قدرت کا انتقام
اختر عباس
۔۔۔۔۔
رکشے سے اتر کر جس چیز پر سب سے پہلے عثمان کی نظر گئی، وہ گندگی سے اٹا ہوا ایک بدبو دار چہرہ تھاجوفٹ پاتھ پر نیم کے گھنے درخت تلے بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ نجانے اس کے چہرے میں کیا بات تھی کہ عثمان پہ کپکپی طاری ہو گئی مگر وہ پھر بھی اپنا بیگ اٹھا کر اس کا ذرا قریب سے جائزہ لینے لگا۔ چہرے پہ بے تحاشا بال پڑے ہوئے تھے۔ بے نور آنکھیں جو میل سے بھری ہوئی تھیں۔ ہاتھوں کے ناخن مٹی سے لتھڑے ہوئے، ایک بازو بھی شاید فالج زدہ تھا اور اس کے منہ سے مسلسل رال ٹپک رہی تھی جو اس کے بڑھے ہوئے بالوں اور غلیظ کپڑوں پرگر رہی تھی۔
’’اف خدایا! اسے دنیا میں ہی کتنا عذاب مل رہا ہے۔ نجانے کیسی بری زندگی گزار تا رہا ہے ۔‘‘
دن کے دو بجنے والے تھے اور عثمان ابھی ابھی کراچی ریلوے سٹیشن پہنچا تھا۔ گاڑی حسب معمول دو گھنٹے لیٹ پہنچی تھی۔ لاہور سے کراچی تک کے اس طویل سفر نے اسے تھکا دیا تھا۔ مگر اس آخری منظر نے تو اسے اذیت سے دو چار کر دیا تھا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔
٭
نوبہار کالونی میں زیادہ تر متوسط طبقہ کے گھر تھے ۔کہیں کہیں کوئی بڑی سی کو ٹھی نظر آتی تھی۔ اتفاق سے جس جگہ بوڑھا فقیر بیٹھا تھا۔ اس کے تھوڑی دور دائیں ہاتھ بھی ایک بڑی سی کوٹھی تھی۔ عثمان سامنے سے گزرا تو بڑی ہی خوبصورت نیم پلیٹ جگمگار ہی تھی۔ ’’سیٹھ کرم علی۔‘‘
’’نام تو سیٹھ ہے اور کام بھی سیٹھوں والے ہی ہیں۔ کبھی ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیںملی ہو گی۔ پتہ نہیں لوگ کن دھندوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اپنے قرب و جوار میں نظر ہی نہیں جاتی۔‘‘
انہی سوچوں میں غرق چلتے چلتے چند مکانوں کو چھوڑ کر وہ اپنے ماموں کے دروازے پر لگی کال بیل بجار ہا تھا۔ماموں اور ممانی گھر پہ ہی تھے اور اس کے منتظر۔ بہت دیر تک گپ شپ ہوتی رہی۔ عثمان کے اس انعام کا بھی ذکر چلتارہا جو اس نے تخریب کاروں کے گروہ کو پکڑوا کر حاصل کیا تھا۔ عصر کی نماز پڑھنے جب عثمان اپنے ماموںکے ساتھ جارہا تھا تو ایک بار پھر بوڑھے آدمی کے اڈے کے پاس سے گزرے مگر اس وقت وہ لحاف اوڑھے سورہا تھا۔ لحاف کیا تھا میلا کچیلا جیسے کسی نے مٹی کا لیپ کیا ہوا ہو۔ جگہ جگہ سے کٹا پھٹا۔ عثمان کو پہلی بار اس پرترس آیا۔ ٹھٹھرتی رات کا تصور کرتے ہوئے وہ بے چین سا ہو گیا۔ اگلے روز اس نے اپنی ممانی سے بات کی کہ کوئی کمبل یا لحاف چاہئے تا کہ بوڑھے فقیر کو دیا جا سکے۔ ممانی نے کہا بیٹا فالتو تو کوئی نہیں ہے ،سارے نئے اوراستعمال والے ہیں۔ عثمان نے سوچا ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ غریبوں کو صرف پرانی چیزیں دیکر ہی خوش ہوتے ہیں کہ چلو نیکی بھی ہوئی اور پرانی چیز سے جان بھی چھوٹ گئی۔ حالانکہ اس نیکی کا ثواب بھی کٹا پھٹا اور تھوڑا ساہی ملے گا۔
