skip to Main Content

یمن کا بہادر شہسوار

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔

حضرت عمرو بن معدی کرب ز بیدی کا شمار اسلامی تاریخ کے نامور بہادروں اور شہسواروں (گھوڑے پر سواری کے ماہروں) میں ہوتا ہے۔ (عمرو میں ”ع“ پر زبر ہے ”م“اور”و“ ساکن ہیں۔ واؤ نہیں پڑھی جاتی) وہ یمن میں آبادعرب قبیلے مذحج کی ایک شاخ بنی زبید سے تعلق رکھتے تھے اس لیے زبیدی کہلاتے تھے۔ وہ بڑے ڈیل ڈول اور قد کاٹھ کے آ دمی تھے۔تلوار چلانے اور نیزہ بازی میں بہت کم لوگ ان کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ وہ اتنے طاقتور اورشہزور تھے کہ لوگ ان کو ہزار بہادر شہسواروں کے برابر مانتے تھے۔ بہادر ہونے کے علاوہ وہ ایک اونچے درجے کے شاعر بھی تھے اور جوشیلی تقریریں کرنے کا فن بھی انہیں خوب آ تا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ اتنی خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں ڈاکاز نی کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا۔ مختلف قبیلوں پر چھاپے مارنا اور راہ جاتے قافلوں اور مسافروں کولوٹ لینا ان کا آئے دن کا کام تھا۔ عرب میں ان کا نام دہشت کا نشان بن گیا تھا اور کمزور دل کے لوگ ان کا نام سن کر کانپ اٹھتے تھے۔ ان کی زندگی ایسے ہی گزر رہی تھی کہ یمن کے پڑوسی ملک عرب میں انقلاب برپا ہو گیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ سلم کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپ تیرہ سال تک مکہ کے لوگوں کو اللہ کے سچے دین اسلام کی طرف بلاتے رہے۔ پھر آپ اسلام قبول کرنے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت فرما کر(تقریباً تین سومیل دور) مدینہ تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے جاں نثاری کا حق ادا کر دیا اور آخری دم تک آپ کی اطاعت اور حمایت کا عہد کیا۔ وہیں آپ نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ کافروں نے مسلمانوں کو سازشوں اورلڑائیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کی بار بار کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا، یہاں تک کہ ۸ ہجری میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ بھی فتح کر لیا۔ اب نہ صرف مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے بلکہ سارے عرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ 9 اور 10ہجری میں نہ صرف عرب کے گوشے گوشے سے بلکہ پڑوسی ملکوں سے بھی مختلف قبیلوں کے وفد دھڑا دھڑ مد ینہ آ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کی عزت حاصل کی۔ وفد کے معنی ہیں کسی ایک مقصد کے لیے (کسی قبیلے کی طرف سے) بھیجے جانے والی جماعت یا ایسے لوگ جن کو کوئی قبیلہ یا کسی مقام کے لوگ اپنے نمائندے (یعنی ان کی طرف سے گفتگو کرنے والے) کسی خاص مقصد کے لیے کسی حاکم یا ملک کے سربراہ کے پاس بھیجیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف قبیلوں کے جو نمائندے اسلام قبول کرنے یا دین کے احکام سیکھنے کے لیے حاضر ہوئے، ان کو وفود (وفد کی جمع) کہا جاتا ہے۔10 ہجری میں ایک وفدیمن سے بھی مدینہ آیا۔ اس وفد میں عمرو بن معدی کرب بھی شامل تھے۔ اس وفد کے سب لوگوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر لیا اور مسلمان ہو کر وطن واپس گئے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمرو بن معدی کرب نے ڈاکا زنی تو چھوڑ دی لیکن ان کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرصہ ٹھہر کر دین کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا۔ اس لیے وطن واپس جا کر ان سے ایک بھول یا غلطی ہوگئی۔ ہوا یوں کہ یمن میں ایک شخص اسودعنسی نے نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور مختلف قبیلوں کے ہزاروں سادہ لوح لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ حضرت عمرو بھی اس کے فریب میں آ گئے اور اس کے ساتھ مل گئے۔ اسودعنسی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے حاکموں (عاملوں) کویمن سے نکلنے پر مجبور کر دیا تاہم یمن کے ایک مسلمان مجاہد فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے رات کو اسودعنسی کے گھر میں گھس کر اس کو قتل کر ڈالا۔ اس واقعہ کے پانچ دن بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وفات پا گئے۔
اسود عنسی کے قتل کے بعد عمرو بن معدی کرب نے ایک اور قبائلی سردار قیس بن عبدیغوث کے ساتھ مل کر یمن کے مرکزی شہر صنعا پر قبضہ کر لیا۔ ادھر مد ینہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ چن لیا۔ انھوں نے ان تمام علاقوں کی طرف اسلامی لشکر بھیجے جہاں کے لوگ اسلام سے پھر گئے تھے اور اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ان میں ایک لشکر یمن طرف بھی گیا۔ اس لشکر نے یمن کے مسلمان رئیسوں کے ساتھ مل کرصنعا پرچڑھائی کی اوراسے عمرو بن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث سے چھین لیا۔ان دونوں نے صنعا سے بھاگ کر ایک اورلشکر تیار کرلیا۔ اس لشکر کو حضرت مہاجر بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے ساتھ یمن پہنچ کر شکست دی اور عمرو بن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث دونوں کو گرفتار کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مد ینہ منورہ بھیج دیا۔
عمرو بن معدی کرب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے عمر دکوسخت ملامت کی اور فرمایا:
”تم کو شرم نہیں آتی کہ مارا مارا پھرتا ہے اور گرفتاری کی ذلت اٹھا تاہے۔ اگر دین کی حمایت کرتا تو اللہ تعالیٰ تم کو بلند مرتبہ عطا کرتا۔“
عمر و بن معدی کرب سخت شرمندہ ہوئے اور ندامت سے سر جھکا کر عرض کیا:
”اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! جو ہو چکا سو ہو چکا،مجھے معاف فرما دیجیے۔ اب میں تو بہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہتا ہوں اور سچے دل سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اسلام سے منہ نہ موڑوں گا۔“
قیس بن عبدیغوث نے بھی اسی طرح اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی چاہی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں کو معاف فرمادیا۔ توبہ کے بعد حضرت عمرو بن معدی کرب اسلام کے ایسے جانباز سپاہی بن گئے جو ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھے اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمرو نے شام اور ایران کی جنگوں میں بھر پور حصہ لیا۔ انہوں نے شام میں رومیوں کو اور ایران میں مجوسی (آتش پرستوں یا آگ پوجنے والے)جنگجوؤں کولو ہے کے چنے چبوادیے اور کئی شاندار کارنامے انجام دیے۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے ہوئے اس دنیا سے شہادت کا درجہ پا کر رخصت ہوئے۔ یہاں ان کے چندجنگی کارناموں کا مختصر حال بیان کیا جا تا ہے۔
شام کی جنگوں میں یرموک کی جنگ نہایت خونریز اور شام میں لڑی جانے والی لڑائیوں میں سب سے سخت لڑائی تھی۔ قیصر روم (روم کے بادشاہ) نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری طاقت اس لڑائی میں جھونک دی تھی۔ کئی لاکھ رومی فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد کئی گنا کم تھی لیکن وہ اپنی ایمانی قوت کے بل پر رومیوں کے خوفناک لشکر کے ساتھ اس شان سے لڑے کہ اس کا منہ پھیردیا۔ اسلامی لشکرمیں حضرت خالد بن ولید، حضرت ضرار بن از ور اور حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہم جیسے بہادروں نے اکیلے اکیلے بھی رومیوں پر ایسی ضربیں لگائیں کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ ایک موقع پر جب لڑائی کا تنور پوری طرح گرم تھا اور حضرت عمرو بن معدی کرب رومیوں کی لاشوں پر لاشیں گرا رہے تھے، ایک بھاری بھر کم قوی ہیکل رومی نے حضرت عمرو پر حملہ کیا۔ حضرت عمرو نے اس کا وار خالی دیا اور اپنی تلوار کا اس پر ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ آناً فاناً ہلاک ہو گیا۔ اب ایک اور رومی جنگجوان کی طرف بڑھا۔انھوں نے اس کو بھی قتل کر ڈالا۔ پھر جب رومی شکست کھا کر بھاگے تو حضرت عمرو نے دور تک ان کا پیچھا کیا اور جو بھی ان کی تلوار یا برچھی کی زد میں آ گیا اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے خیمے کی طرف واپس آئے گھوڑے سے اتر کر بڑے بڑے طشت منگوائے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی۔
ی رموک کی لڑائی کے علاوہ حضرت عمرو بن معدی کرب قادسیہ کی خونریز جنگ میں بھی یمن کے خلاف جان ہتھیلی پر رکھ کرلڑے اور اپنی بہادری کی دھاک بٹھا دی۔ یہ لڑائی عراق عرب کی سب سے سخت لڑائی تھی۔ اس میں ایرانی لشکر کا سپہ سالا رایران کا ایک نامی بہادر
”رستم بن فرخ زاد“ تھا۔ اس کے ساتھ قریباً دو لاکھ ایرانی جنگجو اور تین سو جنگی ہاتھی تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی فوج کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان میں حضرت عمرو بن معدی کرب اور کئی دوسرے عرب شہسوار شامل تھے۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے ایرانیوں کی فوجی قوت اور جنگی تیاریوں کا حال امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کو لکھ بھیجا اور ان سے مدد بھیجنے کی درخواست کی۔ اس کے جواب میں امیرالمونین نے حضرت سعد کو جو خط بھیجا اس میں دوسری بہت سی ہدایتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا:

”تمہارے لشکر میں مالک بن عوف،حنظلہ بن ربیعہ، طلحہ بن خویلد،عمرو بن معدی کرب اور ان جیسے دوسرے عرب شہسوار ایسے جانباز مجاہد ہیں جن کے دلوں میں ثواب اور جہاد کی پرزورلگن ہے۔ اللہ پر بھروسا کرو اور اسی سے مدد مانگو۔“
لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضرت سعد نے اپنے چند نمائندے (جن میں حضرت عمرو بن معدی کرب بھی شامل تھے) شاہ ایران یزدجرد (کسریٰ) کے پاس بھیجے اور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی مگر اس نے یہ دعوت بڑی حقارت سے ردکر دی۔ لڑائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے ایرانی لشکر کی طرف سے ایک نامی تیرانداز ریشمی قبا پہنے، سنہری پیٹی باندھے اور ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا۔ اس کے مقابلے کے لیے حضرت عمرو بن معدی کرب نکلے۔ اس نے تیرکمان میں جوڑا اور تاک کر حضرت عمر کو مارامگر وہ بال بال بچ گئے۔ اب وہ اپنا گھوڑا دوڑاتے ایرانی تیرانداز کے قریب پہنچ گئے اور پلک جھپکنے میں اس کی پیٹی میں ہاتھ ڈال کر اس کو زمین پر دے مارا۔ پھر تلوار سے اس کا سر کاٹ کر ایرانی لشکر کی طرف پھینک دیا اور اپنی فوج کی طرف منہ کر کے کہا کہ یوں لڑا کرتے ہیں۔ اسلامی لشکر کی طرف سے شاباش کے نعرے بلند ہوئے اور لوگوں نے کہا، ہرشخص عمرو بن معدی کرب کیونکر ہوسکتا ہے۔
جب گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی اور دونوں فو جیں ایک دوسرے کے ساتھ گتھ گئیں تو حضرت عمرو بن معدی کرب اپنی فوج کی صفوں میں چکر لگانے لگے اور مجاہدوں کو اس طرح جوش دلانے لگے:
”اے جاہد و!تم لوگ تندشیر بن جاؤ اور دشمن کو بھیڑ سمجھ کر اس پر جھپٹ پڑو۔“
