skip to Main Content
خواجہ انکل

خواجہ انکل

محمد الیاس نواز

…………….

آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے چائے کا منع کرکے آتا ہوں۔ایک شائستہ تحریر۔۔۔

…………….

اللہ بخشے ہمارے سابقہ پڑوسی خواجہ انکل ظرافت کے بادشاہ تھے ۔ہربات پر مزاح کا پہلو نکالناانکاخاصہ اورکمال تھا بعض اوقا ت تو میّت پر جاکر بھی پوچھ لیتے تھے کہ بینڈ نہیں آیا؟ان کا لباس بھی انکی شخصیت کی طرح ایک عجوبہ تھا۔تن پہ پینٹ اور کرتا ،پاؤں میں تِلے والی چکوالی کھیڑی (سینڈل)اورسرپرجناح کیپ ۔سواری کیلئے ایک ’’پھٹ پھٹی‘‘ جسکے پیچھے لکھا تھا ’’غریب کی پجیرو‘‘۔ ہارن کے سوا جسکی ہر چیز بجتی تھی۔ اسکی لائٹوں کو جلتا نہ دیکھ کر اکثر پولیس والے جلتے تھے ۔ ایک دن پولیس والے نے روکااور اَڑگیا کہ تھانے چلیئے کیونکہ گاڑی چوری کی معلوم ہوتی ہے بڑی مشکل سے جان چھڑائی اور جب چلنے لگے تو اسے دعاء دی کہ اللہ تجھے’’ انسپکٹر سے سپاہی‘‘ کرے بس پھر تو تھانے جانا ہی پڑا۔ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ غصے میں انگریزی بولنے لگتے تھے پوچھنے پرفرماتے ’ ’غلط زبان توآدمی غصے میں ہی بولتا ہے ناں‘‘!!اردو تواتنی عمدہ بولتے تھے کہ انگریزی کے بہت سے الفاظ کی جمع بھی اردو میں کر لیتے تھے۔ جیسے کوالٹی کی جمع ’’کوالٹیات‘‘ اور بلڈنگ کی جمع ’’بلاڈنگ‘‘۔ اردو الفاظ کی جمع بھی بہت اچھی کرتے تھے ۔ملزم کی جمع ’’ملازم‘‘ ،تصویرکی جمع ’’تصویرات‘‘ اوراسکی بھی جمع’’ تصاویرات‘‘ اور ملزمان کی جمع ’’مل مالکان‘‘ فرماتے تھے ۔ایک دن کسی نے پوچھا کہ چہیتی کسے کہتے ہیں فرمایا’’چہیت پور کی رہنے والی‘‘ کو۔پھر پوچھا ’’سدھ بدھ‘‘ کاکیا مطلب ہے؟ ۔ فرمایا’’سیدھا بدھو‘‘ ۔ہم نے کہا سیدھا بدھوکونسا ہوتا ہے؟جواب ملا جسے نقل کرنے کا موقع ملے اور وہ نیک بن کے بیٹھارہے۔ ملک شیک کو’’ملک شیخ‘‘کہتے تھے۔ اردو کے جملے بڑے نپے تلے اور خوبصورتی سے بولتے تھے۔ مثلا’’ گھر میں سنگِ مرمر والا پتھر لگوا رہا ہوں‘‘۔ ’’آب زم زم والے پانی کی تو کیا ہی بات ہے‘‘۔ ’’عنقریب بہت جلدآپکو خوش خبری سناؤں گا‘‘۔’’گھر کے لئے جو ہوم ورک والا کام ملا تھا وہ کیا کہ نہیں‘‘۔کہتے ہیں کہ قسمت کا لکھا کوئی نہیں ٹال سکتا ۔بس اس دن ہماری قسمت میں بھی شامت ہی لکھی تھی کہ جس دن ہماری گیندسے خواجہ انکل کے گھر کی کھڑ کی کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔وہ پوری آن بان سے نکلے اور حکم دیاکہ فوراً اسکو نیا کرو!نیا بھلا کہاں ہونا تھا۔ بس پھر خواجہ انکل نے ڈنڈا برسانا شروع کیااورپھر فرما یا کہ شکر کرو کہ ہم نے تمہیں مارا۔