skip to Main Content
عطیۂ صدیقیہ

عطیۂ صدیقیہ

مظہر یوسف زئی

………………

     ماسی ﷲ رکھی نے گھر کی صفائی ستھرائی کرکے ’’پونچھا‘‘ پھیر لیا تھا۔ سنگ مرمر کے فرش میں شکل نظر آنے لگی تھی۔ ٹیلی ویژن سیٹ پر زلزلے کی تباہ کاریاں دکھائی جا رہی تھیں اور گھر کی دادی اماں بڑے انہماک اور بے چینی سے ’’ٹی وی اسکرین‘‘ پر نظریں گاڑے ہوئے تھیں۔ آج پہلا موقع تھا کہ دادی اماں نے ماسی اﷲ رکھی کی صفائی میں کوئی نقص نہیں نکالا تھا۔
دادی اماں اٹھتے بیٹھتے ٹیلی ویژن کو شیطان کا چرغہ کہتی تھیں مگر آج اس کے سامنے ایسے جم کے بیٹھی تھیں جیسے گھر کے بچے بیٹھتے تھے۔ گھر کے چھوٹے بڑے بچے اپنے اپنے اسکول اور کالج گئے ہوئے تھے اور بیگم صاحبہ اپنی ایک سہیلی سے ملاقاتی کمرے میں گفتگو کر رہی تھیں۔
ماسی اﷲ رکھی کام کاج سے فارغ ہو کر دادی اماں کے قدموں میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے دادی اماں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’دادی اماں! معلوم ہے یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟‘‘ دادی اماں نے اچٹتی نظر سے دیکھا اور کچھ بغیر کہے پھر سے شیطانی چرغے کی طرف متوجہ ہوگئیں جس کی اسکرین پر اسلام آباد شہر کی ایک کثیر المنزلہ عمارت کا ملبہ دکھایا جا رہا تھا۔
ماسی اﷲ رکھی نے بتایا: ’’دادی اماں ! ہماری دھرتی ایک گائے کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے جب گائے سینگ بدلتی ہے تو زلزلہ آتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی دادی اماں نے دھتکارتے ہوئے کہا۔ ’’ چل۔۔۔ جاہل کہیں کی۔ یہ قدرتی بلائیں، آفتیں اور مصیبتیں تو ہماری بداعمالی کی وجہ سے آتی ہیں۔‘‘
ماسی اﷲ رکھی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔’’ دادی اماں یہ بداعمالی کیا ہوتی ہے؟‘‘ دادی اماں نے اپنا پہلو بدلتے ہوئے بتایا۔ ’’ارے! یہی شوہر کا بیوی کا کہا ماننا اور ماں کی بات کو ٹال جانا۔ اپنے بداطوار دوستوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور ماں باپ کی پروا ہ نہ کرنا۔ بھانڈوں اور ناچنے گانے والیوں کو ہر وقت اس شیطانی چرغے کے وسیلے سے گھر میں گھسائے رکھنا ۔ جب اﷲ کی نافرمانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو قدرتی آفتیں آتی ہیں۔ ‘‘
دروازے پر جیسے ہی بچوں کے اسکول کی گاڑی آکررکی اسی لمحے کالج سے حامد بھی اپنے اسکوٹر کو دوڑاتا ہوا آپہنچا۔ اس کے آتے ہی گھر میں بھونچال آگیا۔ اس نے بڑے ٹرنک سے کمبل نکالے، ان میں جو صاف ستھرے نظر آئے انہیں علیحدہ کیا۔ ان کا گٹھر بنایا اور برآمدے میں رکھ دیا۔ ملاقاتی کمرے میں جا کر اپنے امی سے کچھ باتیں کی اور گھر سے باہر جانے لگا۔ دادی اماں نے اسے آواز دی اور غصے سے کہنے لگیں۔ ’’تو یوں آیا اور یوں جا رہا ہے جیسے ہم سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
حامد ، دادی اماں کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’ دادی اماں! آپ کو ٹیلی ویژن کی نشریات سے معلوم ہو ہی گیا ہو گا کہ اسلام آباد اور شمالی علاقوں میں ایسا قیامت خیز زلزلہ آیا ہے کہ ہزاروں افراد جاہ بحق ہو گئے ہیں اور کئی قصبے اور دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ ہماری فلاحی تنظیم نے امدادی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم عطیات جمع کریں گے اور انہیں زلزلے کے متاثرین تک پہنچائیں گے۔‘‘
