skip to Main Content

تقویٰ کا پیکر

کلیم چغتائی

…..
پڑھیے ایسے نوجوان کے بارے میں جو اپنے تقویٰ اور خدا خوفی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔
۔۔۔۔۔

جُندب نے چھوٹی سیاہ مشک پانی سے بھر کر پشت پر رکھ لی۔ کچھ پھل ساتھ لیے اور بھائی کو الوداع کہا۔
وہ اکیلے ہی حجاز کے صحراؤں میں سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے۔ یہاں سب ان کے لیے اجنبی تھے۔ کوئی جان پہچان والا ہوتا تو اس کے گھر ٹھہرتے، آخر کعبۃ اللہ ہی میں ایک طرف بیٹھ گئے۔ وہ سوچ رہے تھے، مکہ سے آنے والے ایک مسافر نے بتایا تھا کہ مکہ میں قریش کا ایک شخص موجود ہے، جو کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا کلام اس پر نازل فرمایا ہے۔
ایک رات حرم پاک میں لیٹے ہوئے تھے۔ دو عورتیں بتوں کا نام لے کر ان سے دعائیں کر رہی تھیں۔ جندب نے بتوں کے خلاف کوئی بات کہہ دی۔ عورتیں گھبرا گئیں، جلدی سے حرم پاک سے نکلیں اور سامنے ایک پہاڑی پر چڑھنے لگیں۔ سامنے سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے تھے۔ ابھی بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ کوئی نیا دین ’اسلام‘ کے نام سے آیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے دریافت فرمایا: ”کیا ہوا؟“
عورتیں بولیں: ”ایک بے دین، کعبہ میں پڑا ہوا ہے، بری بری باتیں کر رہا ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں تشریف لائے، نوجوان جندب سے ملے مگر کوئی تفصیلی بات نہیں کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس نوجوان کو اپنے گھر لے گئے۔ تواضع کی، صبح کو نوجوان جندب پھر حرم پاک آگئے۔ رات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے، دریافت کیا: ”آپ یہاں کس ضرورت سے آئے ہیں؟“
نوجوان نے کہا: ”میں نے سنا ہے کہ مکہ میں ایک شخص ہے جو خود کو نبی کہتا ہے۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوش ہو کر فرمایا: ”یہ بالکل سچ ہے۔ آپ صبح میرے ساتھ چلیے گا۔“
”صبح ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ آکر جندب کو اپنے ساتھ لے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام پاک کی تلاوت فرمائی۔ نوجوان نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔
یہ نوجوان حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے، جو اپنے تقویٰ اور خدا خوفی کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ ’غفار‘ سے ہے، اس لیے ’غفاری‘ کہلاتے ہیں۔ قبیلہ غفار اُس راستے پر آباد تھے، جس کے ذریعے تجارتی قافلے مکہ مکرمہ سے، پہاڑی دروں اور ریگستان سے ہوتے ہوئے شام اور فلسطین جایا کرتے تھے۔
اب حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، اپنے قبیلے میں پہنچے، وہاں آپ نے اتنے اچھے انداز سے تبلیغ کی کہ قبیلے کے سردار سمیت بہت سے افراد مسلمان ہوگئے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ تبلیغ میں مصروف رہے۔ اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کی۔ پھر بدر، اُحد اور خندق کی جنگیں ہوئیں۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
ہجرت کے پانچویں سال کے ابتدائی مہینوں میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لے آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تبلیغی کوششوں اور ان کے اچھے نتائج سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قبیلوں ’غفار‘ اور ’اسلم‘ کے لیے دعا فرمائی۔
غزوہ خندق کے بعد، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے دو سو اِکاسی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے علم سے فائدہ اٹھانے والوں میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ اپنے وصال سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکے تو رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھا کر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کیا تم ایسی بات پر بیعت کروگے جس کے بعد تمھارے لیے جنت ہو۔“
کہنے لگے: ”جی ہاں“ اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کسی شخص سے کچھ نہیں مانگو گے۔ حتیٰ کہ وہ کوڑا بھی نہیں جو تمھارے گھوڑے سے گر پڑے بلکہ تم خود اُترو اور خود اُٹھاؤ۔“ اس کے بعد حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کسی انسان سے کچھ نہیں مانگا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں کئی علاقے فتح ہوئے۔ لوگوں کے پاس مال و دولت کی کمی نہ رہی لیکن حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ، پہلی کی طرح سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کے عیش و آرام پر نکتہ چینی کرنے لگے۔ لوگوں کو شکایت ہوئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ بلا لیا مگر آپ رضی اللہ عنہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں ’ربذہ‘ میں رہنے لگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”ابوذر تنہا چلتا ہے، تنہا مرے گا اور تنہا ہی قیامت کے روز اُٹھایا جائے گا۔“
32 ھ (653ء) میں حج کا زمانہ آیا تو ’ربذہ‘ کے سب لوگ حج کے لیے چلے گئے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ شدید بیمار تھے، اس لیے نہ جاسکے۔ ان کی اہلیہ بہت پریشان تھیں لیکن حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سمیت چند افراد سے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک صحرا میں مرے گا اور اس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی۔ ان افراد میں سے میرے سوا سب کا انتقال ہوچکا ہے۔ تم دیکھو کوئی آتا ہو گا۔“
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ چند افراد وہاں سے گزرے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے انھیں بتایا کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سب دوڑ پڑے۔ آٹھ ذی الحجہ32ھ (دس جولائی 653ء) کو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اس دنیا کو الوداع کہا۔ اسی وقت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے۔ انھیں اطلاع دی گئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور تقویٰ کے پیکر کو اسی صحرا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

٭……٭

اس تحریر کے مشکل الفاظ
مشک: پانی بھرنے اور لے جانے کے لیے کسی جانور کا سالم کھال کا بنا ہوا تھیلے کی شکل کا ظرف جس کا منھ چھوٹا ہوتا ہے، وہ بکری یا بھیڑ کی سلی ہوئی کھال جس سے سقے پانی بھرتے ہیں
پہاڑی درّہ: دو پہاڑوں کے درمیان کا راستہ، وادی، گھاٹی

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top