skip to Main Content

سب سے بڑی بھول

کہانی: Meddle in a Fog
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُھند اتنی تھی کہ گڑ بڑ خان گڑبڑا کر اپنے گھر کا راستہ بھول گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں ٹافیاں خریدنے باہر جارہا ہوں خالہ۔“ گڑبڑ خان نے کہا۔ ”کیا آپ کو کوئی خط پوسٹ کرانا ہے؟“
”نہیں! اور نہ ہی تم اس دُھند میں گھر سے باہر نکلو گے!“ خالہ نے سخت لہجے میں کہا۔
”کیا کہا دھند؟ اوہ، میں نے تو اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ آج دھند ہے۔“ گڑبڑ خان نے حیران ہو کر کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں، تم ایسی کسی بات پر غور نہیں کرتے جب تک کہ تمھیں اُس طرف متوجہ نہ کیا جائے۔“ خالہ نے جل بھن کر کہا۔ ”کتنی بار تم باہر بارش میں چھتری لیے بغیر چلے گئے اور کتنی دفعہ….“ خالہ بولتی چلی جارہی تھیں۔ گڑبڑ خان کا منھ بن گیا۔ اُف! ساری دوپہر خالہ باتیں سناتی رہیں گی۔ وہ برا بھلا سننے کے لیے ہرگز گھر میں نہیں رُکے گا اور دُھند کوئی اتنی گہری تو نہیں ہے کہ کوئی باہر ہی نہ نکل سکے۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ”دُھند بہت ہلکی ہے۔ میں آرام سے باہر جا کر ٹافیاں خرید سکتا ہوں۔“ اس نے کہا۔
”نہیں! آرام سے بیٹھ جاﺅ۔“ اس کی خالہ نے سختی سے کہا۔ ”تم جانتے ہو، آج شام بیگم نفیس چاے پر آرہی ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ تم ان کے آنے سے پہلے منھ ہاتھ دھو کر صاف ستھرے کپڑے بدل لو کیوں کہ اگر تم نے اپنا حلیہ درست نہیں کیا تو تم ہمارے ساتھ چاے نہیں پی سکو گے اور نہ ہی وہ کیک اور بسکٹ کھاسکو گے جو میں آج خصوصی طور پر تیار کررہی ہوں۔“
”اوہ! آپ کا مطلب ہے کہ آج شام کی چاے پر خاص اہتمام ہوگا۔“ گڑبڑ خان نے خوش ہو کر کہا جو کھانے پینے کے معاملے میں بہت لالچی تھا۔ ”اچھا تو پھر میں اوپر جا کر نہا دھو کر تیار ہوجاتا ہوں۔“
مگر وہ اوپر نہیں گیا! بلکہ دبے قدموں چلتا ہوا گھر کے پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ ”خالہ جتنا چاہے منع کریں، میں اپنے لیے ٹافیاں ضرور خریدوں گا!“ اس نے سوچا۔ ”میں دھند میں راستہ نہیں بھولوں گا اور خالہ یہ سمجھتی رہیں گی کہ میں اوپر کمرے میں تیار ہورہا ہوں، ان کو پتا بھی نہیں چلے گا۔“ دھند واقعی ہلکی تھی اور وہ باآسانی اپنا راستہ دیکھ سکتا تھا۔ جلد ہی وہ ٹافیوں کی دکان پر پہنچ گیا۔ ٹافیاں خریدنے کے بعد وہ باہر نکلا۔ برابر میں پالتو جانوروں کی دکان تھی۔ وہ دکان میں گھس گیا۔ خیریت ہوئی کہ اس کی جیب میں پیسے نہیں تھے ورنہ وہ ایک بلی، ایک کتا، دو خرگوش اور ایک توتا خریدنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ کافی دیر تک جانوروں کو دیکھنے کے بعد جب وہ دُکان سے باہر نکلا تو دُھند کافی گہری ہوچکی تھی۔ اس کو اس دُھند میں راستہ بالکل نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے اندازے سے دُھند میں قدم آگے بڑھایا اور پھر اندازے سے ہی ایک موڑ مڑ گیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ پتا نہیں وہ درست سمت جا بھی رہا ہے یا نہیں؟ اس نے سامنے والے گھروں کے نام پڑھنے شروع کیے اور پریشان ہوگیا۔ ”آرام کدہ!یہ گھر تو ہمارے گھر کے آس پاس کہیں نہیں ہے۔ “
”نشاط منزل! یہ نام بھی کبھی نہیں پڑھا۔ میں ضرور غلط سڑک پر مڑ گیا ہوں۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا اور واپس مڑ گیا۔ موڑ تک واپس پہنچ کر اس نے سڑک پار کرلی اور اندازے سے آگے چل پڑا۔ ”اب میں یقینا صحیح راستے پر چل رہا ہوں۔“ اس نے سوچا۔ ”بس اس سڑک کے آخری سرے تک جا کر میں دائیں طرف مڑجاﺅں گا اور گھر کے پچھلے حصے سے اندر داخل ہوجاﺅں گا۔ خالہ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ میں گھر سے باہر جا کر واپس بھی آگیا۔“
شاید وہ غلط راستے پر چل رہا تھا کیوں کہ کافی دیر تک چلتے رہنے کے بعد بھی اسے کوئی جانا پہچانا گھر نظر نہیں آیا۔ ”اوہ! میں ضرور راستہ بھٹک گیا ہوں۔ دھند بھی اتنی گہری ہوگئی ہے کہ اب تو دو قدم کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔“
وہ مایوس ہو کر ایک جگہ کھڑا ہوگیا اور سوچنے لگا۔ ”اب میں کیا کروں؟ کوئی راہ گیر گزرے گا تو میں اس سے راستہ پوچھوں گا۔“ لیکن اس خراب موسم میں اس کے علاوہ شاید کوئی بھی باہر نہیں گھوم رہا تھا۔ اس نے پریشانی سے ہاتھ ملے۔ اب کیا ہوگا؟ اگر وہ وقت پر گھر نہیں پہنچا تو ایک تو یہ کہ اس کی خالہ اس کی تلاش میں کسی کو بھیجیں گی اور جب وہ پکڑ کر گھر لے جایا جائے گا تو اس کی خوب پٹائی ہوگی۔ دوسرے یہ کہ وہ مزید لوازمات بھری چاے سے بھی محروم ہوجائے گا۔ پتا نہیں آج چاے کے ساتھ ناشتے میں کیا کچھ ہوگا؟ لذیذ چاکلیٹ کیک، میٹھے سینڈوچز، خستہ بسکٹ اور نمکو! اُف! کیا کروں؟ اندھیرا بڑھتا جارہا ہے۔ مجھے کسی گھر کی گھنٹی بجا کر اپنے گھر کا ایڈریس بتانا چاہیے، شاید کوئی مجھے میرے گھر کا راستے بتادے۔
آخر اس کو خیال آیا۔ اس نے سامنے والے گھر کی گھنٹی بجائی۔ قدموں کی آواز آئی اور کسی نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ اندھیرے کی وجہ سے گڑبڑ خان کو اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آیا۔
”جناب! میں دُھند کی وجہ سے اپنے گھر کا راستہ بھول گیا ہوں۔“ اس نے شائستگی سے کہا۔ ”اگر میں وقت پر گھر نہیں پہنچا تو میری خالہ مجھے سے بہت ناراض ہوں گی اور مجھے شام کی چاے بھی نہیں دیں گی۔ کیا آپ مجھے بتاسکتے ہیں ہیں کہ میں کہاں رہتا ہوں؟“
”ہاں….!“
