skip to Main Content

ہر کولس کے کارنامے

ترجمہ: علی اسد
۔۔۔۔۔
قدیم یونانی بہادروں میں جس شخص کا نام سرفہرست ہے، وہ ہے ہرکولس (HERCULES) ۔یونان کے لوگ اُسے بے حد چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جتنا طاقت ور اور بہادر تھا، اتنا اور کوئی نہ تھا۔ ہر کولس نے سب سے پہلا بہادری کا کارنامہ اُس وقت دکھا یا جب کہ اس کی عمر سال بھر کی بھی نہ ہونے پائی تھی۔ یہ واقعہ اس طرح ہوا۔
ایک دن ہرکولس کی ماں الکین جب ہر کولس اور اس کے جڑواں بھائی افیکلز کو نہلا دھلا چکی تو دونوں بچوں کو دودھ پلایا اور پھر انھیں جستے کی ایک ڈھال پر لٹا دیا۔ یہی ڈھال ان بچوں کے لیے پالنے کا کام دیتی۔ اس کے بعد ماں نے بچوں کو ایک لوری سنائی۔ تھوڑی دیر بعد بچے سو گئے۔ اسی رات جب کہ گھر کے سب لوگ سورہے تھے ،دو بڑے زہریلے سانپ دروازے کے نیچے سے گھر میں چلے آئے اور رینگتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ گئے جہاں یہ بچے سورہے تھے۔ سانپوں نے سرا ٹھا کر ڈھال کے اوپر سے دونوں بچوں کو دیکھا اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ بچے ذرا بھی جنبش کریں تو پھران پرحملہ کر دیں۔ عین اسی وقت دونوں بچے جاگ پڑے۔ ہرکولس سیدھا بیٹھ گیااور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس نے دونوں سانپوں کی گردنیں پکڑ لیں اور پوری طاقت سے ان کے گلے دبانا شروع کر دیے، افیکلز پہلے تو چلایا پھر اس نے رونا شروع کر دیا۔ ادھر دونوں سانپ تلملانے لگے اور زمین بردم مارنے لگے۔
ہرکولس کی ماں نے جو شور دخل سنا تو اس نے ہر کو لس کے باپ ایمفٹیریان کو جگایا۔ باپ نے جلدی سے اپنی تلوار اٹھائی اور نوکروں کو بلا کر اس کمرے میں داخل ہوا جہاں یہ بچے سور ہے تھے۔ یہ لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہرکولس دو بڑے بڑے سانپوں کی گردنیں پکڑے بیٹھا ہے اور اس طرح سے خوش ہو رہا ہے کہ جیسے اسے کوئی نیا کھلونامل گیا ہو۔ جب ہر کولس کے والد اس کے قریب پہنچے تو ہر کو لس نے دونوں سانپوں کو ان کے قدموں پر ڈال دیا۔ دونوں سانپ بالکل مرچکے تھے۔ ہر کولس کے والد یہ دیکھ کر بے حد حیران ہوئے۔
دوسرے دن پر کولس کی ماں نے ٹائیر یسیاس نامی ایک بڑے عقل مند شخص سے یہ سارا قصہ بیان کر کے کہا کہ دس مہینے کے بچے نے اتنے بڑے بڑے دو سانپوں کو مار ڈالا، آخر اس کے کیا معنی ہیں؟ اس پر ٹا ئیریسیاس نے جواب دیا کہ ہر کولس جب بڑا ہو گا تو وہ تمام انسانوں اور حیوانوں سے زیادہ طاقت ور ہو گا اور بارہ (12) بڑے حیرت انگیز کارنامے انجام دے گا۔ اس کے بعد وہ کوہ اولمپس پر رہنے لگے گا جہاں دنیا کے تمام مشہور لوگ بقائے دوام حاصل کر کے رہتے ہیں۔ 
ہر کولس کا لڑکپن اور نوجوانی
ہر کو لس جب بڑا ہونے لگا تو اسے ہر اُس کام کی تربیت دی گئی جو ایک یونانی لڑ کے کو کرنا ہوتے تھے۔ پہلے تو اس کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ پھر تیر اندازی سکھائی گئی۔ اس کے بعداس کے باپ نے اسے کھڑے ہو کر رتھ چلانا سکھایا۔ ہر کولس نے کشتی لڑنا بھی سیکھی اور نیزہ بازی بھی سیکھی۔ دن بھر وہ اپنے باپ کے ساتھ رہتا اور رات کو اس کا بستر اس کے باپ کے بستر کے قریب ہوتا۔ اس کے بستر پر شیر کی کھال بجھائی جاتی تھی۔
ہرکولس جب کافی بڑا ہو گیا تو وہ کچھ دنوں کے لیے گلہ بانوں کے ساتھ رہنے کے لیے پہاڑوں پر چلا گیا۔ ایک دن دوپہر کے وقت وہ ایک پہاڑی وادی میں سوگیا تو اس نے ایک نہایت عجیب و غریب خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک سڑک پر چلا جا رہا ہے۔ کچھ دور جا کر اس سڑک کی دو شاخیں ہو گئیں۔ اب اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کس سڑک پر چلے۔ ایک سڑک بہت ہی صاف ستھری نظر آرہی تھی۔ اس پر چلنا آسان معلوم ہوتا تھا۔ یہ سڑک پہاڑ سے نیچے جاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے آخر میں ایک خوش نما شہر معلوم ہو رہا تھا۔ دوسری سڑک پتھریلی تھی۔ اس پر چلنا دشوار معلوم ہوتا تھا۔ یہ سڑک بلندی کی طرف جاتی تھی۔ اور یہ جتنی جتنی آگے جاتی تھی، اتنی ہی دشوار گزار معلوم ہوتی تھی، مگریہ اتنی دور تک چلی گئی تھی کہ آخر میں بادلوں میں جا کر غائب ہو گئی تھی۔
ہرکولس ابھی اسی اُدھیڑ بن میں تھا کہ کون سی سڑک کو پسند کرے کہ اتنے میں اس نے ایک نوجوان عورت کو اسی شہر کی جانب آتے دیکھا۔ اس عورت کا لباس رنگ برنگے پھولوں سے سجا ہوا تھا اور اس کے سرپر مرجھائے ہوئے گلاب کا تاج تھا۔ جب وہ عورت اس جگہ پہنچی جہاں ہر کولس کھڑا تھا تو اس نے دیکھا کہ ہر کولس شش و پنج میں مبتلا ہے، چناں چہ اُس نے مشورہ دیا کہ جو سٹرک شہر کی طرف جاتی ہے، اس پر چل پڑے۔ اس عورت نے کہا کہ اس شہر میں تمہیں بڑے خوش اخلاق لوگ ملیں گے۔ تم ان سے جو بھی چیز مانگو گے وہ تم کو بخوشی دے  دیں گے ۔تمھیں کسی قسم کی محنت و مشقت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ سارا دن آرام سے باغ میں بیٹھے رہنا۔ وہاں فوارے ہیں اور چڑیاں چہچہاتی رہتی ہیں۔ اگر تم چاہو تو گا نا بھی سن سکتے ہو۔ اب جو ہر کولس نے شہر کی جانب دیکھا تو اسے گانے کی ہلکی ہلکی آواز بھی سنائی دی اور دور سے باغ بھی بڑا اچھا معلوم ہوا، چناں چہ ہر کولس اس عورت کی صلاح ماننے پر کچھ کچھ آمادہ ہوگیا، لیکن پھر بھی کوئی چیز اسے روکتی رہی۔
عین اسی وقت اس نے دیکھا کہ پہاڑی سڑک پر کوئی کھڑا ہوا ہے۔ یہ بھی ایک نوجوان عورت تھی مگر یہ با لکل مختلف معلوم ہو رہی تھی۔ یہ بالکل سادہ لباس پہنے تھی اور اس کی آنکھیں غم زدہ نظر آرہی تھیں۔ اس کے باوجود وہ بہادر معلوم ہورہی تھی۔ اس عورت نے کہا:
’’ ہر کولس، میں تم کو حقیقت بتائے دیتی ہوں۔ میری بہن تم کو دھوکا دے رہی ہے۔ اس شہر میں تم کو جو عیش و آرام ملے گا، اس کی تمھیں اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی کہ اس کا تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ اس شہر میں نہ جاؤ۔ اس کے بجائے میرے ساتھ اس پہاڑی سڑک پر چلو۔ پہاڑ والی سڑک پر چڑھنا مشکل ہے۔ جتنا جتنا آگے بڑھتے جاؤ گے۔ اتنا ہی راستہ دشوار گزار ہوتا جائے گا۔ لیکن پھر وہاں تم کو ایسی مسرتیں ملیں گی کہ جن سے تم کبھی دل برداشتہ نہ ہوگے۔ پہاڑ کی ہوا جب تمھارے پھیپھڑوں میں جائے گی اور پہاڑ پر چڑھتے ہی تم کو جو محنت کرنا پڑے گی تو اس سے تم ایک بہادر انسان بن جاؤ گے۔ اگر تم میں ہمت ہے تو یہ پہاڑ والی سڑک تم کو کوہ اولمپس تک پہنچا دے گی اور وہاں تم کو بقائے دوام حاصل ہو جائے گی۔‘‘ ہر کولس نے خواب میں بھی عقل مندی سے کام لیا اور پہاڑ والی سڑک پر چلنا پسند کیا۔
اس خواب کے کچھ عرصے بعد ہر کولس نے زندگی کا اصل کام اس وقت شروع کیا جب اس نے بادشاہ یورس تھیئس کے دربار میں حاضری دی اور بادشاہ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ بات در اصل یہ تھی کہ بادشاہ یورس تھیئس ہر کولس کا چچا زاد بھائی تھا، مگر چوں کہ ہر کولس ، یورس تھیئس کے بعد پیدا ہوا تھا، اس لیے ہر کولس اپنے چچا زاد بھائی کا غلام بن گیا تھا۔
یونانی لوگ جسمانی طاقت کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ہر کولس اس اعتبار سے نہایت شاندار واقع ہوا تھا۔ اور اس کے بازو بے حد طاقت ور تھے۔ اس کے مقابلے میں یورس تھیئس بادشاہ ہونے کے باوجو دبے حد دبلا پتلا اور کم زور تھا۔ لہٰذا جب ہر کولس پہلی بار بادشاہ یورس تھیئس کے سامنے آکر کھڑا ہوا تو یورس تھیئس نے اپنے مضبوط چچازاد بھائی اور اپنے درمیان جو فرق دیکھا تو اس کی ہمت جواب دے گئی، چناں چہ اس کی تیوریاں چڑھ گئیں اور اس نے اپنے دل میں طے کرلیا کہ ہر کولس کو ایسے ایسے کام سپرد کیے جائیں جو بے انتہا مشکل اور خطرناک ہوں۔ چناں چہ یہ کام جو ہر کولس نے بادشاہ یورس تھیئس کے لیے انجام دیے بعد میں بے حد مشہور ہو گئے اور ان ہی خطر ناک کا موں کوہر کولس کے بارہ کارناموں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر کام پہلے کام سے زیادہ دشوار تھا اور ہر کام ہر کولس کو اس کے گھر سے دو رپہنچاتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بارھویں کام کے سلسلے میں تو وہ عالم ارواح کے قریب پہنچ گیا۔
ہرکولس کا پہلا کارنامہ
نیمیا نامی جگہ پر جو پیٹر کا جو مندر تھا، اس کے پاس ایک بڑا سا باغ تھا۔ اسی باغ میں ایک نہایت خطر ناک شیر رہا کر تا تھا۔ لوگ اس شیر کو نیمیا کا شیر کہا کرتے تھے۔ اس شیر نے آس پاس کے سارے علاقے میں بڑی زبر دست تباہی مچا رکھی تھی، لہٰذا ہر شخص پر دہشت چھائی ہوئی تھی۔ یہ شیر ہر رات کو نکلتا تھا۔ کبھی کبھی دن میں بھی نکل پڑتا تھا اور سینکڑوں گائیں، بکریاں اور بھیڑوں کو مار ڈالتا تھا۔ کبھی کبھی وہ آدمیوں اور بچوں کو بھی مار ڈالتا تھا۔ یورس تھیئس نے سوچا کہ اس شیر کو مارنے کے لیے ہر کولس کو بھیجنا چاہیے۔ لہٰذا یہ کام اس نے ہر کولیس کے سپرد کر دیا۔
ہر کولس کے ذہن میں ابھی کوئی خاص ترکیب نہ تھی، پھر بھی وہ تیر کمان لے کرروانہ ہو گیا۔ کوہ ہیلیکان کے دامن میں اسے زیتون کا ایک جنگلی درخت دکھائی دیا، چونکہ یہ درخت پتھریلی زمین پر اُگا تھا، اس لیے یہ بڑا مضبوط تھا اور اس میں جا بجا گا نٹھیں بھی تھیں۔ اس درخت کی ایک شاخ توڑنے کے بجائے جیسا کہ عام لوگ کرتے، ہر کولس نے سارا درخت جڑ سے اکھاڑ لیا اور اُسے ایک مضبوط ڈنڈے کی طرح ہاتھ سے اُٹھالیا۔ اس کے بعد وہ وادی نیمیا کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اسے ایک آدمی بھی نہیں ملا، کیوں کہ شیر کے خوف سے ہر شخص اپنے گھر میں چھپا ہوا تھا۔ لوگ تو گھروں میں چھپ گئے تھے لیکن انھوں نے اپنے جانوروں کو شیر کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا۔ ہر کو لس مندر کے قریب دن بھر شیر کا انتظار کرتا رہا۔ رات کو شیر اپنے غارمیں واپس آیا۔ اس وقت وہ نہایت خوفناک نظر آرہا تھا۔ اس کے ایال خون سے لت پت ہو رہے تھے اور وہ اپنے ہونٹوں پر لگا تازہ تازہ خون چاٹ رہا تھا۔ ہر کولس نے جھاڑیوں میں چھپ کر ایک تیر اپنی کمان میں چڑھایا اور شیر جب قریب آیا تو اس نے تیر چھوڑ دیا۔ مگر یہ تیر شیر کے جسم کو چھوتا ہوا گھاس پر جاگرا۔ شیر نے اپنی رفتار کچھ کم کر دی اور داہنے بائیں دیکھا اور پھر اُس نے اپنے دانت نکال لیے، اتنے میں ہر کولس نے دوسرا تیر مارا لیکن یہ بھی پہلے تیر کی طرح شیر کے جسم سے لگتا ہوا دور جا گرا۔ بات یہ تھی کہ یہ شیر کوئی معمولی قسم کا شیرنہ تھا۔ اس کی کھال بڑی مضبوط تھی ۔ کو لس تیسری بار تیر چلانے ہی والا تھا کہ شیر نے اسے دیکھ لیا۔ چناں چہ شیر نے پہلے اپنی دم ہلائی پھر دبکا۔ اس کے بعد اس نے چھلانگ ماری۔ ہر کولس نے اپنے ڈنڈے سے شیر کا مقابلہ کیا اور شیر کے سر پر ڈنڈا دے مارا۔ شیر کا سر چکرا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ ہر کولس نے دونوں ہا تھوں سے شیر کی گردن دبوچ لی اور اُس کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا جس طرح بچپن میں سانپوں کی گردنیں دبادی تھیں، اسی طرح اس نے شیر کی گردن بھی دبادی اور وہ مرگیا۔ اس طرح ہر کولس
نے پہلا کارنامہ انجام دیا۔
