نئے دور کا جنگل
پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی
۔۔۔۔۔
جنگل کے بادشاہ جناب محترم شیر خاں صاحب دوپہر کا کھانا پیٹ بھر کر کھانے کے بعد قیلولہ فرما رہے تھے۔ پیٹ بھرا ہوا تھا لہٰذا اونگھ آگئی اور اب خراٹے لے رہے تھے۔ اچانک ملکہ عالیہ شیرنی صاحبہ تشریف لے آئیں اور سوئے ہوئے شوہر سے:
’’سرتاج… سرتاج۔ دخل در معقولات کی معذرت چاہتی ہوں… ذرا اٹھیے گا!‘‘
’’اوں ہوں… کیا بات ہے۔ سونے دیجئے ملکہ عالیہ!‘‘
’’اجی اٹھ جائیے نا… ورنہ اللہ قسم ہم ناراض ہوکر اماں بی کے غار میں چلے جائیں گے۔ ‘‘شیرنی نے دھمکی دی۔ یہ سنتے ہی شیر خاں صاحب نے آنکھیں کھول دیں اور جھٹ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’کیا بات ہے بیگم؟ ہم ایک اچھا سا ڈنر لینے کے بعد غفلت کی نیند سورہے تھے۔ آخر کیوں جگا دیاآپ نے ہمیں؟ ‘‘شیر خاں نے جماہی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ڈنر… اے ہئے… آپ کیا فرما رہے ہیں سر تاج؟ ابھی تو آپ نے دو پہر کے کھانے میں دو بے زبان عوامی ہرن ہڑپ کئے ہیں۔ وہ تو آپ کا لنچ تھا۔ ڈنر کہاں تھا؟ دوپہر کے کھانے کو تو انگریزی میں لنچ کہتے ہیں اور ڈنر تو رات کا کھانا کہلاتا ہے۔‘‘
’’اب تم سے کیا چھپائیں بیگم! ہم ساتویں پاس ہیں۔ لیکن آپ ہر وقت ہم پر اپنی قابلیت کا رعب مت جمایا کریں مانا کہ آپ بیرون جنگل ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں پڑھ کر آئی ہیں… لیکن مذاق… ‘‘
’’جی نہیں سر تاج… میں بھلا آپ کا مذاق کیوں اڑاتی ،میں نے تو آج تک پتنگ نہیں اڑائی۔ میں تو صرف یہ بتانے آئی ہوں کہ بگلو بیٹا صبح ناشتے کے بعد سے کہیں گیا ہے اور کم بخت ابھی تک نہیں لوٹا۔‘‘
’’اوہو بیگم… لفظ کم بخت پر ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔ پانچویں کلاس میں ہماری اردو کی مس نے ہمیں چھٹی کی درخوست لکھوائی کہ بہ خدمت جناب پرنسپل صاحب… ہماری اردو اور مس کی رائٹنگ اتنی خراب تھی کہ ہم نے درخواست یوں پڑھی کم بخت جناب پرنسپل صاحب … اوہو ہو ہو ویسے بائی دی وے کہاں گیا ہمارا بیٹا ملکہ عالیہ… ‘‘شیر خان نے پریشان ہوکر پوچھا۔
’’مجھے کیا پتا۔ دن بھر غار کے کام کاج اور دوسرے بچوں کے بکھیڑوں میں اتنی بیزی رہتی ہوں کہ بگلو نکل گیا کہیں۔‘‘ ملکہ نے دونوں پنجے رگڑتے ہوئے کہا۔
’’گھبرائیے مت ملکہ… بگلو ایک منتخب بادشاہ کا بیٹھا ہے۔ دوستوں کے ساتھ ہوگا یہیں کہیں۔‘‘
’’لیکن اس کے پاس پیسے کہاں ہیں سرتاج؟‘‘ملکہ نے حیرت سے پوچھا ۔
شیر خاں چڑ کر بولا ۔’’ایک تو آپ ہر وقت ہمیں سرتاج سر تاج مت کہا کریں۔ وللہ ہم نے سر کا تاج کبھی کا بگڑم ہاتھی سنار کے ہاتھ اونے پونے داموں فروخت کردیا اور اب شاہی تخت پر آپ کے دو پٹے کی پگڑی باندھ کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’ہائے میں مر گئی… تاج کی رقم کا کیا کیا آپ نے؟‘‘ ملکہ شیرنی نے تعجب سے پوچھا۔
