پنجوں کا راز
کہانی: The Paw Thing
مصنف: Paul Jennings
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن بدن صحت مند ہوتی جارہی تھی جبکہ میجر میک کے حالات بگڑے جارہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر میک کی فرائیڈ چکن شاپ پر ایک بلی رہتی تھی، جو چوہے نہیں پکڑ سکتی تھی۔ وہ ان کے پیچھے ضرور دوڑتی لیکن اُنھیں پکڑنے میں ہمیشہ ناکام رہتی۔ بلی کا نام ’فیٹی‘ تھا۔ دکان اور بلی کا مالک ’میک‘ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔
”پتا نہیں، میں نے اسے اب تک یہاں رکھا ہوا ہی کیوں ہے۔ یہ ایک بھی چوہا نہیں پکڑ سکتی۔“ وہ اکثر یہی کہتا۔
مجھے اس بلی سے بڑی ہمدردی محسوس ہوتی لیکن میں کچھ کہنے کی جرا¿ت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ میری نئی، نئی ملازمت تھی۔ اسکول کے بعد شام کو پارٹ ٹائم ملازمت ملنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور میں یہ ملازمت کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میک اپنی بلی کو محض مرغی کے پنجے کھانے کو دیتا اور کہتا: ”یہ اس سے زیادہ کھانے کی اہل نہیں ہے، بھوکی رہے گی تو شاید کچھ چوہے پکڑے۔“
میں کبھی، کبھی مالک کی نظر بچا کر چکن کا کوئی ٹکڑا اُس کے آگے ڈال دیتا اور وہ میری طرف شکر گزار نظروں سے دیکھتی۔
میرا کام کاﺅنٹر پر لوگوں کے آرڈر نوٹ کرنا تھا۔ میک اندر کچن میں آرڈر کا پارسل تیار کرکے ایک چھوٹی سی کھڑکی سے باہر سرکا دیتا اور میں پارسل دے کر پیسے وصول کرلیتا۔ دکان کی ایک الماری پر ہمیشہ ایک بھاری بھرکم تالا پڑا رہتا تھا۔ میں نے میک سے پوچھا: ”کیا آپ اس میں اپنے پیسے رکھتے ہیں؟“
”نہیں….!“ اُس نے جواب دیا۔ پھر الماری کا تالا کھول کر اُس نے ایک سیاہ چمڑے کی جلد والی کتاب نکالی۔ جس کے سرورق پر لکھا تھا: ”میجر میک کے فرائیڈ چکن کی خفیہ ترکیبیں جو پچاس مختلف مسالہ جات سے تیار کیے جاتے ہیں۔“
”اس کتاب کو ہاتھ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے…. کسی کو بھی نہیں!“ اُس نے سخت لہجے میں کہا، پھر اس کی آواز دھیمی ہوگئی: ”دور…. دور سے لوگ یہاں میرا اسپیشل چکن کھانے آتے ہیں۔ قصبے میں جلد ہی ایک نئی چکن شاپ کھلنے والی ہے۔ اگر ان کے ہاتھ کسی طرح میری تراکیب لگ گئیں تو میرا کاروبار بند ہو جائے گا۔“ یہ کہہ کر اُس نے کتاب واپس الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا اور کہا: ”جب میں یہ کتاب کھولوں تو تم کو کمرے سے باہر چلے جانا چاہیے اور فیٹی….! تم کو بھی!“
اُس نے بلی کو خشمگیں نظروں سے دیکھا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ بھلا بلی کوئی کتاب کیسے پڑھ سکتی ہے۔
خیر…. ایک مہینہ بخیرو عافیت گزر گیا۔ میں اپنے کام میں خاص ماہر ہوگیا تھا۔ میک کی دکان کے سامنے چکن خریدنے والوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ دوسری طرف غریب فیٹی دن بدن دبلی سے دبلی ہوتی چلی جا رہی تھی۔
”یہ اچھا کھانا کھانے کی مستحق نہیں ہے۔ دکان میں چوہے دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔“ میک نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
اس کی بات سچ تھی، پہلے پہل تو چوہے کوڑے دان میں ہی دکھائی دیتے تھے لیکن پھر وہ اتنے شریر ہوگئے کہ گاہکوں کے پیروں کے بیچ سے بھاگتے دوڑتے نظر آنے لگے۔ ایک دفعہ جب ایک خاتون گاہک کی سینڈل کے اوپر سے ایک چوہا کود کر گزرا تو وہ چیخ مار کر دکان سے باہر بھاگیں۔ میں صحیح سے سن تو نہ سکا لیکن وہ ہیلتھ انسپکٹر کو بلانے کے بارے میں کچھ کہہ رہی تھیں۔