حامد بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ اس کے والد ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے۔ والدہ دن بھر گھر کے کام کاج میں جتی رہتی تھیں۔ دادی اماں عمر کے اس حصے میں تھیں جب اﷲ تعالیٰ سے لو لگانے کے سوا اور کسی طرف دھیان دینے کی رغبت نہیں ہوتی۔ دو چھوٹی بہنیں تھیں جو ’’او لیول‘‘ میں پڑھتی تھیں اور بہت ذہین تھیں۔ رات گئے حامد گھر لوٹا تو اس وقت سحری کا اہتمام ہو رہا تھا ۔ دونوں بہنیں اس کے پیچھے پڑ گئیں۔ کہنے لگیں: ’’بھائی جان! ہم آپ سے بات کرنا چاہتے تھے مگر آپ نے تو حد کر دی۔ آپ اب آئے ہیں۔ اچھا! یہ بتائیے امدادی کیمپ کا کیا بنا؟‘‘
’’ امدادی کیمپ کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا ہے۔ رضا کاروں کے نام اور ان کے کام کی فہرست بن گئی ہے۔ سحری ختم ہوتے ہی کیمپ میں کام شروع ہو جائے گا۔ میں نے اپنی طرف سے پہلی قسط کے طور پر کمبلوں کی گٹھری بنا رکھی ہے۔ اسے آج ہی کیمپ میں پہنچا دوں گا۔ تم بھی اپنا جیب خرچ عطیہ کر دینا۔‘‘ حامد نے چھوٹی بہن حمیرہ کے چپت رسید کرتے ہوئے کہا۔
دوسری بہن سعیدہ، حامد کو کچھ بتانے کے لیے بہت بے چین تھی۔ کہنے لگی۔ ’’بھائی جان! ہماری مس بتا رہی تھیں کہ جب زمین کے اندرونی پرتوں میں اچانک حرکت کی وجہ سے لہری پیدا ہوتی ہیں تو زمین ہلنے لگتی ہے۔ پھر کہنے لگیں کہ زمین کی تہہ میں ہونے والی تبدیلیوں میں زلزلہ آتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ زلزلہ آنے کے بعد ہمارے ماہر ارضیات (زمین کے طبقوں کا علم رکھنے والے) یہ تو بتا دیتے ہیں کہ زلزلے کی شدت کتنے درجے کی تھی مگر کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ زلزلہ کب اور کس وقت آئے گا؟‘‘
دادی اماں ان بچوں کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا۔ ’’ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اس کا پوشیدہ حال اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ حامد نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا۔ ’’دادی اماں ٹھیک فرما رہی ہیں۔ اﷲنے صرف جانوروں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو یہ حس عطا کی ہے کہ انہیں زلزلہ آنے کی پیشگی اطلاع ہو جاتی ہے۔ زلزلہ آنے سے پہلے پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر آجاتے ہیں اور زمین کے چاروں طرف نچلی پرواز کرنے لگتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے اپنے بلوں سے گھبرا کر باہر نکل آتے ہیں ۔ پالتو جانور رسی تڑا کر آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور جنگلی جانور دوڑ لگا کر دور بہت دور پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
*۔۔۔*