بڑوں کی مار بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔جب تک شکر نہیں کرو گے مارتے رہیں گے۔ ہم نے فوراً کہا اللہ کا شکر ہے۔ دو ڈنڈے اور مارے اور فرمایا تمہیں پتا ہے کہ شکر کرنے سے زیادہ ملتا ہے ؟مارنے کے بعد پوچھا۔’’ مزا آیا‘‘؟ ۔ہم نے تکلیف زدہ ہاتھوں کو مسلتے ہوئے انکار میں سر ہلایاتو بولے ’’اچھا!! ابھی مزہ نہیں آیاچلوووو….اب آجائے گااور ساتھ ہی دو ڈنڈے مزید دے مارے۔ ہم تکلیف سے چیخے انکل جی !!مزا آگیا، مزاآگیا ۔ مزیددوڈنڈے مار کے فرمایا ’’جب تمہیں مزا ہی آرہا ہے تو ہم بھلامارنے میں کیوں کنجوسی کریں گے‘‘ ۔ آئندہ اگرایسا ہوا تویادرکھو! میں تمہاری’’ چھتیسی‘‘ نکال دوں گا!!سمجھے ؟۔ہم نے کہا انکل ! بتیسی ہوتی ہے آپ تو’’’۔کہنے لگے مجھے پتا ہے۔ بتیسی نارمل حالت میں ہوتی ہے ۔مگر تم تو ہنستے ہو تودانت کچھ زیادہ ہی نظر آتے ہیں مجھے لگتا ہے تمہارے چار دانت زیادہی ہوں گے ۔ ایک دن دوکان سے اہلیہ کو ایس ایم ایس کیاکہ آج ساگ پکالو! تھوڑی دیربعد کال کر کے پوچھا کہ’’ بیگم ہم نے آپکو ایس ایم ایس کیا تھا آپ کو ملا کہ نہیں ‘‘؟۔ہم نے پوچھا انکل آپ اتنے پڑھے لکھے ہیںیہ بتائیے آنٹی کی تعلیم کتنی ہے۔ یہ سنتے ہی آنکھوں میں چمک آگئی اورموڈ اچھا ہوگیا اور فرمایا۔ بیٹا! انہوں نے’’ گھریلو سیاسیات ‘‘میں ڈبل’’ ایویں‘‘کیا ہوا ہے۔پتا ہے جب انکی پڑوسیوں کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے تو کیا کر تی ہیں ؟۔ ہم نے پوچھا کیا؟ فرمایا اونچی آواز میں ’ ’پاپ میوزک ‘‘لگا کر لڑائی کرتی ہیں اور جب کسی بات پر رونا ہوتا ہے تو’’غزل‘‘ لگاکر راگ سے راگ ملا کر روتی ہیں۔ غائب دماغ ایسے کہ بعض اوقات سوال کرو مشرق تو جواب آتا تھا مغرب۔بیگم نے کہا ارے امرود کہاں سے لے آئے کوئی ایک بھی صحیح سلامت نہیں نکلا کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔جواب دیا ’’میکڈونلڈ‘‘سے۔پھر پوچھا کہ عبدالحمیدبھائی نے چارہزار کامرغالیا ہے کیاخاص بات ہے اس میں؟۔ فرمایاکیمرے والاہوگا۔وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئیں۔ کنڈکٹر نے کہا’’بزرگو!ذراآگے ہو جائیے ‘‘۔کہا’’ مجھے کیوں تکلیف دیتا ہے گاڑی پیچھے کرلے ‘‘۔ایک دن کسی نے جاکراطلاع دی کہ چوہدری صاحب چھت سے گر کرانتقال کر گئے ہیں۔ فرمایا’’شکر ہے ٹانگ وغیرہ تو بچ گئی ہے ‘‘۔ہم نے موڈ میں دیکھ کر ایک دن پوچھ لیا کہ انکل جی! آپکی شروع سے دوکان ہے۔ یہ سن کر افسردہ ہوگئے اور فرمایا’’کیاپوچھتے ہو میرے بیٹے ! پہلے میں تاج کمپنی میں نوکری کیا کرتا تھا بس پھر چھوڑنی پڑی۔ وہ کیوں؟ ہم نے پھر پوچھ لیا۔ بھڑک اٹھے اور فرمایا’’ یار !یہ کوئی بات ہے ۔کوئی بات ہو نہ ہو قرآن اٹھاؤاور بار بار اٹھاؤ‘‘۔ ہم نے کہا انکل! پھر آپ کہیں اور نہیں گئے ؟فرمایا بس بیٹا ! گئے تو فوج میں بھرتی ہونے تھے ۔ انہوں نے جتنی شرطیں پیش کیں ہم نے منظور کرلیں مگر وہ ہماری تین شرائط برداشت نہ کر سکے۔انہوں نے کہا تربیت لینی پڑے گی ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ انہو ں نے کہا پریڈ کرنی پڑے گی ہم نے منظور کرلیا۔ انہوں نے کہا گھر سے دور رہنا پڑے گا ہم نے اف تک نہیں کی۔مگر ہما ری سادہ سی شرائط وہ منظور نہ کر سکے۔ہم نے ان سے کہا ۔۱۔دیسی گھی لگی روٹی کھائیں گے۔۲۔چھاؤں میں ڈیوٹی کریں گے ۔۳۔اور جنگ لگی تو ہماری چھٹیاں۔ بتاؤ بھلا اس میں کونسی مشکل شرط تھی کہ وہ ہمیں دھکے دینے لگے ۔ہم نے کہا پھر؟ کہنے لگے پھر کیا ؟پھر ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں دھکے نہ دو۔انہوں نے حیرانی نے کہاکیوں؟ ہم نے کہا’’وی آر سلف اسٹارٹ ‘‘ ۔ توپھر اسکے بعد آپ نے کپڑے کی دوکان کرلی؟ ہمارے اس سوال سے انکل کی ظرافت جاگ گئی اور نہایت سنجیدہ لہجے میں فرمایانہیں نہیں پھر اسمبلیوں کی بیماری ہوگئی سارے جسم پرایم این اے اور ایم پی اے نکل آئے وہ تو پھر کونسلر رگڑ کے باندھے تو شفاء ملی۔ ظرافت تو کسی بھی وقت جاگ جاتی تھی اہلیہ کاانتقال ہوا تو ہم تعزیت کے لئے گئے انکل غم میں نڈھال تھے اور زار وقطاررورہے تھے اچانک روتے میں بریک لگاکراٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کچھ کھائیں گے تو نہیں ناں! ۔ آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے چائے کا منع کرکے آتا ہوں۔یہ سن کرہم پہلے تو بہت حیران ہوئے پھر ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیااور اسی غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہاجی، جی انکل جی منع ہی کر دیں اس غم والے گھر میں بھلاکیا چائے پینی۔ جوس منگوالیں جوس ۔اب انکل جی ہماری شکل دیکھتے رہ گئے تھے۔

اب جبکہ تھوڑی دیر قبل ہم انکل کا جسدِ خاکی دفنا کے واپس آئے ہیں تو انکا بڑا بیٹابتارہا تھا کہ آخری وقت میں ہم سب کوجمع کرکے فرمایابھئی دیکھو پاکستان بنانے کے ایک سال کے بعد قائد اعظم اس دنیا سے چلے گئے۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی زندگی جدوجہد میں گزاردی جبکہ مولانامحمدعلی جوہر نے بھی اپنی زندگی کا حق ادا کر دیااور اب میرا بھی آخری وقت ہے۔اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top