”ناکارہ بلی! اب سے تمھیں دن میں دو کے بجاے صرف ایک بار کھانا کھانے کو ملے گا۔ شاید تم کچھ کام کاج کرنے کے قابل ہوجاﺅ۔“ میک غصے سے چلایا۔
فیٹی نے اداس نظروں سے میری طرف دیکھا۔ وہ سوکھ کے کانٹا ہوگئی تھی۔ میں نے افسوس سے اسے دیکھا لیکن میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میک اس کا مالک تھا۔ وہ جتنی دبلی ہوتی گئی، اتنی ہی سست پڑتی گئی۔ کوئی چوہا پکڑنے کا تو اب سوال ہی نہ تھا جن کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی….پھر وہ دن بھی آگیا جب قصبے میں فرائیڈ چکن کی نئی دکان کھل گئی۔ انھوں نے چکن کی قیمت بہت کم رکھی تھی۔
میک نے مجھے پانچ ڈالر کا نوٹ دے کر کہا: ”جا کر نئی دکان سے چکن خرید لاﺅ۔ میں کھا کر دیکھوں گا کہ وہ کھانے کے قابل ہے یا نہیں۔“
میں نئی دکان سے چکن خرید لایا۔ میک نے ڈبہ کھولا اور چکن کھانا شروع کیا۔ فوراً ہی اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آخر کار وہ چلایا: ”یہ بہت مزے دار ہے اور میری اسپیشل ترکیب سے بنایا گیا ہے۔ کسی نے میری ترکیب چرا کر ان لوگوں کو دی ہے۔“ اُس نے میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھا۔
”میری طرف ایسے نہ دیکھیں۔ میں نے انھیں آپ کی خفیہ ترکیب نہیں بتائی ہے۔ میں آپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا کیوں کہ اگر آپ کا کاروبار بند ہوگا تو میری ملازمت بھی چلی جائے گی۔“ میں نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی۔
”تم نے صحیح کہا۔“ میک کی آواز دھیمی پڑگئی۔ وہ الماری کی طرف گیا اور اسے کھول کر سیاہ کتاب باہر نکالی۔ کتاب کو کھولتے ہی وہ چلایا: ”یہ دیکھو! اسپیشل ترکیب والا صفحہ پھٹا ہوا ہے۔ میرا شک درست تھا۔“ اس نے فیٹی کی طرف انگلی اٹھائی: ”یہ تم ہو جس نے میری خاص تراکیب چرا کر اُن کو دی ہے۔“
فیٹی ایک کونے میں دُبک گئی۔ وہ اپنے مالک کے چیخنے چلانے سے خوف زدہ ہوگئی تھی۔
”جناب! بھلا بلی کو پڑھنا کب آتا ہے؟ اسے کیا معلوم کہ کتاب میں سے کون سا صفحہ پھاڑنا ہے؟“ میں نے ہمت کرکے فیٹی کی حمایت کی۔
”اگر یقین نہیں آتا تو لو! خود دیکھ لو۔“ اس نے غصے سے کتاب میری طرف بڑھائی۔ کتاب کے پہلے صفحے پر بلی کے گندے پنجوں کے نشانات تھے۔
”جناب! اس سے یہ چور کیسے ثابت ہوئی….؟ ہوسکتا ہے یہ کبھی اس کتاب پر چڑھ کر بیٹھ گئی ہو لیکن یہ کتاب تو نہیں پڑھ سکتی۔“ میں نے پھر اپنی بات دہرائی۔
”جو بھی ہو! یہ کتاب اسی نے پڑھی ہے اور اس کا خاص صفحہ پھاڑ کر میرے حریف کو بھی اسی نے دیا ہے۔ یہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتی ہے کیوں کہ میں نے اس کا کھانا پینا جو بند کر رکھا ہے۔ احسان فراموش بلی!“ وہ کچھ سننے کو راضی نہ تھا۔ میں حیران و پریشان اپنی جگہ کھڑا تھا۔
”فیٹی کو اب جانا ہوگا۔ میں اسے مزید ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔“ اُس نے اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھے اور کہا: ”اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاﺅ اور اس کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دو۔“
”جی کیا کہا؟“ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
”لیکن یہ بے قصور ہے۔ بلیاں کتابیں نہیں پڑھ سکتیں۔ ایسا مت کریں۔“ میں نے فیٹی کو اپنی گود میں اُٹھا لیا۔
”اگر یہ کتاب نہیں بھی پڑھ سکتی پھر بھی! یہ چوہے بھی تو نہیں پکڑ سکتی۔ یہ بالکل بے کار ہے۔ اب جاﺅ ورنہ میں تمھیں بھی ملازمت سے فارغ کر دوں گا۔“ میک کا غصہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
