skip to Main Content

یہ چمن تمہارا ہے!

ناجیہ شعیب احمد
۔۔۔۔۔

’’ہیلو! اسود …!!ہیلو…!‘‘
’’کون بول رہا ہے…؟ آواز نہیں آ رہی…! ٹون ٹون ٹون۔‘‘
’’ غالباً لائن کٹ گئی تھی…‘‘ امامہ نے جھنجھلا کر فون کریڈل پر پٹخ دیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’کیا ہوا…؟ اس بے جان شے پر کیوں غصہ نکال رہی ہو؟‘‘اس کے شوہر حماد نے کہا۔
’’میں جب فون کرتی ہوں، اسے میری آواز ہی نہیں سنائی دیتی۔‘‘ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
حماد بیساختہ کہہ اٹھا: ’’یہ تو ہونا ہی تھا امامہ…!ہم نے سالے صاحب کو لندن بلانے سے صاف انکار جو کر دیا۔‘‘
’’ اب ظاہر ہے میمونہ ممانی کے بعد ماموں صاحب اکیلے رہ گئے ہیں، اسود کی انہیں زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ حماد کی چھوٹی بہن حمنہ بولی۔
امامہ سر جھکائے ان سب کی باتیں سنے جا رہی تھی۔
’’بھئی ہم نے تو انہیں یہاں بلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر میرے بھائی صاحب کو تو پاکستان سے عشق ہے۔‘‘ اس کی پھوپھی اور ساس سمیرا علی کے زہر خند لہجے نے امامہ پر لرزا طاری کر دیا۔

۔۔۔۔۔

’’آپی! تم اپنے اکلوتے بھائی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں۔ میری لائف بن جائے گی۔ یہاں پر تو میرا کیرئیر تباہ ہوگیا ہے، میں بے کار پڑا سڑ رہا ہوں۔ میری صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔ میری قابلیت کے لائق کوئی جاب نہیں ہے۔ پلیز آپی! مجھے اپنے پاس بلا لو۔ میرے لیے کچھ کرو۔‘‘
اسود لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جھکا ہوا بہن کی منت سماجت کرنے لگا۔
سات سمندر پار امامہ پیاسی نگاہوں سے اسکرین پر جلوہ افروز ہوئے اسود کی بلائیں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی:
’’اسود…! میرے بھائی! آج تمہیں کتنے سالوں بعد یوں اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہی ہوں۔ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو۔ بالکل بابا جیسے دِکھ رہے ہو… میرے بابا ہائے… کان ترس گئے تھے آپی سننے کو، بھلا کوئی ایسے روٹھتا ہے…؟ مم میں کوشش کر رہی ہوں نا۔ مگر یہاں آنا آسان نہیں ہے۔ اچھا دیکھو …!ابھی تو بس تم مجھ سے اپنی باتیں کرو، ہمارے پاکستان کی باتیں کرو۔ مجھے سب بہت یاد آتا ہے۔ میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ میرے بھائی! آج میرا دکھڑا سن لو…!‘‘
وہ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر نان سٹاپ بولے چلے جارہی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ اس کا انا پرست اور ضدی بھائی اس سے کسی بھی وقت خفا ہو کر اپنی صورت دیکھنے کو ترسا دے گا۔ وہ روتے ہوئے کہے جارہی تھی۔
’’کیا سنو ںتمہاری…؟ مجھے اس جہنم میں چھوڑ کر خود تو بڑے عیش سے رہ رہی ہو۔‘‘
’’جسے تم جہنم کہہ رہے ہو، وہی تو اصل جنت ہے میرے بھائی۔ ‘‘وہ حسرت سے بولی۔
اس کی بات سن کر اسود چڑ گیا:’’ یہ جنت تمہیں مبارک ہو آپی۔ افسوس! تم خالی خولی محبت جتانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتیں۔‘‘؎
امامہ کی سسکی نکل گئی، اسود سکرین پر طنزیہ نظریں جمائے بولا:
’’اور ویسے بھی تمہارے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں میں۔‘‘
’’آہ اسود! سراب ہے یہ زندگی جس کے پیچھے میں بھاگتی رہی۔ تم جس چمکتی شے کو سونا سمجھنے کی غلطی کر رہے ہو وہ سراسر دھوکا ہے فریب ہے۔‘‘
امامہ نے اسے سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی مگر وہ اپنے مؤقف پر اڑا رہا اور وہی ہوا جس کا امامہ کو خدشہ تھا۔ اسود نے غصے میں آ کر لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کر دی۔