جب ہر کولس بادشاہ یورس تھیئس کے پاس پہنچا تو وہ نیمیا کے شیر کی کھال اپنے کندھے پر ڈالے ہوئے تھا اور شیر کا سر اپنے سر پر ٹوپی کی طرح رکھے ہوئے تھا۔ یورس تھیئس اگر خود شیر کو جیتا جاگتا اپنے محل میں آتے دیکھتا تو شاید اتنا خوف زدہ نہ ہوتا جتنا وہ اس وقت ہرکولس کو دیکھ کر ہوا۔
ہر کولس نے بعد میں اپنے لیے ایک دوسرا ڈنڈا تیار کر لیا۔ اس کے بعد سے وہ یہ ڈنڈا اور شیر کی کھال ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے لگا۔
ہر کولس کا دوسرا کارنامہ
بادشاہ یورس تھیئس نے ہر کولس کے سپر د جو دوسرا کام کیا وہ اتناد شور تھاکہ شیر کا مارنا اس کے مقابلے میں بچوں کا کھیل تھا۔ ہر کولس چوں کہ بے حد بہادر اور طاقت ور ثابت ہو چکا تھا، لہٰذا بادشاہ نے اسے کئی سروں والے اژ د ہے کو مار ڈالنے کی مہم پر روانہ کر دیا۔ اس اژدہے کے نو سر تھے۔ ان میں سے ایک سر لافانی تھا، اس لیے اسے مار ڈالنا نا ممکن تھا۔ یہ اژدہا اتنا زہر یلا تھا کہ جس جگہ سے وہ گزر جاتا تھا وہاں کی ہوا بھی زہریلی ہو جاتی تھی۔ یہ اژدہا آئی مون کے چشمے کے پاس رہا کرتا تھا۔ اس بنا پر اس علاقے کے لوگ اس چشمے سے پانی بھی نہیں لے پاتے تھے۔ چوں کہ اس مقام پر گرمیوں کا موسم بہت دنوں تک رہتا تھا اور ندیاں اور چشمے کم تھے اس لیے یہ معاملہ بڑا پریشان کن تھا۔
ہر کولس کے جڑواں بھائی کا ایک بیٹا تھا ،اس کا نام تھا یو لاس۔ ہر کو لس جب اس اژد ہے کو مارنے کے لیے روانہ ہوا تو وہ اپنے ساتھ یولاس کو بھی لیتا گیا۔ تا کہ اسے بھی شکاریوں کے طور و طریقے آجائیں۔ ہر کولس اور یو لاس میلوں تک خاک چھانتے رہے۔ آخر کار یہ دونوں آئی مون کے چشمے تک پہنچ گئے اور یہاں سب سے پہلے جس چیز پہ ان کی نظری پڑی وہ تھا وہی اژدہا۔ اژدہا غار سے اپنے نو سر نکالے پھنکار رہا تھا۔ ہر کولس نے جب اس پر کئی تیر چلائے تو وہ غار سے باہر نکل آیا۔ ہر کولس فوراً تلوار لے کر اس کا سر کاٹنے لگا۔ لیکن ہر کولس جب ایک سر کاٹتا تو اس کی جگہ دو نئے سر نکل آتے اور یہ نئے سر پرانے سرسے بھی زیادہ شور مچاتے تھے۔ عین اسی وقت جبکہ ہر کولس اژ د ہے سے لڑنے میں مصروف تھا ،ایک کیکڑے نے آکر ہر کولس کی ایڑی پکڑ لی۔ اب ہر کولس کے لیے بڑی پریشانی کا سامنا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اب کوئی نئی ترکیب نکالنا پڑے گی۔ لہٰذا اس نے یو لاس کو آواز دی اور کہا کہ قریب کے چھوٹے چھوٹے درختوں میں آگ لگا دے اور یہ جلتے ہوئے درخت ایک ایک کرکے اسے دیتا جائے۔ یولاس نے ہر کولس کے حکم کے مطابق عمل کیا۔ اس کے بعد ہر کولس نے یہ کیا کہ ادھر اژ د ہے کا سر کاٹا اور اُدھر جلا دیا۔ اس طرح آخر میں اژ د ہے کا صرف ایک سر رہ گیا اور چوں کہ یہ سر لافانی تھا لہٰذا اس کا جلانا بے کا ر تھا۔ چناں چہ ہر کولس نے اُسے کاٹ لیا، مگر جتنی دیر وہ زمین پر پڑا رہا، اس سے زہر نکلتا رہا۔ آخر ہر کولس نے اس پر ایک بڑاسا پتھر لڑھکا دیا۔ اس طرح یہ سر بھی بے ضرر ہو گیا۔
اژ دھے سے لڑائی جب ختم ہوئی تو ہر کولس نے اپنے تیروں کو اژ د ہے کے زہر میں غوطہ دے دیا۔ اس طرح یہ تیر بے حد خطر ناک ہتھیار بن گئے۔ بعد میں ایک ایسا وقت آیاجبکہ ہر کولس کو اپنی اس حرکت پر پچھتانا پڑا۔
 ہر کولس کا تیسرا کارنامہ
اس معرکے کے بعد بادشاہ یورس تھیئس نے ہر کولس کو ایک جنگلی سور پکڑنے کے لیے روانہ کیا۔ یہ جنگلی سور کوہ ایرن مین تھس کے پہاڑ پر رہا کرتا تھا۔ یورس تھیئس نے ہرکولس سے کہا کہ اس سور کو زندہ پکڑلا ئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اب یہ سمجھ چکا تھا کہ خطر ناک سے خطرناک جانور کو مار ڈالنا تو ہر کولس کے لیے آسان ہوگا، لیکن زندہ پکڑنا اتنا آسان نہ ہو گا۔
ایرن مین تھس کا پہاڑ آرکیڈیا میں واقع تھا۔ یہ پہلا موقع تھاکہ ہر کولس کواپنی مہمات کے سلسلے میں آرگولس کے باہر جانا پڑا۔
کوہِ ایرن مین تھس جاتے ہوئے ہر کولس اپنے دوست فولو سے بھی ملنے چلا گیا۔فولو اس قسم کی مخلوق میں سے تھا جس کا آدھا جسم انسانوں کی طرح تھا اور آدھا گھوڑوں کی طرح، یعنی کمر سے اوپر کا دھڑ آدمی کی طرح تھا اور کمر سے نیچے کا دھڑ گھوڑے کی طرح تھا۔ اس مخلوق کو سینٹار کہا جاتا تھا۔ فولو کے غار میں ایک نہایت عمدہ شربت کا قر ابہ رکھا ہوا تھا۔ یہ قرابہ اکیلے فولو کا نہ تھا بلکہ یہ ساری سنٹیار برادری کی ملکیت تھی۔ دراصل مشروبات کے دیوتا با کوس نے یہ قرا بہ بطور تحفہ فولو کو دیا تھا اور کہہ دیا تھاکہ جب تک ہرکولس نہ آجائے اس وقت تک اسے نہ کھولنا۔ اب چوں کہ ہر کو لس آچکا تھا، لہذا فولو نے سوچا کہ اب اسے کھول ڈالنا چاہیے۔ اس نے اپنی برادری سے پوچھنا ضروری نہ سمجھا، لیکن سینٹار بڑے وحشی لوگ تھے۔ اُنھیں اس شربت کی مہک دُورہی سے محسوس ہوگئی۔ لہٰذا یہ لوگ ڈنڈے، پتھر اورمشعلیں لیے ہوئے فولو کے غار کی جانب دوڑ پڑے۔ یہاں پہنچ کر جو انھوں نے ہر کولس کو دیکھا تو اُسے اجنبی سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ ہرکولس کے ترکش میں وہ زہریلے تیر تو پہلے ہی سے رکھے ہوئے تھے۔ لہٰذا اسے اپنے بچاؤ کے لیے مجبوراً یہ تیر استعمال کرنا پڑ گئے۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں تمام سنٹیار بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن جب یہ لوگ بھاگ گئے تو فولو نے ایک زہریلا تیرا اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا۔ اتفاق سے یہ تیر اس کے ہاتھ سے گر پڑا اور اس کے پیر میں جالگا۔ چنانچہ اس کے پیر پر بالکل اس طرح کا زخم آگیا جیسا کہ سانپ کے کاٹنے سے ہو جاتا ہے، چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں فولو مر گیا۔ یہ دیکھ کر ہرکولس کو بڑا صدمہ ہوا اور وہ سوچنے لگے کہ کاش میں نے اپنے تیروں کو زہرمیں غوط نہ دیا ہوتا۔