یہی سوچ کر اس نے طے کیا کہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کئے جائیں ۔دوپہر کو جب ممانی سورہی تھیں ،وہ بازارگیا اور ایک لحاف خرید لایا۔ بوڑھے فقیر نے اسے لحاف اوڑھاتے ہوئے دیکھا اور بڑی ممنونیت کے طور پر اس کودیکھا۔ اس کے کچھ بولنے سننے سے قبل عثمان وہاں سے چلا آیا۔ یہ تو اسے یقین تھا کہ کھانا تو اللہ تعالیٰ نے ننھے منے کیڑے کو اور خشک پہاڑوں پر بسنے والے جانداروں کو بھی پہنچا دیتا ہے۔ مگر پھر بھی آخر اس کو کون دیتا ہو گا۔رات کو جب وہ سویا تو طے کر چکا تھا کہ جتنے روز وہ کراچی میں ہے کھانا اسے دے آیا کرے گا۔ اتفاق سے اگلی صبح ممانی کچھ خریدنے ماموں کے ساتھ ہی چلی گئیں اور عثمان کو باورچی خانے سے دودھ اور روٹی مل گئی۔ وہ پانی سے بھر الوٹا ساتھ لے جانا نہیں بھولا۔ ’’بابا منہ ہاتھ دھو لو اور کچھ کھاپی لو۔ میں دوپہر کو واپس آؤں گا۔ ‘‘فقیر بابا اس کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا اور وہ واپس پلٹ آیا۔ اصل میں وہ وہاں کھڑا ہونا بھی چاہتا تو نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ وہ جس صاف ستھرے ماحول میں پلا تھا، وہاں گندگی اور بدبو کا تصور بھی جان لیوا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مجبور تھا۔
دوپہر کو اس نے ممانی سے پوچھ کر روٹی پہ سالن ڈلوایا اور وہاں پہنچ گیا۔ اسے کوئی اور مصروفیت ہوتی بھی تو وقت نکال ہی لیتا کیونکہ جس کام کو وہ طے کر لے کبھی نامکمل نہیں چھوڑتا تھا۔ اب تو ویسے بھی ماموں نے ابھی اسے فراغت کا مژدہ ہی سنایا تھا کہ وہ دفتر کے کام ایک دو دن میں نمٹا کر پھر خوب سیر کریں گے۔
عثمان نیم کے پیڑ کے نیچے پہنچا تو اسے بوڑھا بابا اپنا منتظر ملا۔ روٹی دیکھ کر اس کی آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی۔ عثمان کچھ دیر تو کھڑا سوچتا رہا ،پھر وہیں ذرا صاف سی جگہ پہ بیٹھ گیا۔ عثمان ،فقیر کے بارے میں تفصیلات جاننے کا خواہش مند تھا۔ اس نے کرید کرید کر کئی سوالات کئے۔ جواب میں ایک درد بھری کہانی سامنے آئی جو بوڑھے فقیر نے بڑی دقت اور رقت سے سنائی۔ عثمان نے سوچا ،دنیا بھی کیا جگہ ہے کہ انسان کو اپنے کئے ہوئے اچھے اور برے اعمال کا کچھ نہ کچھ بدلہ ضرور مل جاتا ہے۔ گھر آتے ہوئے عثمان کو ظلم اور ظالم نظام سے اور بھی نفرت پیداہو چکی تھی کہ جس کی چکی میں پس کر آدمی اکثر ایسے کام کرنے لگتا ہے کہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتاہے۔