کراچی شہر میں جگہ جگہ زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی کیمپ لگ چکے تھے۔ کیمپوں میں امدادی سامان کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ امیر و غریب اپنی استطاعت کے مطابق بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا تھا۔ جس امدادی کیمپ میں حامد اور اس کے ساتھی رضاکاروں کی حیثیت سے کام کر رہے تھے وہاں ایک کار آکر رکی جس میں سے ایک نوجوان اتر کر آیا اور ایک بزرگ کار ہی میں بیٹھے رہے۔ نوجوان نے ایک پیکٹ دیتے ہوئے کہا۔’’ یہ پانچ لاکھ روپے ہیں ۔ یہ زلزلہ زدگان کے لیے ہماری طرف سے عطیہ ہیں۔‘‘ ایک رضا کار جو کمپیوٹر پر حساب کتاب محفوظ کر رہا تھا اور سامان کی مکمل رسید دے رہا تھا ۔ اس نے پوچھا۔ بھائی میاں ! کیا نام لکھوں اور پتا کیا ہے؟ اس نوجوان نے پلٹ کر گاڑی میں بیٹھے ہوئے بزرگ کی طرف دیکھا اور اشارہ پاتے ہی اس نے کہا ’’ نام کی جگہ ایک پاکستانی اور پتے میں کراچی لکھ لیجئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا اور کار میں بیٹھ کر چلتا بنا۔ جتنے رضا کار کام کر رہے تھے وہ سب دنگ رہ گئے۔ پھر انہیں یہ خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اس فلاحی ادارے کے کرتا دھرتاؤں نے اس طریقے سے ان کی دیانت کا امتحان لیا ہو۔
دو تین ہی دن گزرے تھے کہ ٹیلی ویژن کے ہر چینل پر خیموں کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ وہی کار اس کیمپ پر آئی اس کے پیچھے پیچھے ایک ٹرک تھا جس میں خیمے لدے ہوئے تھے۔ وہی نوجوان کار سے اتر کر آیا ۔ اس نے ٹرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جناب ٹرک سے خیمے اتروا لیجئے اور جن دوسری اشیاء کی فوری ضرورت ہو ان کی اطلاع اس موبائل نمبر پر کر دیجئے۔ ان شاء اﷲ وہ تمام چیزیں بھی پہنچا دی جائی گی۔ ‘‘ اس دفعہ بھی اس نوجوان نے نہ نام بتایا اور نہ پتا لکھوایا۔ اس کے جانے کے بعد وہی قیاس آرائیاں ہونے لگیں جو اٹھتے بیٹھتے ہم لوگ کیا کرتے ہیں۔ مجیب کا خیال تھا کہ وہ بزرگ جو کار میں بیٹھے رہتے ہیں کوئی بہت بڑے اسمگلر ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی حامد طیش میں آگیا، کہنے لگا۔’’میری دادی کہتی ہیں کہ یہ آزمائش کی گھڑی نہیں ہے بلکہ اﷲ کی تنبیہہ ہے اگر اب بھی ہم نہیں سنبھلے اور دینی چادر میں پناہ نہ لی تو سروں پر حفاظت کی تنی ہوئی چادر کو کھینچ لیا جائے گا۔ ‘‘ حامد نے کہا۔ ’’ جناب ! میں امدادی کیمپ کا رضا کار حامد بول رہا ہوں۔ میں اپنے دو ساتھی رضا کاروں کے ساتھ آپ کی قدم بوسی کے لیے آنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا۔ ’’ میری رہائش گاہ آپ کے کیمپ کی پچھلی طرف ہے۔ دکان نمبر نوٹ کر لیجئے اور سحری کے وقت تشریف لائیے۔ سحری غریب خانہ پر کیجئے۔
کراچی میں یوں تو رمضان کے مہینے میں راتوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں مگر اس برس جگہ جگہ امدادی کیمپوں کی وجہ سے راتوں کو دن کا گمان ہوتا تھا۔ ہم تین رضا کار دوست ان بزرگ کے دولت کدے پر پہنچے تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سحری سے فارغ ہوئے تو چائے کا دور چلا۔ بزرگ فرمانے لگے۔ ’’میرا ایک مکان گلشن اقبال میں بھی ہے۔ اس کا سودا کیا ہے۔ ایک دو دن میں اس کی رقم مل جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی تنظیم کی طرف سے خیمہ ہسپتال اور ایک اسکول قائم کردیں ۔ ا ن کے تمام اخراجات میرا یہ پوتا ادا کرے گا۔ ہمارا نام صیغہ راز میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ امداد محض اجر و ثواب کے لیے نہیں بلکہ یہ تو میرے اوپر ایک قرضہ ہے جسے میں اتارنا چاہتا ہوں۔
