skip to Main Content

سونے کی تلاش

ظفر محمود
۔۔۔۔۔
(۱)
جولائی کی ایک گرم دوپہر میں جنوب مغربی لندن کی ایک گلی میں کالے رنگ کی ایک لمبی سی کار رینگتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ گرم ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پھٹے پرانے کاغذ کے ٹکڑے ہر طرف ناچ رہے تھے۔ گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے لوگ سایہ دار جگہوں کی تلاش میں تھے۔ ہر طرف بچے شور مچاتے پھر رہے تھے۔ آئس کریم اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر لوگوں کا ہجوم تھا۔
’’ اُف! بڑی گرمی سے بھئی۔ میں تو کوئی ٹھنڈی چیز پئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ۔‘‘ سامی نے پسینا پونچھتے ہوئے کہا۔
’’ گرمی تو واقعی برداشت نہیں ہو رہی ہے مگر اس کا صحیح مزہ لینا ہے تو چائے پی جائے۔ کوئی کیفے نظر نہیں آرہا۔‘‘ شینڈ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھوں کاچھجا بنا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ وہ دیکھو سامنے! جہاں کالے رنگ کی کار کھڑی ہوئی ہے ،وہیں ایک کیفے ہے۔‘‘
شینڈ دبلا پتلا لمبے سے قد کا ایک سراغ رساں تھا۔ سامی اس کا نائب تھا۔ وہ صحت مند مضبوط جسم اور چھوٹے قد کا نوجوان تھا۔ 
شینڈ نے سامی سے کہا ۔’’بھئی کو رنزی کا خیال رکھنا ہے۔ آخر ہمیںاسی لیے تو یہاں بھیجا گیا ہے۔ ‘‘
’’ مجھے صاحب کی حرکتیں بالکل پسند نہیں۔ ہر وقت پراسرار بنے رہتے ہیں۔کبھی کسی سے ملتے نہیں ۔ کہاں رہتے ہیں، کیسے رہتے ہیں، کچھ پتا نہیں۔ بس فون پر رابطہ ہے۔ ذرا سی دیر میں حکم ہو جاتا ہے۔ ساڑھے چار بجے سیلویاکیفے میں دیوار کے ساتھ والی میز پر پہنچ جانا، بس اس قسم کے حکم ملتے رہتے ہیں اور ہم چوں چراں کیے بغیر اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ سامی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں! اب دیکھونا، انھوں نے تو حکم کر دیا۔ اب ہم کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ انھیں نہ اس سے کوئی غرض اور نہ کوئی پروا۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سائے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کیوں کہ ہم کو جس چکر میں یہاں بھیجا گیا ہے، اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔‘‘
اسی طرح باتیں کرتے کرتے اور گرمی کا رونا روتے ہوئے شینڈ اور سامی بالآخر سیلویا کیفے میں پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا اور گھٹیا درجے کا ریستوران تھا۔ اس کا دروازہ بہت پتلا سا تھا۔ ابھی وہ اندر داخل ہونے کے لیے سوچ ہی رہے تھے کہ دروازے میں سے چار آدمی باہر آئے۔ اندھیرے میں سے اچانک روشنی میں آجانے کی وجہ سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ ان کے درمیان سفید بالوں والا ایک بوڑھا سا شخص تھا جس کو وہ دھکیلتے ہوئے لارہے تھے۔ انھوں نے شینڈ اور سامی کو بھی دیکھا مگر انھیں کوئی اہمیت نہ دی۔ وہ بڑے بے ڈھنگے انداز میں قہقہے لگا رہے تھے اور آپس میں بے تکے مذاق کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی یہ ساری شوخیاں نقلی ہیں۔ وہ یہ ظاہر کر رہے تھے کہ بوڑھا شخص ان کے ساتھ خوشی سے جا رہا ہے۔ جب کہ بوڑھا بالکل خاموش تھا۔ ایک آدمی نے کالی کار میں بیٹھ کر اس کو اسٹارٹ کیا۔
’’ کیا بات ہے؟ کیا اندر چلنے کا ارادہ نہیں ہے؟‘‘ سامی نے شینڈ کو ٹہو کا دیتے ہوئے کہا جو حیرت سے کھڑا ان لوگوں کو دیکھے جا رہا تھا۔ جیسے ہی شینڈ کی نگا ہیں بوڑھے شخص کی نگاہوں سے چار ہو ئیں اس کی تجربہ کا رنگا ہوں نے خطرہ محسوس کر لیا تھا۔ بوڑھے کی نگاہوں میں درخواست تھی، التجا تھی۔ اس نے بڑی لا چاری سے شینڈ کو دیکھا تھا۔
اچانک شینڈ حرکت میں آگیا۔ اس نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے دوستانہ انداز میں کہا:
بھئی کیا مسئلہ ہے؟ ‘‘دو آدمی کار میں بیٹھ چکے تھے۔ باقی دو بیٹھنے والے تھے کہ شینڈ کی آواز سُن کر وہ رک گئے اور انتہائی سخت لہجے میں شینڈ سے بولے۔’’ خبر دار! اپنے کام سے کام رکھو ۔‘‘
شینڈ نے اچانک ہی چیتے کی سی پھرتی سے بولنے والے کی کلائی پر ہاتھ ڈال دیا۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ شینڈ نے اُسے زمین پر دے مارا۔ اس کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ لوگ چیخ رہے تھے۔ اسی شور میں ایک عورت کی چیخ نمایاں تھی۔ اس نے سر کو جھٹکا دیا اور نگا ہیں اٹھائیں۔ سامنے کار کی کھڑکی میں وہی نگاہیں اس سے التجا کر رہی تھیں۔ ابھی اس کے حواس درست بھی نہ ہوئے تھے کہ ایک زناٹے سے کارگلی سے نکل گئی۔
شینڈ نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ اس کے چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ تھوڑے فاصلے پر سامی بھی کھڑا ہوا تھا۔ اس کی حالت شینڈ سے مختلف نہ تھی۔ 
شینڈ نے سامی سے کہا۔’’جلدی کرو کوئی ٹیکسی وغیرہ پکڑ لو۔‘‘ اچانک ہی اُسے کچھ خیال آیا اور وہ سیدھے کیفے کے اندر چلا گیا۔ اُسے کسی نے نہ روکا۔ کاؤنٹر بوائے سے اس نے فون کے لیے پوچھا۔ کاؤنٹر بوائے اس کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا تھا۔ اس نے خاموشی سے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔ شینڈ چاہتا تھا کہ پولیس کے آنے سے پہلے اپنے افسر ٹرینسم کو ساری صورت حال بتا دے۔ اس نے نمبر ملایا اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ دوسری طرف ایک آواز ابھری:’’ اپنا نام اور شعبہ بتاؤ ۔‘‘ شینڈ نے کورنزی، کیفے، کار اور حادثے کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ اس کے علاوہ آدمیوں کے مکمل حلیے بھی بتا دیے۔
’’پولیس کو رپورٹ کر دو ۔‘‘ فون پر آواز آئی۔ شینڈ غصے سے چیخ اُٹھا: 
’’میری صاحب سے بات کراؤ۔‘‘ دوسری طرف اچانک خاموشی چھا گئی۔
اچانک ریسیور میں ایک باریک آواز ابھری ۔’’ٹر ینشم بول رہا ہوں۔ مجھے کیا بتانا ہے؟‘‘ شینڈ نے ایک بار پھر تفصیل دہرائی۔
’’ اوہ ! ڈیئر! تم نہیں سمجھے وہ کون تھا؟ تم نے مجھے اس آدمی کا حلیہ بتایا ہے جو کیفے میں دیوار والی میز پر دس منٹ تک بیٹھا رہا تھا۔ تمھیں اسی سے تو ملنا تھا۔ وہ وہاں وقت سے کافی پہلے پہنچ گیا تھا۔ خیر چھوڑو۔ میں کچھ سوچتا ہوں۔‘‘ ٹر ینشم نے کہا۔ 
ٹیلی فون بند کر کے شینڈ نے دیکھا کہ کیفے کے باہر پولیس آچکی تھی۔ اس نے سامی کو اشارہ کیا اور کیفے کے باورچی خانے میں سے نکل کر خاموشی سے پچھلے دروازے سے باہر سٹرک پر نکل آیا۔ کسی نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر شنیڈ نے کھڑکیوں کے پردے گرا دیے اور بسترپر ڈھیر ہو گیا۔
ٹیلی فون کی گھنٹی سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ خاصی دیر سوچکا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھایا، دوسری طرف سے سامی نے بتایا کہ کار مل گئی ہے۔ وہ گر یک اسٹریٹ پولیس اسٹیشن سے بول رہا تھا۔ 
اغوا کیے جانے والے بوڑھے کو رنزی کے بارے میں سامی نے بتایا کہ اس کا کوئی پتا نہیں اور نہ اغوا کرنے والوں کا پتا چل سکا ہے۔ ان کی انگلیوں کے نشانات بھی حاصل نہیں کیے جا سکے کیوں کہ بہت سارے نشانات گڈمڈ ہو گئے تھے۔ کار چوری کی گئی تھی۔ اب پولیس اسٹیشن میں کھڑی ہوئی ہے۔
نومنٹ بعد شنیڈ گریک پولیس اسٹیشن پہنچ چکا تھا۔ وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ ان لوگوں نے کالی کار چھوڑ کر کوئی ہری کار حاصل کر لی ہے۔ پولیس کی گشتی پارٹیوں کو اس کار کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ہر طرف تلاش جاری ہے۔ کالی کار کا جائزہ لینے کے بعد شینڈ سامی کو لے کر کھانا کھانے ایک کیفے میں چلا گیا۔
ابھی اس نے چھری کانٹا سنبھالا ہی تھا کہ ویٹر نے اس کو بتایا کہ آپ کا ٹیلی فون ہے۔ سامی نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔’’ اگر دس منٹ بعد فون آتا تو کیا برائی تھی۔‘‘ فون پر بات کر کے شینڈ جب واپس آیا تو سامی نے اپنی پلیٹ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ شنیڈ کی پلیٹ بھی صاف کر دی تھی اور اب اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر لمبی لمبی ڈکاریں لے رہا تھا۔
’’ تمھیں اپنے معدے کا برا خیال رہتا ہے۔‘‘ شینڈ نے سامی کی حالت دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
سامی نے اس کے آگے سر جھکاتے ہوئے کہا۔’’ میں نے سوچا کہ کہیں کھانا ضائع نہ ہو جائے۔‘‘شنیڈ نے ہنستے ہوئے کچھ نوٹ نکال کر پلیٹ کے نیچے دبائے اور سامی کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔
’’ ہم بارنٹ کے دوسری طرف چل رہے ہیں۔ ہر ی کار کا پتا چل گیا ہے۔ یہ ایک سنسان گلی میں ایک مکان کے باہر کھڑی ہوئی ہے۔ ایک پڑوسی نے اپنی کھڑکی سے دیکھا کہ چار آدمی کار سے اُتر کر اندر گئے۔ بعد میں دو واپس آگئے اور کار کولے کر چلے گئے ۔‘‘ شینڈ نے سامی کی بے صبری دیکھتے ہوئے اسے بتایا۔
جب وہ گلی میں داخل ہوئے تو بلب روشن ہو چکے تھے۔ گلی کے نکڑ پر انھیں ایک سادہ کپڑوں میں پولیس کا سپاہی ملا۔ اس نے اسے دیکھ کر کہا۔’’ اس طرف سڑک کے ساتھ ساتھ تقریباً دو سو گز پر ہے۔ مکان خالی ہے۔ اس پر برائے فروخت کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ میں نے ایک باوردی سپاہی کو یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ یہاں کبھی کوئی سوتا ہے یا نہیں مگر کوئی پتا نہ چل سکا۔‘‘
شینڈ نے سرد لہجے میں کہا۔’’ چار آدمی اندر گئے۔ دوبا ہر واپس آگئے۔ وہ اتنی آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں۔ کھلم کھلا جو چاہ رہے ہیں، کیا وہ چوری چھپے یہ سب کر رہے ہیں؟ ‘‘
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جب ہم مکان میں داخل ہوئے ہوں، وہ پچھلے راستے سے باہر نکل گئے ہوں۔‘‘ سادہ لباس والے سپاہی نے آہستہ سے کہا۔
’’خیر ہم جلد ہی ان کا پتا لگا لیں گے ۔‘‘ شینڈ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
مکان خوب صورت تھا اور ایک چوتھائی ایکڑ پر بنا ہوا تھا۔ اس وقت اس کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ اس کے احاطے میں ہر طرف جھاڑ جھنکا راگاہوا تھا جس کی وجہ سے اندر جانے والا چھوٹا سا پختہ راستہ بھی چھپ گیا تھا۔خودرو پودے، کا ہی اور کیچڑ سے اندر بد بو پیدا ہوگئی تھی۔ تمام دروازے اورکھڑکیاں بند تھیں۔ شینڈ کے ہاتھ میں ایک پنسل ٹارچ تھی۔ وہاں لوگوں کے چلنے پھرنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ سامی، شینڈ کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔
’’اندر چلنا ہے۔ تم خوب ڈٹ کر کھانا کھا کر آئے ہو۔ اس کوہضم کرنے کا اچھا موقع مل گیا ہے۔ مجھے تو ویسے بھی اوپر چڑھنے کا شوق نہیں ہے۔ چلوشاباش، سامنے والا دروازہ کھولنے کی کوشش کرو ۔‘‘ شینڈ نے سامی کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
سامی نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر کلک کی ہلکی سی آواز کے ساتھ تالا کھل گیا۔ شینڈ اندر داخل ہوا۔ اندر بالکل اندھیرا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مقبرے میں کھڑے ہیں۔ انھوں نے سن گن لی مگر وہاں تو بالکل سناٹا تھا۔ پنسل ٹارچ ایک بار پھر روشن ہو گئی۔ انھوں نے آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع کیا۔ آگے ایک چکر دار زینہ تھا۔ اس کے قریب ڈرائنگ روم تھا۔ ڈرائنگ روم کے برابر میں باورچی خانہ تھا۔ اچانک لال لال آنکھوں والا ایک موٹا تازہ چوہا ان کے سامنے آگیا۔ پھر ٹارچ کی روشنی سے ڈر کروہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ وہ باورچی خانے میں داخل ہوئے۔ یہ اچھا خاصا بڑا کمرہ تھا۔ اس کا فرش دھول مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ اس پر پیروں کے بالکل صاف اور تازہ نشان تھے جو آگے چلے گئے تھے۔ ان نشانوں کے خاتمے پر انھیں ایک آدمی نظر آیا جو فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر شینڈ کے منہ سے ایک لمبی سانس نکل گئی۔ وہ آدمی مُردہ تھا۔
