skip to Main Content

آدم خور چیتا

تحریر: کرنل جیفری
ترجمہ: ش کاظمی

………..

ایک چالاک اور خونخوار درندے سے مقابلے کی سنسنی خیز داستان

………..

میں برآمدے میں کرسی پر بیٹھا ہوا نارنگیوں سے لدے ہوئے درختوں کو دیکھنے میں محو تھا۔ فروری کا مہینہ تھا لیکن مدھیہ پردیش (انڈیا) میں موسم یکایک تبدیل ہو رہا تھا۔ گرمی کی آمد آمد تھی۔ کمرے میں سخت حبس تھا۔ یہاں عموماً حبس بارش کی آمد کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور واقعی تھوڑی دیر بعد ہی آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور بادل گرجنے لگے۔ یکایک میرا مقامی ملازم گوٹو گھبرایا ہوا آیا اور آتے ہی کہنے لگا: ”صاحب میرا لڑکا جنگل میں گیا تھا۔ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ میرا دل گھبرا رہا ہے کہیں اسے……“ اس نے فقرہ نامکمل چھوڑ دیا اور سسکیاں بھرنے لگا۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ لڑکا جنگل میں کب گیا تھا۔ تو اس نے بتایا:”وہ معمول کے مطابق پانچ بجے مویشیوں کے ساتھ واپس آگیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ آکر لکڑیاں کاٹو مگر اس نے ایک نہ سنی اور یہ کہہ کر جنگل میں بھاگ گیا کہ میں جنگلی پھل جمع کرنے جا رہا ہوں اور ابھی لوٹ آؤں گا۔“ میں حیران تھا کہ آخر اس میں ڈرنے یا گھبرانے کی کیا بات ہے۔ لڑکا ہوشیار ہے اور جنگل کے چپے چپے سے واقف ہے۔وہ وہاں اکیلا روزانہ گھنٹوں گھومتا رہتا ہے۔ میں نے گوٹو سے کہا جاؤ اطمینان سے کام کرو۔ لڑکے کو کوئی خطرہ نہیں، وہ ذرا دور نکل گیا ہوگا۔
”مگر صاحب آپ سن نہیں رہے کہ جنگل کے تمام جانور خوفزدہ آوازوں میں چلا رہے ہیں۔ پہلے بندر چیخ رہے تھے۔ پھر ایک چیتا اور ابھی ابھی میں نے سانبھر کی آواز سنی۔ ضرور کوئی بات ہے۔“
میں نے گوٹو سے کہا کہ وہ چار آدمیوں کے ساتھ جنگل میں جائے اور اپنے لڑکے کو تلاش کرے۔ جب دوسرے روز دوپہر تک اس لڑکے کا کوئی سراغ نہ ملا تومیں نے اپنی بندوق سنبھالی اور گاؤں کے سات آٹھ جوانوں کو ساتھ لے کر جنگل میں جانے کا پروگرام بنایا۔
ہم سب آدمی جنگل کی طرف چل دیئے اور اتفاق کی بات کہ تھوڑی دیر کی تگ و دو کے بعد ہمیں گمشدہ لڑکے کا سراغ مل گیا۔ اس کا کرتا ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا پایا گیا جس پر جمے ہوئے خون کے بڑے بڑے دھبے تھے اور ایک نظر دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا کہ لڑکے کے جسم سے کسی جانور نے یہ کرتا نوچ کر اتارا ہے۔ اب یہ امید بہت ہی کم تھی کہ لڑکا ہمیں زندہ سلامت ملے گا۔ میں بڑے عرصے سے اس جنگل کے قریب رہتا تھا اور کبھی یہ ڈر محسوس نہ کیا تھا۔ لیکن آج مجھے کسی خونخوار درندے کے تصور سے خوف آرہا تھا اور جب میں نے اپنے ساتھ آنے والے دیہاتیوں کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ضرور کسی شیریا چیتے کی حرکت ہے۔ تو ان سب کے چہرے اتر گئے اور وہ خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
لڑکے کے خون آلود کرتے کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے اردگرد کی زمین کو بغور دیکھا تو وہاں بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکے کو درندے نے دور تک گھسیٹا تھا کیونکہ کہیں کہیں اس کے پیروں کے گھسٹنے سے زمین پر لمبی لمبی سی لکیریں کھنچ گئی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دور خون کے چھوٹے بڑے خشک دھبوں کے نشانات یہ ظاہر کررہے تھے کہ درندہ اپنے شکار کو کس طرف لے گیا ہے۔ ایسی نازک صورتحال میں بہت سے لوگوں کا آگے بڑھنا مناسب نہیں ہوتا ورنہ درندہ چوکنا ہوجاتا ہے۔ بندوق میرے پاس تھی اس لیے میں نے سب کو رخصت کیا اور خود ان نشانات کے پیچھے پیچھے خاموشی سے آگے بڑھنے لگا۔ گزشتہ روز کی شدید بارش کے باوجود خون کے یہ نشانات موجود تھے۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ لڑکا صبح تک زندہ سلامت تھا اور بارش رکنے کے بعد کسی وقت درندے نے اس پر حملہ کیا ہے۔
