skip to Main Content

بونوں کا جزیرہ

ناول: Gulliver’s Travels
مصنف: Jonathan Swift
مترجمہ: توراکینہ قاضی
۔۔۔۔
باب:1
میرے والد نوٹنگھم شائر میں ایک معمولی زمیندار تھے۔ میں ان کے پانچ بیٹوں میں تیسرا بیٹا تھا۔ جب میں چودہ سال کا ہوا تو میرے والد نے مجھے کیمبرج کے عمانوئل کالج میں داخل کروا دیا۔ میں وہاں تین سال تک رہا اور گہری توجہ اور دل چسپی سے تعلیم حاصل کرتا رہا۔ لیکن چوں کہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔ جنھیں تھوڑی سی آمدنی میں پورا کرنا میرے والد کے لیے مشکل تھا اس لیے میں نے کالج کو خیر باد کہا اور لندن کے ایک مشہور سرجن جیمز بیٹسس کی شاگردی اختیار کرلی۔ میں چار سال تک ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔ میرے والدمجھے اخراجات کے لیے اکثر چھوٹی چھوٹی رقومات بھیجا کرتے تھے جنھیں میں بحری علوم اور علوم ریاضی سیکھنے ہیں صرف کیا کرتا تھا۔ یہ علوم سمندری سفر کرنے والوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتے تھے۔ مجھے سمندری سفر کا بچپن ہی سے بے حد شوق تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی مجھے ضرور سمندری سفر کرنے کا موقع ملے گا۔
مسٹر بیٹسس سے جراحی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں اپنے والد کے پاس چلا گیا۔ جہاں مجھے اپنے والد، چچا جان اور چند دوسرے رشتہ داروں سے چالیس پونڈ کی رقم مل گئی۔ اب میں نے ڈاکٹری کی اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہالینڈ کی لیڈن یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں مجھے تیس پونڈ سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ لیڈن یونی ورسٹی میں، میں نے دو سال تک تعلیم حاصل کی۔ جب میں وہاں سے تعلیم مکمل کر کے گھر واپس آیا تو مجھے مسٹر بیٹسس کی سفارش پر’’ سویلو‘‘نامی جہاز میں بحیثیت سرجن ملازمت مل گئی۔ اس جہاز کا کمانڈر کپتان ابراہام پینل تھا۔ میں نے اس کے جہاز پر ساڑھے تین سال تک ملازمت کی اور کئی علاقوں کی سیاحت کی۔ اس ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد میں نے لندن میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے مہربان اُستاد مسٹر بیٹسس نے اس فیصلے کو بے حد پسند کیا۔ انھوں نے بہت سے مریضوں کو مجھ سے متعارف کرایا تاکہ بحیثیت سرجن میری پریکٹس چل نکلے۔ لندن میں ،میں نے اولڈ جیوری میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا اور نیوگیٹ کے ایک تاجر مسٹر ایڈمنڈ برٹن کی صاحبزادی مس میری برٹن سے شادی کرلی۔ اپنی شادی کے موقع پر مجھے اپنے والد کی طرف سے چار سو پونڈ کی بھاری رقم بھی مل گئی۔ 
دو سال بعد میرے اُستاد مسٹر بیٹسس کا انتقال ہو گیا۔ میرے دوست بہت کم تھے۔ اس لیے میری پریکٹس ناکام ثابت ہونے لگی۔ میں نے اپنی بیوی اور چند ہمدرد رشتہ داروں کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ مجھے دوبارہ کسی بحری جہاز پر ملازمت کرلینی چاہیے۔ چناں چہ میں نے یکے بعد دیگرے دو جہازوں پر بحیثیت سرجن ملازمت کی اور چھے سال تک جزائر شرق الہند اور جزائر غرب الہند کے بے شمار سفر کیے۔ اس طرح میری آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا اور میرے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی۔ فرصت کے اوقات میں ،میں اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا اور جب کبھی ہمارا جہاز کسی ساحل پر لنگر انداز ہوتا تھا تو میں اس جگہ اُتر کر وہاں کے لوگوں کے رہنے سہنے کے طریقوں اور رسوم و رواج کا مطالعہ کیا کرتا تھا اور ان کی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی ذہانت اور قابلیت سے میں ہر زبان بہت جلد سیکھ لیا کرتا تھا۔ اپنے آخری بحری سفروں سے مجھے مالی لحاظ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس لیے میں نے گھر واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ لندن پہنچ کر میں نے اپنا اولڈ جیوری والا مکان فروخت کر دیا اور فیئر لین میں ایک نیا مکان خرید لیا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں منتقل ہو گیا لیکن کچھ عرصے بعد میں نے وہ مکان بھی چھوڑ دیا اور واپنگ میں رہائش اختیار کرلی۔ اس جگہ جہازو ںکے ملاحوں کی آمد ورفت رہا کرتی تھی۔ اس لیے مجھے امید تھی کہ اس جگہ رہتے ہوئے بحیثیت ڈاکٹر میری پریکٹس خوب چل نکلے گی لیکن مجھے اس میں کوئی زیاد کام یابی نصیب نہ ہو سکی۔ اس پر میں نے سوچا کہ مجھے ایک بار پھر کسی بحری جہاز پر ملازمت کرلینی چاہیے۔ چناں چہ میں نے اس غرض سے اینٹی لوپ نامی ایک جہاز کے مالک کپتان ولیم پر یچرڈ سے ملاقات کی۔ اس نے فوراً ہی مجھے اپنے جہاز پر بحیثیت ڈاکٹر ملازم رکھ لیا۔ کپتان ولیم پر یچرڈ اس وقت جنوبی سمندر کا سفر کرنے والا تھا۔ ہم 4 مئی1699 ء کو برسٹل کی بندرگاہ سے جنوبی سمندر کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
باب:2
شروع شروع میں ہمارا سفر بہت خوش گوار رہا۔ پھر جزائر شرق الہند کے سمندر میں پہنچتے ہی ہمارے جہاز کو ایک زبر دست سمندری طوفان نے آن لیا۔ اس طوفان نے ہمارے جہاز کو وان ڈیمنز لینڈ کے شمال مشرق کی طرف دھکیل دیا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ ہم عرض البلد سے تیس ڈگریاں دو منٹ جنوب کی طرف آچکے تھے۔ ہمارے عملے کے بارہ آدمی شدید محنت و مشقت اور ناکافی خوراک کے سبب ہلاک ہوگئے تھے اور جو باقی بچے تھے ان کی حالت بھی بے حد خراب تھی۔ 15 نومبر کو جب ان علاقوں میں موسم گرما کا آغاز ہوتا تھا فضا میں دھندلاہٹ چھانے لگی۔اس دھندلاہٹ کے پردے میں ہمیں سمندر میں ایک ابھری ہوئی چٹان دکھائی دی جو ہمارے جہاز سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ ہم نے اس چٹان سے بچنے کی کوشش شروع کردی مگر تیز ہوا ہمارے جہاز کو سیدھا اُس کی طرف اُڑا کر لے گئی اور جہاز بڑے زور سے اس چٹان سے ٹکرا کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ میں اور میرے چھے ساتھی جہاز کے چٹان سے ٹکرانے سے پہلے ہی ایک کشتی میں سوار ہو چکے تھے۔ ہم بڑی تیزی سے چپو چلاتے ہوئے ڈوبتے ہوئے جہاز اور اس خطر ناک چٹان سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ تین لیگ (نومیل) ہی فاصلے کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم بے حد تھک گئے اور چپورکھ کر اپنی کشتی کو سمندری لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ آدھ گھنٹے تک ہماری کشتی اسی طرح سمندر میں بہتی رہی۔ پھر اچانک شمال سے آنے والی ایک زبر دست سمندری لہر نے اُسے اُلٹ دیا۔ سمندر میں گرتے ہی میں اپنی زندگی بچانے کے لیے تیزی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ تیز ہوائیں اور سمندری لہریں مجھے ایک نامعلوم سمت لے جارہی تھیں۔ میں نے کئی مرتبہ اپنی ٹانگیں نیچے کی طرف سیدھی کرتے ہوئے زمین کی سطح کو ٹٹولنے کی کوشش کی لیکن میرے نیچے گہراپانی تھا۔ پھر جب میں تیرتے تیرتے تھک گیا اور مجھ میں مزید تیرنے کی سکت نہ رہی تو اس وقت میں نے اپنے قدموں کے نیچے زمین کی سطح محسوس کی، اس وقت تک طوفان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ میں تقریباً ایک میل تک اُتھلے پانی میں چلتا رہا۔ اس کے بعد میں ایک ساحل پر جا پہنچا۔ اس وقت میرے اندازے کے مطابق شام کے آٹھ بج رہے تھے۔ ساحل پر پہنچ کر میں آدھ میل تک سیدھا چلتا رہا۔ راستے میں مجھے کوئی انسان یا جانور نہ دکھائی دیا، نہ مکانات وغیرہ دکھائی دیے۔ اس وقت میں بے حد تھکا ہوا تھا،مجھے نیند بھی آرہی تھی۔ اس لیے ایک جگہ پہنچ کر میں گھاس پر لیٹ گیا۔ وہ گھاس بہت چھوٹی اور بے حد نرم تھی۔ اس پر لیٹتے ہی مجھے نیند آگئی۔
میں نو گھنٹے تک مسلسل سوتا رہا۔ پھر جب میری آنکھ کھلی تو دن کی روشنی پھیل چکی تھی۔ میں نے گھاس پر سے اُٹھنا چاہا مگر اپنے آپ کو ہلانے جلانے سے قاصر رہا۔ میں پشت کے بل زمین پر لیٹا ہوا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ میرے بازو اور ٹانگیں سختی سے زمین سے بندھے ہوئے تھے۔ میرے گھنے اور لمبے بال بھی اسی طریقے سے بندھے ہوئے تھے۔ مجھے اپنے جسم پر بغلوں سے لے کر رانوں تک بے شمار چھوٹے چھوٹے بندھن محسوس ہورہے تھے۔ میں صرف اوپر کی طرف دیکھ سکتا تھا۔ سورج بلند ہونا شروع ہو گیا تھا اور اس کی تیز دھوپ سے میری آنکھوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔
پھر میں نے اپنے آس پاس عجیب سا شور سنا لیکن میں کچھ اس طرح بندھا ہوا تھا کہ سوائے آسمان کے کچھ بھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد میں نے اپنی بائیں ٹانگ پر کسی زندہ چیز کو حرکت کرتے محسوس کیا۔ یہ میرے جسم کے اوپر میرے سینے کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی۔ پھر یہ چلتی چلتی میری ٹھوڑی تک آپہنچی۔ جب میں نے بڑی مشکل سے سر کو تھوڑا سا جھکا کر اس کی طرف دیکھا تو مجھے ایک ایسا انسان دکھائی دیا جو بمشکل چھے انچ لمبے قد کا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں ایک کمان اور تیر تھام رکھے تھے۔ اس کے کندھے پر ترکش تھا۔ اسی وقت مجھے تقریباً چالیس کے قریب اس قسم کے انسان اپنے جسم پر چلتے محسوس ہوئے۔ میں اُنھیں دیکھ کر سخت حیران ہورہا تھا۔ شدید حیرانی کے عالم میں میرے منہ سے بے ساختہ ایسی اونچی آواز نکلی کہ وہ سب مارے خوف کے بھاگ کھڑے ہوئے۔
بعد نہیں مجھے بتایا گیا تھا کہ ان بونوں میں سے بہت سے بونے میرے جسم پر سے کودتے ہوئے نیچے گر کر شدید زخمی ہو گئے تھے، تاہم وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے۔ ان میں سے ایک بونا بہت ہی بہادر ثابت ہوا کہ وہ میرے جسم پر چڑھ کر چلتا ہوا سیدھا میرے چہرے کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اُس نے اپنے دونوں بازو او پر اُٹھائے اور بلند آواز میں چلایا۔’’ہے کی ناڈیگول!‘‘دوسرے بونوں نے بھی جواباً کئی مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ میں نہ سمجھ سکا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب تھا۔ میں انتہائی تکلیف کے عالم میں زمین پر چت لیٹا ہوا تھا۔ آخر میں نے اپنے آپ کو بندشوں سے آزاد کرنے کی کوشش شروع کردی۔ اس کوشش کے نتیجے میں میرے بائیں بازو پر بندھی ہوئی رسیاں ٹوٹ گئیں اور میرا وہ بازو آزاد ہو گیا۔ پھر ایک زور دار جھٹکے سے میں نے اپنے سر کے بالوں کو بائیں طرف سے آزاد کر لیا۔ اس عمل سے مجھے خاصی تکلیف بھی پہنچی لیکن میں کم از کم دو انچ تک اپنا سر گھمانے کے قابل ہو گیا۔ پھر جوں ہی میں نے ان بونوں کو اپنے آزاد ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی۔ وہ چیخنے چلاتے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ عجیب سی زبان میں چیخ چلا رہے تھے۔
جب شور تھما تو کسی نے بلند آواز میں چلا کر حکم دیا ’’تالگوقانک‘‘اس حکم کے ساتھ ہی سیکڑوں تیر میرے بازو کی طرف چھوڑ دیے گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ سیکڑوں ننھی منی سوئیاں میرے بازو میں پیوست ہوگئی ہوں۔ پھر ان بونوں نے بے شمار تیر ایک ساتھ آسمان کی طرف چھوڑ دیے جو میرے جسم کے مختلف حصوں پر آکر گرے۔ جس پر میں نے فوراً ہی اپنے ہاتھ سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ پھر جب تیروں کی بارش بند ہوئی تو میں ایک بار پھر اپنے آپ کو بندشوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس پر بونوں نے ایک بار پھر مجھ پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ ان کا یہ حملہ پہلے کی نسبت زیادہ سخت تھا۔ اس کے ساتھ ہی کچھ بونوں نے نیزوں سے میرے پہلوؤں پر حملہ کر دیا لیکن خوش قسمتی میں چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا جسے ان کے نیزے چھیدنے میں ناکام رہے۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ چُپ چاپ پڑا رہوں اور رات ہونے تک کوئی حرکت نہ کروں۔
جب ان لوگوں نے دیکھا کہ میں نے اپنی بندشیں توڑنے کی کوشش ترک کر دی ہے اور بے حس و حرکت پڑ گیا ہوں تو انھوں نے تیر اندازی بند کر دی۔ مگر اب ان کے شور وغل میں بہت اضافہ ہو چکا تھا شاید اس جگہ بہت سے بونے اور آن پہنچے تھے۔ پھر میں نے اپنے دائیں کان سے چار گز کے فاصلے پر دستک جیسی آوازیں سنیں جو ایک گھنٹے تک مسلسل سنائی دیتی رہیں۔ میں نے اس طرف اس حد تک جتنا کہ میری رسیا ںاور بندشیں مجھے اجازت دے سکتی تھیں، سر گھما کر دیکھا تو مجھے وہاں زمین سے ڈیڑھ فٹ بلند ایک چبوترہ کھڑا دکھائی دیا جس پر بیک وقت چار آدمی کھڑے ہو سکتے تھے۔ اس چبوترے پر چڑھنے کے لیے تین سیڑھیاں لگی ہوئی تھی۔اس چبوترے پر اس وقت ایک ایسا شخص کھڑا تھا جو اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ میں دوسرے بونوں سے ممتاز دکھائی دیتا تھا۔ اس نے میرے سامنے ایک طویل تقریر کی جس کا ایک لفظ بھی میں نہ سمجھ سکا۔ اس شخص نے اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے تین مرتبہ بلند آواز میں’’ لانگر و دیول سان‘‘کے الفاظ کہے۔ جس پر پچاس کے قریب بونے تیزی سے میرے قریب آئے اور میرے سر کے بائیں طرف بندھی ہوئی رسیاں کاٹ دیں۔ اب میں سر کو پوری طرح دائیں طرف گھما سکتا تھا اور چبوترے پر چڑھے آدمی کو اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھا۔ وہ بونا درمیانی عمر کا دکھائی دیتا تھا۔ اس کا قد اپنے ہمراہ چبوترے پر چڑھے ہوئے آدمیوں سے زیادہ لمبا تھا۔ ان آدمیوں میں سے ایک آدمی شاید اس کا ذاتی خادم تھا۔ اس نے اس کے لبادے کا دامن تھام رکھا تھا۔ باقی دو آدمی اس کے دائیں بائیں محافظوں کی طرح کھڑے تھے۔ وہ لمبا شخص ایک بہترین مقرر تھا۔ اس کی تقریر میں، میں نے اپنے لیے دھمکیاں، وعدے وعید، ہمدردی اور رحم کے جذبات سب محسوس کیے۔ 
میں نے اسے چند لفظوں میں جواب دیا اور اپنے انداز میں انتہائی عاجزی پیدا کرنے کی کوشش کی اور چوں کہ اس وقت مجھے بڑے زور کی بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے اپنی انگلیاں بار بار اپنے منہ کی طرف لے جاتے ہوئے اسے اشاروں کی زبان میں سمجھایا کہ میں سخت بھوکا ہوں اور کچھ کھانا پینا چاہتا ہوں۔ ہورگو (جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں ایک بڑے سردار کو اس لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔) میرے ان اشاروں کو بخوبی سمجھ گیا۔ وہ چبوترے سے نیچے اُتر آیا اور اس نے بونوں کو حکم دیا کہ بہت سی سیڑھیاں میرے پہلوؤں سے لگادی جائیں۔ ان سیڑھیوں کے ذریعہ سے ایک سو کے لگ بھگ بونے میرے جسم پر چڑھ گئے اور چلتے ہوئے میرے منھ کی طرف آگئے۔
بونوں نے بھنے ہوئے گوشت سے بھری ہوئی ٹوکریاں اُٹھا رکھی تھیں جو بادشاہ کے حکم سے وہاں پہنچائی گئی تھیں۔ وہ بھنا ہوا گوشت کئی جانوروں کا تھا۔ اس میں کندھے، ٹانگیں اور رانیں وغیرہ تھیں مگر یہ کسی پرندے کے پروں سے بھی چھوٹی تھیں۔ انھیں بڑی عمدگی سے پکایا گیا تھا۔ میں اُنھیں تین تین کرکے ایک نوالے کی صورت میں کھاتا گیا۔ روٹی کے ٹکڑے بھی میں نے اسی طریقے سے کھائے جو بندوق کی گولیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے سے تھے۔