اس کے بعد ہر کولس پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس نے جنگلی سور کو پکڑ لیا اور اسے اپنے کاندھے پر لا دے واپس ہوا۔ ادھر یورس تھیئس تو انتظار کر ہی رہا تھا۔ اب جو اُس نے ہر کولس کو سور لا دے آتے دیکھا تو ڈر کے مارے وہ بھاگ کر محل میں چھپ گیا۔ محل میں ایک بہت بڑا سا جست کا مٹکا رکھا ہوا تھا اور اس پر ڈھکن بھی تھا۔ یورس تھیئس گھبراہٹ میں اس مٹکے کے اندر کود گیا اور جلدی سے ڈھکن بھی اپنے سر پر رکھ لیا۔
یورس تھیئس نے اپنے حساب بڑی پھرتی سے کام لیا تھا، مگر پھر بھی ہرکولس نے اسے مٹکے میں چھپتے دیکھ لیا تھا۔ لہٰذا ہر کولس ایسا بن گیا کہ جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو اور جو درباری وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان سے بولا کہ میرے خیال میں اس سور کو رکھنے کے لیے یہ مٹکا ٹھیک رہے گا۔ یہ کہہ کر اس نے مٹکے کا ڈھکن اٹھایا اور سور کو اس کے اندر ڈال دیا۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ اس طرح بادشاہ یورس تھیئس کا خاتمہ ہو گیا ہو گا۔ جی نہیں، یہ نہیں ہوا۔ بادشاہ حیرت انگیز طور پر صحیح سلامت رہا۔ دراصل ہوا یہ کہ سور بھی اتنا ہی خوف زدہ ہو چکا تھا جتنا کہ بادشاہ۔ لہٰذاوہ مٹکے میں دبکا بیٹھا رہا۔ بہر حال ہر کولس کا یہ تیسرا کارنامہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ 
ہرکولس کا چوتھا کارنامہ
بادشاہ یورس تھیئس کو جب مٹکے سے نکال کر تخت پر بٹھایا گیا اور اس کے ہوش وحو اس درست ہوئے تو اس نے پھر ہر کولس کے لیے کام سوچنا شروع کر دیے۔
آرکیڈیا کے قریب جو بڑے بڑے جنگلات تھے ،ان میں ایک بارہ سنگھے نے تمام شکاریوں کو بے وقوف بنا رکھا تھا۔ اول تو وہ کسی کو نظر ہی نہیں آتا تھا۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جنھوں نے اس بارا سنگھے کو واقعی دیکھا تھا، چناں چہ عام خیال یہی تھا کہ اس بارہ سنگھے کا وجود ہی نہیں ہے۔ خود بادشاہ یورس تھیئس بھی یہی سمجھتا ۔
اس بارہ سنگھے کے بارے میں جو قصے مشہور تھے ان پر اگر یقین کیا جائے تو اس کے سینگ سونے کے تھے اور اس کے کھر پیتل کے تھے۔ وہ ایسی ایسی چھلانگیں مارتا تھا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ کتے خواہ کتنی دیر دیر تک اس کا پیچھا کرتے رہیں پھر بھی وہ تھکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ عام طور سے وہ ڈاٹنا کے مندر کے پاس آرام کیا کرتا تھا۔ اس بنا پر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ 
چنانچہ یورس تھیئس نے جب ہرکولس سے کہا کہ اس بارہ سنگھے کو زندہ پکڑ لائے تو ہر کولس ارکیڈیا کے جنگلوں میں چلا گیا اور جھاڑیوں میں چھپ کر ڈاٹنا کے مندر تک جانے والی ہر سڑک کو دیکھتا رہا۔ یہ کام بڑا صبر آزما تھا۔ انتظار کے دوران موٹی موٹی جنگلی مکھیاں اسے کاٹتی رہیں۔ بڑی بڑی چھپکلیاں اور گرگٹ اس کے پیروں پر ہو کر گزرتے رہے۔ مندر کے قریب جہاں اندھیرا تھا وہاں ایک الو بھی بولتا رہا۔ آخر کار اسے وہ سنہرے سینگوں والا بارہ سنگھا نظر آ گیا۔ یہ بارہ سنگھا واقعی خوبصورت تھا۔ اس کی آنکھیں نہایت نشیلی تھیں اور اس کے سنہرے سینگ تو بالکل تاج کی طرح اس کے سر پر سجے ہوئے تھے۔
ہر کو لس جانتا تھا کہ اگر اس نے ذرا سی دیر کی تو پھر یہ بارہ سنگھا اسے کبھی نہیں سکے گا۔ لہٰذا جوں ہی اس نے بارہ سنگھا دیکھا، اس پر جھپٹ پڑا۔ بارہ سنگھا فوراً بھاگ کھڑا ہو۔ اب آگے آگے بارہ سنگھا تھا اور پیچھے پیچھے ہر کولس۔ یہ دونوں جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کو پار کرتے چلے جارہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں آرکیڈیا کی سرحد پار کر گئے۔ اس کے باوجود بارہ سنگھا بھاگتا ہی رہا ۔قطعی نہ تھکا اورہر کولس بھی اس کے پیچھے دوڑ تا رہا۔ اس سے پہلے اس بارہ سنگھے کا ایسا تعاقب کبھی نہیں کیا گیا تھا، بہر حال وہ بھاگتا رہا اور ہر کولس اس کے پیچھے لگا رہا۔ اس میں ایک سال گزر گیا۔ ایک سال کے بعد بارہ سنگھا کچھ تھک گیا۔
اس بارہ سنگھے نے ہرکولس کو قریب قریب پورے یورپ کی سیر کرادی اور پھر گھوم گھام کر ڈاٹنا کے مندر کے پاس آگیا اور ہانپتا ہوا مندر کے اندر گھس گیا۔ ہر کولس بھی اس کے پیچھے مندر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت وہ بارہ سنگھے کو پکڑ لیتا، مگر ہوا یہ کہ عین اسی وقت چاند بادلوں سے نکل پڑا۔ اب جو ہر کو لس نے نظریں اٹھائیں تو کیا دیکھتا ہے کہ چاندنی کی دیوی خود اس کے سامنے کھڑی ہوئی ہے اور اس کے قدموں کے پاس بارہ سنگھا بیٹھا ہانپ رہاہے۔
ڈاٹنا نے ہر کولس سے کہا :’’ اس بارہ سنگھے پر ہاتھ نہ ڈالنا کیوں کہ یہ میرا ہے، جاؤ اور بادشاہ یورس تھیئس سے جا کر سارا ماجرا بیان کردو۔ وہ جب سارا قصہ سن لے گا تو پھر یہی سمجھے گا کہ تم نے یہ کارنامہ بھی انجام دے دیا۔‘‘
ہرکولس کاپانچواں کارنامہ
بادشاہ یورس تھیئس نے اب ہر کولس کو اسٹم پھیلس کی چڑیوں کو مار بھگانے کا کام سپرد کیا۔ بات یہ تھی کہ اسٹم پھیلس کی وادی میں کچھ عجیب و غریب چڑیاں اکثر آیا کرتی تھیں۔ یہ چڑیاں فصلوں کو تباہ کر ڈالتی تھیں اور مویشیوں کو بھی مار ڈالتی تھیں۔ ان چڑیوں کے لیے گائے یا بھینس کو مار ڈالنا۔ بالکل آسان کام تھا۔ اس کے علاوہ یہ اکثر بچوں کو بھی اٹھالے جاتی تھیں۔ ان چڑیوں کے پنجے لوہے کے تھے اور ان کے پر تیر کی طرح نکیلے تھے۔یہ چڑیاں اپنے پروں کواوپر سے بھی پھینک سکتی تھیں، اس لیے ان سے بچنا بڑا دشوار تھا۔ ان کے گھونسلے ایک ایسے تاریک جنگل میں تھے جس بے بیچ میں ایک تالاب تھا۔ ہرکولس نے ان چڑیوں سے لڑنے کے لیے نہ اپنے تیر و کمان کو استعمال کیا اور نہ اپنے نیزے اور ڈنڈے کی۔ اُس نے ایک نئی ترکیب سوچی۔ وہ چپکا تالاب کے کنارے پر پہنچ گیا اور اپنی جست کی ڈھال کو سر کے اوپر رکھ کر ایک گھنٹی بجانے لگا اور اسی کے ساتھ ساتھ ڈھال پر اپنا نیزہ مارنے لگا۔
