skip to Main Content

سونے کی تین ڈلیاں

مسعود احمد برکاتی

………

خیال ایک روسی کہانی سے ماخوذ

………

دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لیے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔ سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔ امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔ سلیموف جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔ رات ہوگئی تھی۔ اس کے پاس رسّی نہیں تھی۔ اس لیے اس نے دروازے سے اس کی دم باندھ دی۔ رات کو گھوڑا بھاگ گیا۔ دم ٹوٹ گئی۔ سلیموف بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر گھوڑا واپس لایا، مگر امیروف نے بے دم کا گھوڑا لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں تو کچہری میں مقدمہ کروں گا۔
دونوں بھائی شہر روانہ ہوگئے۔ شہر بہت دور تھا۔ راستے میں رات ہوگئی۔ امیروف کے ایک دوست کا گھر قریب تھا۔ وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے۔ امیروف اور اس کا دوست گھر کے اندر آرام کرنے لگے۔ سلیموف کو گھر کے اندر جگہ نہ ملی تو وہ چھجے پر لیٹ گیا۔ سلیموف کی آنکھ لگ گئی۔ سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گر گیا۔ نیچے دوست کا بچہ بیٹھا تھا۔ وہ دب کر مر گیا۔ دوست بہت غصّے ہوا۔ اس نے کہا، “میں بھی مقدمہ کروں گا۔”
اب تینوں شہر کو چل پڑے۔ راستے میں پل آیا۔ سلیموف نے دو دو مقدموں میں سزا کے ڈر سے پل پر سے چھلانگ لگا دی۔ نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جا رہا تھا۔ سلیموف بوڑھے پر جا پڑا۔ بڈھا مر گیا۔ نوجوان بھی مقدمہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگیا۔
چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ کچہری پہنچے۔ جج آیا اور کچہری لگی۔ سلیموف نے راستے سے ایک پتھر اٹھا کر رومال میں لپیٹ لیا تھا۔ امیروف نے اپنا دعوہ پیش کیا۔ سلیموف نے ڈرانے کے لیے رومال میں بندھا پتھر جج کو دکھایا۔ جج سمجھا کہ رومال میں رشوت کا سونا ہے۔ اس نے خوش ہو کر سلیموف کے حق میں فیصلہ دے دیا اور کہا کہ جب تک گھوڑے کی دم نہ نکل آئے گھوڑا سلیموف کے پاس رہے گا۔
اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا۔ امیروف کے دوست نے کہا کہ سلیموف نے میرے بچے کو کچل کر مار دیا۔ سلیموف نے پھر رومال دکھایا اور جج پھر دھوکہ کھا گیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ جب تک سلیموف امیروف کے دوست کو بچہ نہ لا کر دے، امیروف کا دوست سلیموف کو اپنے گھر رکھے اور کہیں جانے نہ دے۔ دوست نے سوچا ایک تو میرا بچہ مرا دوسرے میں سلیموف کو اپنے گھر رکھوں اور کھلاؤں پلاؤں۔ اس کا کیا بھروسہ یہ دوسرے بچے کو بھی مار دے۔
تیسرا مقدمہ کچہری میں پیش ہوا کہ سلیموف نے پل سے کود کر بوڑھے کو مارا ہے۔ سلیموف کا رومال دیکھ کر جج پھر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا تیسری سونے کی ڈلی بھی مجھے دینے کا اشارہ کر رہا ہے۔ اس نے فیصلہ دیا کہ بوڑھے کا نوجوان بیٹا اور سلیموف اس جگہ جائیں۔ نوجوان پل پر جائے اور سلیموف پل کے نیچے کھڑا ہوجائے۔ نوجوان سلیموف پر کودے اور اس کی جان لے لے۔
کچہری ختم ہوئی۔ چاروں باہر آئے۔ امیروف نے پریشان ہو کر کہا کہ میں دم نکلنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ تم مجھے میرا گھوڑا اسی حالت میں دے دو۔ سلیموف نے کہا کہ نہیں ٹھہرو اور اس وقت کا انتظار کرو جب گھوڑے کی دم نکل آئے۔ امیروف بہت پریشان ہوا۔ اس نے سلیموف کی منّت سماجت کر کے اور پانچ روبل (روسی سکّہ)، سترہ بوری اناج اور ایک بکری دے کر اپنا گھوڑا واپس حاصل کیا۔
اب سلیموف نے امیروف کے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے، کھانا کھلاؤ۔ دوست گھبرایا۔ اس نے کہا کہ بھائی، میں تمہارا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ سلیموف نے کہا کہ جج نے یہی فیصلہ دیا ہے۔ جب تک میں تمہیں بچہ لا کر نہ دوں تمہارے ساتھ رہوں گا۔امیروف کے دوست نے پچاس روبل، تئیس بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیموف سے اپنی جان چھڑائ۔
آخر سلیموف نوجوان کے پاس گیا اور کہا کہ آؤ پل پر چلو اور وہاں سے چھلانگ لگاؤ۔ نوجوان نے سوچا کہ اگر میں اتنی اوپر سے کودا تو خود ہی مر جاؤں گا۔ اس نے بھی سلیموف کو دو سو روبل، انتّیس بوری اناج اور ایک بیل دے کر راضی کر لیا۔
جج نے اپنا آدمی سلیموف کے پاس بھیجا کہ سونے کی تین ڈلیاں دے دو۔ سلیموف نے رومال میں سے پتھر نکال کر دکھایا اور کہا کہ میں غریب آدمی ہوں، میرے پاس سونا کہاں، میں نے تو جج کو رومال اس لیے دکھایا تھا کہ اگر تم نے میرے خلاف فیصلہ دیا تو میں تمہیں اس پتھر سے ماروں گا۔ جب اس آدمی نے جج کو جا کر یہ بات بتائی تو جج نے سکون کا سانس لیا کہ میں بچ گیا، ورنہ سلیموف مجھے مار ڈالتا۔
سلیموف خوش خوش گھر واپس آگیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top