندان سے تھا ۔نسب کا سلسلہ اس طرح ہے۔یثر ب بن قابل بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام ۔
یہودیوں کے علاوہ دوسرے نمبر پر یمن سے آئے ہوئے دو قبیلوں ‘ اوس اور خزرج کی آبادی تھی۔۱۰ نبوی میں قبیلہ خزرج کے کچھ آدمی حج کرنے کے ارادے سے مکہ آئے اور منیٰ کے قریب عقبہ نام کی گھاٹی میں ٹھہرے۔
رسول اللہ ﷺ ان کے پاس بھی تشریف لے گئے اور انہیں یہ بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور دین اسلام کی باتیں بتانے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں ۔
ان لوگوں نے پہلے سے یہ بات سن رکھی تھی کہ اس زمانے میں ایک نبی پیدا ہو گا جو لوگوں کو اللہ کے سچے دین کی باتیں بتائے گا اور کافروں نے مذ ہب کے نام پر جو غلط باتیں پھیلا رکھی ہیں انہیں ختم کر دے گا ۔مدینہ کے یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی ہماری قوم میں پیدا ہوگااور آنے والے نبی کے بارے میں باتیں کرتے رہتے تھے ۔
عقبہ کی گھاٹی میں ٹھہرنے والے بنی خزرج کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ باتیں سنیں ‘تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ وہی نبیؐہیں جن کے بارے میں یہودی باتیں کرتے رہتے ہیں ‘چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور مسلمان ہو گئے ۔مدینہ کے یہ وہ خوش نصیب تھے جنہیں سب سے پہلے مسلمان ہونے کی عزت ملی ۔یہ گنتی میں چھ آدمی تھے ‘ ان کے نام یہ ہیں ۔
حضرت اسعدؓ بن زرارہ‘حضرت عوفؓ بن حارث ‘ حضرت رافعؓ بن مالک بن عجامان‘حضر ت قطبہؓ بن عامر بن حدید ‘حضرت عتبہؓ ن عامر بن عبدالحارثہ ‘حضرت ابو الہیمؓ بن تیہان۔
اس کے بعد ۱۲ نبوی میں مدینہ سے بارہ آدمی آئے اور عقبہ میں ہی ٹھہرے ۔رسول اللہ ﷺ ان سے بھی ملے اور وہ بھی مسلمان ہوگئے ۔کلمہ طیبہ :لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھوانے کے بعد حضور ﷺ نے ان سے ان باتوں پر عمل کرنے کا وعدہ لیا۔
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے ‘ چوری نہ کریں گے ۔حرام کاری سے بچیں گے ‘ کسی پر جھوٹا الزام نہ لگائیں گے۔نیکی کے کام کرتے رہیں گے اور اللہ کی نافرمانی نہ کریں گے ۔اس واقعے کو بیعت عقبہ اولیٰ ‘ یعنی عقبہ کی پہلی بیعت کہتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے جو وعدہ لیا اس سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام دراصل نیکی اور پاکیزگی ہی کا دوسرا نام ہے ۔اگر کوئی آدمی رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نیکیوں کو نہیں اپناتا اور برائیوں سے نہیں بچتا اور پھر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے ۔ سچا مسلمان وہی ہے جو اپنے دین کی باتوں پر سچے دل سے عمل کرے ۔
مدینہ کے ان مسلمانوں کو دین کی باتیں سکھانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت مصعبؓ بن عمیر اور حضرت عبداللہؓ ابن مکتوم کو ان کے ساتھ بھیجا ۔یہ دونوں مدینہ میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مہمان بنے اور لوگوں کو دین کی باتیں بتانے لگے ۔
اس وقت تک صرف قبیلہ خزرج کے لوگ مسلمان ہوئے تھے۔قبیلہ اوس کے کسی آدمی نے اس طرف دھیان نہ دیا تھا۔حضرت مصعبؓ بن عمیرنے ایک دن اس قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام کی باتیں بتانے کا فیصلہ کیا اور قبیلہ اوس کے ایک سردار سعدؓ بن معاذ کے باغ میں داخل ہو کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے اور قرآن کی تلاوت شروع کردی ۔