بونے مجھے بڑی تیزی سے سب چیزیں مہیا کرتے جارہے تھے۔ وہ میری جسامت اور بھوک پر مسلسل حیرت کا اظہار کر رہے تھے ۔ پھر میں نے انھیں اشاروں سے بتایا کہ میں کچھ پینا چاہتا ہوں۔وہ لوگ بہت ذہین تھے۔ انھوں نے میری بھوک سے اندازہ لگا لیا تھا کہ تھوڑی سی مقدار میں کوئی چیز ہرگز میری بھوک یا پیاس نہ مٹا سکے گی۔ انھوں نے اپنا شراب کا بڑا پیپا میری طرف لڑھکایا اور اسے میرے ہاتھ کے قریب لا کر اوپر سے کھول دیا۔ میں نے اُسے ایک ہی گھونٹ میں خالی کردیا اور اُنھیں اشاروں سے اور شراب لانے کو کہا مگر ان کے پاس اب اور کوئی شر اب باقی نہ رہی تھی۔
جب میں کھانے پینے سے فارغ ہو چکا تو وہ خوشی سے چیخنے چلانے لگے اور میرے سینے پر ناچنے کودنے لگے وہ بار بار ’’ہے کی نا ڈیگول‘‘ کے لفظ کی گردان کر رہے تھے۔ پھر اُنھوں نے مجھے اشارے سے کہا کہ میں دونوں خالی پیپے اپنے سینے سے نیچے گرادوں۔ انھوں نے نیچے کھڑے ہوئے لوگوں کو’’ بوراک می والا ‘‘کہہ کر اس جگہ سے دور ہٹ جانے کی ہدایت کی۔ پھر جب انھوں نے دونوں پیپے اتنی بلندی سے نیچے گرتے دیکھے تو وہ ایک بار پھر ’’ہے کی نا ڈیگول‘‘ پکار اُٹھے۔ اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے جسم پر چلتے پھرتے چالیس پچاس بونوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑوں اور اُنھیں زمین پر دے ماروں لیکن میں چوں کہ ان کا اطاعت گزار بن کر رہنے کا وعدہ کر چکا تھا اس لیے میں نے اپنے آپ کو ان بونوں کو نقصان پہنچانے سے باز رکھا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ مجھ سے جس حُسن سلوک سے پیش آئے تھے اور جس طرح انھوں نے میری میزبانی کی تھی اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ میں ان کا احسان مند اور دوست بن کر رہوں۔
باب:3
پھر بادشاہ کی طرف سے ایک بڑا افسر میرے پاس آیا اور میری دائیں ٹانگ پر چلتا ہوا میرے چہرے کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کے درجن بھر ماتحت بھی میرے جسم پر چڑھ آئے۔ اس افسر اعلا نے مجھے اپنے امتیازی نشانات دکھائے اور تقریباً دس منٹ تک میرے سامنے تقریر کرتا رہا۔ اس کے لہجے میں غصے یا خفگی کی بجائے دوستانہ پن اور نرمی تھی۔ وہ بار بار اپنے ہاتھ سے سامنے کی طرف اشارے بھی کر رہا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ دارالحکومت کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اس مقام سے آدھ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ بادشاہ نے مجھے دارالحکومت لے آنے کا حکم دیا تھا۔ میں نے اُسے اشاروں سے کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس پر وہ افسر اعلا اور اس کے ساتھی بڑے خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
پھر جلد ہی میں نے کسی کو تیز آواز میں حکم دیتے سُنا ’’پپلوم سیلان‘‘اس کے ساتھ ہی بہت سے بونے میرے بائیں پہلو سے بندشیں کھولنے میں مصروف ہو گئے۔ اس طرح میں دائیں طرف کروٹ لینے کے قابل ہو گیا پھر اُنھوں نے میرے چہرے اور ہاتھوں پر ایک خوشبودار روغن ملاجس نے تیروں کے چبھنے کی تکلیف کو فوراً رفع کردیا۔ مجھے اب نیند آنے لگی تھی۔ اس لیے میں آہستہ آہستہ گہری نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ میں تقریباً آٹھ گھنٹے تک لگاتار سوتا رہا۔
پھر کسی پہیے دار گاڑی کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک سات فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی ٹرالی نما گاڑی میرے قریب لاکر کھڑی کر دی گئی تھی۔ یہ زمین سے تین انچ بلند تھی اور اس میں بائیس پہیے لگے ہوئے تھے جن پر یہ حرکت کرتی تھی۔ پھر بونوں نے مجھے اس گاڑی میں اُٹھا کر ڈالنے کے لیے اسی کے لگ بھگ ایک فٹ لمبے مضبوط ڈنڈے زمین میں گاڑ دیے۔ ان ڈنڈوں کے سروں پر چرخیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان چرخیوں پر موٹے موٹے رسے چڑھائے گئے تھے۔ ان رسوں کی موٹائی ہمارے ہاں کے عام موٹے دھاگے جتنی تھی۔ ان رسوں کے ایک سرے سے مزدوروں نے میری ٹانگیں، کمر، گردن اور بازو باندھ دیے۔ پھر ایک ہزار کے قریب مضبوط اور طاقت ور بونوں نے مل کر ان رسوں کے دوسرے سروں کو کھینچنا شروع کر دیا۔ اس طرح میرا جسم زمین سے اٹھا کر اس گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ یہ کام تین گھنٹوں میں ہوا۔ اس گاڑی میں بادشاہ کے اصطبل کے ڈیڑھ ہزار تندرست اور قد آور گھوڑے جوتے گئے تھے۔ جو ساڑھے چار انچ تک اونچے قد کے تھے۔ مجھے گاڑی میں ڈالنے کے بعد دارالحکومت کی طرف سفر شروع کر دیا گیا ۔
سفر شروع ہوتے ہی مجھے پھر نیند آگئی اور میں سو گیا، لیکن چار گھنٹے بعد ایک نہایت ہی مضحکہ خیز حادثے نے مجھے نیند سے بیدار کر دیا۔ ہوا یہ کہ گاڑی میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی جسے دور کرنے کے لیے اُسے ایک جگہ کھڑا کردیا گیا تھا۔ چوں کہ ساحل سمندر پر میرے پائے جانے کی خبر اس ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ چکی تھی اس لیے اس جگہ گاڑی کے رُکتے ہی بہت سے بونے مجھے دیکھنے کے لیے گاڑی پر چڑھ آئے۔ ایک بونا میرے جسم پر چلتا ہوا میرے چہرے کے قریب آگیا۔ کسی نے اپنا نیزہ میری ناک کے ایک نتھنے میں دُور تک اندر گھسا دیا جس پر مجھے ناک میں سخت خارش محسوس ہوئی اور مجھے زور دار چھینک آئی اس پروہ بونے خوف زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہم تمام دن مسلسل سفر کرتے رہے۔ رات ہوتے ہی گاڑی کو ایک جگہ روک دیا گیا اور اس کے دونوں طرف پانچ پانچ سو محافظ متعین کر دیے گئے۔ ان محافظوں کے پاس مشعلیں تھیں اور وہ تیر کمان سے بھی مسلح تھے تاکہ اگر میں کوئی غلط حرکت کرنے کی کوشش کروں تو وہ تیراندازی شروع کردیں۔ اگلے دن سورج نکلتے ہی ہم اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور دو پہر ہوتے ہوتے ہم دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے۔ بادشاہ اور اس کے تمام بڑے بڑے افسر مجھے دیکھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ بادشاہ میرے جسم پر چڑھ کر مجھے اچھی طرح سے دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر اس کے افسروں نے اسے اس کی اجازت نہ دی۔ مبادا اُسے کوئی نقصان پہنچ جائے۔
میری گاڑی ایک پرانے سے معبد کے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ معبد ملک بھر میں سب سے بڑی عمارت سمجھا جاتا تھا۔ اس جگہ کچھ عرصہ پہلے ایک بونا قتل ہوگیا تھا۔ جس کے بعد سے اس جگہ کو منحوس سمجھا جانے لگا تھا،وہاں سے تمام آرائشی اشیا اور عبادت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں ہٹالی گئی تھیں۔ اس معبد میں میرے رہنے سہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کا بڑا دروازہ شمال کی سمت کھلتا تھا۔ یہ دروازہ چار فٹ اونچا اور دو فٹ چوڑا تھا۔ میں اس میں سے بآسانی رینگ کر اندر جا سکتا تھا۔ اس دروازے کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں جو زمین سے چند انچ سے زیادہ بلند نہ تھیں۔
معبد کے سامنے سڑک کے دوسرے کنارے پر تقریباً بیس فٹ کی دوری پر ایک پانچ فٹ بلند خوش نما برجی بنی ہوئی تھی۔ بادشاہ اپنے درباریوں اور اہم عہدے داروں کے ساتھ اس برجی میں چڑھ گیا تھا تاکہ وہ اونچائی سے مجھے اچھی طرح سے دیکھ سکے۔ اس جگہ بونے بڑی بھاری تعداد میں مجھے دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ اُن کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ان تماشائیوں کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ یہ بونے بڑی تعداد میں سیڑھیوں کی مدد سے میرے جسم پر چڑھ آئے اور اس پر گھومنے پھرنے لگے، لیکن جلد ہی ان سب کو میرے جسم سے اتار دیا گیا اور میرے قریب آنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔ اس کے بعد میری بندشیں کاٹ دی گئیں۔
آزاد ہوتے ہی میں اُٹھ کر بیٹھ گیا اور گاڑی سے اُتر کر کھڑا ہوگیا۔ بونے مجھے کھڑا ہوتے اور چلتے دیکھ کر مارے حیرت کے چلانے لگے۔ بادشاہ کے لوہاروں نے میرے لیے جو زنجیریں تیار کی تھیں وہ کوئی درجن بھر تھیں اور اس طرح کی تھیں جیسے یورپ میں عورتوں کی گھڑیوں میں لگی ہوتی ہیں۔ انھیں ایک سرے سے میری ایک ٹانگ سے باندھ دیا گیا تھا اور ان کے دوسرے سرے معبد کے اندر بائیں طرف والی کھڑکی کی سلاخوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ان زنجیروں کی لمبائی کوئی دو گز کے قریب تھی۔ اس لیے میں آگے پیچھے نیم دائرے کی صورت میں چل پھر سکتا تھا اور رینگتا ہوا معبد کے دروازے میں سے گزر کر فرش پر پوری لمبائی میں لیٹ بھی سکتا تھا۔
باب:4
جب میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو میں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔ میرے سامنے سارا ملک ایک وسیع و عریض باغ کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ جس میں جگہ جگہ ہرے بھرے کھیت بکھرے پڑے تھے۔ یہ کھیت عموماً چالیس مربع فٹ کے تھے اور پھولوں کی کیاریوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ان کھیتوں کے کنارے جنگلات بھی اُگے ہوئے تھے ۔ان جنگلات میں جو سب سے بلند و بالا درخت تھے وہ تقریباً سات فٹ تک بلند تھے۔ شہر اور قصبات کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویروں کی مانند نظر آتے تھے۔
بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ برجی سے نیچے اتر آیا تھا ۔وہ مجھے قریب سے سے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ اس لیے اپنے درباریوں اور اعلا عہدے داروں کے منع کرنے کے باوجود وہ گھوڑے پر سوار ہو کر میرے پاس آنے لگا۔ اس کا گھوڑا اعلا تربیت یافتہ تھا اور بڑی عمدہ نسل کا تھا، لیکن مجھ پر نظریں پڑتے ہی وہ بُری طرح بدک گیا اور فرط خوف و دہشت سے الف ہو گیا۔ بادشاہ ایک ماہر گھڑ سوار تھا۔ وہ مضبوطی سے اپنی جگہ پر جما بیٹھا رہا، یہاں تک کہ سپاہی دوڑ کر اس کے پاس پہنچے اور انھوں نے گھوڑے کو قابو کرتے ہوئے بحفاظت بادشاہ کو اس پر سے اتار لیا ۔بادشاہ نے میرے قریب آکر میرے چاروں طرف گھوم پھر کر اچھی طرح سے میرا جائزہ لیا۔ پھر اس نے اپنے باورچیوں اور ملازموں کو حکم دیا کہ مجھے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جائیں۔ اس پر انھوں نے کچھ ٹھیلا نما پہیوں والی گاڑیاں میری طرف دھکیلتی شروع کر دیں۔ ان ٹھیلوں کی اپنی پہنچ میں آتے ہی میں نے ہاتھ بڑھا کر اُنھیں اپنی طرف کھینچ لیا۔ بیس ٹھیلے بھنے ہوئے گوشت سے لدے ہوئے تھے اور بیس ٹھیلوں میں پانی کے پیپے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے گوشت کو تین بڑے نوالوں میں ختم کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ہر ٹھیلے پر لدے ہوئے پانی کے دس دس پیپوں کو ایک ایک گھونٹ میں خالی کردیا۔ یہ پیپے مٹی کے بنے ہوئے تھے۔
ملکہ، نوعمر شہزادے، شہزادیاں اور معزز گھرانوں کی بے شمار خواتین کچھ فاصلے پر اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے لیکن بادشاہ کے گھوڑے کے بدک جانے کے حادثے کے بعد وہ کرسیوں سے اُٹھ کر اس کے پاس چلے آئے۔ بادشاہ کا قد لوگوں میں نکلتا ہوا تھا۔ اس کی شخصیت بے حد پُر وقار اور رعب دار تھی۔ وہ ایک خوب صورت چہرے اور زیتونی رنگت والا آدمی تھا۔ اس کی حرکات و سکنات سے شاہانہ رعب و وقار کا اظہار ہوتا تھا۔ اس کی عمر کوئی اٹھائیس برس کے لگ بھگ تھی۔ اسے حکومت کرتے ہوئے سات سال گزر چکے تھے۔ وہ بڑا قابل اور منصف مزاج حکمراں تھا۔ اپنے دشمنوں کے خلاف جنگوں میں وہ ہمیشہ فتح یاب رہا تھا۔
بادشاہ کو اچھی طرح سے دیکھنے کے لیے میں زمین پر پہلو کے بل لیٹ گیا۔ یوں میرا اور اس کا چہرہ آمنے سامنے آگیا۔وہ مجھ سے تین گز کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس کا لباس سادہ تھا اور یورپی اور ایشیائی فیشن کے بین بین تھا۔ اس نے سر پر سونے کا خود پہن رکھا تھا جس میں پرندوں کے پر لگے تھے۔ اُس نے ہاتھ میں ننگی تلوار اٹھا رکھی تھی۔ اس تلوار کی لمبائی تین انچ تھی اور اس کا دستہ اور نیام سونے کے تھے اور ان میں جواہرات جڑے تھے۔ اس کی آواز بلند، صاف اور واضح تھی۔ اس نے اپنی زبان میں کچھ باتیں کیں جنھیں میں نہ سمجھ سکا۔ پھر اُس نے اپنے درباریوں، مشیروں اور علما کو حکم دیا کہ وہ مجھ سے باتیں کریں۔ میں نے ان سے ہر اس زبان میں باتیں کر کے دیکھیں جو میں جانتا تھا۔ انگریزی، فرانسیسی، ڈچ، ہسپانوی، لاطینی اور لینگو افرانکا، لیکن بے سود۔ وہ لوگ ان میں سے کوئی بھی زبان نہ جانتے تھے۔
دو گھنٹے بعد بادشاہ اور اس کے سب درباری وہاں سے چلے گئے اور میں محافظوں کی نگرانی میں وہیں رہ گیا۔ یہ مسلح محافظ وہاں اس لیے متعین کیے گئے تھے کہ میں بادشاہ کی رعایا کے ساتھ کسی قسم کی شرارت نہ کروں اور ان بونوں کو کوئی نقصان نہ پہنچاؤں۔ اس کے ساتھ ہی اُنھیں میری حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جب میں اپنے گھر کے دروازے پر آکر بیٹھ گیا تو کچھ لوگوں نے مجھ پر تیر چلانے شروع کر دیے۔ ایک تیر میری بائیں آنکھ کے قریب آکر لگا۔ اس پر محافظوں کے سالار نے حکم دیا کہ تیر چلانے والے بونوں کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا جائے اور سزا کے لیے میرے حوالے کر دیا جائے۔ چناں چہ چھے بونوں کو پکڑ کر انھیں رسیوں سے باندھ کر میری طرف دھکیل دیا گیا۔
میں نے پانچ آدمیوں کو پکڑ کر اپنی ایک جیب میں ڈال لیا اور چھٹے آدمی کو پکڑتے ہوئے اپنے منھ کی طرف لے گیا اور ایسے ظاہر کیا جیسے میں اس کو زندہ ہی کھا جانے والا ہوں، اس پر وہ آدمی بُری طرح سے چیخنے چلانے لگا۔ محافظ اور ان کا سالار یہ دیکھ کر بے حد پریشان ہوئے۔ پھر جب میں نے اپنی جیب سے چاقو نکالا تو وہ اور بھی گھبرا گئے لیکن میں نے چاتو کھولا اور اس بونے کی تمام رسیاں کاٹ کر اسے بڑے آرام سے زمین پر اُتار دیا۔ وہ آزادی ملتے ہی فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد میں نے باقی پانچ آدمیوں کو بھی اپنی جیب سے باری باری نکالتے ہوئے ان کی رسیاں کاٹ کر زمین پر چھوڑ دیا۔ محافظوں اور دوسرے بونوں نے بڑی حیرت اور مسرت کے ساتھ میری رحم دلی کے اس نظارے کو دیکھا اور میرے بے حد ممنون و مشکور ہوئے۔
رات ہونے پر میں اپنے گھر میں داخل ہو گیا اور زمین پر لیٹ کر سو گیا۔ دس پندرہ دن تک پھر میرا یہی معمول رہا۔ اس عرصے میں بادشاہ نے میرے لیے ایک بستر کی تیاری کا حکم دے دیا۔ چھکڑوں پر بونوں کے تقریباً چھے سو بستر لائے گئے جنھیں لمبائی چوڑائی کے رُخ جوڑ کر میرے لیے ایک پلنگ تیار کیا گیا۔ اس پلنگ کی اونچائی ہموار اور ملائم پتھر کے فرش سے کوئی اتنی زیادہ نہ تھی۔ اس پلنگ کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے لیے چادریں اور کمبل بھی مہیا کیے گئے۔
