skip to Main Content

پلٹ کر جھپٹنا

ایس ایم رحمانی
۔۔۔۔۔

قصرِ سلطانی کے گنبد پر کسی عفریت کی طرح بیٹھا۔۔۔۔لال گنجا سر۔۔۔ کالے بڑے سے پر۔۔۔۔۔ مڑی ہوئی چونچ ،خون میں لتھڑی ہوئی۔۔۔گردن کے دائیں بائیں پاپڑ جیسی لٹکتی دو سرخی مائل کلغیاں۔۔۔۔
یہی تھا گِدھوا۔
زمین پر اُسی جیسے آٹھ دس اسکے ساتھی، ایک مردہ گائے کے بچے کھچے جسم پر موجود گوشت کو بھنبھوڑنے میں مصروف۔
پاس سے شاہیں بچہ گزرا۔گِدھوا نے بناوٹی شفقت آمیز لہجے میں اسے آواز دے کر بلایا۔ بچہ اسکے پاس آبیٹھا۔ گنجا گِدھ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد مطمئن ہوکر شاھین بچے سے مخاطب ہوا:
’’بیٹھے بٹھائے اگر کھانے کو مل جائے تو بُرا ہے کیا؟‘‘
’’چاچو، بابا نے سختی سے منع کیا ہے۔کسی کا شکار کیا ہوا کھانا کھانے سے،جبکہ چاچو یہ تو پھر؟؟۔۔۔‘‘ شاہین بچے نے کراہیت سے جملہ ادھورا چھوڑا۔ ’’بابا کہتے ہیں جھپٹنے ،پلٹنے ،پلٹ کر جھپٹنے سے لہو گرم رہتا ہے۔‘‘ شاھین بچے نے اپنی چھوٹی سی چونچ کھول کے سیٹی جیسی آواز میں مزید بتایا۔
’’اوہو۔۔۔دیکھو بچے لہو کو جتنا ٹھنڈا رکھو گے ،اتنا فائدے میں رہو گے۔ جھپٹنے وپلٹنے میں سوائے اپنی توانائی ضائع کرنے کے کچھ نہیں رکھا۔ اچھا یہ دیکھو۔‘‘گِدھوا نے اپنا سینہ پھلالیا۔
’’تمھارے بابا جتنی تیز نظر،اتنا ہی چوڑا سینہ،اتنی ہی کاٹ دار چونچ اور پنجے میرے بھی تو ہیں،کیا میں شکار کر کے نہیں کھا سکتا؟ ۔۔۔بالکل کھا سکتا ہوں بچے!۔ لیکن اس میں سوائے بے وقوفی کے اور رکھا کیا ہے۔ تمھیں پتا ہے شکار کر کے کھانے میں نوے فیصد زخمی ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔اچھا چھوڑو یہ بتائو! آخر عقاب مردار جانور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟‘‘
شاہین بچہ سوچ میں ڈوب گیا۔قدرے سوچنے کے بعد اس کے ننھے ذہن میں ایک جواب بن پڑا:
’’میرے خیال سے سلطان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہادری اور محنت سے خوراک حاصل کرے۔ جس طرح جنگل کے سلطان شیر انکل شکار کرکے زندہ گوشت کھاتے ہیں اسی طرح آسمان کے سلطان یعنی میرے بابا بھی یہی پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’آسمان کے سلطان!۔۔ کھی کھی کھی۔۔ اوئی ماں۔۔ ہی ہی ہی۔۔‘‘گنجے گدھ نے خوفناک ہنسی ہنستے ہنستے منہ اپنے پیٹ میں چھپا لیا۔
’’بہت بھولے ہو بچے،تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم اس راز کو جانتے ہی نہیں۔‘‘
’’کیسا راز؟‘‘شاہین بچے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’لگتا ہے تمھیں بتانا ہی پڑے گا۔‘‘ گِدھوا اپنی لمبی گردن شاہین بچے کے کان تک لایا اور جملوں کو چبا چبا کر کہنے لگا:
’’ہم سارے گدھ گنجے ہوتے ہیں یہ تو تم جانتے ہی ہو۔اس گنجے سر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا سر مردار جانور کے پیٹ میں آسانی سے اتار سکتے ہیں اور پھر لذیذ گوشت کھاتے ہیں۔ جبکہ عقابوں کے سر پر ڈھیر سارے بال اور پر ہوتے ہیں۔وہ بال اگر خون میں لتھڑ جائیں تو ان کو صاف کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔لیکن بچے تمھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مردار کھانا حرام ہے۔غلط ہے۔ کیوں بھئی وولچریے،کیا میں نے کچھ غلط کہا؟‘‘