بوڑھے فقیر نے بتایا کہ اس نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ ایک بڑے جاگیردار کی خدمت میں گزارا۔ اس کے کہنے پر کتنے ہی قتل کئے۔ کتنے ہی لوگوں کے گھر اجاڑے مگر پھر اس ظالم نے ایک چھوٹی سی بات پر اس کے بیوی بچوں کو غائب کروا دیا۔ اور اسے جیل کروا دی۔ جب جیل سے رہا ہوا تو معلوم ہوا کہ بیوی نے خود کشی کر لی ہے اور دونوں بچے جاگیردار نے کسی کو دے دیے ہیں۔ وہ بہت عرصہ انہیں ڈھونڈ تار ہا مگر انہیں نہ ملنا تھا،نہ ملے اور یہ جدائی کے زخم لئے کراچی آگیا اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کیلئے مزدوری شروع کر دی۔ پھر کئی سال پہلے ایک میڈیکل سٹور پر ملازم ہو گیا۔ وہاں پہلے وہ چوکیدار تھا، پھر دن کو کام کاج کیلئے اس کی ڈیوٹی لگی ۔ وہیں ایک غریب لڑکے سے اس کی ملاقات ہوئی جو اپنے نشے کے عادی باپ کیلئے دوائی لینے آتا تھا۔ اکیلا تو تھا ہی ،اس کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ تنخواہ میں سے اکثر پیسے وہیں خرچ کرتا رہا مگر وہ بوڑھا نہ بچ سکا۔ پھر اس کے بیٹے کے ساتھ رہناشروع کر دیا۔ کچھ سال پہلے وہ مزدوری کیلئے دبئی چلا گیا۔ پیچھے اس کے رشتہ داروں نے گھر خالی کرالیا۔ انہی دنوں اس پہ فالج کا حملہ بھی ہو گیا۔ اب نہ کوئی پوچھنے والا تھا، نہ خیال رکھنے والا۔ نوکری چھوٹ گئی اور در بدری قسمت کا روگ بن گئی۔ اسی لڑکے کا ایک دوست اب رات کو آتا ہے۔ کھانے کیلئے روٹی دے جاتا ہے اورسارے دن کی کمائی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ بچوں کی یاد میں رو رو کر بینائی بھی تقریباً ختم ہی ہو گئی ہے۔ بس ایک آنکھ سے تھوڑا تھوڑا نظر آتا ہے۔ اب تو دن رات موت کی ہی آرزو ہے مگر وہ نہیں آتی۔ لگتا ہے اللہ سارے گناہوں کا بدلہ یہیں پہ دے دینا چاہتا ہے۔ سارا دن اللہ توبہ اللہ تو بہ کا ورد ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی خدا ترس کھانے کو دے جائے تو دے جائے ورنہ اگلی رات تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
عثمان اس کی ساری داستان سن کر اس سے بڑی ہمدردی محسوس کر رہا تھا۔ ’’یہ حکومت معذور اوربے سہارا لوگوں کے گھروں کا بڑا اشتہار دیتی رہتی ہے۔ کیا ایسے لوگ انہیں نظر نہیں آتے ۔‘‘ واپس آتے ہوئے اس کی نظر سیٹھ کرم علی کی کوٹھی کے پیچھے بنے ہوئے دو سرونٹس کوارٹرز پہ پڑی مگر پھر وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ یہ سیٹھ لوگ تو اکثر اپنے گناہوں کو چھپانے کیلئے ان گھروں کو استعمال کرتے ہیں کسی کو کیا پناہ دیںگے۔
٭
اگلی شام ’’ہل پارک ‘‘کی سیر کرتے ہوئے عثمان نے ماموں سے پوچھا۔’’ یہ آپ کے محلہ دار سیٹھ صاحب کیا شغل فرماتے ہیں۔‘‘
ماموں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔’’ کیوں ،رگ جاسوسی پھڑک رہی ہے کیا؟ ‘‘پھر انہوں نے بتایا کہ کچھ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ بڑے لمبے ہاتھ ہیں اس کے۔ کوئی فیکٹری ویکٹری بھی ہے۔ کالا دھندہ بے شمار ہے مگر نہ کوئی اشارہ کرتا ہے، نہ کوئی پکڑتا ہے۔ پکڑنے والے خود اس کے محافظ ہیں۔ باتیں جاری رہیں مگر سیر ختم ہو گئی۔ جب وہ رات گئے گھر جانے کیلئے بابے کے پاس سے گزرے تو وہاں ایک اور سایہ بھی نظر آیا۔ عثمان سمجھ گیا کہ وہی لڑکا ہو گا۔ رات تیز ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں، بادل گرجتے رہے۔ صبح عثمان نے ایک سوئیٹر بھی لنڈے سے خرید کر بابے کو دیا اور پوچھا ۔’’اگر بارش ہو گئی تو کیا کرو گے؟‘‘