  میری آمد کی خبر ملک بھر میں پھیلنے کے ساتھ ہی کھیل تماشوں کے شوقین لوگوں کی بھاری تعداد مجھے دیکھنے کے لیے دارالحکومت پر ٹوٹ پڑی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ گاؤں کے گاؤں خالی ہوگئے تھے۔ کھیتی باڑی کا کام رُک گیا تھا۔ تجارت و کاروبار کو نقصان پہنچنے لگا تھا ۔ ان حالات کے پیش نظر بادشاہ نے حکم دیا کہ جو لوگ مجھے دیکھ چکے ہیں ،وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور دوبارہ نہ آئیں اور جو لوگ نئے نئے دارالحکومت پہنچے تھے اور میرا نظارہ کرنا چاہتے تھے وہ مجھے دیکھنے کے لیے شاہی دربار سے باقاعدہ لائسنس حاصل کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لائسنسوں کے اجرا سے حکومت کو بھاری آمدنی ہونے لگی۔
اس دوران بادشاہ اپنے امیروں، وزیروں اور مشیروں کے ساتھ میرے معاملے میں صلاح و مشورے میں مصروف رہا کہ اُنھیں میرے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ بعد میں مجھے میرے ایک دوست بونے نے جو ایک بڑا عہدے دار تھا اور حکومتی رازوں سے آگاہ تھا، بتایا تھا کہ حکومت میرے معاملے میں شدید پریشانی اور الجھن میں مبتلا تھی۔ انھیں ڈر تھا کہ میں کہیں اپنی زنجیریں توڑ کر آزاد نہ ہو جاؤں۔میری خوراک سے بھی وہ بے حد خوف زدہ تھے۔ان کے خیال میں اگر میں زیادہ عرصہ ان کے ملک میں قیام کرتا تو وہاں قحط پیدا ہو جانے کا خطرہ تھا۔ کبھی وہ یہ فیصلہ کرتے تھے کہ انھیں مجھے بھوکوں مار دینا چاہیے۔ کبھی وہ یہ فیصلہ کرتے کہ اُنھیں مجھ پر زہر میں بجھے ہوئے تیروں کا مینھ برساکر فوراً ہی مجھے موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے اس لیے ڈرتے تھے کہ میری لمبی چوڑی لاش کے گلنے سڑنے سے ملک میں طاعون پھیلنے کا خطرہ تھا۔ پھر جب اُنھیں یہ خبر ملی کہ میں نے ان چھے بونوں کے ساتھ کس رحم دلی اور درگزر کا سلوک کیا تھا تو انھوں نے مجھے ہلاک کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ 
بادشاہ نے ایک فرمان جاری کیا جس میں شہر کے آس پاس کے دیہاتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہر صبح چھے بھینس، چالیس بھیڑیں اور دوسری اشیائے خوردنی میرے کھانے کے لیے بھیجا کریں۔ ساتھ ہی خاصی مقدار میں روٹیاں، شرابیں اور دیگر مشروبات بھی دارالحکومت روانہ کیا کریں۔ ان سب کے اخراجات شاہی خزانے سے ادا کیے جائیں گے۔ بادشاہ کی بڑی وسیع جائیدادیں اور املاک تھیں اس لیے وہ اپنے ذاتی اخراجات کے لیے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہ لیتا تھا۔ اس کو صرف خاص خاص مواقع پر ہی اپنی رعایا پر ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ 
ایک اور شاہی فرمان کی رُو سے چھے سو کے قریب بونوں کو میری خدمت پر مامور کیا گیا۔ ان کے لیے بھاری تنخواہیں مقرر ہوئیں اور ان کے لیے میرے گھر کے دروازے کے باہر خیمے لگائے گئے۔یہ بھی حکم دیا گیا کہ تین سو درزی اس ملک کے فیشن کے مطابق میرے لیے لباس تیار کریں۔ بادشاہ کے چھے بڑے بڑے عالم مجھے اس ملک کی زبان سکھانے پر مامور کیے گئے اور آخری حکم یہ تھا کہ بادشاہ کے اصطبلوں کے تمام گھوڑوں کو میرے نظارے کا عادی بنانے کے لیے روزانہ میرے سامنے لایا جائے۔
شاہی احکامات پر فوراً ہی عمل درآمد شروع ہو گیا اور تقریباً تین ہفتوں میں ،میں نے بونوں کی زبان میں خاصی شد بد حاصل کرلی۔ اس عرصے کے دوران بادشاہ اکثر مجھ سے ملنے آتا رہا۔ وہ مجھے سکھانے پڑھانے میں میرے اساتذہ کی مدد کر کے بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ ہم نے آپس میں گفت گو بھی شروع کر دی تھی۔ جو بات میں نے سب سے پہلے اس کی زبان میں اس سے کی، وہ میری اس سے یہ درخواست تھی کہ وہ میری چھٹی ہوئی آزادی مجھے واپس دے دے۔ اس پر اس نے مجھ سے کہا کہ وہ اپنی کونسل سے مشورہ کیے بغیر مجھے آزادانہ طور پر اس ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دینے سے قاصر ہے۔ اس کے لیے پہلے مجھے ’’لو موز پلیسو ڈلسیمر لون ای پوزو ‘‘یعنی کسی قسم کی شرانگیزی نہ کرنے کا وعدہ کرنا پڑے گا۔ اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ اس کے اپنے آدمیوں کو میری تلاشی لینے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ یہ ممکن ہے کہ میرے پاس بعض ایسے ہتھیار موجود ہوں جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،بخوشی اپنی تلاشی دینے کے لیے تیار ہوں۔
باب:5
چناں چہ ایک دن اس کی طرف سے دو افسران میرے گھر پہنچے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ بادشاہ کی طرف سے میری جامہ تلاشی لینا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کو اپنے ہاتھ میں اُٹھایا اور پہلے اُنھیں اپنے کوٹ کی جیبوں میں اور پھر دوسری جیبوں میں ڈالا۔ صرف اپنی چھوٹی جیبیں میں نے رہنے دیں اور ایک خفیہ جیب بھی رہنے دی جس کی میں ہرگز تلاشی نہ دینا چاہتا تھا۔ کیوں کہ اس میں جو چیزیں تھیں وہ سوائے میرے کسی اور کے کام نہ آسکتی تھیں۔ میری ایک چھوٹی جیب میں چاندی کی ایک گھڑی تھی۔ اور دوسری چھوٹی جیب کے ایک پرس میں سونے کے کچھ سکے تھے۔ یہ افسر کاغذ، قلم اور سیاہی وغیرہ اپنے ساتھ لائے تھے اور وہ میری جیبوں میں پائی جانے والی ہر چیز کی تفصیل قلم بند کر رہے تھے۔ جب وہ اپنی تلاشی کا کام مکمل کر چکے تو اُنھوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اُنھیں زمین پر اتار دوں۔ زمین پر اُتر کر انھوں نے اپنے کاغذات بادشاہ کو پیش کر دیے۔ اس تلاشی نامے کا میں نے بعد میں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ رپورٹ کچھ اس طرح تھی :
’’امپریس۔ کوئن بس فلس ٹرن یعنی پہاڑ آدمی کے کوٹ کی دائیں جیب میں بڑی تلاشی کے بعد ہم نے صرف ایک بڑے کھردرے کپڑے کا ٹکڑا پڑا ہوا پایا۔ یہ کپڑا اتنا بڑا ہے کہ اسے شہنشاہ معظم کے دربار کے کمرہ خاص میں اچھی طرح سے بچھایا جاسکتا ہے۔ اس کی بائیں جیب میں ہم نے چاندی کا ایک صندوق سا پڑا دیکھا۔ جو اتنا وزنی ہے کہ ہم اسے ہلا بھی نہ سکے۔ ہم نے پہاڑ آدمی سے اس صندوق کو کھولنے کو کہا۔ اس نے اس صندوق کو کھولا۔ ہم میں سے ایک اس میں داخل ہو گیا اور اندر داخل ہوتے ہی ایک قسم کی مٹی میں گھٹنوں تک دھنس گیا۔ اس مٹی کا کچھ غبار اُڑ کر ہمارے نتھنوں میں داخل ہو گیا جس سے ہمیں لگاتار کئی چھینکیں آئیں۔ اس کی واسکٹ کی دائیں جیب میں ہم نے باریک سی سفید چیزوں کا بڑا سا بنڈل دیکھا جو ایک مضبوط تار کی مدد سے لپیٹا گیا معلوم ہوتا تھا۔ اس بنڈل کا حجم تین آدمیوں جتنا تھا۔ اس پر سیاہ رنگ کے نقوش و نگار بنے ہوئے تھے۔ شاید وہ کسی قسم کی لکھائی تھی۔ واسکٹ کی بائیں جیب میں ایک انجن سا پڑا ہوا تھا جس میں چھے جنگلے لگے ہوئے تھے۔ جنگلوں میں بیس نوک دار ڈنڈے لگے ہوئے تھے۔ شاید یہ چیز پہاڑ آدمی کے لیے بالوں میں کنگھی کرنے کے کام آتی تھی۔ اس درمیانی لباس کی دائیں جیب میں یعنی برجس کی دائیں جیب میں ہم نے لوہے کا ایک کھوکھلا ستون دیکھا۔ جس کی لمبائی ایک آدمی جتنی تھی۔ یہ لکڑی کے ایک مضبوط ٹکڑے کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو اس ستون سے بھی بڑا تھا۔ اس ستون کے ایک پہلو پر لوہے کے عجیب و غریب ٹکڑے جُڑے ہوئے تھے۔ بائیں جیب میں بھی اسی قسم کا ایک انجن پڑا تھا۔ دائیں طرف کی چھوٹی جیب میں سُرخ اور سفید دھات کے بہت سے گول ٹکڑے تھے جو چھوٹے بڑے تھے۔ بائیں جیب میں دو بے ترتیب سی شکلوں کے سیاہ ستون تھے۔ ان میں سے ایک ستون غلاف میں پوشیدہ تھا۔ دوسرے ستون کے اوپر کے سرے پر ایک گول سا سفید لٹو لگا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ایک عجیب سی لوہے کی پلیٹ لگی تھی۔ ہمارے حکم پر پہاڑ آدمی نے یہ دونوں ستون جیب سے نکال کر ہمیں دکھائے اور ان ستونوں کے بارے میں ہمیں بتایا کہ ان میں سے ایک اس کے ملک میں شیو کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور دوسرے سے گوشت کاٹا جاتا تھا۔
دو جیبیں اور تھیں جن میں داخل نہ ہو سکے۔ یہ بھی اس کے درمیانی لباس میں بنی ہوئی تھیں۔ دائیں چھوٹی جیب سے ایک روپہلی زنجیر لٹک رہی تھی۔ اس کے سرے سے ایک عجیب ہی ساخت کا انجن منسلک تھا۔ یہ ایک گلوب سا معلوم ہوتا تھا۔ جو آدھا نقرئی اور آدھا کسی ٹرانسپیرنٹ دھات کا بنا ہوا تھا۔ ہم نے اس پر گولائی میں عجیب سے نقوش بنے ہوئے پائے۔ اس میں سے کسی پن چکی جیسی آواز مسلسل آتی ہوئی سُنائی دے رہی تھی۔ پہاڑ آدمی نے بتایا کہ یہ چیز اس کی گھڑی تھی اور اسے دیکھے بغیر وہ اپنا کوئی کام نہ کر سکتا تھا۔ اپنی بائیں طرف والی چھوٹی جیب سے اس نے ایک جال باہر نکالا جو کسی مچھیرے کے جال جتنا بڑا تھا لیکن یہ کسی پرس کی طرح کھلتا اور بند ہو جاتا تھا۔ اس میں ہم نے بہت سے زرد رنگ کی دھات کے ٹکڑے پڑے ہوئے پائے جو اگر اصلی سونے کے ثابت ہوئے تو بڑی قیمت پائیں گے۔‘‘
اس طرح ہم نے شہنشاہ معظم کے حکم کے مطابق پہاڑ آدمی کی مکمل جامہ تلاشی لی۔ ہم نے اس کی کمر میں بندھی ہوئی کسی نامعلوم جانور کے چمڑے کی بنی ہوئی پیٹی کے بائیں طرف ایک تلوار لٹکتے ہوئے پائی جس کی لمبائی پانچ آدمیوں جتنی تھی اور پیٹی کے دائیں پہلو سے ہم نے ایک تھیلا یا پاؤچ بندھا ہوا پایا، جو دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ اس تھیلے کے ایک حصے میں ہمارے سروں جتنے حجم کی عجیب سی دھات کی بنی ہوئی بے شمار گیندیں تھیں جو بے حد وزنی تھیں اور تھیلے کے دوسرے خانے میں سیاہ غلے کا ایک ڈھیر تھا جس کا کوئی حجم یا وزن نہیں تھا۔
یہ پہاڑ آدمی کی مکمل ترین تلاشی کی تفصیلات ہیں۔ ہم یہاں اس امر کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ پہاڑ آدمی ہم سے بڑی شائستگی اور شرافت سے پیش آیا۔ اس نے ہم سے پورا پورا تعاون کیا اور ہماری بڑی عزت و تکریم کی ۔‘‘
اس دستاویز پر شہنشاہ معظم کی حکومت کے 89 ویں چاند کے چوتھے دن دستخط کیے گئے اور مہر لگائی گئی۔
’’کلیف وان فری لاک، مارسی فری لاک ‘‘
جب یہ تلاشی نامہ بادشاہ کو پڑھ کر سنایا گیا تو اُس نے مجھے ہدایت کی کہ میں اپنی جیبوں سے ساری چیزیں نکال کر اس کے سامنے پیش کردوں۔ میں نے سے پہلے اپنی تلوار نیام سے باہر نکالی۔ جو سمندر کے پانی میں بھیگتے رہنے کی وجہ سے بڑی حد تک زنگ آلود ہو چکی تھی لیکن پھر بھی خوب چمک دمک رہی تھی۔ جوں ہی میں نے اُسے بلند کیا۔ تمام سپاہیوں کی جانب سے خوف و حیرت کی ملی جلی چیخیں بلند ہوئیں ۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اور تلوار کی چمک نے اُن کی آنکھیں چندھیا دی تھیں لیکن بادشاہ جو بہت بہادر اور نڈر شخص تھا۔ اتنا حیران اور خوف زدہ نہ ہوا۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ میں تلوار نیام میں ڈال لوں اور آہستگی سے زمین پر رکھ دوں۔ اس کے بعد اُس نے مجھے لوہے کے کھوکھلے ستون جیب سے نکالنے کا حکم دیا۔ اس کی مراد میرے پستولوں سے تھی۔ میں نے اُنھیں جیب سے نکالا اور اس کے پوچھنے پر اُسے ان کے استعمال کا طریقہ بتایا۔ پھر میں نے اس کی خواہش پر پاؤچ سے پاؤڈر نکال کر ایک پستول میں بھرا۔اس کے بعد میں نے بادشاہ کو پھر سپاہیوں کو ہدایت کی کہ جو کچھ ہو وہ اس سے گھبرائیں نہیں۔ اس کے بعد میں نے پستول اونچا کر کے اس کا رُخ آسمان کی طرف کیا اور اسے چلا دیا۔ پستول چلنے کی آواز نے بونوں کو ایسا حیران اور خوف زدہ کیا کہ وہ سب مردوں کی طرح زمین پر گر گئے۔ بادشاہ اگرچہ زمین پر نہ گرا تھا لیکن وہ کافی دیر تک اپنی حالت کو سنبھالنے میں کام یاب نہ ہو سکا۔ میں نے دونوں پستول زمین پر رکھ دیے اور پاؤڈر کا پاؤچ اور پستولوں کی گولیاں بھی نکال کر زمین پر رکھ دیں اور بادشاہ سے کہا کہ ان چیزوں کو آگ سے دُور رکھا جائے ورنہ یہ ایک دھماکے کے ساتھ جل اُٹھیں گی اور اس کا دارالحکومت تباہ ہو جائے گا۔ پھر میں نے اپنی گھڑی بھی نکال کر زمین پر رکھ دی۔ بادشاہ نے اُسے بڑی دل چسپی کے ساتھ دیکھا۔ وہ منٹ کی سوئی کی حرکت اور گھڑی کے چلنے کی مسلسل ٹک ٹک کو سُن کر بے حد حیرت زدہ ہوا اور اپنے عالموں اور سائنس دانوں سے دیر تک اس کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اپنے چاندی اور تانبے کے سکے ان کے حوالے کیے اور اپنا پرس بھی ان کے حوالے کر دیا۔ جس میں سونے کے دس بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے سکے تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنی کنگھی، ریزر، چاندنی کی ناس کی ڈبیا، رومال اور جرنل تک اُن کے حوالے کر دیے۔ میری تلوار، پستول، پاؤچ اور گھڑی چھکڑوں پر لاد کر بادشاہ کے گوداموں میں پہنچا دیے گئے، لیکن باقی چیزیں میرے حوالے کردی گئیں۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ میری ایک خفیہ جیب تھی۔ جو ان بونوں کی تلاشی سے محفوظ رہ گئی تھی۔ اس جیب میں میری عینک رکھی تھی۔ اپنی نظر کی کم زوری کے سبب مجھے اکثر عینک کے استعمال کی ضرورت پڑتی تھی۔ اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جو بادشاہ کے کسی کام کی نہیں تھیں۔ میں اُنھیں اس کے سامنے لانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے باہر نکالا تو یہ چیزیں یا تو خراب ہو جائیں گی، یا گم ہو جائیں گی۔
باب:6
میرے حُسنِ سلوک، نرم دلی اور شرافت نے بادشاہ اور اس کے درباریوں، فوج اور عوام کو اس حد تک متاثر کیا تھا کہ میں نے اپنی رہائی کی امیدیں باندھنی شروع کر دیں۔ میں نے ہر ممکنہ طریقے سے ان لوگوں کو اپنی رہائی کے حق میں ہموار کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اب لوگوں کو میرے قریب آتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ بڑی بے خوفی کے ساتھ میرے پاس چلے آتے تھے۔ میں بعض اوقات زمین پر دراز ہو جاتا تھا تو بونے میرے جسم پر چڑھ کر ناچنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کے بچے اکثر میرے پاس آکر میرے سرکے بالوں میں آنکھ مچولی کھیلا کرتے تھے۔ میں اب بڑی حد تک ان کی زبان سمجھنے اور بولنے لگا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے مجھے اپنے ملک کے رنگا رنگ تماشے دکھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بونے طرح طرح کے کھیل تماشوں اور کرتبوں کے بڑے شوقین تھے۔ مجھے پہلے رسی پر ناچنے والوں کے ماہرانہ کرتب دکھائے گئے۔ یہ رسی ایک باریک سے سفید دھاگے جیسی تھی۔ جس کی لمبائی کوئی دو فٹ کے قریب ہوگی اور زمین سے اس کی بلندی تقریباً گیارہ انچ کے قریب تھی۔
اس رسی پر کرتب دکھانے والے وہ لوگ تھے جو بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر فائز تھے اور بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ انھیں نوجوانی ہی سے مختلف قسم کے کرتبوں اور کھیل تماشوں کا ماہر بنانے کا کام شروع کر دیا جاتا۔ بڑے عہدے حاصل کرنے کے لیے امیر، غریب، تعلیم یافتہ، ان پڑھ ہر قسم کے لوگ مختلف کرتبوں اور کھیل تماشوں میں مہارت حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ جب کبھی کوئی اہم عہدے دار ملازمت سے سبکدوش ہو جاتا تو اس کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے کرتب بازی اور کھیل تماشوں کے ماہر پانچ چھے آدمی بادشاہ کی خدمت میں درخواست گزار تے تھے کہ شہنشاہ معظم اپنے دربار کے ساتھ ان کے کرتبوں اور رسی پر اچھل کود کے تماشوں سے لطف اندوز ہوں۔ چناں چہ بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ کھلے میدان میں آکر ان کے کرتب اور کھیل تماشے ملاحظہ کرتا تھا۔ اور جو کرتب بغیر نیچے گرے رسی پر سب سے بلند چھلانگ لگا کر دکھاتا خالی عہدے کے لیے چن لیا جاتا تھا۔ بادشاہ اکثر اپنے وزرائے اعلا کو بھی ایسے کرتبوں میں اپنی ہوشیاری اور مہارت کا مظاہرہ دکھانے کا حکم دیتا تھا۔ اور تسلی کرتا تھا کہ وہ واقعی ابھی تک اپنے عہدوں کے اہل ہیں یا نہیں۔ خزانچی فلم ناپ دوسروں کے مقابلے میں رسی پر ایک انچ زیادہ اونچی چھلانگ لگاتا تھا۔ میرا دوست ریلڈرسل جو محکم داخلہ کا چیف سیکرٹری تھا، خزانچی کے بعد دوسرے نمبر کا کرتب باز تھا۔ اس کے بعد دوسرے عہدے داروں کا نمبر آتا تھا۔