حضرت سعدؓ بن معاذ کو جب یہ بات معلوم ہوئے کہ ایک مسلمان ان کے باغ میں داخل ہو گیا ہے اور وہاں قرآن پڑھ رہا ہے ‘تو انہیں بہت غصہ آیا۔اپنے بھائی اسید سے کہا ۔’’فوراََوہاں جاؤ اور اس مسلمان کو باہر نکال دو جو اپنی مذہبی کتاب پڑھ رہا ہے ۔‘‘
اپنے بھائی کا یہ حکم سن کراسید باغ میں آئے اور حضرت مصعبؓ بن عمیر کو خو ب برا بھلا کہا ۔حضرت مصعبؓ بہت صبر اور حوصلے سے اس کی بک بک سنتے رہے اور جب و ہ دل کی بھڑاس نکال کر چپ ہوا تو بہت نرمی سے اسے سمجھایا کہ میں تو تمہارے بھلے کی باتیں بتانے آیا ہوں ‘اگر تم ان باتوں کو اپنا لو گے تو اللہ تمہیں سچی عز ت ا ور سچا آرام دے گا۔
یہ کہہ کر اسے قرآن مجید کی کچھ آیتیں سنائیں ۔حضرت اسیدؓ پر ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے ۔حضرت سعدؓ بن معاذ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ خود باغ میں گئے اور حضرت مصعبؓ بن عمیرکو خوب ڈانٹا ‘ لیکن انہوں نے ان کی جلی کٹی باتیں بھی بہت صبر سے برداشت کیں اور جب وہ غصہ نکال چکے تو انہیں بھی اسلام کی اچھی باتیں بتائیں اور وہ بھی مسلمان ہوگئے ۔
ان دونوں بھائیوں کا مسلمان ہوجا نا بہت بڑی کامیابی تھی۔دونوں اپنے قبیلے اوس کے سردار تھے ۔وہ مسلمان ہوئے ‘تو اس قبیلے کے اور بہت سے مرد اور عورتیں بھی ایمان لے آئیں اور اس طرح مدینہ میں اسلام کو بہت طاقت حاصل ہو گئی ۔
اگلے سال مدینہ سے جو لوگ حج کرنے کے لیے مکہ گئے ‘ ان کی گنتی ماشاء اللہ تہتر تھی ۔یہ قافلہ بھی عقبہ کے مقام پر ہی اترا اور رسول اللہ ﷺ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔
حج کے بعد حضور ﷺ اپنے چچا حضرت عباس کو ساتھ لے کر عقبہ کے مقام پر آئے ۔اور مدینہ سے آئے ہوئے لوگوں کو اسلام کی باتیں بتائیں ۔اسلامی تاریخ میں اس واقعے کو بیعت عقبہ ثانی ‘ یعنی عقبہ کی دوسری بیعت کہا جاتا ہے ۔
اس سال مکہ آنے والے تہتر آدمیوں میں حضرت عبداللہؓ بن رواحہ ‘حضرت سعدؓ بن عبادہ ‘حضرت کعبؓ بن مالک‘حضرت جابرؓ بن عبداللہ ‘ حضرت ضحاکؓ بن حارثہ ‘ حضرت عبداللہؓ بن حبیبہ اور حضرت ابو الہیم بن تیہان وغیرہ بہت سے ایسے سردار شامل تھے جنہوں نے آگے چل کر اسلام کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔
مدینہ کی طرف ہجرت
مدینہ سے آئے ہوئے ان نیک دل لوگوں نے مسلمان ہو جانے کے ساتھ حضرت رسول اللہ ﷺ سے یہ درخواست بھی کی کہ آپ ؐ یہ شہر چھوڑ کر ہمارے شہر مدینہ میں رہیں‘وہاں ہم ہر طرح آپ ؐ کی مدد کریں گے۔
حضرت عباس نے ان کی یہ بات سن کر ان سے کہا :’’رسول اللہ ﷺکو اپنے ساتھ مدینہ لے جانا کوئی آسان بات نہیں ہے ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ تم پورے عرب کو اپنا دشمن بنا لو گے ‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ سختی کا زمانہ آئے تو تم لوگ ان کا ساتھ چھوڑ دو؟‘‘
مدینہ کے سرداروں نے جواب دیا ۔’’ایسا کبھی نہ ہو گا ۔ہم ہر حالت میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘یہ یقین دلانے کے بعد ان لوگوں نے خود بھی یہ اطمینان کرنا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ چھوڑ کر پھر مکہ تو نہ آجائیں گے ؟اور ان کے اس سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا کبھی نہ ہو گا‘ میرا مرنا اور جینا اب تمہارے ساتھ ہوگا۔‘‘
رسول اللہﷺ کے اس جواب سے مدینہ والوں کو اطمینان ہو گیا اور وہ خوشی خوشی لوٹ گئے۔
