میرا دل نہیں چاہ رہا
کہانی: I Don’t Want To!!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
یہ ایک دس سالہ ننھی سی لڑکی مانو کی کہانی ہے جو اپنے ماں باپ کے لاڈ و پیار کی وجہ سے بہت بگڑ چکی تھی۔ نام تو اس کا ’’ مانو‘‘ تھا لیکن وہ کسی کا کہنا نہیں مانتی تھی اور حد سے زیادہ کاہل تھی۔ جب بھی اس کی امی اس سے کوئی کام کرنے کو کہتیں، تو وہ فوراً منہ بنا کر صاف جواب دے دیتی کہ میرا دل نہیں چاہ رہا۔ اگر وہ کہتیں۔ ’’ مانو! ذرا میز پر پلیٹیں رکھ آئو۔‘‘ تو وہ کہتی۔’’ میرا دل نہیں چاہ رہا!‘‘ اسی طرح دن بھر میں وہ تقریباً درجنوں دفعہ یہ جملہ دہراتی رہتی۔’’ کس قدر بگڑی ہوئی بچی ہے۔ کوئی کام نہیں کرتی۔‘‘ اس کو جاننے والے سب لوگ کہتے لیکن مانو پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس کی دادی اکثر اسے سمجھایا کرتیں کہ کام چور لوگوں کو کوئی پسند نہیں کرتا لیکن مانو ان کی نصیحتوں پر بھی کوئی توجہ نہ دیتی۔
ایک دن وہ کھیتوں کی سیر کو نکلی لیکن غلطی سے ایک انجانی سڑک پر مڑ گئی۔ کافی دور چل کر اسے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا جس کے سامنے ایک کنواں تھا۔ سبز آنکھوں والی ایک بوڑھی عورت اس کنویں سے پانی نکال رہی تھی۔ مانو کو آتا دیکھ کر اس نے آواز دی۔’’بیٹی! ذرا پانی نکلوانے میں میری مدد کر دو۔‘‘
مانو نے حسب معمول ناک چڑھا کے جواب دیا۔’’ میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
بوڑھی عورت نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور پانی کا ڈول باہر نکال کر ڈالتے ہوئے کہا:
’’ اچھا تو کیا تم میرے ساتھ یہ بالٹی پکڑوا کے بالٹی میںمیرے گھر تک پہنچا دو گی؟‘‘
مانو کا جواب اب بھی وہی تھا: ’’میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
’’ تم کس قدر بدتمیز بچی ہو! ایک ہی جملہ کہتے کہتے کیا تم تھکتی نہیں؟ کبھی کچھ اور بھی کہہ کے دیکھا کرو۔ تمہیں اچھا لگے گا۔‘‘
’’ میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ مانو نے پٹ سے جواب دیا۔
’’ ٹھیک ہے تو پھر مت کہو۔ بلکہ اگر تمہیں یہ جملہ اتنا زیادہ پسند ہے تو اب تم بس یہی کہا کرو۔ امید ہے کہ جلد ہی تم یہ جملہ کہنے سے بور ہو جاؤ گی۔‘‘ بوڑھی عورت نے عجیب سے لہجے میں کہا اور پانی کی بالٹی اٹھا کر اپنے گھر کے اندر چلی گئی۔
مانو اس کے انداز سے کچھ خوفزدہ سی ہو گئی تھی۔ کہیں یہ سبز آنکھوں والی اجنبی عورت کوئی پری تو نہیں تھی؟ اس نے وہاں سے دوڑ لگادی۔جلد ہی اس کو اپنے گھر کا راستہ نظر آ گیا اور وہ تیزی سے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ راستے اسے اپنے اسکول کی ایک دوست ملی۔
’’مانو! میری امی نے مجھے باتیں کرنے والی نئی گڑیا دلائی ہے۔ تم آج شام میرے گھر آ جانا تو ہم دونوں مل کے کھیلیں گے۔‘‘ اس کی دوست نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
’’ میرا دل نہیں چاہ رہا!‘‘ مانو کے منہ سے نکلا اور اپنی دوست کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی حیران رہ گئی کیونکہ گڑیا سے کھیلنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
’’ ٹھیک ہے۔ تو مت آنا! میں ماریہ کو بلا لوں گی۔‘‘ اس کی دوست نے کچھ چڑ کے کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی آگے چل پڑی۔
مانو جب گھر پہنچی تو بہت اداس تھی۔ پتا نہیں اس نے اپنی دوست سے ایسا کیوں کہہ دیا تھا۔ اس کی امی نے اسے اداس دیکھ کر خوش کرنے کے لیے کہا:
’’ مانو! میں نے تمہارا پسندیدہ چاکلیٹ کیک بنایا ہے۔ تمہیں ابھی نکال کے دے دوں؟‘‘
یہ سنتے ہی مانو کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے فوراً جواب دیا:
’’ میرا دل نہیں چاہ رہا!‘‘