شینڈ اور سامی واپس سادہ لباس والے سپاہی کے پاس پہنچے۔ وہ وہاں ابھی تک موجود تھا اور ان کا انتظار کر رہا تھا۔ شینڈ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔’’ تمھارا خیال صحیح نکلا۔ اندر کوئی زندہ آدمی موجود نہیں ہے۔ ہاں، وہاں کچھ پیروں کے نشان ضرور ہیں۔ ‘‘ اچانک ہی شینڈ کو کچھ خیال آگیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ آئندہ چند گھنٹوں تک پولیس اس معاملے میں دخل دے۔ اس نے کہا۔’’ اندر کچھ نہیں ہے۔ میں کل اپنے ایجنٹ سے ملوں گا۔ صبح ہونے سے پہلے یہاں کی تلاشی لینا ممکن نہیں ہے۔ میں تو اب چلتا ہوں۔ تم شاید یہاں رکو گے۔‘‘
سادہ لباس والے نے کہا۔’’ آپ جیسا کہیں گے ویسا کروں گا۔‘‘
’’ تو ٹھیک ہے تم بھی جاؤ ۔‘‘ شینڈ نے کہا۔
’’ چلیے میں آپ کو اپنی گاڑی میں چھوڑوں گا۔‘‘ سادہ لباس والے نے پیش کش کی۔
’’نہیں شکریہ۔ میں ٹیکسی سے چلا جاؤں گا۔‘‘ کہہ کرشینڈ سامی کے ساتھ چل پڑا۔
جیسے ہی پولیس کی گاڑی ان کے پاس سے گزر کر آگے بڑھی شینڈ نے سامی سے کہا۔’’ تم واپس جاکر مکان پر نگاہ رکھو۔ میں صاحب کو فون پر ساری صورت حال بتاتا ہوں۔‘‘
پٹرول پمپ کے فون سے شینڈ نے ٹرینشم کو بتایا کہ ہم نے جگہ کا پتا لگا لیا ہے۔ وہ بھی مل گیا ہے۔ وہ مر چکا ہے۔ بس فی الحال یہی کچھ معلوم ہو سکا ہے۔ ٹرنیشم کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اس نے شینڈ سے کہا۔’’ اس قتل کو ابھی راز میں رکھنا ہے۔ سامی کو ابھی وہیں روکو۔ تم نے اس کا کوئی پتا یا فون نمبر وغیرہ معلوم کیا ہے؟‘‘
’’کورنزی کی جیبوں کی پہلے ہی تلاشی لی جا چکی تھی۔ اب ہمیں کیا ملتا ؟‘‘
’’ کچھ اور سوچ کر بتاؤ۔‘‘
’’ کیا بتاؤں۔ ساری کہانی یہی ہے کہ چار آدمیوں نے کورنزی کو اغوا کیا۔ان میں سے ایک نے اس کا ر کو لا کر ایک جگہ چھوڑا۔ باقی کو پڑوسی نے مکان کے اندر جاتے دیکھا۔ اُن میں سے دو کے حلیے کچھ یاد ہیں۔ تھوڑے سے اتنے کہ پہچانے جا سکتے ہیں۔ ایک کا قد5 فٹ 4 انچ تھا۔ اس نے بھورے سوٹ پر بھورا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ اس سے زیادہ اور کچھ یاد نہیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ تم آرام کرو ۔‘‘ کہہ کر ٹرینشم نے رابطہ ختم کر دیا۔
شینڈ اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ پانچ فٹ چھ انچ قد اور بھورے ہیٹ اور بھورے سوٹ والے لوگ اس شہر، اس ملک اور اس بر اعظم میں پتا نہیں کتنے ہوں گے۔ آخران میں ایک خاص آدمی کو ڈھونڈ ناکتنا مشکل کام ہو گا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے بستر کے قریب سامی بالکل خاموش اور اداس اداس سا کھڑاہوا ہے۔
’’ کیوں ؟ کیا بات ہے؟‘‘ شینڈ نے اس سے پوچھا۔ 
’’کچھ پتا نکالا تھا مگر وہ کھو گیا۔‘‘ سامی نے اداسی سے جواب دیا۔
’’ کیا پتا نکالا تھا؟‘‘ شینڈ نے پوچھا۔ 
’’کورنزی کا پتا ۔‘‘
’’کیا مطلب ؟‘‘ شینڈ نے حیرت سے اُچھلتے ہوئے کہا:’’ کیا تم اسے جانتے ہو؟‘‘
سامی نے کہا۔’’یہ اتفاق ہی ہے کی پچھلی رات کو کورنری گھر نہیں پہنچا تو اس کی بھتیجی پریشان ہو گئی اور اس نے پولیس میں رپورٹ درج کرا دی۔ جب کلیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں یہ اطلاع پہنچی تو کسی نے ٹرنیشم کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے ٹرینشم کو فون کیا تھا اور ایک پولیس کا دستہ وہاں سے اس آدمی کی لاش لینے گیا تھا۔ ادھر کوئی شخص پولیس اسٹیشن گیا اور بتایا کہ کو رنزی رات کو اپنے دوستوں کے گھر ٹھہر گیا تھا جن کو اس کی بھتیجی نہیں جانتی تھی۔ بہر حال مجھے کو رنزی کا پتا چل گیا ہے۔‘‘
(۲)
پندرہ منٹ بعد وہ دونوں ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے۔ بعد میں ٹیکسی چھوڑ کر انھوں نے اس عمارت کا ایک لمبا چکر کاٹا اور پھر عمارت کے صدر دروازے میں داخل ہو گئے۔ دروازے پر ایک شخص بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا۔ سامی اس سے کچھ باتیں کرنے لگا جب کہ شینڈ دیوار پر لگے ہوئے اس بورڈ کو پڑھنے لگا جس پر وہاں رہنے والوں کے نام اور ان کے فلیٹ نمبر لکھے ہوتے تھے۔
’’ فلیٹ نمبر7۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فلیٹ میں ہے۔ اپنے چچاکی پریشانی میں اس نے آج دفتر سے چھٹی کی ہے۔‘‘ سامی نے شینڈ کو بتایا۔ دوسری منزل پر انھوں نے فلیٹ نمبر7 کے دروازے پر دستک دی۔ اندر کسی کے چلنے کی آواز آئی اور پھر ایک لڑکی کی ڈری ڈری سی آواز سنائی دی:’’ کون ہے؟‘‘
’’ مس گورنزی! میرا نام شینڈ ہے۔ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔‘‘ شینڈنے بڑی نرمی سے کہا۔
’’ مجھے آپ سے نہیں ملنا۔ مہربانی کر کے واپس چلے جائیے۔‘‘ لڑکی کی خوفزدہ آواز آئی۔
’’ میں آپ کے چچا کے بارے میں خبر لایا ہوں۔ کیا آپ سنیں گی ؟‘‘ شینڈنے کہا۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر کلک کی آواز کے ساتھ ہی دروازے کا تالا کھل گیا۔ ایک لڑکی دروازے پر کھڑی انھیں دیکھ رہی تھی۔
’’ میرے چچا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ وہ کہاں ہیں؟ ‘‘اس کے سیاہ بال بڑے خوب صورت اور چک دار تھے۔ اس کی نیلی آنکھیں بہت ہی خوبصورت تھیں۔ وہ لیکن خوفزدہ نظر آرہی تھیں۔
اس نے ایک طرف ہٹ کر ان کو اندر آنے کا راستہ دیا اور پھر دروازہ بند کر کے فوراً ہی ان کی طرف گھوم گئی۔ وہ بڑی بے چین اور پریشان نظر آرہی تھی۔ فلیٹ کو بڑی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر سستی پینٹنگز لٹکی ہوئی تھیں۔ قالین اگر چہ پھٹا ہوا تھا مگر صاف ستھرا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کا گھر تھا جس کے سینے میں آٹھ ملین پاؤنڈ سونے کا راز دفن تھا۔
’’ آپ کہہ رہے تھے کہ چچا کی کوئی خبر لائے ہیں۔‘‘ لڑکی نے ان کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کل دوپہر کو مجھے ان سے ملنا تھا مگر وہ وہاں نہیں پہنچے۔ تم کچھ بتا سکتی ہو ؟‘‘
ڈر اور خوف سے ابھی تک لڑکی کا برا حال تھا۔ اس نے جلدی سے انکارمیں سر ہلا دیا۔ شینڈ نے اپنے دفتر کا جاری کردہ شناختی کارڈ جس پر اس کی تصویر لگی ہوئی تھی، لڑکی کی طرف بڑھا دیا:
’’ میں برطانیہ کے محکمہ خزانہ کے لیے کام کرتا ہوں۔ اب مجھے بتاؤ کہ وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟‘‘
اس نے پھر انکار میں سر ہلایا۔ شینڈ نے بھانپ لیا تھا کہ وہ کچھ چھپا رہی ہے۔
’’ تمھیں سب کچھ معلوم ہے۔ مجھے بتاؤ۔ یہ بہت ضروری ہے ۔‘‘ شینڈ نے سخت لہجے میں کہا۔
مارگو کورنزی نے کرسی کے ہتھے مضبوطی سے پکڑ لیے۔ اس کی انگلیاں بری طرح کپکپا رہی تھیں۔ اس نے اچانک ہی روتے ہوئے کہا۔ ’’میں نہیں بتاؤں گی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ میرے چچا کارلو کہاں ہیں؟‘‘
شینڈ نے افسردگی سے کہا۔’’ ان کے بہت سے دشمن تھے۔ یورپ کے، اٹلی کے۔تمھیں ضرور معلوم ہوگا کہ وہ کون تھے۔‘‘
’’ مجھے کچھ نہیں معلوم ۔‘‘ لڑکی کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔ شینڈ کچن سے پانی لے کر آیا اور لڑکی کو دیا۔ کچھ دیر بعد مارگو کورنزی نے سراٹھا کر کہا۔’’ تو چچا کار لو مر چکے ہیں ۔‘‘
’’ہاں، مجھے افسوس ہے۔‘‘
’’ مگر جن لوگوں نے یہ کیا ہے، وہ بچیں گے نہیں ۔‘‘ مارگو نے غصے سے کہا۔
’’ لیکن ہم تمھاری مدد کے بغیر ان کو تلاش نہیں کر سکتے ۔‘‘ شینڈ نے مارگو سے بڑی نرمی سے کہا۔
تھوڑی دیر تک مارگو خاموش بیٹھی سوچتی رہی ۔پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بے کر کہا۔’’ بے چارے چچا کار لو۔ وہ اٹلی کے شہری تھے۔ اس کہانی کا آغاز بھی اٹلی سے ہوا تھا۔ 1945ء میں تو ہم انگلینڈ آ گئے تھے اور یہاں کے شہری بن گئے تھے۔ چچا کار لو میرے سر پرست تھے۔ بچپن سے میں ان کی گود میں پلی بڑھی تھی۔ جب میں بالکل چھوٹی سی تھی تو میری ماں مرگئی۔ میرے باپ کو دہشت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے چچا کار لوا اور میں بچ گئے۔ مونٹ رگا زو سے تقریباً دس میل دور پہاڑوں میں ایک خوب صورت وِلا تھی۔ ہم خوشی خوشی رو سانتا میں رہتے رہے۔ یہ بڑی خوب صورت جگہ تھی۔ میرے ساتھ میری انگریز آیا بھی تھی۔ اچانک جنگ چھڑ گئی۔ حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ ہوائی حملے ہوتے تھے۔ ایک دن وہاں جرمن بھی آگئے۔ آخر ہم کو انگلینڈ آنا پڑا۔ چچانے انگلینڈ کے لیے جرمنوں کے خلاف کچھ کام کیا تھا جس کے صلے میں حکومت برطانیہ نے ہمیں فوراً ہی شہریت دے دی۔ انگریز بن کر چچا کار لو خوش ہوئے۔ بیچارے چچا کارلو! وہ ہمیشہ اسی فکر میں پریشان رہتے تھے کہ سونا کہاں چھپاؤں۔ ان کی تو نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ جنگ کے زمانے میں ہر شخص اور ہر حکومت کو دولت کی ہوس تھی۔ ہر کسی کو اس بات کا علم تھا کہ رکارڈو مسولینی کا سونا سوئٹزر لینڈ پہنچائے گا۔ جب سونا روا نہ ہوا تو بے شمار لوگوں کو اس کی خبر مل چکی تھی۔ مونٹ رگازو کی پہاڑیوں میں کچھ لوگ گھات لگا کر بیٹھ گئے، کیونکہ صرف یہی ایک راستہ تھا جہاں سے سونا سوئٹزرلینڈ جا سکتا تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ،بے شمار لوگ مرے۔ بے شمار زخمی ہوئے مگر کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکا کہ سونا سوئٹزر لینڈ جانے کے بجائے یہیں کہیں پہاڑیوں میں چھپا دیا گیا ہے۔‘‘
’’ لیکن تمھارے چچا کارلو کو معلوم تھا کہ سونا کہاں دفن کیا گیا ہے۔ ان کو بالکل صحیح جگہ معلوم تھی ۔‘‘ شینڈ نے کہا۔
’’ نہیں، صحیح جگہ تو صرف چچا زور یو کو معلوم ہے۔ ‘‘ مارگونے کہا۔
’’ یعنی ایک اورچچا ؟‘‘شینڈ نے پوچھا۔
’’ ہاں، یہ دونوں میرے والد کے بھائی ہیں۔ چچا زور یو بڑے پراسرار ہیں۔ وہ اکثر نئے نئے لوگوں کے ساتھ نظر آتے تھے اور کئی کئی ہفتے گھر سے بھی غائب رہتے تھے۔‘‘
اچانک شینڈ نے مارگو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’مگر اب وہ کہاں ہیں؟‘‘
مارگو ایک بار پھر اداس ہو گئی ۔’’ شاید وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ چچا کارلو نے ان کو بہت سا روپیا بھیجا تھا۔ ہم اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ان کو رقم بھیجتے رہے۔ میں جس قابل بھی تھی اُن کے لیے کام کرتی تھی۔ میں نے محنت مزدوری کی۔ اب بھی ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں کام کرتی ہوں۔ ہم نے ہمیشہ یہ سوچ کر چچا زوریو کی مدد کی کہ ان کے پاس ضرور خزانے کا پتا موجود ہے۔ ایک دن ہمارے سب دلدر دور ہو جائیں گے ۔‘‘
شینڈ یہ ساری صورت حال سن کر چکرا گیا۔ حالات پے در پے اس قدر تیزی سے بدل رہے تھے اور ایسی نئی نئی باتیں سامنے آرہی تھیں کہ کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے فلیٹ کے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اچانک اس نے مڑ کر مارگو سے کہا:
’’ تمہارے چچا نے کچھ دن پہلے ہمارے دفتر فون کیا تھا۔ حالانکہ انھوں نے ہمیں ساری بات نہیں بتائی تھی لیکن ہم اس سے پہلے مونٹ رگا زو کے خزانے کے بارے میں سن چکے تھے۔ ہمارے محکمہ خزانہ کو اس آٹھ ملین پاؤنڈ سونے کے خزانے میں کافی دلچسپی ہے۔‘‘
لڑکی نے بتایا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے مدد طلب کریں۔ وہ بہت زیادہ مایوس اور خوف زدہ تھے۔ کچھ لوگ مسلسل اُن کا پیچھا کر رہے تھے۔
’’ کیا مسٹر کا رلو کو معلوم تھا کہ ان کا پیچھا کرنے والے کون ہیں؟‘‘ شینڈنے پوچھا۔ 