مدینہ کے ان خوش قسمت لوگوں میں حضرت ام عمارہؓ بنت کعب اور حضرت ام منیع بنت عمرو بن عدی‘ دو عورتیں بھی تھیں ۔
رسول ؐ اللہ کا سفر ہجرت
مدینہ کا قافلہ لوٹ گیا ‘ تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اوروہ کافروں سے چھپ کر مدینہ جانے لگے۔
کافر اس بات کی پوری پوری کو شش کرتے تھے کہ کوئی مسلمانوں مکہ چھوڑکر مدینہ نہ جا نے پائے ۔کوئی مہاجر ان کے ہاتھ لگ جاتا تھا تو اسے بہت ستاتے تھے ۔مارنے پیٹنے کے علاوہ اس کا سامان چھین لیتے تھے ‘لیکن مسلمانوں کو اپنا ایمان سب چیزوں سے پیار ا تھا ۔وہ بہت ہمت سے کافروں کا ظلم سہتے رہے اور چپکے چپکے ہجرت کرتے رہے‘ایک ایک دو دو کر کے ان کی تعداد وہاں دو سو کے قریب ہو گئی ۔
کافروں نے جب یہ دیکھا کہ ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی ‘تو ایک دن آپس میں مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ عام مسلمانوں کو ستانے اور پریشان کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کو ہی قتل کر دیا جائے ۔یہ کام کرنے کے لیے تر کیب یہ سوچی گئی کہ مکہ میں رہنے والے سب قبیلوں میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور پھر وہ سب مل کر رسول اللہ ﷺ کو قتل کر دیں ۔ایسا کرنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس قتل کا الزام کسی ایک قبیلے پر نہ آئے گا ۔یہ تجویز اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل نے پیش کی تھی ۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بھی اجازت دے دی تھی کہ آپ ؐمکہ سے کسی محفوظ جگہ چلے جائیں اور اس سلسلے میں مدینہ کے مسلمانوں کے علاوہ حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی نے یہ دعوت دی تھی کہ حضور ﷺ ان کے قلعے میں رہیں‘ان کے علاوہ ہمدان نامی قبیلے کے سردار نے بھی یہ کہا تھا کہ حضور ﷺ ہمارے ہاں تشریف لے آئیں ۔ہم پوری طرح آپ کی حفا ظت کریں گے ‘حضور ؐ نے ابھی یہ فیصلہ نہ فرمایا تھا کہ کب مکہ سے روانہ ہو گے ‘ہاں ہجرت کی تیاری شروع کر دی تھی ۔
اس سفر میں حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنا ساتھی بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور انہوں نے سوار ی کے اونٹوں اور سفر میں کام آنے والی دوسری چیزوں کا انتظام کر لیا تھا ۔
اسلام کی تاریخ میں یہ زمانہ بڑا نازک تھا ۔کافر اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے ۔اسلام اور مسلمانوں کو بالکل ختم کر کے دم لیں گے۔آخر ایک دن انہوں نے اپنے اس فیصلے پر عمل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے ۔انہوں نے ہر قبیلے سے ایک ایک لڑاکا نوجوان لے کر انہیں حضور ﷺ کے مکان کے چاروں طرف بٹھا دیا اور یہ تاکید کر دی کہ جب حضور ؐ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلیں تو حملہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیں ۔
ادھر حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کافروں کے ارادے کی خبر مل گئی تھی۔آپ ؐ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود سورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے مکان سے باہر آگئے ۔اللہ تعالیٰ نے کافروں کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ حضور ﷺ کب باہر چلے گئے۔
اپنے گھر سے نکل کر حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینے کی طرف روانہ ہو گئے ۔