ابھی میں کوئی ستر اسی گز ہی دور گیا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی کے نزدیک مجھے آہٹ سی سنائی دی۔ میں فوراً ٹھہر گیا اور اس طرف غور سے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی اور فوراً سمجھ گیا کہ وہ شیر نہیں چیتا ہے۔ یہ چیتا مجھے دیکھتے ہی غائب ہو گیا۔ میں کچھ دیر تک اس کے دوبارہ آنے کا انتظار کرتا رہا لیکن کوئی آہٹ تک نہ ہوئی اور میں آہستہ آہستہ جھاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ بدنصیب لڑکے کی آدھ کھائی ہوئی لاش جھاڑیوں میں پڑی تھی۔ ظالم چیتے نے اس کی ایک پوری ٹانگ اور کمر کا کچھ حصہ کھا لیا تھا۔
اب میں ان کوارٹروں کی طرف پلٹا جو جنگل میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کے لیے حکومت نے عارضی طور پر بنوائے تھے۔ گوٹو یہیں اپنے بال بچوں سمیت رہتا تھا۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بدنصیب لڑکے کی موت کی خبر کس طرح گوٹو کو سناؤں گا اور اس پر کیا گزرے گی۔
میں نے گوٹو کو تمام تفصیلات سے باخبر کرنے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیج دیا اور خود اس چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے تھے اور ابھی دن کا بڑا حصہ باقی تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج ہی یہ کام ہوجانا چاہیے۔ میں نے اپنے ساتھ چار آدمی لیے اور جنگل میں دوبارہ اس مقام پر پہنچا جہاں لڑکے کی لاش پڑی تھی۔ بدقسمتی سے یہ جگہ ایسی تھی کہ یہاں کوئی اونچا درخت نہ تھا بلکہ تین سو مربع گز کے علاقے میں صرف خاردار جھاڑیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان جھاڑیوں پر مچان باندھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بس یہی ایک طریقہ تھا کہ میں یہیں کہیں جھاڑیوں میں چھپ جاؤں اور جب چیتا بھوک سے مجبور ہو کر لاش کا بقیہ حصہ کھانے آئے، اسے گولی کا نشانہ بنا دوں۔ اس پروگرام کے مطابق لڑکے کی لاش سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر میں نے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ چن لی اور آدمیوں کی مدد سے ان جھاڑیوں کو کانٹ چھانٹ کر اتنی گنجائش نکال لی کہ میں اطمینان سے وہاں چھپ سکوں۔
اس کارروائی کے بعد میں نے آدمیوں کو رخصت کیا اور خود اپنی کمین گاہ میں انسان کے سب سے خطرناک دشمن کا انتظار کرنے لگا۔ دو باتیں یقینی تھیں۔ اوّل چیتے نے اگر ہمیں جھاڑیوں کو کاٹتے چھانٹتے دیکھ لیا ہے تو وہ کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ دوسرے اگر اس نے ہمیں نہیں دیکھا تو پھر وہ ضرور آئے گا۔ جو شکاری چیتے کی فطرت کا گہرا مشاہدہ کرچکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آدم خور شیر کے برعکس آدم خور چیتا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ وہ انسان سے ڈرنے کے باوجود اس پر حملہ کرتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب بھوک اس کی برداشت سے باہر ہوجائے۔ رات کے وقت جب وہ باہر نکلتا ہے تو اس کی پھرتی غضب کی ہوتی ہے۔وہ اپنے شکار کو بند دروازوں میں سے بھی نکال کر لے جاتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ جنگل میں کچھ فاصلے پر جہاں درختوں کی کٹائی گزشتہ کئی ہفتوں سے ہو رہی تھی، مزدور حسب معمول اپنے کام پر آگئے ہیں اور درختوں پر آرے اور کلہاڑیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں نے سوچا یہ آوازیں چیتے کے لیے اب تک مانوس ہو چکی ہوں گی اور وہ ان پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ کوئی ایک گھنٹے تک میں وہیں بیٹھا ہوا لاش کو تکتا رہا اور کان لگائے پوری توجہ کے ساتھ چیتے کی آہٹ سننے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ نہ آیا۔