گِدھوا نے قریب بیٹھے وولچریا کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی بات کی تصدیق چاہی۔ وولچریا پیٹ بھرنے کے بعد اس گفتگو کے دوران ہی ان کے پاس آبیٹھا تھا۔وولچریے نے کوئی جواب دینے سے پہلے ایک لمبی سی خررررر جیسی آواز نکالی پھر وہ کہنے لگا:
’’سوووووو فیصد درست بات ہے بھیا کی۔ہاں نہیں تو اور کیا۔اے طائر لاہوتی کے ننھے چراغ،مانا کہ ایسے رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہے۔لیکن پرندے کا رواں رواں بھی تو سرور سے بھر جاتا ہے۔کھا کھا کے بے حال ہوجاتے ہیں لیکن خوراک ختم نہیں ہوتی۔ ہاں نہیں تو اور کیا۔‘‘
’’لیکن چاچو! بابا کہتے ہیں ایسے رزق سے موت اچھی ،جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو جبکہ اگر میں واقعی شاہین ہوں تو میرا کام ہی پرواز ہے۔اور اگر میں اپنا کام ہی ٹھیک سے نہیں کرسکتا تو پُر دم نہیں رہوں گا اور افتاد کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔‘‘
شاہین بچے نے بابا کا یاد کرایا سبق دہرایا۔
’’اماں یہ بابا پھر بیچ میں آگئے۔ توبہ توبہ یہ آج کل کے والدین بھی بچوں کو کیسی عجیب عجیب باتیں سکھاتے رہتے ہیں۔ وولچریے تم ہی سمجھائو اسے…‘‘ گِدھوا نے وولچریے کی طرف دیکھ کر آنکھ دبائی۔
’’دیکھو منے، سچ تو یہ ہے کہ تمھارے بابا نے تمھیں اتنے مزیدار ذائقے سے دور رکھ کر زیادتی ہی کی ہے۔ ہاں نہیں تو اورکیا۔ ایک تو تمھارے بابا کی کسی پرندے سے نہیں بنتی۔پتا نہیں کون سا گھمنڈ ہے اُسے۔وہ اپنی خودی میں گم رہتا ہے۔ گھر تک تو بناتا نہیں ہے ۔ پہاڑوں پر پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے سارا آسمان میرا گھر ہے تو میں کیوں ایک سمت میں قید رہوں۔لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔اب بتائو ایسے پرند بیزار سے کیا امید کہ وہ تمھیں لذیذ کھانے لا کر دے۔‘‘
وولچریے نے ننھے شاہین کی عقابی روح بیدار ہونے سے پہلے ہی سلانے کی کوشش کی تھی تاکہ اسے اپنی منزل آسمانوں کی محنت سے حاصل کی ہوئی خوراک کے بجائے زمین پر پڑے مردہ کھانوں میں نظر آئے۔
دونوں گِدھوں نے شاہین بچے کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔اُنہیں یقین ہوچلا تھا کہ ہمارے یہاں سے جاتے ہی شاہین بچہ ایک بار مردہ گوشت کو چکھنے کی کوشش ضرور کرے گا۔
’’چلو بھئی چلو گول چکر لگانے کا وقت ہوگیا ہے۔ چلو آجائو شاباش۔‘‘گِدھوا نے زمین پر بیٹھے باقی غول کو آواز لگائی۔
’’اچھا بچے ہم چلتے ہیں۔ملتے رہا کرو تمھارے بابا تو ہم کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔‘‘گِدھوا نے پر پھڑ پھڑاتے ہوئے کہا اور قصر سلطانی کے گنبد سے چھلانگ لگا دی۔ کچھ ہی دیر میں وہ سارے، شاہین بچے کے سر کے بہت اوپر گول گول دائرے میں اڑ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر والد اور بیٹے میں گفتگو جاری تھی۔
شاھین بچہ: ’’بابا! کیا بہتر نہیں کہ کسی زندہ جانور کو شکار کرنے کے بجائے شکار کیے ہوئے کو کھالیا جائے؟‘‘
شاھین: ’’اے بیٹے یہی بات اس شکار کرنے والے نے کیوں نہیں سوچی؟اسے بھی کیا ضرورت کہ وہ شکار کر کے کھائے۔ اور یوں یہ تن آسانی کی سوچ کیا بڑھتے بڑھتے ایک سُست اور لاغر نسل کو جنم نہیں دے گی؟ بچے رزق کی تلاش میں محنت کرنے سے دل مردہ نہیں ہوتا، بلکہ غیرت مند ہوتا ہے۔وہ سبق یاد ہے نا تمھیں۔
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے۔