’’نہیں، لیکن وہ لوگ میرے فلیٹ میں دو بار آچکے تھے۔ وہ ہر مرتبہ رات کو یہاں آتے تھے۔ وہ چاہتے تو ہم کو جان سے مار سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ کسی چیز کی تلاش میں تھے۔ وہ یہاں آکر خاموشی سے ہر جگہ کی تلاشی لیتے تھے۔ ہم کو اس بات کا صبح پتا چلتا تھا۔ میں نے فلیٹ کو ہر مرتبہ اچھی طرح بند کیا، لیکن پتا نہیں وہ کس طرح اندر آجاتے تھے۔‘‘
اچانک دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔ تینوں اپنی جگہ اُچھل پڑے ۔سامی کا ہاتھ اپنی جیب میں موجود پستول کے دستے پر پہنچ گیا۔ شینڈ نے دروازہ کھولا۔ سامنے ہی ایک ادھیڑ عمر کا آدمی کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کالے رنگ کا ہیٹ تھا۔ آنے والے نے شینڈ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ اس کی نظریں مارگوپر جمی ہوئی تھیں۔ 
’’آخر میں نے تمھیں ڈھونڈ ہی لیا مار گو!‘‘ یہ آواز سن کر مارگو کی آنکھوں میں بھی جان پہچان کے سائے لہرائے۔ ’’ کیا تم اپنے چچا زور یو کو بالکل بھول گئیں ؟‘‘
مارگو چیخ مار کر دوڑ کر زور یو سے لپٹ گئی۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔’’ چچاز ور یو، اللہ کا شکر ہے۔ آپ زندہ ہیں۔ زور یو بڑے پیار سے مارگو کودیکھتے ہوئے بولا :
’’اوہ! میری ننھی منی مارگو !‘‘ اچانک اس نے گھوم کر سامی اور شینڈ کی طرف دیکھا۔ اس کی چمکدار آنکھیں ان دونوں پر جم گئیں۔’’ یہ حضرات کون ہیں؟‘‘
مارگونے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ یہ دونوں برطانیہ کے محکمہ خزانہ کے افسر ہیں۔‘‘
’’ مگر کارلو کہاں ہے؟‘‘زور یو نے مارگو کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ 
شینڈ نے آگے بڑھ کر اپنا شناختی کارڈز وریو کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔’’ انھوں نے کارلو کو پکڑ لیا تھا۔ وہ مر چکا ہے۔‘‘
’’ اوہ! وہ مرچکا ہے۔‘‘ زور یو نے اس طرح کہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شینڈ نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’آپ کو افسوس نہیں ہوا؟‘‘
زور یو نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔’’ غریب کا ر لو! وہ بہت خوش قسمت تھا کہ ان لوگوں نے اُسے برسوں پہلے نہیں مارا ۔‘‘کہہ کر زور یو کی آنکھوں میں عجیب سی چمک اُبھری۔ سامی اور شینڈ کچھ نہ سمجھ سکے۔ اچانک زور یونے گردن جھٹک کر کہا۔’’چھوڑو اس بات کو۔ وہ میرا بھائی تھا۔ مجھے اس کی موت پر افسوس ہے ۔مجرم چھپ نہیں سکتا۔ میں کبھی نہ کبھی اسے تلاش کر لوں گا۔ اب اس ذکر کو ختم کرو اور غور کرو کہ آئندہ کیا کرنا ہے۔‘‘ شینڈ نے ایک بار پھر ساری کہانی دہرائی۔ اچانک زور یو نے پوچھا۔’’ اس سارے قصے میں وان گرن لنگ نامی کسی جرمن کا ذکر نہیں آیا۔‘‘
یہ نام سن کر سامی چونک گیا۔ مارگو نے کہا ۔’’ یہ وان گرن لنگ کون ہیَ‘‘
شینڈ نے کہا۔’’ یہ نام پہلی بار سن رہا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصہ لمبا ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’وان گرن لنگ کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ جنگ کے خاتمے پر اس نے کیمل برگ میں دوسرے نازی افسروں کے ساتھ خود کشی کرلی ہے، لیکن میں نے اُسے صرف دو ہفتے پہلے زندہ دیکھا تھا۔ ‘‘ زور یونے زور دے کر کہا۔
’’ کہاں دیکھا تم نے اُسے؟‘‘ شینڈ نے پوچھا۔
’’روسانتا کے قریب پہاڑیوں میں۔‘‘ زور یو نے جواب دیا۔
’’ تم نے اس کی رپورٹ افسران کو دی ہے؟‘‘ شینڈ نے پوچھا۔
’’بھئی مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ مارگو تم جلدی کھڑی ہو جاؤ۔ اپنا ضروری سامان ساتھ لے لو۔ یہ جگہ تمھارے لیے اب خطرناک ہو گئی ہے ۔‘‘
شینڈ نے معاملہ اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس کیا۔ اچانک وہ بولا:
’’ نہیں، ابھی آپ لوگ یہاں سے نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟ کیا مارگو یہیں رہے تاکہ وہ لوگ اس کو آسانی سے تلاش کر لیں ۔‘‘زوریونے جھنجھلا کر کہا۔
’’ بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے ناکہ فلیٹ میں زبر دستی گھسنے والے لوگ آخر چاہتے کیا ہیں۔ وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہیں جو کارلو کے پاس تھی ۔‘‘ شینڈ نے نرمی سے اسے سمجھایا ۔’’ اور پھر ہمیں کارلو نے بلایا تھا۔ ہمیں اس معاملے کی ہر لحاظ سے تحقیق کرنی ہے ۔‘‘
زور یو نے کہا۔’’ سالوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد لوگ تھک ہار کر مایوس ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ خزانہ گم ہو چکا ہے، لیکن اب ایک بار پھر امید ہو گئی ہے۔ ہمیں وہ تعویذ کا ٹکڑا تلاش کرنا ہو گا جو کار لونے ڈولومٹ قبیلے کے لوگوں سے چھپا کر کہیں رکھا ہے۔ خزانے تک پہنچنے کا راستہ شاید اسی تعویذ سے معلوم ہو گا۔ تم مجھے بتاؤ مارگو کہ کارلو نے یہ تعویذ کہاں چھپایا ہے؟ ‘‘
شینڈ نے حیران ہو کرپوچھا ۔’’یہ ڈولومٹ کون لوگ ہیں؟ ‘‘
’’مونٹ رگا زو کے پہاڑی علاقوں میں پھیلا ہوا یہ ایک قبیلہ ہے۔ یہ بڑے جنگجو، ضدی اور مرنے مارنے والے لوگ ہیں۔ اجنبیوں سے تو بات ہی نہیں کرتے۔‘‘ زور یو نے بتایا۔
سامی نے پہلی مرتبہ اس گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔’’ تو یہ لوگ خود ہی اپنے لیے خزانے کو کیوں نہیں حاصل کر لیتے ؟‘‘
’’بھئی ان کو تو سارا قصہ معلوم ہی نہیں۔ البتہ ان سے بہت سی کام کی باتیں معلوم کی جاسکتی ہیں۔‘‘
پھر اچانک ہی شینڈ نے کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔’’ ہم خواہ مخواہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے مس کو رنزی کو کسی محفوظ جگہ پرپہنچانا چاہیے۔ ‘‘پھر اس نے سامی سے سرگوشی کی۔’’ تم ان لوگوں پر نگاہ رکھو۔ میں صاحب سے بات کر کے مارگو کے لیے کسی محفوظ جگہ کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘ 
اس دوران زوریو کی نظریں بڑی بے چینی سے کمرے میں بھٹک رہی تھیں۔ اچانک اس کی نگاہ کارلو کی لکھنے والی میز پر پڑی۔ وہ اس کی طرف جھپٹا۔ 
شینڈ نے اس سے کہا۔’’ میں ابھی آتا ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے کسی جگہ کا انتظام کرلوں۔‘‘
زور یو نے اس کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا۔’’ میں اور مارگو جب تک سامان باندھتے ہیں ۔‘‘
عمارت کے صدر دروازے پر وہ آدمی ابھی تک اخبار پڑھ رہا تھا۔ شینڈ نے اس کے پاس رک کر آہستہ سے کہا۔’’ مارٹن! لڑکی ٹھیک ہے، سامی اوپر ہی ہے۔ تم خیال رکھنا کوئی شخص فلیٹ میں داخل نہ ہونے پائے ۔‘‘یہ کہ کر شینڈ آگے بڑھ گیا۔
ٹیلی فون پر اس نے ٹرنیشم کو سارے حالات بتائے اور پھر واپس چل دیا۔ صدر دروازے پر اس نے مارٹن سے پوچھا ۔’’سب ٹھیک ہے نا!‘‘
’’ بالکل خاموشی ہے۔ کسی چیز کی آواز نہیں آرہی۔‘‘
شینڈ دو دوسیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا۔ اوپر دروازہ بند تھا اور اس میں تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے زور زور سے دروازہ پیٹ ڈالا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ شینڈ کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے کندھے سے زور دار ٹکر دروازے پرماری۔ دوسری ٹکر میں دروازہ پیچھے جاپڑا۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ اچانک اسے میز کے نیچے سامی کی ٹانگیں نظر آئیں۔ شینڈ نے پورے فلیٹ کو جلدی جلدی دیکھا۔ سارا سامان بکھرا پڑا تھا۔ دراز یں کھلی ہوئی تھیں۔ اس جگہ کی بڑی جلدی میں تلاشی لی گئی تھی۔ وہ واپس پلٹا اور سامی کی ٹانگیں پکڑ کر اُسے میز سے باہر نکالا۔ سامی آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا۔ اس کا جسم ٹھنڈا تھا۔ ایک گلاس پانی کا بھر کرجب سامی کے منہ پر پڑا تو اس نے پٹ پٹاکر آنکھیں کھول دیں۔ وہ چت پڑا ہوا چھت کو گھور رہا تھا۔
’’ کیا ہوا تھا؟‘‘ شینڈ نے پوچھا۔ 
سامی نے اپنے سر پر ابھرے ہوئے گو مڑے کو سہلاتے ہوئے کہا۔’’ وہ لوگ میز کے اوپر کچھ تلاش کر رہے تھے۔ میں جھک کر اس کی دراز میں دیکھنے لگا۔ بس اس کے بعد میرے سر پر کچھ لگا اور مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘
شینڈ نے اسے بتایا کہ مارگو اور زور یو بھاگ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پچھلے راستے سے بھاگے ہوں گے کیوں کہ ادھر تو مارٹن موجود ہے۔ پھر شینڈ نے سامی سے کہا:
‘‘ اگر اب تمھاری طبیعت کچھ ٹھیک ہے تو چلو چلتے ہیں۔ میں یہ خبر ٹرنیشم کو بھی دے دوں۔‘‘ وہ ایک دم مایوس ہو گیا تھا۔ اس نے ایک نظر کمرے میں بکھرے ہوئے سامان پرڈالی اور پھر بڑ بڑ ایا۔’’ شاید وہ تعویز زور یو کو مل گیا ہے۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے یہ تعویذ !‘‘ سامی نے اپنی جیب میں سے ایک تعویذ نکال کر اسے دکھایا جو ایک سنہری زنجیر میں جھول رہا تھا۔’’ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہ سجاوٹ کی کوئی چیز ہے۔‘‘
شینڈ نے جھپٹ کر وہ تعویذ اس سے لے لیا اور سامی سے پوچھا:’’ تمھیںیہ کہاں سے ملا ہے ۔‘‘
’’ جب میں چائے بنانے کچن میں گیا تو یہ مجھے چائے کی پتی کے ڈبے میں ملا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ بے کا رسی چیز ہے اور بے خیالی میں اپنی جیب میں رکھ لیا۔‘‘ سامی نے کہا۔
بہر حال کار لو اور مارگو کو ضرور معلوم ہو گا کہ یہ کہاں رکھا گیا تھا۔ خیر اب اس چکر کو چھوڑو اور ان دونوں کو تلاش کرو ۔‘‘شینڈ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ چندھیائی ہوئی سی آنکھوں والا ایک شخص وہاں آگیا۔ اس نے ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔’’ کس نے توڑا ہے یہ درواز ہ؟ اس کا تم کو معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔‘‘
شینڈ نے اسے ایک طرف ہٹا کر سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر مارٹن کو آواز دی۔ مارٹن نے آکر شینڈ کو بتایا کہ یہ مسٹر ہنری ہیں جو اس عمارت کے ناظم ہیں۔ ہنری سے مارٹن نے شینڈ کا تعارف کرایا تو وہ نرم پڑ گیا۔ اس نے بتایا کہ مارگو کورنری جو اس فلیٹ میں رہتی ہے ،اس کی آنکھوں کا رنگ سبز مائل بھورا ہے اور بالوں کا رنگ سنہری ہے۔ جب کہ شینڈ جس مارگو کو رنزی سے ملا تھا وہ اس حلیے کی نہ تھی۔ اس نئی بات پرشینڈ چکرا گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کالے بالوں والی اور نیلی آنکھوں والی وہ لڑکی کون تھی۔ کیا وہ نقلی مارگو تھی؟ کیا اس کا چچا زور یو بھی نقلی تھا؟ اچانک شینڈ نے مڑ کر مارٹن سے پوچھا:
’’ میں نے تم کو یہاں مارگو کی نگرانی کے لیے بھیجا تھا۔ یہ سب کیا چکر ہے؟‘‘
مارٹن نے اسے بتایا کہ میں نے یہاں آکر فلیٹ کے دروازے پر دستک دی تھی۔ اندر سے ایک لڑکی نے پوچھا۔’’ کون؟‘‘ تو میں نے جواب میں بتایا کہ مجھے آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ آج میری چھٹی ہے۔ میں گھر پر ہوں۔ میں نے کہا کہ’’ ٹھیک ہے آپ آرام کیجیے۔‘‘
’’ بے وقوف !وہ لڑکی مارگو کورنزی نہیں تھی بلکہ وہ تو کوئی اور تھی۔ اور وہ اس فلیٹ میں وہی چیز تلاش کرنے آئی تھی جس کے لیے کارلو کو قتل کیاگیا ہے۔ ‘‘شینڈ نے غصے سے کہا۔
بعد میں شینڈ نے ٹرنیشم کو ساری بات فون پر بتائی۔ وہ بھی اس پر بہت حیران تھا۔ اس نے خیال ظاہر کیا کہ وہ لوگ کافی عرصے سے اس فلیٹ کی نگرانی کر رہے ہوں گے اور وہ لڑکی صرف تعویذ کی تلاش میں آئی ہوگی۔’’ تو پھر اصلی مارگو کورنری کہاں ہے؟ ‘‘شینڈ نے پوچھا۔
’’وہ صبح صبح خاموشی سے چلی گئی تھی۔ اس نے پولیس میں اپنے چچا کے گم ہونے کی رپورٹ لکھوائی تھی۔ وہ صبح اسی بارے میں معلوم کرنے گئی تھی لیکن وہاں سے اس کو ٹال دیاگیا۔‘‘ ٹرنیشم نے گویا پردے پرساری کہانی دیکھ کر بیان کردی۔