مجھے یقین تھا کہ جونہی سورج غروب ہو گا چیتا بھوک سے بیتاب ہو کر فوراً باہر نکلے گا۔ اس وقت بہت سے پرندے شور مچا رہے تھے۔ دفعتہ بائیں طرف کوئی چالیس پچاس گز کے فاصلے پر جنگلی طوطے ٹیں ٹیں کرتے ہوئے اپنے گھونسلوں سے نکلے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ طوطوں کی اس بے چینی کا ضرور کوئی مطلب تھا۔ چیتا ضرور آس پاس ہی پھر رہا تھا۔ شاید وہ گردو پیش کا جائزہ لے رہا تھا کہ کوئی ”دشمن“ تو اس کی تاک میں نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جنگل میں دوسرا کوئی جانور چیتے کی طرح حساس، خبردار اور چوکنا نہیں ہوتا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کیا مجال جو ذرا سی آہٹ بھی پیدا ہوجائے۔
میں اب خشک پتوں پر کسی کے چلنے کی آواز سن رہا تھاَ چیتا قریب آگیا تھا۔ میں ادھر بغور دیکھنے کے باوجود اس کی جھلک نہ دیکھ پایا۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس علاقے کے شیروں اور چیتوں کی کھال کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ جھاڑیوں میں چھپ جائیں تو پتہ نہیں چل سکتا کہ یہاں کوئی درندہ چھپا بیٹھا ہے۔ خدا معلوم وہاں کتنا وقت گزرا، مگر مجھے تو یہی محسوس ہوا جیسے کئی دن بیت گئے ہیں۔ میرا جسم ایک ہی جگہ بے حس و حرکت بیٹھے رہنے سے سن ہو چکا تھا۔
آخر کار میں نے اسے دیکھ ہی لیا۔ خدا کی پناہ، کتنا قد آور اور قوی جانور تھا۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ وہ لڑکے کی لاش کے قریب کھڑا تھا اور اس کی دم آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اب بھی اپنے دائیں بائیں خطرہ محسوس کررہا ہے پھر اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور لاش کی طرف ایک قدم آگے بڑھا۔ اسے منہ میں پکڑا اور جھاڑی میں لے گیا۔
دو منٹ بعد وہ پھر جھاڑی سے باہر نکلا اور چاروں طرف خوب غور سے دیکھا۔ اب اس کا سر میرے سامنے تھا۔ میں نے فوراً بندوق سیدھی کی اور نشانہ لے کر فائر کرنے ہی والا تھا کہ ایک انگڑائی لے کر چیتا مڑا اور پھر جھاڑی میں گھس گیا۔
سورج اگرچہ غروب ہو چکا تھا لیکن پھر بھی جنگل میں اتنی روشنی تھی کہ کافی فاصلے تک کا منظر بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ شاید چیتے کی اضطراب کی وجہ بھی یہی تھی کہ جنگل میں اسے کچھ روشنی نظر آرہی تھی ورنہ گہرے اندھیرے میں تو وہ خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔
جنگل میں ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا اور لمحہ لمحہ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ دفعتہ قریب سے کوئی الو بھیانک آواز میں چیخنے لگااور جھاڑیوں سے چیتا بپھر کر باہر نکلا اور میری طرف آیا۔ مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر آکر رکا اور غور سے دیکھنے لگا۔ میں سمجھا کہ اس نے ضرور مجھے دیکھ لیا ہے۔ پھر اس نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا جہاں لڑکے کی لاش پڑی تھی۔ میں نے بندوق کی نالی پر فٹ کی ہوئی ٹارچ کا بٹن دبایا۔ روشنی کی تیز لکیر چیتے کے جسم پر پڑی اور اس سے پیشتر کہ وہ جست لگا کر کسی طرف کو غائب ہوجائے۔ میں نے لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ فائر کے زبردست دھماکے سے سارا جنگل کانپ اٹھا۔ میں صرف اس قدر دیکھ سکا کہ چیتے کے منہ سے غراہٹ کی زوردار آواز بلند ہوئی، وہ فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور اگلے ہی لمحے میں نے خشک پتوں پر اس کے دوڑنے کی آواز سنی۔ پھر دور تک اس کے غرانے کی مسلسل آوازیں آتی رہیں۔ میں نے قیاس کیا کہ چیتا بائیں جانب بھاگا ہے کیونکہ اس کے دوڑنے اور غرانے کی آوازیں اسی سمت سے آرہی تھیں۔ دو منٹ بعد پھر وہی پراسرار خاموشی طاری ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر گولی چیتے کے لگی ہے تو وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گا اور اگر گولی نہیں لگی اور وہ صحیح سلامت ہے تو دوبارہ شاید ادھر کا رخ نہ کرے۔
میں اسی فکر میں تھا کہ دائیں جانب سے کوئی پچیس تیس گز کے فاصلے پر کسی جانور کے ہانپ ہانپ کر دوڑنے کی آواز آئی۔ میں نے یہ آواز فوراً پہچان لی۔ وہ چیتا ہی تھا مگر …… وہ چیتا جس پر میں نے فائر کیا تھا، جنگل میں بائیں جانب بھاگا تھا۔ اور اب اس کی آواز دائیں جانب سے آرہی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے گولی نہیں لگی میری پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور دل دھڑکنے لگا۔
ٹارچ کی روشنی میں میں نے اس مقام کا معائنہ کیا جہاں مجھ سے دس گز کے فاصلے پر چیتا آن کر رکا تھا۔ وہاں اس کے پنجوں کے گہرے نشانات موجود تھے اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اضطراب کے عالم میں وہ اپنے پنجوں سے زمین کریدتا رہا تھا اور پھر بائیں جانب اس کے پنجوں کے نشانات دور تک چلے گئے تھے۔
میں نے ٹارچ کی روشنی میں اردگرد کی زمین کا جائزہ لیا تو حیران کن انکشاف ہوا۔ یہاں میں نے چیتے کے پنجوں کے جونشانات دیکھے ان سے بالکل مختلف تھے جو میں اس سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ فوراً ہی مجھے احساس ہوا کہ چیتا ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ اپنے تجسس کی تسکین کے لیے میں ایک بار پھر اس مقام تک گیا جہاں میں نے پہلے چیتے کے نشانات دیکھے تھے۔ٹارچ کی تیز روشنی میں جب جھک کر میں نے ان نشانات کو دیکھا اور پھر ان کے ساتھ ساتھ ذرا آگے بڑھا تو ایک جگہ تازہ خون کا بڑا سا دھبہ دکھائی دیا۔ اس کے بعد آگے بھی خون کے چھوٹے بڑے دھبے دکھائی دیئے۔ اس کا مطلب تھا کہ اسے گولی ضرور لگی ہے۔ یہ دریافت میرے لیے خوش کن تھی۔ میں نے فوراً اپنے بنگلے کا راستہ لیا اور سوچا کہ علی الصبح اس چیتے کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا کیونکہ وہ زخمی ہو چکا ہے اور زیادہ دور نہیں جا سکا ہوگا۔
جب صبح میرے ملازم نے مجھے جگایا تو پانچ مزدور بنگلے کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ ان کے چہرے خوف سے زرد اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مزدور آج جب کام پر نہ آیا تو ٹھیکیدار کو قدرے تشویش ہوئی۔ ایک شخص اس مزدور کے گھر گیا۔ جب وہ جھونپڑے میں داخل ہوا تو اس کو مرا ہوا پایا۔ چیتے نے اسے ہلاک کرنے کے بعد جنگل میں گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی مگر مزدور کی لاش بہت وزنی تھی۔ چیتا بمشکل اسے دروازے تک گھسیٹ سکا اور کسی نامعلوم سبب کے باعث وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔
وہاں پہنچ کر میں نے چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے، بلاشبہ وہی موذی چیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ”قتل“ کی یہ واردات بالکل صبح کے وقت ہوئی ہے۔ چیتا اتنا قوی تھا کہ اس نے بانس کے موٹے سرکنڈوں کی دیوار تک گرا دی تھی اور پھر مجھے وہ چیتا یاد آیا جس پر میں نے رات کو گولی چلائی تھی۔ مزدوروں کو تو میں نے دلاسا دے کر کام پر بھیجا اور اپنے ساتھ تین آدمی لے کر جنگل میں اس مقام پر روانہ ہوا جہاں لڑکے کی لاش پڑی تھی۔

ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ یہ جنگل ست پورہ کے ضلع میں واقع ہے جہاں قریب ہی سے دریائے نربدا گزرتا ہے۔ ان دنوں دریا خوب چڑھاؤ پر تھا اور خبریں آرہی تھیں کہ اس میں زبردست سیلاب آنے والا ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں چیتے کسی نہ کسی طرح نربدا کے بڑے عقبی جنگل سے بھاگ کر ست پورہ کے اس چھوٹے سے جنگل میں آگئے تھے۔ جب ہم جنگل میں ذرا دور تک گئے تو سب سے پہلے ہماری مڈبھیڑ ایک ہرن سے ہوئی جو ایک فرلانگ کے فاصلے پر درخت کے نیچے کھڑا گردن موڑ موڑ کر کسی چیز کو دیکھ رہا تھا۔ خاصا موٹا تازہ ہرن تھا۔میں نے ساتھیوں کو دبک جانے کا اشارہ کیا اور کندھے سے بندوق اتار کر نہایت احتیاط سے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی کھاتے ہی ہرن وہیں گرا اور تڑپنے لگا۔ میں اس کی طرف بھاگا لیکن وہ پلک جھپکتے میں اٹھا اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔
اس وقت ایسا جوش و خروش مجھ پر طاری تھا کہ میں آدم خور چیتے کو یکسر فراموش کر چکا تھا۔ ہرن کی ٹانگ سے رستا ہوا خون اس کا سراغ لگانے کے لیے کافی تھا۔ کوئی ایک فرلانگ تک میں اسے تلاش کرتا ہوا نکل گیا۔ اس جگہ جنگل کچھ زیادہ ہی گھنا ہو گیا تھا۔ اور دن کی روشنی کے باوجود ہلکا ہلکا اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ ایک مقام پر مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ کوئی جانور ایک درخت کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور مجھے دیکھتے ہی اچھل کر وہ جھاڑی میں چھپ گیا۔ میں نے سمجھا وہی زخمی ہرن ہوگا۔ پس بے دھڑک آگے بڑھا اور جھاڑیوں کے قریب جا کر بغور دیکھنے لگا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ میرے چاروں طرف دور دور تک گھنی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور میں جھک جھک کر ہر جھاڑی میں دیکھ رہا تھا۔ خدا معلوم وہ ہرن تھا کہ چھلاوہ۔ ایسا غائب ہوا کہ پتہ ہی نہ چلا۔ میں مایوس ہو کرواپس آنے ہی لگا تھا کہ یکایک ایک جھاڑی میں سرسراہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ایک بڑا سیاہ ناگ تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔ سانپ نے اگرچہ مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مگر میں دہشت زدہ ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری پشت ایک جھاڑی سے ٹکرائی اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایک بھیانک غراہٹ کے ساتھ وہ موذی چیتا جو جانے کب سے جھاڑی میں آرام کررہا تھا، میری طرف تیر کی طرح آیا۔ بندوق چلانے کا موقع ہی نہ تھا۔ وہی بندوق جو میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے گھما کر پوری قوت سے اس کے سر پر دے ماری۔ چیتا اپنے ہی زور میں کئی گز دور جا گرا لیکن پھر بھی اس کا ایک پنجہ میری گردن پر گہرا زخم لگا چکا تھا۔ غراتا ہوا وہ پھر اٹھا اور دوبارہ جست لگانے کا ارادہ کیا۔ اتنی دیر میں میں اپنی بندوق سیدھی کر چکا تھا۔ میں نے لبلبی دبا دی اور یکے بعد دیگرے دو فائر کیے اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
فائروں کی آواز سن کر وہ مزدور، جو میرے ساتھ آئے تھے، دوڑتے ہوئے ادھر آئے اور جب انہوں نے چیتے کو مرا ہوا پایا تو خوشی سے اچھلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے چیتے کا معائنہ کیا۔ اس چیتے کا قد اس سے چھوٹا تھا جو میں نے دیکھا تھا۔ شاید اسی پر گزشتہ رات میں نے گولی چلائی تھی اور جو زخمی ہونے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔اس خیال سے کہ ایک چیتا تو اپنے انجام کو پہنچا۔ قدرے خوشی ہوئی مگر ابھی ایک اور چیتے کا معاملہ ختم کرنا باقی تھا جو اس سے بھی بڑا تھا۔ چیتے کے پنجے سے جو مجھے زخم لگا۔ ابتدا میں تو اس زخم کا پتہ ہی نہ چلا لیکن جب خون زخم سے رس کر قمیض کو تر کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ معاملہ نازک ہے۔ خون روکنے کی کوشش کی گئی مگر نہ رکا۔ تھوڑی دیر بعد میں کمزوری سی محسوس کرنے لگا اور پھر بے ہوش ہو گیا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو ایک بستر پر پایا۔ میں ناگپور کے ایک ہسپتال میں پڑا تھا۔
