skip to Main Content

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

………..

کمرۂ عدالت میں آج بہت رش تھا۔ اس نے سزاے موت کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہوئی تھی۔ سب کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں لیکن جج نے فیصلہ اس کے خلاف سنایا۔ سب کمرۂ عدالت سے بوجھل قدموں اور اُداس دل کے ساتھ نکلے۔ وہ کمرۂ عدالت سے باہر نکلا ہی تھا کہ اس کے حکومت میں شامل ایک دوست کا فون آیا: ’’ہاں بھئی، کیا رہا تمھارے کیس کا؟ مجھے معلوم تھا یہی ہوگا، تم ایسا کرو صدر صاحب سے رحم کی اپیل کرو۔ میں نے ان سے بات کی ہوئی ہے۔ تم بس معافی مانگو گے وہ تمھیں معاف کردیں گے۔‘‘ اس کے دوست نے اس کی کچھ سنے بغیر ہی یہ سب کہہ دیا۔ ’’نہیں فراز تم اتنے عرصے میں بھی مجھے نہیں جان سکے، خدا حافظ۔‘‘ اس نے بس اتنا کہا اور فون بند کر دیا۔ ’’ابو کس کا فون تھا؟‘‘اس کے بیٹے عدیل نے پوچھا۔’’فراز کا فون تھا، کہہ رہا تھا صدر سے رحم کی اپیل کرو۔‘‘ اس نے بیٹے کو بتایا۔ ’’ابو ، کیاآپ رحم کی اپیل کریں گے؟‘‘ عدیل نے پوچھا ۔’’ بیٹا میں نے اپنی ساری زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘ اس نے اپنے بیٹے کو سمجھایا۔ ’’ابو آپ معافی مانگ لیں۔ آپ کے دل کو تو معلوم ہے ناں کہ آپ نے کوئی غلطی نہیں کی۔‘‘ عدیل نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔’’یہی تو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں تمھیں کہ اللہ کے پسندیدہ بندے وہی کہتے ہیں جو ان کے دل میں ہوتا ہے۔ ان کا دل اور زبان دونوں حق بات سمجھتے اور کہتے ہیں۔علامہ اقبال نے بھی یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top