’’ لیکن یہ بتاؤ کہ جس چکر میں یہ لوگ (جعلی مارگو اور زور یو) وہاں داخل ہوتے تھے، وہ چیز بھی حاصل کر سکے یا نہیں۔‘‘
’’ پتا نہیں۔ کمروں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کوشش کافی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔‘‘ شینڈ نے بتایا۔
’’ تم ایسا کرو کہ مرکزی ریکارڈ روم چلے جاؤ۔ وہاں ہمارے ایک پرانے دوست نما دشمن لورن ماسٹر کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔ اس کا قد پانچ فٹ چھ انچ ہے۔‘‘ ٹر نیشم نے اسے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ لورن ماسٹر کی کوئی تصویر کہیں بھی نہیں ہے ۔‘‘شینڈ نے کہا۔
آج صبح میدرڈ پولیس نے مرکزی ریکارڈ روم کو ایک تصویر بھیجی ہے جو لورن ماسٹر کی ہے۔ تم اس کی ایک نقل لے کر اس پڑوسی کے پاس جاؤ جس نے پردے کی آڑ سے ان لوگوں کو مکان کے اندر جاتے دیکھا تھا۔ کوشش کر لو ہو سکتا ہے وہ عورت پہچان جائے کہ یہ کار لو کو اندر لے جانے والوں میں سے ہے ۔‘‘ ٹرنیشم نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔
صبح بے کا ر ضائع ہو گئی تھی۔ دوپہر کو شینڈ نے سامی کو ساتھ لیا اور مارگو کورنری کے فلیٹ پہنچا جہاں مارٹن نے اسے بتایا کہ مارگو کورنزی ابھی تک فلیٹ پر واپس نہیں آئی ہے۔ اس کے علاوہ مارٹن نے ڈپارٹمنٹل اسٹور سے بھی معلوم کیا تھا جہاں سے پتا چلا کہ اس نے  15 پہلے چھٹی لی تھی اور اب تک واپس نہیں آئی۔ ایک بار پھر ان کی کار، گر یک اسٹریٹ پولیس اسٹیشن کی طرف دوڑ رہی تھی۔ ڈیسک سارجنٹ سے شینڈ نے پوچھا:
’’ کل ایک لڑکی مارگو کورنزی اپنے چچا کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے آئی تھی۔‘‘
’’ ہاں، وہ آج بھی آئی تھی۔‘‘ سارجنٹ نے جواب دیا۔
شینڈ تو اُ چھل پڑا۔ ’’ حلیہ بتا سکتے ہو؟‘‘
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں، سنہری چمکدار بال اور سبز مائل بھوری آنکھیں۔ قد تقریباً پانچ فٹ چار انچ۔ بیضوی چہرہ اور رنگ زرد۔‘‘ سارجنٹ نے تفصیل سے اس کا حلیہ دہرا دیا۔
شینڈ نے اس کا شکر یہ ادا کیا اور اندر چلا گیا۔ اندر آپریشن روم میں مولوانی سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس نے شینڈ کو ایک تصویر دی جس کے بارے میں بتایا کہ یہ لورن ماسٹر ہے۔ شینڈ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی کیوں کہ تصویر والے اس چہرے کو وہ پہلے سے جانتا تھا اور وہ زور یو کورنزی کی حیثیت سے شینڈ سے مل چکا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد شینڈ اپنے فلیٹ میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا۔ کمرے کی حالت بہت خراب تھی۔ سامان بکھرا پڑا تھا۔ ساری دراز یں کھلی پڑی تھیں۔ لکھنے کی میز کا کباڑا ہو گیا تھا۔ قالین تہہ کر کے ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ کرسیوں اور صوفوں کے گدے پھٹے ہوئے تھے۔ ابھی وہ کمرے کی حالت پر غور کر ہی رہا تھا کہ کسی کی آہٹ ہوئی۔ نیولے کی شکل کا آدمی ہاتھ میں آٹو میٹک پستول لیے کھڑا تھا۔ اس نے پستول سے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ چپ چاپ اندر چلو !‘‘چانک سینڈ کو دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی تو پستول کی ٹھنڈی نال اس کی گردن سے لگ گئی۔ شینڈ چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔ اب اسے دوسرا آدمی نظر آیا۔ وہ ایک لمبے قد کا صحت مند اور سرخ چہرے والا آدمی تھا۔ شینڈ ان دونوں کو پہچان گیا۔ وہ ان ہی میں سے تھے جو کارلو کو کیفے سلویا سے اغوا کر کے لے گئے تھے۔
’’ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘ شینڈ نے ان سے پوچھا۔
’’ جو ہم چاہتے تھے وہ ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ جولیس! اسے دکھا دو۔‘‘
جولیس کا ہاتھ جیب میں گیا اور جب باہر آیا تو اس میں وہی سنہری اور چمک دار تعویز موجود تھا جو اس نے مارگو کے فلیٹ سے حاصل کیا تھا۔ ایک بندوق والے نے کہا ۔’’تم لوگ پاگل ہو گئے ہو جو اسے یہ دکھا رہے ہو۔‘‘
شینڈ نے کہا۔’’ سنو! میرا نائب کار کو پارک کرنے گیا ہے۔ ایک منٹ بعد وہ یہاں آ جائے گا۔ تم نے تعویذ حاصل کر لیا ہے۔ لہٰذا اب جلدی سے رفو چکر ہو جاؤ۔‘‘
چھوٹے قد والے نے کہا۔’’ سید ھے شرافت سے کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم یہاں اکیلے آئے ہو۔‘‘
شینڈ چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسی دوران ان لوگوں نے فارسی میں بھی کچھ باتیں کیں۔ پھر جو لیس نے کہا۔’’ اسے کرسی سے باندھ کر غسل خانے میں پہنچا دو، پھر ہم نکل چلیں گے ۔‘‘
انھوں نے شینڈ کے منہ میں حلق تک روئی ٹھونسی اور اس کے منہ پر ٹیپ بھی چپکا دیا۔ پھر اس کو مضبوطی سے کرسی سے باندھ کر ان لوگوں نے غسل خانے میں پہنچا دیا اور دروازہ بند کر کے چلے گئے۔
شینڈ خاموشی سے ایک طرف پڑا ہوا تھا۔ تھوڑا سا زور لگانے سے اس کی کرسی گر گئی تھی اور وہ اس سمیت فرش پر الٹا لیٹا ہوا تھا۔ وہ صرف اپنی پلکیں ہلا سکتا تھا۔ کافی کوشش کے بعد اس نے اپنے آپ کو تھوڑی دور تک گھسیٹا پھر ہمت ہار گیا۔
سامی گریک اسٹریٹ پولیس اسٹیشن گیا۔ وہاں سارجنٹ نے اس کو مشورہ دیا کہ غیر ملکی شعبے سے رابطہ قائم کرو۔ غیر ملکی شعبے میں اسے ایک افسر نے بتایا کہ ہمارے پاس سب لوگوں کی تصویریں نہیں ہوتیں۔ اس سلسلے میں آپ فارن آفس کے پاسپورٹ سیکشن جائیں۔ پاسپورٹ دفتر میں کافی دوڑ دھوپ کے بعد سامی کو جو لیس ڈیلو فونٹ کے بارے میں کچھ معلومات ہو سکی۔ اس کے بارے میں پاسپورٹ آفیسر کا کہنا تھا کہ مئی 1948ء تک وہ لندن میں تھا۔ اس کے بعد وہ یہاں نہیں آیا۔ جب کہ سامی کا کہنا تھا کہ وہ کل یہاں موجود تھا اور ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کارلو کو اغوا کر کے قتل کیا ہے۔ بہر حال وہ ساری معلومات حاصل کر کے خوشی خوشی شینڈ کی طرف گیا مگر شینڈ کی حالت دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے بڑی مشکل سے دروازہ توڑ کر شینڈ کو غسل خانے سے باہر نکالا تھا۔ پھر سامی نے اس کو سارے دن کے کام کی رپورٹ دی۔ جولیس ڈیلو فوٹ کا حلیہ سامی کی زبان سے سن کر شینڈ چونک اٹھا۔ کیوں کہ وہ ان میں شامل تھا جنہوں نے اس کے فلیٹ پر چڑھائی کی تھی۔ بعد میں شینڈ نے ٹرنیشم کو تازہ صورت حال بتائی ۔جولیس ڈیلوفونٹ کے بارے میں سن کر ٹر نیشم نے کہا۔’’ ہاں ٹھیک ہے۔ وہ جو لیس ہی ہو گا کیوں کہ اسے فارسی آتی ہے۔‘‘ پھر ٹرنیشم نے اسے بتایا کہ میں نے ان کے لیے جو جال بچھایا ہے، اس کو توڑ کر ملک سے باہر جانا آسان نہیں ہے۔
’’ کیا مطلب؟ کیا وہ ملک سے باہر جائیں گے؟‘‘ شینڈ نے حیرت سے پوچھا۔ 
’’ہاں بھئی! اگر انھوں نے وہ تعویز حاصل کر لیا ہے تو وہ ضرور باہر جائیں گے۔تم اب سو جاؤ۔‘‘ کہہ کر رابطہ ختم ہو گیا۔ ساڑھے چار بجے صبح فون کی گھنٹی نے اسے اٹھا دیا، دوسری طرف ٹرنیشم تھا:
’’ انھوں نے ہوشیاری کے ساتھ تیزی بھی دکھاتی ہے۔ انھوں نے ایک لانچ کرائے پر حاصل کی ہے۔ بندرگاہ پر میرے ایک آدمی نے انھیں پہچان لیا۔ ہم سارے راستے ان کا آسانی سے پیچھا نہیں کر سکتے۔ وہ پیرس سے ضرور ریل کے ذریعہ سے جائیں گے۔‘‘
شینڈ نے گھڑی دیکھی۔ اس کے پاس پون گھنٹہ تھا۔ جہاز پران کی سیٹیں ٹرنیشم نے ریزر و کرادی تھیں۔ اس کا پروگرام تھا کہ وہ پیرس تک لانچ سے جائیں گے اور شینڈ اور سامی ہوائی جہاز سے۔ پیرس میں ان کا باقاعدہ پیچھا شروع کر دیا جائے گا۔ نرم ملائم بادلوں میں جہاز تیرتا ہوا پیرس کی فضاؤں میں نمودار ہوا۔ شینڈ نے کسٹم آفیسر کو اپنا بیج دکھایا۔ اِس کو اُس نے سلوٹ مارا۔ اچانک کالے لباس والے ایک لمبے سے آدمی نے آگے آکر سر جھکاتے ہوئے کہا:
’’موسیو شینڈ! پیرس میں، میں آپ کا میزبان ہوں۔‘‘
فرانس کی پولیس کو انھوں نے اصل کہانی نہیں بتائی تھی بلکہ دوسرا ہی چکر بتایا تھا۔ اب ان کو فوسٹر سے ملاقات کرنی تھی جس نے ٹرنیشم کی ہدایت پر ان کے لیے پیرس سے خفیہ روانگی کا انتظام کر رکھا تھا۔ فوسٹر فرانس میں برطانیہ کے محکمہ خزانہ کا نمائندہ تھا۔ اس نے بڑی گرمجوشی سے دونوں کا استقبال کیا اور انھیں بتایا کہ مجھے ٹرنیشم نے فون پر سب کچھ بتا دیا ہے۔ تمھارے مجرم دوست یہاں سے کچھ فاصلے پر واقع ایک ہوٹل میں موجود ہیں۔ میرے آدمی مستقل ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ فوسٹر نے ریسیور اٹھایا اور بات سننے لگا۔ ساتھ ساتھ ہی وہ ایک پرچی پر کچھ لکھتا بھی جا رہا تھا۔ فون بند کر کے اس نے شینڈ کو بتایا کہ ان لوگوں نے پیرس میلان ایکسپریس سے اپنی سیٹیں بک کرائی ہیں۔ یہ ریل چار بچے روانہ ہوگی۔ شینڈ نے اس سے کہا کہ ہماری سیٹیں بھی کسی طرح اسی ریل میں بک کرا دو۔ ان کے ڈبے میں نہ سہی آگے پیچھے کے کسی ڈبے میں ہو جائیں۔
(۳)
چار بجے سے پہلے سامی اور شینڈ پیرس میں میلان ایکسپریس کے خوب صورت ڈبے میں آمنے سامنے کی سیٹوں پر بیٹھے ہوتے تھے۔ ان کی سیٹوں کے درمیان ایک خوب صورت اور چھوٹی سی میز تھی، جس پر شربت کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ میز پر ایک خوب صورت لیمپ رکھا ہوا تھا جس کی گلابی گلابی روشنی بڑی بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ ٹھیک 4 بجے ریل نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا اور میلان کی طرف روانہ ہو گئی۔ میلان جنوب میں پہاڑوں کے دوسری طرف واقع تھا۔ پہاڑوں کا یہ سلسلہ شمال مشرقی اٹلی تک پھیلا ہوا ہے۔ ٹرین جھولا جھلاتی، سیٹیاں بجاتی اڑی چلی جارہی تھی۔ شینڈ نے اپنی سیٹ سے سر ٹکایا اور سو گیا۔ ابھی اسے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سامی نے اُسے جھنجھوڑ کر اُٹھا دیا۔ اور تیزی سے اس سے کہا۔’’ وہ دونوں یہاں ہیں۔ مجھے ان کے اصلی نام تو نہیں معلوم مگر آخری بار ان کو مارگو کورنری اور زور یو کورنزی کی حیثیت سے دیکھا تھا۔‘‘
اچانک شینڈ کے جبڑے بھنچ گئے۔ وہ ایک دم ہی اس کے سامنے آگئی۔ بلاشبہ وہ مارگو تھی نقلی مارگو۔ وہ اس وقت بڑا قیمتی لباس پہنے ہوئے تھی۔ وہ سیدھی شینڈ کے پاس آکر بولی۔’’ہیلو مسٹر شینڈ آپ کیسے ہیں اور آپ جناب سامی صاحب! آپ کچھ ناراض نظر آرہے ہیں۔ خیر چھوڑیے، میری کچھ خاطر تواضع نہیں کریں گے آپ لوگ ہے۔‘‘ اس نے بڑے آرام سے سیٹ پر بیٹھ کر کمر اس سے ٹکالی اور بولی۔’’ ڈیئر شینڈ! میں تمھیں تمھارے فائدے کی بات بتانے آئی ہوں۔ تم اگر جان کی سلامتی چاہتے ہو تو اس ٹرین سے فوراً اتر جاؤ۔ اگلا اسٹیشن ڈی چون کا ہوگا۔ بس وہاں اتر کر واپس چلے جانا۔ اس آدمی سے اپنے آپ کو بچانا جس کا نام زور یو ہے ۔‘‘
’’رات کا کھانا کھائے بغیر؟‘‘ شینڈ نے سنجیدگی سے کیا۔
’’ تمھیں ڈی جون میں اس سے بھی اچھا کھانا مل جائے گا۔‘‘
’’مگر ہمیں تو ٹرین کے کھانے بہت پسند ہیں اور پھر ہمارے ٹکٹ تو میلان تک ہیں۔‘‘ شینڈ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نیلی آنکھوں میں اچانک سختی نظر آئی پھر وہ بولی۔’’ میں تم سے مذاق نہیں کر رہی ہوں۔ تم میلان تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ ‘‘
’’ سنو! لورن ماسٹر جیسے لوگ میری جیب میں پڑے رہتے ہیں۔ ہم پھر ملیں گے۔‘‘ اس بارشینڈ کی آواز میں سختی تھی۔
اس نے گلاس میز پر رکھا اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔
سامی اور شینڈ آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک خوب صورت سی عورت پر پڑی۔ وہ سیدھی شینڈ کی میز کے پاس آکر رک گئی ۔’’ معاف کیجیے گا مسٹر شینڈ! میرا نام ایلافن لے ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو، ہم لندن میں ایک کلب میں مل چکے ہیں۔ یاد آیا؟‘‘
’’ہاں ،ہاں۔بھئی وہ پارٹی میں کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘ شینڈ نے جلدی سے کہا۔