اس کی امی نے گھور کے مانو کو دیکھا جو حیران پریشان کھڑی تھی۔ وہ چاکلیٹ کیک کھانے سے کیسے منع کر سکتی تھی؟ چاکلیٹ کیک کھانا تو اس کو بہت پسند تھا۔
’’ کیا کہا؟‘‘اس کی امی نے دوبارہ پوچھا۔ اس نے کہنا چاہا کہ وہ کیک کھانا چاہتی ہے لیکن اس کے منہ سے دوبارہ یہی جملہ نکلا:
’’ میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
’’ اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔ میں یہ کیک پڑوس میں بھیج دیتی ہوں۔ ان کے بچے تمہاری طرح ناشکرے نہیں ہیں۔‘‘ امی نے ناراض ہو کر کہا۔
مانو تقریباً روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگی کہ پیچھے سے اس کے ابو نے آواز دی جو ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے:
’’ مانو بیٹا! جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ قصبے میں بہت اچھا سرکس آیا ہوا ہے۔ میں سرکس کے ٹکٹ لے کر آیا ہوں۔‘‘
مانو روتے روتے خوشی سے اچھل پڑی۔ اس نے جوشیلے انداز میں کہا:
’’ میرا دل نہیں چاہ رہا اور یہ کہتے ہی اس کا منہ لٹک گیا۔ ابو کچھ دیر کے لیے حیرت زدہ رہ گئے، پھر ناراض لہجے میں بولے:
’’ مانو! تمہارا دماغ بہت خراب ہوگیا ہے۔ ٹھیک ہے۔ مت جاؤ۔ میں اپنی بھانجی کو لے جا کر دکھا دوںگا۔‘‘
یہ دن مانو کے لیے بہت برا ثابت ہوا۔ اسے بہت سی اچھی چیزوں سے صرف اس لیے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ اب وہ ’’ میرا دل نہیں چاہ رہا ۔‘‘کے سوا کچھ اور نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کے نتیجے میں سب لوگ اس سے ناراض ہو گئے۔ رات کو وہ سونے لیٹی تو دن بھر کے واقعات یاد کر کے روتی رہی۔ اچانک کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور وہی سبز آنکھوں والی بوڑھی عورت کمرے میں داخل ہوئی جو اس نے کنویں کے پاس دیکھی تھی۔
’’ ننھی لڑکی کیا حال چال ہیں؟ کیا تم اب ٹھیک سے بولنا پسند کرو گی؟‘‘ بوڑھی عورت نے کہا۔
غریب مانو خاموش رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس سوال کے جواب میں اس کے منہ سے بس یہی جملہ نکلے گا ۔’’ میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ اور وہ ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
’’ اچھا چلو ایک شرط پر میں تمہاری زبان واپس لوٹا سکتی ہوں۔ اگر تم وعدہ کرو کہ تم اچھی بچی بن کے رہو گی اور دوسروں کے کاموں میں ان کی مدد کرو گی تو میں تمہاری زبان واپس لوٹا دوں گی لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور’ میرا دل نہیں چاہ رہا‘ دن میں ایک سے زیادہ بار کہا تو تمہارے ساتھ پھر یہی سب کچھ ہو گا جو آج کے دن ہوا۔ بولو! اچھی بچی بننا منظور ہے؟‘‘
مانو نے یہ سنتے ہی سختی سے زبان دانتوں تلے دبا لی کہ کہیں اس کے منہ سے دوبارہ یہی جملہ نہ نکل جائے اور زور زور سے سر ہلایا۔ بوڑھی عورت مسکرائی۔
’’ تو پھر ٹھیک ہے۔ اپنا وعدہ یادرکھنا۔‘‘
’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری زبان واپس لوٹا دی۔ میں آپ کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئی اور آپ کی مدد کرنے سے انکار کیا ،اس کے لیے مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘ مانو نے کہا۔
’’ شاباش! یہ ہے بات کرنے کا صحیح طریقہ!‘‘ بوڑھی عورت نے کہا اور غائب ہو گئی۔
مانو کے لیے اپنی بری عادت سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان کام نہیں تھا لیکن وہ جب بھی اس دن کو یاد کرتی، اپنی زبان پر فوراً قابو پا لیتی۔ گھر والے حیران تھے کہ مانو اتنی اچھی کیسے ہو گئی لیکن اس نے یہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ کیونکہ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا!!!!