۔۔۔۔۔

’’آپی! تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘
’’امم …باہر جانا‘‘
’’وہ تو ہم اکثر جاتے رہتے ہیں۔‘‘
’’ارے نہیں بے وقوف گھر سے باہر نہیں ملک سے باہر۔‘‘
’’کون سے ملک، اپنے ملک سے بھی اچھا کوئی ملک ہے بھلا؟‘‘
’’ہاں ہے نا جیسے امریکہ لندن، کینیڈا۔‘‘
آنکھیں موند کے خواب ناک انداز میں اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کرتی امامہ کو اسود ناسمجھی کے عالم میں دیکھتا ہی رہ گیا۔

۔۔۔۔۔

’’مجھے پاکستان میں نہیں رہنا امی …!میں باہر کی دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرا بس چلے تو میں پرندہ بن کر آزادی سے ملکوں ملکوں گھومتی پھروں۔‘‘
جوان بیٹی کی انوکھی خواہش سن کر ماں نے کلیجہ تھام لیا۔ مگر باپ نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے بظاہر خاموشی اختیار کی اور بالا ہی بالا ایک بڑا مشکل فیصلہ کر لیا، باپ کے فیصلے کے آگے ماں کی کہاں چلنی تھی۔ جوان بیٹی کی خواہش پوری کرنے کی خاطر باپ نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بیرون ملک میں مقیم اپنی بہن کے بیٹے حماد سے اس کی شادی کی بات کی تو وہ چھوٹتے ہی بولیں:
’’پاکستانی بچیاں سگھڑ اور بہت صابر و شاکر ہوتی ہیں۔ بھابی تو اللہ میاں کی گائے ہیں۔ یقینابیٹی ماں پر گئی ہوگی۔ ہماری طرف سے ہاں ہے بھائی…!‘‘
داؤد علی نے میمونہ بی بی کی مخالفت کے باوجود بیٹی کی ضد مصلحتاً پوری کر تو دی تھی مگر وہ اس رشتے سے مطمئن نہیں تھے۔خیر چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا اور امامہ اپنے خوابوں کے دیس سدھار گئی۔ اسود اس وقت بہن کی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ جب کہ دؤاد علی سخت فکر مند تھے۔ ان کی کل کائنات اب یہی ایک بیٹا رہ گیا تھا۔ انہوں نے اپنی تمام امیدیں اور خواہشیں اسود سے وابستہ کر لیں۔

۔۔۔۔۔

’’بھائی صاحب! کچھ نہیں رکھا یہاں۔ آپ نے بلاوجہ کی ضد لگا رکھی ہے۔ اب تو بھابی بھی نہیں رہیں۔‘‘ سمیرا کو بھابھی کے انتقال کی خبر ملی تو تعزیت کے لیے فون ملایا۔
ماں کی جدائی کے غم میں نڈھال امامہ، داؤد علی سے صحیح طرح بات ہی نہیں کر سکی۔ سمیرا پاکستان آنے سے معذرت کرتے ہوئے بولیں ’’ہمارا وہاں آنا بہت مشکل ہے، آپ اسود کے ساتھ ہمارے پاس لندن آ جائیں۔‘‘
’’سمیرا! میں نے پہلے بھی کہا تھا، میں آج بھی یہی کہوں گا جیسا بھی ہے یہ میرا ملک ہے۔ میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا تمہارے حوالے کر دیا کافی ہے۔‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے۔ اور ماضی کویاد کرکے آہ بھرنے لگے۔
سمیرا علی نے لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے بجائے جب لندن میں ہی بسے رہنے کو ترجیح دی تو داؤد علی اکلوتی بہن کے اس فیصلے پر اپنا دل مسوس کر رہ گئے۔ ان کی بہن اپنے ملک پاکستان سے سخت خائف تھی۔ اس نے پاکستان کی خامیاں گنوا گنوا کر امامہ کو پاکستان اور پاکستانی عوام سے متنفر کر دیا تھا۔ وہ یہ خناس اپنی بھتیجی کے دماغ میں ٹھونسنے میں کسی قدر کامیاب ہو گئی تھی کیوں کہ امامہ نے جاگتی آنکھوں سے لندن جانے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے تھے۔

۔۔۔۔۔

اس کی پاکستان سے باہر جانے کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد حماد نے اسے پورا لندن گھما ڈالا تھا۔ وہ شاداں و فرحاں تھی۔ اس نے خوشی خوشی امی ابو کو فون کرتے ہوئے کہا تھا:
’’یہاں چوبیس گھنٹے بجلی رہتی ہے۔ پینے کا صاف تازہ پانی میسر ہے۔ اور امی جی یہاں کی سڑکیں اتنی صاف اور چم چم کر رہی ہوتی ہیں کہ بس…‘‘
اسود نے میمونہ بی بی سے فون لیتے ہوئے بڑی بیتابی کے ساتھ امامہ سے سرگوشی میں کہا:
’’آپی! اب میرے لیے کچھ کرو۔‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں میں حماد سے کہوں گی، تم ابو کو فون دو نا۔‘‘
امامہ باپ کی آواز سننے کے لیے ترس رہی تھی۔مگر دؤاد علی نے اسود کے ہاتھ سے فون لے کر بند کر دیا تھا۔ وہ تڑپ کر رہ گئی۔