کافر جو کچھ کر رہے تھے اس کی وجہ ان کی ضد اور کم عقلی تھی‘لیکن حضور ﷺ کا ہر کام اللہ کے لیے تھا ‘آپ ؐ تو اس دنیا کو برائیوں سے پاک کرنا چاہتے تھے اس لیے غیب سے آپ ؐ کی مدد ہوتی تھی‘ یہ بھی غیبی مدد ہی تھی کہ جب حضور ﷺ اپنے گھر سے باہر تشریف لے گئے‘ تو چاروں طرف تاک میں بیٹھے ہوئے کافروں کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا اور انہیں آپ ؐ کے گھر سے نکلنے کی خبر ہی نہ ہوئی ۔
اسی طرح حضور ﷺ کو ایک بار اور غیب سے یہ مدد ملی کہ آپ ؐ نے اس سفر کے سلسلے میں پہلے ہی سے ایسی باتیں سوچ لیں جو بہت ہی مفید ثابت ہوئیں مثلاًآپ ﷺ نے ایک بہت ہی اچھی بات تو یہ کی کہ مدینہ جانے کے لیے جس راستے پر سفر کیا جاتا تھا اسے چھوڑ کر ایک اور راستے سے روانہ ہوئے اور پہلے ہی سے یہ طے کر لیا کہ مکہ سے سات میل دور ثور نام کے غار میں ٹھہر جائیں گے اور جب تک پوری طرح اطمینان نہ ہو جائے گا ،اسی غار میں ٹھہر ے رہیں گے۔
دوسرا انتظام یہ کیا تھا کہ ایک چرواہے سے کہہ دیا تھا کہ جتنے دن ہم اس غار میں رہیں وہ اپنی بکریاں لے کر وہاں آجایا کرے اور ضرورت کے مطابق دودھ دے جایا کرے ۔
اس کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ سے کہا کہ وہ دشمنوں نے بارے میں یہ معلوم کرتے رہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ‘اور اگر کوئی خاص بات معلوم ہو تو رات کے وقت آ کر بتا دیا کریں ۔
اسی طرح ایک شخص عبداللہ بن اریقط سے یہ کہا کہ وہ سواری کے اونٹ تیار رکھے اور جب کہا جائے، دونوں اونٹ لے کر غار ثور کے پاس پہنچ جائے ۔
یہ غار جنگل بیابان میں ایسی جگہ تھا کہ اس طرف کوئی بھی نہ جاتا تھا ۔سانپوں اوربچھو ؤ ں نے اس کے اندر اپنے ٹھکانے بنا رکھے تھے ۔
حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ ‘اللہ کا نام لے کر اس کے اندر چلے گئے اور اسے صاف کر کے بیٹھ گئے ۔
یہ غار گہرا تو کافی تھا ‘ لیکن کچھ اس طرح بنا ہوا تھا کہ اگر کوئی اوپر سے جھا نکے تو اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بالکل آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی اس طرح مدد فرمائی کہ جب آپ ؐ غار کے اندر تشریف لے گئے تو ایک مکڑی نے اس کے منہ پر جالا تن دیا اور ایک کبوتری نے آکر انڈے دے دیئے۔
کافروں کی پریشانی
حضور ﷺ نے یہ کہہ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر سلایا تھا کہ صبح اٹھ کر وہ ساری امانتیں واپس کر دینا جو لوگوں نے ہمارے پاس رکھی ہیں اور پھر تم بھی مدینہ کی طرف روانہ ہو جانا۔
صبح کے وقت حضرت رسول اللہ ﷺ کے بجائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھا تو کافربہت پریشان ہوئے۔انہوں نے اسی وقت اعلان کر دیا کہ جو شخص‘ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو گرفتار کر کے لائے گا اسے ایک سو اونٹ انعام دیئے جائیں گے۔ یہ اعلان ہوتے ہی کافروں کی بہت سی ٹولیاں حضور ﷺ کی تلاش میں ادھر ادھر پھیل گئیں اور ان میں سے ایک ٹولی پھر تی پھراتی غار ثور کے پاس پہنچ گئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کافروں کے قدموں کی آواز سنی تو گھبرا کر کہا ’’یا رسول اللہ ‘ ہمارے دشمن آگئے ‘‘۔
حضور ﷺ نے بہت اطمینان سے جواب دیا ۔’’گھبراؤ نہیں ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس واقعے کا یوں ذکر کیا ہے۔