یہ شور و غل سن کر تمام چڑیاں گھبرا کر اڑ گئیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ آسمان کالا ہو گیا۔ چڑیاں جب اُڑ گئیں تو اوپر سے انھوں نے اپنے پروں کو پھینکنا شروع کر دیا۔ ان کے پر تیر کی طرح سر کولس کی ڈھال پر آ کر گرتے رہے اور آس پاس کے درختوں کی دھجیاں اُڑگئیں مگر ہر کولس اپنی ڈھال کی وجہ سے محفوظ رہا۔
ہرکولس برابر گھنٹی بجاتا رہا اور ڈھال کو پیٹتا رہا۔ آخر کار بیشتر چڑیاں جنگل چھوڑ کر بھاگ گئیں۔ صرف چند باقی رہ گئیں جو اونچے اونچے درختوں پر بیٹھ کر دیکھنے لگیں کہ یہ شور و ہنگامہ کیسے ہو رہا ہے۔ ان چند چڑیوں کو ہر کولس نے آسانی کے ساتھ اپنے زہریلے تیروں سے مار گرایا ۔کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان چڑیوں نے مریخ پراپنا ڈیرا جمالیا اور اسٹم پھیلس کی طرف کبھی رخ نہ کیا۔
ہرکولس کا چھٹا کارنامہ
ہر کولس کو اس کے بعد جو کام دیا گیا، وہ تھا بادشاہ ایجس کا اصطبل صاف کرنا۔ بادشاہ یورس تھیئس نے اس سے کہا کہ یہ کام اکیلے کرنا ہوگا اور ایک ہی دن میں ختم کرنا ہوگا۔
بادشاہ ایجس جس جگہ کا بادشاہ تھا، اس کا نام تھا ایلس۔ اس بادشاہ کے پاس اتنے مویشی تھے کہ شام کو جب یہ جانور چرائی سے واپس آتے تو بس آتے ہی چلے جاتے۔ یہ منظر کچھ اس طرح کا ہوتا کہ جیسے آسمان پر سفید سفید بادل اُمنڈتے چلے آرہے ہوں۔ ان جانوروں میں بارہ سفید بیل بھی تھے۔ ان میں سے جو بیل سب کا سرغنہ تھا، وہ اتنا سفید تھا کہ ستارے کی طرح چمکتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کا نام تھا فیتھان۔ جب بھی کبھی پہاڑوں سے کوئی چیتا، بھیڑیا یا شیر ادھر آنکلتا تو سب سے پہلے یہی بارہ بیل اس پر حملہ کرتے اور اُسے بھگا دیتے۔
ہر کولس جب ان جانوروں کے درمیان پہنچا تو وہ حسب دستور شیر کی کھال پہنے ہوئے تھا۔ فیتھان نے جو شیر کی کھال کی مہک پائی تو وہ فوراً اپنے ساتھیوں کی مدافعت کے لیے ہرکولس پر جھپٹ پڑا، لیکن ہر کولس اتنا طاقت ور تھا کہ اسے بیل کا کوئی خوف نہ تھا۔ اس نے بیل کا ایک سینگ پکڑ لیا اور اس کا سر زمین پر جھکا دیا۔ اس طرح ہر کولس نے بیل کو یہ بتا دیا کہ کس کا پلہ بھاری ہے۔ اس کے بعد جب بھی ہرکولس قریب آتا تو فیتھان ادب سے چپکا کھڑا رہتا۔ یہ دیکھ کر دوسرے جانور بھی اس پر حملہ نہ کرتے۔ بادشاہ ایجس کا اصطبل دریا کے کنارے ایک لمبی سی قطار میں تھا، چوں کہ اس صطبل کو ایک ہی دن میں صاف کرنا تھا، لہٰذا ہرکولس نے ایک خندق کھو دلی اور دریا کا پانی اس خندق میں لے آیا۔ حالاں کہ اصطبل بہت بڑا تھا، مگر دریا کے پانی کی روانی سے وہ ذرا ہی دیر میں صاف ہو گیا۔
 ہرکولس کا ساتواں کارنامہ
مینوس کو جب کریٹ کا بادشاہ منتخب کیا گیا تو اس نے طے کیا کہ وہ اپنے دور حکومت کی ابتدا قربانی سے کرے گا، چنانچہ وہ سمندر کے کنارے پہنچا اور وہاں اس نے پتھروں سے ایک قربان گاہ تعمیر کی۔ اس کے بعد اس نے سمندر کے دیوتا نپتو ن سے درخواست کی کہ وہ قربانی کے لیے کوئی جانور بھیج دے۔ ابھی اس کے منھ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ سمندر سے ایک سفید بیل نکل آیا جس کے سینگ چاندی کے تھے۔ قربانی کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت جانور ملنا نا ممکن تھا، لیکن مینوس کی نیت بدل گئی۔ اس نے سوچا کہ ایسے خوبصورت جانور کو قربان کر دینا ٹھیک نہیں، لہٰذا وہ اس بیل کو لے کر چلا گیا اور اپنے دوسرے جانوروں کے ساتھ اسے بھی رکھ لیا۔
چوں کہ یہ بیل صرف قربانی کے لیے ملا تھا،مگراب پالتو جانوروں کے طور پر رکھا جارہا تھا لہٰذا یہ بات دیوتاؤں کو ناگوار گزری اور انھوں نے اس بیل کو وحشی اور خطر ناک بنا دیا،چناں چہ یہ بیل کریٹ کے جنگل میں گھومنے لگا اوراس جزیرے کے باشندوں کے لیے ایک بلا بن گیا۔
آخر کار با دشاہ یورس تھیئس نے ہر کولس سے کہا کہ اس بیل کو جاکر پکڑلائے،چناں چہ ہر کولس اپنا ڈنڈا لے کر اس جنگل میں پہنچ گیا جہاں یہ بیل اکثر دکھائی دیا کرتا تھا اور ایک چشمے کے کنارے بیل کا انتظار کرنے لگا۔
ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اسے بیل کے ڈکارنے کی آواز سنائی دی اور درختوں کے جھرمٹ میں سے کسی سفید چیز کی ایک جھلک نظر آئی۔ اس کے ذرا ہی دیر بعد اس نے دیکھا کہ بیل اپنے سینگ اُٹھا ئے حملہ کرنے چلا آرہا ہے۔ ہر کولس نے اپنا ڈنڈا تو پھینک دیا اور بیل کے سینگ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ بیل نے لاکھ سرما را مگر ہر کولس کی گرفت سے آزاد نہ ہوسکا ۔
بیل نے جب دیکھا کہ اس کا زور کرنا بیکا رہے تو وہ نرم پڑ گیا اور اس کا وحشی پنا دور ہو گیا، چناں چہ وہ ہر کولس کا پالتو جانور بن گیا۔ ہر کولس جدھر جاتا وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے پالتو بھیڑ کی طرح چلا جاتا۔ بعد میں جب ہر کولس کو سمندر پار کرنا پڑا تو ہر کولس اس بیل پر سوار ہوگیا اور بیل پیر تا ہوا سمندر پار کر گیا۔ اس طرح سے ہر کولس کی یہ مہم بھی کامیابی کے ساتھ ختم ہوئی۔
ہر کولس کا آٹھواں کارنامہ