ایسے کھیل تماشوں کے دوران اکثر مہلک قسم کے حادثات بھی پیش آجایا کرتے تھے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے کئی آدمیوں کو رسی سے گر کر ہاتھ پیر تڑواتے دیکھا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ میری آمد سے دو تین سال قبل خزانچی فلم ناپ ایک مرتبہ اسی طرح رسی پر اپنے فن کامظاہرہ کرتے ہوئے نیچے گر پڑا تھا۔ اگر نیچے گدا نہ ہوتا تو وہ زمین پر گر کر ضرور اپنی گردن تڑوا لیتا۔ وہ گدا اتفاقاً وہاں پڑا تھا۔ ورنہ بالعموم رسی کے نیچے زمین پر کچھ بھی نہیں بچھایا جاتا تھا۔
رسی پر کرتب بازی کے علاوہ ایک تماشا اور بھی تھا جسے صرف بادشاہ ملکہ اور وزیر اعظم اول کے سامنے ہی دکھایا جاتا تھا اور یہ تماشا خاص مواقع پر ہی دکھایا جاتا تھا۔ بادشاہ ایک میز پر چھے انچ لمبے بہترین ریشمی فیتے رکھ دیتا تھا۔ یہ فیتے نیلے، سُرخ اور سبز رنگ کے ہوتے تھے۔ یہ اُن لوگوں کو بادشاہ کی جانب سے اظہار خوش نودی کے لیے دیے جاتے تھے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتے تھے۔ یہ رسم بادشاہ کے بڑے دربار میں انجام پاتی تھی جہاں امیدواروں کو ایک مختلف قسم کے کرتب میں اپنی مہارت دکھانی ہوتی تھی۔ بادشاہ اپنے ہاتھ میں ایک لمبی سی چھڑی سامنے کی طرف سیدھی تان کر کھڑا ہو جاتا تھا۔امیدوار کبھی اس چھڑی کے اوپر سے کودتے تھے اور کبھی اس کے نیچے سے گزرتے تھے۔ اس چھڑی کی حرکت کے ساتھ ساتھ ان کے کرتبوں کے انداز بھی بدلتے جاتے تھے۔ بعض اوقات ایک چھڑی بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور ایک اُس کے وزیر اعظم کے ہاتھ میں، جو شخص انتہائی ماہرانہ طریقے سے ان چھڑیوں پر سے کودتا تھا اور ان کے نیچے سے رینگتا اور گھسٹتا تھا۔ وہ پہلے نمبر پر آتا تھا۔ بادشاہ اس کو نیلے رنگ کا ریشمی فیتہ انعام میں دیتا تھا۔ دوسرے نمبر پر آنے والے کرتب باز کو سُرخ اور تیسرے نمبر پر آنے والے کرتب باز کو سبز رنگ کے ریشمی فیتے انعام میں دیے جاتے تھے۔ انعام یافتگان ان فیتوں کو اپنی پیٹیوں کے درمیانی حصے میں لپیٹ لیتے تھے۔ میں نے بادشاہ کے دربار کے ایسے بہت سے بونوں کو دیکھا تھا جنھوں نے مختلف قسم کے فیتے اپنی پیٹیوں میں لپیٹ رکھے تھے۔
فوج اور شاہی اصطبل کے گھوڑوں کو روزانہ میرے سامنے لایا جاتا تھا۔ اب وہ مجھ سے ڈرتے یا بدکتے نہیں تھے بلکہ بلا خوف و خطر میرے قریب چلے آتے تھے۔ گھڑ سوار اکثر میرے پھیلے ہوئے ہاتھ پر سے چھلانگ لگایا کرتے تھے۔ کچھ گھڑ سوار میرے بوٹوں کو بھی پھلانگ جاتے تھے۔ یہ چھلانگ بلا شبہ حیرت انگیز ہوتی۔ 
یہ میری آزادی سے دو تین دن پہلے کی بات ہے، کچھ لوگوں نے آکر بادشاہ کو اطلاع دی کہ اس جگہ پر جہاں مجھے پایا گیا تھا، ایک عجیب سی سیاہ رنگ کی چیز زمین پر پڑی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کے کنارے گول تھے اور بے حد چوڑے چوڑے تھے۔ درمیان سے یہ چیز ایک آدمی کے پورے قد جتنی بلند تھی۔ یہ کوئی زندہ مخلوق نہ تھی بلکہ زمین پر بے حس و حرکت پڑی تھی۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھتے ہوئے اس کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ اور انھوں نے اس چیز کی چوٹی بالکل ہموار پائی تھی۔ یہ چیز اندر سے کھوکھلی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پہاڑ آدمی کی ہی ملکیت ہو سکتی تھی۔ میں فوراً ہی سمجھ گیا کہ وہ چیز کیا ہو سکتی ہے۔ وہ میرا ہیٹ تھا جو فیتہ ٹوٹنے کے سبب وہاں گر گیا تھا۔ میں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اُسے جلد از جلد مجھ تک پہنچانے کے احکامات دے دے۔ اگلے دن چند گاڑی بان میرا ہیٹ لیے ہوئے دارالحکومت آن پہنچے۔ وہ کچھ اچھی حالت میں نہیں تھا۔ انھوں نے اس کے چھجے میں دو سوراخ کر دیے تھے۔ اور ان سے دو ہک باندھ دیئے تھے۔ یہ ہک ایک لمبی سی رسی کی مدد سے گاڑی سے باندھے گئے تھے۔ یوں میرا ہیٹ آدھ میل تک زمین پر گھسٹتا ہوا دارالحکومت پہنچا تھا۔ اس ملک کی زمین بے حد نرم اور ہموار تھی۔ اس لیے ہیٹ کو زیادہ نقصان نہ پہنچا تھا۔ 
میں اپنی آزادی کے سلسلے میں بادشاہ کی خدمت میں کئی درخواستیں بھیج چکا تھا۔ بالآخر اس نے پہلے اپنی کابینہ میں پھر کونسل میں یہ معاملہ پیش کیا۔ سوائے اسکائرش با لگولم کے کسی نے بھی میری رہائی کی مخالفت نہ کی۔ یہ شخص گالیٹ یعنی امیر البحر تھا اور میرا شدید دشمن تھا۔ یہ شخص بڑا لائق اور ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد کینہ پرور اور حاسد تھا۔ کونسل کے اراکین نے اسے میری آزادی کے حق میں ہموار کر لیا اور اسے وہ شرائط نامہ تحریر کرنے میں اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کی رُو سے مجھے آزادی عطا کی جانی تھی۔ یہ شرائط نامہ اسکائرش با لگولم خود لے کر میرے پاس آیا۔ اس وقت اس کے ہمراہ اس کے دو ماتحت افسران بھی تھے۔ شرائط نامہ پڑھ کر سنائے جانے کے بعد اُس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس میں درج تمام شرائط کو پورا کرنے کا حلف اُٹھاؤں۔ اس سلسلے میں مجھے ان کے ملک کے رسم و رواج کے مطابق اپنا دایاں پاؤں اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑنا تھا اور پھر دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی اپنے سر پر رکھنی تھی اور اپنے انگوٹھے سے دائیں کان کی لوکو چھونا تھا۔اس شرائط نامے کی تفصیلات مندرجہ ذیل تھیں۔ 
’’ گول باسٹو مومارن ایولیم گرڈیلوشی فن ملی امی گوئی، عظیم و با جبروت پر شکوہ شہنشاہ للی پٹ جس کی سلطنت پانچ ہزار بلسٹرگ (تقریباً بارہ انگریزی مربع میل) تک پھیلی ہوئی ہے۔ اور گلوب کے بڑے حصے پر محیط ہے۔ جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ جو تمام انسانوں میں دراز قد ہے۔ جس کے پاؤں پاتال سے لگتے ہیں۔ جس کا سر سورج سے ٹکراتا ہے۔ جس کے سر کی ایک جنبش سے زمین کے تمام حکمراں کانپنے لگتے ہیں جو موسم بہار کی طرح شگفتہ مزاج ہے۔ موسم گرما کی طرح مہربان ہے۔ جو موسم خزاں کی مانند سخی اور دریا دل ہے۔ جو موسم سرما کی مانند جابر اور قاہر ہے، کی طرف سے کوہ قامت آدمی کوجو کچھ عرصہ ہوا ہمارے ملک میں وارد ہوا ہے، مندرجہ ذیل شرائط پر زنجیروں سے رہائی دلائی جاتی ہے۔ اور ملک میں گھومنے پھرنے کی آزادی عطا کی جاتی ہے۔
  (۱) پہاڑ جیسا آدمی ہماری اجازت کے بغیر ہمارے ملک سے رخصت نہ ہوگا۔ ہمارے ملک سے رخصت ہونے کے لیے اسے ایسا لائسنس حاصل کرنا ہوگا جس پر ہماری بڑی مہر لگی ہوئی ہوگی۔
(۲) ہمارے خاص اجازت نامے کے بغیر وہ ہمارے شہر میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔ اس کے داخلے سے پیشتر تمام شہریوں کو وارننگ دے دی جایا کرے گی کہ وہ کم از کم دو گھنٹے تک اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
(۳) پہاڑ جیسا آدمی صرف ہماری بڑی سڑکوں پر ہی چلا پھرا کرے گا۔ وہ کھیتوں یا چراگاہوں میں ہرگز نہ چلے پھرے گا۔ نہ لیٹے گا۔
(۴) سڑکوں پر چلتے پھرتے وہ اس کا خاص خیال رکھے گا کہ کہیں اس کا پاؤں کسی انسان، جانور، گاڑیوں یا ٹھیلوں پر نہ آجائے۔ وہ ہمارے لوگوں کو ان کی اجازت کے بغیر ہرگز اپنے ہاتھ میں نہ اُٹھائے گا۔
(۵) اگر شہنشاہ معظم کو فوری طور پر کوئی پیغام کہیں پہنچانا ہو تو کوہ قامت آدمی قاصد اور اس کے گھوڑے کو اپنی جیب میں رکھ کر مقررہ مقام پر پہنچا دیا کرے گا۔ اور شہنشاہ معظم کے پاس واپس بھی پہنچا دیا کرے گا۔
(۶) وہ ہمارے دشمنوں یعنی جزائر بلیفو سکو والوں کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دے گا اور ان کا بحری بیڑہ تباہ کرنے میں ہماری مدد کرے گا جو آج کل ہم پر حملہ کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
(۷) کوہ قامت آدمی اپنے فرصت کے اوقات میں ہمارے کاریگروں اور معماروں کی بھاری پتھر اُٹھانے اور بھاری لکڑیاں توڑنے میں مدد کیا کرے گا۔
(۸) کوہ قامت آدمی دو چاندوں کے وقت شہنشاہ معظم کی سلطنت کے تمام ساحلوں کا دورہ کرے گا اور وہ اپنے حساب اور شمار کے مطابق للی پٹ کا کل رقبہ اور محل وقوع بتائے گا۔
(۹) کوہ قامت آدمی کو روزانہ ایک ہزار سات سو اٹھائیس بونوں کی خوراک کے برابر کھانا دیا جائے گا اور اسے شہنشاہ معظم کی خدمت میں باریابی کی کھلی اجازت ہوگی۔
یہ شرائط نامہ ہمارے محل واقع بلسفا بورک میں ہماری حکومت کے 91 ویں چاندکے بارہویں دن لکھا گیا ۔‘‘
میں نے ان شرائط کی پابندی کا حلف اُٹھایا اور ان پر بڑی مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا۔ حالاں کہ بعض شرائط مجھے پسند نہ آئی تھیں اور یہ ظاہر تھا کہ امیر البحر اسکائرش با لگولم کی کینہ پروری تھی۔ اب میری زنجیریں اتار دی گئیں۔ اس موقع پر بادشاہ بذات خود موجود تھا۔ میں نے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر جُھک کر اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے یقین دلایا کہ اُسے مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہ ہو گی۔ وہ مجھے اپنی ہر خدمت کے لیے آمادہ اور تیار پائے گا۔
مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ آخر ان بونوں نے میرے لیے مناسب وموزوں مقدار میں خوراک کا تعین کیوں کر کر لیا تھا کہ میرے لیے ایک ہزار سات سو اٹھائیس بونوں کی خوراک کے برابر خوراک کافی تھی۔ کچھ عرصے بعد میں نے اپنے ایک دوست بونے سے اس بارے میں دریافت کیا تو اُس نے مجھے بتایا کہ شہنشاہ معظم کے ریاضی دانوں نے ایک مربع دائرے کی مدد سے میرے جسم کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی کی پیمائش کی تھی اور اس سے اندازہ لگایا تھا کہ اُن کے کل ایک ہزار سات سو اٹھائیس جسم ملا کر میرا جسم بنتا تھا۔ اس لیے میرے لیے اتنے ہی بونوں کی خوراک کافی ہو سکتی تھی۔ اس مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو سکتا تھا کہ وہ بونے کتنے ذہین تھے اور معاشی طور پر کتنے ترقی یافتہ تھے۔
باب:7
زنجیروں سے رہائی پانے اور آزادی حاصل کرنے کے بعد میں نے جو پہلی درخواست بادشاہ کے حضور پیش کی وہ یہ تھی کہ مجھے للی پٹ کے دارالحکومت ملڈنڈو کی سیر کے لیے لائسنس عطا کیا جائے۔ بادشاہ نے بہ خوشی یہ لائسنس مجھے عطا کر دیا۔ پھر شاہی اعلان کے ذریعہ سے لوگوں کو شہر میں میری آمد سے مطلع کردیا گیا۔ شہر کے گرد جو فصیل نما دیوار بنی ہوئی تھی۔ وہ ڈھائی فٹ بلند تھی اور گیارہ انچ چوڑی تھی۔ اتنی چوڑائی پر کئی گھوڑوں والی گاڑیاں بہ آسانی دوڑ سکتی تھیں۔اس فصیل پر دس دس فٹ کے فاصلے پر مضبوط مینار تعمیر کیے گئے تھے۔ میں شان دار پھاٹک کے اوپر سے ہوتا ہوا بڑی آہستگی اور احتیاط سے شہر میں اُتر گیا۔اُس وقت میں نے صرف واسکٹ پہن رکھی تھی۔ کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ میرے کوٹ کے نچلے حصے سے کہیں بونوں کے مکانات کی چھتوں اور برجیوں کو نقصان نہ پہنچ جائے۔
میں بڑی احتیاط سے کھلی جگہوں پر قدم رکھتے ہوئے چلتا رہا۔ ہر چند کہ بادشاہ نے بڑی سختی سے لوگوں کو اپنے گھروں میں بند رہنے کا حکم دیا تھا۔ مکانات کی چھتیں اور کھڑکیاں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔اپنے مختلف سفروں کے دوران مجھے کہیں بھی اتنی زیادہ آبادی دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ شہر مربع شکل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ہر فصیل کے ساتھ ساتھ اس کی لمبائی پانچ پانچ سو فٹ تک چلی گئی تھی۔ دو بڑی سڑکیں جو شہر کے بیچ میں سے گزرتی تھیں، اسے چار حصوں میں تقسیم کرتی تھیں یہ سڑکیں پانچ پانچ فٹ چوڑی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی سڑکیں اور گلیاں بارہ سے اٹھارہ انچ تک چوڑی تھیں۔ شہر کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ مکانات تین سے لے کر پانچ منزلہ تک تھے اور دکانوں اور منڈیوں میں خوب مال بھرا ہوا تھا۔
بادشاہ کا محل شہر کے وسط میں واقع تھا۔ جہاں دو بڑی سڑکیں ملتی تھیں۔اس کے گرد دو فٹ بلند چار دیواری تھی۔ شاہی محل عام آبادی سے بیس فٹ کی دوری پر واقع تھا۔ مجھے بادشاہ نے اجازت دے دی تھی کہ میں محل کی چار دیواری میں داخل ہو کر اس کے محل کو بھی اچھی طرح سے دیکھ لوں۔ میں جب محل کی فصیل کو عبور کرکے اندر داخل ہوا تو میں نے فصیل اور عمارت کے درمیان اتنا فاصلہ پایا کہ میں بہ آسانی گھوم پھر کر محل کو چاروں طرف سے دیکھ سکتا تھا۔ باہر کا شاہی دربار چالیس مربع فٹ تھا۔ اس کے ساتھ ہی دو دوسرے شاہی دیوان بھی تھے۔ اندر چل کر رہائشی کمرے تھے۔ جب کہ دروازے صرف اٹھارہ انچ بلند تھے اور سات انچ چوڑے تھے ۔اور بیرونی دیوان کی عمارات پانچ پانچ فٹ بلند تھیں۔ میں اُنہیں نقصان پہنچائے بغیر اُن کے اوپر سے نہ گزر سکتا تھا۔ ہر چند کہ وہ دیواریں چار انچ موٹی اور سخت پتھروں کی بنی ہوئی تھیں۔ بادشاہ کی خواہش تھی کہ میں اس کے محل میں جھانک کر اس کی شان و شوکت کا نظارہ کروں۔ چناں چہ میں نے کچھ بڑے درخت کاٹ کر ان کی لکڑی سے دو اسٹول بنائے اور شاہی دیوان کی طرف پہنچ کر ایک اسٹول زمین پر رکھ کر اس پر کھڑا ہو گیا اور دوسرا اسٹول دوسرے ہاتھ میں اُٹھا لیا اور اسے چھت کے اوپر سے گزارتے ہوئے پہلے اور دوسرے شاہی دیوان کے درمیان زمین پر احتیاط سے رکھ دیا۔ یہ جگہ کوئی آٹھ فٹ چوڑی تھی۔پھر میں دوسرے اسٹول پر چڑھ گیا اور پہلے اسٹول کو اُٹھا لیا۔ اسی طرح اسٹولوں کو مختلف جگہوں پر رکھتے اور اُن پر چڑھتے ہوئے میں محل کی اندرونی عمارت میں داخل ہو گیا۔ جہاں ایک کشادہ سی جگہ پر پہلو کے بل لیٹ کر میں نے اپنا چہرہ درمیانی منزل کی کھلی ہوئی کھڑکیوں کی طرف موڑ دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ کمرے بے حد شان دار طریقے سے آراستہ پیراستہ تھے۔ ان کمروں میں، میں نے ملکہ کو اور چھوٹے چھوٹے شہزادوں کو دیکھا۔ ملکہ نے جب مجھے دیکھا تو وہ پر وقار طریقے سے مسکرائی اور میری خیریت پوچھی۔ 
میں نے للی پٹ کی پوری تاریخ کا مطالعہ کیا تھا کہ یہ ملک کب وجود میں آیا تھا۔ اس پر کون کون سے بادشاہ حکمراں رہے، کتنی جنگیں لڑی گئیں۔ میں نے اُن کی سیاسیات، قوانین، علوم و فنون اور مذاہب، حیوانات، نباتات، رسم و رواج کا بھی مکمل مطالعہ کیا۔ مگر ان سب کا ذکر میں یہاں ضروری نہیں سمجھتا۔ مجھے صرف ان ہی واقعات سے مطلب ہے جو وہاں رہتے ہوئے میرے ساتھ پیش آئے۔