’’اس وقت دو ہی آدمی تھے جن میں سے ایک (ابو بکرؓ ) دوسرا( اللہ کا رسول ؐ)جب وہ دونوں غار میں تھے ‘ اس وقت پیغمبر (علیہ السلام) اپنے ساتھی کو تسلی دے رہا تھا۔غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔(سورۃ توبہ آیت نمبر ۴۰)
کافر چلتے چلتے غار کے بالکل پاس آگئے تھے، ان میں سے ایک نے کہا :’’دیکھنا چاہیے وہ اس غار میں نہ چھپے ہوئے ہوں۔‘‘
دوسرا جلدی سے بولا :’’بیوقوف ہوئے ہو ‘ اگر وہ اس غار کے اندر جاتے ‘تو مکڑی کا یہ جالا نہ ٹوٹ جاتا ‘اور کبوتری کے انڈے گھونسلے سے نہ گر جاتے۔‘‘
یہ سن کر پہلے کافر نے کہا :’’ہاں بات تو ٹھیک ہے ۔‘‘اور وہ وہاں سے چلے گئے۔
اس طرح رسول اللہ کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کی حفاظت کر رہا ہے ۔
حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ غار ثور میں تین دن رہے ۔چوتھے دن آپ ؐ نے عبداللہ بن اریقط سے کہلوایا کہ وہ سواری کے اونٹ لے کر آجائے ۔اگرچہ وہ مسلمان نہ تھا ‘ لیکن بہت ایماندار آدمی تھا ۔پیغام ملتے ہی اونٹ لے کر آگیا ۔یہ دو اونٹ تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مدینہ جانے کے لیے تیار کرائے تھے۔
ایک اونٹ پر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سوار ہوئے اور دوسرے پر حضرت عبداللہؓ بن ابو بکر اور حضرت ابو بکرؓ کے آزاد کئے ہوئے غلام عامرؓ بن فہیرہ سوار ہو گئے اور سب نے مدینہ کی طرف سفرشروع کر دیا ۔
دو معجزے
اس سفر کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کے دو معجزے ظاہر ہوئے ۔ایک تو یہ کہ ایک سو اونٹ انعام ملنے کے لالچ میں مکہ کا ایک مشہور شہ سوار جس کا نام سراقہ بن مالک بن جعشم تھا ‘ گھوڑا دوڑاتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے بالکل نزدیک پہنچ گیا ‘لیکن اچانک ایسا ہوا کہ اس کے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور وہ زمین پر گر گیا ۔وہ جلدی سے اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور پھر حضور ؐ کی طرف بڑھا ‘ لیکن چند ہی قدم چلاکہ گھوڑے کو پھر ٹھوکر لگی اور وہ پھر زمین پر گر گیا۔اس بار بھی اس نے اسے ایک معمولی بات خیال کیا اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھا ‘ لیکن تیسری مرتبہ اس کے گھوڑے کو پھر ٹھوکر کھائی اور اس مرتبہ ایسا ہوا کہ گھوڑے کے اگلے دونوں پیر زمین میں دھنس گئے اور ساتھ ہی ہوا کا بہت زور کا جھونکا آیا ۔جیسے بگولا اٹھا ہو ‘ساتھ ہی اسے دھواں سا دکھائی دیا۔
سراقہ اب تک تو یہی سمجھ رہا تھا کہ اس کے گھوڑے کو اتفاق سے ٹھوکر لگ جاتی ہے‘ ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں ‘ لیکن جب تیسری بار زمین پر گرا اور اپنے گھوڑے کے پاؤ ں زمین میں دھنسے ہوئے دیکھے تو سمجھ گیا کہ یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں ‘ بلکہ کوئی غیبی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک رہی ہے اور اس نے بہت اونچی آواز میں کہا۔’’میں سراقہ ہوں ‘ رک کر میری بات سن لیجئے ‘ میں آپ کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا ؤں گا۔‘‘
حضور ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ سے فرمایا:’’اس سے پوچھویہ کیا چاہتا ہے؟‘‘
اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے جواب میں سراقہ نے آنے کی وجہ بتا کر کہا ’’اب میرا ارادہ بدل گیا ہے ۔اب مجھے اونٹوں کا لالچ نہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا ۔’’اے سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تجھے کسریٰ (ایران کے بادشاہ)کے کنگن (سونے کا ایک زیور ) پہنائے جائیں گے؟‘‘