شکار مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں۔‘‘
شاہین بچہ:’’ ہمم۔بالکل یاد ہے بابا۔ بات تو آپ کی شاندار ہے۔ اچھا بابا، ہم پہاڑوں میں اکیلے اکیلے کیوں رہتے ہیں؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی بلبلوں کی طرح کسی عالی شان خوشبودارباغ میں عظیم الشان گھونسلا بنائیں جہاں ہر طرح کی سہولت ہو۔‘‘
شاہین: ’’اے میرے بچے باغ اور بیاباں کی آب و ہوا میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بات پھر وہی تن آسانی اور سُستی والی ہے۔باغ کی ٹھنڈی ہوا کی دلبری تمھیں زندہ شکار کرنے جیسا نہیں چھوڑے گی۔ پہاڑوں کی ہوا ہمیں بے خوف بناتی ہے۔ اکیلے لڑنے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔ تم نے آج تک کسی شاہین کو تھک کر گرتے دیکھا ہے؟‘‘
شاہین بچہ: ’’نہیں بابا۔‘‘
شاہین: ’’بالکل یہی رزق حلال کی نشانی ہے کہ اس کے کھانے سے جسم میں بلا کی پھرتی پیدا ہوتی ہے۔‘‘
شاہین بچہ:’’سمجھا۔۔اچھا بابا ہمارے سر پر اتنے سارے بال و پر کیوں ہیں؟‘‘
سوال بڑا عجیب تھا۔
شاہین نے بیٹے کی بات سن کر مسکرانا شروع کردیا۔ اس نے شاہین بچے کے چہرے پر شرمندگی اور گھبراہٹ کے کئی رنگ آتے جاتے دیکھے۔
’’اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘
شاہین نے اتنا کہا۔پھر اس نے بچے کو پروں میں دبا کر سر پر پیار کیا۔
’’تو تم کسی گِدھ سے مل کر آئے ہو۔‘‘
شاہین بچے نے بابا کی جانب حیرت سے دیکھا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’’کوئی بات نہیں بچے میں تمھارے پہلے سوال سے ہی سمجھ گیا تھا۔‘‘
اسکے بعد شاہین نے بچے کو بتایا کہ اسے ورغلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادھر باپ اور بیٹے میں گفتگو ابھی جاری تھی۔ لیکن قریب ہی کوئی اور بھی ان کی یہ باتیں بغور سن رہا تھا۔
۔۔۔۔۔
آسمان میں انتہائی بلندی پر گِدھوں کا غول محوِ پرواز تھا۔وہ سارے ایک بڑا سا گول دائرہ بناتے ہوئے ایک دوسرے کے آگے پیچھے اُڑ رہے تھے۔اُڑنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذاتی نوعیت کے مسئلے پر گفتگو بھی کرتے جارہے تھے۔
’’کرگس بھیا بات تو بڑی فکر مندی کی ہے ،ہاں نہیں تو اور کیا۔‘‘کرگس کے پیچھے اُڑتے وولچریے نے فکرمند منہ بناتے ہوئے کہا تھا۔
’’آج گِجھنا بٹیا کو ہماری خوراک سے بدبو آنے لگی، کل کو ہم سے بھی بدبو آنے لگے گی ،پھر کیا بنے گا؟‘‘
’’بس خالو وولچریے کیا بتائوں، سارے گھونسلے کا امن برباد کر کے رکھ دیا ہے گِجھنا بٹیا نے۔اگر اسی طرح یہ چلتا رہا تو وہ برادری کے بنائے اٹل قانون بھی توڑ دے گی۔‘‘ کرگس یہ کہتے ہوئے روہانسا ہوگیا۔
’’اور اور کیا بتارہے تھے تم؟ ہاں یاد آیا وہ کسی نظم کو بھی دہراتی رہتی ہے؟‘‘ اس بار وولچریے کے پیچھے موجود گِدھوا نے پوچھا تھا۔
’’ہاں ایک عجیب سی خوفناک الفاظوں والی نظم گنگناتی ہے۔یاد آئے تو بتاتا ہوں۔ پتا نہیں یہ آج کل کے بچوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ ہمارے خاندان میں آج تک کسی گدھ نے نظم کہنے کی جُرات نہیں کی۔گِجھنا بٹیا کو تو ان کی عزت کی بھی پروا نہیں رہی۔‘‘
کرگس جواب دینے کے ساتھ ہی زمین پر کسی مردہ جسم کو بھی تلاشتا جارہا تھا۔
’’ہر وقت پیٹ بھرنے کی فکر میں نہ لگے رہا کرو۔تمھیں کھانے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔بچے کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ تمھاری بلا سے۔‘‘