صبح کے وقت کچھ غنودگی سی طاری ہوئی کہ میرا ملازم ایک وحشت ناک خبر لے کر آیا۔ خبر یہ تھی کہ رات چیتے نے پھر ایک مزدور کو ہلاک کردیا۔ اور یہ کہ سارے مزدوروں نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے اپنے جھونپڑوں میں جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ پچاس مربع میل کے اس وسیع و عریض علاقے میں جہاں آس پاس بہت سے گاؤں تھے۔ اس ایک چیتے نے اتنی زبردست دہشت پھیلا رکھی تھی کہ لوگ جہاں جاتے ٹولیوں کی حفاظت میں جاتے اور سرشام ہی سے اپنے گھروں کے دروازے مضبوطی سے بند کر لیتے۔ بعد میں میں نے سنا کہ لوگوں کے واویلے پر حکومت نے ایک پیشہ ور شکاری اس چیتے کو مارنے پر مقرر کیا۔ مگر دوسرے ہی دن اس کی لاش ایک گڑھے میں پائی گئی۔ چیتے نے اس بدنصیب کے چیتھڑے تک اڑا دیئے تھے۔
پہلے تو میں نے خیال کیا کہ شاید یہ سب لوگوں کی مبالغہ آرائی ہے مگر جب ہسپتال سے رخصت ہوکر میں اسی علاقے میں پہنچا تو چیتے کی حکمرانی کا قائل ہونا پڑا۔ ہر طرف ایک سناٹا اور ویرانی تھی۔ بہت سے مزدور تو وہاں سے کام کاج چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
سرشام ہی بستی کا ہر شخص اپنے گھر میں گھس گیا۔ کھڑکیاں اور دروازے نہایت احتیاط سے بند کیے گئے۔ میرے پاس تھری ناٹ تھری کی رائفل تھی کیونکہ معمولی بندوق سے کام چلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہوتے پوری بستی پر ایک ہو کا عالم طاری ہو گیا۔ رائفل کی نال پر ایک لمبی طاقتور ٹارچ میں نے پہلے ہی فٹ کر لی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اس کے بعد میں نے بستی کی تنگ گلیوں میں گشت شروع کر دی۔ بستی کیا تھی جنگل کے سرے پر سو ڈیڑھ سو کچے مکانوں کا ایک محلہ سا تھا۔ کہیں کہیں بانس کے جھونپڑے بھی بنے ہوئے تھے۔
میں نے جھونپڑوں میں جھانک کر دیکھا، سب کے سب خالی پڑے تھے۔ غالباً ان کے مکین چیتے کے ڈر سے کہیں اور بھاگ گئے ہوں گے۔
دفعتہ میری نگاہ ایک جھونپڑے کی شمالی دیوار کے ساتھ زمین پر پڑی تو وہاں چیتے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیئے۔ بارش کے باعث یہاں ہر طرف گہری کیچڑ اور دلدل پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں چیتے کے پنجوں کے یہ نشانات نہایت واضح اور گہرے تھے اور ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس جگہ سے گزرا ہے اور اب بھی آس پاس کہیں چھپا ہوا میری حرکات دیکھ رہا ہوگا۔
یہ خیال مجھے بدحواس کردینے کے لیے کافی تھا۔ چیتے کی مکاری سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اچانک مجھ پر حملہ کردیتا۔ میں فوراً وہاں سے پلٹا اور گاؤں کے اندرونی حصے کی طرف آگیا۔ مجھے یقین تھا کہ چیتا ضرور میرا تعاقب کرے گا اور وہ صرف گہرا اندھیرا ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ میں اب ایسی جگہ تلاش کرنا چاہتا تھا جو ہر طرف سے محفوظ ہو اور جہاں چیتا آسانی سے نہ آسکے اور میں اس کی نقل و حرکت سے خبردار رہ سکوں۔ بانس کے جھونپڑوں پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ میں دیکھ چکا تھا کہ طاقتور چیتے نے کس طرح درمیان میں سے دیوار توڑ کر مزدورکو ہلاک کر دیا تھا۔ مجھے تو ایسی جگہ درکار تھی جو جنگل کے قریب ہو اور چیتا ادھر سے لازمی طور پر گزرے۔ آخر ایک کچا مکان ایسا مل ہی گیا جس کی سپاٹ چھت زمین سے کوئی بارہ فٹ اونچی تھی اور یہاں سے ٹارچ کی روشنی میں جنگل کا سارا منظر نظر آسکتا تھا۔