تڑم ٹرزم بھئی تڑم تڑم… او ہو ہو ہو… دو ڈبل پلیٹ بریانی اڑائی ایک برگر کھایا، ویڈیو گیم کے مزے لئے، بگلو کے سکول کے چار مہینے کی ادھار فیس ادا کی اور بقایا پیسوں سے قومی کھیل کھیلا۔ ‘‘شیر خاں نے قہقہہ لگا کر بتایا۔’’قومی کھیل… ہم نے سٹا کھیل لیا تھا۔ معذرت چاہتے ہیں لیکن وہ بھی ہار گئے کیونکہ وزیر گیمز بہت اچھا کھیلتے ہیں لیکن آپ یہ بتائیے بگلو کے سکول کی فیس کا چار مہینے کا ادھار کیسے ہوا۔‘‘
ملکہ شیرنی پھٹ پڑیں۔’’ آئے ہئے خاک پڑے اسکول کی میڈم پر ،ہر مہینے دو دو مہینے کی فیسیں منگوا منگوا کر میری جان ہلکان کردی ہے اور بگلو بتا رہا تھا کہ ساری فیسیں جمع کر کے اپنے میک اپ کا بکس اور پرس بھرتی ہیں۔ آپ ہر ماہ اتنے بڑے جنگل کے بادشاہ ہونے کے باوجود میری ہتھیلی پر صرف آٹھ سو روپے لاکر رکھتے ہیں…‘‘
کیا کروں بیگم بجلی کا بل، گیس کا بل، اخبار والے کا بل، چوہے کا بل…مم… معاف کیجئے گا۔‘‘
’’اب میں کیا کروں ان 800رپوں میں کل وزیر اعظم ریچھ وفاداری کی بیگم200روپے ادھار لے گئیں۔ اب بھلا دیں گی توبہ کریں کبھی نہیں۔ پچھلے مہینے مینا بازار میں مجھ سے 50روپے لئے تھے۔ ڈکار تک نہیں لی۔ ‘‘ملکہ شیرنی جز بز ہوکر بولیں۔
’’کیا کہا… وزیر اعظم کے گھر سے ادھار لیا گیا ہے اور وہ بھی ہم سے! ‘‘شیر خان نے غصے سے پوچھا ۔ملکہ شیرنی خاموش بڑبڑاتی رہیں ۔شیر خاں نے دوبارہ گرج کر پوچھا۔’’ بتائیے… وزیر اعظم نے ادھار لیا ہے۔ ‘‘
’’نہیں تو… میں اپنے اماں باوا پر خرچ کر آئی۔‘‘
’’اچھا اچھا ناراض نہ ہوں… اس مہینے وزیر اعظم کی تنخواہ سے ہم چار سو روپے کاٹ لیں گے۔ دو سو تمہارے دو سو ہمارے ۔‘‘
’’لیکن حضور… وزیر اعظم کی تنخواہ تو شاید 150روپے ہے۔‘‘
’’تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ ہم کوئی ٹیکس لگا کر کاٹ لیں گے اور پھر مزے مزے کے انسانی برگر، انسانی بریانی اور رانوں کے کباب …‘‘ شیر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ اتنے میں ملکہ شیرنی کو پھر بگلو یاد آگیا۔ گھبرا کر بولی:
’’آئے میں کہتی ہوں ذرا تھانے میں ایف آئی ار کٹوا آئیں ،رپٹ درج کرادیں، کہاں دفعان ہوگیا یہ اللہ مارا بگلو میرا تو جی ہولے جاتا ہے۔‘‘
’’ارے بگلو… بیرون جنگل ملازمت کے لئے نکل گیا ہوگا ۔یہاں کہاں نوکریاں ہیں؟ ایم اے بی اے پاس نوجوان لومڑ، گھوڑے اور گدھے بے روز گار پھر رہے ہیں۔ ‘‘شیر خاں کی اس بات پر شیرنی گھبرا گئی اور بگلو نے جلدی واپسی آنے کی دعائیں مانگنے لگی۔
قبولیت کا وقت تھا۔ رات کے کھانے پر بگلو خاں واپس آگئے۔ ملکہ شیرنی نے بگلو کے منہ پر پنجہ مار کر پوچھا۔ بگلو بھوں بھوں ٹسر ٹسر رونے لگا۔