’’ ان سے ملو۔ یہ میرے بھائی جان فن لے ہیں۔‘‘ جان فن لے بڑا ہنس مکھ اور زندہ دل نوجوان تھا۔
پھر شینڈ نے انھیں چائے کی دعوت دے ڈالی۔ وہ سب اسی جگہ آکر بیٹھ گئے جہاں سے کچھ دیر پہلے مارگو کو رنزی اُٹھ کر گئی تھی۔ شینڈ نے اس سے پوچھا۔’’ آپ کہیں دور جارہے ہیں؟‘‘
’’ ہم لاسین جارہے ہیں۔ دراصل ہمیں پہاڑوں پر چڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ‘‘ جان فن نے نے بتایا۔ تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد جان اور ایلا چلے گئے تو شینڈ نے سامی سے کہا۔’’ میں نے اس عورت کو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پتا نہیں یہ کیسا کھیل ہو رہا ہے ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد یہ لوگ آہستہ آہستہ سامان والی بوگی کی طرف چل دیے۔ یہ بو گی ان کے ڈبے اور اس ڈبے کے درمیان تھی جس میں لورن ماسٹر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ سامان والی بوگی کے دروازے پر تالا تھا اور دروازہ کوری ڈور میں تھا۔ سامی نے اپنا کام دکھایا۔ ہلکی سی آواز کے ساتھ تالا کھل گیا۔ دونوں نے اندر داخل ہو کر چٹخنی لگادی۔ وہاں پر مسافروں کے سامان کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔ ہر صندوق، اٹیچی اور بیگ پر مسافر کے نام کی پرچی لگی ہوئی تھی۔ ان کو مار گواور زور یو کا سامان تلاش کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی، کیوں کہ ان کے سامان کی پہچان فوسٹر نے انھیں بتادی تھی۔ سامی نے صندوق کھولا اور اس کی تلاشی لینی شروع کر دی۔’’ ماسٹر میں ذرا بھی عقل ہوگی تو اس نے اس میں تعویز نہیں رکھا ہو گا‘‘ سامی نے کہا۔ اچانک ہی شینڈ کے ہاتھ میں زیورات کا ایک مخملی ڈبا آ گیا۔ اس کو کھولتے ہی شینڈ کے منہ سے اطمینان بھری سانس نکل گئی ۔سونے کا تعویذ اس میں موجود تھا۔ اچانک انھیں کھڑکی میں ایک آدمی کا چہرہ نظر آیا۔ وہ شیشوں میں سے اندر جھانک رہا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے کھڑ کی کو پکڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں بندوق تھی جس کی نال کا رخ سامی اورشینڈ کی طرف تھا۔ وہ لورن ماسٹر تھا۔ اچانک سامی اور شینڈ نے سامان کے ڈھیر کے پیچھے ایک ساتھ چھلانگ لگائی۔
’’یہ یہاں کیسے آگیا؟ بے وقوف! اپنی جان کا دشمن ہو رہا ہے۔ اگر اس کا ہاتھ پھسل جاتا تو کیا ہوتا اور کوئی مسافر کھڑکی سے جھانک کر اسے دیکھ کر گارڈ کو بلا سکتا ہے ۔‘‘ سامی بڑ بڑا رہا تھا۔
’’ یہ اصل میں اپنا سامان دیکھنے آیا ہوگا۔ دروازہ اندر سے بند دیکھ کر اس نے کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’ میں تو کہتا ہوں کہ یہ پاگل ہے۔ اسے سونے کا تعویز اپنی جیب میں رکھناچاہیے تھا۔‘‘
اس کو شک ہو گا کہ راستے میں کوئی چھین نہ لے۔ اس سامان کی طرف تو کسی کا بھی دھیان نہ جاتا ۔‘‘ شینڈ نے جھانک کر دیکھا۔ اب لوران ماسٹر کھڑکی میں نظر نہیں آرہا تھا۔
’’جلدی آؤ ،اگر اس نے کنڈکٹر کو بلالیا تو ہم پھنس جائیں گے ۔‘‘ سامی اور شینڈ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلے مگر پھر ان کے قدم زمین میں گڑ گئے۔ سامنے ہی لورن ماسٹر بندوق ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ۔’’ چلو واپس اندر کی طرف۔ ہاتھ اوپر اٹھا لو ۔‘‘ الٹے قدموں سامی اور شینڈ واپس پلٹے۔ اس نے اندر آ کر دروازہ بند کر لیا۔ لورن ماسٹر کی آنکھیں شینڈ پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ اس کو زوریو کی حیثیت سے پہچاننے میں اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔
’’ تم سمجھ رہے تھے میں کنڈکٹر کو بلانے گیا ہوں۔ میں اتنا بے وقوف نہیں کہ خواہ مخواہ فرانس کی پولیس سے الجھوں۔ چلو جلدی سے وہ چیز واپس کر دو۔ ورنہ میں تمھیں مار کر ٹرین سے باہر پھینک دوں گا۔ ٹرین اس وقت بہت تیز ہے۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا ۔‘‘ اس نے کہا۔
شینڈ سمجھ رہا تھا کہ ماسٹر غلط نہیں کہہ رہا ہے۔ وہ بالکل مایوس ہو گیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اچانک اس نے چیخ کر کہا۔’’ تم ہمیں مار کر ہی وہ تعویذ حاصل کر سکتے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اگر تمھاری یہی مرضی ہے تو یہی سہی ۔‘‘
ماسٹر کی انگلی بندوق کی لبلبی پر پہنچ گئی۔ شینڈ انتظار میں تھا کہ کب گولی اس کے سینے میں دھنستی ہے۔ مگر اچانک ہی بازی پلٹ گئی۔ ماسٹر کے پیچھے ایک ہاتھ بلند ہوا جس میں ایک لکڑی تھی۔ پوری طاقت سے لکڑی ماسٹر کے سر پر ماری گئی مگر وہ اچانک ہی خطرہ محسوس کرکے پلٹا۔ لکڑی اس کے کندھے پر پڑی اور اس کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کر نیچے گر پڑی۔ ماسٹر نے فائر کر دیا تھا۔ گولی فرش میں دھنس گئی۔ شینڈ نے غوطہ مار کر ماسٹر کی ٹانگیں پکڑ کر گھسیٹ لیں۔ ادھر سامی نے بھی ماسٹر پر چھلانگ لگادی۔
بوگی میں جان فن لے داخل ہوا۔ ’’ یہ کیا شور ہے؟‘‘ شینڈ نے اسے بتایا کہ اس نے ہماری ایک چیز چرالی تھی۔ اب ہم نے واپس لے لی تو یہ جھگڑا کر رہا ہے۔ 
جان غور سے بوگی میں بکھرے ہوئے سامان کو دیکھ رہا تھا۔ ماسٹر لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور بولا۔’’ تمھیں اس کا نتیجہ بھگتنا ہو گا۔‘‘
شینڈ نے کہا ۔’’ اس کو پکڑ لو۔ یہ کار لو کا قائل ہے۔ اسے اس جرم کی سنر ملنی چاہیے۔‘‘ شینڈ اور سامی نے ماسٹر کو دونوں طرف سے پکڑا اور ایک جھٹکے سے ٹرین کا دروازہ کھول دیا۔ ٹرین پوری رفتار سے چنگھاڑتی ہوئی جا رہی تھی۔ شینڈ نے اس سے کہا۔’’ شکر کرو ہم تمھیں جان سے نہیں ماررہے ہیں۔ ہم تو تم کو صرف ٹرین سے نیچے پھینک رہے ہیں۔ ‘‘
ماسٹر گڑ گڑانے لگا:’’ مجھے باہر نہ پھینک۔۔۔مجھے باہر نہ۔۔۔‘‘اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ سامی اور شینڈ نے اس کو باہر دھکیل دیا۔ ماسٹر نے ہوا میں ہاتھ پائوں چلا کر کچھ پکڑنے کی کوشش کی ،پھر زور دار آواز سے زمین سے ٹکرایا اور دور تک لڑھکتا چلا گیا۔ سامی اور شینڈ نے باہر جھانک کر دروازہ بند کیا اور پھر سامان والی بوگی میں گئے۔ وہاں انھوں نے ہر جگہ سے اپنی انگلیوں کے نشان صاف کیے اور اس کو پہلے کی طرح بند کر کے اپنی سیٹوں پر چلے آئے۔ کوری ڈور میں انھیں ایلا فن لے ملی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔’’ سب ٹھیک ہوگیا؟‘‘ جواب میں شینڈ بھی مسکر ادیا۔
ٹرین کا سفر سوئٹزرلینڈ کی سرحد کی طرف جاری تھا۔ مارگو کورنزی کے پاس اس وقت چار آدمی موجود تھے۔ ان میں سے دور یلوے کے افسر تھے۔ ایک افسر اُٹھ کر شینڈ کے پاس آکر بولا۔’’ موسیو! مجھے آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔ در اصل ٹرین میں سے ایک آدمی غائب ہو گیا ہے۔ ان سے ملیے۔‘‘‘‘ اس نے مارگو کی طرف اشارہ کیا۔
’’ یہ مادام ٹورٹیلی ہیں۔ انھوں نے غائب ہونے والے آدمی سے آپ کو آخری بار بات کرتے دیکھا ہے۔ غائب ہونے والے صاحب ان کے چچا تھے ۔‘‘
شینڈ نے اس کی بات سن کر اطمینان سے کہا۔’’ ہو سکتا ہے وہ ڈی جون کے اسٹیشن پر اُتر گئے ہوں۔‘‘
’’ نہیں، مادام کا خیال ہے کہ وہ وہاں نہیں اترے۔‘‘ 
’’تو پھر میں کیا بتا سکتا ہوں۔ آپ ان کے خیال سے ہی کچھ پوچھیے۔ ویسے ان کو چچا بدلنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
’’ یہ مذاق نہیں ہے موسیو!‘‘
’’تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’ آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
شینڈ تیار ہو گیا۔ آفیسر نے سامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’موسیو! آپ اور یہ شخص آخری بار موسیو ٹور ٹیلی کے ساتھ سامان والے حصے کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ دکھائی نہیں دیے۔ پوری ٹرین میں انھیں تلاش کر لیا گیا ہے مگر وہ موجود نہیں ہیں۔‘‘
’’ میں نے تو آپ سے کہا تھا کہ وہ ڈی جون پر نہ اتر گئے ہوں ۔‘‘
’’ٹرین کی تلاشی ڈی جون کا اسٹیشن آنے سے پہلے لی جا چکی تھی۔‘‘
’’ تو پھر آپ نے ڈی جون اسٹیشن کی پولیس کو رپورٹ کیوں نہیں کی ؟‘‘
’’ موسیو! دراصل ہم ٹرین کے پروگرام کوخواہ مخواہ خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور ویسے بھی ڈی جون تک ہماری تفتیش ادھوری تھی۔ ہاں! اگلے اسٹیشن پر اس کی رپورٹ کر دی جائے گی۔‘‘
’’اگلا اسٹیشن کون سا ہے؟ ‘‘
’’اگلا اسٹیشن سرحد کا ہو گا ۔‘‘
شینڈ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ رپورٹ پولیس کو ہو گئی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ یہاں کوئی ٹرنیشم بھی موجود نہیں تھا جو کرشمہ دکھا دیتا۔ شاید لورن ماسٹر زندہ ہے۔ وہی یہ نئے نئے گل کھلا رہا ہے۔ خزانہ حاصل کرنے کی دوڑ میں کئی جماعتیں شریک ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اسے حاصل کرلے اور یہاں غالبا گدھ کی شکل والا دان گرن لنگ بھی ضرور ہو گا۔ سوچتے سوچتے اچانک شینڈ بولا۔’’ گارڈ صاحب! ہمیں جو کچھ معلوم تھا، آپ کو بتا چکے ہیں۔‘‘
اچانک مار گو غصے سے بھڑک اٹھی۔’’ تم سب جھوٹے شیطان ہو۔ تم نے انھیں مار دیا ہے۔ تم سب ان کی جان کے دشمن تھے۔ بتاؤ وہ کہاں ہیں؟‘‘
گارڈ نے اس کے آگے جھکتے ہوئے کہا۔’’ مادام! اس وقت ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ کی حفاظت کروں گا۔ میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ پریشانی اور غم سے آپ کا یہ حال ہو گیا ہے۔‘‘
لڑکی غصے سے اس کو گھورتی ہوئی چلی گئی۔ شینڈ، سامی، ایلا اور جان باتیں کرنے لگے۔ شینڈ کا خیال تھا کہ رات کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے وہ لوگ کچھ گڑ بڑ کریں۔
’’ جان فن لے نے کہا۔’’ میری مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔‘‘ 
شینڈ نے اس کا شکر یہ ادا کیا اور کہا۔’’ ہمیں باری باری اپنی نیند پوری کرنی ہے۔ اگلا اسٹیشن گیارہ بجے آئے گا۔ اس وقت ہم سب کو ہوشیار ہو جانا چاہیے ۔‘‘
جان فن لے نے کہا۔’’ آپ لوگ میلان جا رہے ہیں۔ ہمیں راستے میں اُترنا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ میلان چلیں۔ ہمیں تو کوہ پیمائی کرنی ہے چاہے وہ سوئٹزر لینڈ میں ہو یا اٹلی میں۔۔۔‘‘
شینڈ نے کہا۔’’ ہماری وجہ سے آپ کی تفریح برباد ہو جائے گی۔‘‘
’’ارے، آپ اس کی فکر نہ کریں۔‘‘ فن لے نے کہا۔
شینڈ اس کا شکر یہ ادا کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا مگر بالکل نہ سوسکا۔ وہ بار با راٹھ رہا تھا۔ اس وقت ٹرین جنیوا جھیل کے ساتھ ساتھ دوڑ رہی تھی۔ صبح کے وقت اس نے ایک نیلی جھیل دیکھی۔ اس کے آس پاس سفید رنگ کے سرخ چھتوں والے مکان پھیلے ہوئے تھے مگر شینڈ ان تمام خوب صورت منظروں سے مزہ نہ لے سکا۔ اس دوران جولیس، مارگو، نیولے کی شکل والا کوئی بھی نظر نہ آیا۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا، وہ بے کا رثابت ہوئی۔ آخر ٹرین میلان اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرپہنچی۔
ان کو بڑی حیرت ہو رہی تھی۔ اسٹیشن پر کسی نے انھیں نہ روکا۔ پتا نہیں گارڈ نے پولیس کو رپورٹ کی تھی یا نہیں۔ یہ کیا چکر تھا۔ سوچتے سوچتے شینڈ سر جھٹک کر اسٹیشن سے باہر آ گیا۔ فن لے نے اس سے کہا کہ ہمارے ساتھ ہی ہوٹل چلو مگر شینڈ نے کہا۔ ’’ہمیں ایک ضروری کام ہے۔ اس سے فارغ ہو کر لنچ آپ کے ساتھ کریں گے۔‘‘
ایک گھنٹے بعد نہاد ھو کر شینڈ اور سامی بڑے ڈاک خانے پہنچے جہاں ان کے لیے ایک پیغام موجود تھا۔ یہ ایک ٹیلی گرام تھا۔
مائننگ انجینئر شینڈ اور اس کا نائب سامی سرکاری دورے پر روسانتا پہنچ رہے ہیں۔ میئر پریرا سے انھیں سرکاری ملاقات کرنی ہے ۔ ‘‘نیچے ٹرنیشم کے دستخط تھے۔ لنچ پر یہ طے ہو گیا تھا کہ فن بھی کوہ پیمائی کے لیے اسی علاقے میں جائے گا جہاںشینڈ اور سامی کو جانا تھا۔