میں بوجھل قدموں سے فیٹی کو اپنے بازوﺅں میں لیے باہر نکلا۔ میں کسی قیمت پر بے گناہ بلی کو موت کے حوالے نہیں کرسکتا تھا، اس لیے اسے کہیں چھپانے کے لیے جگہ تلاش کرنے لگا۔ چکن شاپ کے پچھلی طرف ایک خالی پلاٹ تھا۔ جس کے ایک سرے پر چھوٹا سا اسٹور روم بنا ہوا تھا۔ ایک بوڑھی عورت اس جگہ کی مالک تھی لیکن یہ اسٹور روم عرصے سے کسی کے بھی استعمال میں نہیں تھا اور یہ بات میں جانتا تھا۔ میں احاطے کا جنگلہ کود کر اندر چلا گیا اور فیٹی کو کباڑ خانے میں چھپا دیا۔
”خدا کے لیے اب میاﺅں میاﺅں کرنا نہیں شروع کرو۔ میں روزانہ رات میں تمھیں کھانا لا کر دے دیا کروں گا۔“ میں نے فیٹی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ پھر میں باہر نکل کر میک کے پاس واپس پہنچا۔ میک نے مجھ سے فیٹی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ سارا دن خاموش رہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر پشیمان ہے۔ میں بھی خاموش رہا۔
٭….٭
ہر روز رات کو میں چپکے سے کوٹھڑی میں جاتا اور فیٹی کو دودھ اور چکن کے ٹکڑے دیتا۔ وہ دن بدن صحت مند ہوتی جا رہی تھی۔ البتہ میجر میک کی دکان کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے تھے۔ چوہوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہورہا تھا اور اب اُنھیں لوگوں کی نظروں سے چھپانا مشکل ہو گیا تھا۔ میک نہیں چاہتا تھا کہ گاہک چوہے دیکھیں لیکن چوہے ہر جگہ موجود تھے۔ رات کو وہ فرش پر دوڑتے پھرتے تھے۔ ہم جھاڑوﺅں سے ان کو بھگاتے لیکن وہ ہم سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔ سیکڑوں طرح کے چوہے دان رکھنے کے باوجود بھی کوئی چوہا پکڑائی میں نہ آتا تھا۔
”میں یہ دکان بند کروا دوں گا۔“ ایک دن ایک گاہک چلاتا ہوا آیا۔ اس کے پارسل کے اوپر چوہوں کے پنجوں کے نشان تھے۔ جسے دیکھ کر وہاں موجود سارے گاہک کانوں کو ہاتھ لگاتے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جلد ہی ایک ہیلتھ انسپکٹر دکان پر آگیا۔ اس نے ایک نظر دکان میں دوڑتے چوہوں پر ڈالی اور پھر بولا: ”میں یہ دکان بند کر رہا ہوں۔ تم لوگ چوہوں بھری اس دکان میں کھانا نہیں بیچ سکتے۔“ اس نے دکان کی کھڑکی پر نوٹس لگا دیا: ”طاعون کی وبا کے باعث یہ دکان بند کی جا رہی ہے۔“
میک نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا: ”میں تباہ ہوگیا….برباد ہوگیا۔ ہمیں ان چوہوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی ورنہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔“ اس نے اسٹور کا دروازہ کھولا جہاں وہ مرغیاں اسٹور کرتا تھا۔ اندر سے تقریباً دس لاکھ چوہے ایک سمندر کی صورت میں باہر نکلے۔ یہ سمندر میک کے سر کے برابر تھا۔ ہم دونوں چیختے چلاتے بھاگے۔ چوہے ہر جگہ دوڑ رہے تھے۔ کسی نہ کسی طرح میک نے دکان کا دروازہ کھولا اور ہم گرتے پڑتے باہر نکلے۔ ہمارے کپڑوں میں بھی چوہے گھس چکے تھے۔ ہم نے جھٹک جھٹک کر ان سے نجات حاصل کی۔
دکان کے باہر ابھی ہم لمبے لمبے سانس ہی لے رہے تھے کہ ایک جانب سے میاﺅں کی آواز آئی۔
”یہ کیسی آواز تھی؟“ میک کے کان کھڑے ہوگئے۔
”فیٹی کی؟“ میں نے جواب دیا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو مرچکی ہے۔“ میک نے مجھے غصیلی نظروں سے گھورا۔