یہ ایک خوشخبری تھی جو رسول اللہ ﷺ نے سراقہ کو سنائی وہ خوش ہو گیا اور اپنے آنے کا مقصد بیان کرنے کے بعد کہا :’’اب میں اس جگہ سے لوٹ جاؤں گا اور اگر کوئی اور شخص آپؐکی تلاش میں آتا ہوا ملا تو اسے بھی لوٹا دوں گا‘ لیکن میں چاہتا ہوں آپ ؐ ایک تحریر لکھ کر مجھے دے دیں کہ آپ ؐ کی طرف سے امان حاصل ہو گئی ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایسی ایک تحریر لکھ کر سراقہ کو دے دی گئی اور وہ مکہ کی طرف لوٹ گیا ۔
دوسرا معجزہ یہ ظاہر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ چلتے چلتے ایک دیہاتی عرب ( بدو) ابو معبد خزاعی کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس کی بیوی ام معبد خزاعی سے کچھ دودھ طلب کیا۔
ام معبد نے کہا ۔’’ہمارے پاس ایک ہی بکری ہے جو بہت کمزور ہو گئی ہے ۔پورا چارہ نہ ملنے کی وجہ سے اس کے تھنوں کا دودھ سوکھ گیا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ نے بکری کے تھنوں کو اپنا مبارک ہاتھ لگایا‘تو ان میں دودھ اتر آیا اور اس مریل سی بکری کے تھنوں سے اتنا دودھ حاصل ہو گیا کہ سب نے پیٹ بھر کر پیا اور اتنا ہی دودھ اس کے تھنوں سے دوبارہ دوہا گیا۔
ابو معبد کسی کام سے باہر گیا ہو ا تھا ‘ جب وہ واپس آیا‘ تو اس کی بیوی نے بکری کے سوکھے تھنوں سے دودھ حاصل ہونے کی بات سنائی ۔وہ کہنے لگا۔’’یہ مبارک مسافر ضرور وہی رسول ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس زمانے میں پیدا ہو گا۔‘‘
رسول ؐاللہ مدینہ میں
اب راستے میں کسی قسم کا خطرہ نہ تھا۔رسول اللہ ﷺ اطمینان سے چلتے ہوئے شہر مدینہ کے قریب پہنچ گئے اور اس کی ایک بستی میں رک گئے جس کا نام قباء تھا ۔یہ ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ اور پیر کا دن تھا ۔یہاں آ پ ؐ کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرے ۔اگر ملاقات کے لیے آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی تھی ‘ تو انہیں حضرت سعد بن خثیم رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرا یا جاتا تھا اور آپ ان سے ملنے کے لیے وہاں تشریف لے جاتے تھے۔
قباء میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ سے زمین لے کر مسجد بنائی ۔یہ مسجد اب بھی موجود ہے اور اسے مسجد قباء ہی کہا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے جس جگہ مسجد بنائی گئی ہے وہاں کلثومؓ بن ہدم کا گودام تھا جس میں وہ کھجوریں رکھا کرتے تھے۔
جس وقت مسجد بنائی جا رہی تھی خود حضور ﷺ بھی ایک مزدور کی طرح کام کر رہے تھے۔
مسجد بنانے کے زمانے ہی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی مدینہ تشریف لے آئے ۔آپﷺ مکہ سے پیدل چلتے ہوئے مدینہ آئے تھے اور اتنا لمبا سفر کرنے کی وجہ سے آپ ؐ کے پاؤں زخمی تھے‘لیکن آتے ہی مسجد بنانے کے کام میں مشغول ہو گئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماءؓ بھی قباء آگئیں اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ ‘حضرت ابو رافعؓ اور عبداللہ بن اریقط کو مکہ بھیج کر اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ عنہا ‘اپنی بیوی سودہؓ ‘حضرت ام کلثومؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے گھر والوں کو بھی مکہ سے بلوا لیا ۔حضور ﷺ کے گھر والے مسجد کے حجروں میں اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بال بچے حارثہ بن نعمانؓ کے گھر میں ٹھہرائے گئے۔