’’کرنا کیا ہے، صبر شکر کر کے پڑار ہوں گا۔‘‘
عثمان نے سوچا، کاش بارش میں سیٹھ کا سرونٹ کوارٹر اسے پناہ دے سکتا۔ آج بابا نے ایک اور خوفناک بات بتلائی کہ وہ لڑکا کہہ رہا تھا کہ بہت تنگ آگیا ہوں،روز نہیں آسکتا۔ بوڑھا موت کی دعا کر رہا تھا کہ مرجاؤں تو اچھا ہے۔ اس کی جان بھی چھوٹے ۔لڑکا کہہ گیا تھا کہ ’’مجھ سے نہ تمہاری تکلیف دیکھی جاتی ہے اور نہ بار بار جھک ماری جاتی ہے۔ ‘‘
بوڑھا شاید رورہا تھا۔ اس کے منہ سے شوں شوں اور کبھی خرخر کی آواز یں نکل رہی تھیں۔ ’’یا اللہ مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔ کوئی زہر ہی کیوں نہیں دے جاتا۔ میرے بس میں ہو تو کسی گاڑی کے نیچے آجاؤں۔چاقو ہی سینے میں گھونپ لوں ۔‘‘
انسان زندگی سے جتنی محبت کرتا ہے۔ کبھی حالات اسے موت سے محبت پہ مجبور کر دیتے ہیں مگر وہ بھی ترساتر ساکر آتی ہے۔ انسان تو مجبور محض ہے۔ ایسے ہی کم ظرفی سے اتراتا ہے۔ ناز کرتا ہے مگر انجام سے بے نیازرہتا ہے۔ کاش وہ وقت کی ریت ہاتھوں سے نکلنے سے پہلے سنبھل جایا کرے۔
عثمان نے گھر آتے ہوئے ایک لمبی سی کار سے سیٹھ کرم علی کو بھی اترتے دیکھا۔ ٹھگنے سے قد کا سیٹھ ڈرے ہوئے ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا اندر جارہا تھا۔ گاڑی فورا ًہی واپس چلی گئی۔
سیٹھ کرم علی ڈرائنگ سے ہوتا ہوا اپنے بیڈ روم تک تقریباً بھاگتا ہوا آیا تھا۔ اس کا ماتھا پسینے سے شرابورتھا۔ اس کا چہرہ کسی انجانے خدشے سے ستا ہوا تھا۔ معاملہ کچھ تھا ہی ایسا۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں نے اسے اندرسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایسی ایسی خبریں سننے کو مل رہی تھیں کہ اس نے کبھی اس رخ پہ سوچا ہی نہ تھا۔ پیسے کوخدا سمجھنے والے عام طور پر مشکل حالات میں ایسے ہی پریشان ہوتے ہیں جب پیسہ کام نہیں آتا۔ آخر سب لوگ توایک جیسے نہیں ہوتے کہ پیسے کو دیکھ کر جھکتے چلے جائیں۔ پیسے کے ترازو یہ تلتے جائیں اور بکتے جائیں۔ ایس پی احمربھی شاید ایسے ہی لوگوں میں تھا۔ مگر افسوس کہ ایسے لوگوں کی تعداد اندھیری برستی ساون کی رات میں کہیں کہیں چمکنے والے تاروں کی طرح کم ہوتی ہے۔ ایس پی احمر نے رات بن قاسم پورٹ سے کچھ دور ایک خفیہ ٹھکانے پررکنے والی دولا نچیں پکڑی تھیں ۔ایک اسلحے سے بھری ہوئی تھی اور دوسری میں چرس اور افیون جیسی سستی نشہ آورچیزوں کو ہیروئن میں تبدیل کرنے والی مشینری تھی جو یہ لوگ گوادر کے ساحلوں کی طرف کسی جگہ نصب کرنے لے جارہے تھے۔ وہاں سے جو کارندے پکڑے گئے، وہی نشاندہی کرتے گئے اور ایس پی احمر سیٹھ کی فیکٹری تک پہنچ گیا۔ یہ فیکٹری شہر سے یو نیورسٹی جانے والی سڑک پر ایک ایسی جگہ واقع تھی جہاں بظاہر سوڈا واٹر بھرنے کی ایک فیکٹری تھی۔ انتہائی گنجان آباد جگہ پر کسی کو شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ شہر میں فسادات کیلئے اسلحہ سپلائی کرنے کا اڈا یہی ہے مگر حقیقت یہی تھی ۔تہہ خانوں میں جدید ترین اسلحہ اور گولیوں کی موجودگی اس حقیقت کے ثبوت کے طور پر موجود تھیں۔ کوئی اور ہو تا تو چند لاکھ پر سودا طے ہوتا اور معاملہ ٹھپ ہو جاتا ۔ آخر مجرم اور ان کے گروہ ایسے ہی تھوڑی دندناتے پھرتے ہیں۔ انہیں اپنے قانونی اور آئینی محافظوں کی پوری حفاظت اور پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اب بھلا کروڑوں کے بزنس میں سے چند لاکھ ایسے لوگوں کے منہ بند کرنے کیلئے خرچ کرنا کون سامہنگا سوداہے۔ نرا منافع بخش سودا اسے ہی تو کہتے ہیں۔
سیٹھ کی بیوی فورا ًہی اپنے شوہر کی مزاج پرسی کیلئے پہنچ گئی مگر مزاج نہ صرف بر ہم بلکہ پریشان بھی پایا۔سیٹھ نے اپنے خاص کارندے اور منیجر کو بلانے کا کہا۔ وہ پچھلے کمرے میں فائلوں میں ردو بدل میں مصروف تھا۔سیٹھ صاحب اسے دیکھ کر دھاڑے ۔’’منیجر تمہیں علم ہے یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ آخر اس کم بخت کامنہ بروقت بندکیوں نہیں کیا گیا، بڑا ایس پی بنا پھرتا ہے۔ لاکھوں کا نقصان ہوا اور اب جان کے الگ لالے پڑے ہوئے ہیں ۔وہ صبح سے شکاری کتوں کی طرح میری تاک میں ہے۔ میں سارا دن ادھر ادھر گزار کر گھر آیا ہوں کہ اسے یہ شک نہیںہو سکتا۔ کیونکہ بھلا گر فتاری کیلئے مطلوب لوگ کیا گھروں پر ملتے ہیں۔‘‘ گھر پہ اس وقت تعین ذاتی ملازموں کی موجودگی اسے بھلی محسوس ہو رہی تھی کہ مشکل وقت میں کام ہی آئیں گے۔ سیٹھ کی بیوی اس ساری کارروائی سے بے خبر تھی۔ اسے شاپنگ کیلئے بے تحاشہ پیسہ مل جاتا تھا۔ ملازموں کی موج تھی۔ نئے ماڈل کی گاڑیاںتھیں۔ بیٹی شاندار طریقے سے بیاہ دی تھی۔ نہ کھانے کی فکر ،نہ پہننے کی۔
اچانک اس نے دیکھا ،سیٹھ صاحب منیجر کے ساتھ چھت کی طرف جارہے ہیں۔ اتنی رات گئے چھت پہ کیا لینے گئے ہیں؟ وہ یہی سوچتی اس کے پیچھے لپکی۔ سیٹھ صاحب کہہ رہے تھے۔’’ اگر پولیس آگئی تو کیا ہو گا۔ نکلنے کا راستہ سوچو۔ صرف آج کی رات ،صرف آج کی رات، کل ایس پی کا باپ بھی مجھے نہیں پکڑ سکے گا۔ فضلو پاسپورٹ بنوا چکا ہے۔ ٹکٹ صبح تک لے آئے گا۔ یہ نہ ہو سکا تو موٹر بوٹ تک پہنچنا کوئی مسئلہ نہیں ۔وہاں سے پھر کھلا سمندراور ہر خوف سے بے نیاز زندگی۔‘‘
ٹہلتے ٹہلتے وہ منڈیر کی طرف گیا اور یکدم کسی سوچ میں پڑ گیا۔’’ منیجر! اگر میں اس بوڑھے فقیر کی جگہ لے لوں تو بھلا کون پہچان سکے گا۔ ‘‘منیجر نے اس تجویز پر داد دینے کیلئے اسے دیکھا اور فوراً کہا ۔’’مگر اس بوڑھے کا کیا ہو گا؟‘‘