’’قرضہ! ‘‘ یہ سنتے ہی تینوں دوستوں کی زبا ن سے بے ساختہ نکلا۔ ’’قرضہ !‘‘ بزرگ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے فرمایا’’ جی ہاں قرضہ ۔۔۔! میں آج پہلی دفعہ اپنے اہل خانہ کے سامنے یہ راز کھول رہا ہوں جب میں پانچ سات برس کا تھا۔ اس وقت کوئٹہ میں ایسا زلزلہ آیا کہ پچاس ہزار افراد شہید ہو گئے اور پورا شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ میرا پورا خاندان مکان کے ملبے تلے دب گیا مگر میں زندہ بچ گیا اور اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی۔
اس زلزلے کے بعد کوئٹہ شہر کو انگریزوں نے نئے سرے سے بسایا اور مجھے انگریز کلکٹر کے مسلمان اردلی نے گود لے لیا۔ انہیں میں بابا کہتا تھا۔ بابا کے عزیز بھی اس زلزلے کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ جب بابا کا انتقال ہوا تو پاکستان بن چکا تھا۔ اور میں بی ایس سی کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کر چکا تھا۔ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ ملا یہ میرے بابا کا ہی صدقہ ہے کہ میں آج اس حیثیت سے جی رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ اس وقت جو کچھ میرے پاس ہے اس کا آدھا حصہ میں قرضہ میں چکا دوں۔‘‘
حامد کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔’’ یہ عطیہ عثمانیہ ہے۔‘‘ اس اعزاز کی شہادت فجر کی اذان نے دی۔ علاقے کی مسجد سے اﷲ اکبر کی صدا گونجی اور ہم تینوں دوستوں نے اجازت چاہی۔
امدادی کیمپوں میں دن رات کام ہو رہا تھا۔ رضا کار اور فوجی دستے متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے تھے۔ ملبے میں دبی ہوئی لاتعداد لاشوں کو نکالا گیا تو اس کے لیے کفن کا مطالبہ ہونے لگا۔ حامد کے والد سعودی عرب سے عید منانے کے لیے کراچی آچکے تھے۔ اس مرتبہ وہ اپنے ساتھ کچھ نہیں لائے تھے۔ صرف اپنی بوڑھی والدہ کے اصرار پر آب زم زم میں بھگو کر ایک کفن لائے تھے جسے اس گھر کی دادی اماں اپنی زندگی کا بیش قیمت اثاثہ سمجھتی تھیں۔
حامد نے اپنے والد کو امدادی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ اپنی حیثیت کے مطابق میتوں کو کفنانے کے لیے عطیہ دیں۔ دادی اماں اپنی جگہ خاموشی سے اٹھیں۔ اپنی پٹاری کھولی اور وہ کفن نکالا جسے انہوں نے آب زم زم میں دھلا کر منگوایا تھا جو ان کی کل کائنات تھا اور جسے وہ اپنی نجات کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ اس اثاثے کو دادی اماں نے حامد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ کفن میں نے بار بار یاد دہانی کراکے تیرے باپ سے منگوایا تھا۔ میرے پاس تو اب یہی عزیز ترین شے ہے اسے بھی وہاں بھجوا دیجئے جہاں لاشیں بے گور وکفن پڑی ہوئی ہیں۔
یہ سنتے ہی حامد اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور کہنے لگا۔ ’’ دادی اماں! یہ تو ہمارے کیمپ سے عطیہ صدیقیہ کے طور پر جائے گا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے غزوہ تبوک کے موقع پر فوج کے آدھے اخراجات اپنے ذمے لیے تھے۔ ہمارے امدادی کیمپ کو ایک مخیر بزرگ نے اپنا آدھا سرمایہ عطیہ کیا ہے۔ اسے ہم نے عطیہ عثمانیہ کا نام دیا ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تو اس موقع پر اپنا سارا اثاثہ پیش کر دیا تھا۔ اس نسبت سے دادی اماں آپ کا عطیہ صدیقیہ کہلانے کا مستحق ہے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top