پیاری بچیوں کا پیارا گیت
رسول اللہ ﷺقباء میں پندرہ دن رہے ‘ اس کے بعد یثرب (مدینہ منورہ )تشریف لے گئے ‘ قباء اب ایک طرح مسلمانوں کی بستی بن گئی تھی۔مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان اسی بستی میں رہتے تھے ۔انہوں نے بہت کوشش کی کہ حضور ﷺ یہیں رہیں ‘ لیکن آپ ؐ نے یہ بات نہ مانی اور اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو لوگوں کی خوشی کا ٹھکا نہ نہ رہا ۔مرد ‘ عورتیں اور بچے سب آپ ؐ کا استقبال کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئے۔ ہر طرف عید کا سا سماں نظر آنے لگا۔
مدینہ کی پیاری پیاری بچیاں آوازملا کر محبت بھر ا گیت کا رہی تھیں :
’’کوہ وداع کی وادیوں سے چاند ابھر آیا ہے ۔ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے‘ جب تک دعوت دینے والا اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ان پیاری پیاری خوش نصیب بچیوں سے فرمایا۔’’جس طرح تم مجھ سے محبت کرتی ہو ‘ میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘
مدینہ میں جتنے مسلمان تھے سبھی یہ چاہتے تھے کہ حضور ﷺ ان کے مہمان بنیں۔ ہر شخص آگے بڑھ کر یہی درخواست کر رہا تھا ۔
حضور ﷺ نے لوگوں کی یہ محبت اور جوش دیکھ کر فرمایا:’’میں اپنی مرضی سے کسی کا مہمان نہیں بن سکتا ۔میری اونٹنی جس کے گھر کے قریب بیٹھ جائے گی وہی میرا میزبان ہوگا ۔‘‘
قصویٰ یعنی حضور ﷺ کی اونٹنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔آخر وہ ایک جگہ بیٹھ گئی اور جس جگہ وہ بیٹھی وہاں سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر سب سے زیادہ قریب تھا ۔چنانچہ حضوراقدس ﷺانہی کے گھر تشریف لے گئے۔
یہ مکان دو منزلہ تھا‘حضرت ابو ایوبؓ نے درخواست کی کہ حضور ؐ اوپر کی منزل میں رہیں ‘لیکن آپ نے نیچے کی منزل میں رہنا پسند کیا ۔یہ فیصلہ آپ ؐ نے اس خیال سے کیا کہ جو لوگ زیارت کے لیے آئیں گے انہیں آسانی رہے گی‘لیکن کچھ ہی دن بعد ایک ایسا واقعہ ہوا کہ حضور ؐ نے اپنا پہلا فیصلہ بدل دیا اور اوپر کی منزل میں تشریف لے گئے۔
ٰٓ ایک دن ایسا ہوا کہ اوپر کی منزل میں پانی کا برتن ٹوٹ گیا ۔حضرت ابو ایوبؓ نے خطرہ محسوس کیا ۔کچی زمین سے پانی نیچے ٹپکے گا اور آپ ﷺ کو تکلیف ہو گی ۔یہ سوچ کر انہوں نے اوڑھنے بچھانے کے سارے کپڑے فرش پر ڈال کر ان میں پانی جذب کر لیا اور وہ رات بہت تکلیف میں گزاری ۔
رسول اللہﷺ کو یہ یہ بات معلوم ہو ئی ‘ تو آپ ؐ نے اوپر کی منزل میں رہنا منظور فرمالیا۔حضور ﷺ اپنے اس صحابی کے گھر سات مہینے رہے۔
مسجد نبوی کی تعمیر
مدینہ تشریف لا کر حضور ﷺ نے سب سے پہلے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا اور اس کام کے لیے جو زمین پسند کی وہ دو یتیم بچوں سہل بن عمرو اور سہیل بن عمرو کی تھی۔
زمین پسند کرنے کے بعد حضور ﷺ نے اس کے مالک بچوں کو قیمت دینے کے لیے فرمایا‘ لیکن انہوں نے قیمت لینے سے انکار کیا ۔حضور ؐ نے فرمایا: ’’اس زمین پر عبادت گاہ بنائی جائے گی اس لیے ضروری ہے کہ اسے با قاعدہ خریدا جائے۔‘‘حضور ﷺ کے فرمانے سے بچے قیمت لینے پر راضی ہو گئے اور ایک روایت میں ہے کہ بچوں نے قیمت نہ لی ۔