اتنے میں ایک ایرانی نے ان کو تیر مارا جوان کی کمان کے کونے میں لگا۔اس پر حضرت عمرو بن معدی کرب بجلی کی سی تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور اسے ایسا نیز و مارا کہ اس کی پیٹھ کے پارنکل گیا۔ پہلے دن کی لڑائی رات کا اندھیرا پھیلنے تک جاری رہی۔ دوسرے دن بھی صبح سے لے کر شام تک گھمسان کی جنگ ہوتی رہی۔ حضرت عمرو بن معدی کرب نے ان دودنوں میں بے شمار ایرانیوں کوقتل کیا۔ تیسرے دن ایرانیوں نے لڑائی شروع ہوتے ہی اپنے جنگی ہاتھیوں کو اسلامی فوج کی طرف بڑھایا۔ ہاتھیوں کے دائیں بائیں ایرانی فوج کی پیدل صفیں تھیں۔ حضرت عمرو بن معدی کرب نے مسلمانوں کو خطرے میں دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں سامنے کے ہاتھی پر حملہ کرتا ہوں تم میرے ساتھ رہنا ورنہ عمرو بن معدی کرب مارا گیا تو پھر عمرو بن معدی کرب پیدا نہ ہوگا۔ یہ کہہ کرتلوار سونت کر سامنے کے ہاتھی پر حملہ کیا مگر ایرانیوں کی پیدل صفیں ان پر ٹوٹ پڑیں۔ یہ د یکھ کر حضرت عمرو کے ساتھی مجاہدین بھی آگے بڑھے اور ایرانیوں کے حملے کو پوری طاقت سے روکا۔ اس وقت اتنی گرد اڑی کہ حضرت عمر و نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ مسلمان مجاہدین نے سخت لڑائی کے بعد ایرانیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس وقت حضرت عمرو بن معدی کرب کا یہ حال تھا کہ سارا جسم خاک سے اٹا ہوا تھا اور بدن پر برچھیوں کے بے شمار زخم تھے مگر وہ برابرتلوار چلائے جار ہے تھے۔ اتنے میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا۔ انھوں نے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی۔ اس نے بار بار گھوڑے کو دوڑانے کی کوشش کی مگر اس زخمی حالت میں بھی حضرت عمر کی طاقت کا یہ حال تھا کہ گھوڑا اپنی جگہ سے مل نہ سکا۔ آخر اس کا سوار اس کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اتنے میں بہت سے تاز ہ دم مجاہد حضرت عمر کی مدد کے لیے آ پہنچے اور ان سب نے مل کر ہاتھیوں پر اس انداز سے حملہ کیا کہ وہ زخمی ہو کر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔
تیسرے دن کی اس لڑائی میں ایرانیوں کاسپہ سالار ایک مجاہد کے ہاتھ سے مارا گیا۔اس کے ساتھ ہی ایرانی لشکر میں بھگدڑمچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک ان کا تعاقب کیا اوربے شمار لاشیں میدان میں بچھادیں۔
اس فتح کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے برس، بابل، کوثی اور بہر شیر کوفتح کیا اور پھر دریائے دجلہ عبور کرکے ایران کے دارالحکومت مدائن میں جا داخل ہوئے۔ شاہ ایران یزد جردا پنا خزانہ سمیٹ کروہاں سے بھاگ گیا۔ حضرت عمرو بن معدی کرب ان ساری فتوحات میں حضرت سعدبن ابی وقاص کے ساتھ ساتھ رہے اور ہرمعر کے میں بڑی شان سے لڑے۔
ایک دفعہ حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں مدینہ منورہ آئے اور امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے جہاد کے میدان میں جو کارنامے انجام دیے تھے، ان کی بنا پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے بڑے قدردان تھے۔ وہ ان سے بڑی محبت اور تپاک سے ملے اور دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں جاہلیت کے زمانے کا ذکر آ گیا۔ امیرالمؤمنین نے ان سے پوچھا:
”اسلام قبول کرنے سے پہلے تمھیں ہرقسم کے آدمیوں سے واسطہ پڑا ہوگا، یہ تو بتاؤ تم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مکار اور سب سے زیادہ بہادر کس کو پایا؟“
حضرت عمرو بن معدی کرب نے عرض کیا:
”امیرالمونین!مجھے اپنی زندگی میں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ ان میں ایسے آدمی بھی تھے جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ ان سے مجھے جس طرح واسطہ پڑا وہ میں عرض کرتا ہوں۔