اپنی آزادی حاصل کرنے کے دس پندرہ دن بعد ایک صبح محکمہ داخلہ کا چیف سیکرٹری ریلڈ رسل اپنے ایک ملازم کے ساتھ مجھے ملنے آیا۔ اُس نے اپنے ملازم کو حکم دیا کہ وہ گھوڑا گاڑی کے ساتھ میری رہائش گاہ سے کچھ دُور ٹھیر کر اس کا انتظار کرے، پھر اُس نے مجھ سے کہا کہ وہ اس وقت بعض نہایت ضروری باتیں کرنے کے لیے میرے پاس آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں زمین پر لیٹ جاتا ہوں وہ میرے کان کے قریب کھڑے ہو کر اپنی باتیں سنا دے۔ لیکن اُس نے کہا کہ میں اُسے ہاتھ میں اُٹھالوں اور اس طرح اس کی باتیںسنوں۔
اُس نے اپنی باتوں کا آغاز میری زنجیروں سے رہائی اور شہر میں گھومنے پھرنے کی آزادی سے کیا۔ اس نے کہا کہ اہل دربار اپنی بعض اغراض اور ملکی مفادات کے پیش نظر مجھے جلد آزادی عطا کر دینے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ اُس نے کہا کہ دوسرے ممالک کی طرح للی پٹ کو بھی دو قسم کے مسئلوں کا سامنا تھا۔ ایک اندرون ملک بے اطمینانی اور دوسرے بیرونی حملوں کا خوف۔ جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق تھا۔ ستر چاند قبل اس ملک میں دو مخالف سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ جو ٹرامک سان اور سلامک سان کہلاتی تھیں۔ ایک پارٹی کی نشانی یہ تھی کہ اس کے حامی اونچی ایڑی کے جوتے استعمال کرتے تھے۔ اور دوسری پارٹی والے نیچی ایڑی کے جوتے پہنتے تھے۔ اونچی ایڑی والے پرانے ملکی آئین کے بے حد وفادار تھے۔ اور یہ بات سب تسلیم کرتے تھے، لیکن بادشاہ ان کے بجائے کار بارِ حکومت چلانے کے لیے نیچی ایڑی والوں کو ترجیح دیتا تھا۔ اس نے ان لوگوں کو بڑے بڑے اہم عہدوں پر مقرر کر رکھا تھا۔ میں نے شاید اس پر غور نہ کیا ہو گا کہ بادشاہ کے دونوں جوتوں کی ایڑیاں برابر نہیں تھیں۔ بلکہ ایک ایڑی اونچی تھی اور دوسری ایک ڈرر کے فرق سے نیچی تھی۔( ڈررایک انچ کا چودھواں حصہ ہوتا ہے)
ان دونوں مخالف پارٹیوں ٹرامک سان اور سلامک سان میں اتنی شدید دشمنی چلی آرہی تھی کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے، باتیں کرنے، اُٹھنے بیٹھنے کے بھی روادار نہ تھے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ٹرامک سان یا اونچی ایڑی والے لوگوں کی تعداد سلامک سان یعنی نیچی ایڑی والے لوگوں سے زیادہ تھی، لیکن اقتدار چھوٹی ایڑی والے لوگوں کے ہاتھوں میں تھا اور ان لوگوں کو ولی عہد کی جانب سے ہردم فکر لگی رہتی تھی، جو اونچی ایڑی والوں کا طرف دار تھا۔ اس کی ایک ایڑی بہت اونچی اور ایک بہت پہنچی تھی۔ جس سے اس کی چال میں لنگڑا ہٹ واضح طور پر دکھائی دیتی تھی۔
اندرون ملک اس سیاسی بے اطمینانی کی فضا کو مزید خراب کرنے کا ایک اور سبب جزائر بلیفو سکو کی جانب سے حملے کا خطرہ بھی تھا۔ بلیفو سکو دُنیا کا دوسرا بہت بڑا ملک سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ اتنا ہی طاقت ور تھا جتنا کہ للی پٹ۔ اُنھوں نے میری زبانی سُنا تھا کہ دنیا میں بہت سے ایسے ملک واقع ہیں جن کے باشندے مجھ جیسے لوگ ہیں مگر بونے عالم ان کے بارے میں شدید الجھن میں مبتلا تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید میں چاند سے ان کے جزیرے میں گرا تھا یا پھر کسی ستارے سے نیچے گرا تھا۔ ان کی چھے ہزار چاندوں کی تاریخ انھیں کسی بھی ایسے خطے کے بارے میں کچھ نہ بتاتی تھی جہاں مجھ جیسے انسان بستے ہوں۔ اُن کی تاریخ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کی حیثیت سے صرف للی پٹ اور بلیفوسکو ہی کا تذکرہ تھا۔ یہ دونوں ملک چھتیس چاندوں سے مسلسل خوں ریز جنگیں لڑتے چلے آرہے تھے۔ ان خوں ریز جنگوں کے سلسلے کا آغاز ایک معمولی سے واقعے سے ہوا تھا۔ عرصہ دراز سے للی پٹ میں یہ رواج چلا آرہا تھا کہ انڈوں کو کھاتے وقت اُنھیں بڑے حصے کی طرف سے توڑا جاتا تھا، لیکن موجودہ شہنشاہ کے دادا نے اپنے بچپن میں انڈے کو بڑے حصے کی طرف سے توڑتے وقت اپنی ایک انگلی زخمی کرلی۔ اس پر اس کے باپ شہنشاہ للی پٹ نے اپنی رعایا کو شاہی فرمان کے ذریعہ سے ہدایت کی کہ آئندہ انڈے چھوٹے سرے کی طرف سے توڑ کر کھائے جائیں۔ اس نئے قانون کے نفاذ نے لوگوں میں شدید غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی۔ وہ اپنے قدیم رواج کو ترک کرنے پر تیار نہ تھے۔ اس نئے قانون کے خلاف چھے بڑی بغاوتیں ہوئیں جن کے نتیجے میں ایک بادشاہ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور ایک بادشاہ کو تخت و تاج سے دست بردار ہونا پڑا۔ بلیفو سکو کے بادشاہ للی پٹ میں بغاوتوں کی آگ کو مسلسل بھڑکاتے رہے اور باغیوں کی پشت پناہی کرتے رہے۔ للی پٹ سے بے شمار لوگ ہجرت کر کے بلیفو سکو جاکر آباد ہو گئے۔ ان بغاوتوں میں چھے ہزار آدمی مارے گئے تھے۔ یہ لوگ مرتے دم تک انڈے کو چھوٹے سرے سے توڑنے پر تیار نہ ہوئے تھے۔ اس سنگین مسئلے پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ اب انڈوں کو بڑے سرے سے توڑنے والوں کی کتابیں ممنوع قرار دے دی گئی تھیں اور ان پر اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بھی بند کر دیے گئے تھے۔ 
بغاوتوں کے دوران بلیفوسکو کے بادشاہ اپنے سفیروں کے ذریعہ سے للی پٹ والوں کو مذہبی معاملات میں دخل اندازی پر برابر لعن طعن کرتے تھے اور ان پر الزام لگاتے رہے تھے کہ وہ مذہبی تعلیمات میں رد و بدل کر رہے تھے جو اِن کی مذہبی کتاب’’ برنڈیکرال‘‘ کے باب چون میں درج تھیں لیکن یہاں رد و بدل کا لفظ استعمال کیا جانا مناسب نہیں کیوں کہ کتاب میں لکھا ہے کہ’’ تمام لوگ اپنے انڈوں کو جس طرف سے اور جس سرے سے چاہیں توڑ کر کھائیں۔‘‘
اب یہ حال تھا کہ باغی بلیفوسکو کے بادشاہ کے دربار میں بڑے اثر و رسوخ کے مالک بن چکے تھے۔ اُنھیں اپنے وطن للی پٹ میں بھی اپنے حامیوں کی طرف سے زبردست حمایت حاصل تھی۔ انڈے کو توڑنے والے اس سلگتے ہوئے مسئلے کی بدولت للی پٹ اور بلیفوسکو کے درمیان چھتیس چاندوں سے مسلسل خوں ریز جنگیں ہوتی چلی آرہی تھیں۔ ان جنگوں میں للی پٹ کے چالیس جہاز تباہ ہوئے تھے اور بے شمار چھوٹے جہاز اور کشتیاں غرق ہوئیں۔ تقریباً تیس ہزار کے قریب بہترین ملاح اور سپاہی مارے گئے۔ بلیفوسکو والوں کو للی پٹ والوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اب انھوں نے اپنا نیا بحری بیڑہ تیار کر لیا تھا اور للی پٹ پر زبر دست سمندری حملے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ للی پٹ کے بادشاہ کو میری طاقت اور بہادری پر بڑا بھروسا تھا۔ اسی لیے اُس نے ریلڈرسل کو مجھے یہ سب باتیں بتانے اور مجھے اپنی بلیفوسکو والوں کے خلاف استعمال کرنے کی خواہش سے آگاہ کرنے کے لیے میرے پاس بھیجا تھا۔
میں نے ریلڈرسل سے کہا کہ میں شہنشاہ معظم کے لیے ہر قسم کی خدمات بجالانے کے لیے بالکل تیار ہوں۔ میں اُن کے ملک کا دفاع کرنے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر طرح سے آمادہ اور تیار تھا۔
باب8
بلیفوسکو کا جزیرہ للی پٹ کے انتہائی شمال مشرقی جانب تھا۔ دونوں جزیروں کے درمیان ایک آٹھ سو گز چوڑی رودبار حائل تھی۔ میں نے ابھی تک اس رود بار کو نہ دیکھا تھا۔ میں ویسے بھی دونوں ملکوں کے در میان ممکنہ جنگ کے خدشے کے پیش نظر کبھی ساحل کی طرف نہ گیا تھا تاکہ کسی دشمن جہاز کی نظروں میں نہ آجاؤں۔ بلیفوسکو والوں کو ابھی تک میرے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا تھا۔ بادشاہ کے جنگ کے خدشے کے پیش نظر بلیفو سکو والوں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرڈالے گئے تھے اور ان کے جہازوں اور کشتیوں کو وہاں کے ساحلوں پر آنے سے روک دیا گیا تھا۔ بلیفوسکو والوں کے جہاز پہلی موافق ہوا چلتے ہی للی پٹ پر حملہ کرنے کے لیے اپنی بندرگاہ پر تیار کھڑے تھے۔ میں نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ایک منصوبہ اس کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح دشمن کے تمام بحری جہازوں کو پکڑ کر للی پٹ لایا جاسکتا تھا۔ اس نے فوراً ہی اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ میں نے انتہائی تجربے کار ملاحوں سے رود بار کے بارے میں اہم معلومات حاصل کیں۔ مجھے بتایا گیا کہ رودبار کا درمیانی حصہ ستر گلم گلف گہرا تھا۔ یعنی یہ رودبار درمیان میں چھے فٹ تک گہری تھی اور باقی جگہوں پر اس کی گہرائی کوئی پچاس گلم گلف تھی۔ میں نے للی پٹ کے شمال مغربی ساحل کی طرف جاکر ایک بلند پہاڑی کے پیچھے سے اپنی دوربین سے دشمن کے بحری بیڑے کا اچھی طرح سے جائزہ لیا۔ اس بیڑے میں پچاس بڑے بڑے جنگی جہاز تھے اور بے شمار دوسرے باربرداری کے جہاز تھے۔
میں نے گھر واپس پہنچ کر بہت سی مضبوط رسیاں اور لوہے کی سلاخیں تیار کرنے کی ہدایت کی۔ چناں چہ جو رسیاں میرے لیے تیار کی گئیں اُن کی موٹائی پیکنگ میں کام آنے والے موٹے دھاگے جتنی تھی۔ میں نے اُنھیں ملا کر ایک موٹا سا رساتیار کر لیا۔ پھر لوہے کی سلاخوں کو ان کے سروں سے موڑ کر ان کے ہک بنالیے پھر میں نے رسے کے پچاس ٹکڑے کیے اور پچاس ہکوں یا آنکڑوں کو رسوں کے سروں سے باندھ دیا۔
اب میں نے ساحل پر پہنچ کر اپنا کوٹ، جوتے اور موزے اُتارے اور پانی میں چلنا شروع کر دیا۔ آدھ گھنٹے چلتے رہنے کے بعد میں رود بار کے درمیانی حصے میں پہنچ گیا، وہاں پانی گہرا تھا ۔میںنے تیرنا شروع کر دیا۔ تیس گز تک تیرتے رہنے کے بعد میرے پاؤں کے نیچے سخت زمین آگئی اور میں دوبارہ پانی میں چلنے لگا ۔آدھ گھنٹے کے بعد میں دشمن کے بحری بیڑے کے قریب آن پہنچا۔ان جہازوں میں سوار لوگ مجھے دیکھ کر اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ انھوں نے پاگلوں کی طرح چیخنا چلانا اور سمندر میں چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔
میں نے رسے اور آنکڑے جیب میں سے نکالے اور آنکڑوں کو تیزی سے جہازوں کے اگلے حصے کے سوراخوں میں پھنسانے لگا۔ دشمنوں کی طرف سے مجھ پر تیر برسائے جانے لگے۔ کچھ تیر میرے چہرے اور ہاتھوں پر آکر لگے۔ اپنی آنکھوں کو تیروں سے بچانے کے لیے میں نے جیب سے عینک نکال کر پہن کی۔ اور تمام آنکڑوں کے رسوں کو بل دے کر ایک موٹے سے رسے کی صورت دے دی اور جہازوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ بلیفو سکو والوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مجھ پر بے تحاشہ تیر برسانے شروع کر دیے، لیکن میں اُن کے جہازوں کو کھینچتا ہوا، پانی میں چلتا ہوا للی پٹ کے ساحل کی طرف بڑھتا رہا۔ جب میں سمندر میں کافی دور نکل گیا تو ایک جگہ میں نے رک کر اپنے ہاتھوں اور چہروں پر دھنسے ہوئے تیروں کو کھینچے کر باہر نکالا اور اپنی عینک اتار کر جیب میں رکھ لی اور جہازوں کو کھینچتا ہوا رود بار کے وسط میں جا پہنچا۔ جوار بھاٹا اُتر چکا تھا۔ اس لیے میں بڑے آرام سے للی پٹ کی شاہی بندر گاہ تک جا پہنچا۔ 
بندرگاہ پر بادشاہ اپنے تمام درباریوں کے ساتھ موجود تھا۔ میں اس کے قریب پہنچتے پہنچتے بلند آواز میں بولا :
’’للی پٹ کا عظیم شہنشاہ زندہ باد!‘‘
میرے ساحل پر اُترنے کے بعد بادشاہ نے اپنے درباریوں کے ساتھ آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور دشمن کے بحری جہاز للی پٹ کے ساحل پر کھینچ لانے کے میرے اس کارنامے پر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور وہیں مجھے ’’نارڈک‘‘کے خطاب سے سرفراز کیا۔ جو اس ملک کا سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔
اس شان دار فتح کے بعد بادشاہ نے مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں بلیفوسکو والوں کے باقی جہازوں کو بھی ان کی بندرگاہ سے کھینچ کر للی پٹ لے آؤں۔ اس نے مجھ سے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بلیفو سکو کی سلطنت کو پوری طرح سے تباہ و برباد کر ڈالنا چاہتا تھا اور اس ملک کو اپنا غلام بنا لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے اس خطرناک ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس سے کہا کہ ایک آزاد اور خود مختار قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کرنا بے حد ظلم اور نا انصافی ہے۔ بادشاہ کے وزیروں اور اعلیٰ عہدے داروں نے بھی میری تائید کی اور بادشاہ کو بلیفوسکو کو تباہ کرنے اور اس کے باشندوں کو غلام بنا لینے کی خواہش سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ 
میری اور اپنے درباریوں کی مخالفت سے بادشاہ اس وقت تو خاموش ہوگیا لیکن اس کے دل میں میری طرف سے ایک گرہ سی پڑ گئی۔ اس نے اپنے منصوبے پر اختلاف رائے کا اظہار کرنے میں ایسی بے خوفی اور ہمت کے مظاہرے پر مجھے کبھی معاف نہ کیا ۔میرے دشمنوں فلم ناپ اور اسکائرش بولگولم نے بھی اسے میرے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ چناں چہ بادشاہ اور اس کے بعض وزرا کے درمیان میرے خلاف سازش کا پودا پروان چڑھنا شروع ہو گیا۔ اس سازش کا انکشاف مجھے دو ماہ بعد ہوا۔ یہ سازش مجھے ہلاک کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔
بلیفوسکو کی مہم کے تین ہفتے بعد بلیفوسکو سے ایک وفدا من وصلح کی درخواست لے کر للی پٹ پہنچا۔ بادشاہ نے اس وفد کے ساتھ صلح کی جو شرائط طے کیں وہ سب اپنی مرضی سے طے کیں اور ان میں اپنا فائدہ ملحوظ رکھا۔ جب یہ شرائط صلح طے ہو چکیں تو بلیفو سکو کے وفد کے اراکین کو میرے بارے میں بتایا گیا۔ اُنھیں بتایا گیا کہ میں کیسے للی پٹ میں وارد ہوا تھا اور للی پٹ کے بادشاہ کا کتنا وفادار تھا۔ اس پر بلیفوسکو کے وفد کے اراکین نے، جو تعداد میں تین سو تھے اور بے حد قیمتی اور عمدہ لباس پہنے تھے، مجھ سے ملاقات کی۔ انھوں نے میری بہادری اور شجاعت کی بے حد تعریف کی۔ انھوں نے میری اس شرافت کو بھی بے حد سراہا کہ ان کے جہازوں کو پکڑتے وقت میں نے ان کے سپاہیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا تھا۔ 
انھوں نے بادشاہ کے نام پر مجھے اپنے ملک کی سیاحت کی دعوت دی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں خود بھی ان کے عظیم ملک کی سیر کرنے کا خواہش مند ہوں۔ وہاں میں ان کے اس شہنشاہ سے بھی ملنا چاہتا ہوں جس کی بہادری، نرم دلی، اور انصاف پسندی کی ساری دُنیا میں دھوم ہے۔ میں اپنے ملک، انگلستان واپس جانے سے پہلے اس سے ملاقات کر لینا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار للی پٹ کے بادشاہ سے کیا۔ اس نے مجھے بلیفو سکو جانے کی اجازت دے دی مگر یہ اجازت دیتے ہوئے وہ کچھ زیادہ خوش نہ دکھائی دیتا تھا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بلیفوسکو کے وفد کے اراکین سے میں نے ترجمان کی مدد سے بات چیت کی تھی کیوں کہ بلیفوسکو والوں کی زبان للی پٹ والوں سے مختلف تھی۔ یورپ کے مختلف ملکوں کی طرح بونوں کے ہر ملک کی بھی اپنی علاحدہ زبان تھی۔ چند ہفتوں بعد جب میں بلیفو سکو گیا اور وہاں کے بادشاہ سے میری ملاقات ہوئی تو مجھے اس کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا مگر یہ ملاقات بے حد ناموافق حالات میں ہوئی تھی۔میرے بلیفو سکو جانے اور وہاں کے بادشاہ سے ملاقات کرنے کے واقعے نے فلم ناپ اسکائرش بولگولم اور میرے دوسرے دشمنوں کو للی پٹ کے بادشاہ کو میرے خلاف بھڑکانے کا اور بھی زیادہ موقع مل گیا۔
پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس میں مجھے بادشاہ کے لیے ایک اور اہم خدمت انجام دینے کا موقع ملا۔
اس دن آدھی رات کے وقت میں اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ بے شمار لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ اس شورو غل نے لمحے بھر کے لیے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ اس شور غل کے درمیان میں نے لوگوں کو چلا چلا کر ایک لفظ ’’برگلم ‘‘کی بار بار گردان کرتے ہوئے پایاپھر بادشاہ کے دربار سے تعلق رکھنے والے چند اہم عہدے دار میری طرف بڑھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ شاہی محل میں ملکہ کے رہائشی کمروں والے حصے میں زبردست آگ لگ گئی تھی۔ یہ آگ ملکہ کی ایک خادمہ کی بے پروائی کے سبب لگی تھی جو اپنے کمرے میں چراغ جلتا چھوڑ کر سو گئی تھی۔ میں فوراً ہی بستر سے اُٹھ گیا۔ لوگوں نے میرے گزرنے کے لیے راستے صاف کر دیے۔ وہ ایک چاندنی رات تھی۔ میں کسی بونے کو کچلے یا نقصان پہنچائے بغیر شاہی محل میں جا پہنچا۔ وہاں لوگوں نے جلتے ہوئے حصے کی دیواروں سے سیڑھیاں لگا رکھی تھیں اور ان پر چڑھ کر بالٹیوں سے آگ پر پانی ڈال رہے تھے۔ یہ بالٹیاں کسی بوتل کے ڈھکنے سے بڑی نہ تھیں کچھ لوگوں نے پانی سے بھری بالٹیاں مجھے بھی تھما دیں، لیکن شعلے اس قدر تیز تھے کہ تھوڑا سا پانی اُنھیں ہر گز نہ بجھا سکتا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا پھر تیزی سے شہر سے باہر واقع ایک تالاب کی طرف چل دیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اپنی واسکٹ اتار کر اس میں پانی بھرا اور محل واپس اگر اس پانی کا آگ کے شعلوں پر چھڑکاؤ کرنا شروع کر دیا۔ اس طریقے سے صرف تین منٹ کے اندر اندر آگ پوری طرح بجھ گئی۔ یوں وہ شان دار عمارت تباہ ہونے سے بچ گئی جسے از سر نو تعمیر کرنے میں جانے کتنا عرصہ لگتا۔ 
یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد میں گھر واپس چلا آیا۔ اس وقت تک صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔
باب:9
ہر چند کہ میرا ارادہ اس شہنشاہیت کے متعلق تفصیلات کو ایک الگ دستاویز کی صورت میں تحریر کرنے کا ہے۔ میں بہتر سمجھتا ہوں کہ اپنے قارئین کو بعض اہم معلومات پہنچا دوں۔ جیسا کہ میں بتا چکاہوں۔ للی پٹ کا ایک عام باشندہ عام طور پر چھے انچ لمبا قد رکھتا ہے۔ اسی طرح وہاں کے حیوانات، پودے اور درخت بھی ہم انسانوں کی دنیا جیسے جانوروں، پودوں اور درختوں کی مانند نہیں ہیں۔ وہاں کے بلند ترین گھوڑے اور بیل زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ انچ قد کے ہیں۔ بھیڑ بکریاں ایک ڈیڑھ انچ بلند قد کی۔ ان کے ہاں کی مرغابیاں ہمارے ہاں کی چڑیا جتنی جسامت رکھتی ہیں۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے پرندے بہت ہی چھوٹے اور ننھے منے سے ہیں اکثر تو دکھائی ہی نہیں دیتے کیوں کہ ان کی جسامت بے حد چھوٹی ہے۔ مگر قدرت کے انتظام کے تحت للی پٹ کے بونوں کی آنکھیں ان سب کو بہ خوبی دیکھ سکتی ہیں۔ وہ ان سب کو اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں مگر ہم انسانوں کی مانند وہ زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک باورچی کو تیتر کے پر اُدھیڑتے دیکھا تھا جس کا سائز ایک مکھی سے زیادہ نہیں تھا۔ اسی طرح میں نے ایک لڑکی کو سوئی میں دھاگا ڈالتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ سوئی مجھے نظر نہیں آرہی تھی، نہ ہی دھاگا نظر آرہا تھا۔ ان کے ہاں کے درخت زیادہ سے زیادہ چھے فٹ تک بلند ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ بلند درختوں کی اونچائی سات فٹ سے زیادہ نہ تھی۔ یہ بلند ترین درخت شاہی باغات میں لگے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں کی سبزیاں بھی ایسی ہی چھوٹی چھوٹی ننھے منے سائز کی تھیں۔
  فی الحال میں ان کے علم و فضل کے بارے میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔ ان کے علم و فضل کی ہر شاخ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محیر العقول ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ ان کا طرز تحریر منفرد قسم کا ہے۔ وہ یورپی لوگوں کی مانند بائیں سے دائیں نہیں لکھتے نہ عربوں کی مانند دائیں سے بائیں لکھتے ہیں۔ وہ چینیوں کی مانند اوپر سے نیچے اور کا سکیجی لوگوں کی مانند نیچے سے اوپر بھی نہیں لکھتے بلکہ ہماری انگریز خواتین کی مانند کاغذ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ترچھا لکھتے ہیں۔
وہ اپنے مردوں کو ٹانگیں اوپر اور سر نیچے کر کے دفناتے ہیں کیوں کہ اُن کا عقیدہ ہے کہ گیارہ ہزار چاندوں کے بعد ان سب کو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔ اس عرصے میں زمین (جو اُن کے نظریے کے مطابق گول نہیں بلکہ چپٹی ہے) الٹ جائے گی۔ اس یوم قیامت میں وہ اپنے آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا پائیں گے۔ دانش ور بونے اس عقیدے کو خرافات قرار دیتے ہیں مگر اس کے باوجود مردوں کو سر کے بل دفنانے کی رسم بدستور زور شور سے جاری ہے۔
اس ملک کے بیشتر قوانین اور رسوم و رواج بے حد عجیب و غریب ہیں۔یہاں تمام جرائم کی سزائیں بڑی سخت ہیں۔ اگر کوئی ملزم عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس پر الزام لگانے والے کو اسی وقت موت کی سزا دے دی جاتی ہے اور اس کی جائیداد ضبط کر کے بے گناہ آدمی کو دے کر، اس کی جھیلی ہوئی قید و بند کی تکلیفوں اوربدنامی وغیرہ سب کی تلافی کردی جاتی ہے۔ اگر الزام لگانے والوں کی جائیداد زیادہ نہ ہو اور اس کو نیلام کر کے خاطر خواہ رقم حاصل نہ ہو سکے تو یہ کمی شاہی خزانے سے پوری کردی جاتی ہے۔ شہنشاہ بے گناہ شخص کو اپنے انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ اور شاہی اعلان کے ذریعہ سے اس کی بے گناہی کا سارے شہر میں اعلان کر دیا جاتا ہے۔
دھوکا دینے کو ان کے نزدیک چوری سے بھی زیادہ بھیانک جرم سمجھا جاتا ہے اس لیے اس جرم کی سزا زیادہ تر موت ہی ہوتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ احتیاط اور چوکسی سے کوئی بھی شخص اپنے مال اور اسباب کو چوروں کے ہاتھوں لٹنے سے محفوظ رکھ سکتا ہے، لیکن مکاری اور چال بازی کے خلاف کوئی موثر ڈھال نہیں ہوتی اور چوں کہ لین دین کے معاملات اور قرض پر چلنے والے کاربار انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہیں اور ان معاملات میں دھوکا دہی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اگر دھوکا دہی کے خلاف کوئی قانون نہ ہو اور اس کی قرار واقعی سزا نہ دی جائے تو ایمان دار آدمی تباہ ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے بادشاہ سے ایک ایسے آدمی کی سفارش کی تھی جو اپنے مالک کی جس کے پاس وہ ملازم تھا، ایک بڑی رقم لے کر فرار ہو گیا تھا۔ مگر بادشاہ نے میری یہ سفارش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ وہ اسے فراڈ اور دھوکا دہی کا جرم قرار دیتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مجھے بادشاہ کے سامنے بے حد نادم ہونا پڑا۔
جس شخص کے بارے میں یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ اُس نے کم از کم دس چاندوں کا عرصہ اپنے ملک کے قوانین پر سختی سے کاربند رہ کر گزارا ہے تو اسے خصوصی مراعات کا مستحق قرار دیا جاتا تھا۔ اور خاصی رقم بہ طور انعام دی جاتی تھی۔
ملازمت کے لیے کارآمد اور مفید آدمیوں کو منتخب کر کے اُن کی صلاحیت اور قابلیت سے زیادہ اُن کے اچھے اور بہترین اخلاق کو دیکھا جاتا تھا، ساتھ ہی وہ لوگ اس پر بھی زور دیتے تھے کہ اخلاقی اور کرداری اوصاف کو ذہنی صلاحیتوں پر ترجیح دی جانی چاہیے اور ملازمتیں ایسے اشخاص کو ہرگز نہ دی جانی چا ہییں جو انتہائی پڑھے لکھے، انتہائی ذہین اور قابل لوگ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان سے سرزد ہونے والی غلطیاں جاہل اور کم پڑھے لکھے لوگوں سے ہونے والی غلطیوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح جو شخص خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا اُسے بھی معاشرے میں کوئی اہم مقام، کوئی اہم ملازمت یا عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔
  احسان فراموشی بونوں میں ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے بونوں کے خیال میں کوئی شخص جو اپنے محسن کو اس کے احسان کا برا بدل دیتا ہے وہ انسانیت کا دشمن ہے۔ لہٰذا اُسے زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
باب:10
میرے قارئین یہ جاننے میں خاصی دل چسپی لیں گے کہ اس ملک میں میری بود و باش کیسی تھی۔ میرے کھانے پہننے کے کیا انتظامات تھے۔ آخر میں نے وہاں نو ماہ تیرہ دن کا طویل عرصہ گزارا تھا۔
میں نے اپنی ضرورت کے تحت اپنے لیے ایک میز اور کرسی بنالی تھی۔ ان چیزوں کے لیے میں نے شاہی باغات میں اگے ہوئے بڑے بڑے درختوں کی لکڑی حاصل کی تھی۔ بادشاہ کے حکم سے دو سو جولا ہوں کو میرے پہننے کے لیے قمیصیں اور میز اور کرسی کے لیے کپڑا تیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو اُنھوں نے اپنی محنت اور استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ موٹا اور طویل و عریض تیار کیا۔ ان کے ہاں موٹے سے موٹا کپڑا بھی ہمارے یہاں کے لان جتنا موٹا ہوتا ہے۔ ان کی لینن کا ایک تھان تین انچ چوڑا اور تین فٹ لمبا ہوتا ہے۔ ان جولا ہوں نے میرے زمین پر دراز ہونے پر میراناپ کیا۔ ایک میری گردن پر کھڑا ہو گیا،اور دوسرا گھٹنے پر اور ایک فیتے کی مدد سے گردن سے گھٹنے تک کی پیمائش لی ۔اس کے بعد انھوں نے میرے دائیں انگوٹھے کی پیمائش کی اور اپنا کام ختم کر دیا۔ حسابی طور پر انگوٹھے کی دو گنی پیمائش سے کلائی کی پیمائش ہو جاتی تھی۔ ایسا ہی انھوں نے گردن اور کمر کی پیمائش کے سلسلے میں کیا پھر انھوں نے میری پرانی قمیص کی مدد سے جو میں نے زمین پر بچھا دی تھی، پوری تسلی سے اچھی پیمائش کرلی۔ میری قمیص سینے کے لیے تین سو درزیوں کو مقرر کیا گیا تھا۔ انھوں نے میرا ناپ لیا۔ انھوں نے مجھے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھنے کو کہا۔ پھر اُن میں سے ایک سیڑھی کی مدد سے میری گردن پر چڑھ گیا اور شاقول کی ایک ڈوری میرے کالر سے زمین تک لٹکا دی۔ اس طرح میرے کوٹ کی پیمائش کی لیکن اپنی کمر اور بازوؤں کا ناپ میں نے خود ہی لے لیا۔ پھر جب میرے کپڑے سل کر تیار ہوئے (اور یہ کام میرے گھر پر ہی کیا گیا) تو یہ انگلستان کی خواتین کا کیا ہوا پیچ ورک کا کام دکھائی دیتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ سب کپڑے ایک ہی رنگ کے تھے۔
میرا کھانا تیار کرنے پر تین سو باورچی مامور تھے۔ ان کی رہائش گاہیں میرے گھر کے اردگرد بنائی گئی تھیں جہاں وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر باورچی میرے لیے کھانے کی دو پلیٹیں تیار کرتا تھا۔ میں اپنے ہاتھ میں بیس ویٹروں کو اُٹھا کر میز پر رکھ دیتاتھا۔ ایک سو کے قریب نیچے زمین پر کھڑے رہتے تھے۔ انھوں نے گوشت کی پلیٹیں اور شراب کے پیپے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھے ہوتے تھے۔ میں حسب ضرورت ان سے گوشت کی پلیٹیں اور شراب کے پیپے لے کر میز پر رکھتا اور کھاتا پیتا جاتا تھا۔ ان کی ایک پلیٹ گوشت کی میرے لیے ایک نوالا ثابت ہوتی تھی اور شراب کا ایک پیپا ایک پورا گھونٹ۔ ان کی بھیڑ بکریوں کا گوشت ذائقے میں ہمارے ہاں کے گوشت جیسا تھا۔ مگر ان کے بیل اور بھینس کا گوشت بہترین ذائقہ رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ میرے سامنے گائے کے بچے کا گوشت لایا گیا۔ میرے ملازم مجھے اسے ہڈیوں سمیت کھاتے دیکھ کر بے حد متحیر ہوئے تھے۔ مگر ہم اپنے ملک میں تیتر بٹیر اور مرغابی وغیرہ کی بھی ہڈیاں چبا ڈالا کرتے ہیں۔ ان کی مرغابیاں اور فیل مرغ میں ایک ہی نوالے میں کھا جاتا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُن کا ذائقہ ہمارے ہاں کے ان پرندوں سے بہت بہتر تھا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پرندے بیک وقت بیس تیس کی تعداد میں اپنے چاقو میں پرولیا کرتا تھا۔
ایک دن شہنشاہ معظم نے میری طرز رہائش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنی ملکہ، ایک شہزادے اور ایک شہزادی کے ہمراہ میرے ساتھ کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ چناں چہ پروگرام کے مطابق وہ میرے گھر آن پہنچے۔ میں نے ان کو ان کی شاہی کرسیوں سمیت اپنی میز پر بٹھا دیا اور ان کے محافظوں کو بھی میز پر چڑھا دیا۔ جو ان کے پیچھے مستعد کھڑے ہو گئے۔ شاہی خزانچی فلم ناپ بھی اپنی سفید چھڑی کے ساتھ موجود تھا اور میری طرف شدید نفرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مگر میں نے یوں ظاہر کیا جیسے مجھے اس کی کوئی پروا نہ تھی اور معمول سے کچھ زیادہ ہی کھایا پیا۔ جس سے لوگوں کی جانب سے تحسین و تحیر بھری آوازیں اٹھنے لگیں۔ مجھے یقین تھا کہ بادشاہ کی مجھ سے یہ ملاقات فلم ناپ کو میرے خلاف بادشاہ کو بھڑکانے کا ضرور کوئی نہ کوئی موقع فراہم کرے گی۔ یہ وزیر ابتدا ہی سے میرا خفیہ دشمن چلا آرہا تھا، حالاں کہ ظاہراً وہ مجھ سے عزت و تکریم سے پیش آتا تھا اور میری جانب دوستانہ رویہ ظاہر کرتا تھا۔ اس نے بادشاہ کو بتایا تھا کہ مجھے کھلانے پلانے اور پہنانے میں شاہی خزانے پر شدید بارپڑ رہا ہے۔ اس کا بڑا حصہ صرف ہو چکا ہے۔ اب تک مجھ پر ساڑھے دس لاکھ کے قریب سپرگ( ان کے سونے کا سب سے بڑا سکہ)۔صرف ہو چکے تھے۔ جو شاہی خزانے کے لیے خاصا بڑا نقصان تھا۔ اس لیے شہنشاہ معظم کے لیے بہتر یہی تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے مجھ سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔
باب:11
اس سے قبل کہ میں للی پٹ چھوڑنے کے بارے میں کچھ بیان کروں۔ میں اس خفیہ سازش کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو میرے خلاف کئی ماہ سے کی جارہی تھی۔
اپنی زندگی میں مجھے کبھی بادشاہوں اور اُن کے درباروں سے واسطہ نہیں پڑا۔ کیوں کہ مجھ میں کوئی ایسی صفت نہ تھی کہ جو مجھے اس قابل بناتی۔ میں نے البتہ بادشاہوں اور وزیروں کے حالات کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کرتے ہیں، ان کا طرز سیاست کیا ہوتا ہے۔ محلاتی سازشیں کیوں کر ہوتی ہیں۔ مجھے امید نہ تھی کہ للی پٹ جیسے ایک انتہائی دور افتادہ جزیرے میں بھی ہم انسانوں کی دنیا جیسا ماحول ہو گا۔ یہاں بھی حسد و رقابت اور خفیہ سازشیں ہوتی ہوں گی۔
