skip to Main Content

قدرت کا کرشمہ (دو جڑواں سیامی بھائی)

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہر شے کا پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ وہ چاہے تو ممکن کو ناممکن کر دے اور چاہے تو ناممکن کوممکن کر دے۔ بعض اوقات اس کی قدرت کا کوئی ایسا کرشمہ نظر آ جاتا ہے کہ انسان اسے دیکھ کر ششدر ہو جا تا ہے۔ کرشمہ کسی انوکھی یا انہونی بات کو کہتے ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی میں سیام کے دو جڑواں سیامی بھائیوں کی صورت میں قدرت کے ایک کرشمے نے تریسٹھ سال تک ساری دنیا کو ہکابکا کیے رکھا۔ یہ جڑواں بھائی 1811 عیسوی میں بنکاک (تھائی لینڈ) کے قریب دریائے سیام کے کنارے ایک گاؤں میک لانگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ایک غریب چینی ماہی گیر (مچھلیاں پکڑنے والا) تھا اور ماں ایک غریب سیامی عورت تھی۔(ملک سیام کواب تھائی لینڈ کہا جا تا ہے۔) ماں باپ نے اپنے ان جڑواں بچوں کے نام چانگ اور اینگ رکھے۔ پیدائش کے وقت ایک گول دائرہ شکل کی ہڈی کے ذریعے ان بچوں کی سینے کی ہڈیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔اس ہڈی پر گوشت کی موٹی سی تہہ اور اس پر کھال تھی۔ اس کی لمبائی چار انچ کے قریب تھی اور سینے کے نچلے حصے تک ان کے جسم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹروں نے ان کی پیدائش کے وقت بھی اور بعد میں بھی ہمیشہ اس ہڈی کو کاٹ کر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن بتایا کیونکہ اس طرح دونوں کی موت واقع ہوسکتی تھی چنانچہ انہوں نے پوری زندگی اس جڑواں حالت میں گزاری۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ان بھائیوں کو جوڑنے والی ہڈی بھی بڑھ کر ساڑھے پانچ انچ ہوگئی۔ اس طرح وہ ادھر ادھر آسانی سے حرکت کر نے، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔ بچپن ہی میں انہوں نے ایک ساتھ رہنا سیکھ لیا۔ جلد ہی اس حیرت انگیز جوڑے کی شہرت سارے ملک میں پھیل گئی۔ یہاں تک کہ انہیں شاہی دربار میں بلایا گیا جہاں ان کی خاطر مدارات کی گئی۔1830ء میں جب ان کی عمر انیس سال کی تھی,ان کا باپ فوت ہو گیا اوران کی ماں بے سہارا ہوگئی۔ اس زمانے میں ایک امریکی بحری کپتان”کافن“ اور ایک اسکاچ تاجر رابرٹ ہنٹر دونوں نے مل کر ان جڑواں بھائیوں کو ان کی پریشان حال ماں سے خرید لیا اور یورپ کے مختلف ملکوں میں ٹکٹ لگا کر ان کی نمائش سے بڑا روپیہ کمایا۔لوگ ان کو دیکھ کر حیران بھی ہوتے تھے اور خوف زدہ بھی۔ کچھ عرصہ بعد کافن اور رابرٹ ہنٹران کو امریکہ کے شہر بوسٹن لے گئے۔ وہاں ایک مشہور امریکی تاجر ”قینیاس ٹی بارنم“ نے چانگ اور اینگ کو کافن اور رابرٹ ہنٹر سے خرید لیا اور خود بہت بڑے پیمانے پر ان کی نمائش کر کے خوب دولت کمائی۔ اب ان جڑواں بھائیوں کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوگئی۔ اس دوران میں خود ان دونوں بھائیوں کے دل میں اپنی پہچان کا جذ بہ پیدا ہو گیا اور انہوں نے اپنی مز ید نمائش کرانے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی شہریت حاصل کر لی یعنی امریکہ کے شہری بن کر ہمیشہ کے لیے وہیں رہنے لگے۔
امریکی شہری بننے کے بعد دونوں بھائیوں نے بتیس سال کی عمر میں دو آئرستانی (آئرلینڈ کی رہنے والی) لڑکیوں سے شادی کر لی اور دو عمدہ مکان بھی تعمیر کروا لیے۔ اب انہوں نے اپنے دن رات گزارنے کے لیے عجیب پروگرام بنالیا۔ یہ کہ چانگ اور اس کی بیوی تین دن اور تین راتیں اینگ کے گھر گزارتے تھے،پھر اینگ اور اس کی بیوی تین دن اور تین راتیں چانگ کے گھر گزارتے تھے۔ یہ انتظام سالہا سال تک جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ اس نے ان دونوں بھائیوں کو خوب اولا د دی۔ چانگ اور اس کی بیوی ایڈیلیڈ کے دس بچے ہوئے جبکہ اینگ اور اس کی بیوی سارہ کے گیارہ۔ یہ سب بچے دو کے سوا بالکل صحت مند تھے البتہ دو بچے گونگے اور بہرے تھے۔ جنوری1874ء میں چانگ یکا یک بیمار ہو گیا۔ اس کی یہ بیماری موت کا پیغام ثابت ہوئی۔ اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی موت کے نصف گھنٹے کے بعد اینگ پر بھی اعصابی دردوں وغیرہ کا سخت دورہ پڑا اور اسی دورے سے وہ بھی فوت ہو گیا۔ اس طرح دونوں بھائی ایک ہی دن دنیا سے چل بسے۔ وفات کے وقت دونوں کی عمر تریسٹھ برس کی تھی۔ ان کی لاشوں کے ڈاکٹری معائنے سے معلوم ہوا کہ ان کے اعصابی نظام الگ الگ تھے لیکن ان کا جگر اور دوران خون ایک دوسرے سے ملا ہوا (مشتر کہ) تھا اور اگر آپریشن کے ذریعے علیحدہ کیا جا تا تو ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
ان جڑواں بھائیوں کا معاملہ اس لحاظ سے اور بھی حیرت انگیز ہے کہ ان دونوں کے مزاج ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ چانگ سخت کاہل، تند مزاج اور ضدی تھا جبکہ اینگ بہت خوش مزاج، ہنس مکھ، محنتی اور ذہین تھا۔ چانگ بلا کا شرابی تھا اور اینگ شراب کو چھوتا تک نہ تھا۔ صرف لکڑی کا ٹنے، مچھلیاں پکڑنے اور شکار سے وہ دونوں ایک جیسی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس طرح کبھی ان میں صلح ہو جاتی تھی اور کبھی وہ ایک دوسرے سے بگڑ بیٹھے تھے۔جیسے تیسے کبھی دھوپ اور کبھی چھاؤں میں، کبھی صلح اور کبھی ناراضی کی حالت میں زندگی کے پورے تریسٹھ سال گزار دیے اور اس طویل مدت میں وہ ایک دوسرے سے جڑے رہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہو سکے۔
انیسویں صدی عیسوی کا یہ ایک ایسا عجیب وغریب واقعہ ہے جس کی مثال شاید پوری انسانی تاریخ میں نہ ملے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top