skip to Main Content

بہادر لڑکا

کہانی: The Dragon of Tumaluma
مصنف: David McRobbie
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔
’ٹومہ لومہ‘ نامی جزیرہ بہت خوب صورت جزیرہ تھا۔ وہاں درختوں پر خوش نُما پھل سالہا سال لگے رہتے تھے۔ ہر طرح کی ذائقے دار سبزیاں وہاں اُگتی تھیں۔ رنگ برنگی مچھلیاں نیلے پانی میں تیرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ لوگوں کے درمیان محبت واخوت کا رشتہ تھا۔ نہ کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا اور نہ ہی کوئی کسی سے فضول بحث کرتا تھا۔ غرض یہ کہ ہر جانب امن اور بھائی چارہ تھا۔
ایک روز ہوا کچھ یوں کہ رات کے اندھیرے میں ایک ڈریگن آگیا۔ لوگوں کو اس بات کا اس وقت پتا چلا جب انھیں رات کے وقت لکڑیاں ٹوٹنے کی آواز آئی۔ اُس وقت تو انھوں نے سنی ان سنی کردی مگر جب صبح صبح لوگوں نے آکر دیکھا تو کچھ گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور اُس میں رہنے والے لوگ غائب تھے۔ کچھ جاسوس فطرت رکھنے والوں نے جب چھان بین شروع کی تو انھیں چند عجیب سے پاؤں کے نشانات شہر سے باہر جاتے دکھائی دیے۔ یہ بات انھوں نے گاؤں والوں کو بتائی تو لوگوں نے عینی شاہدین کی بیان کردہ نشانیوں کے مطابق اس بات پر باہمی اتفاق کر لیا کہ یہ حرکت کچھ فاصلے پر رہنے والے ڈریگن کی ہوسکتی ہے۔
لوگوں نے پھر اس ڈریگن کو مارنے کا فیصلہ کیا، جس کے لیے انھوں نے پانچ طاقت ور آدمیوں کو بھیجا مگروہ پانچ آدمی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ یقینا اس ڈریگن نے انھیں اپنا شکار بنالیا ہوگا۔ ان آدمیوں کے اس انجام کے بعد جزیرے والوں نے زمین میں ایک بڑا گڑھا کھود کر ڈریگن کے لیے ایک جال تیار کیا اور اوپر گھاس پھوس رکھ دی تا کہ وہ جب بھی آئے، بے خبری میں اندر گر جائے اور یہ فوراً اُسے قابو کر لیں مگر توقع کے عین مطابق وہ طاقت ور ڈریگن اُس گڑھے سے بھی با آسانی باہر آ گیا۔ آخر کار انھوں نے کسی درخت سے ایک موٹی ٹہنی توڑی جو بہت مضبوط اور لمبی تھی، تا کہ اُس کی مدد سے ڈریگن کا شکار کیا جا سکے، مگر اس طاقت ور ڈریگن کے آگے جزیرے والوں کی یہ ترکیب بھی کارگر نہ ہوئی اور لوگوں کی تمام کوششیں ایک ایک کر کے ناکام ثابت ہونے لگیں۔ آخر کار لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹومہ لومہ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں۔
تمام لوگوں نے اپنے خاندانوں کو ساتھ لیا اور سامان کشتیوں میں رکھنے لگے۔
سب لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر جارہے تھے۔
اس جزیرے پر ایک بیوہ عورت اپنے چھوٹے بیٹے تارا کے ساتھ رہتی تھی۔اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ اس نے بستی والوں سے بہت گزارشیں کیں کہ کوئی اسے اور اُس کے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر سب کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ سو، سب نے معذرت کر کے اپنی اپنی راہ لی۔
”مہربانی کر کے کوئی مجھے اور میرے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔“ اُس بیوہ عورت نے پھر گزارش کی۔
”معاف کرنا میں تمھیں نہیں لے جاسکتا، کیوں کہ میرے پاس پہلے ہی بہت سامان ہے۔ لہٰذا میں اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔“ ایک بھلے مانس آدمی نے کہا۔
”میں بھی تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا۔ اگر میں تمھیں ساتھ لے جاؤں گا تو مجھے اپنی کشتی میں سے کچھ سامان کم کرنا پڑے گا۔“ ایک اور آدمی نے اپنی جان چھڑائی۔
”اوہ نہیں بھئی میں تمھارا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، اگر میں ایسا کرتا ہوں تو کچھ کھانا کم کرنا پڑے گا اور معلوم نہیں ہمیں اگلی رہائش گاہ تلاش کرنے میں کتنے دن لگ جائیں۔ اس لیے میں ایسا کوئی خطرہ اپنے سر نہیں لے سکتا۔“تیسرے نے بھی معذرت کرلی۔