جان فن لے نے ایک کار بھی حاصل کرلی تھی جو اس کے ایک دوست نے دی تھی۔ اب ان کا سفر زیادہ آسان ہو گیا تھا۔ کار ہوٹل سے نکلی اور شہر سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑی۔ اسٹیرنگ پر فن لے موجود تھا۔ آدھے گھنٹے میں وہ آٹو سٹراڈا پہنچ گئے۔ جس کے شمال میں وینس آباد ہے۔ یہ راستہ میلوں دور تک بالکل سیدھا چلا گیا ہے۔ اس میں کہیں بھی کوئی موڑ نہیں ہے۔ سفر خاموشی سے ہو رہا تھا۔ شنیڈ کی آنکھیں نیند سے بو جھل ہو رہی تھیں۔ اس کی گردن بار بار سینے پر ڈھلک جاتی تھی۔
اچانک جان کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔’’ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ یہ کا ر ہمارے پیچھے میلان سے لگی ہوئی ہے۔‘‘
شینڈ نے کہا۔’’ تم نے اسے آگے نکلنے کا موقع دیا ؟‘‘
ایلا نے کہا۔’’ تم وقت ضائع نہ کرو۔ گاڑی کی رفتار تیز کر دو۔‘‘
ایکسی لیٹر پر جان کے پائوں کا دباؤ بڑھ گیا۔ کا ر ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ ذرا سی دیر میں ان کا فاصلہ بہت ہو گیا۔ اب کا ر103 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ پیچھے آنے والی کار کی رفتار بھی اچانک تیز ہو گئی۔ سامی نے اپنا آٹو میٹک ریوالور نکال لیا۔ اچانک جان نے کہا:
’’میں کار کی رفتار کم کر رہا ہوں، کیوں نہ یہیں دیکھ لیا جائے کہ یہ کیا چاہتے ہیں۔‘‘ پیچھے آنے والی کا ربڑی تیزی سے قریب آرہی تھی۔ جان فن لے بولا کہ آگے ایک جگہ ہے وہاں ہم ان سے دو دو ہاتھ کریں گے۔ شینڈ نے کہا۔’’ میں نے ڈیلو فونٹ کو دیکھ لیا ہے تم سیدھے چلتے رہو۔ ان کو گزرنے دو۔‘‘
پچھلی کا ر کے لوگ اب پہچانے جارہے تھے۔ لورن ماسٹر، جولیس ڈیلوفونٹ،نیولے کی شکل والا، لڑکی اور ایک نیا چہرہ ڈرائیور کا تھا۔ اچانک شینڈ نے چیخ کر کہا۔’’ بریک لگاؤ۔ سب نیچے جھک جائیں ۔‘‘
اسی کے ساتھ ٹا می گن کی ریٹ ریٹ سے فضا گونج اٹھی۔ فن لے نے وقت پر بریک لگایا تھا۔ گولیاں ان کے سروں پر سے گزر گئیں۔ دوسری کار تھوڑے فاصلے پر رک گئی۔ فن لے نے چیخ کر سب کو کار سے باہر آنے کو کہا۔ جولیس کود کر اپنی گاڑی سے باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹامی گن تھی۔ سامی پہلے ہی اپنا ریوالور نکال چکا تھا۔ اس نے کار کی آڑ سے ڈیلوفونٹ کے سینے پر فائر جھونک دیا۔ اس کی آواز کسی توپ سے کم نہ تھی۔ فن لے نے پیچھے سے نکلتے ہوئے کہا۔’’ سب زمین پر لیٹ جائیں ۔‘‘ فن لے اپنی کار میں اچانک ہی اسٹرینگ پر پہنچ گیا۔ اس نے گاڑی آندھی طوفان کی طرح آگے بڑھادی۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر ان کی گاڑی نیچے گرا دے۔ ادھر ان لوگوں نے اچانک ہی خطرے کو بھانپ لیا اور جلدی جلدی کار میں سوار ہو کر بھاگ نکلے۔ شنیڈ نے سامی سے چیخ کر کہا کہ اس کے ٹائروں کو نشانہ بناؤ۔ مگر سامی کا پستول خالی ہو چکا تھا۔ کار تیزی سے نظروں سے دور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ فن لے کی کا ر میں جگہ جگہ سوراخ ہو گئے تھے۔ سامی نے کہا۔’’ یہاں ڈیلوفونٹ کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ اٹلی کی پولیس کے سوال وجواب سے بچنا ہے تو جلدی نکل چلو۔‘‘
انھوں نے اٹلی کی پولیس سے بچنے کے لیے بڑی سٹرک کو چھوڑ کر اونچے نیچے اور بے ڈھنگے راستوں پر سفر کیا۔ اب ان کو اپنے سامنے دور بہت دور افق پر پہاڑوں کی چمکتی ہوئی بنفشی، نارنجی چوٹیاں نظر آنے لگی تھیں۔ سٹرک آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جارہی تھی۔ وہ ایک بڑی سی وادی میں داخل ہو گئے اور شام ہوتے ہی سان سگر دو پہنچ گئے۔ راستے میں ایک ہوٹل کے نام کا بورڈ اور تیر کا نشان دیکھ کر فن لے نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ ہوٹل میں ان کے علاوہ اور کوئی مسافر نہیں تھا۔ اس میں ایک بیرا تھا اور ایک منیجر۔ کھانا کھانے کے بعد منیجر ان کے پاس آیا اور جھک کر انھیں سلام کر کے بولا:
’’سائنورا، سائنوریا! ازراہ کرم میرے دفترمیں تشریف لائیے۔ مداخلت کی معافی چاہتا ہوں مگر معاملہ بہت اہم ہے۔‘‘
تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد شینڈ کھڑا ہو گیا۔ اس کے ساتھ اس کے سب ساتھی بھی چل دیے۔ اندر منیجر کے کمرے میں اٹلی کی پولیس کے دو افسر کھڑے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے داخل ہونے کے بعد منیجر کو واپس جانے کا حکم دے دیا۔ اور پھر ان سے کہا ۔’’تم میں سے کوئی اٹلی کی زبان جانتا ہے؟‘‘
’’ جی ہاں، میں تھوڑی بہت سمجھ لیتا ہوں ۔‘‘ شینڈ نے کہا۔
’’ تو پھراپنے ساتھیوں کو بتا دو کہ تم سب کے بارے میں ہمیں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ میلان آٹو اسٹرا ڈاروڈ پر ایک آدمی کی لاش ملی ہے۔ وہاں زبر دست فائرنگ کی گئی ہے اور تمھاری گاڑیوں میں گولیوں کے نشان ہیں۔ گاڑی اس ہوٹل کے باہر موجود ہے۔ تم انکار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اپنے اپنے بیان لکھواؤ اور ہوشیاری دکھانے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘
اس نے ایک کا غذ اور قلم ہاتھ میں لیا اور سب سے پہلے شینڈ سے سوال وجواب شروع کیے۔ اب شینڈ کو اس ساری کارروائی میں لورن ماسٹر کا ہاتھ صاف نظر آرہا تھا۔ شینڈ کو یقین نہیں تھا کہ اٹلی کی پولیس اتنی تیزی دکھا سکتی ہے۔ اب وقت آگیا تھا کہ شنیڈ کوئی کارنامہ دکھائے۔ چنانچہ اس نے اچانک ہی آگے بڑھ کر میز الٹ دی اور اس سے پہلے کہ حیران پریشان آفیسر کچھ سمجھ سکتا۔ اس پر چھلانگ لگا دی۔ دوسرے افسر کو سامی نے اپنی کھڑی ہتھیلی کے ایک ہی وار سے ڈھیر کر دیا۔ شینڈ نے پولیس افسر کو پکڑ کر سامی سے اسے باندھنے کے لیے کہا۔ دونوں پولیس آفیسروں کو کرسیوں سے باندھ کر وہ لوگ باہر نکل آئے۔
ہال میں منیجر کھڑا کا نا پھوسی کر رہا تھا۔ شینڈ کو اچانک سامنے دیکھ کر وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔ ’’سس سائنور! مم… نے ان کو یقین دلایا تھا کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ لیکن وہ بھی اپنے فرائض سے مجبور تھے۔‘‘
شینڈ نے کہا۔’’ وہ تھوڑی دیر کے لیے آپ کے دفتر میں رہیں گے۔ ان کو کام کرنے دینا اور پریشان بالکل نہ کرنا۔‘‘ 
’’کیوں نہیں، کیوں نہیں۔‘‘ منیجر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
پھر شینڈ نے کہا۔’’گرمی بہت ہے۔ ہم تھوڑی دیر باہر ٹہلیں گے ۔‘‘ وہ سب لوگ ٹہلتے ہوئے باہر آگئے۔ ایلا کو شینڈ نے پہلے ہی اشارہ کر دیا تھا۔ وہ ان کا سامان پچھلے دروازے پر پہنچانے گئی تھی۔ انھوں نے ادھر اُدھر دیکھا اور سب کار میں گھس گئے۔ شینڈ اور سامی لپک کر ہوٹل کے پچھلے دروازے پر گئے اور وہاں ایلا سے سامان لا کر کار میں جلدی جلدی ٹھونسنے لگے۔ پانچ منٹ بعد وہ قصبے سے باہر تھے۔ رات ہونے کے ساتھ ساتھ سردی بڑھتی جارہی تھی۔ دور نظر آنے والی پہاڑیاں گھاٹیاں وادیاں، اور جنگل سب کہر میں چھپ گئے تھے۔ پچاس گز آگے جا کر فن لے نے کار گھمائی۔ ان کے سامنے اب ایک چھوٹی سی تنگ وادی تھی۔ اس کے بالکل ساتھ ایک چھوٹا سا دریا بہ رہا تھا جو چاندنی میں ایک سفید فیتے کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔ دور بہت دور اندھیرے میں کہیں مونٹ روگاز وموجود تھا۔ کار لہراتی بل کھاتی ڈھلوان راستے پر وادی کی طرف چلی جارہی تھی۔ سب لوگ اونگھ رہے تھے سوائے فن لے کے۔ آخر کا ر وہ رو سانتا گانو کے قریب پہنچ گئے۔ یہ قصبہ مونٹ رو گازو کی جڑ میں واقع ہے۔
فن لے نے زور سے کہا۔’’ چلو بھئی مسافرو۔ میرا مطلب ہے کہ سامی اورشینڈ۔ آپ لوگوں کا سفر ختم۔‘‘
’’ کیا مطلب؟ کیا ہم نیچے نہیں جائیں گے؟ ‘‘ایلا نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم پہلے ہی پولیس کی نظروں میں آچکے ہیں ۔‘‘ فن لے نے جواب دیا۔’’ ہم یہاں سے 12 میل دور شمال مشرق میں ایک گا ئوں جائیں گے۔ اور اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو اوسٹریا میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘ فن لے نے ایلا کو اپنا پروگرام بتایا۔
پھر یہ لوگ جدا ہو گئے۔ سامی اور شینڈپیدل چلتے ہوئے قصے میںداخل ہو گئے۔ میئر کا دفتر آسانی سے مل گیا۔ اس کے دفتر کے باہر اس کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ شینڈ نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلااور ایک لمبا تڑنگا بھاری مونچھوں والا آدمی باہر آیا۔ اس نے اٹلی کی زبان میں کہا۔’’ سائنور شینڈ! آئیے تشریف لائیے۔‘‘
اندر میئر اپنے دفتر میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے پاس دو پولیس والے بھی کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پستول تھے۔ جن کا رخ سامی اور شینڈ کی طرف تھا۔
’’اپنے ہاتھ اوپر اٹھالو۔ تم نے ڈیلوفونٹ کو قتل کیا ہے۔ سان سگر دو میں دہشت پھیلائی ہے۔ تم کو گرفتار کر کے فوری طور پر سان سگر دو لے جایا جا رہا ہے۔‘‘ پولیس آفیسر نے سختی سے کہا۔
اچانک شینڈ بیمار سا نظر آنے لگا۔ اس نے اور سامی نے خاموشی سے ہاتھ اٹھا دیے۔ میئر اپنی جگہ سے اٹھا اور ان سے بڑی نرمی سے بولا۔’’ تم جر من سمجھ سکتے ہو نا؟ آرام سے بیٹھ جائو اور میری بات غور سے سنو۔ مسٹر شینڈ! میں تمھیں اپنے قصے میں خوش آمدید کہتا ہوں، مگر حکم حکم۔ کیا یہ ضروری تھا کہ آپ یہ سب کچھ کرتے؟‘‘ 
’’جی ہاں، یہ ضروری ہو گیا تھا۔‘‘ شینڈ نے خاموشی سے اپنے جرم کا اقرار کیا۔
’’ لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ تم ایک انجینئر ہو۔‘‘
’’جی ہاں! یہ بات سچ ہے۔ لیکن ہر بار مجھ پر پیچھے سے حملہ کیا گیا۔ میں نے صرف اپنا بچاؤ کیا ہے۔ مجھے تو میرے افسروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔‘‘
میئر نے سر ہلاتے ہوئے ایک کا غذ نکالا جس پر بہت سی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ اس نے وہ کا غذا سے دکھاتے ہوئے کہا:
’’ یہ تمھارا اجازت نامہ ہے۔ تم مونٹ روگازو کے لیے چوڑے علاقے میں اپنا معد نیات کی تلاش کا کام انجام دے سکتے ہو۔ اس کے لیے جدید مشینری بھی منگالی گئی ہے۔ جو یہاں سے کچھ دور ایک گا ئوں میں ہے۔ لیکن افسوس! اب اس کام میں دیر لگے گی۔ ہمارے قصبے کی خوشحالی میں ابھی وقت لگے گا۔‘‘
شینڈ حیران کھڑا رہ گیا۔ واقعی ٹرنیشم تو کوئی چھلاوہ تھا۔ وہ کب، کیا اور کس طرح کرتا تھا کسی کو پتا نہ چلتا تھا۔ اب اس نے یہ چکر چلا دیا تھا۔ اچانک میئر پھر بولا:
’’بہر حال فرض پہلے ہے۔ قانون کو سب سے پہلے اہمیت دی جانی چاہیے۔ لیکن خبر دار اپنی جگہ سے میری اجازت کے بغیر نہ ہلنا۔ آفیسر و! اپنے ریوالور تیار رکھو۔ عزیزو !میں قانون کے دائرے میں تمھاری تلاشی لوں گا۔‘‘
شینڈ اور سامی کی مکمل تلاشی لی گئی اور ان کی جیبوں سے نکلنے والے سامان کو ایک لفافے میں ڈال دیا گیا مگر وہ سونے کا تعویذ دیکھ کر میئر کسی سوچ میں گم ہو گیا۔ پھر اس نے پوچھا کہ یہ تم کو کہاں سے ملا ہے؟ تم کون ہو؟ 
تعویذ کے برآمد ہونے کے بعد حالت خطر ناک ہو گئی تھی۔ وہ خاموشی سے بیٹھا کافی دیر تک کچھ سوچتا رہا۔
پھر اچانک ہی اس نے پولیس آفیسروں سے کہا۔’’ اپنے پستول جیب میں رکھ لو۔ یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ تم نے ان لوگوں کو کبھی نہیں دیکھا۔ سمجھے گئے؟‘‘
اس کے بعد اُن کے رویے میں تبدیلی نے شینڈ اور سامی کو حیران کر دیا۔ ان کی زبر دست خاطر تواضع کی گئی۔ سونے کے لیے بہترین کمرہ دیا گیا جس میں عمدہ اور آرام دہ بستر لگے ہوئے تھے۔ سامی اور شینڈ خدا کا شکر ادا کر رہے تھے۔ بستروں پر لیٹتے ہی انھیں کوئی ہوش نہ رہا۔ وہ اس قدر تھک گئے تھے کہ گہری نیند سو گئے۔ صبح کی روشنی پھیلتے ہی وہ جاگ گئے۔ کمرے کی کھڑکی سے جھانک کر انھوں نے دیکھا کہ دور دور تک روسانتا کے میدان اور کھیت نظر آرہے تھے۔ کافی دور مونٹ روگازو کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی بہت ہی بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ شینڈ نے دروازہ کھولا۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی جس نے اسے بتایا کہ میئر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