’’اوں ہوں… آں آں اوں، اوں ہوں… والدہ معظمہ آج ہم دوستوں کے ساتھ سائیکل ریس لگا رہے تھے اور لکی جنگلی سرکس میں انسانوں کا تماشا دیکھنے جارہے تھے کہ اچانک درختوں کے پیچھے سے کچھ نقاب پوش نوجوان گیدڑ نکلے اور ہمارے دوستوں کو چھوڑ کر ہمیں اغوا کر لیا۔ پھر ہمیں جیپ میں بٹھا کر بہت دور لے گئے اور محل کا ٹیلی فون نمبر پوچھنے لگے۔ ہم نے بتایا کہ ہمارے محل میں ابھی فون نہیں لگا۔ ابا حضور نے بارہ برس پہلے درخواست دی تھی شاید اب اسی سال لگ جائے… لیکن وہ بولے کہ کسی اور رشتے دار کا فون نمبر دو تاکہ ہم تاوان کی رقم مانگ سکیں۔ ہم نے بتایا کہ ہماری پوری ننھیال اور ددھیال میں کسی کے گھر ٹیلی فون نہیں لگا کیونکہ ٹی اینڈ ٹی والے جلدی فون لگانے کے 20ہزار روپے طلب کرتے ہیں۔ یہ سن کر ایک گیدڑ نے ہمیں بہت مارا اور ’’غریب کا بچہ‘‘ کہہ کر بھگا دیا۔‘‘ بگلو نے سسکتے ہوئے بتایا۔
’’اس بے روزگار گیدڑ کی یہ مجال ، وہ کب سے اتنا دلیر ہوگیا کہ ایک بادشاہ یعنی شیر کے یعنی ہمارے بچے پر ہاتھ اٹھائے۔ ‘‘شیر نے غصے سے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا۔
’’آئے ہئے جب نگوڑی حکومت ہی کمزور ہوگی تو گیدڑ ہی شیر ہوں گے۔ میں ابھی جاکر بات کرتی ہوں وزیر اعظم کی بیوی سے کہ کیا ان کے شوہر امن کا اچار ڈال رہے ہیں۔ ہر مہینے مفت کے150روپے لے لیتے ہیں۔‘‘
ملکہ شیرنی غصے میں بھری چلی گئی۔ خیر… اس شام ایک ایمرجنسی یعنی ہنگامی اجلاس منعقد ہوا اور کورم بھی پورا ہوگیا۔ اپوزیشن اور حزب اقتدار میں خوب دھکم پیل ہوئی اور پتھر بگلو میاں کے سر پر ٹھک سے لگا وہ چیخ چیخ کر رونے لگا:
’’اماں حضور… اماں حضور… ناچک بندر نے ہمیں پتھر مارا ہے۔ ‘‘
’’آئے تو چاہا بنا کیوں کھڑا ہے۔ اینٹ اٹھا کر مار دے کلموئے کے سر پر ۔‘‘شیرنی نے ریچھنی کی چٹیا کھنچتے ہوئے کہا۔
غرضیکہ اس شام اسمبلی میں خوب مار پیٹ ہوئی۔ اگلے دن کے اخبارات نے ہنگامے کو خوب اچھالا ۔عقل مند الو جو بہت اچھے شاعر بھی تھے اخبار میں جھگڑے کا پڑھ کر افسوس بھرے لہجے میں اپنی عینک ٹھیک طرح سے جماتے ہوئے بولے:
’’افوہ… میرے اللہ !سچ ہے نفاق اور آپس کی نفرت ہی سے حکومت کمزور ہوتی ہے اور ہنستا بستاجنگل تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ اگر یہ بے وقوف مل جل کر رہیں آپس میں محبت اور یگانگت پیدا کریں تو اس جنت نظیر جنگل کو پوری دنیا میں ایک مثالی جنگل بنا دیں۔‘‘ جناب الو نے خاموش ہو کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ اخبار پر نظریں گاڑدیں۔