جب میں بلیفوسکو کے بادشاہ سے ملنے کے لیے سفر کی تیاریوں میں مصروف تھا، تو دربار کا ایک انتہائی معزز و محترم عہدے دار (جس کی اُس وقت میں نے بے حد مدد کی تھی جب بادشاہ اس سے ناراض تھا) رات کے وقت ایک بند گاڑی میں مجھ سے ملنے آیا اور اپنا نام بتائے بغیر ملازموں سے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے دروازے پر پہنچ کر کو چوانوں کو وہیں ٹھیرنے کی ہدایت کی اور گاڑی کو اپنی جیب میں ڈال کر کمرے میں آگیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے ایک وفادار اور قابل اعتماد ملازم کو ہدایت کی کہ اگر کوئی مجھ سے ملنے آئے تو اُسے یہ کہہ کر ٹال دے کہ میں سو رہا ہوں۔ پھر میں نے دروازہ بند کیا اور گاڑی کو اپنی میز پر رکھ دیا اور اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر چہرہ میز کی طرف جھکا دیا۔ اس معزز درباری کا چہرہ بے حد سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ علیک سلیک کے بعد اُس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کی باتیں توجہ سے سنوں کیوں کہ اُن کا تعلق میری زندگی سے ہے۔ پھر اُس نے مجھ سے جو کچھ کہا، اُسے میں نے اس کے رخصت ہونے کے بعد حرف بہ حرف تحریر کرلیا۔
’’ تم جانتے ہو کہ کافی عرصے سے تمھارے معاملے پر بحث کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلوایا جاتا رہا ہے۔ ابھی دو دن قبل شہنشاہ معظم نے تمھارے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے ۔تم بخوبی جانتے ہو کہ اسکائرش بولگولم (گالبٹ یا امیرالبحر) تمھاری یہاں آمد کے وقت ہی سے تمھارا جانی دشمن چلا آرہا ہے۔ اس کی حقیقی وجہ کیا ہے یہ میں نہیں جانتا، لیکن بلیفو سکو کے خلاف تمھاری عظیم کام یابی نے اسے انگاروں پر لوٹا رکھا ہے کیوں کہ تمھارے اس کارنامے کے آگے اس کی بحیثیت امیر البحر شان و شوکت گہناگئی ہے۔ اس شخص نے تمھارے پرانے دشمن فلم ناپ فوجی جنرل لمٹاک، چیمبر لین لالکون، چیف جسٹس بالمف اور چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر تمھارے خلاف غداری اور بعض دوسرے بڑے جرائم کے سلسلے میں ایک باقاعدہ فردِ جرم تیار کروائی ہے۔
شہنشاہ معظم نے اکثر مواقع پر تمھاری ان خدمات کا تذکرہ کیا تھا جو تم نے ان کے لیے انجام دی تھیں اور تمھاری تعریف و توصیف کی تھی۔ تمھاری ان خدمات کے سامنے تمھارے جرائم کی اہمیت خاصی گھٹ جاتی ہے۔ خزانچی اور امیر البحر اس پر ہرگز آمادہ نہیں ہو رہے تھے کہ تمھارے سلسلے میں کسی معافی یا در گزر سے کام لیا جائے یا کوئی رعایت برتی جائے۔ وہ تمھیں سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ تمھیں موت کی سزا دی جائے۔ اس کے لیے رات کے وقت تمھارے گھر کو آگ لگادی جائے یا دس ہزار سپاہیوں کے ذریعے تمھارے ہاتھوں اور چہرے پر زہر میں بجھے ہوئے تیروں کی بارش کروا دی جائے یا تمھارے ملازموں کو حکم دیا جائے کہ وہ تمھارے کپڑوں پر زہریلا مادہ چھڑک دیں۔ جس سے تم جلد ہی اپنا گوشت نوچنے لگو گے اور نہایت اذیت ناک موت مر جاؤ گے۔ فوج کے سالار اعلا نے بھی اس تجویز کو پسند کیا۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی اس سے متفق ہو گئے۔ مگر شہنشاہ معظم تمھاری زندگی چاہتے تھے۔ چیمبر لین کے دلائل پر وہ تمھیں کم سے کم سزا دینے پر راضی ہو گئے۔
اس موقعے پر تمھارا دوست وزارت داخلہ کا سیکریٹری ریلڈ رسل اپنی جگہ سے اُٹھا۔ اس نے اس کی تصدیق کی کہ تم اس کے بہترین دوست تھے اور اس کی ذاتی رائے تمھارے بارے میں بہت اچھی تھی۔ اس نے تسلیم کیا کہ تمھارے جرائم بڑے اور سنگین تھے تاہم رحم کی گنجائش موجود تھی۔ اُس نے اُمید کی کہ شہنشاہ معظم اپنے مشہورِ زمانہ عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے تمھاری سزا میں رعایت برتیں گے۔ اس نے کہا کہ اس کی اور تمھاری دوستی کے بارے میں سارا ملک واقف ہے۔ اس لیے وہ تمھارے حق میں جو کچھ کہے گا اسے اس کی جانب داری کہا جائے گا۔ مگر اُس نے شہنشاہ معظم کے حسب حکم اپنے جذبات اور احساسات کا آزادانہ اظہار کیا ہے۔ وہ تمھاری سزا کے سلسلے میں صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ شہنشاہ معظم تمھیں موت کی سزا نہ دیں بلکہ صرف اتنا کریں کہ تمھاری آنکھیں نکلوادیں۔ اس طرح انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے اور دنیا شہنشاہ معظم کی مہربانی اور رحم دلی کی بھی معترف ہو جائے گی اور اُن کے وزراء اور مشیروں کی فراست و انصاف پسندی کو بھی سرا ہے گی۔ آنکھوں سے اندھا پن تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور تم بہ دستور شہنشاہ معظم کے لیے کارآمد رہو گے۔ 
ریلڈرسل کی اس تجویز کی تمام اہل دربار نے شدید مخالفت کی۔ بولگولم کو اتنا غصہ آیا کہ وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا،’’ حیرت ہے کہ آخر ریلڈ رسل نے ایک غدار کے لیے اتنی نرم سزا تجویز کرنے کی جرات کیوں کر کی؟ تم نے جس طرح ملکہ کے محل کی آگ بجھائی تھی وہ سنگین ترین جرم تھا۔ (اُس نے اس کا ذکر جھر جھری لیتے ہوئے کیا) اس طریقے سے آگ بجھاتے ہوئے تم نے شاہی محل کو غرقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ تم دشمن کا بحری بیڑہ کھینچ لائے تھے۔ مگر باقی جہازوں کو وہیں اُن کے ساحل پر رہنے دیا تھا۔ تم اپنے دل میں انڈے کو بڑے سرے سے توڑنے والوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہو، لہٰذ تم غدار ہو، تم سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے اور بلا توقف تمھیں موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔‘‘
خزانچی بھی اس تجویز کا حامی تھا۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہ تمھارے رہن سہن اور کھانے پینے پر کتنے کثیر اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ شاہی خزانے پر شدید بار پڑرہا ہے اور یہ خسارہ پورا کرنا اسے بے حد مشکل معلوم ہو رہا ہے۔ اس نے یہ کہ کر تمھاری آنکھیں نکلوانے کی تجویز کی مخالفت کی کہ اس طرح ایک اور قباحت پیدا ہو جائے گی۔ جس طرح کسی پرندے کی آنکھیں نکلوادی جاتی ہیں تو وہ خوب کھانے پینے اور فربہ ہونے لگتا ہے اسی طرح تم بھی اندھے ہونے کے بعد کھانے پینے کو اپنا مشغلہ بنا لو گے۔ یوں شاہی خزانے کا بوجھ اور بھی بڑھ جائے گا۔ چوں کہ شہنشاہ معظم اور اُن کے معزز اراکین دربار کو تمھارے مجرم ہونے کا یقین ہے اس لیے تمھارے لیے صرف موت کی سزا ہی مناسب رہے گی۔
لیکن شہنشاہ معظم تمھیں سزائے موت دینے کے حق میں نہ تھے۔ انھوں نے کہا کہ تمھارے لیے اندھا کر دیے جانے کی سزا ہی مناسب رہے گی اور اگر کونسل کے علاوہ کوئی اور سزا تجویز کرے تو اس پر بھی غور کیا جائے گا۔ اس پر سیکریٹری ریلڈ رسل اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ جہاں تک خزانچی کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ تمھیں رکھنے میں کثیر اخراجات اٹھ رہے ہیں تو تمھیں اندھا کروانے کے ساتھ تمھارے لیے یہ سزا بھی مناسب رہے گی کہ تمھاری خوراک بتدریج کم کرتے جانا چاہیے۔ اس طرح تم ناکافی خوراک کی بنا پر کم زور ہوتے چلے جاؤ گے۔ تمھاری بھوک مر جائے گی اور تم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ جاؤ گے۔ اس طرح تم فاقوں سے مرجاؤ گے۔ تمھارے مرتے ہی تمھاری لاش سے نجات پانے کے لیے چھے ہزار آدمیوں کو اس کام پر لگایا جائے گا کہ وہ تمھارے جسم سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر الگ کرلیں۔ تمھارے ڈھانچے سے سارا گوشت صاف کر لیں اور اسے چھکڑوں پر لدوا کر دُور دراز کے مقامات پر زمین میں دفنا دیں۔ تمھارا ڈھانچا وہیں تمھارے گھر پر پڑا آنے والی نسلوں کے لیے تماشا بنا رہے گا۔سیکرٹری کی یہ تجویز اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی اور طے کیا گیا کہ تمھیں فاقوں اور کم خورا کی مارنے کی بات خفیہ رکھی جائے، لیکن تمھاری آنکھیں نکلوانے کی سزا کا اندراج کتاب قانون میں کردیا جائے۔
بولگولم اور فلم ناپ اس موقع پر بہت ناخوش اور ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ بولگولم ملکہ کا خاص آدمی ہے۔ تمھارے اس کے محل کی آگ بجھانے کے طریق کار کی بدولت ملکہ بھی تمھاری شدید دشمن بن چکی ہے۔اور اب تین دن بعد تمھارا دوست سیکرٹری تمھارے گھر آئے گا تمھیں یہ فرد جرم پڑھ کر سنائے گا اور کہے گا کہ شہنشاہ معظم اور اُن کے معزز وزرا و مشیران نے انتہائی رحم دلی اور رواداری سے کام لیتے ہوئے تمھارے لیے یہ انتہائی نرم سزا تجویز کی ہے کہ تمھاری آنکھیں نکلوادی جائیں۔ اس مقصد کے لیے بارہ سرجن مامور کیے گئے ہیں۔ جو تمھیں زمین پر لٹا کر بے حد تیز اور باریک سروں والے تیروں سے تمھاری آنکھوں کی پتلیاں چھید دیں گے۔
اب میں یہ تم پر چھوڑتا ہوں کہ تمھیں اپنی جان بچانے یا اپنے آپ کو اندھا ہونے سے بچانے کے لیے کیا کرنا چاہیے ۔‘‘
  اس معزز درباری کے جانے کے بعد میں شاید پریشانی اور بے چینی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میرا ذہن اس سزا سے بچنے اور للی پٹ سے فرار ہو جانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا۔
اس ملک کا قانون یہ تھا کہ جب بادشاہ کسی کو کوئی سزا دینے لگتا تھا تو سزا دینے سے پہلے اس سزا کے حق میں اپنی کونسل کے سامنے ایک تقریر کیا کرتا تھا۔ پھر یہ تقریر ملک بھر میں مشتہر کر دی جاتی تھی۔ اس طرح عوام میں اس سزا کو پانے والے شخص کے بارے میں نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے تھے اور وہ اپنے بادشاہ کو مجرم کو ایسی سزا دینے پر حق بجانب سمجھنے لگتے تھے۔ اور اس کے عدل و انصاف اور رعایا پروری کے گن گانے لگتے تھے۔ میرے ساتھ بھی اب یہی ہونے والا تھا کہ بادشاہ مجھے سزا دینے کے سلسلے میں اپنی کونسل کے سامنے تقریر کرتا پھر وہ تقریر عوام میں مشتہر ہو جاتی اور عوام بادشاہ کو حق بجانب اور مجھے مجرم اور کڑی سزا کا حق دار سمجھنے لگتے۔
میں نے پہلے یہ سوچا کہ مجھے اپنا مقدمہ لڑنا چاہیے اور اپنا دفاع کرنا چاہیے، لیکن مجھ پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے وہ بہت بھاری اور سنگین نوعیت کے تھے اور اس ملک میں میرے بڑے طاقت ور اور بارسوخ دشمن موجود تھے اگر میں اپنا مقدمہ لڑتا اور اپنے دفاع کے لیے کچھ کرتا تو یہاں میرا جینا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہی ہوتا۔ اس اجنبی سرزمین میں میرے جو ہمدرد تھے وہ بھی کھل کر میرا ساتھ نہ دے سکتے تھے۔
اگر میں چاہتا تو بادشاہ کا حکم ماننے سے انکار کر سکتا تھا۔ یہاں کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے مقابلے پر آتا۔ میں بونوں کی اس سلطنت کو بڑی آسانی سے تباہ و برباد کر سکتا تھا مگر مجھے اس حلف کا خیال تھا جو میں نے بادشاہ کے سامنے اُٹھایا تھا۔ اس نے مجھے نارڈک کے اعلا ترین اور معزز خطاب سے نواز رکھا تھا۔ وہ میرا میزبان اور مربی تھا، میرا محسن تھا۔ اس کے درباری میرے دوست تھے۔ انھوں نے میری بڑی عزت و توقیر کی تھی۔ میرا دل کبھی اُنھیں کوئی نقصان پہنچانے کے بارے میں نہ سوچ سکتا تھا۔ اس لیے میرے لیے واحد راستہ یہی رہ گیا تھا کہ میں للی پٹ سے فرار ہو جاؤں۔ میں اپنی آنکھیں بچانا چاہتا تھا۔ ساتھ ہی مجھے اس جگہ کم خوراکی کی بدولت مرنا بھی منظور نہ تھا۔ میں بادشاہوں اور شہزادوں کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھا کہ وہ مطلق العنان ہوتے ہیں اور ہر صورت میں اپنے ہرحکم کی تعمیل چاہتے ہیں۔ للی پٹ کا یہ بونا بادشاہ بھی ان خصوصیات سے مبرا نہ تھا۔ وہ بھی یہی چاہے گا کہ میں بلا چوں و چرااس کے حکم کی تعمیل کروں اور خوشی خوشی بہ طور سزا اپنی آنکھیں نکلوا دوں اور کم خوراکی اور فاقوں سے مرنے کے لیے تیار ہو جاؤں اور میں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہتا تھا۔ میں اپنی آنکھیں بھی بچانا چاہتا تھا اور جان بھی۔ مجھے بادشاہ نے بلیفو سکو جانے کی اجازت دے دی تھی۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔
تین دن گزرنے سے قبل ہی میں نے اپنے دوست سیکرٹری ریلڈرسل کو خط لکھا۔ جس میں ،میں نے اُسے بتایا کہ میں اس صبح بلیفو سکو روانہ ہو رہا ہوں اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر میں جزیرے کے اس ساحل کی طرف روانہ ہو گیا جہاں بحری بیڑہ لنگر انداز رہتا تھا۔ میں نے ایک بڑا جنگی جہاز پکڑا۔ اپنی چیزیں، اپنے کپڑے اور اپنی چادریں اس میں رکھیں۔اس کے اگلے حصے میں رسی باندھی، بادبان کھڑے کیے اور اسے اپنے پیچھے پانی میں گھسیٹتا ہوا پانی میں چلتا تیرتا بلیفوسکو کی ساحلی بندرگاہ پر جا اُترا۔
وہاں کے لوگ عرصے سے میری آمد کے منتظر تھے۔ انھوں نے مجھے دو گائیڈ مہیا کیے جو مجھے دارالحکومت لے گئے اور جو للی پٹ کے دارالحکومت کا ہم نام تھا۔ میں نے ان گائیڈوں کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا تھا۔ وہ راستے میں میری راہ نمائی کرتے گئے تھے۔ دارالحکومت کے پھاٹک سے دو سو گز کے فاصلے پر پہنچ کر میں رُک گیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اندر جاکر کسی اعلا حکومتی عہدے دار کو میری آمد کی اطلاع کریں۔ میں ایک گھنٹے تک بادشاہ کی طرف سے بلاوے کا منتظر رہا۔ پھر مجھے اطلاع دی گئی کہ شہنشاہ معظم اپنے خاندان اور اہل دربار کے ساتھ میرے استقبال کو آرہے ہیں۔ میں ایک سو گز آگے بڑھ آیا۔ شہنشاہ اور اس کے درباری گھوڑوں سے اور خواتین اپنی بگھیوں سے اُتر آئے۔ ان کے چہروں اور رویوں سے کسی خوف و ہچکچاہٹ کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ میں بادشاہ اور ملکہ کے ہاتھوں پر بوسہ دینے کے لیے زمین پر لیٹ گیا۔ میں نے بادشاہ کو بتایا کہ میں اپنے وعدے کے مطابق یہاں آیا ہوں اور اس کے لیے مجھے للی پٹ کے بادشاہ نے باقاعدہ اجازت دی ہے۔ میرے لیے اس سے ملاقات بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اپنے بادشاہ کا وفادار رہتے ہوئے میں وہ ہر خدمت بجا لاؤں گا جس کا وہ مجھے حکم دے گا اور جو مجھ سے ممکن ہو سکے گی۔ میں نے اس سے اس کا قطعی کوئی تذکرہ نہ کیا کہ للی پٹ کا بادشاہ میرے خلاف ہو چکا تھا اور وہ اور اس کے درباری مل کر مجھے غدار قرار دیتے ہوئے اس جرم کی قرار واقعی سزا دینے والے تھے۔ مجھے ایسا بھی کوئی گمان نہ تھا کہ بلیفو سکو کا بادشاہ ان تمام حالات سے آگاہ ہو جائے گا یا اسے یہ حالات پہلے ہی سے معلوم ہوں۔یہاں میں اپنے قارئین کو اس دربار میں اپنے استقبال کی تفصیلات بتانا بے کار سمجھتا ہوں۔ وہاں میرا جو استقبال کیا گیا وہ میرے شایانِ شان تھا۔ اس سے اس بادشاہ کی اعلیٰ ظرفی، دوستانہ فطرت اور حسن اخلاق کا اظہار ہوتا تھا۔ میں اپنے قارئین کو ان مشکلات کے بارے میں بتانا بھی پسند نہیں کروں گا جو ان لوگوں کو میرے گھر اور بستر کے سلسلے میں پیش آئیں اور مجھے چادر لے کر زمین پر سونا پڑا۔
باب:12
بلیفوسکو پہنچنے کے تین دن بعد میں اس جزیرے کے شمال مشرقی ساحل کی سیر کو جانکلا۔ جب میں پہنچا تو میں نے ڈیڑھ لیگ کے فاصلے پر کوئی ایسی چیز پانی میں نیم غرق دیکھی جو اُلٹی ہوئی کشتی کی مانند دکھائی دیتی تھی۔ میں نے اپنی جرابیں اور جوتے اتارے اور دو تین سو گز تک پانی میں چلتے ہوئے اس چیز کے قریب جا پہنچا جو مد و جزر کی قوت کے زیر اثر اب کچھ قریب آپہنچی تھی۔ یہ واقعی ایک اُلٹی ہوئی کشتی تھی۔ جو میرے خیال میں کسی طوفان کی زد میں آئے ہوئے جہاز سے بچھڑ کر اس طرف آپہنچی تھی۔ میں جلدی سے شہر واپس پہنچا اور بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے جنگی بیڑے سے بیس بڑے جہاز تین سو ملاحوں سمیت جن کی کمان نائب امیرالبحر کر رہا ہو مجھے دے دے۔ یہ بیڑہ ساحل کے گرد چکر لگا کر اس طرف جا پہنچا جہاں میں نے وہ کشتی دیکھی تھی۔ میں خود خشکی کے راستے اس کی راہ نمائی کرتا ہوا اس جگہ پہنچا۔ 