ناشتے پر میئر نے ان سے کہا۔’’ دوستو آرام سے نیند آئی نا! اب مجھے بتاؤ کہ میں تمھارے لیے کیا کروں ۔‘‘
’’ ہمیں ایک آدمی کی تلاش ہے۔ روسانتاکے سب لوگ اسے جانتے ہیں۔ اس کا نام زور یو کورنزی ہے۔‘‘
’’ اوہ! ہاں ہاں۔ اپریل کے آخر میں وہ گائوں سے گیا تھا۔ اس کے بعد اس کو کسی نے نہیں دیکھا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پہاڑ کی چوٹی کی طرف چلا گیا ہے۔‘‘
’’ کیا وہ پہاڑ کے اوپر رہ رہا ہو گا؟‘‘
’’ شاید، لوگوں کا تو یہی خیال ہے۔ اور ہاں! ایک خاص بات یہ ہے کہ سورج نکلنے کے بعد ایک اجنبی بہت سے ساتھیوں کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ اس نے اس طرح کی کچھ معلومات حاصل کیں۔ اس کے ساتھ رسیاں، کلہاڑیاں، کمبل اور کھانا وغیرہ تھا۔ صرف تین گھنٹے پہلے وہ اوپر روانہ ہو گیا ہے۔‘‘
شینڈ سن کر اچھل پڑا۔’’ کیا آپ اس کا حلیہ بتا سکتے ہیں؟‘‘
پھر میئر کے دو تین جملوں سے ہی شینڈ نے اندازہ کر لیا کہ وہ ماسٹر کی پارٹی تھی۔ ان پہاڑیوں میں کوئی ایسا شخص رہتا ہے جس نے زور یو کو دیکھا ہو؟‘‘ شینڈنے میئر سے پوچھا۔ 
’’پاگل ہرمت۔ وہ سچ مچ پاگل نہیں ہے۔ بس تھوڑا سا خبطی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا اصل نام مکاریو ہے۔ لوگوں نے اس کو بس دور سے دیکھا ہے۔وہ ایک پر اسرار آدمی ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کھاتا پیتا کہاں سے ہے؟ وہ کسی کو پریشان نہیں کرتا اس لیے ہم بھی اس کو کچھ نہیں کہتے۔ مکار یومونٹ رو گازو کا کیڑا ہے۔ میرے خیال میں اگر تم اسے اپنی مدد کے لیے تیار کر لو تو تم آسانی سے چاندی تلاش کر لو گے۔‘‘ میئر نے کہا۔’’ تم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو مجھے بتاؤ۔ سامان گائڈ وغیرہ۔‘‘
’’ شکریہ، سامان آپ ہمیں دلواد یجیے لیکن ہم سفر اکیلے ہی کریں گے۔‘‘ شینڈ نے اس سے کہا۔
’’ ٹھیک ہے ،تو پھر اتنا تو میں کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے تم کو اپنی گاڑی میں پہنچا دوں۔‘‘ میئر نے پیش کش کی۔
میئر کی کاراگرچہ پرانی تھی اور چلنے میں شور بھی بہت کرتی تھی مگر چلنے میں ٹھیک ٹھاک تھی۔ شینڈ کی نگا ہیں ہر طرف بڑی تیزی سے دوڑ رہی تھیں۔ راستے ہیں جگہ جگہ میئر ان کو ان جگہوں کے بارے میں بتاتا رہا۔ ایک جگہ میئر نے کار روک کر کہا۔’’ دوستو اب آپ کو آگے کا سفر پیدل طے کرنا ہو گا۔ سورج غروب ہونے کے بعد سردی بڑھ جائے گی۔ اوپر اس موڑ کے پاس تمھیں ایک کیبن ملے گا جہاں کوہ پیما، رک کر آرام کرتے ہیں۔ شام سے پہلے تم وہاں پہنچ جاؤ گے۔ اچھا خدا حافظ ۔‘‘
پہاڑ پر چڑھنا واقعی آسان کام نہ تھا۔ شروع میں تو وہ بغیر رکے اور بغیر بات کیے مسلسل سفر کرتے رہے مگر بعد میں ایک جگہ رک کر انھوں نے تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر سفر شروع کر دیا۔ آٹھ بجے وہ ایک کٹا ئو والی چٹان کے قریب پہنچ گئے۔ اس سے آگے مونٹ روگازو کا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ یہیں وہ لکڑی کا کیبن تھا۔ اس کے قریب ایک چشمہ بہ رہا تھا۔ اندر لکڑی کے کیبن میں وہ کمبل بچھا کر لیٹ گئے۔
(۴)
صبح کا منظر بڑا سہانا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ایک طرف کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ دوسر کی طرف سفید بادلوں کے ٹکڑے، روئی کے گالوں کی طرح تیرتے پھر رہے تھے۔ انھوں نے چشمے کے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا۔ سامی نے اسپرٹ کے چولہے پر کافی تیار کی اور پھر وہ سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ جب وہ باہر آئے تو ایک چرواہا اپنی بکریوں کا ریوڑ لے کر وہاں آگیا تھا۔ شینڈ نے اس سے وہاں کی زبان میں بات کی اور پہاڑ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں۔ اس نے بتایا کہ جنوب کی طرف سے چار آدمی اوپر پہاڑ پر گئے ہیں۔ پھر اس نے زور یو کورنزی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ پچھلی گرمیوں میں وہ یہیں تھا۔ اس کے بعد نظر نہیں آیا۔ شینڈ نے محسوس کیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ پھر اس نے پاگل ہرمت کے بارے میں پوچھا تو چرواہا کچھ کہے بغیر واپس چل دیا۔ شینڈ نے اسے آواز دے کر بلایا اور سنہری تعویز دکھایا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ شینڈ کے قدموں میں گر پڑا۔ پھر اس نے شینڈ کو ساری بات سچ سچ بتادی۔ اس نے بتایا کہ جنوبی حصے کی طرف مکار یو ایک جھو نپڑی میں رہتا ہے۔ ہر گرمی میں جب برف پگھلتی ہے تو نیچے آجاتا ہے۔ تین ہفتے پہلے وہ یہاں نیچے تھا۔ زور یو کو میں نے دو دن پہلے دیکھا تھا۔
حالات اور واقعات اتنی جلدی جلدی بدل رہے تھے کہ شینڈ چکرا کر رہ گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بات سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے۔ 
ساری بات سن کر شینڈ نے چرواہے کو جانے کی اجازت دے دی۔ اوپر چڑھنے کے بعد انھیں ایک چٹانی کٹاؤ کے پیچھے ایک راستہ ملا جس کے بارے میں چرواہے نے انھیں بتایا کہ یہ چھوٹا راستہ شمالی اور جنوبی حصے کو ملاتا ہے۔ وہاں سے انھوں نے نیچے نظریں دوڑائیں۔ دور دور تک کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اونچے نیچے لہراتے بل کھاتے راستوں پر چلتے رہے۔ اچانک شینڈ کی نگاہ تھوڑے فاصلے پر نیچے بنی ہوئی ایک جھونپڑی پر پڑی۔ اس کے باہر پٹرول کے خالی ڈبے بھی پڑے ہوئے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چٹان پر پیر جماتا ہوا نیچے اترا اور جھونپڑی کے اندر داخل ہو گیا۔ سامی چٹان پر لیٹا ہواا سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک شینڈ تیزی سے باہر آیا۔ اس نے بتا یا کہ اندر ایک آدمی کی لاش پڑی ہے۔
’’ کیا یہ مکاریو ہے؟‘‘
’’ نہیں، اس کا لباس پاگل ہرمت والا نہیں ہے ۔‘‘
’’میں نے اس کی کلائی پر دیکھا ہے۔ اس کا نام زور یو کو رنزی ہے ۔‘‘
’’ تو ماسٹر نے اس کو مار دیا ؟‘‘
’’انھوں نے یہی سلوک اس کے بھائی کا رلو کورنزی کے ساتھ بھی کیا تھا۔‘‘
شینڈ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ مرنے سے پہلے زور یو نے کچھ بتا دیا ہے یا نہیں۔ اگر بتا دیا ہے تو لوگ خزانے کی طرف دوڑ پڑے ہوں گے۔
شینڈ نے ٹھنڈی سانس بھر کر سامی سے کہا۔’’اب تو ہمیں ماسٹر کے پیچھے چلنا ہوگا۔‘‘
اچانک کالے کالے بادل امڈ آئے۔ سورج غائب ہو چکا تھا۔ دھند اور ملگجی سی روشنی میں انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ آخر زیادہ دھند ہونے کی وجہ سے انھیں رکنا پڑا۔
’’بارش ہونے والی ہے ۔‘‘ سامی نے کپکپاتے ہوئے کہا۔ 
’’کوئی چھجے دار چٹان تلاش کر لو تا کہ بارش سے بچ سکیں ۔‘‘ شینڈ نے کہا۔
انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک سایہ دار چٹان تلاش کر لی اور اس کے نیچے بیٹھ گئے۔ وہ بالکل خاموش بیٹھے اندھیرے کو گھور رہے تھے۔
اچانک سامی نے کہا۔’’ غور سے سنو! کسی کے چلنے کی آواز آرہی ہے۔ شاید کوئی اس طرف آرہا ہے۔‘‘
وہ چوکنے ہو گئے تھے اور ان کے پستول جیبوں سے باہر آگئے تھے۔
’’ یہ ان میں سے کوئی ہے۔‘‘ سامی نے سرگوشی کی۔
قدموں کی آواز قریب آتی چلی گئی۔ دھند میں سے ایک ہیولا نکل کر اچانک اُن کے سامنے آگیا۔ 
’’ بہت خوب! کیا ز بر دست استقبال ہو رہا ہے۔ بستول، کلہاڑی اور بندوق کے ساتھ ۔‘‘ فن لے نے چہکتے ہوئے کہا۔ 
شینڈ نے حیران ہو کر کہا۔’’ تم ؟‘‘
’’جی، میں اور ایلا۔‘‘
’’ مگر تم لوگ تو اوسٹر یا چلے گئے تھے ؟‘‘
’’وہاں سے نکلنا آسان نہ تھا۔ اٹلی کی پولیس کچھ زیادہ ہی چوکس ہو گئی ہے۔ ہمیں مجبوری میں واپس ہونا پڑا لیکن ہم نے سوچ لیا تھا کہ پہاڑ کی سیر کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ بس ہم ادھر چلے آئے ۔‘‘
’’ بہت اچھا ہوا کہ تم ہمیں مل گئے۔‘‘ شینڈ خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’ ہم نے تم کو نیچے سے دیکھ لیا تھا ۔‘‘
’’کیا تم کو لورن ماسٹر کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ ‘‘شینڈ نے پوچھا۔
’’کیا مطلب؟ کیا وہ بھی یہاں موجود ہے؟‘‘ فن کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ جی وہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم سے آگے جارہا ہے۔‘‘ شینڈ نے اسے بتایا۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ کھانا واقعی عمدہ تھا۔ شینڈ نے فن لے سے کہا:
’’اب تم ہمارا ساتھ دو گے نا! ہمیں لورن ماسٹر کو پکڑنا ہے۔‘‘
’’ اتنا عمدہ کھانا کھلانے کے بعد تو میں اس کے پیچھے چوٹی تک دوڑ جاؤں گااور اسے نیچے پھینک دوں گا۔‘‘
کھانا کھاتے کھاتے ہی دُھند چھٹ گئی۔ سورج کی روشنی ہر طرف پھیل گئی۔ چھپے ہوئے منظر پھر نظر آنے لگے۔ انھوں نے دوبارہ سفر شروع کیا۔ آدھے گھنٹے بعدانھوں نے ایک جگہ خیمہ لگایا۔ اسپرٹ کے چولہے پر سامی نے کافی تیار کی۔ بڑی خوشگوار گرمی ہو گئی تھی۔ انھوں نے اپنے گرم کپڑے اتار دیے۔ فن لے نے شینڈ کی جیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ یہ بھیڑ کی عمدہ کھال کی بنی ہوئی ہے۔ اس کا رنگ بھی بہت اچھا ہے۔‘‘
پھر وہ لوگ سو گئے۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ شینڈ کی آنکھ کھل گئی۔ خیمے میں کوئی موجود تھا۔ اس کے آہستہ آہستہ سانس لینے کی آواز آرہی تھی۔ شینڈ خاموش پڑا غور کرتا رہا۔ پھر اچانک ہی خیمے کا پردہ اٹھا۔ اس میں سے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے نظر آئے اور پھر ایک لمحے بعد خیمے کا پردہ دوبارہ گر گیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔
’’یہ کون ہو سکتا ہے؟ فن لے ؟ سامی ؟‘‘ شینڈ نے کچھ سوچا اور پھر خاموشی سے باہر نکل گیا۔ وہ آہستہ آہستہ جھکا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بلی کی طرح ہر طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس نے تالاب کے پاس سے کسی کو گزرتے دیکھا۔ وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔ سایہ ایک لمحے کے لیے پھر نظر آیا اور پھر غائب ہو گیا۔ وہ تالاب کے بالکل ہی قریب پہنچ گیا۔ رات کے سناٹے میں صرف چشمہ بہنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اچانک اس کو اپنے پیچھے ہلکی سی آہٹ کا احساس ہوا۔ اس نے تیزی سے گھوم کر دیکھا مگر دیر ہوچکی تھی۔ سایے نے اسے اٹھا کر چشمے میں پھینک دیا۔
(۵)
نیولے کی شکل والا آدمی بری طرح کپکپا رہا تھا۔ سردی سے اس کے دانت بج رہے تھے۔ اس نے کہا:’’ آئندہ میں اس قسم کے موسم میں رات نہیں گزاروں گا۔ چاہے مجھے کوئی افریقہ کا سارا سونا ہی کیوں نہ دے دے۔‘‘
’’ بک بک مت کرو۔ آخر تم چھت کے نیچے ہو۔‘‘ ماسٹرنے کہا۔
’’ تم نے کل مجھے جھونپڑی کے باہر سردی میں بندوق دے کر بٹھا دیا کہ فلاں فلاں شینڈ آئے گا۔ اسے مارنا ہے اور میں ساری رات ٹھنڈ سے سکڑتا رہا مگر یہاں کوئی نہیں آیا۔ ‘‘
لڑکی نے جو پہلے نقلی مارگو کو رنزی بن چکی تھی ،غصے سے بولی۔’’پاگل ہو گئے ہو۔ ذراسی برف سے گھبرا گئے۔‘‘
جس جگہ وہ رات کو پہنچے وہاں بڑی موٹی اور بھاری برف موجود تھی۔ ان کے سر کے بالکل اوپر ایک خطرناک موڑ کاٹنے کے بعد موٹ رگا زو کی چوٹی نظر آرہی تھی۔ اس کے پاس ہر طرف برف ہی برف تھی۔