کہتے ہیں کہ تھریس کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام تھا ڈا یو میڈس۔ یہ بادشاہ بڑا جنگ ہو اور جلاد تھا۔ رحم دلی کا تو اس میں شائبہ بھی نہ تھا۔ اس بادشاہ کے ملک کے پاس اگر کوئی جہاز تباہ ہو جاتا تو پھر اس جہاز کے مسافروں کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا۔ اس بادشاہ کے پاس جنگی گھوڑوں کی ایک جوڑی تھی۔ یہ گھوڑے اتنے خطرناک واقع ہوئے تھے کہ انھیں لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ان گھوڑوں کے اتنے خطرناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انھیں انسان کا گوشت کھلایا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جن لوگوں کے جہاز یہاں تباہ ہو جاتے تھے ،وہ ہمیشہ کے لیے پراسرار طور پر غائب ہو جاتے تھے۔
بادشاہ یورس تھیئس نے ہرکولس کوحکم دیاکہ جاؤ اور ڈایو میڈس کے گھوڑوں کو پکڑ لاؤ۔ اس مہم کو مزید مشکل بنانے کے لیے یہ بھی تاکید کر دی تھی کہ گھوڑوں کو زندہ لانا۔ چناں چہ ہر کولس ڈایو میڈس کے ملک پہنچ گیا۔ یہاں آکر اسے پتا چلا کہ اس نے بادشاہ کے ظلم وستم کے جو قصے سنے تھے وہ بالکل سچ ہیں۔
ہرکولس سیدھا بادشاہ کے اصطبل پہنچا اور جاتے ہی اس نے اصطبل کے سپاہیوں پر قابو حاصل کر لیا، پھر اس نے گھوڑوں کو کھولا اور انھیں زنجیروں سمیت ساحل کی طرف لے چلا۔ لیکن یہاں پر اسے ایک جم غفیر نے گھیر لیا۔ ہر کولس نے دیکھا کہ اس ہجوم میں خود بادشاہ ڈایو میڈس بھی شامل ہے۔ اس نرالے بادشاہ کو دنیا میں اگر کوئی بات پسند تھی تو وہ تھی لڑائی۔ڈایو میڈس کا ارادہ تھا کہ ہر کولس کو اپنے گھوڑوں کی خوراک بنا دے لیکن ہر کو لس نے تھوڑی ہی دیر میں ڈایو میڈس کو نیچا دکھا دیا اور گرفتار کر لیا۔ اس طرح ہر کولس نے لوگوں کو اس بادشاہ کے ظلم وستم سے نجات دلائی۔
اس کے بعد ہر کولس گھوڑوں کولے کر بادشاہ یورس تھیئس کے پاس پہنچ گیا۔ یورس تھیئس ان گھوڑوں کو پا کر بہت خوش ہوا، مگر تھوڑے دنوں میں یہ گھوڑے بھاگ کر آرکیڈیا کے پہاڑوں میں چلے گئے، جہاں بھیڑیئے انھیں کھا گئے۔
ہر کولس کا نواں کارنامہ
ڈیو میڈس کے گھوڑے پکڑنے کے بعد ہر کولس کو ایک ایسے ملک میں بھیجا گیا جہاں کی عورتیں بڑی جنگ جو تھیں۔ ان عورتوں کو امیزن کہا جاتا تھا۔ یہ جگہ یونان سے کچھ دور کوہ قاف میں تھی۔ اس ملک کی ملکہ کا نام ہیپو لائٹ تھا۔ اس ملکہ کے پاس ایک مشہور پیٹی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ پیٹی اسے جنگ کے دیوتا نے بطور تحفہ دی تھی۔ اس پیٹی میں عجیب و غریب طلسمی طاقت تھی۔ اسی بنا پر ان عورتوں سے کوئی نہیں جیت پاتا تھا۔ یونانی کئی مرتبہ ان عورتوں سے لڑ چکے تھے،لہٰذا وہ جانتے تھے کہ ان عورتوں کو زیر کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
بادشاہ یورس تھیئس کی بیٹی ایک پجارن تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر ملکہ سیپولائٹ کی طلسمی پیٹی یونانیوں کو حاصل ہو جائے تو یہ یونانیوں کے لیے بڑی کارآمد ثابت ہوگی، لہٰذا یورس تھیئس نے ہر کولس کو یہ پیٹی حاصل کرنے کے لئے روانہ کر دیا۔ چناں چہ ہر کولس نے بحرا اسود پار کیا اور ان جنگ جو عورتوں کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اپنے جہاز کو مکہ ہیپولائٹ کے محل کے قریب لنگر انداز کیا، چنانچہ ملکہ چند عورتوں کے ساتھ ہر کو لس کے جہاز پر پہنچی تاکہ یہ دیکھے کہ کون کون آیا ہے۔ ملکہ چوں کہ خود بہادر تھی، لہٰذا اس نے ہر کولس جیسے بہادر کو جو دیکھا تو اس کی بڑی آؤ بھگت کی اور اسے اپنی پیٹی دے دی، لیکن ملکہ کی قوم کی ایک عورت نے جو ملکہ کو ہرکولس کے جہاز پر دیکھا تو وہ چلانے لگی کہ دوڑو، دوڑو! ملکہ کوایک اجنبی بھگائے لیے جا رہا ہے۔ یہ سن کر امیزن عورتوں نے ہر کولس کے جہاز پر حملہ کر دیا، مگر اس حملے کے با وجود بھی ہرکولس لڑتا بھڑتاپیٹی کو لے کر وہاں سے بھاگ نکلا اور بحر اسود پار کر کے اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گیا۔
وطن پہنچ کر ہر کو لس نے وہ مشہور پیٹی یورس تھیئس کی بیٹی کے حوالے کر دی۔ اس طرح سے ہر کولس کا نواں کارنامہ بھی کامیابی سے ختم ہوا۔
ہرکولس کا دسواں کا رنامہ
آپ سوچتے ہوں گے کہ بادشاہ یورس تھیئس نے ہرکولس کے ذریعے اپنے تمام مخالف بادشاہوں اور بلاؤں کو نیست و نابود کر دیا ہوگا۔ جی ہاں! واقعات کچھ اسی طرح ہوئے۔ اب کی باریورس تھیئس نے ہر کولس کو ایک دور دراز جزیرے کی طرف روانہ کر دیا اور حکم دیا۔ کہ اس جزیرے پر جو جیر یون نامی دیو رہتا ہے اس کے سرخ جانوروں کو پکڑ لائے۔ 
جیریون دیو نہایت عجیب قسم کا دیو تھا۔ اس کے تین جسم تھے ۔تین سر تھے۔ چھ ٹانگیں اور چھ بازو تھے۔ اس کے علاوہ دو بڑے بڑے پر بھی تھے۔ اس دیو کے پاس بہت سے جانور تھے جنھیں وہ رات کو ایک اندھیرے غار میں رکھا کرتا تھا۔ اس مہم کو سر کرنے کے لیے ہر کو لس نے سورج سے وہ سنہرا پیالہ مانگ لیا جس میں بیٹھ کر سورج رات کو مغرب سے مشرق میں چلا جاتا ہے۔ یہ پیالہ ایک کشتی کی طرح پانی میں تیر تا رہتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ حسب ضرورت گھٹتا بڑھتا بھی رہتا ہے، چنانچہ اس پیالے میں بیٹھ کر ہر کولس سیدھا مغرب کی جانب چلا گیا۔ 
سمندر نے جب یہ دیکھا تو اسے بڑا غصہ آیا اور اس نے طوفان برپا کر دیا۔ چناں چہ سنہرا پیالہ ایک بلبلے کی طرح سمندر میں اُچھلنے لگا، لیکن ہر کولس ذرا بھی نہ گھبرایا۔ اس نے ایک تیرلے کر سمندر کی طرف مارنا چاہا۔ یہ دیکھ کر سمندر کو ہنسی آگئی، لہٰذا اس نے طوفان کو ختم کر دیا۔