۔۔۔۔۔

امامہ جو حسین خواب سجا کر پردیس آئی تھی۔ یہ ملک، اس کا ماحول بالکل بھی ویسا نہیں تھا جیسا وہ پاکستان میں چھوڑ کر آئی تھی۔ وہ تو ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کی شوقین تھی، اسی تفریح کرنے کو وہ آزادی سمجھ بیٹھی تھی۔ چند ہی ماہ میں وہ اکتا کر رہ گئی۔ وہاں کے لوگ مشینی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ پھپھو کے گھر کے سارے افراد جاب کرتے تھے۔ ان کا ہر کام گھڑی کی سوئیوں کے مطابق چلتا۔ اس کا لا ابالی پن، بے ترتیبی، بے وقت سونا اور بے کار بیٹھنا ان سب کو بری طرح کھلا۔ سو گھر کے سارے کام کاج کی ذمہ داری امامہ کو یہ جتا کر سونپ دی گئی کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔
’’ یہاں کی زندگی بہت fast ہے۔ یہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ پاکستان پر تو چوروں اور لٹیروں کی حکومت ہے، پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا…!‘‘ پھوپھا منہ سکیڑ کر بولے۔
تب امامہ کو پہلی مرتبہ ان سب کے منہ سے پاکستان کے لیے سخت الفاظ بری طرح چبھے کہ وہ بلبلا کر رہ گئی۔
’’پھپھو! فجر کی اذان کب ہوگی؟‘‘
’’یہاں اذان کی آواز نہیں آتی۔‘‘
’’اوہ تو پھر آپ لوگ نماز کیسے پڑھتے ہیں؟‘‘
’’وقت دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں۔‘‘
وہ حیران حیران سی جائے نماز اٹھائے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اسے شدت سے پاکستان کی یاد ستائی۔ جہاں بیک وقت کئی مساجد سے اذان کی صدائیں بلند ہوتیں تھیں۔ پاکستان کا نام آتے ہی اس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔

۔۔۔۔۔

داؤد علی کی تیز نگاہوں نے بیٹے کے تیور بھانپ لیے تھے کیوں کہ بہن کے رخصت ہونے کے بعد اسود بھی باہر جانے کے لیے اپنے پَر تول رہا تھا۔ وہ دل تھام کر رہ گئے۔ پہلے سگی بہن نے ملک کی بے قدری کرتے ہوئے اسے چھوڑا، پھر بیٹی نے بھی اپنے دیس کو کمتر جانا اور اب بیٹا اس ملک کا کھا کر اسی کے خلاف زہر اُگلتا پھر رہا تھا۔
’’کیا دیا ہے اس ملک نے مجھے؟ تعلیمی نظام برباد، ہر جگہ گندی سیاست کا راج ہے۔ آپ نے میرے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا صرف اس ملک کی خاطر۔‘‘
داؤد علی جیسے محب وطن پاکستانی کی سماعتوں پر اسود کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔
’’میں آپی کے پاس لندن جا رہا ہوں۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اونچی اڑتا امامہ نے لندن بلانے سے انکار کرکے اُسے زمین پر لا پٹخا۔ پردیس میں رہ کر جو کچھ وہ اکیلے سہہ رہی تھی اس نے اسود کو بتانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اس سے ایسا روٹھا کہ سارے رابطے ہی منقطع کر دیے۔ بہن مناتی سمجھاتی ہی رہ گئی مگر وہ بغاوت پر اتر آیا تھا۔ اس نے داؤد علی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ آج آپ کے آپی اور سمیرا پھپھو سے تعلقات اچھے ہوتے تو میں بھی لندن سیٹ ہوجاتا۔ وہ ان کے سامنے کھڑا دیر تلک بکتا جھکتا رہا۔اور وہ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے سنتے رہے ،ان کا جرم بہت بڑا اور ناقابل معافی تھا۔وہ وطن کے عشق میں مبتلا تھے۔

۔۔۔۔۔

اس وطن کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
ٹی وی پر جشن آزادی کے ملی نغمے نشر ہو رہے تھے۔ داؤد علی اپنے بستر پر نیم دراز ہوئے آنکھیں بند کیے بے سدھ پڑے تھے۔ اسود نے دیکھا تو ان کی آنکھوں کے گوشے نم تھے۔
’’ابو…!‘‘ اسود نے داؤد علی کو دھیرے سے پکارا مگر 75 سالہ بڈھا داؤد علی پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی پر اپنی جان سپردِ خاک کر کے مٹی کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اب یہ دن ان کی اولادوں کو مرتے دم تک ان کے عاشق صادق ہونے کی یاد دلاتا رہے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top