’’احمق! یہ کپکپانا اور تھر تھرانا بند کردو ورنہ بندوق کس طرح پکڑو گے ۔مکاریو نے تمھیں بتا یا نہیں تھا کہ اوپر جانے کے لیے صرف یہی ایک راستہ ہے۔‘‘ ماسٹر نے سختی سے کہا۔ 
مکار یو پھٹے پرانے کمبلوں میں لپٹا ہوا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے کہا۔’’ سائنو ر! مجھے میرا حصہ تو ملے گا نا؟‘‘
ماسٹر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔’’ تم اپنا ہیٹ تک اس سے بھر لینا ۔‘‘
پھر ماسٹر نے نولے کی شکل والے سے کہا۔’’ اب تم یہاں رک کر شینڈ کا انتظار کر و۔ مجھے معلوم ہے تمھارا نشا نہ کبھی خطا نہیں ہوتا۔ صرف ایک فائر میں اس کی زندگی کا چراغ گل کر دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ماسٹر!‘‘ نیولے کی شکل والا بڑ بڑا یا۔
’’ اب ہم سب لوگوں کو اس غار کو کھودنا ہے۔ چلوشا باش۔‘‘ ان سب نے کلہاڑیاں، پھاوڑے اور کدالیں لیں اور ماسٹر کے پیچھے چل پڑے۔
اچانک ہی سامی کی آنکھ کھل گئی۔ اس کو احساس ہوا کہ خیمے میں اور کوئی نہیں ہے۔ اس نے اپنا کمبل ایک طرف پھینکا اور باہر آ گیا۔ باہر چاند کی روشنی میں جگہ بڑی پراسرار لگ رہی تھی۔ سامی نے اپنا پستول نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور ہر طرف نظر یں دوڑانے لگا۔ ہر طرف خاموشی اور سناٹا تھا۔ بس ایک آواز تھی اور وہ آواز چشمہ بہنے کی تھی۔ اچانک اس کو تالاب کے کنارے کوئی پڑا ہوا نظر آیا۔ یہ شینڈ تھا۔ سامی نے تیزی سے شینڈ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اُ سے کھڑا کیا۔ اور اپنے کندھے پر لاد کر خیمے میں لے آیا۔ اس نے جلدی جلدی سارے کمبل کپکپاتے ہوئے شینڈ پر ڈال دیے اور جلدی سے اسپرٹ کے چولہے پر کافی بنائی۔
کافی کے گھونٹ بھرتے ہوئے شینڈ نے اسے مختصراً ساری بات بتائی۔ اس وقت یہ بھی انکشاف ہوا کہ جان فن لے اور ایلا فن لے بھی غائب ہیں۔ یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ ایک چٹان کے اوپر نیولے کی شکل والا آدمی اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ اس کی نگا ہیں اوپر جانے والے راستے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ہر طرف نگاہ رکھے ہوئے تھا ۔کافی انتظار کے بعد اسے بہت دور کوئی حرکت کرتا نظر آیا۔ اس نے جلدی سے دور بین نکال کر آنکھوں سے لگائی۔ آنے والا ہری جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ اس کی شکل تو صاف نظر نہیں آرہی تھی۔ لیکن جیکٹ کی وجہ سے نیولے کی شکل والے نے اُسے پہچان لیا کہ وہ شینڈ ہے۔ نیولے کی شکل والے نے رائفل سید ھی کی اور لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ اس کو پسینا آگیا تھا۔ اس نے ہری جیکٹ کے دائیں طرف نشانہ باندھا اور فائر کر دیا۔ ادھر شینڈ کو اچانک ہی خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ ادھر فائر ہوا اُدھر زمین پر گر پڑا۔ نیولے کی شکل والا مسکراتا ہوا اٹھا اور چل پڑا۔ا سے بہت خوشی تھی کہ صرف ایک فائر میں میں نے اس کا کام تمام کر دیا ہے۔
مکاریو کے ساتھ لورن ماسٹر آگے آگے چل رہا تھا۔ راستے میں جگہ جگہ برف نے ان کا راستہ روکا۔ مگر انھوں نے اپنے لیے راستہ بنا لیا۔ اچانک ایک جگہ مکاریو نے کچھ سوچا، ادھر اُدھر کا جائزہ لیا اور پھر بولا۔’’ ہاں یہی جگہ ہے۔ بالکل یہی ۔‘‘ ماسٹر کی ہدایت پر کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ دس گز کھدائی کے بعد ایک چٹان آگئی۔ ماسٹر نے مکاریو کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا مگر اس کا کہنا تھا کہ یہی جگہ ہے۔
’’ ٹھیک ہے۔ کوشش کر لیتے ہیں۔ اگر کچھ نہ ملا تو تمھارے ساتھ میں برا سلوک کروں گا ۔‘‘ ماسٹر نے مکار یو کو دھمکی دی۔
اچانک فائر کی آواز سے سارا علاقہ گونج اُٹھا۔
’’ اوہ! شینڈ بیچارا! آخر اس دنیا سے چلا ہی گیا۔‘‘ ماسٹر نے سنتے ہوئے کہا۔
پھر انھوں نے کھدائی کا کام زور شور سے شروع کر دیا۔ اچانک ہی چٹان کے برابر میں ایک بہت برا سوراخ ہو گیا جس کے اندر خالی جگہ تھی۔ یہ ایک غار تھا۔ اس میں ہر طرف اندھیرا تھا۔ جھانک کر دیکھنے پر کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس دوران نیولے کی شکل والا شینڈ کو گولی مار کر واپس آچکا تھا۔ سب سے پہلے ماسٹر غار میں اُترا۔ اس کے ہاتھ میں ایک موم بتی تھی۔ راستہ شروع میں تنگ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چوڑا ہوتا گیا۔ کافی دور چلنے کے بعد اچانک راستہ ختم ہو گیا۔ ماسٹرنے پیروں سے زمین کو ٹٹولا۔ اس جگہ سے تقریباً دو فٹ نیچے ایک اور جگہ تھی جو چو کور تھی۔ اس میں ہر طرف چمکتے ہوئے سونے کی ڈلیاں بکھری پڑی تھیں۔ موم بتی کی ہلکی سی روشنی میں سار اغار جگمگا رہا تھا۔
لڑکی نے خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔’’ اوہ ماسٹر! اب ہم دنیا کے سب سے امیر لوگ ہوں گے۔‘‘
مکار یو گھٹنے کے بل جھک کر کوئی دعا پڑھ رہا تھا۔ ان کا ڈرائیو ر جلدی جلدی مٹھیاں بھر کر اپنی جیبوں میں ٹھونس رہا تھا۔ نیولے کی شکل والا دونوں ہاتھوں میں سونے کو لے کر اپنے سر پر، کندھوں پر اس طرح ڈال رہا تھا جیسے پانی ڈالتے ہیں۔ اس دوران بندوق ہاتھ میں لیے شینڈ وہاں آپہنچا۔ اس کی گرجدار آواز سن کروہ سب ا چھل پڑے۔
’’ تم سب ایک طرف کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
ماسٹر نے حیرت سے کہا۔’’ شینڈ تم! کیا یہ تمھاری روح ہے؟ تم تو مر چکے ہو؟‘‘
’’شٹ اپ! جلدی کرو ایک طرف سب لوگ ۔‘‘ نیولے کی شکل والا اسے دیکھ کر سخت حیران اور خوف زدہ تھا۔ اس نے منہ کھول کر کچھ کہنا چاہا مگر آواز نہ نکل سکی۔
شینڈ نے کہا۔’’ جلدی کرو۔ اپنے ہاتھ سر پر رکھ لو اور ایک ایک کر کے غار سے باہر نکلو۔ تمھارے استقبال کے لیے سامی تیار ہے۔ ماسٹر! تم بھی۔ علی باباکے اس غار کو آخری بار دیکھ لو اور باہر چلو۔‘‘
ماسٹر نے شینڈ کو لالچ دیتے ہوئے کہا۔’’شینڈ! سوچ لو۔ یہ بہت سونا ہے۔ تمھاری زندگی آرام سے گزرے گی بلکہ تمھاری سات پشتیں عیش کریں گی۔ ‘‘
شینڈ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اسے گھور کر رہ گیا۔ ماسٹر مایوسی سے باہر چل دیا۔ لڑکی نے دانٹ کچکچا کر شینڈ کو بہت بُرا بھلا کہا۔ جب سب باہر چلے گئے تو شینڈ بھی باہر آ گیا مگر باہر تو کہانی بدل چکی تھی۔ باہر ماسٹر نے سامی کو قابو میں کر لیا تھا۔ اس کی گردن ماسٹر کے مضبوط بازو میں دبی ہوئی تھی۔ اس کے قریب نیولے کی شکل والا ہاتھ میں لمبی نال کی رائفل لیے شینڈ کے استقبال کو تیار کھڑا تھا۔ ڈرائیور کے ہاتھ میں بھی پستول نظر آرہا تھا۔ شینڈ نے مایوسی سے یہ منظر دیکھا اور اپنا پستول برف پر پھینک دیا۔ 
’’اس بار میرا نشانہ نہیں چوکے گا۔‘‘ نیولے کی شکل والے نے کہا۔
’’ ٹھہرو۔ ذرا مکاریو کو آجانے دو۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ 
اسی دوران مکار یو گھبرایا ہوا آیا اور بولا۔’’سائنو ر! وہ ہری جیکٹ میںوہاں پڑا ہوا ہے۔ ‘‘
ماسٹر نے شینڈ سے کہا:
’’تمھارے دھوکے میں جس شخص کو گولی ماری گئی وہ دراصل وان گرن لنگ تھا۔ اس نے تمھارے خیمے سے کھانا چرایا۔ تمھاری جیکٹ چرائی اور پھر تمھارے سر پر وار کر کے بھاگ نکلا۔ صرف تمھاری جیکٹ کی وجہ سے اس کی جان گئی۔ جانتے ہو وان گرن لنگ کون تھا؟ وہی اصل میں جان فن لے تھا۔ تمھا را قصہ ابھی ختم ہو جائے گا۔ اب میں اس سونے کا مالک ہوں۔‘‘ 
’’ ماسٹر !ر سانتا کے لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم یہاں آتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تم بھی یہاں موجود ہو۔ ہم وہاں نہیں پہنچے تو تمھارے لیے مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔‘‘ شینڈ نے آخری کوشش کی۔
لڑکی نے چیخ کر کہا۔’’ ماسٹر، تم اس کی بکو اس پر دھیان نہ دو۔ اسے فوراً گولی مارو۔‘‘
ماسٹر نے کہا۔’’ نہیں۔ اب میں نے اپنے منصوبے میں ذرا سی تبدیلی کر دی ہے۔ اب میں ان لوگوں کو اس غار میں زندہ بند کر دوں گا۔‘‘
پھر اس نے شینڈ اور سامی کو اشارہ کیا کہ غار میں داخل ہو جاؤ۔ دونوں خاموشی سے چلے گئے۔ پھر اس نے مکاریو کو پستول کی نال سے ٹھوکتے ہوئے کہا ۔’’ اور تم بھی۔‘‘
’’ سائنور! میں نے آپ کو اس خزانے کا پتہ بتایا ہے۔ کیا اس کا یہی انعام ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ مجھ پر رحم کر دو۔‘‘ مکاریو بری طرح گڑ گڑا رہا تھا۔
ماسٹر نے اسے دھمکانے کے لیے فائر کیا۔ فائر کی آواز سے سارا علاقہ گونج اٹھا۔ ماسٹر نے پستول کا رخ پہاڑیوں کی طرف کر کے فائر کیا تھا۔ فائر کی بازگشت پہاڑوں میں گونجتی رہی۔ اچانک ہی وہ واقعہ پیش آگیا جس کا سان گمان بھی نہ تھا۔ 
اوپر برف کا ایک بہت بڑا تو دہ اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا اور اب آہستہ آہستہ لڑھکتا ہوا نیچے آرہا تھا۔ اس کی گڑگڑاہٹ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہزاروں تو پیں ایک ساتھ گرج رہی ہوں۔ صرف پانچ سیکنڈ میں وہ ان کے پاس آپہنچا۔
شینڈ سرنگ میں چل رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب اور جب گولی میری کمر میں گھسنے والی ہے۔ اس کے پیچھے سامی بھی سر پر ہاتھ رکھے جا رہا تھا۔ اچانک ایسا لگا کہ ایک درجن ایکسپریس ٹرینیں سر پر چل پڑی ہوں۔ ہوا کا ایک بہت تیز جھکڑ آیا اور کوئی چیز توپ کے گولے کی طرح اس کی کمر سے ٹکرائی۔ یہ مکاریو تھا۔ وہ جلدی سے چیخ کر بولا:
’’جلدی سے اندر چلو۔ کسی وقت بھی سرنگ دھے سکتی ہے۔‘‘
انھیں ہر طرف چٹانوں کے لڑھکنے اور پتھروں کی بارش کی آواز آتی رہی۔ وہ اندھیرے میں حیران پریشان کھڑے تھے۔ اچانک ہی طوفان تھم گیا۔ ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ مکاریو نے کہا:
’’ اب ہمیں باہر نکلنے کے لیے کھدائی کرنی ہوگی۔ برف نے ہر طرف سے ہمارا راستہ بند کر دیا ہے۔ ہم باری باری کھدائی کریں گے ۔‘‘
شینڈ نے سامی کو آگے بھیج کرمکاریو سے کہا۔’’ تم تواصل مکار یو نہیں ہو۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے ۔‘‘
نقلی مکار یونے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ میں زور یو کورنزی ہوں۔‘‘
سامی پسینے میں شرابور ان کے پاس آیا اور بولا۔’’بہت ٹھنڈ ہے۔ برف کھودتے کھودتے انگلیاں جمنے لگی ہیں۔ خالی ہاتھوں سے کام کس طرح ہو گا؟‘‘
شینڈ نے آگے جا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے برف کھودنی شروع کر دی۔ زور یوں نے کہا۔’’ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سونا کس طرح باہر نکالا جائے گا۔ ‘‘
شینڈ ہانپتے کانپتے کام کر رہا تھا کہ اچانک اس کے سر کے اوپر سے برف کا ایک دھیر نیچے گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی سورج کی روشنی غار میں آگئی۔
’’ باہر ایلا فن لے موجود ہے ۔‘‘ سامی نے ایلا کا ہیٹ دیکھ کر اسے پہچانتے ہوئے کہا ۔’’نہیں، یہ ایلا نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنے عارضی قید خانے سے باہر ٹھنڈی ہوا میں آگئے ۔شینڈ نے لڑکی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’ مارگو۔ تم اصل مارگو کورنزی ہو۔‘‘
لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’ میں تو ڈر گئی تھی۔ میں نے کبھی بھی اس طرح اتنا بڑا برف کا تودہ گرتے نہیں دیکھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہیں آپ لوگ…‘‘
زور یو کورنزی نے کہا:
’’شینڈ! اس نے اس کام میں بڑی محنت کی ہے۔ یہ اسی کا دم ہے جو یہ ماسٹراور وان گرن لنگ کو یہاں تک لے آئی اور اس طرح ان سے جان چھوٹ گئی۔‘‘
’’مگر وہ اصلی ایلا فن لے کہاں ہے؟ ‘‘شینڈ نے پوچھا۔
’’ وہ نیچے رسانتا میں ہے اور زندہ ہے ۔‘‘ زور یو نے کہا۔
مارگونے ہنستے ہوئے اپنی اونی ٹوپی سر سے اتار دی۔ اس کے نرم چمکیلے اورسنہری بال، اس کے کندھوں پر بکھر گئے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top