ہرکولس جب اس جزیرے پر پہنچ گیا تو وہ ایک اونچے سے پہاڑ پر چڑھ گیا تا کہ دور دُور تک نظر آسکے اور وہ دیکھ لے کہ دیو کے جانور کہاں چرائی کر رہے ہیں۔ ابھی وہ یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ دیو کے وحشی کتے نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس کتے کے دوسر تھے۔ ہر کولس نے فوراً اپنے ڈنڈے سے اس کتے کے دونوں سروں کو توڑ ڈالا۔ ابھی ہر کولس ٹھیک سے سانس بھی نہ لینے پایا تھا کہ دیو کا ایک گلہ بان اس پر جھپٹ پڑا۔ یہ گلہ بان بھی کتے ہی کی طرح خطر ناک اور وحشی تھا۔ اگر اسے موقع ملتا تو وہ ہر کولس کی ہڈی پسلی چور چور کر دیتا، مگر ہر کولس نے اپنے زبردست ڈنڈے کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کر دیا۔
اس کے بعد ہر کو لس نے دیکھا کہ دیو کے تمام جانور سامنے میدان میں گھاس چر رہے تھے، چنانچہ اس نے انھیں بھنگا ناشروع کردیا، اتنے میں دیونے ہر کولس کو دیکھلیا،لہٰذا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اور اپنے چھے ہاتھوں میں چھے مکدر ہلاتا اور اپنے چھے حلقوں سے چیختا چلاتا ہر کولس کی طرف جھپٹا۔ اس وقت اس دیو کو جو بھی دیکھتا توڈر کے مارے اس کا دم ہی نکل جاتا مگر ہر کولس کو اپنے زہریلے تیر یاد آگئے، چناں چہ اس نے تاک کر ایک تیر ایسا مارا کہ دیو راستے ہی میں جہنم واصل ہو گیا۔
اس کے بعد ہر کولس نے تمام مویشیوں کو سنہرے پیالے میں اکٹھا کیا اور وہاں ہے روانہ ہو گیا۔ راستے میں بہت سے جانور مرگئے ۔ کچھ تو خطر ناک مکھیوں کے حملے سے ختم ہو گئے اور راستے میں بہت سے ڈاکو اور دیو بھی ملے جن سے ہر کولس کو لڑنا پڑا۔ ان لڑائیوں میں بھی بہت سے جانور مارے گئے۔ بہر حال باقی جانوروں کو وہ اپنے وطن لے آیا۔
ہرکولس کا گیارھواں کارنامہ
ہرکولس جب جیریون کے مویشی بھی لے آیا تو بادشاہ یور س تھیئس نے اسے اور بھی دور دراز کی مہم پر روانہ کرنے کی ٹھان لی۔ اس بار بادشاہ نے کہا کہ وہ تین سنہرے سیب سے آؤ جو کہ ہسپریڈیس کے باغ میں ہیں۔ 
ہر کولس اس مشہور باغ کا نام تو سن چکا تھا، مگر اس کا پتا بتانے والا اسے ایک بھی نہ ملا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ شمال میں ہے، کچھ کہتے تھے کہ مغرب میں ہے۔ لہٰذا ہرکولس شمال مغرب کی سمت روانہ ہو گیا اور چلتے چلتے وہ دریا ئے رہون تک پہنچ گیا۔ یہاں دریائی پریاں چٹانوں پر کھیل رہی تھیں۔ ان پریوں نے ہرکولس کو بتایا کہ نیرس جو کہ ایک سمندری دیو ہے، وہ اس باغ کا پتا جانتا ہے، مگر جب تک اسے مجبور نہ کیا جائے گا ،اس وقت تک وہ نہیں بتائے گا۔ ان پر یوں نے ہر کولس سے کہا کہ بس تم اسے پکڑ لینا اور اُسے اس وقت تک نہ چھوڑنا جب تک کہ وہ پتا نہ بتائے۔ 
چنانچہ ہر کولس اُن پریوں کا شکریہ ادا کر کے دریا کے ساتھ ساتھ اس جگہ تک پہنچ گیا جہاں دریا سمندر میں ملتا تھا۔ اس کے بعد وہ چٹانوں کے پیچھے بیٹھ گیا اور سورج کے ڈوبنے اور چاند کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں ایک عجیب سا بوڑھا آدمی پانی سے نکل کر ساحل پر آرام کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس بوڑھے کے سر پر چھوٹے چھوٹے سینگ بھی نکلے ہوئے تھے اور اس کے لانبے لانبے بال اور داڑھی پتا ور( پھونس) کی طرح الجھی ہوئی تھی۔ ہر کولس فوراً پہچان گیا کہ ہو نہ ہو یہی نیرس ہے۔ چناں چہ جب اس نے دیکھا کہ نیرس اچھی طرح سو گیا ہے تو اس نے لپک کر اسے دبوچ لیا۔
ہرکولس نے بڈھے کو پکڑ تولیا ،مگر بڈھا ذرا ہی دیر میں بارہ سنگھا بن گیا، پھر بارہ سنگھا اچانک ایک مرغابی بن گیا، اس کے بعد مرغابی ایک ایسا کتا بن گئی جس کے تین سر تھے۔ اور پھر یہی کتا ایک دیو بن گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیریون دیو پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد یہی دیو ایک اژدہا گیا۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ہر کولس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی۔ آخر کار جب نیرس نے دیکھا کہ ہر کولس سے چھٹکارا ملنا نا ممکن ہے تو اس نے اپنی اصل شکل اختیار کی اور پوچھا کی آخر تم چاہتے کیا ہو؟
ہرکولس نے کہا کہ میں تو صرف اتنا معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ باغ ہسپر یڈس کے سنہرے سیب کس طرح حاصل کیے جا سکتے ہیں؟
نیرس نے کہا کہ اگرتم افریقہ پہنچ جاؤ جہاں دیو ایٹلس دنیا کو سرپراٹھائے ہوئے ہے تو پھر ایٹلس تم کو وہ سیب لا دے گا۔ 
لہٰذا ہر کولس افریقہ چلا گیا۔ ہر کولس کا جہاز ابھی افریقہ کے ساحل پر لنگرانداز ہواہی تھا کہ ایک نہایت خطرناک دیو نے ہر کولس پر حملہ کر دیا۔ اس دیو کا نام تھا این ٹیئس۔ اس دیوکا مقابلہ کرنا بڑا مشکل تھا۔ بات یہ تھی کہ اس دیو پہ زمین بڑی مہربان تھی، کیوں کہ یہ زمین ہی کی اولاد تھا۔ چناں چہ جب وہ زمین کو چھوتا تھا تو زمین اس کی طاقت میں مزید اضافہ کر دیا کرتی تھی۔ ہر کولس کو یہ راز معلوم تھا، لہٰذا اس نے دیو کو زمین سے اوپر اٹھا لیا اور اس کا گالادبا دیا۔ این ٹیئس کی یہ عادت تھی کہ جو بھی مسافر اُدھر سے گزرتا تھا اسے وہ مارڈالتا تھا، لیکن ہر کولس سے ملنے کے بعد اس نے پھر کسی مسافر کو نہیں مارا۔
ہر کولس جب این ٹیئس سے لڑچکا تو وہ زمین پر لیٹ کر سو گیا، مگر ذرا ہی دیر کے بعد وہ جاگ پڑا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہزاروں چیونٹیاں اسے کاٹ رہی ہیں۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اب جو دیکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ بے شمار نہایت چھوٹے چھوٹے آدمی جو کہ بھونرے سے بھی چھوٹے تھے، اس کے جسم پر سوار ہیں اور اپنے منے منے تیروں سے اس کے جسم کو چھلنی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دراصل بونے تھے۔ ہر کولس ان لوگوں کو دیکھ کر ہنس پڑا۔ پھر اس نے چند بونوں کو اٹھا کر اپنی شیر کی کھال میں باندھ لیا تا کہ بادشاہ یورس تھیئس کو پیش کر سکتے۔ 
