نافرمان چوزہ
ڈاکٹر ذاکر حسین
(سابق صدر ہندوستان)
۔۔۔۔۔
ایک بڑی سی مُرغی نے ایک بڑے سے ٹوکرے میں بہت سی گھاس پھوس اکٹھی کی اور اس نرم نرم گھاس پر بہت سے سفید سفید انڈے دیے اور بس دن رات ان پر بیٹھنا شروع کیا۔ ایک ہفتہ گزرا ،دو ہفتے گزرے، تین ہفتے گزرے کہیں اکیسویں دن جا کر انڈے کھٹ کھٹ ٹوٹنا شروع ہوئے اور ہر انڈے میں سے ایک ایک ننھا منا بچہ نکلا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پر کیسے نرم تھے اور کیسے گرم، ہر بچہ روئی کا گالا معلوم ہوتا تھا۔
ماں بھی کتنی خوش ہوگی، لیکن پھر بھی اسے ذراسی فکر باقی تھی۔ ایک انڈا رہ گیا تھا جس میں سے ابھی تک کچھ نہ نکلا تھا۔ بے چاری ماں اس کو اپنے پروں سے گرمی پہنچا رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہی تھی کہ اس میں سے بھی ایسا ہی پیارا بچہ نکلے جیسے اور انڈوں سے نکلتے ہیں۔ اس فکر میں دعائیں مانگتے مانگتے دو دن گزر گئے کہ چوبیسویں دن صبح تڑ کے انڈے کے اندر سے کسی نے کھٹ کھٹ کر کے انڈے کو توڑ دیا۔ انڈا جوٹوٹا تو ایک ننھا سا بچہ نکلا۔
یہ بچہ بھی نرالا تھا، ایسا کالا جیسے کا جل، یا جیسے کالا کو ا ہوتا ہے، یا اگر تم نے دیکھا ہو تو جیسے رات کا اندھیرا اور اس پر طرہ یہ کہ اس بچے کا ایک ہی باز و تھا۔ ایک ہی ٹانگ تھی اور ایک ہی ننھی سی آنکھ۔ جو اس آدھے لنڈورے کو دیکھتا تو اسے ہنسی آجاتی۔ اس پر لطف یہ کہ یہ میاں لنڈورے تھے بھی بلا کے شریر، انہیں جو سو جھتی نرالی سوجھتی۔
ایک دن یہ نرالا بچہ اپنی ماں کے پاس گیا اور کہنے لگا ۔’’اماں !میں گھر میں نہیں رہوں گا۔ میں تو جا کر بادشاہ کا محل دیکھوں گا اور بادشاہ سے ملوں گا۔‘‘
’’ارے میرے پیارے، میرے ننھے لنگڑو۔ ‘‘ماں نے کہا۔’’کیسی باتیں کرتا ہے؟ مجھے ان باتوں سے ڈر لگتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو چاہیے چین سے گھر پر رہیں اور ماں کے پروں میں خوب گرم گرم رات کا ٹیں۔‘‘
لیکن میاں لنگڑے نے ایک نہ سنی۔ سر ہلایا، اپنا ایک بازو پھڑ پھڑایا، اپنی کالی آنکھ ادھر اُدھر چلائی اور’’چیپ چیپ۔ خدا حافظ‘‘ کہتے ہوئے اُچک اُچک کر لنگڑاتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔
سڑک کے کنارے ایک جگہ آگ جل رہی تھی۔ اس کے پاس پہنچے، آگ نے کہا۔’’میاں لنگڑے! ذرا اپنی ننھی سی چونچ میں دو چار تنکے اٹھالاؤ اور مجھے دے دو کہ میں ذرا اور اوپر جل لوں۔‘‘ مگر میاں لنگڑے نے ایک نہ سنی۔ اپنا سر ہلا کر اپنا ایک بازو پھڑ پھڑایا، اپنی کانی آنکھ ادھر اُدھر چلائی اور ’’چیپ چیپ ۔نہیں ہمیں خود جلدی ہے، ہم بادشاہ سے ملنے جارہے ہیں۔‘‘ کہتے ہوئے آگے چل دیے۔
کچھ دور چلے تو ایک چھوٹا سا چشمہ ملا۔ اس کا پانی راستے کے کنارے کنارے بہہ رہا تھا، چشمے نے کہا۔’’میاں لنگڑے، دیکھو میرے راستے میں یہ دو چار کنکر آ پڑے ہیں، انہیں ذرا اپنی چونچ سے ہٹا دو کہ میں زیادہ آرام سے بہہ سکوں۔‘‘ مگر میاں لنگڑے نے ایک نہ سنی۔ اپنا سر ہلایا اپنا ایک بازو پھڑ پھڑایا، اپنی کانی آنکھ ادھر ادھر چلائی اور ’’چیپ چیپ ۔نہیں ہمیں خود جلدی ہے، ہم بادشاہ سے ملنے جارہے ہیں‘‘ کہتے ہوئے آگے چل دیے۔