دروازے پر کھڑے شخص نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی دروازے سے ایک ہاتھ باہر آیا اور گڑبڑ خان کے کان پر زبردست گھونسا پڑا۔ ”تم اس گھر میں رہتے ہو!“ اور گڑبڑ خان کو گھسیٹ کر اندر لے جایا گیا۔ دروازہ دھڑ سے بند کردیا گیا۔ دروازے پر کھڑا شخص اور کوئی نہیں، اس کی اپنی خالہ تھیں۔ گڑبڑ خان نے گھر کا راستہ پوچھنے کے لیے اپنے ہی گھر کا انتخاب کرلیا تھا۔
”اوہ آنٹی! میں دراصل صرف قریبی دکان جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا تھا اور دھند اچانک ہی اتنی بڑھ گئی اور….“ گڑبڑ خان نے ہکلاتے ہوئے کہنا شروع کیا، مگر اس کی بات پوری سنے بغیر ہی اس کی خالہ نے ایک تھپڑ رسید کیا اور ڈرائنگ روم میں چلی گئیں۔
گڑبڑ خان کو شاندار چاے کا خیال آگیا اور وہ بھاگ کر اوپر چلا گیا۔ آئینے میں اپنا جائزہ لینے سے اسے محسوس ہوا کہ وہ بہت میلا کچیلا ہورہا ہے۔ منھ ہاتھ دھونے، کپڑے بدلنے اور بال سنوارنے میں اس کو خاصا وقت لگ گیا۔ ”اب میں نیچے جاسکتا ہوں، جب میں ڈرائنگ روم میں جاﺅں گا تو خالہ مہمانوں کے سامنے مجھے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرسکیں گی اور میں آرام سے بیٹھ کر ان لوگوں کے ساتھ چاے کے مزے اُڑاﺅں گا۔“ اس نے خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا، وہ مسکراتے ہوئے نیچے گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے ذرا سا جھک کر مہمانوں کو سلام کیا۔
”اوہ! تو تم بالاخر آہی گئے۔“ اس کی خالہ نے کہا۔ ”میں نے ناشتے کے جھوٹے برتن سنک میں ڈال دیے ہیں۔ تم جا کر دھونا شروع کرو۔“ گڑبڑ خان کے لیے یہ کتنا بڑا دھچکا تھا۔
اگلے لمحے اس نے خود کو ٹھنڈے اور اندھیرے کچن میں گندے برتنوں کے ڈھیر کے آگے پایا۔ اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے سوچا۔ ”پہلے میں بچے ہوئے کیک بسکٹ کھاﺅں گا، اس کے بعد برتن دھونا شروع کروں گا۔“
مگر بہت تلاش کے بعد بھی وہ ناشتے کا بچا ہوا سامان نہیں ڈھونڈ پایا۔ خالہ نے سب کچھ الماری اور فریج میں رکھ کر لاک کردیا تھا۔
جب وہ برتن دھو کر تھکا ہارا اوپر اپنے کمرے میں پہنچا تو اس کی ساری ٹافیاں خالہ کی بلی چبا چکی تھی۔ ایک بھی ٹافی سلامت نہیں رہی تھی۔ ”مگر خالہ اپنی بلی کو تھوڑی ڈانٹیں گی!“ اس نے افسردہ ہو کر سوچا۔
”یہ سب کچھ تمھاری اپنی حماقت کی وجہ سے ہوا اور اس لیے بھی کہ تم نے نافرمانی کی گڑبڑ خان؟“ خالہ نے بعد میں کہا۔ ”ہاں! واحد عقل مندی کا کام جو تم نے کیا وہ یہ تھا کہ جب تم راستہ بھول گئے تو اپنے ہی گھر کی گھنٹی بجا کر راستہ پوچھا۔“
”یہی تو میری سب سے بڑی بھول تھی۔“ غریب گڑبڑ خان نے کہا۔ ”آئندہ اگر میں دُھند میں گھر کا راستہ بھولا تو اس بات کا خیال رکھوں گا کہ کبھی بھی اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہو کر نہ بھولوں!“
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top