’’اسے وہاں سے اٹھوادو اور خالی سرونٹ کوارٹر میں لٹاد و مگر گولیاں کھلا کر، تا کہ اٹھ کر چیختانہ رہے۔بس یہی واحد حل ہے اور کوئی محفوظ اور بہتر راہ نہیں ہے۔ جاؤ اور ابھی انتظام کرو ۔‘‘
اور یوں کچھ دیر بعد بوڑھا فقیر بے ہوشی کی حالت میں خالی سرونٹ کوارٹر میں تھا۔
سیٹھ صاحب نے اپنے عالی شان اور آرام دہ گرم کپڑے اتارے اور پرانے سے کپڑے پہن کر ہلکی سی چادر سر پر لیکر ہولے ہولے نیم کے پیڑ کی طرف بڑھنے لگے۔ بوڑھے کا گند الحاف انہی کا منتظر تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے سرکش بندوں کو کیسے کیسے ذلیل کرتا ہے۔ مگر سمجھنے والی عقل عام طور پہ عبرت پکڑنے کی بجائے دوسروں کو متوجہ کرتی ہے اور خود اس انجام کو بھلا دیتی ہے۔
بوڑھوں اور فقیروں کو ہمیشہ دھتکارنے والا سیٹھ آج خود اسی غلیظ اور بدبو دار جگہ پر تھا۔ وہ ابھی لحاف کو الٹ پلٹ کر صاف حصہ ڈھونڈ رہا تھا کہ ایک اور مصیبت آن پڑی۔ یہ بارش تھی جو صبح سے برسنے کی تیاری میں تھی۔ مجبوراً اسے لحاف اوڑھنا پڑا۔ پہلے تو ناک پہ ہاتھ رکھے رہا۔ پھر آہستہ آہستہ عادی ہونے لگا۔ بارش سے بھیگتے اسے گھنٹہ بھر ہو گیا مگر بارش تھی کہ رکنے میں نہیں آرہی تھی۔ اس نے جیب سے نیند کی ڈبل خوراک نکالی اور نگل گیا۔ صبح تو منیجر نے آکر اٹھا ہی لینا تھا۔ رات ذرا آرام سے گزر جائے گی۔
صبح سویرے پولیس نے جب سیٹھ کے مکان کو گھیرے میں لیا، اس وقت منیجر گاڑی نکال کر سیٹھ صاحب کولینے اور پھر محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے کیلئے نکل رہا تھا مگر وائے ناکامی، اس کی ایک نہ چلی۔ پولیس کی تلاشی میں خاصی دیر لگ گئی۔ اور رات بارش تو دو اڑھائی گھنٹے ہی ہوئی ہو گی مگر نیم کا درخت ساری رات ٹپکتا رہا۔سوئے ہوئے آدمی کو تو شاید سردی کا فورا ًاندازہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنا انتظام کر لیتا ہے مگر نیند کی ڈبل خوراک کھائے آدمی کو کیا پتا چلتا ہے۔ ذہن سور ہا تھا مگر جسم تو سردی کو محسوس کر رہا تھا اور ساری رات کی بارش کی ٹھنڈک اور گیلے بستر ولحاف نے سونے پہ سہاگے کا کام دیا۔
صبح عثمان نماز کیلئے اٹھا تو بہت پریشان تھا کہ رات اس بیچارے پر کیا بیتی ہوگی۔ کاش وہ سیٹھ کے سرونٹ کوارٹر میں پناہ لے سکتا۔ دن نکلے جب وہ ناشتے سے فارغ ہو کر دودھ اور ڈبل روٹی لیکر نیم کے پیڑ کی طرف بڑھا۔اس وقت پولیس کی گاڑیاں سیٹھ صاحب کے گھر کو گھیرے ہوئے تھیں۔ عثمان مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس نے سوچا کہ برے کاموں کا نتیجہ ہمیشہ براہی ہوتا ہے۔ آخر کبھی نہ کبھی تو اللہ کی پکڑ ہونی ہی ہوتی ہے۔
عثمان دھڑکتے دل سے بوڑھے کے پاس پہنچا۔ نیم کے پتوں سے پانی کے قطرے اب تک ٹپک رہے تھے۔ اس نے جلدی سے لحاف ہٹایا اور چیخ کر پیچھے ہٹ گیا۔ وہاں سیٹھ کرم علی کی اکڑی ہوئی لاش تھی۔