لنگڑاتے ہوئے کچھ اور آگے بڑھے تو ایک بڑی سی جھاڑی ملی۔ جھاڑی کے کانٹوں میں بے چاری ہوا کا دامن پھنس گیا تھا اور وہ ادھر اُدھر سے نکل کر چلتی تھی۔ اس نے اس نرالے مرغی کے بچے کو جو د یکھا تو بولی۔’’ میاں لنگڑے مسافر !خدا کے واسطے رحم کرو اور مجھے اس جھاڑی میں سے نکال لو۔ اس کے کانٹے بڑے تیز ہیں اور بہت چبھتے ہیں‘‘ مگر لنگڑے نے ایک نہ سنی۔ اپنا سر ہلایا، اپنا ایک بازو پھڑ پھڑایا، اپنی کانی آنکھ ادھر اُدھر چلائی اور ’’چیپ چیپ۔ نہیں ہمیں خود جلدی ہے۔ ہم بادشاہ سے ملنے جارہے ہیں ۔‘‘کہتے ہوئے آگے چل دیے اور کودتے پھاندتے بادشاہ کے محل میں پہنچ گئے۔
بادشاہ کا باورچی ایک مرغی کا چوزہ پکڑنے نکلا تھا کہ بادشاہ کے ناشتے کے لیے پکائے۔ اس نے جو یہاںلنگڑے کو اچکتے ہوئے دیکھا تو انہیں جھٹ سے پکڑ لیا اور دیگچی میں ڈال آگ پر چڑھاہی تو دیا۔
میاں چوزے نے چلانا شروع کیا۔ ’’دہائی ہے دُہائی۔ بی آگ، بادشاہ سلامت کی دُہائی ہے۔ خدا کا واسطہ ہے۔ مجھے جلاؤ نہیں ۔‘‘مگر آگ برابر جلے گئی اور جلائے گئی ،اسے جواب دیا کہ۔’’ نہیں نہیں اب میرا موقع ہے۔ میں تمہاری مدد نہ کروں گی۔ جب مجھے ضرورت تھی تو تم جلدی میں تھے، اب مجھے جلدی ہے۔ ‘‘
تھوڑی دیر تک میاں چوزے دیگچی میں پڑے اُبلتے رہے کہ بادشاہ کا بڑا باور چی آیا۔ اس نے جو ڈھکن اُٹھا کر دیکھا کہ یہ چوزہ تو کالا ہے کوئلہ سا اور اس کی ہر چیز آدھی ہی آدھی تو اس نے دیگچی سے نکال کر اسے باہر پھینک دیا اور باورچی سے کہا کہ’’ دوسرا چوزہ لاؤ۔ یہ کالا چوزہ بادشاہ سلامت کے سامنے نہیں جاسکتا۔‘‘
باورچی خانے میں ایک نالی تھی ،لنگڑا چوزہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا۔ ’’میاں پانی !تمہیں بادلوں کی قسم ،سمندر کی قسم، ذرا مجھے ٹھنڈا کر دو۔ بالکل جل گیا ہوں۔‘‘ مگر نالی میں پانی آہستہ آہستہ بہنے لگا اور مسکرا کر بولا۔’’نہیں نہیں۔ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ،جب مجھے تمہاری ضرورت تھی تو تم اس وقت کیسے جلدی میں تھے، اب میرا موقع ہے۔ میں جلدی میں ہوں۔‘‘
ادھر سے ہوا کا تیز جھونکا آیا اور میاں چوزے اس میں اُڑ گئے۔ اب انہیں ڈر لگنا شروع ہوا کہ نہ جانے یہ ہوا کہاں لے جا پھینکے تو لگے ہوا کی خوشامد کرنے۔’’بی ہوا مجھے اِدھر اُدھر دھکے نہ کھلاؤ، ذرا تو چین سے رہنے دو۔‘‘ لیکن ہوا نے ہنس کر سیٹی بجائی اور کہا۔’’نہیں نہیں اب مجھ سے کیا مدد مانگتے ہو، جب مجھے تمہاری ضرورت تھی، تو تم بڑی جلدی میں تھے۔ اب میں جلدی میں ہوں، میرے پاس وقت نہیں کہ تمہاری بات سنوں۔‘‘
یہ کہہ کر ہوا نے جو زور سے اوپر کا رُخ کیا تو میاں لنگڑے ایک مینار کی چوٹی پر جا کر اٹک گئے اور ابھی تک و ہیں لٹکے ہیں۔ جب ہوا چلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ مڑ کر لوگوں کو ہوا کا رخ بتاتے ہیں۔ مرغی کا کوئی چھوٹا بچہ اس کے پروں سے نکل کر ادھر اُدھر جاتا ہے تو دُکھیاری مرغی ٹھنڈا سانس بھرتی ہے اور انہیں اس لنگڑے بھائی کا قصہ سناتی ہے، جو شرارت کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے مینار پر ٹنگا لوگوں کو ہوا کا رخ بتلاتا ہے۔