جاہلیت کے زمانے میں (یعنی اسلام قبول کرنے سے پہلے)میری زندگی ڈاکازنی اور ماردھاڑ میں گزرتی تھی،کبھی اس قبیلے پرحملہ کبھی اس قبیلے پر چھاپا۔میرے خاندان کی گزر اسی طرح ہوتی تھی۔ میری بہادری،بے خوفی اور شہزوری ایسی مشہور ہوگئی تھی کہ میرا نام سن کر اکثر لوگ کانپ اٹھتے تھے اور کسی کو میرا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ ایک دن میں ڈکیتی کے لیے گھر سے نکلا۔ ایک جگہ دیکھا کہ ایک گھوڑا کھڑا ہے اور اس کے قریب زمین میں نیز ہ گڑ اہوا ہے اور پاس ہی ایک شخص زمین پر بیٹھا ہے۔ میں لپک کر اس شخص کے قریب پہنچا اور للکار کر کہا، ”سنبھل جا کر تیرا قاتل آ پہنچا۔“
اس نے پوچھا،”پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟“
میں نے کہا،”عمرو بن معدی کرب زبیدی۔“
یہ سنتے ہی وہ شخص سہم کر زمین پر گر پڑا،دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ امیر المومنین! یہ شخص مجھے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ بزدل نظر آیا۔
اب جسے میں نے سب سے زیادہ مکار پایا اس کا حال سنیے۔
ایک دفعہ میں کسی شکار کی تلاش میں نکلا۔ ایک مقام پر دیکھا کہ ایک گھوڑا کھڑا ہے۔ اس کے برابر زمین میں نیزہ گڑا ہے اور ایک شخص دور بیٹھا ہوا پیشاب کر رہا ہے۔ میں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے پاس جا کر بلند آواز سے کہا،”سنبھل جا کہ تیرا قاتل آ پہنچا۔“
اس شخص نے لاپروائی سے کہا۔”کیا سچ مچ تم مجھ سے لڑو گے؟“
میں:”ہاں بس یوں سمجھو کہ میری تلوار تیرا کام تمام کیا چاہتی ہے۔“
وہ:”ہوں …… تم ہوکون؟“
میں:”عمرو بن معدی کرب ز بیدی۔“
وہ:”اچھا تو تم عمرو بن معدی کرب ہو، لیکن جو کچھ تم کر رہے ہو،یہ بہادروں کا طریقہ نہیں۔“
میں:”کیوں؟“
وہ:”میں پیادہ ہوں اور تم سوار، اگر مرد ہوتو قسم کھاؤ کہ جب تک میں گھوڑے پر سوار ہو کرہتھیار نہ سنبھال لوں، مجھ سے نہیں لڑو گے۔“
میں نے قسم کھائی کہ جب تک وہ سوار نہ ہو لے گا، میں اس سے ہرگز نہ لڑوں گا۔
میرے قسم کھاتے ہی وہ شخص اٹھااور گھوڑے کے قریب آکر اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔
میں:”یہ کیا؟“
وہ:”نہ میں گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ میں تم سے لڑوں گا۔ اگر تم نے اپنی قسم توڑی اور مجھ حملہ کیاتو سارے میں عہد توڑنے بزدل کے لقب سے مشہور ہوجاؤگے۔“
اے امیر المؤمنین!میں اب مجبور ہو گیا کہ اسے چھوڑکر اپنا راستہ لوں اس شخص سے بڑھ کرمکار میں نے اپنی زندگی میں کسی کونہیں دیکھا۔
اب اس کا حال سنیے جس کی بہادری اور حوصلہ مندی کومیں زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔ ایک دن میں ڈاکازنی کے لیے صحرا میں جارہا تھا کہ مجھے ایک خوبصورت نو جوان نظر آیا۔ وہ گھوڑے پرسوار میری طرف آرہا تھا۔ قریب آ کر اس نے سلام کیا۔میں نے سلام کا جواب دیا اوراس سے پوچھا:”تم کون ہو؟“

نوجوان: میرا نام حارث بن سعد ہے۔“
میں:”ہوشیار ہوجا، تیراقاتل آ پہنچا۔“
حارث:”کم بخت، تو کون ہے؟“
میں:”عمرو بن معدی کرب زبیدی“
حارث: ”وہی حقیر اور ذلیل ڈاکو؟خدا کی قسم صرف یہ سمجھ کر چھوڑ رہا ہوں کہ تجھ جیسے ذلیل آدمی پر کیا ہاتھ اٹھاؤ ں۔“
امیرالمومنین! حارث کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں دل میں سخت شرمندہ ہوالیکن مجھے سخت غیرت بھی آئی اور میں نے گرج کر کہا:
”اب یہ باتیں رہنے دے اور سنبھل جا، میں قسم کھا تا ہوں کہ اب اس میدان سے ہم میں سے ایک ہی شخص زندہ بچ کر جا سکتا ہے۔“
حارث:”میں تجھ سے پھر کہتا ہوں کہ اپنی جان بچا کر چلا جا، میں اس گھرانے سے ہوں جس میں سے کسی پر آج تک کوئی شخص غالب نہیں آسکا۔
میں:”میں بھی ویسا ہی ہوں۔“
حارث:”اچھا تو بتا، تجھے کیا پسند ہے، پہلے میں وار کروں یا تو کرے گا؟“