تقریباً سب نے ہی اس بیچاری بیوہ عورت اور اس کے بیٹے تارا کو لے جانے سے منع کر دیا۔ آخر کار جب لوگ اس جزیرے کو الوداع کہتے ہوئے کشتی پر بیٹھنے لگے تو اُنھوں نے دیکھا کہ وہ عورت ابھی تک ساحل پر اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی ہے۔ لوگوں نے اُداسی سے اس عورت کی طرف دیکھا مگر کوئی مدد نہ کر سکے۔ جب رات ہوئی تو لوگ اس بیوہ اور اس کے بیٹے کو بھول چکے تھے۔ وہ عورت بہت پریشان تھی کیوں کہ اب وہ اور اُس کا بیٹا اس ڈریگن کے جزیرہ پر تنہا رہ گئے تھے۔ اس عورت نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے کسی بھی گھر میں نہیں رہے گی بلکہ کسی غار میں جا چھپے گی۔ اس کے علاوہ وہ آگ جلانے سے بھی پرہیز کرے گی تاکہ روشنی کی وجہ سے ڈریگن کو اُن کی موجودگی کا احساس نہ ہو۔ اتنی احتیاط کے باوجود وہ خوف زدہ تھی۔ اُسے اس خنکی والے موسم میں آگ نہ جلانے کے سبب سردی لگ رہی تھی۔ اس نے پوری رات اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے گزاری۔
اگلے روز وہ عورت اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے غار میں چلی گئی جو پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ وہ دونوں ماں بیٹے وہیں پر رہنے لگے۔ وہ لوگ سبزیوں اور پھلوں پر ہی گزارا کرتے تھے۔ اگر ضرورت پڑتی تو مچھلیاں پکڑتے اور یونہی کھا جایا کرتے تھے کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ اگر وہ اُسے بھوننے کی کوشش میں آگ جلائیں گے تو لازم تھا کہ ڈریگن کو اُن کی موجودگی کا احساس ہو جائے اور وہ انھیں مار ڈالے۔
سال مہینوں میں اور مہینے دنوں میں بدلتے چلے گئے۔ وقت کا کام ہے گزرنا، سو وہ اپنے معمول کے مطابق گزرتا رہا۔ گزرتے وقت نے تارا کو بھی بڑا کر دیا تھا۔ جب وہ بڑا ہو گیا تو اس کی ماں نے اسے اس بے آباد جگہ پر آباد ہونے کی وجہ بتائی۔ جب اُسے یہ کہانی پتا چلی تو اس کو ڈریگن سے نفرت ہونے لگی۔ اس نے بہت سارے حربے سوچے کہ وہ کس طرح اس خطرناک جانور کو مار سکتا ہے۔ اس نے سیکھا کہ کیسے آگ جلائی جاتی ہے۔ وہ اس نئی دریافت کو سیکھ کر بہت خوش تھا۔ اس کا ذہن بہت سے طریقے سوچنے لگا کہ ڈریگن سے کس طرح خُلاصی حاصل کی جائے۔ اسی حوالے سے تارا نے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ اس نے بہت سارے بھاری بھاری پتھروں کو جمع کیا اور ان کو ایک جگہ چھپا دیا۔ پھر اس نے خشک گھاس اور بہت ساری چھوٹی لکڑیاں جمع کیں، ان کو آگ لگائی اور کچھ بھاری پتھروں کو ان کے درمیان میں رکھ دیا۔ ان سوکھی لکڑیوں، ٹہنیوں اور گھاس پھوس کے جلنے سے دھواں ہوا میں تیزی سے معلق ہونے لگا۔ پھر تارا نے ایک لمبی سی لکڑی اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور ڈریگن کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی ڈریگن کو دھواں نظر آیا تو وہ پہاڑ کی طرف بڑھا، جہاں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ ڈریگن نے دیکھا ایک لڑکا پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہے اور اس کے قریب آگ جل رہی ہے۔ جب اس نے اپنے شکار کو یوں قریب دیکھا تو اپنا بڑا سا منھ کھول کر تارا کی طرف لپکا۔ قریب تھا کہ وہ تارا کو کھا جاتا لیکن تارا نے پھرتی سے اپنے ہاتھ میں پڑی ہوئی لکڑی سے ان گرم پتھروں کو تاک کر ڈریگن کے آنکھوں اور منھ کی جانب پھینکا۔
آگ کی تپش سے وہ پتھر انگاروں کی مانند سرخ ہو چکے تھے۔ لہٰذا ڈریگن جلن کی وجہ سے اپنی آنکھوں کو تیزی سے ملنے لگا۔ اس ناگہانی افتاد اور ان گرم پتھروں نے ڈریگن کو ناقابل برداشت تکلیف سے دوچار کردیا، وہ چیخنے لگا۔ زخمی ہونے کی وجہ سے وہ پہاڑ سے لڑھکتے ہوئے پانی میں جا گرا۔
تارا جلدی سے پانی کے اندر گیا اور تیرتے ہوئے ڈریگن تک پہنچا اور اس کو زندگی سے چھٹکارا دلا دیا۔ جب اُس نے یہ خبر اپنی والدہ کو دی تو وہ بے انتہا خوش ہوئیں۔ اس رات انھوں نے کئی برسوں بعد آگ پر ڈھیر سارا کھانا پکایا اور مزے سے کھایا۔ جب لوگوں کو ڈریگن کی موت کی خبر ملی انھوں نے ایک بار پھر اپنے گھروں کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کی کشتیاں دوبارہ ٹومہ لومہ کی طرف رواں دواں تھیں۔ تارا اور اس کی ماں لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ کیسے تارا نے اس ڈریگن کو ڈھیر کیا۔ جب لوگوں نے یہ سارا واقعہ سنا تو تارا کو اس کی بہادری کی بنیاد پر لوگوں نے اپنا حکمران بنالیا۔ اس نے کئی برس اس جزیرے پر حکومت کی۔ اگر آپ آج بھی ’ٹومہ لومہ‘ جائیں تو آپ وہ پتھر دیکھ سکتے ہیں جن سے تارا نے ڈریگن کو مارا تھا۔ اس جزیرے کے لوگ آپ کو اس ڈریگن اور تارا کی کہانی سنائیں گے مگر آپ تو پہلے سے ہی جان چکے ہوں گے خیر ہے، ان کا دل رکھنے کے لیے دوبارہ سن لیجیے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top