”نہیں! میں یہ کام نہیں کر سکا تھا۔ میں نے اس دن اسے اس دکان کے پیچھے کوٹھڑی میں چھپا دیا تھا اور جب سے وہ یہیں رہ رہی ہے۔“ میں نے کہا اور دکان کے اندر چوہوں کے سمندر پر ایک نظر ڈالی۔
”آج یہاں اتنے چوہے ہیں کہ فیٹی بھی بغیر کوشش کے انھیں پکڑ سکتی ہے۔ میں اسے لے کر آتا ہوں۔“ میں جنگلے کے اندر کود گیا اور فیٹی کو لے آیا۔ ”جاﺅ….فیٹی! دیکھیں! آج تم کیا کر سکتی ہو۔“ میں نے اسے دکان کے اندر دھکیل دیا۔ فیٹی دُم کھڑی کرکے چکن شاپ میں داخل ہوئی۔ چوہوں کو دیکھ کر وہ غُرّائی۔ اس کی غراہٹ سن کر چوہے جیسے خوف سے جم گئے ہوں۔ وہ دیواروں اور الماریوں سے نیچے اتر آئے اور اس کے آگے آگے چلنے لگے۔ وہ چوہوں کو ہنکا کر دکان سے باہر لے آئی۔ اب چوہوں کا سمندر سڑک پر چلا جا رہا تھا اور فیٹی ان کے پیچھے ایک ماہر گڈریے کی طرح چل رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ہمارے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سڑکوں پر گاڑیاں رُک گئیں۔ لوگوں نے دکانوں میں بھاگ کر پناہ لی اور دروازے بند کر لیے۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ فیٹی جس مہارت سے چوہوں کے ریوڑ کو ہنکار رہی تھی، اس سے مجھے بار بار گڈریے کے کتے کا خیال آرہا تھا۔ وہ بھی ریوڑ کے جانوروں کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتے۔ ہم مناسب فاصلہ رکھ کر فیٹی کے پیچھے چل رہے تھے۔ ہمارے علاوہ اور بھی بے شمار لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ فیٹی اب اس ریورڈ کو لے کر سمندر کی طرف جارہی تھی۔ چوہے چیخے اور چلائے مگر کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ پیچھے فیٹی، آگے سمندر! ایک ایک کرکے وہ سب سمندر میں گر گئے۔ چوہوں کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ فیٹی نے اکیلے ہی لاکھوں چوہوں کو سمندر بُرد کر دیا تھا۔
”میری فیٹی! ذہین بلی!“ میک خوشی سے چلایا۔
اس نے آگے بڑھ کر فیٹی کو اپنے کندھوں پر بٹھا لیا۔ اب تک سارا قصبہ یہاں جمع ہو چکا تھا۔ سب تالیاں بجارہے تھے۔ اگر چوہوں کو فیٹی نے سمندر میں نہ پھینکا ہوتا تو وہ جلد ہی دکان سے نکل کر پورے قصبے پر چھا جاتے۔ پورا قصبہ فیٹی کا شکر گزار تھا۔ ایک اخباری فوٹو گرافر نے اس کی بہت سی تصاویر بھی لیں۔ کافی دیر بعد ہم اپنی دکان میں واپس لوٹے۔ دکان کی صفائی کے بعد میک نے کہا: ”آج کے دن فیٹی بہترین کھانے کی مستحق ہے۔ اس کا پیالہ کہاں ہے؟“
”وہ تو وہیں کوٹھڑی میں رہ گیا۔“ میں نے جواب دیا۔
ہم دونوں جنگلہ پھلانگ کر اس کوٹھڑی میں داخل ہوئے جہاں فیٹی اتنے دنوں سے بند تھی۔ میک نے فیٹی کا پیالہ اُٹھایا اور کوٹھڑی کا جائزہ لیا۔
”ارے یہ کیا ہے؟“ اُس نے کہا اور جھک کر اپنی پرانی سی کتاب اُٹھالی۔ کتاب کے اوپر بلی کے پنجوں کے واضح نشانات تھے۔
”حیرت ہے، میں نے کبھی غور نہیں کیا کہ یہ کتاب یہاں کب سے پڑی ہے۔ ضرور یہ اِن بوڑھی خاتون کی کتاب ہے جن کی یہ جگہ ہے۔“
”کتاب کا نام کیا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”گڈریا کے کتے کی تربیت کے رہ نما اصول۔“ میک نے باآواز بلند کتاب کا نام پڑھا۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
دبک: سمٹنا، چھپنا حریف: رقیب، مدمقابل
طاعون: ایک وبائی بیماری جس میں ایک پھوڑا نکلتا ہے اور اس کے زہر سے انسان بہت کم جانبر ہوتا ہے۔ یہ مرض پہلے چوہوں میں پھیلتا ہے پھر انسانوں میں آتا ہے
گڈریا: مویشیوں کے گلوں کو چراگاہوں میں لے جانے اور ان کو چرانے کی خدمت انجام دینے والا چرواہا
کوٹھڑی: حجرہ، چھوٹا کمرہ
غرانا: جانوروں کا غصے کی حالت میں آواز نکالنا