میں: ”میں ہی حملہ کرتا ہوں، سنبھل“
یہ کہہ کر میں نے اپنی پوری طاقت سے اس کو نیزہ مارا۔ مجھے یقین تھا کہ میرا نیزہ اس کی پیٹھ توڑ کر نکل گیا ہو گا مگر اس نے اپنے گھوڑے پر جھک کر ایسی خوبصورتی سے میرا وار خالی دیاکہ میں حیران رہ گیا۔ اب اس نے اپنے نیزے سے میرے سرکو ہلکا سا کچوکا دیا اور کہا:
”اے عمرو! یہ میرا پہلا وار ہے۔ اگر تجھ جیسے ذلیل شخص کوقتل کر نا میں اپنی ذلت نہ سمجھتا تو یہ نیز ہ تیرے سر کے پار ہو گیا ہوتا۔“ امیرالمؤمنین یہ جملہ سن کر میں نے اپنے آپ کو اتنا حقیر محسوس کیا کہ موت زندگی سے پیاری معلوم ہونے لگی۔ میں نے بڑے جوش سے حارث پر اپنے نیزے سے دوسرا وار کیا مگر اس نے بڑی صفائی سے یہ وار بھی خالی دیا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ میرے سر میں اپنے نیزے سے یہ کہہ کر کچوکا دیا۔یہ دوسری مرتبہ ہے کہ تجھے چھوڑ دیا ہے۔
اب تو میں ذلت کے دریا میں غرق ہو گیا اور جھلا کر اس پر تیسر اوار کیا۔ اس دفعہ وار خالی دیتے وقت وہ گھوڑے کی پیٹھ سے زمین پر گر گیا۔ میں نے خیال کیا کہ بس اب یہ میرے قابو میں آ گیا مگر دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پلک جھپکنے کی دیر میں زمین سے اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اپنے نیزے سے میرے سرکو تیسرا کچوکا دے کر چلایا۔ اب یہ تیسری بار ہے کہ تجھے ذلیل سمجھ کر چھوڑا ہے۔
میں:”نہیں تو مجھے قتل ہی کر ڈال تا کہ عرب کے سواروں کو میری ذلت کی خبر نہ پہنچے۔“
حارث:”اے عمر و! قصور تین ہی بار معاف کیا جا تا ہے۔ اب چوتھی بار میں غالب آ یا تویقینا تجھے قتل کر ڈالوں گا۔“
امیرالمؤمنین اس کی یہ بات سن کر مجھ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ اس سے مقابلہ کا خیال میرے دماغ سے بالکل نکل گیا۔ میں نے اس کی بہادری کی تعریف کی اور اپنی ہار مان لی۔
امیرالمومنین نے اپنی زندگی میں کبھی ایسابہادر اور بلند حوصلہ نہیں دیکھا۔ اس نے تین مرتبہ مجھ پر قابو پا کر مجھے چھوڑدیا حالانکہ میں نے اس کی جان میں لینے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔“
حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کو زندگی کی جو آخری عزت اور بزرگی حاصل ہوئی۔وہ ان کا اس جنگ میں شریک ہونا جس نے ایران کی مجوسی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ یہ خونریز جنگ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان 21ہجری میں نہاوند کے مقام پرہوئی۔ یہ لڑائی دراصل ایران کے بادشاہ یزد جردکی آخری کوشش تھی جو اس نے مسلمانوں کو ایران سے نکالنے کے لیے کی۔ اس میں ایرانیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں تعداد تیس ہزاریا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ اسلامی لشکر میں عرب کے کئی نامی بہادروں کے علاوہ حضرت عمرو بن معدی کرب بھی شامل تھے۔ دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ دونوں اطراف کے سینکڑوں آدمی میدان جنگ کام آئے۔ مسلمان شہیدوں میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما نے اسلامی فوج کی کمان سنبھالی اور ایرانیوں پرایسا تندوتیز حملہ کہ ان کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمرو بن معدی کرب لڑائی میں شروع سے اخیر تک قدم جما کر لڑتے رہے،یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہوگئے۔ ایرانیوں کی شکست کے بعد مسلمان انھیں میدان جنگ سے اٹھا کر لائے اور ان کا علاج شروع کیا لیکن ان کا آخری وقت آپہنچا تھا۔ نہاوند کے قریب روذہ نام کے ایک گاؤں میں وہ شہادت کا تاج پہن کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
رضی اللہ تعالی عنہ

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top