میں نے دیکھا کہ مدو جزر نے اس کشتی کو ساحل کے اور بھی قریب کر دیا تھا۔ میں نے ملاحوں سے رسے لے کر اُنہیں بل دے کر ایک مضبوط موٹے سے رسے کی صورت دی اور جہازوں کے قریب پہنچنے پر اپنے کپڑے اتار کر پانی میں چلتا ہوا اس کشتی سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ گیا۔ اس تک پہنچنے کے لیے مجھے تیرنا پڑا۔ اس تک پہنچنے پر ملاحوں نے رسے کا سرا میری طرف پھینکا جسے میں نے کشتی کے اگلے حصے کے سوراخ میں سے گزارتے ہوئے مضبوطی سے باندھ دیا اور دوسرا حصہ ایک جنگی جہاز کے سرے سے باندھ دیا۔ مگر میری یہ تمام تر محنت کچھ ایسی ثمر آور ثابت نہ ہو سکی۔ کیوں کہ مجھے تمام کام پانی میں مسلسل تیرتے ہوئے کرنا پڑرہا تھا۔ میں اس الٹی ہوئی کشتی کے عقب میں چلا گیا اور تیرتے ہوئے اسے ایک ہاتھ سے آگے دھکیلنے لگا۔ مدو و جزر میری مدد کررہا تھا۔
اسی طرح تیرتے،کشتی کو آگے دھکیلتے، میں ساحل کے اتنے قریب جا پہنچا کہ میرے پاؤں زمین سے لگنے لگے۔ دو تین منٹ تک میں نے آرام کیا۔ اس کے بعد کشتی کو دوبارہ آگے دھکیلنے لگا۔ کچھ دور تک اسی طرح کشتی کو آگے کی طرف دھکے دینے کے بعد میں نے رسے نکالے جو ایک جہاز میں رکھے ہوئے تھے اور اُنھیں کشتی سے باندھ دیا، ان رسوں کے دوسرے سرے میں نے دس جہازوں سے باندھ دیے۔ اب یہ جہاز کشتی کو اپنی طرف کھینچنے لگے اور میں اسے پیچھے سے دھکیلنے لگا۔ مدو جزر موافق تھا۔ اسی طرح چالیس گز مزید فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ساحل تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے دو ہزار آدمیوں، رسوں اور مشینوں کی مدد سے کشتی خشکی پر گھسیٹ لی اور اسے سیدھا کر دیا۔ جب یہ سیدھی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ یہ بالکل صحیح و سالم تھی۔ اسے بس تھوڑا ساہی نقصان پہنچا تھا۔
دس دن تک میں اس کشتی کے چپو تیار کرتا رہا۔ ان چپوؤں کی مدد سے کشتی کو کھیتا ہوا بلیفو سکو کی شاہی بندرگاہ پر پہنچا، جہاں بھاری تعداد میں لوگ میری آمد کے منتظر تھے۔ ان کے لیے اتنی لمبی چوڑی کشتی کا نظارہ بے حد حیرت ناک تھا۔ میں نے بادشاہ کو بتایا کہ تقدیر نے اس کشتی کو میرے راستے میں لاڈالا ہے۔ اس لیے کہ میں اس میں بیٹھ کر اپنے وطن واپس پہنچ جاؤں۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ میرے اس سفر کے لیے زادِ راہ مہیا کردے اور مجھے اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دے۔ بادشاہ نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ میری یہ درخواست قبول کرلی۔
مجھے اس بات پر بے حد حیرت رہی کہ بلیفوسکو کے بادشاہ کے دربار میں للی پٹ کے بادشاہ کو میرے ارادوں کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں صرف اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے بلیفو سکو گیا ہوں۔ جس کی وہ مجھے اجازت دے چکا تھا۔ اور جس کے بارے میں اُس کے تمام اہل دربار جانتے تھے اور یہ کہ میں بلیفوسکو چند دن گزار کر للی پٹ واپس آجاؤں گا ۔وہ میری طویل غیر حاضری سے خاصا کھٹک گیا تھا، اُس نے خزانچی سے صلاح مشورہ کر کے مجھ پر لگائے گئے الزامات کی فہرست کی ایک نقل ایک معزز عہدے دار کبال کے ہاتھ بلیفو سکو کے بادشاہ کو بھجوائی اور کہا کہ اپنی مخصوص رحم دلی سے کام لیتے ہوئے وہ مجھے اندھا کروا دینے کی سزا دینے والا ہے۔ اور میں اس سزا سے بھاگ آیا ہوں۔ اگر میں دو گھنٹوں کے اندر للی پٹ واپس نہ پہنچا تو مجھے نارڈک کے خطاب سے محروم کردیا جائے گا۔ اور غدار قرار دے دیا جائے گا۔ اس سفارتی نمائندے نے امید ظاہر کی کہ دونوں مملکتوں کے مابین امن و بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کے لیے للی پٹ کے شہنشاہ نے امید ظاہر کی تھی کہ اس کا برادر شہنشاہ بلیفوسکو ضرور مجھے پابہ زنجیر للی پٹ واپس بھجوا دے گا تاکہ بحیثیت غدار مجھے قرار واقعی سزائیں دی جاسکیں۔ 
بلیفوسکو کے بادشاہ نے تین دن تک اپنے مشیروں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے بعد للی پٹ کے بادشاہ کو خط تحریر کیا۔جس میں اُس نے اس سے کہا کہ مجھے پابہ زبخیر للی پٹ واپس بھیجنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ہر چند کہ میں نے اسے جنگ میں بڑا نقصان پہنچایا تھا اور اس کا بحری بیڑہ تباہ کر دیا تھا۔ میں نے دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے جو کچھ کیا تھا وہ اس پر میرا ممنون و مشکور ہے۔ اب میری ہی بدولت دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو چکے ہیں۔ یہاں بلیفو سکو پہنچنے کے بعد میں نے اتفاقاً ایک ساحل پر ایسی کشتی پالی ہے جو مجھے اپنے وطن واپس لے جا سکتی ہے۔ اس نے اس کشتی کی ضروری مرمت اور اسے طویل سفر کے قابل بنانے کے انتظامات کرلیے ہیں۔ اب چند ہفتوں کے اندر بلیفوسکو سے رخصت ہو جاؤں گا اور دونوں ملک ایک بڑے دردِ سر سے نجات حاصل کرلیں گے۔
بلیفوسکو کے بادشاہ کا یہ جواب لے کر سفارتی نمائندہ للی پٹ واپس چلا گیا اور بلیفو سکو کے بادشاہ نے ان تمام باتوں کی تفصیلات مجھے کہ سُنائیں اور مجھ سے کہا کہ اگر میں بلیفوسکو میں رہنا پسند کروں (چند شرائط کے ساتھ) تو وہ مجھے پناہ و تحفظ عطا کرنے کو تیار ہے۔ اگرچہ مجھے اس کے خلوص نیت پر یقین اور بھروسا تھا۔ مگر اب میں کسی بادشاہ یا وزیر پر اعتماد یا بھروسا کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے میں نے اس کی مہربانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے وہاں رہنے پر معذرت کی اور اس سے درخواست کی کہ وہ مجھے وہاں سے رخصت ہو جانے دے کیوں کہ قدرت نے اس کشتی کو مجھ تک پہنچا دیا تھا۔ جس کی بدولت میں اپنے وطن واپس جا سکتا تھا۔ اس بادشاہ کو اس پر بے حد مسرت ہوئی۔ اس کے درباری بھی میرے فیصلے پر مسرور و شاداں ہوئے۔
اب میں نے اپنی روانگی کی تیاریاں تیز کردیں۔ بادشاہ اور اس کے درباری چوں کہ میرے جلد از جلد رخصت ہو جانے کے خواہش مند تھے اس لیے انھوں نے اس سلسلے میں میری ہر ممکن مدد کی۔ میری کشتی کے لیے بادبان تیار کرنے کے لیے پانچ سو کاریگر مامور کیے گئے۔ انھوں نے اپنے مضبوط ترین کتان کو تہرا کر کے اس کے بادبان تیار کیے۔ میں نے ان کی بیس یا تیس رسیوں کو بل دے کر مضبوط رسے تیار کیے اور ایک بڑے سے پتھر کو، جسے میں نے بڑی تلاش کے بعد سمندر کے کنارے سے حاصل کیا تھا، بہ طور لنگر کشتی میں رکھ لیا۔ کشتی کو گریس کرنے کے لیے مجھے تین سو بھینسوں کی چربی مہیا کی گئی۔ میں نے لمبے لمبے درخت کاٹ کر مستول تیار کیے۔ اس کام میں بادشاہ کے بڑھیوں اور کاریگروں نے بھی میری مدد کی۔ جنھوں نے اُنھیں تراش خراش کر مناسب و موزوں بنا دیا۔
ایک مہینہ گزرنے کے بعد جب میری روانگی کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئیں تو میں نے بادشاہ کو پیغام بھیج کر اس سے وہاں سے رُخصت ہونے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ اور شاہی خاندان اپنے محل سے باہر نکل آیا۔ میں بادشاہ کے ہاتھ کو بوسہ دینے زمین پر لیٹ گیا۔ میں نے اس کے، ملکہ کے اور ان کے بچوں کے ہاتھوں کو بوسے دیے۔ بادشاہ نے مجھے سپرگ (سونے کے سکے) سے بھرے ہوئے پچاس پرس دیے۔ ساتھ ہی اپنی پوری لمبائی کی تصویر بھی دی۔ جو میں نے فورا ہی اپنے دستانے میں ڈال لی تاکہ اُسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
میں نے اپنی کشتی میں ایک سو کٹی ہوئی بھینس اور تین سو کٹی ہوئی بھیڑیں رکھ لی تھیں۔ ساتھ ہی خاصی مقدار میں روٹی، پانی اور شرابیں بھی رکھ لی تھیں۔ ایک سو باورچیوں نے میرے لیے بڑی مقدار میں گوشت پکایا تھا۔ میں نے چھے زندہ گائیں، دو زندہ بھینسیں اور بہت سی زندہ بھیڑیں بھی اپنے ہمراہ لے لیں۔ میں اُنھیں اپنے وطن لے جاکر وہاں اُن کی افزائش نسل کرنا چاہتا تھا۔ دورانِ سفر اُنھیں کھلانے پلانے کے لیے میں نے بھوسی اور غلے کی بہت سی بوریاں بھی کشتی میں رکھ لیں۔ میں اپنے ہمراہ درجن بھر بونوں کو بھی لے جانا چاہتا تھا۔ مگر بادشاہ نے اس کی اجازت نہ دی۔ ہرچند کہ بہت سے بونے اپنی خوشی اور مرضی سے میرے ساتھ جانے کو تیار تھے بلکہ بادشاہ نے میری جیبوں اور سامان کی تلاشی بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے لی کہ کہیں میں خفیہ طور پر تو کسی بونے کو اپنے ساتھ نہیں لے چلا۔ یوں ہر طرح سے تیاریاں مکمل کرکے میں نے ستمبر 1701 ء کی چوبیس تاریخ کو صبح کے چھے بجے اپنی کشتی کے بادبان کھڑے کیے اور بلیفو سکو سے روانہ ہو گیا۔ جب میں شمالی جانب چار لیگ کا فاصلہ طے کر چکا تو ہوا چوں کہ جنوب مشرقی تھی۔ اس لیے میں نے اپنی کشتی کا رخ اسی سمت موڑ دیا اور شام کے چھے بجے کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے کے قریب جا پہنچا اور لنگر ڈال دیا ۔یہ جزیرہ غیر آباد تھا۔ وہاں پہنچ کر میں نے کھانا کھایا اور آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔ مجھے بڑی گہری نیند آئی۔ میں مسلسل چھے گھنٹے تک سوتا رہا۔ جب میری آنکھ کھلی تو دن کی روشنی پھیل چکی تھی۔ مگر سورج ابھی تک نہ نکلا تھا۔ میں نے ناشتہ کیا اور کشتی میں آ بیٹھا۔ ہوا موافق تھی۔ میں مسلسل کشتی کھیتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ پاکٹ کمپاس کی بدولت مجھے سمتیں معلوم کرنے میں سہولت تھی۔ میرا ارادہ تھا کہ میں جتنی جلد ممکن ہو سکے ان جزائر کے قریب پہنچ جاؤں جو وان ڈیمنز لینڈ کے شمال مشرق میں واقع تھے۔ وہ سارا دن یوں ہی سفر کرتے گزر گیا۔ اگلے دن تین بجے سہ پہر کے وقت جب میں اپنے اندازے کے مطابق بلیفوسکو سے چوبیس لیگ دور آچکا تھا، مجھے جنوب مشرق کی طرف ایک جہاز دکھائی دیا۔میرا رخ مشرق کی طرف تھا۔ میں نے اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے اپنا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔ ہوا نے بھی میری مدد کی۔ بالآخر آدھ گھنٹے بعد اس جہاز سے مجھے دیکھ لیا گیا اور اس اعلان کے طور پر اس پر ایک بندوق داغی گئی۔ میں اپنی اس بے پناہ مسرت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جو اپنے پیارے وطن واپس پہنچنے اور اپنے عزیزوں سے ملنے کی غیر متوقع امید نے میرے دل میں پیدا کر دی تھی۔ جہاز نے اپنی رفتار ہلکی کردی اور میں 27 ستمبر کی شام پانچ اور چھے بجے کے درمیان اس تک پہنچ گیا۔ میں نے اپنی بھیڑیں اور گائیں وغیرہ اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالیں اور مختصر سے سامان کے ساتھ جو ذخیرہ خوراک پر مشتمل تھا، اس پر سوار ہو گیا۔ یہ ایک برطانوی جہاز تھا۔ تجارتی جہاز، جو جاپان سے شمالی اور جنوبی سمندروں کی راہ سے برطانیہ واپس جارہا تھا۔ اس کا کپتان مسٹر جان بڈل تھا، جس کا تعلق ڈیپٹ فورڈ سے تھا۔ وہ ایک خوش اخلاق شخص اور بہترین ملاح تھا۔ ہم اب عرض بلد کی تیس ڈگری جنوب کی جانب تھے۔ جہاز پر کوئی پچاس کے لگ بھگ مسافر تھے۔ ان میں میرا پرانا دوست ولیم پیٹر بھی تھا جس نے مجھے کپتان سے متعارف کرایا۔ کپتان مجھ سے نہایت خوش اخلاقی سے پیش آیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے آرہا تھا اور کہاں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس پر میں نے مختصراً اپنے تمام حالات کہ سُنائے۔ مگر اُس نے میری باتوں کا یقین نہ کیا اور خیال کیا کہ شاید ان تکالیف اور مشکلات نے جو میں نے جھیلی تھیں میرے دماغ کو متاثر کر رکھا تھا۔ اس پر میں نے اپنی جیب سے وہ ننھی ننھی بھیڑیں اور گائیں ان کو نکال کر دکھائیں۔ وہ اس پر بے حد حیرت زدہ ہوا اور اسے میری داستان کا یقین آگیا۔ پھر میں نے اسے وہ سونا دکھایا جو بلیفو سکو کے بادشاہ نے مجھے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اسے اس بادشاہ کی بھر پور سراپے والی تصویر بھی دکھائی اور اس ملک کے کچھ نوادرات بھی دکھائے۔ میں نے اُسے دو سو سپر گوں والے دو پرس دیے اور اس سے وعدہ کیا کہ انگلستان پہنچ کر میں اسے ایک ایک گا بھن گائے اور بھیڑ ضرور تحفے کے طور پر دوں گا۔ 
یہ سفر میرے لیے ہر لحاظ سے اچھا اور خوش گوار گزرا۔ یہاں تک کہ 13 اپریل 1702ء کو ہم ڈاؤنز پہنچ گئے۔ دوران سفر مجھے ایک افسوس ناک حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ یہ تھا کہ چوہے میری ایک بھیڑ اُٹھالے گئے جس کی ہڈیاں مجھے ایک سوراخ میں سے ملیں۔ اس پر سے تمام گوشت نوچ لیا گیا تھا۔ میرے باقی مویشی زندہ سلامت رہے۔ میں اُنھیں لے گرین وچ پہنچ گیا جہاں کی ہری بھری گھاس نے انھیں جلد ہی صحت مند اور فربہ کردیا۔ دوران سفر مجھے ان کی خوراک کی طرف سے پریشانی لگی رہی تھی۔ بلیفو سکو سے لایا ہوا گھاس اور غلے کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا اور اُنھیں بسکٹوں کا چورا پانی میں ملا کر کھلایا جاتا رہا تھا۔ جب تک میں انگلستان میں رہا میں ان مویشیوں کی اہم اور بڑی لوگوں کے سامنے نمائش کرتا رہا جس سے میں نے خاصامنافع کمایا۔ پھر اپنا اگلا سفر شروع کرنے سے پہلے میں نے ان مویشیوں کو چھے سو پونڈ میں فروخت کر دیا۔ اس سفر سے جب واپس لوٹا میں نے دیکھا کہ ان بھیڑوں اور گایوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہو ا تھا۔ بھیڑوں کی اون بہترین اور عمدہ قسم کی تھی اور گرم کپڑے بنانے لیے بہترین تھی۔
میں صرف دو ماہ تک اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ٹھیرا رہا کیوں کہ میری نت نئے ممالک کی سیاحت کرنے کی خواہش، مجھے برابر ایک نئے سفر پر روانہ ہونے کے لیے اُکساتی رہتی تھی۔ میں نے اپنی بیوی کو ڈیڑھ ہزار پونڈ دیے اور اسے ریڈرف میں ایک اچھا سا مکان لے دیا۔
میرے بڑے چچا جان نے ایپنگ کے قریب میرے لیے خاصی بڑی جائداد چھوڑی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے فیئر لین میں بلیک بل کی زمین طویل عرصے کے لیے پٹے پر حاصل کرلی تھی۔ جس سے مجھے ایپنگ کی جائداد سے زیادہ آمدنی ہوتی تھی۔ ان حالات میں مجھے اپنے خاندان کے گزارے کے لیے کوئی پریشانی نہ رہ جاتی تھی۔ میرا بیٹا جانی جس کا نام میں نے چچا کے نام پر رکھا تھا، گرامر اسکول میں تعلیم پا رہا تھا اور بڑا لائق اور ہوشیار طالب علم تھا۔ میری بیٹی ( جو اب شادی شدہ اور بچوں والی ہے) اس وقت سلائی کا کام سیکھ رہی تھی۔ چناں چہ خاندانی حالات کی طرف سے مطمئن ہو کر میں نے ایک دن اپنے بیوی بچوں کو دونوں جانب آنسوؤں کی جھڑی کے درمیان خدا حافظ کہا اور ’’ایڈونچر‘‘ نامی جہاز میں سوار ہو گیا۔ یہ ایک تین سو ٹن وزنی تجارتی جہاز تھا۔ جو سورت جا رہا تھا۔ اس کا کپتان لیور پول کا باشندہ جان نکولس تھا۔ اپنے اس سفر کے حالات میں آئندہ بیان کروں گا۔
٭٭٭
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top