لیکن ان کا اخبار میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ بی فاختہ کی طرح ایک امن پسند شاعر پرندے تھے۔ وہ امن کے گیت اور نظمیں لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر اس جنگل کے باسی اسی طرح آپس میں لڑتے رہے تو عنقریب دشمن اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اس جنت نظیر جنگل پر غاصبانہ(طور پر) قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر دے گا اور اس جنگل کا کوئی بھی جانور دشمن کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکے گا کیونکہ ان میں آپس ہی میں ان بن ہوگی تو بھلا اتحاد کیونکر ہوگا۔
جناب الو خوب سوچتے رہے۔ عینک کی کمانی منہ میں دبائے سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آئندہ منگل کو منعقد ہونے والے دربار عام میں جاکر تمام جانوروں کو سمجھائیں ۔وہ بڑے محترم شاعر تھے اور جنگل کے جانور ان کا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ اگلے منگل کو منعقد ہونے والے دربار عام کے لئے انہوں نے اپنی تقریر لکھنی شروع کر دی۔ تقریر بہت متاثر کن فکر انگیز اور دلوں کو چھولینے والی تھی۔
چنانچہ جب منگل کی صبح شیر خاں خوب تیل وغیرہ لگا کے مشک وعنبر سے لباس مہکا کے اکڑا کڑا چلتا ہوا تخت پر آکر بیٹھا تو سب سے پہلے محترم نے پر کھڑا کر کے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ شیر خان نے اجازت دے دی۔ جناب الو نے تمام جانوروں کو خوب سمجھایا ۔تقریر کے دوران وہ جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ گلو گیر لہجے میں بولے:
’’دیکھو تم سب میرے بچوں جیسے ہی ہو۔ میں تم سب سے تجربے، عمر میں افضل اور ایک طرح سے زمانے کے سردو گرم زیادہ دیکھا ہوا ہوں۔ میں نے تم سے چار برساتیں زیادہ دیکھی ہیں۔ میں نے اپنے یہ پر دھوپ میں سفید نہیں کئے ۔میری بات سمجھنے کی کوشش کرو اور اللہ کے لئے یہ آپس کے جھگڑے بند کرو۔ مل جل کر ایک مفید فیصلہ کرو تاکہ تمہارا جنگل ترقی کرے۔ تمہاری آئندہ نسلیںاداس نہ ہوں بلکہ خوش حال ہوں اور پھلیں پھولیں۔ میرے پیارے جنگل کے پیارے باسیو! آؤ اب بھی وقت ہے آپس کی رنجشیں بھلا کر ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں۔ اتنا کہہ کر انہوں نے عینک اتاری اور کبوتر کے پروں سے بنے ہوئے رومال سے آنسو پونچھنے لگے۔ انہیں روتا دیکھ کر اب تمام جانوروں کی عقلوں پر پڑے ہوئے پردے ہٹ چکے تھے۔ وہ سب دربار کے آداب کا احترام کئے بغیر نعرے لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے اور جنگل کے تمام چھوٹے بڑے درختوں کے پھولوں سے یکایک ایک ان جانی سے مہک اٹھنے لگی۔
جانتے ہو وہ خوشبو کیسی تھی؟
وہ خوشبو پیارو محبت کی تھی!!! ادھر اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی بگلو اور ناچک بندر بھی گلے مل رہے تھے۔
ء…ء