اس کے بعد وہ بہت عرصے تک افریقہ میں گھومتا رہا۔ آخر کار اسے ایٹلس دکھائی دیا۔ہر کولس نے اس دیو کو بے حد تھکا ہوا جو دیکھا تو اس نے اس سے کہا کہ لاؤ! میں ذرا دیر کے لیے دنیا کا بوجھ اپنے کندھوں پر رکھ لوں، مگر شرط یہ ہے کہ تم مجھے وہ تین سنہرے سیب لادو۔ اس پر اس پرایٹلس راضی ہوگیا، چناں چہ ہر کولس دنیا کو اٹھائے رہا اورا یٹلس سیب لینے چلا گیا۔ سیب لانا ایٹلس کے لیے بالکل آسان کام تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو پریاں اس با غ کی رکھوالی کرتی تھیں وہ ایٹلس کی بھتیجیاں تھیں۔
ایٹلس جب سیب لے کر واپس آیا تو اس نے ہرکولس سے کہا کہ تم اگرذرا دیر اوردنیاکو اٹھا ئے رہو تو میں یہ سیب خود بادشاہ یورس تھیئس کو دے آئوں۔ ایٹلس دراصل یہ چاہتا تھا کہ ہر کولس اس بہانے ہمیشہ کے لیے دنیا اپنے کندھوں پر اٹھائے رہے لیکن ہرکولس اس کی چال کو سمجھ گیا، چناں چہ اس نے ایٹلس کا شکریہ ادا کیااور بولا کہ اچھا ! بس تم ذرا ایک لمحہ کے لیے دنیا کو اپنے کندھے پر اٹھالو تا کہ میں اتنی دیر میں اپنے کندھے پر ایک گدی رکھ لوں۔ چناں چہ ایٹلس نے دنیا پھر اپنے کندھوں پر اٹھالی۔ اس کے ہرکولس نے جلدی سے سیب لیے اور وہاں سے چلتا بنا۔ ایٹلس اس کو پکارتا رہ گیا مگر اس نے پروانہ کی۔ اس طرح ہر کولس سیب لے کر اپنے وطن واپس پہنچ گیا اور یہ مہم بھی سرکرلی۔
ہرکولس کا بارھواں کا رنامہ
ہر کو لس اب تک بارہ میں سے گیارہ مہمات سر کر چکا تھا۔اب اگروہ ایک مہم اور سر کر لیتا ہے تو پھر یورس تھیئس کو اسے آزاد کر دینا پڑے گا۔ یہ بارہویں مہم سب سے زیادہ دشوار اور خطر ناک تھی۔ کام یہ تھا کہ زیر زمین پلوٹو کی سلطنت میں پہنچناتھااور پلوٹو کے تین سروں والے کتے سربیرس کو پکڑ کرلے آنا تھا۔ 
یورس تھیئس نے سوچا کہ ہر کولس سے یہ کام ہر گز نہ ہو سکے گا، لہٰذا سے آزادی بھی نہ مل سکے گی۔ بالفرض ہر کولس پلوٹو کی سلطنت میں پہنچ بھی جاتا ہے تو وہاں سے واپس بھی نہ آسکے گا۔
جنگل میں ایک اندھیری سی جگہ پر دو چٹانوں کے درمیان ایک خندق تھی۔ یہ خندق بڑی گہری تھی۔ اس کی تہہ میں پانی کی ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی تھی، مگر یہ بالکل روشنائی کی طرح سیاہ تھا۔ اس جگہ پر ایک عجیب سی بدبو تھی۔ کچھ گندھک کی سی بو تھی۔ اگر جنگلی چڑیاں کبھی اڑتی اڑتی اس پانی کے اوپر سے گزرنے لگتی تھیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے ہوا میں معلق ہو جاتی تھیں اور پھر سیدھی اس خندق میں جاگرتی تھیں۔ اس کے بعد پھر ان چڑیوں کا نام ونشان بھی نہیں ملتا تھا۔اس مقام پر کچھ عجیب سی گڑ گڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔دراصل پلوٹو کی سلطنت میں داخل ہونے کی یہی جگہ تھی۔ لوگ یہاں سے زیر زمین دنیا میں داخل تو ہو سکتے تھے، لیکن جو بھی ایک بار وہاں چلا جاتا تھا تو پھر واپس کبھی نہیں آتا تھا۔
ہر کولس نہ تو اس سے پہلے کبھی خوف زدہ ہوا تھا اور نہ وہ اس وقت خوف زدہ ہوا۔ چناں چہ وہ زمین کے نیچے چلا گیا۔ اس کے پاس صرف اس کا ڈنڈا تھا اور تیر کمان، ہاں وہ شیر کی کھال بھی لیے ہوئے تھے۔ ہر کولس زمین کے نیچے اترتا چلاگیا۔ پھر اسے ایک سرنگ ملی، لہٰذا وہ اس سرنگ میں چلنے لگا۔ چلتے چلتے اسے ایک پھاٹک ملا ۔یہاں پر اسے مدھم مدھم روشنی میں سربیرس کے تینوں سر اور اس کی سانپ کی سی دُم دکھائی دی۔ یہ کتا پھاٹک پر پہرہ دے رہا تھا۔ کتے نے جب ہر کولس کو دیکھا تو وہ غرانے یا بھونکنے کے بجائے اپنی ہولناک دُم ہلانے لگا۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے وہ ہر کولس کا خیر مقدم کر رہا ہو۔ ہر کولس پھاٹک کے اندر داخل ہو گیا، مگر جب وہ پھاٹک کے اندر داخل ہونے لگا تو بے شمار چمکا رڈ جیسی چیزیں پھڑ پھڑا کر اُڑنے لگیں۔ ہر کولس آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ تاریک غاروں اور تنگ راستوں سے گزرتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا جہاں پلوٹو کا تخت تھا۔ اس کے بعد اس نے پلوٹو کو صاف صاف بتا دیا کہ یورس تھیئس نے اسے سربیرس کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔ چوں کہ ہر کولس نے وہاں تک پہنچنے میں بے حد تکلیفیں اٹھائی تھیں اور بہادری کا ثبوت دیا تھا اس لیے پلوٹو نے اسے کتالے جانے کی اجازت دے دی، مگر ایک شرط رکھی کہ وہ کتے کو کوئی ہتھیار استعمال کیے بغیر پکڑلے۔
چناں چہ ہر کولس پھر پھاٹک کے پاس واپس آیا۔ سربیرس وہاں موجود تھا، لیکن اس بار خیر مقدم کرنے کے بجائے وہ نہایت خون خوار نظر آرہا تھا۔ پھر بھی ہر کولس پر کوئی خوف طاری نہ ہوا۔ اس نے تیزی سے سربیرس کو پکڑ لیا اور اپنی گرفت کو خوب مضبوط کر لیا۔
بادشاہ یورس تھیئس نے جس وقت ہر کولس کو وہ خطرناک کتا لاتے دیکھا تو وہ ڈر کے مارے اپنے تخت سے گر پڑا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، لہٰذا مجبور ہو کر اس نے ہر کولس کو آزاد کر دیا لیکن ساتھ ہی یہ پابندی بھی لگا دی کہ ہر کولس اس کی سلطنت میں نہ رہے،کہیں اور چلا جائے۔ بات یہ تھی کہ یورس تھیئس کو یہ ڈر تھا کہ ہر کولس کہیں اس کی سلطنت پر قبضہ نہ جما لے، حالاں کہ ہر کولس کے دل میں اس طرح کا کوئی خیال نہ تھا۔
اس کے بعد ہر کولس اور اس کی بیوی ڈیانیرا ایک دوسرے ملک چلے گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top