زمین کی قیمت ادا کرنے کے بعد مسجد بنانے کا کام شروع کر دیا گیا اور اس کام میں خود حضور صلی اللہ علی وسلم نے بھی حصہ لیا ۔اس مقدس مسجد کی جو عمارت سب سے پہلے بنائی گئی و ہ ۶۳گز لمبی اور چود ہ گزچوڑی تھی۔دیواریں گارے اور کچی اینٹوں کی تھیں اور چھت کھجور کی ٹہنیوں سے پاٹی گئی تھی ۔چھت کو سہارا دینے کے لیے کھجورکے تنے ستونوں کی طرح لگادیئے گئے تھے ۔چھت کی اونچائی اتنی تھی کہ درمیانے قد کا آدمی ہاتھ اونچا کر کے اسے چھو سکتا تھا ‘بارش ہو تی تو چھت ٹپکنے لگتی تھی اور مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتی تھی۔
مسجد کے ساتھ رسول ﷺ کے گھر والوں کے لیے دو حجرے بھی بنائے گئے تھے اور ان کی دیواریں اور چھتیں بھی ویسی معمولی اور کچی ہی تھیں جیسی مسجد کی تھیں۔
مسجد میں تین دروازے رکھے گئے تھے جن میں کواڑ نہ تھے۔حجروں کے دروازوں میں بھی کواڑ نہ تھے۔پردے کے لیے چٹا ئیاں لٹکا دی گئی تھیں ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب مدینہ کی یہ مسجد جسے مسجد نبویؐ کہا جاتا ہے دنیا کی سب سے اچھی عمارتوں میں بھی سب سے اچھی ہے۔آس پاس کی ساری زمین اور کتنے ہی مکان شامل کر کے اسے اتنا بڑا کر دیا گیا ہے کہ ایک وقت میں ہزاروں آدمی نماز ادا کر سکتے ہیں ۔اور اس کی دیواریں‘ چھت‘ محرابیں ا ور ستون ایسے عمدہ بنائے گئے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے‘لیکن شروع میں یہ ایسی ہی تھی کہ اس کی دیواریں بھی کچی تھیں ‘چھت بھی کچی تھی اور دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے‘لیکن اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کیا جا سکتا کہ جتنی اچھی نمازیں اس وقت اس مسجد میں پڑھی گئی ہیں‘پھر کبھی نہ پڑھی گئی ہو ں گی اور نہ پڑھی جائیں گی۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب خود نبیﷺ امام بنتے تھے اور آپ ؐ کے پیچھے حضرت ابوبکر صدیق ؐؓ‘حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمانؓ ‘حضرت علیؓ جیسے اونچے درجے کے صحابی نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوتے ہوں گے‘ تو وہ نمازیں کس شان کی ہوتی ہوں گی۔
اس کے علاوہ یہ شان بھی اس مسجد کو حاصل ہے کہ اسلامی سلطنت کا سب سے بڑا حاکم اسی کے اندر بیٹھ کر دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کے فیصلے کیا کرتا تھا اور یہ فیصلے ایسے ہوتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں بدل نہ سکتی تھی۔
آپ کے لیے ہم نے یہ بات اس لیے لکھی ہے کہ آپ عزت ‘ بزرگی اور طاقت کا اصل راز جان لیں اور آپ کو معلوم ہو جائے کہ بڑی شاندار اور خوشنما عمارتیں بنانے سے کسی کو سچی عزت اور طاقت حاصل نہیں ہو جاتی ‘ بلکہ یہ سب بر کتیں نیکی اور سچائی کے راستے پر چلنے سے حاصل ہو تی ہیں۔
جیسا کے آپ نے پڑھا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺ پرایمان لانے والے مسلمان اس حالت میں مکہ سے نکالے گئے تھے کہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ بھی نہ تھا ۔اگر ان کے پاس کوئی دولت تھی تو وہ ان کا ایمان اور یہ پکا ارادہ تھا کہ چاہے کیسی بھی مصیبت سر پر آ پڑے سچائی کا راستہ نہ چھوڑیں گے۔
جب انہوں نے یہ ارادہ کرلیا اور پھر اسی کے مطابق زندگی گزارنے لگے‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے انھیں اس زمانے کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک بنا دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top