اب اتنااندھیرا ہو چکا تھاکہ آس پاس کی چیزیں صاف دکھائی نہ دیتی تھیں۔ میں نے ایک مرتبہ ٹارچ روشن کرکے گردو پیش کا اچھی طرح جائزہ لے لیا کہ چیتا کسی طرف سے دبے پاؤں تو نہیں آسکتا اور جب اطمینان ہوگیا تو میں نے وہیں چھت پر ڈیرے ڈال دیئے۔ پہلے ہی میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر آیا تھا۔ تھرماس بوتل میں گرم گرم قہوہ نیند کو دور رکھنے والی گولیاں اور میری وفادار رائفل یہ سب چیزیں میرے پاس تھیں۔

جنگل میں ہر طرف سناٹا تھا۔ کسی چرند پرند کی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔کافی دیر گزر گئی لیکن چیتے کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔میں نے سوچا ایسا نہ ہو کہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور چیتا کسی اور طرف نکل جائے۔ اس کی توجہ ادھر ہی مبذول رہنی چاہیے۔ میں چھت سے اترا، رائفل سنبھالی اور ٹارچ روشن کرکے ایک مرتبہ پھر بستی کی سنسان گلیوں میں چوکیدار کی طرح گشت کرنے لگا۔ ٹہلتے ٹہلتے میں اب پھر جنگل کے قریب آگیا اور اس جھونپڑے کے پاس پہنچ گیا۔ جہاں سرشام چیتے کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ ٹارچ کی روشنی میں مجھے دور جنگل میں جنگلی گیدڑ دوڑتے ہوئے دکھائی دیے جو ایک لمحے میں نظر سے اوجھل ہو گئے اور پھر ہو ہو کرکے چیخنے لگے۔
اب میں نے بلند آواز سے یوں بولنا شروع کر دیا جیسے دو آدمی باتیں کرتے ہیں۔ چیتے کو متوجہ کرنے کے لیے یہ چال بھی خاصی کارگر ہوتی ہے۔ اسی طرح خود سے باتیں کرتا اور ٹہلتا ہوا میں کافی دیر تک بستی میں پھرتا رہا، مگر چیتے کا کوئی سراغ نہ ملا۔ خدا جانے وہ کہاں چھپا بیٹھا تھااور کس وقت کا منتظر تھا۔
اب میں پھر اپنے اڈے پر آگیا۔ یعنی اس کچے مکان کی بارہ فٹ بلند چھت پر۔ رات کافی گزر چکی تھی اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ جنگل کی جانب سے سرد ہوا کے جھونکے آتے اور مجھے تھپکیاں دے کر نکل جاتے۔ میں نے سوچا کہ اگر نیند نے مجھے غافل کر دیا تو چیتا مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے شیشی سے دو گولیاں نکال کر کھائیں۔ قہوے کے دو کپ پیے اور نیند سے نجات پانے کا پورا سامان کر لیا۔ وقت کچھوے کی چال چل رہا تھا۔
اتنے میں پھر جنگل سے الو کے بولنے اور گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی کتوں نے دوبارہ بھونکنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ چیتا اب شکار کی تلاش میں نکل آیا ہے اور غالباً قریب ہی ہے۔ دفعتہ کتے چپ ہو گئے اور ایک بھیانک خاموشی چھا گئی۔ بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ دو فرلانگ کے فاصلے پر کوئی سیاہ چیز جھاڑیوں میں سے نکلی اور ایک طرف کو غائب ہو گئی۔ میں نے فوراً اپنے پرانے دشمن کو پہچان لیا۔ یہ وہی بڑا والا چیتا تھا۔میں نے گھڑی دیکھی۔ دو بج رہے تھے۔ چیتے کو دیکھ کر نیند غائب ہو گئی تھی اور میرے اعصاب پوری طرح بیدار اور چست ہو گئے تھے۔ چیتے کے صبر و استقلال کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ اگرچہ اس نے مجھے سرشام ہی دیکھ لیا تھا لیکن پورے سات گھنٹے انتظار کرنے کے بعد وہ اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا تھا۔ مجھے اب یہ اندیشہ تھا کہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر وہ جست لگا کر چھت پر چڑھ آیا تو میری خیر نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کافی طاقتور اور پھرتیلا ہے اور ایسے چیتے کے لیے بارہ یا پندرہ فٹ تک جست لگا لینا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔
بجلی ایک مرتبہ پھر چمکی اور میں نے سامنے دیکھا تو چیتا مجھ سے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔ میں نے رائفل کی نال پر فٹ کی ہوئی ٹارچ روشن کی تو چیتا وہاں سے غائب تھا۔ غالباً وہ کسی جھونپڑے کی آڑ میں ہو گیا تھا۔ اب میں نے پہلی مرتبہ اس کے غرانے کی آواز سنی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ جسے وہ ”شکار“ سمجھ رہا ہے وہ شکار نہیں ”شکاری“ ہے۔بستی کے آوازہ کتے جو خاموش تھے۔ یک لخت بھونکنے لگے اور چیتے کی غراہٹیں بھی بلند ہو گئیں۔ پھر میں نے خشک پتوں پر اس کے دوڑنے کی آواز بھی سنی اور ایک بار پھر سناٹا سا چھا گیا۔
ا ب مشرق کی طرف سے صبح کے ہلکے ہلکے آثار نمودار ہورہے تھے۔ میں کافی دیر تک وہیں بیٹھا رہا کہ شاید چیتا دوبارہ آئے مگر وہ نہ آیا۔ آسمان پر گھٹاآئی ہوئی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی۔ میں مجبوراً وہاں سے اترا اور گاؤں کے نمبردار کے مکان کی طرف بھاگا۔ اس کا مکان بھی دو ڈھائی فرلانگ دور تھا۔ جونہی میں چھت سے نیچے اترا، مکان کی شمالی دیوار کے ساتھ د بکا ہوا ایک کتا بری طرح بھونکا اور ایک طرف کو بھاگا۔ میں ٹارچ کی روشنی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ سامنے جھاڑیوں میں سے چیتا غراتا ہوا نکلا اور چھلانگیں مارتا ہوا میری طرف آیا۔ اس وقت اس حیوان میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں۔ میں نے بدحواسی میں نشانہ لیے بغیر فائر جھونک دیا۔ چیتے نے قلابازی کھائی اور واپس جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔ اس کے حلق سے اب غرانے اور چیخنے کی بھیانک آوازیں نکل رہی تھیں۔ جن سے سارا جنگل لرز رہا تھا۔ ہوش و حواس میرے بھی جواب دے گئے تھے۔ میں چھت پر چڑھ گیا۔ موسلادھار بارش میں وہیں بیٹھا رہا۔ میں نے ٹارچ روشن کر لی۔ چیتا سامنے جھاڑیوں میں چھپا ہوا بار بار غرارہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ زخمی ہو گیا ہے۔ بارش میں بھیگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سردی سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میں نے سوچا اگر اس طرح بارش میں بھیگتا رہا تو صبح تک میری لاش بھی اکڑ چکی ہو گی۔ پس رائفل اٹھائی اور سامنے جھاڑیوں میں فائروں کی بارش کر دی۔ دس بارہ فائر کیے۔ چیتا غرایا لیکن پھر یکدم چپ ہو گیا۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد نیچے اترا۔ رائفل میرے ہاتھ میں تیار تھی۔ ٹارچ کی تیز روشنی میں میں نے جھاڑیوں کو خوب دیکھا، مگر وہاں تازہ خون کے بڑے بڑے دھبوں کے سوا اور کچھ نہ تھاا ور خون کے یہ دھبے بھی آہستہ آہستہ بارش کے پانی سے صاف ہو تے جا رہے تھے۔
دوسرے روز میں دن چڑھے تک سوتارہا اور جب بیدار ہوا تو میرا جسم تھکن سے درد کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ چیتا بڑا سخت جان نکلا۔ اگر وہ بچ گیا تو پہلے سے بھی زیادہ غضبناک ہو گیا ہوگا۔ اتنے میں بنگلے کے باہر ڈھول کے ساتھ ساتھ بہت سے آدمیوں کا شور وغل سنائی دیا۔ میں باہر نکلا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔دس بارہ آدمی آگے آگے اچھلتے کودتے اور ڈھول بجاتے چلے جا رہے تھے اور پیچھے ایک دو موٹے بانسوں پر پانچ آدمیوں نے چیتے کی لاش اٹھا رکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ چیتے کی لاش صبح کے وقت جنگل میں ندی کے کنارے پڑی ہوئی پائی گئی۔ اس کے پیٹ میں دو گولیاں اور کندھے پر ایک گولی لگی تھی۔اور اس طرح ست پورہ کا وہ آدم خور چیتا جس نے کئی جانوں کو ہلاک کیا تھا، اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

٭……٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top