گِدھوا نے خفا ہوتے ہوئے کرگس کو سمجھایا۔
’’سمجھ نہیں آرہا کروں تو کیا کروں ۔جیسے جیسے بڑی ہورہی ہے، الٹی الٹی باتیں کرتی جاوے ہے۔ہاں الٹی باتوں سے نظم یاد آگئی ۔ بولے ہے:
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
خیابانوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ‘‘
کرگس کی بھدی خرخراتی آواز میں پورے غول نے نظم سنی۔
لیکن گِدھوا نظم سنتے ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا۔اُسے کرگس کی باتوں سے شک تو ہوا تھا۔لیکن اب وہ شک یقین میں بدل چکا تھا۔
’’ایک بات بتا کرگس! گِجھنا بٹیا پہاڑوں کی طرف تو نہیں جاتی؟‘‘ گِدھوا نے پوچھا۔
’’مجھے کیا پتا۔۔۔۔ میں کھانے کی تلاش کروں یا بچوں کے پیچھے پھروں؟‘‘ کرگس نے بے پروائی سے جواب دیا۔جبکہ ابھی تک اس کی نظریں زمین پر ٹکی ہوئیں تھیں۔
’’ہوش کے ناخن لے کرگس! اس نظم سے تو خطرے کی بو آرہی ہے۔ لگتا ہے گِجھ بٹیا کو شاہین بننے کا شوق چُرایا ہے۔‘‘گِدھوا نے قیاس کرتے ہوئے کرگس کو خبردار کرنے کی کوشش کی۔اُس کا ذہن تیزی سے نظم کے قافیے راہبانہ اور دلبرانہ پر غور کر رہا تھا۔
ادھر کرگس نے یہ سنتے ہی تڑپ کر فضا میں قلابازی کھائی۔
’’اچھا!ایسا ہے۔ یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے گِدھوا؟ میں۔۔۔میں اسے بتا دونگا کہ…
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور۔‘‘
’’کیا بتادو گے تم۔ ہاں؟۔آج اگر بچوں پہ نظر رکھی ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی، ہاں نہیں تو اور کیا۔‘‘وولچریے نے پیچھے سے آوازہ کستے ہوئے کہا۔
اسی اثنا میں کرگس کی نظر زمین پر پڑے ایک مردہ گدھے پر پڑی۔ کرگس ویسے ہی تڑپا،قلابازی کھائی اور دائرہ توڑ کر نیچے اترنے لگا۔
گِدھوا اُس کی اِس حرکت سے انتہائی دلبرداشتہ نظر آرہا تھا۔اچانک گِدھوا نے ایک ناقابلِ یقین منظر دیکھا۔
گِدھوں کے غول سے بھی اوپر آسمان میں آسمان کا سلطان شاہین اُڑتا چلا آرہا تھا۔
شاہین کے دائیں طرف شاہین بچہ جبکہ بائیں طرف کرگس کی بیٹی گِجھنا بھی ساتھ ساتھ محو پرواز تھے۔یہ تینوں جیسے ہی گِدھوں کے غول کے اوپر سے گزرے۔ شاہین چنگھاڑتی آواز میں کہنے لگا:
’’پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ‘‘
اسکے پیچھے شاہین بچے نے پکارا:
’’ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ‘‘
اب باری گِجھنا کی تھی اس نے نیا سبق دہرایا:
’’جھپٹنا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘
تینوں بار بار یہی سبق دہراتے ہوئے پہاڑوں کی سمت اڑتے چلے گئے۔گِدھوا یہ سن کر تڑپا،اس نے فضا میں قلابازی کھائی۔
’’آشیانہ،راہبانہ،غازیانہ،گرم رکھنے کا بہانہ‘‘
گدھوا پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا۔
اس کا سُن ہوتا دماغ کھیل ختم ہونے کی گھنٹیاں بجا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔
نوٹ:(گِدھوں کے گنجا ہونے کی منطق why voltures are bald نامی ایک معلوماتی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ کرگس فارسی میں ،وولچر انگریزی میں اور گِجھ سندھی زبان میں گِدھ کو ہی کہتے ہیں۔اسی مناسبت سے کرداروں کے ناموں کی تراکیب بنائی گئیں ہیں۔)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top